• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ترک رفع الیدین کی مردود روایت

شمولیت
دسمبر 21، 2017
پیغامات
55
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
30
[emoji257] *﷽*[emoji257] :
آل دیوبند کا جھوٹ اور دھوکہ : الیاس گھمن دیوبندی کے جواب میں :
[emoji1543][emoji257] *قسط دوم*[emoji257]
تحریر و تحقیق : *مدثر جمال راز السلَفی البانہالی*

احناف ڈیجیٹل ویب سائٹ پر موجود ترک رفع یدین کے مسلہ پر الیاس گھمن دیوبندی کی تحریر کا رد مضبوط دلائل سے پیشخدمت ہے :
الیاس گھمن دیوبندی نے لکھا : روی الامام الحافظ المحدث أبو جعفر أحمد بن محمد بن سلامة الطحاوي: قال حدثنا ابن ابی داؤد قال حدثنا *نعیم بن حماد* قال ثنا الفضل بن موسی قال ثنا *ابن ابی لیلی* عن نافع عن ابن عمروعن الحکم عن مقسم عن ابن عباس رضی اللہ عنہما عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال ترفع الایدی فی سبع مواطن فی افتتاح الصلوۃ وعند البیت وعلی الصفا والمروۃ وبعرفات وبمزدلفۃ عندالجمرتین۔ وبہ قال حدثنا فہد ثنا الحمانی قال المحاربی عن ابن ابی لیلی عن نافع عن ابن عمر عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم مثلہ، (سنن الطحاوی ج1 ص416باب رفع الیدین عند رؤیۃ البیت، المعجم الکبیر للطبرانی5ص428 رقم الحدیث 11904، صحیح ابن خزیمۃ ج4 ص209 رقم 2703 باب کراہیۃ رفع الیدین عند رؤیۃ البیت)

[emoji257] *جواب* [emoji1543] یہ روایت مردود و باطل ہے *اس روایت کی سند میں چونکہ محمد بن عبدالرحمٰن ابن ابی لیلی جمہور محدثین کے نزدیک شدید مجروح ہے* اسکا جواب جھوٹ اور مغالطے کے طور پر دیتے ہوئے الیاس گھمن دیوبندی نے لکھا " امام ابن ابی لیلی کی جمہور ائمہ نے تعدیل وتو ثیق کی ہے " اور پھر چند اقوال نقل کرکے یہ دھوکہ دینے کی کوشش کی کہ یہ راوی جمہور کے نزدیک ثقہ ہے "
*پہلے گھمن دیوبندی کے اکابرین سے ہی دیکھ لیں پھر فیصلہ کریں کہ کون جھوٹا ہے*
[emoji1543] *انور شاہ کشمیری دیوبندی حنفی نے کہا " فھو ضعیف عندی کما ذھب الیہ الجمھور " فیض الباری 3/168 . وہ میرے نزدیک ضعیف ہے جیسا کہ اسے جمہور ضعیف قرار دیا*
[emoji1543] *محمد یوسف بنوری دیوبندی حنفی نے کہا " الجمھور علی تضعیفہ " معارف السنن 5/590 . جمہور نے اسکی تضعیف کی ہے*[emoji257]
اب قارئین فیصلہ کریں کہ الیاس گھمن کذاب ہے یا پر پھر انور شاہ کشمیری دیوبندی اور محمد یوسف بنوری دیوبندی کذابین ہیں ۔
دیوبندی فکر نہ یہاں پر شاہ صاحب اور بنوری صاحب نے جھوٹ نہیں بولا بلکہ الیاس گھمن نے جھوٹ بول کر اپنے کذاب ہونے کا ثبوت دیا ہے
ہم قارئین کے سامنے ابن ابی لیلی کے بارے میں محدثین کے دونوں طرف کے اقوال رکھ رہے ہیں اب قارئین خود ہی فیصلہ کریں کہ جمہور کس طرف ہیں اب پہلے توثیق پیشخدمت ہے :
1) امام ترمزی رحمہ الله نے انکی حدیث کی تصحیح و تحسین کی ۰
2) امام یعقوب الفسوی رحمہ الله نے کہا "ثقۃ عدل"
3) امام العجلی رحمہ الله نے کہا"صدوق ثقۃ"۰
[emoji777] امام ذھبی رحمہ الله نے کہا : " حديثه في وزن الحسن "( تذکرۃ الحفاظ ج1ص128) ۔
*جبکہ اسکے برخلاف ایک دوسری جگہ ابن ابی لیلی کو امام ذھبی رحمہ الله نے ضعفاء میں ذکر کرکے کہا " صدوق امام *سیئ الحفظ* " المغنی فی الضعفاء 2/227 ت 5723 ، دیوان الضعفاء ت 3821 و میذان الاعتدال 3/613 .
لہذا یہ دونوں اقول تعارض کی وجہ سے ساقط ہیں ۰
[emoji777] حافظ ھیثمی نے ایک جگہ ابن ابی لیلی کے بارے میں کہا " حدیثہ حسن ان شاء الله "
*جبکہ اسکے برخلاف ایک دوسری جگہ امام ھیثمی رحمہ الله نے ابن ابی لیلی کے بارے میں کہا " وھو ضعیف لسوء حفظہ "* مجمع الزوائد ج 1 ح 1372 حدیث 2593 .
*اور کہا " وھو سیئ الحفظ "* مجمع الزوائد ج 2 ص 272 ح 2595 .
[emoji837] لہذا یہ دونوں اقول بھی تعارض کی وجہ سے ساقط ہیں ۰
اگر امام ذھبی و حافظ ھیثمی رحمھم الله کو اگر موثوقین میں شمار کر بھی لیا جائے تو کل ملا کر 5 حوالے بنتے ہیں بعص آئیمہ نے بھی اسے صدوق قرار دیا ہے لیکن اس سے راوی کا ضبط لازم نہیں آتا *اسی لیے جنہوں نے صدوق کہا انہوں نے بھی جرح کر رکھی ہے* میرے علم کے مطابق یہ کُل توثیق ہے جو ابن ابی لیلی کی ہوئی ہے اب جمہور کی جرح پیشخدمت ہے
پہلے علمائے احناف کی گواہی :
1) خلیل احمد سہارنپوری دیوبندی حنفی نے کہا *" کثیر الوھم "* بزل المجھود 3/37 .
*سرفراز خان صفدر دیوبندی نے لکھا " کثیر الغلط کثیر الوھم ہونا جرح مفسر ہے "* اور ایسے راوی کی حدیث مردود روایتوں میں شامل ہے " احسن الکلام ۲/۸۲ ۰
اور لکھا " فاحش الغلط اور *کثیر الوھم وغیرہ کی جرح مفسر ہے* "
احسن الکلام ۲/۱۲۷ ۰
آل دیوبند کے اس پہلے ہی گھریلو حوالے سے ہی یہ ثابت ہوگیا کہ ابن ابی لیلی کی روایات مردود روایتوں میں شامل ہے ۰
2) *طحاوی حنفی نے کہا " مضطرب الحفظ جداََ "*
مشکل الآثار 3/226 .
3) نیموی حنفی نے کہا " لیس بالقوی " آثار السنن حاشیہ حدیث 42 .
4) ابن الترکمانی حنفی نے کہا " متکلم فیہ " الجوھر النقی 7/347 .
5) زیلعی حنفی نے کہا " ضعیف " نصب الرایہ 1/318 .
6) انور شاہ کشمیری دیوبندی حنفی نے کہا " فھو ضعیف عندی کما ذھب الیہ الجمھور " فیض الباری 3/168 . وہ میرے نزدیک ضعیف ہے جیسا کہ اسے جمہور ضعیف قرار دیا .
7) محمد یوسف بنوری دیوبندی حنفی نے کہا " الجمھور علی تضعیفہ " معارف السنن 5/590 . جمہور نے اسکی تضعیف کی ہے .
5 محدثین کی توثیق کے مقابلے میں یہ آل دیوبند کے گھر سے ہی 7 حوالے ہیں یہی سے ثابت ہوجاتا ہے کہ جمہور نے ابن ابی لیلی پر جرح کر رکھی ہے اور ثابت ہوجاتا الیاس گھمن دیوبندی نے جھوٹ بولا ہے

