• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ترکی میں ناکام بغاوت اور دیگر حادثات: شیخ عبدالمعید مدنی حفظہ اللہ (علی گڑھ)

شمولیت
ستمبر 11، 2013
پیغامات
26
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
52
ترکی میں ناکام بغاوت اور دیگر حادثات
شیخ عبدالمعید مدنی حفظہ اللہ (علی گڑھ)
حالیہ دنوں دنیا میں بڑے بڑے حوادث رونما ہوئے۔ فرانس اور امریکہ میں قاتلانہ حملے ہوئے، بنگلہ دیش میں بم دھماکے ہوئے، بے قصوروں کو ذبح کیا گیا، افغانستان، ترکی، عراق اور سعودی عرب میں خطرناک بم دھماکے ہوئے، جن میں سیکڑوں جانیں گئیں۔ برطانیہ میں بریکزٹ (BRIXET) کی پالیسی کے تحت عوامی رائے شماری ہوئی اور برطانیہ یورپین یونین سے نکل گیا۔ پو لینڈ میں ناٹو کی میٹنگ ہوئ اور سرد جنگ جاری کرنے کے عزم کا اعادہ ہوا ۔ ناٹو کے مقابلے میں روس اور چین کو فریق بنایا گیا، جنوبی بحر چین کو چین نے ہتھیا لیا اور پینتیس لاکھ مربع کلو میٹر کا ایریا گیس اور تیل سے بھرے جزائر پر اس نے اپنی ملکیت عملا ثابت کر دی۔ یواین کے انٹرنیشنل کورٹ واقع ہیگ کے فلپائن کے حق میں فیصلے کو ٹھکرا دیا اور ان جزائر پر فلپائن کے حق میں جاپا ن، ویتنام، ملیشیا، اور برونائی کے جزوی دعوی ملکیت کو مسترد کر دیا ۔ اس خطے میں امریکی مداخلت کو چین نے چیلنج کر دیا اور امریکہ کو پسپا ہونا پڑا، اس مسئلے میں اس نے اپنے ساتھ روس کو بھی بلا لیا ہے اور دونوں نے مل کر جنگی مشق کی تیاری شروع کر دی ہے، اسی دوران عراق پر دو انسانی قصابوں بش اور بلیر کی تھوپی ہوئی جنگ کی جانچ کی رپورٹ دس جلدوں میں سامنے آئی ہے، جس میں دونوں ظالموں کے جھوٹ اور فریب کا پردہ فاش ہوا ہے۔
اسی پورے سلسلہ واقعات کو پڑھیے اور غور کیجئے، ان تمام واقعات میں دنیا کے زعماء و قائدین اپنے غلبے و تسلط اور مفادات کے لئے کمزوروں کو جنگ کی آگ میں جھوکنے کے لئے ہردم تیار رہتے ہیں۔اور ان کی نا انصافیوں کے رد عمل میں القاعدہ ، داعش ، النصرہ، بوکوحرام اورتحریک طالبان جیسے خارجی اور خوں آشام قاتل پیدا ہو گئے ہیں، انہیں راہ راست پر لانے کے بجائے(ٹیررزم ) کی اصطلاح ایجاد کی گئی اور سارے مسلمانوں کو اسکی آگ میں جھونک دیا گیا۔ یہ آگ ساری دنیا میں پھیلتی جا رہی ہے ۔اور فسادی میڈیا اسے مسلم بمقابلہ غیر مسلم جنگ بنانے میں لگا رہتاہے ۔ جبکہ امت نے متفقہ طور پر ہر دور میں خارجیوں سے خود کو بری قرار دیا ہے۔
