• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تصوف اور اس کی حقیقت

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
تصوف اور اس کی حقیقت

ابو الحسن اختر​
تصوف کی لغوی و اصطلاحی تعریف
صوفیا کے ہاں مشہور اصطلاح ’التصوف،عرب اس اصطلاح سے ناواقف ہیں، اصلاً کلمہ تصوف جو عربی زبان کے اَوزان میں سے تفعُّل کے وزن پر ہے، مستعمل نہیں۔عربوں نے صوف کے بارے میں مادہ (ص و ف) کومد نظر رکھتے ہوئے استعمال کیا ہے جس سے وہ بھیڑ کے بال اور پشمینہ لیتے ہیں اور بھیڑ کا وہ بچہ جس کے بال گنے ہوں اس کوصوف کی صفت سے ذکر کرتے ہیں۔[ لسان العرب،مختار الصحاح،مادہ :ص و ف]
صوفی کی وجہ تسمیہ
لفظ’ صوفی‘ کا اشتقاق ومصدر کیا ہے؟ اس میں مختلف اَقوال ہیں:
1۔صوفی کی نسبت مسجد ِنبویؐ میں اہل صفہ کی طرف ہے۔ماہرین لغت کا اس پر اعتراض ہے کہ اگر صوفی کی نسبت اہل صفہ کی طرف ہوتی تو صوفی کی بجائے صُفِّی ہونا چاہیے تھا۔
2۔صوفی کی نسبت اللہ تعالیٰ کے سامنے پہلی صف کی طرف ہے۔اس پر بھی یہی اعتراض کیا گیا کہ لغت کے اعتبار سے صَفِّی ہونا چاہیے تھانہ کہ صوفی۔
3۔ایک قول یہ ہے کہ صوفی صفوۃ من الخلق کی طرف منسوب ہے جو لغوی اعتبار سے غلط ہے، کیونکہ صفوۃ کی طرف نسبت صَفَوِیٌّ آتی ہے۔
4۔صوفی ،صوفہ بن بشر بن طابخہ قبیلہ عرب کی طرف منسوب ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں:
’’اگرچہ یہ نسبت لغوی،لفظی اعتبار سے درست ہے، لیکن سنداً اور تاریخی اعتبار سے ضعیف ہے،کیونکہ یہ زاہدوں،عابدوں کے ہاں غیر معروف ہے۔اگرنساک عابدوں کی نسبت انہیں لوگوں کی طرف ہوتی توپھر اس نسبت کے زیادہ حق دار صحابہؓ، تابعینؒ وتبع تابعین ہوتے اور پھر دلچسپ بات یہ ہے کہ جن لوگوں کو صوفی کہا جاتا ہے وہ یہ ناپسند کرتے ہیں کہ ان کی نسبت ایسے جاہلی قبیلہ کی طرف ہو جس کا اسلام میں کوئی وجودنہیں۔‘‘
لہٰذا اس سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ یہ بھی نسبت غلط ہے۔
5۔ایک رائے یہ ہے کہ صوفی، الصفۃ (اچھی صفات سے متصف ہونا)سے مشتق ہے جو حسب ِسابق صحیح نہیں ہے، کیونکہ الصفہ کی نسبت صُفِّی آتی ہے نا کہ صوفی۔ [فتاوی ابن تیمیہ،۱۱؍۶،مجلہ البحوث الإسلامیۃ،شمارہ ۴۰]
6۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ صوفی، صفا سے ماخوذ ہے جس کے معنی قلب کی صفائی اور اصلاح ہے۔لغوی اعتبار سے یہ نسبت بھی غلط ہے، کیونکہ صفاکی طرف نسبت صَفْوِیٌّ آتی ہے ۔[ قرآن اور تصوف ازمیر ولی الدین،ص۸]
7۔علامہ لطفی جمعہ کی تحقیق کے مطابق صوفی کا لفظ ثیوصوفیا سے مشتق ہے جو ایک یونانی کلمہ ہے جس کے معنی حکمت الٰہی کے ہیں۔[ایضاً:ص۹]
8۔صوفی صوف(پشمینہ)کی طرف نسبت ہے جس کے معنی پشم پہننے والا۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ نے اسی نسبت کو درست اورراجح کہا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ اگر لغوی اشتقاق کے تناظر سے دیکھا جائے تویہ نسبت درست معلوم ہوتی ہے۔[مجموع الفتاوی :۱۱؍۶]