*اب آئیمہ محدثین جرح و تعدیل رحمھم الله سے محمد بن عبدالرحمٰن بن ابی لیلی پر جرح کے اقوال پیشخدمت ہیں* :

1) امام دارقطنی رحمہ الله نے کہا *" ردئ الحفظ کثیر الوھم "*
بد حافظہ والا کثرت سے وہم کا شکار تھا . سنن دارقطنی 2/263 .
اور کہا " *ضعیف الحدیث سیئ الحفظ* " السنن 1/241 .
مزید کہا " کان سیئ الحفظ " کتاب العلل للدارقطنی 3/277 ح 403 .
2) امام بیھقی رحمہ الله نے کہا *" کثیر الوھم "* السنن الکبری 1/24 .
اور کہا " *ضعیف فی الروایۃ لسوء حفظہ و کثرۃ خطائه* " السنن الکبری 5/334 .
3) امام ابن حبان رحمه الله نے کہا *" ردئ الحفظ کثیر الوھم فاحش الخطاء ، یروی الشیئ علی التوھم ویحدث علی الحسبان وکثیر المناکیر فی روایته فاستحق الترک ترکه ، احمد بن حنبل و یحیی بن معین *"
المجروحین لابن حبان 2/244 .
4) امام احمد رحمہ الله نے کہا " *کان سیئ الحفظ مضطرب الحدیث وکان فقہ ابن ابی لیلی احب الینا من حدیثہ ، حدیثہ فیہ اضطراب* " الجرح و التعدیل 7/323 سندہ صحیح .
5) امام جوزجانی رحمہ الله نے کہا " *واھی الحدیث سیئ الحفظ "* احوال الرجال ترجمۃ 86 .
6) امام منذری رحمہ الله نے کہا " ثقۃ *ردئ الحفظ کثیراََ "*
الترغیب 5/525 .
7) امام ابوحاتم الرازی رحمہ الله نے کہا " محلہ الصدق *کان سیئ الحفظ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کثیرۃ الخطاء یکتب حدیثہ ولا یحتج به* "
الجرح التعدیل 7/ 231 سندہ ۰
سرفراز خان صفدر دیوبندی نے لکھا " *کثیر الغلط کثیر الوھم ہونا جرح مفسر ہے اور ایسے راوی کی حدیث مردود روایتوں میں شامل ہے* " احسن الکلام ۲/۸۲
اور لکھا " فاحش الغلط اور *کثیر الوھم وغیرہ کی جرح مفسر ہے* " احسن الکلام ۲/۱۲۷ ۰
مزید لکھا " اصول حدیث میں اس امر کی صراحت ہے کہ *کثیر الغلط ، کثیر الوھم ہونا جرح مفسر ہے اور ایسے راوی کی حدیث مردود روایتوں میں شامل ہوتی ہے* "
احسن الکلام ۲/۹۵ دوسرا نسخہ ۲/۸۵ ۰
آل دیوبند کے اس گھریلو حوالے سے ہی یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ ابن ابی لیلی کی روایات مردود روایتوں میں شامل ہے ۰
8) امام شعبہ رحمہ الله نے کہا " ما رایتُ احدا اسوء احفظا من ابن ابی لیلی " میں نے ابن ابی لیلی سے خراب حافظہ والا کوئی نہیں دیکھا .
9) امام ذائدہ بن قدامه رحمه الله " کان لا یروی عن ابن ابی لیلی وکان *قد ترک حدیثه* " الجرح التعدیل 7/ 231 ، 232 اسنادھما صحیح .
10) امام محمد بن اسحاق السعدی رحمہ الله نے کہا " یستحق ان یترک حدیثه "
المجروحین لابن حبان 2/244 دوسرا نسخہ محققہ 2/251 .
11) سیدنا امام المحدثین محمد بن اسماعیل البخاری رحمه الله نے کہا " ھو صدوق ، ولا اروی عنہ لانہ لا یدری صحیح حدیثہ من سقیمہ، وکل من کان مثل ھذا فلا اروی عنہ شیئاََ " سنن ترمزی ، حدیث 364 و 1715 .
12) امام ابوزرعۃ الرازی رحمہ الله نے کہا " ھو صالح لیس باقوی مایکون "
13) امام یحیی بن سعید رحمہ الله نے بھی ضعیف قرار دیا .
الجرح التعدیل 7/ 231 ، 232 اسنادھما صحیح .
14) امام نسائی رحمہ الله نے کہا " لیس بالقوی فی الحدیث "
کتاب الضعفاء ت 525 .
15) امام ابن عدی رحمہ الله نے کہا " مع *سوء حفظہ* یکتب حدیثه " الکامل 6/2195 .
16) امام ابن شاھین رحمہ الله ذکرہ فی کتاب اسماء الضعفاء و الکذابین ص 169 ت 580 .
17) امام العقیلی رحمہ الله ذکرہ فی کتاب الضعفاء ۰
18) امام ابن الجوزی رحمہ الله ذکرہ فی کتاب الضعفاء .
19) امام بوصیری رحمہ الله نے کہا " ضعیف " اتحاف الخیرۃ المھرۃ 1/478 ح 892 .
اور کہا " ضعفہ الجمھور " زوائد ابن ماجہ ص 181 ح 284 .
20) حافظ ابن حجر رحمہ الله نے کہا " صدوق *سیئ الحفظ* " تقریب التھذیب ترجمہ 6081 .
اور کہا " ضعیف " فتح الباری 4/214 .
21) امام ابن معین رحمہ الله نے کہا " ضعیف " تاریخ عثمان بن سعید الدارمی ص 57 ت 72 .
اور کہا " لیس بذاک " الجرح التعدیل 7/ 231 سندہ صحیح ۰
22) امام نووی رحمہ الله نے کہا " ضعیف " المجموع شرح مھذب 4/286 المکتبۃ الارشاد .
23) امام ابن حزم رحمہ الله نے کہا " سیئ الحفظ " المحلی 7/123 .
24 ) امام البزار رحمه الله نے کہا " لیس بالحافظ "
کشف الاستار 1/251 ح 519 .
25) امام ذھبی رحمہ الله نے ضعفاء میں ذکر کرکے کہا " صدوق امام *سیئ الحفظ* " المغنی فی الضعفاء 2/227 ت 5723 میذان الاعتدال 3/613 .
26) امام ھیثمی رحمہ الله نے کہا " وھو ضعیف لسوء حفظہ " مجمع الزوائد ج 1 ح 1372 و حدیث 2593 .
کشف الاستار 1/251 ح 519 .
27) امام محمد بن طاھر ابن القیسرانی رحمه الله نے کہا " ومحمد ھذا اجمعوا علی ضعفه "
تزکرۃ الحفاظ لابن القیسرانی ص 21 ح 31 و ص 37 ح 67 و ص 226 ح 545 ، 575 .
" اجمعوا علی ضعفه "
تذکرۃ الموضوعات 24 ، 90 .
28) امام ترمزی رحمه الله نے کہا " قد تکلم بعض اھل العلم فی ابن ابی لیلی من قبل حفظہ "
سنن ترمزی حدیث 364 .
29) امام ابن جریر الطبری رحمه الله نے کہا " لایحتج به "
30) امام ابو احمد الحاکم الکبیر رحمه الله نے کہا " عامۃ احادیث مقلوبۃ "
31) امام الساجی رحمه الله نے کہا " کان سیئ الحفظ ۔۔۔۔ فاما فی الحدیث فلم یکن بحجۃ "
32) امام ابن خزیمه رحمه الله نے کہا " لیس بالحافظ واِن کان فقیھاََ عالماََ "
33) امام علی بن عبدالله المدینی رحمه الله نے کہا " کان سیئ الحفظ واھی الحدیث "
تھزیب التھزیب 5/707 .
34) امام ابن کثیر رحمه الله نے کہا " و ابن ابی لیلی ھذا غیر قوی " البدایۃ و النھایۃ 5/152 .
35) امام ابن الملقن رحمه الله نے کہا " قد اتفق اھل الحدیث علی ترک الاحتجاج بروایاته "
بدر المنیر 3/497 .
*اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ ترک رفع یدین پر پیش کی جانے والی یہ روایت بھی باطل و مردود ہے کیونکہ محمد بن عبدالرحمٰن بن ابی لیلی الکوفی حافظے کی شدید خرابی کی وجہ سے روایتِ حدیث میں مجروح و مردود ہے لہذا بقول سرفراز خان اسکی روایتیں مردود قسم کی روایتوں میں شامل ہے جیسا کہ آل دیوبند کے گھر کی گواہی ہم نے پیش کی *" سرفراز خان صفدر دیوبندی نے لکھا " کثیر الغلط کثیر الوھم ہونا جرح مفسر ہے "* اور ایسے راوی کی حدیث مردود روایتوں میں شامل ہے "*
احسن الکلام 2/82 ۰
اس روایت کی سند میں نعیم بن حماد بھی موجود ہیں جنہیں آل دیوبند ثقہ ماننے کے لیے تیار نہیں
بلکہ ابن ابی لیلی کی روایات کا وجود اور عدم وجود برابر ہے ۰
ایسی مردود سند والی روایت کے بارے میں کذاب الیاس گھمن دیوبندی نے لکھ دیا کہ " یہ حدیث حسن درجہ کی ہے اور حجت ہے " لعنۃ الله علی الکاذبین آمین
ایسی گِری ہوئی ذلیل حرکت کذاب الیاس گھمن دیوبندی کو ہی مبارک ہو جب کوئی صحیح روایت نہ ملی تو مردود روایات کو ہی صحیح کہکر عوام کو گمراہ کرنے میں لگ گئے ۰
مزید یہ کہ اس حدیث کی سند میں امام نعیم بن حماد رحمہ الله ہیں جنہیں آل دیوبند خود ہی جھوٹا کہتی ہے لیکن جب اپنا مطلب نکلے تو اسی جھوٹے کی روایت صحیح بن جاتی ہے ۰
الله تعالی آل دیوبند کے دجل و فریب اور شر سے امت مسلمہ کو محفوظ رکھے آمین اللھم آمین