ظالم امریکہ اور یورپ کی اگائی ہوئی فصل [مسلم دہشت گردی] مسلم عوام اور حکومتوں کے لیے وبال جان ہے۔ ان کی لگائی ہوئی آگ کی لپٹ اب ان ظالم ملکوں تک پہنچنے لگی ہے۔ القاعدہ اور ISIS کے خارجیوں نے عراق، شام، یمن اور لیبیا میں جزوی حکومت کر لی اور سارے خطے کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ انھوں نے کھلم کھلا اپنے نہ ماننے والے مسلمانوں کو بھی کافر اور واجب القتل قرار دیا ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ ان کے گرگے سارے دنیا میں جہاں بھی ہیں بم دھماکے کرتے پھرتے ہیں۔ یہ گھات لگائے ہوئے بھیڑیے ہیں جن کا انجام فنا ہو جانا ہے دین، سماج، فطرت، قانون اور انسانیت سارے ضابطے انھیں مسترد ٹھہراتے ہیں، یہ وقت کی کوندتی ہوئی بجلیاں ہیں جو جلد ہی ختم ہو جائیں گی۔
اصل ان ظالم بھیڑیوں کا مسئلہ ہے جنھوں نے ان موسمی بھیڑیوں کو پیدا کیا ہے جو مسلمانوں خصوصا اہل حدیثوں کو بدنام کرنے کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں اور فرقہ پرست جہلاء دشمنان اسلام کے ساتھ مل کر ساری دنیا میں انھیں بدنام کرتے ہیں، جب کہ صورت حال یہ ہے کہ بیشتر اہل حدیثوں نے ہر دور میں گمراہ فرقوں اور خارجیوں کی تردید کی ہے۔
بات زمانے سے وہیں سے شروع ہوئی ہے جب مغربی استعمار نے خلافت عثمانیہ پر یلغار شروع کی تھی پھر یہ یلغار صلیبیت و صہیونیت کی شکل اختیار کر گئی اور آگے چل کر سرخ یلغار شروع ہو گئی، پھر امریکی استعمار شروع ہو گیا اور اب سارے کے سارے مغرب ساختہ [مسلم دہشت گردی] کے خلاف مورچہ بنا کر کھڑے ہو گئے ہیں۔ انھوں نے اپنے ساتھ رافضیت کو بھی ملا لیا ہے سب مل کے اہل سنت کو ہر جگہ مارنے پر تلے ہوئے ہیں، خاص الخاص طور پر وہابیت کی دہائی دے کر رافضیت، تحریکیوں، صوفیوں اور قبوریوں کو اپنے ساتھ ملا لیا ہے اور سارے کے سارے مل کر میڈیا میں موہوم وہابیت اور وہابیوں کے خلاف عدالت لگاتے ہیں اور اپنی جہالت اور خارجیت کا ثبوت دیتے ہیں۔ رافضی محاذ، تحریکیت، قبوریت اور صوفیت کے ساتھ وہابیت اور سلفیت کے ساتھ ہر جگہ حربی و کلامی جنگ چھیڑے ہوئے ۔ شام رزم گاہ ہے، اس میں پرانے سرخے صہیونی، صلیبی، رافضی، تحریکی، قومیت پرست، دین پسند بد دین قبائلی انتساب و تعصبات رکھنے والے، جبھۃ النصر، داعش، ناٹو کا یہاں الجھاؤ ہے۔ امریکی مفادات اور حزبی وسائل کا الجھاؤ ہے، ناٹو اور خصوصا امریکی سردمہری نے بشار اسد کو تحفظ دیا اور روس کو بھی بشار اسد کی حمایت میں کھینچ لائی، روس کی شام کی جنگ آزادی کے بر خلاف بشار اسد کی حمایت اور فنائیت کی حد تک حمایت اس کی مجبوری بھی ہے عیاری بھی ہے اور تحفظ مفادات بھی ہے، لیکن جنگ میں اس کا کودنا اس کے لیے ممکن ہے کہ امریکہ اینڈ یورپی پارٹنر خطے کو جلتے رہنے اور تماشا دیکھنے کا رویہ اپنا چکے تھے، اس رویے نے روس کو بلاوا بھیجا، شام میں تمام جارحیت پسندوں نے ہاتھ صاف کیا، مستقلا یہاں چار محاذ بن گئے، رافضی شام لبنان ایران اور عراق کا مشترکہ محاذ، النصرہ اور داعش کا محاذ، ناٹو کا محاذ، احرار الشام کا محاذ۔