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
تصوف کا اصطلاحی مفہوم
جس طرح آپ نے مذکورہ اَقوال سے صوفی کے اشتقاق میں اختلاف پایا ہے اسی طرح تصوف کی اصطلاحی تعریف بھی تفصیل طلب ہے۔
تصوف کی اصطلاحی تعریف کے حوالے سے اگر مبالغہ نہ سمجھا جائے تو اس میں متعدد اَقوال ہیں جو باہم متعارض، متباین اور متغایر ہیں۔ذیل میں ایسے اَقوال ان پر اِجمالی تبصرے کے ساتھ درج کیے جاتے ہیں جن سے بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ تصوف کا اصل مطلب اورمفہوم کیا ہے۔
٭ جنید فرماتے ہیں:
ما أخذنا التصوف عن القال والقیل ولکن عن الجوع وترک الدنیا وقطع المألوف والمستحسنات لأن التصوف ہوصفاء المعاملة مع اﷲ واصلہ العزوف عن الدنیا۔
’’ہم نے تصوف قیل وقال سے حاصل نہیں کیا بلکہ ہم نے تصوف بھوک،ترک دنیا،مرغوب اور پسندیدہ اشیاء سے لاتعلقی سے حاصل کیا ہے، کیونکہ تصوف اللہ تعالیٰ کے ساتھ معاملات کی پاکیزگی کا نام ہے،جس کی بنیاد دنیا سے علیحدگی پر ہے۔‘‘ [طبقات الحنابلۃ،۱؍۱۲۸،حلیۃ الأولیائ:۱۰؍۲۷۸]
جب کہ اِرشاد باری ہے:
{وَلَا تَنْسَ نَصِیْبَکَ مِنَ الدُّنْیَا}’’اور دنیا سے اپنا حصہ لینا نہ بھولیے۔‘‘ [القصص:۷۷]
{رَبَّنَا اٰتِنَا فِیْ الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِیْ الآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ}[البقرۃ:۲۰۱]
’’اے ہمارے پروردگار!ہمیں دنیا میں بھی نعمت عطا فرما اور آخرت میں بھی نعمت عطا فرما اور دوزخ کے عذاب سے محفوظ فرما۔‘‘
اور رسول اللہﷺ صبح اور شام کے اذکار میں درج ذیل دعا کا اہتمام فرمایا کرتے تھے:
’’ اَللٰہُمَّ إِنِّیْ أَعُوْذُبِکَ مِنَ الْکُفْرِ وَالْفَقْرِ وَأَعُوْذُبِکَ مِنْ عَذَابِ النَّارِ‘‘[مسند أحمد:۵؍۴۲]
’’اے اللہ!میں کفر ، فقر سے اور دوزخ کے عذاب سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
زہد کا مفہوم
’زہد‘ کے مفہوم کو مزید وضاحت سے سمجھنے کے لیے حضرت علیؓ کا قول ملاحظہ فرما ئیں:
امیر المؤمنین حضرت علیؓ ارشاد فرماتے ہیں:
’’اگر کوئی شخص تمام زمینی سامان، متاع واَسباب اکٹھے کرے اور اس کی نیت اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنا ہے تو وہ زاہد ہے اور زمین میں تمام اَشیاء کو ترک کردیتا ہے جب کہ اسمیں اللہ کی رضا مقصود نہیں تو وہ زاہد نہیں اور نہ ہی اسے دنیا کے مال واَسباب چھوڑنے پر عابد کہا جائے گا۔‘‘[التصوف لشمہرانی ،ص۱۷۱]
ا س کے علاوہ تصوف اور صوفی کی تعریفات کے حوالے سے درج ذیل اَقوال یہ ہیں:
٭ابو الحسن نوری کہتے ہیں:
’’لیس التصوف رسوما ولا علوما ولکنہ اخلاق‘‘
’’تصوف رسوم اور علوم نہیں بلکہ وہ صرف اخلاق ہے۔‘‘[ علم تصوف ازعباداللہ اختر،ص۲۰]
٭مرتعش بھی یہی فرماتے ہیں:
التصوف حسن الخلق …’’تصوف حسن خلق ہے۔‘‘
٭علی بن بندار الصیرفی تصوف کی تعریف کے حوالے سے بیان کرتے ہیں:
’’التصوف اسقاط ردیة للحق ظاہرا وباطنا‘‘ [ ایضاً،ص۲۱]