اگر کوئی اعتراض کرے کہ الیاس گھمن کو کذاب کیوں لکھا گیا ہے تو عرض ہے کہ ہم اسے اس پوسٹ میں مضبوط دلائل سے کذاب ثابت کرچکے ہیں اور جس آدمی کا کذب و دجل ثابت ہوجائے تو اسکے بارے میں مطلع کرنا ضروری ہوجاتا ہے تاکہ عوام مزید گمراہ نہ ہو ۔

*مدثر جمال زار السلَفی البانہالی*

Sent from my vivo 1726 using Tapatalk
 
شمولیت
جولائی 22، 2018
پیغامات
637
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
62
یہ احادیث کیسی ہیں؟؟؟
سنن الترمذي :
257 - حَدَّثَنَا هَنَّادٌ قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الأَسْوَدِ، عَنْ عَلْقَمَةَ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ: «أَلَا أُصَلِّي بِكُمْ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَصَلَّى، فَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ إِلَّا فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ» . وَفِي البَابِ عَنْ البَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ. [ص:41] حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ، [ص:42] وَبِهِ يَقُولُ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ العِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالتَّابِعِينَ، [ص:43] وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَأَهْلِ الكُوفَةِ
[حكم الألباني] : صحيح

سنن النسائي :
1058 -: أَخْبَرَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ الْمَرْوَزِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّهُ قَالَ: «أَلَا أُصَلِّي بِكُمْ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَصَلَّى فَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ إِلَّا مَرَّةً وَاحِدَةً»
[حكم الألباني] صحيح

سنن النسائي :
1026 - أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِصَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «فَقَامَ فَرَفَعَ يَدَيْهِ أَوَّلَ مَرَّةٍ ثُمَّ لَمْ يُعِدْ»
[حكم الألباني] صحيح
 
شمولیت
جولائی 22، 2018
پیغامات
637
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
62
اللہ تعالیٰ سے دعاء ہے کہ وہ ہمیں فریب کاروں اور نوسر بازوں سے بچائے۔ آمین یا رب العالمین
 
شمولیت
ستمبر 15، 2018
پیغامات
164
ری ایکشن اسکور
43
پوائنٹ
54
*مسلہ ترک رفع الیدین پر اصحاب رسول ، کبیر تابعین ، صغیر تابعین اور تابع تابعین کا عمل اور امام اعظم و فقہاء کا استدلال* *اور بعد والے اصحاب الحدیث اور ائمہ اربعہ کے اعتراضات کا رد :پارٹ ۱*
*(بقلم : اسد الطحاوی الحنفی البریلوی)*


ہم سے پہلے غیر مقلدین کی اس جہالت کا جواب دیتے ہیں کہ یہ الو ہر جگہ اسٹیکر بازی کرتے ہوئے یہ جہالت بھی اگلتے ہیں کہ رفع الیدین پر امام احمد ، امام شافعی اور امام مالک (جبکہ انکا راجح قول ترک رفع الیدین کا ہے )
کا فتویٰ ہے اور ترک پر صرف امام ابو حنیفہ ہیں اور وہ قیاس کرتے اور احادیث کو رد کرتے تھے اور یہاں بقول انکے تین امام انکے مخالف ہیں اور احادیث بھی بقول انکے متواتر ہیں اور صحیحین میں ہیں تو ثابت ہو گیا امام ابو حنیفہ خطاء پر ہیں اور جب صحیح احادیث ثابت ہو چکی تو امام ابو حنیفہ کی تقلید چھوڑ دینی چاہیے اوراحادیث کو قبول کر لینا چاہیے کیونکہ امام شافعی امام احمد اوربقول انکے امام مالک اور دوسرے اصحاب الحدیث کا بھی یہی منہج ہے بلکہ رفع الیدین پر تو صحابہ ، تابعین اور تابع تابعین کا اجماع ہے
(معلوم نہیں یہ اجماع والی رفع الیدین پر پھکی کس دجالی غیر مقلد کو ملی ہے )
خیر جو بات ہم نے مختصر الفاظ میں اوپر لکھی ہے یہی بات غیر مقلدین کا
ٹھیلے والا ،
سبزی والا ،
موچی ،
نئی ،
خطیب ،
مسجد کا امام ،
موذن،
قاری ،
محقق،
محدث (بقول انکے )
اسکالر
مفسر ،
یہاں تک کہ جتنے غیر کے مقلدین جو پلاسٹکی مجتہد ، محدث ، مفکر ، مفسر محقق بودن گھامڑ سب کا یہی ایک رٹہ ہوتا ہے جو اوپر آپ پڑھ آئے ہیں ، اور یہی انکا رٹہ اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ سارے ایک ٹکے کے غیر مقلد گلی نکر کے مجتہد رٹے میں بھی تقلید کرتے ہیں اور نعرے انکے غیر مقلدیت کے ہوتے ہیں

اب اس جہالت بھرے اعتراض کا ہم احادیث رسولﷺ، اثار صحابہؓ، فتاویٰ کبیر و صغیر تابعینؓ اور تابع تابعین ؒسے پیش کرتے ہیں کہ انکے نزدیک رفع الیدین کرنا سنت تھا یا ترک کرنا ؟
نیز کیا اس کے نہ کرنے پر واقعتا اجماع کا ثبوت ملتا ہے ؟ کہ جمہور اہل علم رفع الیدین کے ترک پر متفق تھے
سب سے پہلے ہم یہ بات بتا دیں امام اعظم و صاحبین کے اجتیہاد کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ جن دلائل کو وہ منتخب کرتے تھے احادیث اور اثار میں ان میں بھی وہ ترجیح ان احادیث اور اثار صحابہ کو دیتے جسکی سند میں زیادہ تر فقیہ راوی ہوں

