• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ترجمہ و تشریح سورت المائدہ. ۔

شمولیت
جولائی 18، 2017
پیغامات
130
ری ایکشن اسکور
27
پوائنٹ
40
بسم اللہ الرحمن الرحیم.
شروع کرتی ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے.
الحمدللہ سورة المائدہ کی ترجمہ تشریح
تعارف سورة.
سورة المائدہ. مدنی سورت.
رکوع. 16.
آیات. 120.
مستدرک حاکم میں ہے حضرت جبیر بن نفیر رح فرماتے ہیں کہ حج کے لئے گیا وہاں حضرت اماں عائشہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ رضی اللہ عنہ نے مجھ سے فرمایا تم سورت مائدہ پڑهتے ہو؟
میں نے کہا ہاں فرمایا : سنو سب سے آخری یہی سورت نازل ہوئی ہے اس میں جس چیز کو حلال پاو ، حلال ہی سمجھو اور جس اس میں جس چیز کو حرام پاو حرام ہی جانو.
مسند احمد میں بهی یہ روایت ہے ۔
اس میں یہ بھی ہے کہ پهر میں نے اماں محترمہ سے رسول اللہ ﷺ کے اخلاق کی نسبت سوال کیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کے اخلاق قرآن کا عملی نمونہ تهے -
یہ روایت نسائی شریف میں بھی ہے.
اے ایمان والو عہد و پیمان پورے کیا کرو، تمہارے لیے مویشی چوپائے حلال کئے جاتے ہیں بجز ان کے جن کے نام پڑهہ سنا دئیے جائیں گے مگر حالت احرام میں شکار کو حلال جاننے والے نہ بننا، یقیناً اللہ جو چاہے حکم کرتا ہے○ ( سورة المائدہ)(آیت نمبر 1)
ایمان والو اللہ تعالٰی کے نشانوں کی بے حرمتی نہ کرو نہ حرمت والے مہینوں کی نہ حرم میں قربان ہونے والے جانوروں کی اور نہ پٹے والے جانوروں کی جو کعبہ کو جا رہے ہوں اور نہ ان لوگوں کی جو بیت اللہ کے قصد سے اپنے رب کے فضل اور اس کی رضا جوئی کی نیت سے جا رہے ہوں ہاں جب تم احرام اتار لو تو شکار کھیل سکتے ہو، جن لوگوں نے تمہیں مسجد حرام سے روکا، ان کی دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کر دے کہ تم حد سے نکل جاؤ، نیکی اور پرہیز گاری میں ایک دوسرے کی امداد کرتے رہو، گناہ اور ظلم و زیادتی میں مدد نہ کرو اللہ سے ڈرتے رہا کرو، بے شک اللہ تعالیٰ سخت سزا دینے والا ہے ○ ( سورة المائدہ)(آیت نمبر 2).
تشریح و تفسیر_______!!
ایفائے عہد کی تلقین_______!!
حضرت زہری رح فرماتے ہیں جہاں کہیں اللہ تعالٰی نے اپنے ایمان والوں کو کوئی حکم دیا ہے کہ اس حکم میں رسول اللہ ﷺ بهی شامل ہیں-"
حضرت خیمثہ رح فرماتے ہیں کہ تورات میں بجائے ((یا ایهاالذین آ منوا)) کے ((یا ایهاالمساکین)) ہے ۔
ایک اور روایت میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کے نام سے بیان کی جاتی ہے کہ جہاں کہیں لفظ ((یا ایهاالذین آ منوا)) ہے ان تمام مواقع پر سب ایمان والوں کے سردار شریف اور امیر علی رضی اللہ عنہ ہیں، اصحاب رسول اللہ ﷺ میں سے ہر ایک کو ڈانٹا گیا ہے بجز حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے انہیں کسی امر میں نہیں ڈانٹا گیا، یاد رہے کہ اثر بالکل بے دلیل ہے اس کے الفاظ منکر ہیں اور اس کی سند بهی صحیح نہیں-
حضرت امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس کا راوی عیسیٰ بن راشد مجہول ہے، اس کی روایت منکر ہے ۔
ہم کہتے ہیں کہ دوسرا راوی علی بن بذیمہ گو ثقہ ہے مگر اعلی درجے کا شعیہ ہے ۔
پھر بهلا اس کی ایسی روایات جو اس کے اپنے خاص خیالات کی تائید میں ہو کیسے قبول کی جا سکے گی؟
یقیناً وہ اس میں ناقابل قبول ٹهہرے گا، اس روایت میں کہا گیا ہے کہ کہ تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بجز حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ڈانٹا گیا ، اس سے مراد ان کی وہ آیت ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سرگوشی کرنے سے پہلے صدقہ نکالنے کا حکم دیا تھا، پس ایک سے زیادہ مفسرین نے کہا ہے کہ اس پر عمل صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کیا اور پھر یہ فرمان اترا کہ ((ءاشفقتم ان تقدموا))الخ لیکن یہ غلط ہے کہ اس آیت میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو ڈانٹا گیا، بلکہ دراصل یہ حکم بطور واجب کے تها ہی نہیں، اختیاری امر تھا -
پھر اس پر عمل ہونے سے پہلے ہی اللہ تعالٰی نے اسے منسوخ کر دیا -
پس حقیقتاً کسی سے اس کے خلاف عمل سر ذد ہی نہیں ہوا-
پھر یہ بات بھی غلط ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کسی بات میں نہیں ڈانٹا گیا -
سورة انفال کی آیت ملاحظہ ہو جس میں ان تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو ڈانٹا گیا ہے جنہوں نے بدری قیدیوں سے فدیہ لے کر انہیں چهوڑ دینے کا مشورہ دیا تھا، دراصل سوائے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے باقی تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا مشورہ یہی تھا پس یہ ڈانٹ بجز حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے باقی تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو ہے، جن میں حضرت علی رضی اللہ عنہ بهی شامل ہیں، پس یہ تمام باتیں اس امر کی کھلی دلیل ہیں کہ یہ اثر بالکل ضعیف اور بودا ہے واللہ اعلم -
ابن جریر طبری میں حضرت محمد بن مسلم رح فرماتے ہیں جو کتاب رسول اللہ ﷺ نے حضرت عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ کو لکهوا کر دی تھی جبکہ انہیں نجران بهیجا تها - اس کتاب کو میں نے ابو بکر بن حزم کے پاس دیکھا تھا اور اسے پڑها تھا ، اس میں اللہ
 
شمولیت
جولائی 18، 2017
پیغامات
130
ری ایکشن اسکور
27
پوائنٹ
40
رضی اللہ عنہ کو لکھ کر دی تهی جبکہ انہیں یمن والوں کو دینی سمجھ اور حدیث سکھانے کے لئے اور ان سے زکوٰۃ وصول کرنے کے لیے یمن بهیجا تها، اس وقت یہ کتاب لکھ کر دی تھی اس میں عہد و پیمان اور حکم احکام کا بیان ہے.
اس میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کے بعد لکھا ہے کہ یہ کتاب ہے اللہ اور اس کے رسولﷺ کی طرف سے، ایمان والو وعدوں کو اور عہد و پیمان کو پورا کرو، یہ محمد رسول اللہ ﷺ کی طرف سے عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ کے لیے ہے جبکہ انہیں یمن بهیجا انہیں اپنے تمام کاموں میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنے کا حکم ہے یقیناً اللہ تعالٰی ان کے ساتھ ہے جو اس سے ڈرتے رہیں اور جو احسان خلوص اور نیکی کریں. ○حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ وغیرہ فرماتے ہیں"عقود سے مراد عہد ہے"-
ابن جریر اس پر اجماع بتاتے ہیں-
خواہ قسمیہ عہد و پیمان ہو یا اور وعدے ہوں، سب کو پورا کرنا فرض ہے-
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے یہ بھی مروی ہے کہ عہد کو پورا کرنے میں اللہ کے حلال کو حلال جاننا، اس کے حرام کو حرام جاننا، اس کے فرائض کی پابندی کرنا، اس کی حد بندی کی نگہداشت کرنا بهی ہے، کسی بات کا
حوالہ جات (سورت المجادلہ آیت 13)
تفسیر ابن جریر طبری 10918)
( حسن:دلائل النبوۃ للبهقی))
خلاف نہ کرو، کسی حد کو نہ توڑو، کسی حرام کام کو نہ کرو، اس پر سختی بہت ہے-
آیت ((و الذین ینقضون عہد اللہ)) سے ((سوءالدار))تک-"
( سورة الرعد 25)
حضرت ضحاک رح فرماتے ہیں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ کے حلال کو حلال اور اس کے حرام کو حرام اس کے وعدوں کو، جو ایمان کے بعد ہر مومن کے ذمہ آ جاتے ہیں پورا کرنا اللہ کی طرف سے فرض ہے، فرائض کی پابندی، حلال و حرام کی عقیدت مندی وغیرہ.