ناٹو اور خطے کے اہل سنت خصوصا گلف اور ترکی یہ چاہتے تھے کہ شام پر سے ۸؍فیصد نصیریوں کا تسلط ختم ہو اور ۸۶؍فیصد اہل سنت آزاد ہوں۔ آج کی جمہوریت کے دعوی داروں نے مسلمانوں کے مسائل میں جمہوریت اور حقوق شعب کے اپنے دعوؤں کو بھلا دیا، اہل سنت کے شرعی قانونی حق خود اختیار کو دلانے کے بجائے اسے تہس نہس کر دیا اور اس وقت وہاں کے دو تہائی باشندے بے وطنی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ ہے ترقی یافتہ اصول و قانون کی دہائی لگانے والی دنیا کا حال یا بدحالی۔
یہی نہیں خطے میں رافضیوں کو بڑھانے اور اہل سنت کو تباہ کرنے کے استعماری منصوبے کامیاب ہوتے گئے، شام کی اہل سنت آبادی کو آزاد کرانے کی جدو جہد میں سعودی عرب اور ترکی نے سب سے زیادہ فعال رول پلے کیا، اس کی سزا انھیں یہ دی گئی کہ سعودی عرب پر حوثی جارحیت اور یلغار کو مسلط کر دیا گیا اور ترکی پر کردوں کو، پھر اس کو اس کی فعالیت کی یہ بھی سزا ملی کی اس پر خانہ جنگی اور بغاوت کو تھوپ دیا گیا، اس عالمی سلبی رویے کا کل فائدہ رافضی ایران کو گیا اور اس کی سرگرمیاں خطے میں بڑھتی گئیں، اسے عالم سنت کے دباؤ سے راحت ملی، جشن منانے اور طاقت و سازش کو بڑھانے کا موقع بھی ملا۔
ترکی میں بغاوت کی خبر سے ایران کے رافضیوں کے درمیان جشن مسرت کا سماں تھا، اب اہل سنت کے اوپر مغربی محاذ شیعہ محاذ اور خارجی محاذ پل پڑا ہے۔ کل کا کل نقصان اہل سنت کا، حالت حرب، تین تین طرف سے ان پر یلغار اور پھر ان کی اقتصادیات کو تباہ کرنے کے لیے پٹرول کی قیمت کو ۱۵۰؍ڈالر فی بیرل سے گھٹا کر ۲۸؍ڈالر فی بیرل کر دیا گیا اور انھیں اقتصادی بحران اور سماجی مسائل سے دو چار کر دیا گیا۔ سعودی عرب تو زمانے سے صہیونیوں، صلیبیوں اور رافضیوں، تحریکیوں، صوفیوں، قبوریوں، علمانیوں اور کمیونسٹوں کا نخچیر ستم ہے اور ہر دم وہ ان کے نشانے پر رہتا ہے۔ ترکی کی ارغان حکومت جمہوری اور سیکولر حکومت ہے، دینی رجحان بھی رکھتی ہے، اپنے ملکی مسائل اور قوم کے تئیں مخلص بھی ہے۔ عالمی مشکلات میں جو بھی الجھنیں ہوں اس کے باوجود اس کی کوشش ہے کہ اپنی ذات پر انحصار کرے، کاسہ لیسی اور دوسروں کی ماتحتی سے بچے، اسی کی سزا اسے دی گئی۔ مصطفی کمال کے الحاد کو اندرون ملک ہر ممکن حد تک ختم کرنے کی کوشش کی، اس سلسلے میں بڑی حد تک اسے کامیابی بھی ملی۔ کمالی فوجیوں نے بارہا کمالیت سے ہٹنے والی حکومتوں کے خلاف بغاوت کی، اردغان کے خلاف کئی بار کمالی فوجوں نے بغاوت کا پلان بنایا، لیکن ناکام رہے۔ اس بار انھیں یقین تھا کہ حالات سازگار ہیں ایران، اسرائیل، روس، خارجیوں اور کردوں کی حمایت مل جائے گی، مصر بھی خوش ہو گا، امریکہ اور اس کے متحالف بھی خاموش حمایت کریں گے، لیکن قوم کی شجاعت، بالغ نظری اور دینی رجحان نے غداروں کو ناکام بنا دیا۔ فتح اللہ گولن کا نام بھی بغاوت کو بھڑکانے میں ملوث مانا جاتا ہے۔ ہو سکتا ہے جیسا کہ سننے اور دیکھنے میں آرہا ہے وہ اپنی ذات اور کاموں سے ملک کے اندر بڑی جگہ بنا چکے تھے، خود اردغان ان کے قدردان تھے، لیکن جس طرح پاکستان میں نواز شریف اور ڈاکٹر طاہر القادری کے تعلقات بڑے خوشگوار تھے پھر سیاسی رقابت نے دونوں کو ایک دوسرے کا دشمن بنا دیا، کناڈا سے آکر ڈاکٹر صاحب نواز شریف کی وزارت عظمی کو اکھاڑ پھینکنے کا زور باندھنے لگے اور ان کے خلاف لاہور سے اسلام آباد تک مورچے نکالنے لگے۔ فتح اللہ گولن پاکستانی حضرت کی شہہ زوریوں اور بڑ بولے پن کے مقابلے میں گہرے، سنجیدہ اور بڑے عالم ہیں اور دین و امت کے لیے کافی کچھ کیا ہے، وہ دنیا میں بڑے موثر لوگوں میں شمار ہوتے ہیں، ان کے اثرات ترکوں پر ہر جگہ بہت گہرے ہیں، بے شک وہ اردغان کی پالیسیوں کے خلاف تھے۔ گولن کی اساس فکر تصوف ہے، وہ مولانا روم اور دیگر وحدۃ الوجودی صوفیاء کے افکار کے حامل ہیں، ان کے مشرب تصوف میں نہ نہیں ہے، سب ٹھیک ہیں۔ اردغان سیکولر جمہوری اور تحریکی ہیں اور اس رجحان مین اپوزیشن طے ہے۔ اردغان اپوزیشن سے تال میل میں بہت کامیاب نہیں ہیں لیکن ملک و قوم کی خوشحالی کے ایسے مقام پر لا کھڑا کیا ہے کہ وہ اردغان کے موثر قومی مسائل میں مخالفت برائے مخالفت بھی نہیں کر سکتی ہے۔ ناکام بغاوت کو دیکھ لیں اپوزیشن کو کھل کر ساتھ دینا پڑا۔
اپنے ایجنڈے کو لاگو کرنے میں کسی تہاون سے کام نہیں لیتے بلکہ اکثر تہوّر نمایاں رہتا ہے، یہ چیز ملک کے کمالیوں الٹراقومیت پرستوں اور صوفیا کو نہیں بھاتی، بد دین الحادی اور کمیونسٹ بھی اسے برادشت نہیں کرنا چاہتے، حالانکہ اردغان کی پالیسیاں اور ایجنڈے ملک اور قوم کی اکثریت پسند ہے اور ان سے ملک اور قوم کی شناخت بنی ہے، ملک نے کافی ترقی کی ہے، معاشیات میں ترکی دنیا میں ۸؍ویں نمبر پر ہے اور عسکری طاقت میں بھی بیس بڑے ملکوں میں اس کا شمار ہوتا ہے۔
