ترک تقلید اور ابو بکر غازی پوری از ابو معاذ
محمد ابو بکر غازی پوری (دیوبندی) نے لکھا ہے:
"ترک تقلید اگر للہیت و اخلاص کے ساتھ اختیار کی جائے اور مقصد اس کا محض یہ ہو کہ آدمی صرف وہی بات لینا چاہتا ہے جس کا ثبوت براہ راست کتاب و سنت سے ہے، تو اس کا انکار ہم نہیں کرتے، مگر اس کے لئے ضروری ہے کہ آدمی ان تمام باتوں کو قبول کرے جس کا ثبوت کتاب و سنت سے ہو، یہ نہ ہو کہ ایک خاص فکر ذہن میں پہلے سے موجود ہو اور جو احادیث اور قرآن کی جو آیات اس فکر سے مطابق نظر آئے تو اس کو قبول کر لیا جائے اور ان تمام احادیث و آیات کا انکار کیا جائے یا اس کی بے معنی تاویل کی جائے جو اس خاص فکر اور نقطہ نظر کے خلاف ہو، ایسا کرنا ہمارے نزدیک کتاب و سنت پر عمل کرنا نہیں ہے۔ بلکہ کتاب و سنت کو اپنے خاص فکر کا پابند بنانا ہے، اور اس کا نام ہمارے نزدیک اتباع نفس اور خواہشات نفسانی کی پیروی ہے جو کہ سراسر ضلالت اور گمراہی ہے۔ (حدیث کے بارے میں غیر مقلدین کا معیارِ رد و قبول ص 1)
عرض ہے کہ ہم غیر مقلدین نہیں بلکہ اہلِ حدیث ہیں اور حلفیہ گواہی دیتے ہیں کہ تقلید ہمارے نزدیک کتاب و سنت کے خلاف ہے لہٰذا ہم نے للہیت اور اخلاص کے ساتھ تقلید کو ترک کر دیا ہے اور ہمارا مقصد محض کتاب و سنت (اور اجماع) کی اتباع ہے، ہم اپنے ذہنوں میں کوئی تقلیدی فکر نہیں رکھتے بلکہ تمام صحیح و ثابت دلائل کے پابند ہیں اور اللہ تعالیٰ سے یہ دعا گو ہیں کہ وہ ہمیں اتباع نفس اور خواہشات کی پیروی سے ہمیشہ بچائے۔ آمین۔
ہم کتاب و سنت کا خودتراشیدہ مفہوم نہیں لیتے بلکہ ہر حوالے کے لئے سلف صالحین کے متفقہ فہم کو ترجیح دیتے ہیں اور جب کسی مسئلے میں غلطی ثابت ہو جائے تو علانیہ رجوع کرتے ہیں۔ ہمارے خلاف آپ لوگ جتنا بھی جھوٹا پروپیگنڈا کرتے ہیں۔ اس کا حساب اللہ تعالیٰ کی عدالت میں دینا پڑے گا۔ ان شاء اللہ۔
ماہنامہ الحدیث حضرو: شمارہ: 71