حضرت زید بن اسلم رح فرماتے ہیں" یہ چهہ عہد ہیں، اللہ کا عہد، آپس کی یگانگت کا قسمیہ عہد، شرکت کا عہد، تجارت کا عہد، نکاح کا عہد، اور قسمیہ وغیرہ"-
محمد بن کعب رح کہتے ہیں پانچ ہیں جن میں جاہلیت کے زمانہ کی قسمیں ہیں اور شرکت تجارت کے عہد و پیمان ہیں، جو لوگ کہتے ہیں کہ خرید و فروخت پوری ہو چکنے کے بعد بعد گو اب تک خریدار اور بیچنے والے ایک دوسرے سے جدا نہ ہوئے ہوں تاہم واپس لوٹانے کا اختیار نہیں وہ اپنی دلیل اس آیت کو بتلاتے ہیں، امام ابو حنیفہ اور امام مالک رحمہ اللہ کا یہی مزہب ہے ۔ لیکن امام شافعی اور امام احمد رحمہ اللہ علیھم اجمعین اس کے خلاف ہیں اور جمہور علماء کرام بهی اس کے مخالف ہیں اور دلیل میں وہ حدیث پیش کرتے ہیں جو صحیح بخاری و مسلم میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : خرید و فروخت کرنے والوں کو سودے کے واپس لینے دینے کا اختیار ہے جب تک کہ جدا جدا نہ ہو جائیں. ○
صحيح بخارى شریف کی ایک روایت ہے کہ جب دو شخصوں نے خرید و فروخت کر لی تو ان میں سے ہر ایک کو دوسرے سے علیحدہ ہونے تک اختیار باقی ہے○-
یہ حدیث صاف اور صریح ہے کہ یہ اختیار خرید و فروخت پورے ہو چکنے کے بعد کا ہے-
ہاں اسے بیع کے لازم ہو جانے کے خلاف نہ سمجھا جائے بلکہ یہ شرعی طور پر اسی کا متقاضی ہے، پس اسے نباہنا بهی اسی آیت کے ماتحت ضروری ہے، پھر فرماتا ہے مویشی چوپائے تمہارے لیے حلال کئے گئے ہیں یعنی اونٹ گائے بکری-
ابو الحسن قتادہ رح وغیرہ کا قول یہی ہے.
ابن جریر رح فرماتے ہیں عرب میں ان کے لغت کے مطابق بهی یہی ہے" حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ وغیرہ بہت سے بزرگوں نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ جس حلال مادہ کو ذبح کیا جائے اور اس کے پیٹ میں سے بچہ نکلے گو وہ مردہ ہو پهر بهی حلال ہے-
ابو داؤد ترمذی اور ابن ماجہ میں ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا کہ اونٹنی، گائے، بکری ذبح کی جاتی ہے، ان کے پیٹ سے بچہ نکلتا ہے تو ہم اسے کها لیں یا پهینک دیں-
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا" اگر چاہو تو کها لو، اس کا ذبیحہ اس کی ماں کا ذبیحہ ہے"-
حوالہ جات.
سورت الرعد.
صحيح بخارى کتاب البیوع، صحیح مسلم کتاب البیوع باب ثبوت خیار المجلس.
صحيح بخارى کتاب البیوع باب البیعان بالخیار.
صحيح ابو داؤد کتاب الضحایا باب ما جاء فی ذکاتہ الجنین._________!!
و ما توفیقی الا بااللہ________!!
عہد و پیمان اور حلال و حرام کے بقیہ احکامات ان شاءالله کل.
جاری ہے.
 
شمولیت
جولائی 18، 2017
پیغامات
130
ری ایکشن اسکور
27
پوائنٹ
40
سورۃ المائدہ. آیات نمبر ایک اور دو کی
ترجمہ تشریح بقیہ حصہ.
ایفائے عہد_____!!
ابو داؤد میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں" پیٹ کے اندر والے بچے کا ذبیحہ اس کی ماں کا ذبیحہ ہے " -
پھر فرماتا ہے مگر جن کا بیان تمہارے سامنے کیا جائے گا_
ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اس سے مردار، خون اور خنزیر کا گوشت ہے -"
حضرت قتادہ رح فرماتے ہیں" مراد اس سے از خود مرا ہوا جانور اور وہ جانور ہے جس کے ذبیحہ پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو" پورا علم تو اللہ تعالیٰ کو ہی ہے لیکن بہ ظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد اللہ کا فرمان ((حرمت علیکم المیتتہ))الخ ہے یعنی تم پر مردار اور خون اور خنزیر کا گوشت اور ہر وہ چیز جو اللہ کے سوا دوسرے کے نام پر منسوب و مشہور کی جائے اور جو گلا گهونٹنے سے مر جائے، اور جو کسی ضرب سے مر جائے، اونچی جگہ سے گر کر مر جائے اور کسی ٹکڑ لگنے سے مر جائے، جسے درندہ کهانے لگے پس یہ بھی گو مویشیوں چوپایوں میں سے ہیں لیکن ان وجوہ سے وہ حرام ہو جاتے ہیں اسی لیے اس کے بعد فرمایا لیکن جس کو ذبح کر ڈالو-
جو جانور تهانوں (پرشتس گاہوں ) پر ذبح کیا جائے، وہ بھی حرام ہے اور ایسا حرام کہ اس میں سے کوئی چیز حلال نہیں، اسی لیے اس سے استدراک نہیں کیا گیا اور حلال کے ساتھ اس کا کوئی فرد ملایا نہیں گیا، پس یہی فرمایا جا رہا ہے کہ چوپائے مویشی تم پر حلال ہیں لیکن وہ جن کا ذکر ابهی آئے گا-
جو بعض احوال میں حرام ہیں، اس کے بعد کا جملہ حالیت کی بنا پر منصوب ہے ۔
مراد انعام سے عام ہے بعض تو وہ جو انسانوں میں رہتے پلتے ہیں (پالتو)، جیسے اونٹ، گائے، بکری اور بعض وہ جنگلی ہیں جیسے ہرن، نیل گائے اور جنگلی گدھے-
پس پالتو جانوروں میں بعض سے تو ان کو مخصوص کر لیا جو بیان ہوئے اور وحشی جانوروں میں سے احرام کی حالت میں کسی کو بھی شکار کرنا ممنوع قرار دیا، یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے" ہم نے تمہارے لیے چوپائے جانور ہر حال میں حلال کئے ہیں پس تم احرام کی حالت میں شکار کھیلنے سے رک جاؤ اور اسے حرام جانو"
کیونکہ اللہ تعالیٰ کا یہی حکم ہے، اللہ وہ حکم فرماتا ہے جو ارادہ فرماتا ہے-
ایمان والو!
رب کی نشانیوں کی توہین نہ کرو، یعنی مناسک حج صفا و مروہ، قربانی کے جانور، اونٹ اور اللہ کی حرام کردہ ہر چیز، حرمت والے مہینوں سمیت کسی کی توہین نہ کرو، ان کا ادب کرو، ان کا لحاظ رکھو، ان کی عظمت کو مانو اور ان میں خصوصیت کے ساتھ اللہ کی نافرمانیوں سے بچو-
اور ان مبارک اور محترم مہینوں میں اپنے دشمنوں سے از خود لڑائی نہ کرو-
جیسے ارشاد ہے ((یسئلونک عن الشهر الحرام)) الخ.
اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوگ تم سے حرمت والے مہینوں میں جنگ کرنے کا حکم پوچھتے ہیں تم ان سے کہو کہ ان میں لڑائی کرنا بڑا گناہ ہے-
اور آیت میں ہے مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک بارہ ہے ۔ الخ
صحیح بخاری شریف میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حجتہ الوداع میں فرمایا" زمانہ گھوم گھام کر ٹھیک اسی طرز پر آ گیا ہے جس پر وہ اس وقت تها، جس دن اللہ تعالیٰ نے آسمان اور زمین پیدا کو پیدا کیا تھا -
سال بارہ مہینے کا ہے، جن میں سے چار حرمت والے ہیں-
تین یکے بعد دیگرے ذوالقعدہ، ذوالحجہ، اور محرم اور چوتھا رجب، جسے قبیلے مضر رجب کہتا ہے جو جمادی الثانی اور شعبان کے درمیان ہے.