’’تصوف یہ ہے کہ صوفی اپنے آپ کو ظاہر اور باطن میں نہ دیکھے ،بلکہ صرف مشاہدۂ حق ہو۔‘‘
٭ابوبکر شبلی اس سے ایک قدم اور آگے جاتے ہیں اور فرماتے ہیں:
’’التصوف شرک لأنہ صیانة القلب عن رؤیة الغیر ولا غیر‘‘[ علم تصوف،ص۲۱]
’’تصوف شرک ہے، کیونکہ وہ دل کو غیر کے دیکھنے سے محفوظ رکھتا ہے،حالانکہ غیرکا وجود ہی نہیں۔‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
تصوف اور صوفیا کے اِصطلاحی نام
اسلام کے ابتدائی زمانہ میں جب کہ تصوف اپنے اذواق ،مجاہدات،حقائق اورمشاہدات کے اعتبار سے ایک مستقل فن کی حیثیت سے متعارف نہیں تھا۔ اس لیے اس کا کوئی نام بھی متعین نہیں تھا ،کبھی اسے علم تصوف سے تعبیر کیا جاتا، کبھی علم باطن کے نام سے اور کبھی کسی اور نام سے موسوم کیا جاتا تھا۔[تاریخ تصوف اسلام ازرئیس احمد جعفری،ص۷۳]
اسی طرح صوفیا کو بھی کئی ناموں سے ذکر کیا جاتا ہے ۔ملکوں ،شہروں سے نقل مکانی کر کے دیارِ غیر میں رہنے کی وجہ سے غرباء اور کثرت سفر کی وجہ سے سیّاحین بھی کہاجاتا تھا۔اَہل شام زیادہ تر بھوکا رہنے کی وجہ سے جوعیۃ کے نام سے ذکر کرتے تھے۔[التعرف لمذہب أہل التصوف:۱؍۲۱،۲۲]
تحریک تصوف کا آغاز اور تاریخی پس منظر
دوسری صدی ہجری میں جب زہاد ،صوف(پشمینہ) کا لباس بکثرت استعمال کرنے لگے تو ’صوفی‘ کی اصطلاح عام ہوئی اور پشمینہ لباس پہننے کی وجہ سے شہرت اختیار کر گئی ۔لہٰذا تحریک تصوف صوف کی وجہ سے مشہور ہوئی۔
سلوک تصوف کا عملی طور پر آغاز بصرہ میں ہوا جس شخص نے سب سے پہلے صوفیا کے لیے مجلس کا انعقاد کیا وہ حسن بصریؒ کے شاگردوں میں سے عبدالواحد بن زید ہیں۔[مجموع الفتاوی:۱۱؍۶،۲۹]
ابو نصر سراج لکھتے ہیں کہ
’’تصوف کی ابتداء قبل از اسلام دور جاہلیت میں ہوئی۔‘‘[اللمع ،لابی نصر سراج،ص۴۲]
اور عبدالواحد وہ ہیں کہ جن کاشمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جن پر عبادت کرنے کا جذبہ غالب آیا اور یہ ذوق اس حد تک بڑھا کہ علوم حدیث میں اتقان پیدا کرنے سے غافل ہو گئے وہ اپنی گفتگو میں اکثر منکر روایات بیان کرنے لگے۔یہی وجہ ہے کہ امام نسائی رحمہ اللہ نے انہیں ’متروک الحدیث‘ کہا ہے۔امام ذہبیؒ فرماتے ہیں کہ
’’بڑے زہاد اور صاحب کمال لوگوں میں سے تھے جن پر ’قدری فرقہ‘ سے تعلق رکھنے کا الزام ہے۔‘‘[السیر:۸؍۴۴۹]
امام قشیریؒ کی تحقیق کی رو سے
لفظ صوفی۲۰۰ھ کے کچھ پہلے مشہور ہوا۔رسول اللہﷺ کی رحلت کے بعد جس لقب سے اس زمانہ کے اَفاضل یاد کیے جاتے تھے وہ صحابہؓ تھا۔کسی دوسرے لقب کی انہیں ضرورت ہی نہ تھی،کیونکہ صحابیت سے بہتر کوئی فضیلت نہ تھی۔جن بزرگوں نے صحابہؓ کی صحبت اختیار کی وہ اپنے زمانہ میں تابعین کہلائے اور تابعین کے فیض یافتہ حضرات اپنے زمانے میں اتباع تابعین کے ممتاز لقب سے یاد کیے جاتے تھے۔اس کے بعد زمانے کا رنگ بدلہ اور لوگوں کے اَحوال ومراتب میں نمایاں فرق پیدا ہونے لگا۔ جن خوش بختوں کی توجہ دینی اُمور کی طرف زیادہ تھی ان کو زہاد اور عباد کے ناموں سے یاد کیا گیا۔کچھ ہی عرصہ بعد بدعات کا ظہور ہونے لگے اور ہر فریق نے اپنے زہدکا دعوی کرتے نظر آنے لگے۔زمانہ کا یہ رنگ دیکھ کر خواصِ اہل سنت نے جو اپنے قلوب کو حق تعالیٰ کی یاد سے غافل نہیں ہونے دیتے تھے اور جو اپنے نفوس کو خشیت الٰہی سے مغلوب دیکھتے تھے ،ابنائے زمانہ سے علیحدگی اختیار کر لی اور انہی کو’ صوفیہ‘ کے لقب سے یاد کیا جانے لگا۔[قرآن اور تصوف،ص۹،۱۰]