کیونکہ جو فقیہ راوی ہوتا ہے وہ ہر قسم کی روایت بیان نہیں کرتا بلکہ وہ ہمیشہ شاز ، منکر اور منسوخ روایات کو بیان کرنے سے پرہیز کرتا ہے جبکہ فقیہ ، مجتہد ، عالم راوی فقط وہی روایت ہی بیان کرتے ہیں عام طور پر جن پر عمل متواترہ سے ہو یا جمہور اہل علم کا اس روایت پر عمل ہو یا جو اپنے مخالف متن کی روایت کی ناسخ ہو کیونکہ فقیہ راوی ہر قسم کی روایت بیان کرتے سے پرہیز کرتے ہیں

اور فقیہ اکثر روایات بیان ہی وہی کرتے ہیں جن پر انکے دلائل کی عمارت کھڑی ہوتی ہے

امام اعظم نے جس روایت کو ترک رفع الیدین کے مسلے میں حجت بنایا وہ روایت فقیہ امت ، مجتہد مطلق حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی حدیث ہے جو کہ اس امت کے قرآن اور سنت نبوی کے عالم تھے

سوال یہ ہے کہ جو اثبات رفع الیدین کی روایات ہیں جو امام ابو حنیفہ کے شاگردوں کے شاگرد امام شافعی ، پھر انکے شاگرد امام احمد ، پھر انکے شاگرد امام بخاری و مسلم و ابی داود تک پہنچ چکی تھیں اور جن روایات سے انہوں نے اثبات رفع الیدین پر استدلال کیا وہیں روایات ضرور بلضرور امام اعظم اور صاحبین تک بھی پہنچی تھیں تو امام اعظم و صاحبین نے ترک رفع الیدین ہی پر اکتفاء کیوں کیا ؟ انہوں نے باقی روایات پر حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی حدیث کو ترجیح کیوں دی؟


اسکا جواب ہم اللہ کے فضل سے دینے کی کوشش کرتے ہیں

سب سے پہلے ہم حضرت عبداللہ بن مسعودؒ کی سند کو دیکھتے ہیں :

حدثنا وکیع عن سفیان عن عاصم بن کلیب عن عبدالرحمن بن الاسود عن علقمہ قال : قال عبداللہ بن مسعود بلخ۔۔۔

پھر آگے حضرت ابن مسعودؒ فرماتے ہیں کہ کیا میں تم کو جناب رسول الکرمﷺ کی نماز نہ پڑھ کر دیکھاوں ؟
پھر راوی بیان کرتے ہیں کہ وہ سوائے شروع کے پھر رفع الیدین نہ کیا حتیٰ کہ نماز سے فارغ ہو گئے


اس کی سند پر اعتراض محدثین ،شارحین اور مجتہدین میں سے کسی نے کیا ہی نہیں ہے
یہ بیماری سب سے پہلے زبیر زئی کے بھوسے میں پلنے والے ایک کیڑے کی وجہ سے رونما ہوئی تھی جسکو یہ شیطانی خیال آیا اور امیر المومنین امام سفیان الثوری پر تدلیس کا بہانہ بنا کر چڑھ دوڑا جس پر اسکے اپنے شیوخ نے اسکی اچھی بھلی درگت بنا دی تھی


خیر مقصد یہ تھا کہنے کا کہ اسکی سند پر کسی کو نہ تدلیس کا اعتراض متقدمین سے متاخرین تک تھا نہ کسی راوی پر
بلکہ امام اعظم اور انکے اصحاب کے بعد جب امام شافعی ، امام احمد و بخاری کا دور آیا تو کسی نے سفیان الثوری کا وھم بنا دیا
کسی نے سفیان سے اثق کسی اور راوی کو ترجیح دی وغیرہ وغیرہ
جنکا جواب احناف کے محدثین و مفسرین دلائل سے دیتے آرہے ہیں لیکن یہ تحریر اس مسلے پر نہیں ہے

اس کی سند میں ایک راوی
سفیان الثوری
جو امام اعظم کے ہمر عصر فقیہ لیکن ثبت محدث تھے
اور دوسرے اصحاب ابن مسعودؒ میں سے
یعنی امام علقمہ

سب سے پہلے ان ددونوں حضرات کے عمل کو دیکھ لیتے ہیں
امام سفیان الثوری کے بارے میں امام ترمذی ترک رفع الیدین کی روایت درج کرنے کے بعد کہتے ہیں امام سفیان الثوری کا بھی یہی قول ہے (یعنی نماز میں سوائے شروع کے پھر رفع الیدین نہیں کرنا چاہیے )

امام ابن ابی شیبہ اپنی مصنف میں ایک باب قائم کرتے ہیں : کہ وہ حضرات جو سوائے شروع میں پھر نماز میں رفع الیدین نہ کرتے تھے
پھر یہ روایت اپنی سند لا باس بہ سے لاتے ہیں :

- حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ شَرِيكٍ، عَنْ جَابِرٍ، عَنِ الْأَسْوَدِ، وَعَلْقَمَةَ، «أَنَّهُمَا كَانَا يَرْفَعَانِ أَيْدِيَهُمَا إِذَا افْتَتَحَا ثُمَّ لَا يَعُودَانِ»
(مصنف ابن ابی شیبہ)
امام وکیع شریک (لین الحدیث مگر جید فقیہ مجتہد) سے وہ جابر سے روایت کرتے ہیں کہ الاسود اور علقمہ یعنی یہ اصحابہ عبداللہ بن مسعود نماز میں پہلی رفع الیدین کے بعد پھر رفع الیدین کی طرف نہ لوٹتے

اسکا مطلب جو یہ الاسود و علقمہ ابن مسعود سے روایت بیان کرتے ہیں اسی روایت سے یہ احتجاج کرتے ہوئے اپنی نمازوں میں ترک رفع الیدین پر عمل کرتے تھے

کوئی سند میں شریک کی وجہ سے بہانا بنائے تو اسکا رد بھی کردیتے ہیں :

امام ابن ابی شیبہ اسی باب میں ایک سند جید صحیح سے بروایت ثقات ایک اور روایت لاتے ہیں :

2446 - حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، وَأَبُو أُسَامَةَ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، قَالَ: «كَانَ أَصْحَابُ عَبْدِ اللَّهِ وَأَصْحَابُ عَلِيٍّ، لَا يَرْفَعُونَ أَيْدِيَهُمْ إِلَّا فِي افْتِتَاحِ الصَّلَاةِ، قَالَ وَكِيعٌ،، ثُمَّ لَا يَعُودُونَ»
(مصنف ابن ابی شیبہ)
امام وکیع اور امام ابو سامہ امام شعبہ (جو خود مسائل میں امام اعظم کی طرف رجوع کرتے ) وہ ابی اسحاق السبیعی(جو صحیحین کے متفقہ جید راوی الحدیث اور بڑے فقیہ تھے اور کثیر صحابہ کے شاگرد ہیں )
وہ فرماتے ہیں :
کہ حضرت عبداللہ بن مسعوؓ اور حضرت مولا علی علیہ السلام کے اصحاب نماز کے شروع کے علاوہ رفع الیدین نہ کرتے تھے ، اور وکیع نے ان الفاظ سے کہا کہ پھر رفع الیدین نہ کرتے تھے

حدیث بن مسعود کے راویان سمیت یہ تو ثابت ہو کہ ابن مسعود ؒ اور انکے اصحاب ترک رفع الیدین کے قائل تھے
لیکن حضرت مولا علی کے اصحاب کیوں ترک رفع الیددین کے قائل تھے ؟
اسکا جواب بھی دیتے ہیں

امام ابن ابی شیبہ نے اسی ہی باب میں اپنی سند صحیح سے روایت کرتے ہیں :

2442 - حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قِطَافٍ النَّهْشَلِيِّ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، «أَنَّ عَلِيًّا، كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاةَ، ثُمَّ لَا يَعُودُ»