حوالہ جات.
صحيح بخارى:(صحیح ابو داؤد)
( سورۂ البقرہ) تفسیر ابن کثیر صفحہ نمبر 329.)
( صحیح بخاری کتاب بدءالخلق.
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان مہینوں کی حرمت تا قیامت ہے جیسے کہ سلف کی ایک جماعت کا مزہب ہے آیت کی تفسیر میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ وغیرہ سے یہ مروی ہے کہ ان" مہینوں میں لڑائی کرنا حلال نہ کر لیا کرو"-
جمہور کا کہنا ہے کہ یہ حکم منسوخ ہے اور حرمت والے مہینوں میں بهی دشمنان اسلام سے جہاد کی ابتدا بھی جائز ہے-
اور ان کی دلیل اللہ تعالٰی کا یہ فرمان ہے ((فاذا انسلخ الاشهر الحرم فاقتلوا المشرکین حیث وجدتموهم))سورة التوبہ آیت نمبر 5)
یعنی جب حرمت والے مہینے گزر جائیں تو مشرکین کو قتل کرو جہاں پاو-
اور مراد یہاں ان چار جانوروں کا گزر جانا ہے، جب چار مہینے گزر چکے جو اس وقت تهے، تو اب ان کے بعد برابر جہاد جاری ہے اور قرآن نے پهر کوئی مہینہ خاص نہیں کیا، بلکہ امام ابو جعفر تو اس پر اجماع نقل کرتے ہیں کہ" اللہ تعالٰی نے مشرکین سے جہاد کرنا، ہر وقت اور ہر مہینے میں جاری ہی رکها ہے" آپ فرماتے ہیں کہ اس پر بھی اجماع ہے کہ" اگر کوئی کافر حرم کے تمام درختوں کی چھال اپنے اوپر لپیٹ لے تب بھی اس کے لیے امن و امان نہ سمجھی جائے گی -
اگر مسلمان نے از خود اس سے پہلے اسے امن نہ دیا ہو-"
طویل بحث ہے یہاں بیان کرنا ممکن نہیں.
پھر فرمایا کہ ((هدی))اور ((قلائد))کی بے حرمتی بهی مت کرو-
یعنی بیت اللہ کی طرف
 
شمولیت
جولائی 18، 2017
پیغامات
130
ری ایکشن اسکور
27
پوائنٹ
40
)اور ((قلائد))کی بے حرمتی بهی مت کرو-
یعنی بیت اللہ کی طرف قربانیاں بھیجنا بند نہ کرو، کیونکہ اس میں اللہ کے نشانوں کی تعظیم ہے اور قربانی کے لیے جو اونٹ بیت اللہ کی طرف بهیجو ، ان کے گلے میں بطور نشان پٹا ڈالنے سے بھی نہ روکو-
تا کہ اس نشان سے ہر کوئی پہنچان لے کہ یہ جانور اللہ کے لیے اللہ کی راہ میں وقف ہو چکا ہے اب اسے کوئی برائی ہاتھ نہ لگائے بلکہ اسے دیکھ کر دوسروں کو بھی شوق پیدا ہو گا اور ہم بھی اس طرح اللہ کے نام پر جانور بھیجیں، اور اس صورت میں تمہیں اس نیکی پر بھی اجر ملے گا کیونکہ جو شخص دوسروں کو ہدایت کی طرف بلائے اسے بھی وہ اجر ملے گا، جو شخص اس کی بات مان کر اس پر عمل کرنے والوں کو ملتا ہے-
یہ بهی خیال رہے اللہ تعالٰی ان کے اجر کو کم کر کے اسے نہیں دے گا بلکہ اسے اپنے پاس عطا فرمائے گا-
رسول اللہ ﷺ جب حج کے لئے نکلے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وادی عقیق یعنی ذوالحلیفہ میں رات گزاری، صبح اپنی نو بیویوں کے پاس گئے، پھر غسل کر کے خوشبو ملی اور دو رکعت نماز ادا کی اور قربانی کے جانور کے کوہان پر نشان کیا اور گلے میں پٹہ ڈالا اور حج اور عمرے کا احرام باندھا-
قربانی کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت خوش رنگ مضبوط اور نوجوان اونٹ ساٹھ سے اوپر اوپر اپنے ساتھ لئے تهے، جیسے کہ قربانی کا فرمان ہے کہ جو شخص اللہ کے احکام کی تعظیم کرے اس کا دل تقویٰ والا ہے-
بعض سلف کا فرمان ہے کہ" تعظیم یہ بھی ہے کہ قربانی کے جانوروں کو اچھی طرح رکها جائے اور انہیں خوب کهلایا جائے اور مضبوط موٹا کیا جائے-"
حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہمیں رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ ہم قربانی کے جانوروں کی آنکهیں اور کان دیکهہ بهال کر خریدیں (رواه اہل السنن)) ((صحیح ابو داؤد کتاب الضحایا)
مقاتل بن حیان رح فرماتے ہیں " جاہلیت کے زمانے میں جب یہ لوگ اپنے وطن سے نکلتے تھے اور حرمت والے مہینے نہیں ہوتے تهے تو یہ اپنے اوپر بالوں اور اون کو لپیٹ لیتے تھے اور حرم میں رہنے والے لوگ حرم کے درختوں کی چها لیں اپنے جسم پر باندھ لیتے تھے - اس سے عام لوگ انہیں امن دیتے تھے اور ان کو مارتے پیٹتے نہ تهے -"
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بروایت حضرت مجاہد رح مروی ہے کہ اس سورت کی دو آیات منسوخ ہیں-"
آیت قلائد اور یہ آیت ((فان جاؤک فاحکم بینهم آو آ عرض عنهم (سورۂ المائدہ))
لیکن حضرت حسن رح سے جب سوال ہوتا ہے کہ کیا اس سورت میں کوئی آیت منسوخ ہوئی ہے؟ تو آپ فرماتے ہیں" نہیں"-
حضرت قتادہ رح فرماتے ہیں کہ وہ لوگ حرم کے درختوں کی چهالیں لٹکا لیا کرتے تھے اور اس سے انہیں امن ملتا تھا، پس اللہ تعالٰی نے حرم کے درختوں کو کاٹنا منع فرما دیا-"
پھر فرماتا ہے جو لوگ بیت اللہ کے ارادے سے نکلے ہوں، ان سے لڑائی مت کرو.