حالیا الیکشن میں پہلے سے زیادہ طاقتور بن کر ابھرنے کے بعد اردغان نے مضبوطی اور حوصلے کے ساتھ اپنی پالیسیوں اور ایجنڈے کو قوم اور ملک کے بہبود کے لیے لاگو کرنا شروع کر دیا تھا، یہی چیز مخالفین کے لیے الجھن کا سامان بنی، اندرون و بیرون مخالفین نے فوج کو بھڑکایا، لیکن اب کے معاملہ کچھ اور تھا۔ پوری پبلک اور ملک کی سیاسی پارٹیاں حکومت کے ساتھ رہیں اور فوج کی ایک چھوٹی ٹکڑی ہی حکومت کا تختہ پلٹنے کی حماقت کا مرتکب ہوئی۔ چلو فوج کے جسم میں رہا سہا اندرونی پھوڑا جو موجود تھا باہر آگیا اور ایسا لگتا ہے کہ عوام اور سیاسی پارٹیوں کی موجودہ ایجابی رد عمل نے کمالی فوج کا کس بل نکال دے گا اور دوبارہ اب ترکی میں فوجی بغاوت کا خدشہ برقرار نہیں رہے گا۔
اردغان نے اس موقع پر جس ہمت حوصلے اور فرزانگی کا مظاہرہ کیا ہے اور قوم نے جس طرح ان کی آواز پر لبیک کہا ہے یہ ایک شاندار کامیابی کی شاندار مثال ہے، اس سے دشمنوں کو بھی پسینہ آگیا اور بہت دنوں بعد کسی مسلم ملک میں انھوں نے ایک خود آشنا اور خود دار قوم کی شان اور آن بان کو دیکھا اور ایک وجیہ دانشمند اور قوم و ملت کے لیے مخلص وفادار لیڈر کی محبوبیت کو بھی دیکھا۔ یہ ایک طمانچہ ہے رافضیت کے منھ پر، خارجیوں کے منھ پر، پوتن اور اوبامہ کے منھ پر اور بہت بڑی وجہ عزت و عظمت ہے ترکی کے لیے، سعودی عرب کے لیے اور دیگر اہل سنت ملکوں کے لیے جو دشمنوں کے نرغے میں ہیں۔
ترکی میں اس وقت صفائی کی مہم چل رہی ہے، اردغان کو موقع ملا ہے اپنی پوزیشن کو مضبوط بنانے کے لیے جس طرح بغاوت ناکام ہوئی ہے غدار ننگے ہوگئے ہیں، دشمن شرمائے ہوئے ہیں۔ اس لیے انسانیت اور عفودرگزر کے ڈھکوسلوں کے نام پر زیادہ شعور بھی نہیں مچا پا رہا ہے۔ اللہ کرے اس ناکام بغاوت کے بعد ملک مضبوط تر ہو جائے اور قوم طاقتور اور الحاد و بے دینی کی جڑیں سوکھ جائیں۔ اس موقع پر یہ بات بھی زیر بحث آتی ہے کہ اردگان سیکولرزم کے نظام پر عامل ہیں اور اسلام کے نام پر تحفظ دین و بچاؤ چاہتے ہیں۔ قومیت پرستانہ اسلامی سوچ رکھتے ہیں، اس میں کتنا سچ ہے۔ سیکولر نظام چلانے میں کتنی مجبوری ہے اور اسلام کا نام لینے میں کتنی سچائی ہے، لیکن یہ بات تو نمایاں نظر آتی ہے کہ انسان ملک و ملت کے تئیں مخلص ہے اور حقیقت پسند بھی ہے، پھر بھی یہ طے ہے کہ ہر مسلمان کا ہدف یہی ہونا چاہیے کہ خالص کتاب و سنت کی تعلیمات کو حرز جان بنائے اور ان پر ہر میدان حیات میں عامل بنے، یہی مسلمانوں کی مستقل عزت تحفظ اور ترقی کا ضامن ہیں، مجبوریوں میں انسان دلی خواہش کے باوجود اپنے دینی ایجنڈے کو لاگو نہیں کر سکتا، لیکن الجھن یہ ہوتی ہے کہ مجبوریوں کو اصول و نظام بنا لیا جاتا ہے جیسا کہ تحریکیوں نے ہر جگہ کیا ہے۔