امام عاصم بن کلیب (جو ابن مسعود کی ترک رفع الیدین کی روایت کے راوی ہیں ) وہ اپنے والد سے بیان کرتے ہیں :
کہ حضرت علی علیہ السلام نماز کے شروع میں رفع الیدین کرتے پھر نہ کرتے (و سند صحیح رجال ثقات)

معلوم ہوا کہ مولا علی علیہ السلام اور انکے اصحاب جو کہ گننے میں بھی شمار نہیں ہو سکتے اور حضرت عبداللہ بن مسعود کے اصحاب جنکی گنتی بھی نا ممکن ہیں وہ سب کے سب ترک رفع الدین کے قائل تھے
اور کیوں قائل نہ ہوتے جب مولا علی جیسی ہستی اور حضرت ابن مسعود جیسا قرآن کا مفسر کا عمل ایسا ہو

دوسری مزے کی بات یہ قول بیان کرنے والے کون تھے ؟؟؟

جی یہ قول بیان کرنے والے صحیحین کے متفقہ علیہ ثقہ جید مجتہد راوی امام ابو اسحاق البیعی ہیں
اور امام سبیقی چونکہ مجتہد اور حضرت علی کے اصحاب سمیت کئی دیگر اصحاب رسول کے شاگرد خاص ہیں
اور یہ قول انکا ہے
اور اگر یہ قول انکا ہے تو پھر انکا عمل کیا ہوگا ؟؟؟

تو انکا عمل بھی پیش کرتے ہیں :
اب پھر امام ابن ابی شیبہ کی ہی روایت پیش کرتے ہیں باسند صحیح :

2454 - حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، عَنْ حَسَنِ بْنِ عَيَّاشٍ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبْجَرَ، عَنِ الزُّبَيْرِ بْنِ عَدِيٍّ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ الْأَسْوَدِ، قَالَ: «صَلَّيْتُ مَعَ عُمَرَ، فَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ فِي شَيْءٍ مِنْ صَلَاتِهِ إِلَّا حِينَ افْتَتَحَ الصَّلَاةَ»

امام الاسود (وہی راوی ہیں جو اصحاب ابن مسعود میں سے ہیں اور یہ ترک رفع الیدین پر عمل کرتے تھے )
وہ فرماتے ہیں : کہ میں نے حضرت عمر ؓ کے ساتھ نماز پڑھی وہ کہیں بھی رفع الیدین نہیں کرتے تھے نماز میں سوائے شروع کے

اس روایت کو بیان کرنے کے بعد امام ابن ابی شیبہ اس حدیث کے راوی عبدالملک جس سے متصل سند سے مروی یہ روایت بیان کی اسکے بعد انکا یہ قول بیان کرتے ہیں :
قَالَ عَبْدُ الْمَلِكِ: «وَرَأَيْتُ الشَّعْبِيَّ، وَإِبْرَاهِيمَ، وَأَبَا إِسْحَاقَ، لَا يَرْفَعُونَ أَيْدِيَهُمْ إِلَّا حِينَ يَفْتَتِحُونَ الصَّلَاةَ»

کہ میں نے امام الشعبیٰ ، امام ابراہیم النخعی اور امام ابو اسحاق السبیعی کو دیکھا کہ وہ کہیں بھی رفع الیدین نہ کرتے نماز میں سوائے افتتاح کے

تو معلوم ہوا : امام ابو اسحاق السبعی جو کہ صحیحین کے کہ متفقہ جید راوی ثقہ ثبت اور مجتہد اور کثیر صحابہ کے شاگرد ہیں وہ رفع الیدین نہ کرتے

لیکن یہ کیا ہم تو ریوڑی کی تلاش میں تھے اور مل گیا رس گلہ!!!
J

یعنی امام ابی اسحاق السبعی کا عمل تو تھا ہی لیکن امام الشعبی جو حضرت عمر کے دور میں پیدا ہوئے تھے اور 500 اصحاب رسول سے انکا سماع ہے (اور یاد رہے امام اعظم ابو حنیفہ جیسا مجتہد بھی انکا شاگرد جا بنا تھا )
اور انکے ساتھ ابراہیم النخعی جو اصحاب ابن مسعود کے شاگرد تھے اور کوفہ میں ان جیسا کوئی فقیہ مجاہد نہ پیدا ہوا تھا
اور انکے شاگرد امام حماد بن ابی سلیمان ، اور انکے شاگرد جا کر امام اعظم ابو حنیفہ ؒ بنے تھے


تو چونکہ امام ابو اسحاق ،امام شعبی اور امام ابراہیم النخعی سوائے شروع کے پھر نماز میں رفع الیدین نہیں کرتے تھے
کیوں نہ سب سے پہلے کا بھی تعارف کروایا جائے کہ یہ کتنی بڑی علمی شخصیات تھے

۱۔ امام الشعبیٰ انکا تعارف کرتے ہوئے امام ذھبی ؒ سیر اعلام میں فرماتے ہیں :

113 - الشعبي عامر بن شراحيل بن عبد بن ذي كبار
وذو كبار: قيل من أقيال اليمن، الإمام، علامة العصر، أبو عمرو الهمداني، ثم الشعبي.
مولده: في إمرة عمر بن الخطاب، لست سنين خلت منها، فهذه رواية.
وعن أحمد بن يونس: ولد الشعبي سنة ثمان وعشرين
وقال محمد بن سعد : هو من حمير، وعداده في همدان.
قلت: رأى عليا -رضي الله عنه- وصلى خلفه.
وسمع من: عدة من كبراء الصحابة.
وحدث عن: سعد بن أبي وقاص، وسعيد بن زيد، وأبي موسى الأشعري، وعدي بن حاتم، وأسامة بن زيد، وأبي مسعود البدري، وأبي هريرة، وأبي سعد، وعائشة، وجابر بن سمرة، وابن عمر، وعمران بن حصين، والمغيرة بن شعبة، وعبد الله بن عمرو، وجرير بن عبد الله، وابن عباس، وكعب بن عجرة، وعبد الرحمن بن سمرة، وسمرة بن جندب، والنعمان بن بشير، والبراء بن عازب، وزيد بن أرقم، وبريدة بن الحصيب، والحسن بن علي، وحبشي بن جنادة، والأشعث بن قيس الكندي، ووهب بن خنبش الطائي، وعروة بن مضرس، وجابر بن عبد الله، وعمرو بن حريث، وأبي سريحة الغفاري، وميمونة، وأم سلمة، وأسماء بنت عميس، وفاطمة بنت قيس، وأم هانئ، وأبي جحيفة السوائي، وعبد الله بن أبي أوفى، وعبد الله بن يزيد الأنصاري، وعبد الرحمن بن أبزى، وعبد الله بن الزبير، والمقدام بن معد يكرب، وعامر بن شهر، وعروة بن الجعد البارقي، وعوف بن مالك الأشجعي، وعبد الله بن مطيع بن الأسود العدوي، وأنس بن مالك، ومحمد بن صيفي،
وغير هؤلاء الخمسين من الصحابة
امام شعبیٰ یہ حضرت عمر بن خطاب کے دور میں ۲۱ ھ کو پیدا ہوئے
اسکے بعد امام ذھبی کہتے ہیں : میں کہتا ہون انہوں نے حضرت علی کو پایا ہے اور ان کے پیچھے نماز پڑھی ہے
اور کئی عدد کبیر صحابہ سے سماع کیا ہے پھر اسکے بعد امام ذھبی کثیر صحابہ جو جلیل القدر اور مشہور و معروف صحابہ تھے اسکے بعد لھکتے ہیں وغير هؤلاء الخمسين من الصحابة کہ یہ ۵۰ صحابہ کرام ہیں
آگے امام ذھبی ابن عساکر کے حوالے سے سند کے ساتھ نقل کرتے ہین :
روى: عقيل بن يحيى، حدثنا أبو داود، عن شعبة، عن منصور الغداني، عن الشعبي، قال:
أدركت خمس مائة صحابي، أو أكثر، يقولون: أبو بكر، وعمر، وعثمان، وعلي
امام شعبیٰ فرماتے ہیں : کہ میں نے پانچ سو صحابہ رضی اللہ عنہم کو پایا یعنی ان سے ملاقات کی۔