یہاں جو آئے وہ امن میں پہنچ گیا، پس جو اس کے قصد سے چلا ہے اس کی نیت اللہ کے فضل کی تلاش اور اس کی رضا مندی کی طلب ہے تو اب اسے ڈر خوف کے دباؤ میں نہ رکھو، اس کی عزت اور ادب کرو اور اسے بیت اللہ سے نہ روکو-"
بعض اللہ کے فضل سے مراد تجارت کو لیتے ہیں-"
جیسے اس آیت میں ہے ((لیس علیکم جناح ان تبتغوا فضلا من ربکم (سورۂ البقرہ 198)
یعنی زمانہ حج میں تجارت کرنا حرام نہیں ہے اس میں گناہ نہیں ۔ "
رضوان سے مراد حج کرنے میں اللہ کی مرضی کو تلاش کرنا ہے. ابن جریر کہتے ہیں کہ یہ آیت خطم بن ہند بکری کے بارے میں نازل ہوئی ہے، اس شخص نے مدینہ کی چراگاہ پر دھاوا ڈال دیا تھا -
پھر آگلے سال یہ عمرے کے ارادے سے آ رہا تھا تو بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا ارادہ ہوا کہ اسے اسے راستے میں روکیں، اس پر یہ فرمان نازل ہوا-"
امام ابن جریر رح نے اس پر اجماع نقل کیا ہے کہ جو مشرک مسلمانوں کے کی امان لئے ہوئے نہ ہو تو چاہے کہ وہ بیت اللہ شریف کے ارادے سے جا رہا ہو یا بیت المقدس کے ارادے سے اسے قتل کرنا جائز ہے -
یہ حکم ان کے حق میں منسوخ ہے ۔ واللہ اعلم -
ہاں جو شخص وہاں الحاد پھیلانے کے لیے جا رہا ہو اور شرک و کفر کے ارادے کا قصد ہو تو اسے روکا جائے گا-
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں پہلے مومن و مشرک سب حج کرتے تھے اور اللہ تعالٰی کی ممانعت تهی کہ کسی کافر مومن کو نہ روکو لیکن اس کے بعد یہ آیت اتری کہ ((انما المشرکین نجس فلا یقربوا المسجد الحرام بعد عامهم هذا (سورۂ التوبہ 28)
یعنی مشرکین سرا سر نجس ہیں اور وہ اس سال کے بعد مسجد حرم کے پاس بهی نہ آئیں-
اور فرمان ہے((ما کان للمشرکین ان یعمروا مساجد اللہ (سورة التوبہ)
یعنی مشرکین اللہ کی مسجدوں کو آباد رکهنے کے ہرگز اہل نہیں ۔
فرمانِ الٰہی ((انما یعمر مساجد اللہ من آمن باللہ والیوم الآخر (سورت التوبہ) یعنی مسجدوں کو تو صرف وہی آباد رکهہ سکتے ہیں جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہوں-
پس مشرکین مسجدوں سے روک دئیے
 
شمولیت
جولائی 18، 2017
پیغامات
130
ری ایکشن اسکور
27
پوائنٹ
40
((ولا القلائد ولا امین البیت الحرام ہے، جاہلیت کے زمانے جب کوئی شخص اپنے گھر سے حج کے ارادے سے نکلتا تو وہ درخت کی چھال وغیرہ باندھ لیتا تو راستے میں اسے کوئی نہ ستاتا، پھر لوٹتے وقت بالوں کا ہار ڈالتا اور محفوظ رہتا اس وقت تک مشرکین بیت اللہ سے نہیں روکے گئے تھے، اب مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ وہ حرمت والے مہینوں میں نہ لڑیں اور نہ بیت اللہ کے پاس لڑیں، پھر اس حکم کو اس آیت نے منسوخ کر دیا کہ مشرکین سے لڑو جہاں کہیں انہیں پاو-"
ابن جریر بهی قلائد سے مراد یہی لیتے ہیں جو ہار وہ حرم میں گلے میں ڈال لیتے تھے اور اس کی وجہ سے امن میں رہتے تھے، عرب میں اس کی تعظیم برابر چلی آ رہی تھی اور جو اس کے خلاف کرتا تھا اسے بہت برا کہا جاتا تھا اور شاعر اس کے ہجو کرتے تھے پھر فرماتا ہے جب تم احرام کهول دو تو شکار کر سکتے ہو-"
احرام میں شکار کی ممانعت تهی اب احرام کے بعد پھر اس کی اباحت ہو گئ جو حکم ممانعت کے بعد ہو اس حکم سے وہی ثابت ہوتا ہے جو ممانعت سے پہلے اصل میں تها - یعنی اگر وجوب اصلی تها تو ممانعت کے بعد کا امر وجوب کے لیے ہو گا -
اور اسی طرح مستحب و مباح کے بارے میں-
گو بعض کہتے ہیں کہ ایسا امر وجوب کے لیے ہی ہوتا ہے اور بعض کہتے ہیں صرف مباح ہونے کے لئے ہوتا ہے لیکن دونوں جماعتوں کے خلاف قرآن کی آیات موجود ہیں پس صحیح وہ ہے جس سے تمام دلیلیں مل جائیں جو ہم نے ذکر کیا اور بعض علماء اصول نے بهی اسے اختیار کیا ہے واللہ اعلم -
شنان کے معنی بغض کے ہیں بعض عرب شنان ن ساکن بهی کہتے ہیں لیکن کسی قاری کی یہ قرآت مروی نہیں ہے - ہاں عربی شعروں میں شنان بهی آیا ہے.
پھر اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کو نیکی کے کاموں پر ایک دوسرے کا ساتھ دینے کو فرماتا ہے، بر کہتے ہیں نیکیاں کرنے تقویٰ کہتے ہیں برائیوں کو چھوڑنے کو-
اور انہیں منع فرماتا ہے گناہوں اور حرام کاموں پر کسی کی مدد کرنے کو ابن جریر فرماتے ہیں جس کام کے کرنے کا اللہ حکم کرے انسان وہ نہ کرے یہ اثم ہے اور دین میں جو حدیں اللہ نے مقرر کر دی ہیں جو فرائض اپنی جان یا دوسروں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمائے ہیں ان سے آگے نکل جانے کو عدوان کہتے ہیں-"
مسند احمد (99/3) و صحیح بخاری کتاب الا کراہ))
میں ہے اپنے بهائی کی مدد کر، خواہ وہ ظالم ہو خواہ مظلوم ہو"
تو رسول اللہ ﷺ سے سوال ہوا کہ یا رسول اللہ ﷺ مظلوم ہونے کی صورت میں مدد کرنا ٹھیک ہے لیکن ظالم ہونے کی صورت میں کیسے مدد کریں؟ " رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اسے ظلم نہ کرنے دو، ظلم سے روک لو، یہی اس وقت اس کی مدد ہے ۔ یہی حدیث بخاری و مسلم میں بهی ہے.
مسند احمد میں ہے جو مسلمان لوگوں سے ملے جلے اور ان کی ایذاوں پر صبر کرے وہ اس مسلمان سے برے اجر والا ہے، جو نہ لوگوں سے ملے جلے، نہ ان کی ایذاوں پر صبر کرے.
مسند بزاز میں ہے ((الدال علی الخیر کفاعله))یعنی جو شخص کسی بهلی بات کی دوسروں کو ہدایت کرے وہ اس بھلائی کے کرنے والے جیسا ہی ہے-"
امام ابو بکر رح بزاز اسے بیان فرما کر فرماتے ہیں کہ یہ حدیث صرف اسی سند سے مروی ہے - "
لیکن میں کہتا ہوں اس کی شاہد یہ صحیح حدیث ہے کہ جو شخص ہدایت کی طرف لوگوں کو بلائے اسے ان تمام کے برابر ثواب ملے گا جو قیامت تک آئیں گے اور اس کی تابعداری کریں گے ۔
لیکن ان کے ثواب میں سے گھٹا کر نہیں اور جو شخص کسی کو برائی کی طرف چلائے گا تو قیامت تک جتنے اس برائی کو کریں گے ۔ ان سب کا جتنا گناہ وہ سارا اس اکیلے کو ہو گا لیکن ان کے گناہ گھٹا کر نہیں.

استغفراللہ.
و ما توفیقی الا بااللہ___
 
شمولیت
جولائی 18، 2017
پیغامات
130
ری ایکشن اسکور
27
پوائنٹ
40
تم پر مردار حرام کیا گیا اور خنزیر کا گوشت اور جو اللہ کے سوا دوسرے کے نام پر مشہور کیا گیا ہو اور جو گلا گهٹنے سے مرا ہو اور جو کسی ضرب لگنے سے مرا ہو اور جو بلندی سے گر کر مرا ہو اور جو کسی ٹکڑ/ سنگ مارنے سے مرا ہو اور جسے درندوں نے پھاڑ کهایا ہو لیکن اگر اسے تم ذبح کر ڈالو تو حرام نہیں ، اور جو تهانوں پر چڑھایا گیا ہو تم پر حرام کیا جاتا ہے قرعہ کے تیروں کے ذریعے تقسیم کرنا، یہ سب سے بد ترین گناہ ہیں، آج کفار تمہارے دین سے مایوس ہو گئے خبر دار تم ان سے نہ ڈرنا اور مجھ سے ڈرتے رہا کرنا، آج میں نے تمہارے لیے دین کو مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمتیں پوری کر دیں اور تمہارے لیے اسلام کے دین ہونے پر میں رضا مند ہو گیا، پس جو شخص بھوک کی شدت سے مجبور ہو جائے بشرطیکہ کسی گناہ کی طرف جھکنے والا نہ ہو تو یقیناً اللہ معاف کرنے والا اور بہت مہربان ہے○ ( سورة المائدہ ) ( آیت نمبر 3)
تشریح و تفسیر_______!!!
حلال و حرام کا بیان:____!!
ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ ان کے بارے میں فرما رہا ہے جن کا کهانا اس نے حرام کیا ہے، یہ خبر ان چیزوں کے نہ کهانے کے حکم میں شامل ہے-
میته.