امام ابن جوزیؒ تحریک تصوف کی ابتدا کے حوالے سے فرماتے ہیں:
’’طریقہ(تحریک)تصوف کی ابتدا مکمل زہد وعبادت سے ہوئی،پھر آہستہ آہستہ صوفیوں نے سماع اور رقص وسرود کی مجلسوں کے انعقاد کی رخصت نکالی لہٰذا عامۃ الناس میں سے آخرت کے طلب گاروں نے جب اس میں ریاضت وعبادت دیکھی تو وہ اس تحریک کی طرف لپکے اور دنیا کے طلب گاروں نے جب اس میں سماع،رقص اور لعب وراحت دیکھی تو انہوں نے بڑے زور وشور سے اس تحریک میں حصہ لینا شروع کر دیا۔‘‘[ تلبیس ابلیس،ص:۱۹۹]
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
پشمینہ پہننے کے بارے میں ابن سیرین ؒاور ابن تیمیہؒ کی تصریحات
صوفیاء کے ہاں ابن سیرینؒ کو صف اوّل کا زاہد تسلیم کیا گیا ہے ان سے لبس صوف کے حوالے سے استفسار کیا گیا کہ حضرت مسیح علیہ السلام صوف پہنتے تھے؟ تو انہوں نے جواب دیا
’’ہمارے لیے آنجناب ﷺ کی سنت دوسرے طریقوں کی بہ نسبت زیادہ پسندیدہ ہونی چاہیے۔‘‘
شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ لبس صوف کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ
’’اس کو عبادت بنانا اور اللہ کی طرف تقرب کا راستہ اختیار کرنا بدعت ہے۔البتہ بطور حاجت یا عام استفادہ کے پیش نظر کوئی حرج نہیں۔‘‘[مجموع الفتاوی،۱۱؍۵۵۵]
تحریک تصوف کے ظہور کی وجوہات
اس تحریک کے جنم لینے کی سب سے بڑی وجہ اسلامی معاشرے کا دنیاوی لذات میں غرق ہونے کے ردعمل نے پیدا کیا۔ معلوم ہوتا ہے کہ کچھ لوگوں نے چند چیزوں کو مباحات جان کر سلوک کا راستہ اختیار کیا اور اپنی تائید کے لیے بعض شرعی نصوص کو بطورِ دلیل بھی پیش کرنے لگے۔
تصوف کی ابتدا زہد وتقویٰ پر تھی۔ابتدا میں بدعات،رسومات اور فاسد عقائد کا کوئی وجود نہیں ملتا،پھر چوتھی صدی ہجری کا دور مروجہ تصوف کی داغ بیل کا دور تھا جس میں حلاج،جنید اور ابن محمد صوفیا کا لباس پہن کر تصوف میں داخل ہو گئے۔ تصوف کے آغازکی ایک وجہ خارجی عوامل تھے جو کہ دوسری قوموں کی تہذیب اور فلسفہ تھا۔مثلاً یونانی فلسفہ،ہندی تہذیب اور یہود ونصاری کی محرف تعلیمات،ان فلاسفروں کی فکر کے ذریعے سے مروجہ تصوف وجود کا سبب بنا۔
اس تحریک کے پیچھے استعماری ہاتھ تھے جومسلمانوں سے جہادی روح کو نکال دیناچاہتے تھے تاکہ اسلام اور مسلمانوں کو نیست ونابود کیا جا سکے اور اسلامی تعلیمات عام زندگی سے کٹ جائیں۔بس یہ دین عالم لاہوت سے خاص اور سیکولرازم سے متصف ہو جائے،جو زندگی کے مسائل کو حل کر سکے نہ معاشرے کی راہنمائی۔جب ایسی صورت پیدا ہو جائے گی تو مسلمانوں پر خود بخود قیامت ٹوٹ پڑے گی،لیکن!