شام کے اہل سنت پر مسلط کیے گئے سرخوں، سرمایہ داروں، رافضیوں اور خارجیوں نے جس طرح اہل سنت کو بے وطن کیا ہے۔ یہ حادثہ اکیسویں صدی نہیں، صلیبی دور کے تاریک صدیوں کی بربریت کی یاد لاتا ہے۔ مجبوریوں کی بے وطنی اور دربدری نے یورپ میں سیاسی بحران پیدا کردیا ہے، مسلم ممالک شام، عراق، لبنان، افغانستان، پاکستان، برما، بنگلہ دیش اور افریقی ملکوں صومالیہ، مصر، لیبیا، الجزائر جیوئی مالی، نائجیریا تونس حراکو وغیرہ یا یوں کہہ لیں عالم ثالث سے ترقی یافتہ ملکوں یورپ امریکہ آسٹریلیا وغیرہ ملکوں کی مہاجرت کی مجبوری استعماری ملکوں کی پیدا کردہ ہے۔ استعمار پسند اور استحصال پسندوں ملکوں نے باہم لڑانے اور لوٹنے کا فارمولہ بنا لیا ہے۔ عباد و بلاد کولوٹ کر کر ان کے باشندوں کو غربت کا شکار بنا کر اور انھیں ویران کرکے ترک وطن پر مجبور کر دیا اور جب یہ لٹے پٹے استعماریوں کے ملکوں پہنچے تو آہستہ آہستہ ان کے دل تنگ ہوگئے اور ان کے ملک کی وسعت بھی تنگ ہوگئی۔ سارے یورپ سے نعرہ اٹھنے لگا انھیں بھگاؤ امریکہ میں ملک کی صدارت کا ایک خبطی امیدوار ملک مو مسلم مہاجروں پر پابندی لگانے کی بات کرنے لگا اور میکسکو کی سرحد دیوار کھڑی کرنے کی بات کرنے لگا۔
ادھر برطانیہ کی عوام نے مہاجرت کا دباؤ محسوس کیا کہ (ای یو) سے باہر ہو جانے کا فیصلہ سنا دیا اور ملک ستائیس سال کے بعد (ای یو) سے نکل آیا۔ فرانس، جرمنی، سویڈن، ڈنمارک اور جرمن میں ایک بڑی تعداد ای یو کو ختم کر دینے کے لیے آواز اٹھاتی ہے۔ ایسا لگتا ہے دنیا کے استعماریوں نے جس آزاد معیشت اور کارپوریٹو بزنس کی دین کے بعد رواج دی تھی اس کی کاٹ اب بڑے پیمانے پر محسوس کی جانے لگی ہے، دھنّا سیٹھوں نے عوام کو غریب تر بنا دیا ہے، دوسری طرف پونچی پتیوں اور بڑے بڑے سرمایہ داروں کا حکومتوں پر دباؤ بڑھتا جارہا ہے اور ہر طرح معاشی مواقع کو اپنے حق میں محفوظ کرانے پر لگے رہتے ہیں۔ امریکہ جیسے ملک میں سندر زنے شوشلزم کی دہائی لگائی اور مال اسٹریٹ اور دلال اسٹریٹ کے مگرمچھوں کی نیندیں حرام کر دیں۔
اگر دیکھا جائے تو ایک طرح سے اپنے وطنوں کو کھونے کے بعد مذکورہ ملکوں سے مہاجروں کا کاروان بلاد غیر میں اسلام کا جھنڈا بلند کرنے پہنچ رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے استعماریوں کی بلاد مسلمین میں بمباری اور تباہی ان کی صلیبی جیت ہے اور بلا صلیب میں مسلم مہاجروں کا روانوں کی آمد اسلام میں فتح ہے، کون جانے خلاق عالم کی تدبیر یہی ہو کہ ان لٹے پٹے کمزوروں کے ذریعہ یورپ و امریکہ میں اسلام کی اشاعت ہو، وہاں اسلام اور اس کے متبعین کی جڑیں گہری ہو جائیں اور ایک دن وہاں سے صلیبیت رخصت ہو جائے اور اسلام اس کی جگہ لے لے۔