وہ ہے جو از خود اپنے آپ ہی مر جائے، نہ اسے ذبح کیا جائے، نہ شکار کیا جائے-
اس کا کهانا اس لیے حرام ہوا کہ اس کا وہ نقصان دہ خون ہے اسی کے اندر رہ جاتا ہے، ذبح کرنے سے تو بہہ جاتا ہے اور یہ خون دین اور جسم کے لیے نقصان دہ ہے، ہاں مگر یاد رکھیں کہ ہر مردار حرام ہے سوائے مچھلی کے وہ حرام نہیں-
کیونکہ موطا مالک، مسند شافعی، احمد مسند، ابوداؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، صحیح ابن حبان، صحیح ابن خزیمہ میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے سمندر کے پانی کا مسئلہ پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اس کا پانی پاک ہے اور اس کا مردار حلال ہے اور اسی طرح ٹڈی (سمندری) بهی چاہے خود ہی مر گئ ہو، حلال ہے اس کی دلیل میں حدیث آ ئے گی.
دم.
سے مراد مسفوح دم یعنی وہ خون جو ذبح کرتے ہوئے نکلتا ہے-○(حوالہ جات:صحیح:ابو داؤد کتاب الطہارة. نسائی کتاب المیاہ.ابن ماجہ کتاب الطہارة باب الوضوء بماء البحر. ترمذی کتاب الطہارة باب ما جاء فی ماء البحرانه طهور.موطا 50/1. مسند احمد ج . بخاری فی التاریخ الکبیر شیخ البانی نے اسے صحيح کہا ہے'(السلسلة الصحيحة))
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے سوال کیا گیا کہ تلی کها سکتے ہیں؟ آپ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جی ہاں، لوگوں نے کہا وہ تو خون ہے، آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہاں صرف وہ خون حرام ہے جو ذبح کرتے وقت بہتا ہے-
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ بهی یہی فرماتی ہیں کہ صرف بہتا ہوا خون حرام ہے-
امام شافعی رحمہ اللہ حدیث لائے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہمارے لیے دو قسم کے مردار اور دو قسم کے خون حلال کئے گئے ہیں، مچھلی، ٹڈی، کلیجی اور تلی (صحیح مسند احمد )
یہ حدیث مسند احمد، ابن ماجہ، دار قطنی اور بہقی میں بهی عبدالرحمن بن زید اسلم سے مروی ہے اور یہ ضعیف اور.
حافظ بیہقی رح فرماتے ہیں " عبدالرحمن کے ساتھ اسے اسمٰعیل بن ادریس اور عبداللہ بهی روایت کرتے ہیں یہ دونوں ضعیف ہیں ہاں ان کے ضعف میں کمی بیشی ہے-"
سلمان بن بلال رح نے بھی اس حدیث کو روایت کیا ہے اور وہ بھی ثقہ ہیں لیکن اس روایت کو بعض نے ابن عمر رضی اللہ عنہ پر موقوف رکها ہے-
حافظ ابو زرعہ رازی رح فرماتے ہیں زیادہ صحیح اس کا موقف ہونا ہی ہے-
ابن حاتم میں حضرت صدی بن عجلان سے مروی ہے کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے اپنی قوم کی طرف بهیجا کہ میں انہیں اللہ کی طرف بلاوں اور احکام اسلام ان کے سامنے پیش کروں-
میں وہاں پہنچ کر اپنے کام میں مشغول ہو گیا، اتفاقاً ایک روز وہ ایک پیالہ خون کا بهر کر لائے اور میرے سامنے آ بیٹھے اور حلقہ باندھ کر کهانے کے ارادے سے بیٹھے اور مجھ سے کہنے لگے آو سدی تم بهی کها لو میں نے کہا-تم غضب کر رہے ہو میں تو ان کے پاس سے آ رہا ہوں جو اس کا کهانا حرام کرتے ہیں، تب وہ سب کے سب میری طرف متوجہ ہو گئے اور کہا کہ پوری بات کہو میں نے یہی آیت ((حرمت علیکم المیتتہ والدم))الخ پڑھ کر سنا دی.
یہ حدیث ابن مردویہ میں بهی ہے
جس میں ان کے خواب میں کہلائے پلائے جانے کے بارے میں ہے پهر جب انہوں نے اسے کهانے کے لیے دیا تو انہوں نے کہا مجھے میرے اللہ نے کهلا پلا دیا ہے. منقول.
یہ کہہ کر میں نے انہیں اپنا بھرا ہوا پیٹ دکھایا، اس کرامت کو دیکھ کر وہ سب کے سب مسلمان ہو گئے -
اعشی نے اپنے قصیدے میں کیا ہی خوب کہا ہے کہ مردار کے قریب بهی نہ ہو اور کسی جانور کی رگ کاٹ کر خون نکال کر نہ پی اور پرستش گاہوں پر چڑھایا ہوا نہ کهاو اور اللہ کے سوا دوسرے کی عبادت نہ کر صرف اللہ ہی عبادت کی عبادت کر ((و لحم الخنزیر)) حرام ہے خواہ وہ جنگلی ہو یا پالتو ہو
لفظ لحم شامل ہے اس کے تمام
 
شمولیت
جولائی 18، 2017
پیغامات
130
ری ایکشن اسکور
27
پوائنٹ
40
لفظ لحم شامل ہے اس کے تمام اجزاء کو جس میں چربی بهی داخل ہے پس ظاہریہ کی طرح تکلفات کرنے کی کوئی حاجت نہیں کہ دوسری آیت میں سے ((فانه رجس))لے کر. ............
جاری ہے.
 
شمولیت
جولائی 18، 2017
پیغامات
130
ری ایکشن اسکور
27
پوائنٹ
40
سورۃ المائدہ ) ( آیت نمبر 3 )
بقیہ تفسیر_____
رجس)) سے لے کر ضمیر کا مرجع خنزیر کو بتلاتے ہیں تاکہ اس کے تمام اجزاء حرمت میں آ جائیں-"
در حقیقت یہ لغت سے بعید ہے مضاف الیہ کی طرف ایسے موقعوں پر ضمیر پهرتی ہی نہیں، صرف مضاف ہی ضمیر کا مرجع ہوتا ہے ۔
صاف ظاہر بات یہی ہے کہ لفظ لحم شامل ہے تمام اجزاء کو-
لغت عرب کا مفہوم اور عام عرف یہی ہے، صحیح مسلم کی حدیث کے مطابق شطرنج کھیلنے والا اپنے ہاتھوں کو سور کے گوشت میں رنگنے والا ہے-
خیال کیجئے کہ صرف چھوٹا بهی شرعاً کس قدر نفرت کے قابل ہے، تو پھر کهانے کے لیے بے حد برا ہونے میں کیا شک رہا ؟"
اور اس میں یہ بھی دلیل ہے کہ لفظ لحم شامل ہے تمام اجزاء کو خواہ چربی ہو خواہ اور-
بخاری و مسلم میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے شراب، مردار خنزیر اور بتوں کی تجارت سے منع کر دیا، پوچھا گیا یا رسول اللہ ﷺ مردار کی چربی کے بارے میں کیا ارشاد ہے؟ وہ کشتیوں پر چڑھائی جاتی ہے، کھالوں پر لگائی جاتی ہے اور چراغ جلائے جاتے ہیں
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا نہیں نہیں وہ حرام ہے.
صحيح بخارى شریف میں ہے کہ ابو سفیان نے ہرقل سے کہا وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں مردار سے روکتا ہے-"
وہ جانور بھی حرام ہے جس کو ذبح کرنے کے وقت اللہ کا نام کے سوا کسی اور کا نام لیا جائے اللہ پاک نے اپنی مخلوق پر اسے فرض کر دیا وہ اسی کا نام جانور ذبح کرے، پس اگر کوئی اس سے ہٹ جائے اور اس کے پاک نام کے بدلے کسی بت وغیرہ کا نام لے کر، خواہ وہ مخلوق میں سے کوئی بھی ہو یقیناً وہ جانور بالا جماع حرام ہو جائے گا، ہاں جس جانور کے ذبیحہ کے وقت بسم اللہ کہنا رہ جائے، خواہ جان بوجھ کر یا بھول چوک سے وہ حرام ہے یا حلال؟
اس میں علماء کا اختلاف ہے جس کا بیان سورة انعام میں ان شاءالله بتائیں گے.
حضرت ابو الطفیل رح فرماتے ہیں " حضرت آدم علیہ السلام کے وقت سے لے کر آج تک یہ چاروں چیزیں حرام رہی ہیں، کسی وقت ان میں سے کوئی بھی حلال نہیں ہوئی
✍مردار
✍خون
✍سور کا گوشت
✍اور اللہ کے سوا کسی دوسرے کے نام کی چیز-
البتہ بنو اسرائیل کے گناہگاروں کے گناہوں کی وجہ سے بعض غیر حرام چیزیں بھی ان پر حرام کر دی گئی تهیں -
پھر حضرت عیسٰی علیہ السلام کے ذریعہ وہ دوبارہ حلال کر دی گئیں، لیکن بنو اسرائیل نے آپ کو سچا نہ مانا اور آپ کی مخالفت کی"(ابن ابی حاتم) یہ اثر غریب ہے.