دشمنان اسلام کا یہ خواب ہرگز پورا نہ ہو گا، کیونکہ دین اسلام میں اللہ رب العزت نے ایک ایسی تحریک رکھی ہے جو خود بخود اپنا دفاع کرنا جانتی ہے۔[الصوفیۃ معتقدا ومسلکا،ص۱۲۵،۱۲۶]
{ہُوَ الَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہ بِالہُدَی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہُ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہ وَلَوْکَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ}[الصف:۹]’’وہی تو ہے جس نے اپنے رسولﷺ کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا تاکہ اسے تمام ادیان پر غالب کرے ،خواہ مشرکوں کو برا ہی لگے۔‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
طبقات صوفیاء

مؤرخین تصوف کے نزدیک تصوف وصوفیاء کے چھ طبقات ہیں:
1۔پہلا طبقہ
تصوف کی ابتداء ۳۷ھ میں ہوئی اور یہ دور ۲۳۲ھ تک جاری رہا۔اس طبقے میں جن بزرگوں کو شمار کیا جاتا ہے ان میں حضرت اویس قرنیؒ،حضرت حسن بصریؒ،حضرت مالک بن دینارؒ،حضرت فضیل بن عیاضؒ اور حضرت ابراہیم بن ادھمؒ وغیرہم شامل ہیں۔
ان حضرات میں خشیت الٰہی کا بڑا غلبہ تھا توبہ واستغفار پر زوردیتے اور کبھی اپنے طرزِ فکر کو اجتماعی شکل دینے کی کوشش نہیں کی بلکہ انفرادی طور پر ریاضت وعبادت میں مشغول رہے۔اپنے گرد مریدوں کا نہ کوئی حلقہ پیدا کیا نہ کوئی نئی اصطلاح یا نیا طریقہ عبادت ایجاد کیا۔ ان کی ساری زندگی کتاب وسنت سے عبارت ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
2۔دوسرا طبقہ
جو تاریخ اِسلامی کے اس دور سے تعلق رکھتا ہے جس دور میں یونانی فلسفہ اور علوم عقلیہ اسلام میں در آئے اور معتزلہ کی تحریک نے اس قدر زور پکڑا جس سے خلیفہ مامون الرشید بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔خلق قرآن کا فتنہ بھی اسی دور میں نمودار ہوا،نیز ذات الٰہی اور اس کی صفات ،دوزخ،جنت،معجزات، معراج،غرض ہر مسئلہ پر عقل کی کسوٹی پر پرکھا جانے لگا۔ان حالات میں صوفیا کا پیدا ہونے والا طبقہ عقلیت سے قطعی بیزار تھا جن میں بایزید بسطامی،ذوالنون مصری اور جنید بغدادی سر فہرست ہیں۔انہوں نے عقلیت کے خلاف آواز اٹھائی اور عشق پر زور دیا۔چنانچہ اس دور کے صوفیا نے خشیت الٰہی کی بجائے عشق الٰہی کی تلقین کی۔سری سقطی نے توحید کا وہ نعرہ پیش کیا جس نے بعد میں وحدۃ الوجود کی شکل اختیار کر لی۔ [تلبیس ابلیس،ص:۲۳۲]
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
3۔تیسرا طبقہ
چوتھی صدی ہجری میں تحریک تصوف کا تیسرا طبقہ پیدا ہوا جنہوں نے فقہی گھتیوں میں اُلجھنے کی بجائے فقہ باطن کی اصلاح اور اخلاق کی درستگی پر زور دیا۔اس دور کے صوفیا میں ابو نصر سراج،ابوطالب مکی،ابو عبدالرحمن السلمی اور ابوسعید ابن عربی خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