اسکے بعد امام ذھبی الفسوی کے حوالے سے صحیح سند سے لکھتے ہیں :
الفسوي في (تاريخه (4)) : حدثنا الحميدي، حدثنا سفيان، حدثنا ابن شبرمة، سمعت الشعبي يقول:
ما سمعت منذ عشرين سنة رجلا يحدث بحديث إلا أنا أعلم به منه، ولقد نسيت من العلم ما لو حفظه رجل لكان به عالما.
امام حمیدی سفیان سے اور وہ امام شعبی سے سنا ہے کہ : امام شعبی کہتے
کہ میں نے بیس سال کے عرصہ میں کسی سے کوئی ایسی نئی حدیث نہیں سنی کہ اس سے بیان کرنے والے سے زیادہ واقف نہ رہا ہوں

پھر امام ابن عساکر کے حوالے سے نقل کرتے ہیں
قال ابن ابی لیلیٰ : كان إبراهيم صاحب قياس، والشعبي صاحب آثار
امام ابن ابی لیلیٰ کہتے تھے کہ ابراہیم النخعی صاحب قیاس یعنی مجتہد تھے اور امام شعبیٰ صاحب آثار یعنی آثار صحابہ کے بڑے عالم ہیں

اور امام شعبیٰ کی وفات ۱۰۳ سے ۱۰۹ ھ کے درمیان وفات ہوئی
(سیر اعلام النبلاء)

امام ذھبی انکا ذکر تذکرہ حفاظ میں یوں کرتے ہیں :
76- 11/ 3ع- الشعبي علامة التابعين أبو عمرو عامر بن شراحيل الهمداني الكوفى من شعب همدان: مولده في أثناء خلافة عمر في ما قيل كان إماما حافظا فقيها متفننا ثبتا متقنا وكان يقول: ما كتبت سوداء في بيضاء وروى عن علي فيقال مرسل وعن عمران بن حصين وجرير بن عبد الله وأبي هريرة وابن عباس وعائشة وعبد الله بن عمر وعدى بن حاتم والمغيرة بن شعبة وفاطمة بنت قيس وخلق وعنه إسماعيل بن أبي خالد وأشعث بن سوار وداود بن أبي هند وزكريا بن أبي زائدة ومجالد بن سعيد والأعمش وأبو حنيفة وهو أكبر شيخ لأبي حنيفة وابن عون ويونس بن أبي إسحاق والسرى بن يحيى وخلق قال أحمد العجلي مرسل الشعبي صحيح لا يكاد يرسل الا صحيحا.

الشعبی تابعین میں علامہ تھے یہ حضرت عمر کے دور خلافت میں ۲۱ھ کو پیدا ہوئے یہ امام حافظ فقیہ یعنی مجتہد متقن ثبت تھے انہوں نے حضرت علی ، عمران بن حصین، جریر بن عبداللہ ، ابی ھریرہ، ابن عباس ، حضرت عائشہ ، عبداللہ بن عمر ، عدی بن حاتم ، مغیرہ بن شعبہ سے روایت کیا ہے
اور ان سے روایت کرنے والے امام ابی حنیفہ یہ اما م ابو حنیفہ کے بڑے کبیر شیخ تھے ، اور ابن عون ، یونس بن ابی اسحاق ، وغیرہ ہیں
اور امام عجلی کہتے ہیں شعبی کی مراسل صحیح کے علاوہ روایت نہ کرتے
(تذکرہ الحفظ امام ذھبی)


۲۔ امام ابو اسحاق السبیعی
انکا ترجمہ بیان کرتے ہوئے امام ذھبیؒ سیر اعلام النبلاء میں فرماتے ہیں :
کہ یہ اجلہ تابعین میں سے ہیں یہ کوفی حافظ عالم و محدث ہیں اور یہ حضرت عثمان بن عفان ؓ کی خلافت دور میں پیدا ہوئے تھے اور انہوں نے مولا علی کو دیکھا بھی ہے اور ان سے روایت بھی کیا ہے

- أبو إسحاق السبيعي عمرو بن عبد الله * (ع)
ابن ذي يحمد.
وقيل: عمرو بن عبد الله بن علي الهمداني، الكوفي، الحافظ، شيخ الكوفة، وعالمها، ومحدثها، لم أظفر له بنسب
متصل إلى السبيع، وهو من ذرية سبيع بن صعب بن معاوية بن كثير بن مالك بن جشم بن حاشد بن جشم بن خيران بن نوف بن همدان.
وكان -رحمه الله- من العلماء العاملين، ومن جلة التابعين.
قال: ولدت لسنتين بقيتا من خلافة عثمان، ورأيت علي بن أبي طالب يخطب.

اسکے بعد آگے امام ذھبیؒ نے انکے ان شیوخ کا ذکر کیا جو اصحاب رسولﷺ تھے

وروى عن: معاوية، وعدي بن حاتم، وابن عباس، والبراء بن عازب، وزيد بن أرقم، وعبد الله بن عمرو بن العاص، وأبي جحيفة السوائي، وسليمان بن صرد، وعمارة بن رويبة الثقفي، وعبد الله بن يزيد الأنصاري، وعمرو بن الحارث الخزاعي، وغيرهم من أصحاب رسول الله -صلى الله عليه وسلم-.
ورأى أيضا: أسامة بن زيد النبوي.
وقرأ القرآن على: الأسود بن يزيد، وأبي عبد الرحمن السلمي.
وكان طلابة للعلم، كبير القدر.

اسکے بعد انکے غیر اصحاب رسول شیوخ کے نام لکھتے ہیں :
وروى أيضا عن: علقمة بن قيس، ومسروق بن الأجدع، والضحاك بن قيس الفهري، وعمرو بن شرحبيل الهمداني، والحارث الأعور، وهبيرة بن يريم، وشمر بن ذي الجوشن، وعمر بن سعد الزهري، وعبيدة بن عمرو السلماني، وعاصم بن ضمرة، وعبد الله بن عتبة بن مسعود، وعمرو بن ميمون الأودي، وصلة بن زفر العبسي، وسعيد بن وهب الخيواني، وعبد الرحمن بن أبزى الخزاعي، وحارثة بن مضرب، وعبد الله بن معقل، وصلة بن زفر، وأبي الأحوص عوف بن مالك، ومسلم بن نذير، والأسود بن هلال، وشريح القاضي، وأبي عبيدة بن عبد الله بن مسعود الهذلي، وكميل بن زياد النخعي، والمهلب بن أبي صفرة الأمير، والأسود بن هلال المحاربي، وخلق كثير من كبراء التابعين.
اسکے بعد انکے شاگردوں کے نام لکھتے ہیں :


حدث عنه: محمد بن سيرين - وهو من شيوخه - والزهري، وقتادة، وصفوان بن سليم - وهم من أقرانه - ومنصور، والأعمش، وزيد بن أبي أنيسة، وزكريا بن أبي زائدة، ومسعر، وسفيان، ومالك بن مغول، وشعبة بن الحجاج، وولده؛ يونس بن أبي إسحاق، وحفيده؛ إسرائيل، وزائدة بن قدامة، وإسماعيل بن أبي خالد، وأشعث بن سوار، والمسعودي، وعمار بن زريق، والحسين بن واقد، والحسن بن صالح بن حي، وإبراهيم بن طهمان، وأبو وكيع الجراح بن مليح، وجرير بن حازم، وحمزة الزيات، وفطر بن خليفة، وورقاء بن عمر، وشعيب بن صفوان، وشعيب بن خالد، ورقبة بن مصقلة، وزهير بن معاوية، وأخوه؛ حديج بن معاوية، وأبو عوانة الوضاح، وشريك القاضي، وأبو الأحوص سلام بن سليم، وأبو بكر بن عياش، وسفيان بن عيينة، وخلق كثير.
وهو: ثقة، حجة بلا نزاع.
وقد كبر وتغير حفظه تغير السن، ولم يختلط.