بر وقت اتھل پتھل اور معاشی بحران لگتا ہے بڑھتا جائے گا۔ جنوبی بحر چین دنیا کا سب سے زیادہ معاشی سرگرمیوں کی راہ ہے۔ بروقت چین کی اس پر دعوی داری اور اس کو بحری بری اور فضائی فوجوں اور ہتھیاروں سے مضبوط بنانے کا عمل دنیا میں سب سے زیادہ ہلچل کا موضوع ہے۔ اس کے اندر کھربوں ڈالر کے گیس اور تیل موجود ہیں اور کھربوں بیرل تیل اور کیوبک میٹر گیس موجود ہیں۔ اس پر چین کی دعوی داری اس کے سارے پڑوسیوں کے لیے الجھن کا باعث ہے اور سب سے زیادہ امریکہ کی داداگیری کو چیلنج ہے۔ چین نے امریکہ کی داداگیری کی پروا کیے بغیر ساؤتھ چائناس پر اپنی پکڑ مضبوط بناتے جا رہا ہے اس کے نتیجہ میں پرانے سرخوں، چائنا، رشیا اور موجودہ ناٹو کے درمیان ایک سرد جنگ چھڑ چکی ہے۔ اگر اس موقع پر امریکہ پستی سے دوچار ہوتا ہے تو اس کی دادا گیری کے زوال کا وقت آچکا ہے اور ساری دنیا میں سیاسی معاشی مرکز ثقل ساؤتھ ایشیا بن جائے گا۔ ان بڑوں کی جنگ اور مفادات کے لیے رسہ کشی کے درمیان چھوٹے چھوٹے ملکوں کو عافیت مل سکتی ہے۔ آٹھویں دہے میں سوویت یونین کی شکست کے بعد یورپ اور امریکہ کے شکار بلاد مسلمین مستقلا بنے ہوئے ہیں، سرخوں سے ان کی جان چھوٹے تو مستقلا مسلمانوں سے الجھ پڑے اور چار دہائیوں میں تباہ کر کے رکھ دیا۔ مزید روافض کو مستقلا اہل سنت کے لیے دردِ سر بنادیا، ایران جب سے خمینی ایران بنا لیا ہے اور مغرب کا ایجنٹ بنا ہے، اس کے سبب براہ راست یا بالواسطہ پچاس لاکھ مسلمانوں کی جانیں ضائع ہوئی ہیں۔ اسی کو ایران اور تحریکی اپنے کمالات میں شمار کرتے ہیں۔ والعیاذ باللہ۔
چین ابھی تک اقتصادی تغلب کے لیے ساری دنیا میں جال بچھاتا رہا اور سارے بر اعظموں میں اپنے بزنس اور فائننس کاریڈور بناتا رہا۔ اگر ساؤتھ چائنا پر اس کا تسلط قائم ہو جاتا ہے تو وہ اپنے سیاسی تغلب کے لیے بھی راستہ صاف پائے گا اگر ایسا ہوتا ہے موجودہ مغربی عالمی سٹ اپ کی جگہ روس و چین کا ساؤتھ ایشیا کا عالمی سٹ اپ بن جاتا ہے تو دنیا دو بے رحم ملکوں کا دست نگر بن جائے اور یہ کسی قانون، دستور، ریت و روایت کی پرواہ نہیں کریں گے، نہ کسی عالمی روایت اور اصول کی پروا کریں گے، یہ مقاصد کے حصول کے لیے کچھ بھی کر گزریں گے بلکہ یہ اپنے سوا کسی کی تہذیب، مذہب حریت اور حقوق کی بالکل ان دیکھی کر دیں گے۔
 

MD. Muqimkhan

رکن
شمولیت
اگست 04، 2015
پیغامات
248
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
70
میں تو شیخ کی تحریروں کا قتیل ہوں. آپ کا قلم بے باک اور جری ہے.
 
Top