تصوف کی دنیا میں اس دور کو بڑی اہمیت حاصل ہے کہ اس میں تصوف کی اصطلاحات وضع ہوئیں۔نئی نئی کتابیں لکھی جانے لگیں۔ جیسے ابو نصر سراج کی کتاب اللمع، ابو طالب مکی کی قوت القلوب اور ابو عبدالرحمن السلمی کی کتاب السنن الصوفیۃ وغیرہ ہیںـ۔
اس دور میں صوفیا کے حلقے اور سلسلے بننا شروع ہوئے۔اگر دنیا اسلام میں پھیلے ہوئے تصوف کے سلسلوں کی تعداد کا شمار کیا جائے توان کی تعداد تقریباً ایک سو کے لگ بھگ ہے۔تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیے:
٭تلبیس ابلیس ازامام جوزیؒ
٭مجموع فتاوی شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ
٭التفسیر والمفسرون از محمد حسین ذہبی
٭الصوفیۃ معتقدا ومسلکااز ڈاکٹرصابر تعیمہ
٭طبقات الصوفیہ وغیرہ
لہٰذا بر صغیر پاک وہند میں موجودتیسرے طبقے کے سلسلوں کو علی ہجویریؒ نے اپنی کتاب کشف المحجوب میں بارہ کی تعداد میں تقسیم کیا ہے اور ان کی تصریح کے مطابق دو گروہ مردود اور دس مقبول ہیں،جن کی تفصیل یہ ہے:
حلولی اور حلاجی ،یہ دو گروہ مردود شمار کیے جاتے ہیں۔
محاسبیہ:جس کی نسبت حارث بن اسد محاسبی کی طرف ہے۔اس گروہ کے خیال کے مطابق ’رضا‘ مقام نہیں بلکہ ’حال‘ ہے جس پر صوفیا میں شدید اختلاف رہا ۔اہل خراسان نے ان کی تائید کی اور اہل عراق نے مخالفت کی۔
حکیمیہ:یہ گروہ ابو عبیداللہ بن علی الحکیم کی جانب منسوب ہے۔سب سے پہلے انہوں نے ولایت کا تصورنبوت کی طرح عہدہ بنا کر پیش کیا جسے بعد میں سب گروہوں نے قبول کر لیا۔حکیم ترمذی کا قول ہے کہ
’’تمام دنیا اولیا میں تقسیم کر دی گئی ہے اور ہر علاقے کا انتظام وانصرام ایک ولی کے تحت ہوتا ہے۔‘‘
تستریہ:یہ گروہ سہل بن عبداللہ تستری کی جانب منسوب ہے اس گروہ نے تزکیہ نفس کے اُصول اپنی عقل ودانش سے ترتیب دئیے۔یہ لوگ سزائے نفسی کے قائل تھے۔
نوریہ:اس گروہ کی نسبت ابو الحسن بن نوری کی جانب ہے۔
طیفوریہ:جس کی نسبت بایزید بسطامی کی طرف ہے۔ان پر شوق ومستی کا بڑا غلبہ تھا جو سکر(نشے کی حالت) کو صحو(ہوش وحواس کی حالت)پر ترجیح دیتے ہیںـ
خرازیہ:اس گروہ کی نسبت ابو سعید خرازی سے تھی فنا کا تصور سب سے پہلے اسی گروہ نے پیش کیا۔
سیاریہ:یہ گروہ ابوالعباس سیاری سے منسوب ہے اس گروہ نے جمع تفریق کا صوفیانہ نظریہ پیش کیا۔
خفیفیہ:اس گروہ کی نسبت ابو عبداللہ بن خفیف کی جانب تھی جس نے حضور اور غیبت کا صوفیانہ نظریہ پیش کیا۔
قصاریہ اور ملامتیہ:یہ دونوں گروہ حمدون قصار سے منسوب تھے ان کے نزدیک مجمع عام میں قابل اعتراض کام کر کے اپنے نفس کو ذلیل کرنا تزکیہ نفس کے لیے ضروری ہے۔
اس دور میں تصوف نے ایک باقاعدہ تحریک کی شکل اختیار کر لی تھی۔سلسلہ تصوف پر بہت کچھ لکھا جا چکا تھا جو چھوٹے چھوٹے رسالوں جن میں یا تو متقدمین مشائخ کے حالات درج تھے یا کسی خاص موضوع پر بحث کی گئی تھی۔اس دور میں تصوف کی بہت سی اصطلاحات وضع ہو چکی تھیں،لیکن ان کا مفہوم ابھی تک متعین نہ تھا۔