حضرت علی رضی اللہ عنہ جب کوفے کے حاکم تهے اس وقت ابن وائل نامی قبیلہ بنو رباح کا ایک شخص جو شاعر تها، فرزوق کے دادا غالب کے مقابل ہوا اور یہ شرط ٹهہری کہ دونوں آمنے سامنے ایک ایک سو اونٹوں کی کو چیں کاٹیں گے، چنانچہ کوفے کی پشت پر پانی کی جگہ پر جب ان کے اونٹ آئے تو یہ اپنی تلواریں لے کر کھڑے ہو گئے اور اونٹوں کی کو چیں کاٹنی شروع کیں اور دکھاوے سناوے اور فخریہ ریاکاری کے لیے دونوں اس میں مشغول ہو گئے کوفتوں کو جو یہ معلوم ہوا تو وہ اپنے گدھوں اور خچروں پر سوار ہو کر گوشت لینے کے لیے آنا شروع ہوئے اتنے میں جناب علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کے سفید خچر پر سوار ہو کر منادی کرتے ہوئے وہاں پہنچے کہ لوگوں یہ گوشت نہ کهانا یہ جانور((مااهل به لغیر اللہ)) میں شامل ہیں-"(ابن ابی حاتم)
یہ اثر بهی غریب ہے ہاں اس کی صحت کی شاہد وہ حدیث ہے جو ابو داؤد میں ہے کہ محمد بن جعفر نے اسے ابن عباس رضی اللہ عنہ پر وقف کیا ہے-
ابو داؤد کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان دونوں شخصیات کا کهانا کهانا منع فرما دیا جو آپس میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانا اور ایک دوسرے کا مقابلہ کرنا اور ریاکاری کرنا چاہتے ہوں-"
(( منخنقت)) جس کا گلا گهٹ جائے خواہ کسی نے عمداً گلا گهٹ کر گردن مروڑ کر اسے مار ڈالا ہو، خواہ از خود اس کا گلا گهٹ گیا ہے ((موقودت)) وہ ہے جس جانور کو کسی نے ضرب لگائی، لکڑی وغیرہ ایسی چیز سے جو دھاری دار نہیں لیکن اسی سے وہ مر گیا، وہ بھی حرام ہے، جاہلیت میں یہ دستور تھا کہ جانور کو لاٹھی سے مار ڈالتے پهر کها لیتے.
لیکن قرآن نے ایسے جانور کو حرام قرار دیا ہے ۔
صحیح سند سے مروی ہے کہ حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں عرض کی یا رسول اللہ ﷺ میں معراض سے شکار کھیلتا ہوں تو کیا حکم ہے؟ ؟فرمایا جب تو اسے پھینکے اور وہ جانور کو زخم لگائے تو کها سکتا ہے اور اگر وہ چوڑائی کی طرف سے لگے تو وہ جانور لٹهہ مارے ہوئے کے حکم میں ہے اسے نہ کها.
حوالہ جات ((صحیح مسلم : کتاب الشعر. ابو داؤد: کتاب الادب باب فی النهی عن اللعب .ابن ماجہ، کتاب الادب. مسند احمد الادب المفرد.
صحيح بخارى کتاب البیوع. صحيح مسلم کتاب المساقات.ترمزی کتاب البیوع. ابن ماجہ کتاب التحارات.ابو داود کتاب البیوع.
حسن صحیح: ابو داؤد کتاب الضحایا شیخ البانی نے اسے حسن صحیح کہا ہے [صحیح ابو داؤد]
صحیح ابو داؤد
[صحیح ابو داؤد]
صحیح ابو داؤد کتاب الاطعمتہ شیخ البانی نے اسے صحيح کہا ہے [السلسلة الصحيحة]
صحیح بخاری کتاب الذبائخ والصید. صحيح مسلم کتاب الصید.نسائی باب اذا الصید المعراض. ابو داؤد:کتاب الصید:باب الصید.مسند احمد))
پس آپ نے اس میں جسے دھار اور نوک سے شکار کیا ہو اور اس میں جسے چوڑائی کی جانب سے لگا ہو فرق کیا'"
اول کو حلال اور دوسرے کو حرام-
فقہاء کے نزدیک بهی یہ مسئلہ اتفاقی ہے.
ہاں اختلاف اس میں ہے کہ جب کسی زخم کرنے والی چیز نے شکار کو صدمہ تو پہنچایا لیکن وہ مرا ہے اس کے بوجھ اور چوڑائی کی طرف سے تو آیا یہ جانور حلال ہے یا حرام-
امام شافعی رحمہ اللہ کے اس میں دونوں قول ہیں ایک تو حرام ہونا اوپر والی حدیث کو سامنے رکھ کر-
دوسرے حلال کرنا کتے کے شکار کی حلت کو مد نظر رکھ کر-
اس مسئلہ کی تفصیل ان شاءالله کل. ....
جاری ہے
 
شمولیت
جولائی 18، 2017
پیغامات
130
ری ایکشن اسکور
27
پوائنٹ
40
سورۃ المائدہ
آیت نمبر تین کی بقیہ تفسیر.
فصل:علماء کرام رح کا اس میں اختلاف ہے کہ جب کسی شخص نے اپنا کتا شکار پر چهوڑا اور کتے نے اسے اپنی مار سے اور بوجھ سے مار ڈالا، زخمی نہیں کیا تو وہ حلال ہے یا نہیں؟ اس میں دو قول ہیں ایک تو یہ کہ یہ حلال ہے کیونکہ قرآن کے الفاظ عام ہیں ((فکلوا مما امسکن علیکم))یعنی وہ جن جانوروں کو روک لیں تم انہیں کها سکتے ہو-
اسی طرح حضرت عدی رضی اللہ عنہ وغیرہ کی صحیح حدیثیں بهی عام ہی ہیں-
امام شافعی رحمہ اللہ کے ساتھیوں نے امام صاحب کا قول نقل کیا ہے اور متاخرین نے اس کی صحت کی ہے، جیسے نووی ؒ اور رافعی رح مگر گو یوں کہا جاتا ہے کہ لیکن امام صاحب کے کلام سے صاف طور پر معلوم نہیں ہوتا ۔
ملاحظہ ہو کتاب الام اور مختصر ان دونوں میں جو کلام ہے وہ دونوں معنی کا احتمال رکھتا ہے پس دونوں فریقین نے اس کی توجیہ کر کے دونوں جانب علی الاطلاق ایک قول کہہ دیا.
تو بصد مشکل صرف یہی کہ سکتے ہیں کہ اس بحث میں حلال ہونے کے قول کی حکایت کچھ قدرے قلیل زخم کا ہونا بھی ہے.
گو ان دونوں میں سے کسی تصریح نہیں، اور نہ کسی کی مضبوط رائے ابن الصباغ نے امام ابو حنیفہ رح سے حلال ہونا نقل کیا ہے اور دوسرا قول ان سے نقل نہیں کیا.
اور امام ابن جریر رح نے اپنی تفسیر میں اس قول کو حضرت سلمان فارسی، حضرت ابو ہریرہ، حضرت سعد بن وقاص اور حضرت ابن عمر رضوان اللہ علیہم اجمعین سے نقل کیا ہے لیکن بہ بہت غریب ہے اور دراصل ان بزرگوں سے صراحت کے ساتھ یہ اقوال نہیں پائے جاتے.
یہ صرف اپنا تصرف ہے واللہ اعلم -
دوسرا قول یہ ہے کہ وہ حلال نہیں، حضرت امام شافعی رحمہ اللہ کے دو قولوں میں سے ایک قول یہ ہے ۔
مزنی رح نے بھی اسی کو پسند کیا ہے اور ابن صباغ کے قول سے بھی اس کی ترجیح ملتی ہے، واللہ اعلم.
اسی کو یوسف اور محمد رح اور امام ابو حنیفہ رح سے روایت کیا ہے اور یہی مشہور ہے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے اور یہی قول ٹهیک ہونے سے زیادہ مشابہت رکھتا ہے واللہ اعلم -
اس لیے کہ اصولی قواعد و احکام شرعی کے مطابق یہی جاری ہے.