جیسا کہ دیکھا جا سکتا ہے کیسے بڑے میں ائمہ حدیث جیسا کہ امام شعبہ ، امام ابو بکر بن عیاش ، سفیان بن عینہ ، شریک القاصی ، وکیع بن الجرح ، الحسین بن واقد ، زھیر بن معاویہ ،
یونس بن ابی اسحاق (یہ ابو اسحاق کے بیٹے ہیں )
وغیرہ وغیرہ !!!


۳۔ حضرت ابراہیم النخعی
امام ذھبی انکا ترجمہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
213 - إبراهيم النخعي أبو عمران بن يزيد بن قيس * (ع)
الإمام، الحافظ، فقيه العراق، أبو عمران إبراهيم بن يزيد بن قيس بن الأسود بن عمرو بن ربيعة بن ذهل بن سعد بن مالك بن النخع (2) النخعي، اليماني، ثم الكوفي، أحد الأعلام.
وهو ابن مليكة؛ أخت الأسود بن يزيد.
روى عن: خاله، ومسروق، وعلقمة بن قيس، وعبيدة السلماني، وأبي زرعة البجلي، وخيثمة بن عبد الرحمن، والربيع بن خثيم، وأبي الشعثاء المحاربي، وسالم بن منجاب، وسويد بن غفلة، والقاضي شريح، وشريح بن أرطاة، وأبي معمر عبد الله بن سخبرة، وعبيد بن نضيلة، وعمارة بن عمير، وأبي عبيدة بن عبد الله، وأبي عبد الرحمن السلمي، وخاله؛ عبد الرحمن بن يزيد، وهمام بن الحارث، وخلق سواهم من كبار التابعين.
ولم نجد له سماعا من الصحابة المتأخرين الذين كانوا معه بالكوفة كالبراء، وأبي جحيفة، وعمرو بن حريث.
وقد دخل على أم المؤمنين عائشة وهو صبي، ولم يلبث له منها سماع، على أن روايته عنها في كتب أبي داود، والنسائي، والقزويني، فأهل الصنعة يعدون ذلك غير متصل مع عدهم كلهم لإبراهيم في التابعين، ولكنه ليس من كبارهم.

اسکے بعد امام ذھبی فرماتے ہیں : وہ علم کی بہت بصیرت رکھنے والے تھے جو ابن مسعود سے مروی تھا انکی روایات کے زریعے اور یہ بہت بڑے بڑی شان والے فقیہ تھے
یہ کبار تابعین سے روایت کرنے والے ہیں لیکن انہوں نے کثیر صحابہ کو تو نہیں دیکھا البتہ البراء ، ابو حجیفہ اور عمرو بن الحارث کے
اور امام ابن معین فرماتے ہیں ابراہیم النخعی کی مراسیل مجھے امام شعبی کی مراسیل سے زیادہ پسند ہیں

وكان بصيرا بعلم ابن مسعود، واسع الرواية، فقيه النفس، كبير الشأن، كثير المحاسن - رحمه الله تعالى -.
روى عنه: الحكم بن عتيبة، وعمرو بن مرة، وحماد بن أبي سليمان - تلميذه - وسماك بن حرب، ومغيرة بن مقسم - تلميذه - وأبو معشر بن زياد بن كليب، وأبو حصين عثمان بن عاصم، ومنصور بن المعتمر، وعبيدة بن معتب، وإبراهيم بن مهاجر، والحارث العكلي، وسليمان الأعمش، وابن عون، وشباك الضبي، وشعيب بن الحبحاب، وعبيدة بن معتب (1) ، وعطاء بن السائب، وعبد الرحمن بن أبي الشعثاء المحاربي، وعبد الله بن شبرمة، وعلي بن مدرك، وفضيل بن عمرو الفقيمي، وهشام بن عائذ الأسدي، وواصل بن حيان الأحدب، وزبيد اليامي، ومحمد بن خالد الضبي، ومحمد بن سوقة، ويزيد بن أبي زياد، وأبو حمزة الأعور ميمون، وخلق سواهم.
قال أحمد بن عبد الله العجلي: لم يحدث عن أحد من أصحاب النبي -صلى الله عليه وسلم- وقد أدرك منهم جماعة، ورأى عائشة.
وكان مفتي أهل الكوفة هو والشعبي في زمانهما، وكان رجلا صالحا، فقيها، متوقيا، قليل التكلف وهو مختف من الحجاج.
روى: أبو أسامة، عن الأعمش، قال: كان إبراهيم صيرفي الحديث (2) .
وروى: جرير، عن إسماعيل بن أبي خالد، قال:
كان الشعبي، وإبراهيم، وأبو الضحى يجتمعون في المسجد يتذاكرون الحديث، فإذا جاءهم شيء ليس فيه عندهم رواية، رموا إبراهيم بأبصارهم (1) .
قال يحيى بن معين: مراسيل إبراهيم أحب إلي من مراسيل الشعبي.

(سیر اعلام النبلاء )

تو معلوم ہوا جو حضرت عمر ، حضرت ابن مسعود ، حضرت مولا علی سمیت ۵۰۰ صحابہ کرام کے پیچھے نمازیں پڑھیں اور خلفاء کے دور میں پید ا ہوئے وہ تو رفع الیدین کرتے ہی نہیں تھے
اگر انہوں نے کچھ صحابہ کو دیکھا ہوتا کرتے تو کبھی کبھار کرتے کبھی نہ کرتے بلکہ وہ تو کہتے ہیں کہ نماز میں کہیں بھی رفع الیدین نہیں سوائے شروع کے
اور پھر خود بھی ایسی نمازیں پڑھتے

حضرت ابراہیم النخعی کے سامنے رفع الیدین کے اثبات کی دلیل پیش کی جاتی تو وہ کیا جواب دیتے :
احناف کے فخر اعظیم محدث و فقیہ بے مثل امام ابو جعفر الطحاوی اپنی تصنیف شرح معانی الاثار میں باسند صحیح روایت لاتے ہیں :

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوُد، قَالَ: حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا حُصَيْنٌ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، قَالَ: دَخَلْت مَسْجِدَ حَضْرَمَوْتَ، فَإِذَا عَلْقَمَةُ بْنُ وَائِلٍ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ قَبْلَ الرُّكُوعِ، وَبَعْدَهُ۔ فَذَكَرْت ذَلِكَ لِإِبْرَاهِيمَ فَغَضِبَ وَقَالَ رَآهُ هُوَ وَلَمْ يَرَهُ ابْنُ مَسْعُودٍ رضي الله عنه وَلاَ أَصْحَابُهُ
(شرح معانی الاثار : برقم: ۱۳۵۱)

سفیان مغیرہ سے بیان کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ میں نے ابراہیم نخعی سے کہاکہ وائل بن حجرکی روایت میں ہےکہ میں نے جناب رسول اﷲﷺ کو نماز شروع کرتےاوررکوع میں جاتےاوررکوع سےسراٹھاتےہوئےرفع یدین کرتےدیکھاتو
امام ابرہیم النخعی نے جواب دیا،
اگروائلؓ نے آپﷺ کو ایک مرتبہ ہاتھ اٹھاتے دیکھا ہے تو ابن مسعودؓ نے جناب رسول اﷲﷺ کو پچاسوں مرتبہ ہاتھ نہ اٹھاتے دیکھا

یعنی کہ امام ابراہیم الںخعی جو شاگرد خاص ہیں امام شعبیٰ کے (امام شعبی کے شاگرد امام ابو حنیفہ بھی ہیں )
اور امام شعبیٰ شاگرد خاص ہیں حضرت علی اور 500 صحابہ کے وہ انے سے فیض یافتہ فقیہ ابراہیم النخعی نے وائل بن حجر کی روایت کے مقابلے فرمایا کہ اگر وہ صحابی رسول نے نبی کو ایک بار رفع الیدین کرتے دیکھا ہے تو حضرت جناب عبداللہ بن مسعود ؓ نے 50 بار نبی پاک ﷺ کو رفع الیدین کو ترک کرتے ہوئے نماز پڑھتے دیکھا ہے