اور یہ وہ دورتھا جس میں تصوف کے سلسلے ضرور وجود میں آ گئے تھے مگر سلسلوں کا باقاعدہ ظہور نہیں ہوا تھا۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
4۔چوتھا طبقہ
پانچویں صدی ہجری کے آغاز میں تصوف کے خیالات عوام میں بڑی تیزی سے پھیلنے شروع ہوئے جس میں ابوالخیر ابو سعید کی کتاب رباعیات،عبداللہ ہروی کی مناجات اور علی ہجویری کی کشف المحجوب کا اہم کردار ہے جس سے تصوف کے عوامی تحریک بننے میں بڑی مدد ملی۔
مذکورہ کتابوں کے علاوہ ابو نعیم اصفہانیؒ کی حلیۃ الأولیاء اور ابو القاسم قشیری کا رسالہ قشیریہ بہت مقبول ہوئے۔ اس دور میں تصوف کی بیشتر اصطلاحات وضع کی جا چکی تھیں۔
رسالہ قشیریہ میں ہمیں تصوف کی مندرجہ ذیل اصطلاحات ملتی ہیں:
شریعت،طریقت،حقیقت،کشف ومکاشفہ،صحو،سکر،وقت،مقام،حال،قبض وبسط،فنا وبقا،مشاہدہ ومعائنہ، قرب وبعد، نفس،خواطر،ہیبت وانس،تواجد،وجود،جمع وفرق،غیبت وحضور،ذوق وشرب،سر وتجلی،مخاطرہ، لوائح، طوامع، ہجوم،تلوین وتمکین، شاہد، نفس،روح،سر،علم الیقین، عین الیقین اور حق الیقین وغیرہ۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
5۔پانچواں طبقہ
یہ طبقہ چھٹی صدی ہجری میں پیدا ہوا اس کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔اس زمانے میں تصوف کا فلسفہ پورے طور پر ترتیب دے دیا گیا اگرچہ اس کو عروج ساتویں صدی ہجری میں حاصل ہوا۔
اس دور کے مشہور صوفیا یہ تھے:
ابو حامد غزالی:ان کی کتابوں میں احیاء العلوم سب سے زیادہ مشہور ہے۔
محی الدین عبدالقادر جیلانی:آپ کی کتابوں میں ’غنیۃ الطالبین‘ اور ’فتوح الغیب‘ کو غیر معمولی شہرت حاصل ہے۔
محی الدین ابن عربی:ان کی کتابوں میں ’فصوص الحکم‘ اور ’فتوحات مکیہ‘ نے بہت زیادہ شہرت حاصل کی۔
شہاب الدین عمر سہروردی:آپ کی کتاب ’عوارف المعارف‘ تصوف کا دستور العمل سمجھی جاتی ہے۔
5۔ابو طالب مکی اور ابو القاسم قشیری وغیرہ نے جو کچھ لکھا ابو حامد غزالی نے سب کو جذب کر کے نہایت وضاحت اور ترتیب کے ساتھ تصوف کا فلسفہ اور اصطلاحات وضع کیں،مثلاً سفر،سالک،وصل،مکان، شطح، ذہاب، ادب، تجلی، تخلی، علت،غیرت، حیرت،فتوح،وسم،رسم،زواند،ارادہ،ہمت،غربت،مکراصطلام،رغبت اور وجد وغیرہ۔
لہٰذاوہ ایک مستقل فن کی صورت اختیار کر گیا،بعد میں ان کے ہم عصر عبدالقادر جیلانیؒ نے عملی اعتبار سے اس تحریک میں نئی جان ڈالی کہ اس فن کو معراج کمال تک پہنچا دیا۔پھر محی الدین ابن عربی نے اس تحریک کو وحدت الوجود کے فلسفہ سے روشناس کرایا جو تصوف کی روح بن گیا۔ابن عربی کے اس باطل نظریہ کی وجہ سے اسلام میں تصوف کے راستے سے الحاد و زندقہ کے دروازے کھل گئے،جس کا احساس صوفیا کو بھی تھایہی وجہ ہے کہ مشائخ صوفیا اپنے مریدوں کو اس مسئلہ پر گفتگو کرنے کی سخت ممانعت کرتے،لہٰذا ابن عربی کی کتابوں پر سخت پابندیاں عائد کردی گئیں اور دوسری طرف فرید الدین عطار نے وحدت الوجود کا مشرکانہ نظریہ شعر وشاعری کے ذریعہ عوام الناس تک پہنچا یا تاکہ اسے قبول عام حاصل ہو جائے۔
 
Top