ابن صباغ نے حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کی حدیث سے دلیل پکڑی ہے کہ انہوں نے کہا یا رسول اللہ ﷺ ہم کل دشمنوں سے بھڑنے والے ہیں اور ہمارے ساتھ چھریاں نہیں تو کیا ہم تیز بانس سے ذبح کر لیا کریں؟
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو چیز خون بہائے اور اس کے اوپر اللہ کا نام ذکر کیا جائے اسے کها لیا کرو الخ (صحیح بخاری و مسلم کتاب الذبائح والصید)
یہ حدیث گو ایک خاص موقعہ کے لیے ہے لیکن عام الفاظ کا یہی حکم ہو گا، جیسے جمہور علماء اصول و فروع کا فرمان ہے.
اس کی دلیل وہ حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا گیا کہ تبع جو شہد کی نبیز سے ہے اس کا کیا حکم ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہر چیز وہ پینے جو نشہ لائے حرام ہے (صحیح بخاری : کتاب الااشربتہ باب الخمر)
پس یہاں سوال ہے کہ شہد کی نبیز سے لیکن جواب کے الفاظ عام ہیں اور مسئلہ بهی ان سے عام سمجھا گیا، اسی طرح اوپر والی حدیث ہے کہ گو سوال ایک خاص نوعیت میں ذبح کرنے کا ہے لیکن جواب کے الفاظ اسے اور اس کے سوا عام نوعیتوں پر مشتمل ہیں ۔ اللہ کے رسول صلیﷲعلیہ وسلم کا یہ بھی ایک معجزہ خاص ہے کہ الفاظ تھوڑے اور معانی بہت، اسے ذہن میں رکهنے کے بعد اب غور کیجئے کہ کتے کے صدمے سے جو شکار مر جائے یا اس کے بوجھ یا تھپڑ کی وجہ سے جس شکار کا دم نکل جائے-
ظاہر ہے کہ اس کا خون کسی چیز سے نہیں بہا، پس اس حدیث کے مفہوم کی بنا پر وہ حلال نہیں ہو سکتا-
ہاں اس پر یہ اعتراض ہو سکتا ہے کہ اس حدیث کو کتے کے شکار کے مسئلے سے دور کا بھی تعلق نہیں اس لئے سائل نے ذبح کرنے کے ایک آلے کی نسبت سوال کیا تھا -
ان کا سوال اس چیز کی نسبت نہ تھا جس سے ذبح کیا جائے ،اسی لیے رسول اللہ ﷺ نے اس سے دانت اور ناخن کو مستثنیٰ کر لیا اور فرمایا سوائے دانت اور ناخن کے اور میں تمہیں بتاؤں کہ ان کے سوا کیوں؟
دانت تو ہڈی ہے اور ناخن حبشیوں کی چھری ہے (صحیح بخاری : کتاب الذبائح)
اور یہ قاعدہ ہے کہ مستثنیٰ کی دلالت جنس مستثنیٰ منہ پر ہوا کرتی ہے ورنہ متصل نہیں مانا جا سکتا-
پس ثابت ہوا کہ سوال آلہ ذبح کا ہی تها تو اب کوئی دلالت تمہارے قول پر باقی نہیں رہتی.
اس کا جواب یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے جواب کے جملے کو دیکهو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو چیز خون بہائے اور اس پر اللہ کا نام بھی لیا گیا ہو اسے کها لو-"
یہ نہیں فرمایا کہ اس کے ساتھ ذبح کر لو -
پس اس جملے سے دو حکم ایک ساتھ معلوم ہوتے ہیں ذبح کرنے کا آلہ کا حکم بهی اور خود زبیحہ کا حکم بهی اور یہ کہ اس جانور کا خون کسی آلہ سے بہانہ ضروری ہے، جو دانت اور ناخن کے سوا ہو-
ایک مسلک تو یہ ہے دوسرا مسلک مزنی
رح کا ہے وہ یہ کہ تیر کے بارے میں صاف لفظ آ چکے ہیں کہ اگر وہ اپنی چوڑائی کی طرف سے لگا ہے اور جانور مر گیا تو نہ کهاو اور اگر اس نے اپنی دار اور آنی سے زخم کیا ہے پهر مرا ہے تو کها لو-
اور کتے کے بارے میں علی الاطلاق احکام ہیں پس چونکہ موجب یعنی شکار دونوں جگہ ایک ہی ہے تو مطلق کا حکم بهی مقید پر محمول ہو گا گو سبب الگ الگ ہوں، جیسے کہ ظہار کے وقت آزادگی گردن جو مطلق ہے محمول کی جاتی ہے کہ قتل کی آزادگی گردن پر جو مقید ہے ایمان کے ساتھ-
بلکہ اس سے بھی زیادہ ضرورت شکار کے مسئلہ میں ہے یہ دلیل ان لوگوں پر یقیناً بہت بڑی حجت ہے جو اس قاعدہ کی اصل کو مانتے ہیں اور چونکہ ان لوگوں میں اس قاعدے کے مسلم ہونے میں کوئی اختلاف نہیں تو ضروری ہے کہ یا تو وہ اسے تسلیم کریں ورنہ کوئی پختہ جواب دیں.
علاوہ ازیں یہ فریق یہ بھی کہ سکتا ہے کہ چونکہ شکار کتے نے بوجہ اپنے ثقل کے مار ڈالا ہے اور یہ ثابت ہے کہ تیر جب اپنی چوڑائی سے لگ کر شکار کو مار ڈالے تو وہ حرام ہو جاتا ہے ۔
پس اس پر قیاس کر کے کتے کا شکار بهی حرام ہو گیا کیونکہ دونوں میں یہ بات مشترک ہے کہ دونوں شکار کے آلات ہیں اور دونوں نے اپنے بوجھ اور زور سے شکار کی جان لی ہے اور آیت کا عموم اس کے معارض نہیں ہو سکتا کیونکہ عموم پر قیاس مقدم ہے جیسا کہ چاروں اماموں اور جمہور کا مزہب ہے یہ مسلک بهی اچھا ہے. ..........
جاری ہے
 
شمولیت
جولائی 18، 2017
پیغامات
130
ری ایکشن اسکور
27
پوائنٹ
40
سورۃ المائدہ آیت نمبر تین کی بقیہ تفسیر.