اور حضرت ابراہیم النخعی نے یہ بات اس لیے کہی کہ ان تک اصحاب ابن مسعود جنکی تعداد بھی ہم نہین گن سکتے سب نے ترک رفع الیدین کی روایت بیان کی اور ابن مسعود وہ صحابہ رسول ہیں جو اول اسلام لانے والے صحابہ میں شمار ہیں اور یہ نبی پاک کےساتھ ہر مشکل و جنگ ، امن ہر ماحول میں نبی کریم کے ساتھ رہے
اور جب انکا عمل یہ ہے تو وائل بن حجر جو شاز ناظر نبی کریم کو کو پایا انکی بات کیسے مانی جا سکتی ہے ؟

اسی طرح یہی بات امام ابراہیم النخعی سے ایک اور متن سے بھی امام طحاوی نے پیش کی ہے جیسا کہ :

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوُد، قَالَ: حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا حُصَيْنٌ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، قَالَ: دَخَلْت مَسْجِدَ حَضْرَمَوْتَ، فَإِذَا عَلْقَمَةُ بْنُ وَائِلٍ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ قَبْلَ الرُّكُوعِ، وَبَعْدَهُ۔ فَذَكَرْت ذَلِكَ لِإِبْرَاهِيمَ فَغَضِبَ وَقَالَ رَآهُ هُوَ وَلَمْ يَرَهُ ابْنُ مَسْعُودٍ رضي الله عنه وَلاَ أَصْحَابُهُ

حضر موت‘‘ کی مسجد میں گیا، وہاں حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے حضرت علقمہ اپنے والد گرامی کے حوالے سے یہ حدیث سنا رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع سے قبل ،اور بعد از رکوع رفع الیدین کیا کرتے تھے۔ تو یہ حدیث سن کر میں ابراہیم النخعی کے پاس آیا اور یہ حدیث سنا کر اس کے متعلق ان سے پوچھا۔ تو وہ یہ حدیث سن کر غصہ میں آگئے۔ اور کہنے لگے کہ: وائل بن حجر ؓ نےرسول اﷲﷺ کو دیکھ لیا اورعبد اللہ بن مسعود ؓ اوران کے ساتھی نہ دیکھ سکے


یہ تو تھے بالکل ہی مختصر وجوحات جسکی بنیاد پر ترجیح دی گئی حدیث حضرت عبداللہ بن مسعود کی روایت کو

اور ہاں یاد رہے جن محدثین و فقیہ سے ترک رفع الیدین کی ترجیح اور احادیث کے موافق انکا عمل اور استدلال بیان کیا گیا ہے

اس وقت ترک رفع الیدین کی احادیث کو ضعیف قرار دینے والے محدثین ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے تھے

جیسا کہ امام بخاری ، امام احمد ، امام شافعی ، امام ابن حبان ، امام ابی داود وغیرہ

کیونکہ ان محدثین کا وقت تو بہت بعد کا ہے ہم تو ابھی صحابہ اور تابعین کبیر کے دور میں ان کی تحقیق پیش کی جنہوں نے 500 صحابہ سے علمی فیض لیا اور مولاعلی جو علم کادروازہ ہیں انکے استدلال پر بھی بھلا کوئی اشکالا وارد کر سکتا ہے ؟؟؟؟


اور ہاں یاد رہے ہم نے امام ابوحںیفہ کے استدلال کا ایک بھی ذکر نہیں کیا لیکن عقل سے پیدل بے دال کے بودن غیر کے مقلدین جو اپنی غلیظ زبان سے جھاگ نکالتے ہوئے امام اعظم ابو حنیفہ پر بکتے ہیں رفع الیدین ترک کے فتوے کی وجہ سے

کیا ان میں اتنی غیرت کی پوڑی ہے کہ امام الشعبیٰ ، امام ابن مسعود ، مولا علی
امام ابراہیم النخعی ، امام ابو اسحاق السبیعی
جیسے امت محمدیہ کے ستونوں پر بھونک سکیں ؟؟؟


یاد رہے اسکے اگلے حصے میں اور تابعین ، امام ابو حنیفہ ، انکے ہم عصر محدثین و فقہاء کے فتاوے اور عمل پیش کرنے باقی ہیں


اسکے بعد پھر احناف و غیر احناف کے دلائل کوترجیح دینے کے اختلاف میں احناف کے دلائل کو زیادہ مضبوط بیان کیا جائے گا

جسکی ایک ہلکی پھلکی ننی منی جھلک آپ اوپر دیکھ چکے ہیں



تحققیق:
دعاگو اسد الطحاوی الحنفی البریلوی





 
شمولیت
جولائی 22، 2018
پیغامات
637
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
62
نام نہاد اہلحدیث تمام اہلسنت امت مسلمہ (حنفی، مالکی، شافعی، حنبلی) کے خلاف والی رفع الیدین کرتے ہیں بنا بریں مستحق جہنم ہیں بفرمان الٰہی جل شانہٗ کہ جو سبیل المؤمنین کے خلاف چلا اسے جہنم میں ڈالا جائے گا۔

غنفی اور مالکی نماز میں صرف تکبیر تحریمہ کی رفع الیدین کے قائل ہیں باقی جگہوں پر نہیں کرتے۔
شافعی اور حنبلی تکبیر تحریمہ کے علاوہ رکوع کی رفع الیدین کے قائل ہیں۔

نام نہاد اہلحدیث لامذہب ہیں اور ان چاروں کی مخالفت کرتے ہوئے تیسری رکعت کے لئے اٹھتے وقت کی رفع الیدین کرتے ہیں اور خود کو مستحق جہنم بناتے ہیں۔

جس حدیث سے یہ دلیل لیتے ہیں اس میں صرف ان جگہوں کا ثبوت ہے باقی جگہوں کی ممانعت نہیں ۔
عدم ذکر عدم کو مستلزم نہیں
نام نہاد اہلحدیث ان جگہوں کی رفع الیدین کیوں نہیں کرتے جن کا ثبوت احادیث صحیحہ میں موجود ہے۔
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
نام نہاد اہلحدیث تمام اہلسنت امت مسلمہ (حنفی، مالکی، شافعی، حنبلی) کے خلاف والی رفع الیدین کرتے ہیں بنا بریں مستحق جہنم ہیں بفرمان الٰہی جل شانہٗ کہ جو سبیل المؤمنین کے خلاف چلا اسے جہنم میں ڈالا جائے گا۔

غنفی اور مالکی نماز میں صرف تکبیر تحریمہ کی رفع الیدین کے قائل ہیں باقی جگہوں پر نہیں کرتے۔
شافعی اور حنبلی تکبیر تحریمہ کے علاوہ رکوع کی رفع الیدین کے قائل ہیں۔

نام نہاد اہلحدیث لامذہب ہیں اور ان چاروں کی مخالفت کرتے ہوئے تیسری رکعت کے لئے اٹھتے وقت کی رفع الیدین کرتے ہیں اور خود کو مستحق جہنم بناتے ہیں۔

جس حدیث سے یہ دلیل لیتے ہیں اس میں صرف ان جگہوں کا ثبوت ہے باقی جگہوں کی ممانعت نہیں ۔
عدم ذکر عدم کو مستلزم نہیں
نام نہاد اہلحدیث ان جگہوں کی رفع الیدین کیوں نہیں کرتے جن کا ثبوت احادیث صحیحہ میں موجود ہے۔
حساب دانی دیکھی ، جغرافیہ دانی دیکھی ، تاریخ دانی بھی دیکھی ۔ سب دانیوں میں پہ در پہ شکستوں کے بعد اب اگال دانی پر اتارو ھو گئے ۔ قہقہامہ
 
Top