دوسری بات یہ ہے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے ((فکلوا مما امسکن علیکم ) ) یعنی شکاری کتے جس جانور کو روک رکھیں اس کا کهانا تمہارے لیے حلال ہے، یہ عام نوعیت پر ہے یعنی اسے بھی زخمی کیا ہو اور اس کے سوا کو بھی، لیکن جس صورت پر اس وقت بحث ہے وہ یا تو ٹکر لگا ہوا ہے یا اس کے حکم میں گلا گھونٹا ہوا ہے یا اس کے حکم میں بہر صورت اس آیت کی تقدیم ان وجوہ پر ضرور ہو گی-
اولا تو یہ کہ شارع نے اس آیت کا حکم شکار کی حالت میں معتبر مانا ہے ۔
کیونکہ حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ اللہ کے رسول صلیﷲعلیہ وسلم نے یہی فرمایا اگر وہ چوڑائی کی طرف سے لگا ہے تو وہ لٹهہ مارا ہوا ہے اسے نہ کهاو-
جہاں تک ہمارا علم ہے ہم جانتے ہیں کہ کسی عالم نے یہ نہیں کہا کہ لٹهہ سے اور مار سے مرا ہوا تو شکار کی حالت میں معتبر ہو اور سینگ اور ٹکر لگا ہوا معتبر نہیں ہے ۔
پس جس صورت میں اس وقت بات کی ہے اس جانور کو حلال کہنا اجماع کو توڑنا ہو گا - جسے کوئی بھی جائز نہیں کہہ سکتا بلکہ اکثر علماء اسے ممنوع بتاتے ہیں ۔
دوسرے یہ کہ آیت((فکلوا مما امسکن))اپنے عموم پر باقی نہیں اور اس پر اجماع ہے بلکہ آیت سے مراد صرف حلال حیوان ہیں ۔
تو اس کے عام الفاظ سے وہ حیوان جن کا کهانا حرام ہے بالا اتفاق نکل گئے اور یہ قاعدہ ہے کہ عموم غیر محفوظ پر مقدم ہوتا ہے ایک تقریر اسی مسئلہ میں اور بھی گوش گزار کر لیجیے کہ اس طرح کا شکار میتتہ کے حکم میں ہے، پس جس وجہ سے مردار حرام ہے وہی وجہ یہاں بھی ہے کہ یہ بھی اسی قیاس سے حلال نہیں-
ایک اور وجہ سنئے کہ حرمت کی آیت ((حرمت) الخ بالکل محکم ہے اس میں کسی طرح کا نسخ نہیں ہے. نہ ہی کوئی تخصیص ہوئی ہے، ٹهیک اسی طرح آیت تحلیل بهی محکم ہی ہونی چاہیے، یعنی فرمان باری تعالیٰ ((یسئلونک ماذا. احل لهن قل احل لکم البیبات))لوگ تجهہ سے دریافت کرتے ہیں کہ ان کے لیے حلال کیا گیا ہے تو کہہ دے کہ تمام پاک چیزیں تمہارے لیے حلال ہیں ۔
جب دونوں آیتیں محکم اور غیر منسوخ ہیں تو یقیناً ان میں تعارض نہ ہونا چاہیے-
لہذا حدیث کو اس وضاحت کے لئے سمجھنا چاہیے اور تیر کا واقعہ اسی کی شہادت دیتا ہے، جس میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ اس آیت میں یہ صورت واضح طور پر شامل ہے کہ انی اور دھار تیزی کی طرف سے زخم کرے تو جانور حلال ہو گا، کیونکہ وہ طیبات میں آ گیا ہے ۔
ساتھ ہی حدیث میں یہ بھی بیان کر دیا گیا کہ آیت تحریم میں کون سی صورت شامل ہے-
یعنی وہ صورت جس میں جانور کی موت تیر کی چوڑائی کی چوٹ سے ہوئی ہے، وہ حرام ہے جسے کهایا نہیں جا سکتا -
اس لیے کہ وہ ((وقیذ)) ہے اور ((وقیذ))آیت تحریم کا ایک فرد ہے، ٹھیک اسی طرح اگر شکاری کتے نے جانور کو دباؤ زور بوجھ اور سخت پکڑ سے مار ڈالا ہے تو وہ نطیح ہے یا فطیع یعنی ٹکر اور سینگ لگے ہوئے کے حکم میں ہے اور حلال نہیں، ہاں اگر اسے مجروح کیا ہے تو وہ آیت تحلیل کے حکم میں ہے اور یقیناً حلال ہے-"
اس پر اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ اگر یہی مقصود ہوتا تو کتے کے شکار میں بھی تفصیل بیان کر دی جاتی اور فرما دیا جاتا کہ اگر وہ جانور کو چیر پھاڑ دے زخمی کرے تو حلال اور اگر زخم نہ لگائے تو حرام ہے.
اس کا جواب یہ ہے کہ چونکہ کتے کا بغیر زخمی کئے قتل کرنا بہت ہی کم ہوتا ہے ۔
اس کی عادت یہ نہیں بلکہ عادت تو یہ ہے کہ اپنے پنجوں یا کچلیوں سے ہی شکار کو مارے یا دونوں سے بہت کم کبھی کبھی شاذ و نادر ہی ایسا ہوتا ہے کہ وہ اپنے دباؤ اور بوجھ سے شکار کو مار ڈالے، اس لیے اس کی ضرورت ہی نہیں تھی کہ اس کا حکم بیان کیا جائے اور دوسری وجہ یہ تھی کہ جب آیت تحریم میں ((میتتہ ، منخنقتہ، موقوذتہ، متردیتہ، نطیحتہ))کی حرمت موجود ہے تو اس کے جاننے والے کے سامنے اس قسم کے شکار کا حکم بالکل ظاہر ہے تیر اور معراض میں اس حکم کو اس لئے الگ بیان کر دیا کہ عموماً خطا کر جاتا ہے بالخصوص اس شخص کے ہاتھ سے جو قادر تیر انداز نہ ہو یا نشانے میں خطا کرتا ہو، اس لیے اس کے دونوں حکم تفصیل وار بیان فرما دئیے ہیں ۔ واللہ اعلم -
دیکھئے چونکہ کتے کے شکار میں یہ احتمال تها کہ ممکن ہے وہ اپنے کئے ہوئے شکار میں سے کچھ کها لے، اس لیے یہ حکم صراحت کے ساتھ الگ بیان کیا اور ارشاد ہوا کہ اگر وہ خود کها لے تو تم اسے نہ کهاو ممکن ہے کہ اس نے خود اپنے لئے شکار کو روکا ہو-
یہ حدیث صحیح بخاری و مسلم میں موجود ہے اور یہ صورت اکثر حضرات کے نزدیک آیت تحلیل کے عموم سے مخصوص ہے اور ان کا قول ہے کہ جس شکار کو کتا کها لے اس کا کهانا حلال نہیں ہے. _
بعض علماء کرام نے اس حدیث کو اس بات پر محمول کیا ہے کہ یہ حکم اس وقت ہے جب کتے نے شکار پکڑا اور دیر تک اپنے مالک کے لیے انتظار کیا جب وہ نہ آیا تو بھوک وغیرہ کے باعث اس نے کچھ کها لیا اس صورت میں یہ حکم ہے کہ باقی کا گوشت مالک کها لے کیونکہ ایسی صورت میں ڈر باقی نہیں رہتا شاید کتا ابهی شکار کا سدھایا ہوا نہیں ممکن ہے اس نے اپنے لیے ہی شکار کیا ہو بخلاف اس کے کہ کتے نے پکڑتے ہی کهانا شروع کر دیا تو اس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ اس نے اپنے لیے ہی شکار کو پکڑا ہے واللہ اعلم -
اب رہے شکاری پرندے تو امام شافعی رحمہ اللہ نے صاف کہا ہے کہ یہ کتے کے حکم میں ہیں
تو اگر یہ شکار میں سے کچھ کها لیں تو یہ شکار کهانا جمہور کے نزدیک تو حرام ہے اور دیگر کے نزدیک حلال ہے، ہاں مزنی رح کا مختار یہ ہے کہ گو شکاری پرندوں نے شکار کا گوشت کها لیا ہو تو وہ تاہم وہ حرام نہیں -
یہی مزہب ابو حنیفہ اور احمد رح کا ہے-
اس لیے کہ پرندوں کو کتوں کی طرح مار پیٹ کر سدھایا بهی نہیں جا سکتا اور وہ تعلیم حاصل کر ہی نہیں سکتا جب تک اسے کها ئے نہیں، تو یہاں یہ بات معاف ہے اور اس لیے بهی کہ نص کتے کے بارے میں وارد ہوئی ہے پرندوں کے بارے میں نہیں، شیخ ابو علی افصاح فرماتے ہیں جب ہم نے طے کر لیا کہ اس شکار کا کهانا حرام ہے جس میں سے شکاری کتے نے کها لیا ہو تو جس شکار میں شکاری پرندے کها لے اس میں دو وجوہات ہیں لیکن قاضی ابو الطیب نے اس فرع کا اور اس ترتیب کا انکار کیا ہے-
کیونکہ امام شافعی رحمہ اللہ نے ان دونوں کو صاف لفظوں میں برابر رکها ہے " واللہ اعلم -
((متردیتہ))
وہ ہے جو پہاڑ یا کسی بلند جگہ سے گر کر مر گیا ہو تو وہ جانور بهی حرام ہے ابن عباس رضی اللہ عنہ یہی فرماتے ہیں ,قتادہ رح فرماتے ہیں یہ وہ ہیں جو کنویں میں گر پڑے-
(( نطیحتہ)))
وہ ہے جو دوسرا جانور دی سینگ وغیرہ سے ٹکر لگائے اور وہ اس صدمہ سے مر جائے، گو اس سے زخم بهی ہوا ہو اور گو اس سے خون بهی نکلا ہو بلکہ گو ٹھیک ذبح کرنے کی جگہ ہی لگا ہو اور خون بهی نکلا ہو یہ لفظ معنی مفعول یعنی منطوحہ کے ہے، یہ وزن عموماً کلام عرب میں بغیرت کے آتا ہے جیسے ((عین کحیل"اور کف خضیب))ان مواقع میں ((کحیلتہ))اور خضیبتہ))نہیں کہتے اس لیے لایا گیا ہے کہ یہاں اس لفظ کا استعمال قائم مقام اسم کے ہے، جیسے عرب کا یہ کلام ((طریقتہ طویلتہ))بعض نحوی کہتے ہیں تاء تانیث یہاں اس لیے لایا گیا ہے کہ پہلی مرتبہ ہی تانیث پر دلالت ہو جائے بخلاف کحیل اور خضیب کے کہ وہاں تانیث کلام کے ابتدائی لفظ سے معلوم ہوتی ہے
جاری ہے
 
Top