• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تصویر اور اس کی حرمت !

126muhammad

مبتدی
شمولیت
اکتوبر 26، 2022
پیغامات
13
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
8
الحمد للہ.


ذِی رُوح جَاندار یعنی جن میں روح ہوتی ہے جیسا کہ انسان ،جانور، پرندے، حشرات وغیرہ ،کی تصویر کشی کرنا سخت حرام ہے۔جس کے دلائل درج ذیل ہیں۔

حدیث:۱
حَدَّثَنَا مُوسَى،حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ ،حَدَّثَنَا عُمَارَةُ،حَدَّثَنَا أَبُو زُرْعَةَ ،قَالَ:دَخَلْتُ مَعَ أَبِي هُرَيْرَةَ دَارًا بِالْمَدِينَةِ،فَرَأَى أَعْلَاهَا مُصَوِّرًا يُصَوِّرُ ،قَالَ:سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ ذَهَبَ يَخْلُقُ كَخَلْقِي،فَلْيَخْلُقُوا حَبَّةً وَلْيَخْلُقُوا ذَرَّةً،ثُمَّ دَعَا بِتَوْرٍ مِنْ مَاءٍ فَغَسَلَ يَدَيْهِ حَتَّى بَلَغَ إِبْطَهُ ،فَقُلْتُ:يَا أَبَا هُرَيْرَةَ أَشَيْءٌ سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟قَالَ:مُنْتَهَى الْحِلْيَةِ۔
میں ابوہریرہ رضی اللّٰہ عنہ کے ساتھ مدینہ منورہ میں ( مروان بن حکم کے گھر میں)گیا تو انہوں نے چھت پر ایک مصور کو دیکھا جو تصویر بنا رہا تھا، انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے سنا ہے، نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ(اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے)اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہو گا جو میری مخلوق کی طرح پیدا کرنے چلا ہے اگر اسے یہی گھمنڈ ہے تو اسے چاہیئے کہ ایک دانہ پیدا کرے،ایک چیونٹی پیدا کرے۔ پھر انہوں نے پانی کا ایک طشت منگوایا اور اپنے ہاتھ اس میں دھوئے۔ جب بغل دھونے لگے تو میں نے عرض کیا ابوہریرہ! کیا( بغل تک دھونے کے بارے میں )تم نے رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے کچھ سنا ہےانہوں نے کہا میں نے جہاں تک زیور پہنا جا سکتا ہے وہاں تک دھویا ہے۔"
{صحیح البخاری،كِتَابُ اللِّبَاسِ،بَابُ نَقْضِ الصُّوَرِ:۵۹۵۳۔صحیح المسلم:۵۵۴۳،۵۵۴۴}

حدیث:۲
حَدَّثَنَا الحُمَيْدِيُّ،حَدَّثَنَا سُفْيَانُ،حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، عَنْ مُسْلِمٍ،قَالَ: كُنَّا مَعَ مَسْرُوقٍ، فِي دَارِ يَسَارِ بْنِ نُمَيْرٍ، فَرَأَى فِي صُفَّتِهِ تَمَاثِيلَ، فَقَالَ:سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ، قَالَ:سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:«إِنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَذَابًا عِنْدَ اللَّهِ يَوْمَ القِيَامَةِ المُصَوِّرُونَ»
ترجمہ:ہم سےحمیدی عبداللّٰہ بن زبیر نے بیان کیا ،کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا،ان سے اعمش نےبیان کیا اور ان سے مسلم بن صبیح نے بیان کیا کہ ہم مسروق بن اجدع کے ساتھ یسار بن نمیر کے گھر میں تھے۔مسروق نے ان کے گھر کے سائبان میں تصویر یں دیکھیں تو کہا کہ میں نے حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰہ عنہ سے سنا ہے ،انہوں نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے سنا،آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا:اللّٰہ کے پاس قیامت کے دن تصویر بنانے والوں کو سخت سے سخت تر عذاب ہوگا۔"
{صحیح البخاری،كِتَابُ اللِّبَاسِ،بَابُ عَذَابِ المُصَوِّرِينَ يَوْمَ القِيَامَةِ:۵۹۵۰۔صحیح المسلم:۵۵۳۷}

حدیث:۳
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ،حَدَّثَنَا سُفْيَانُ،قَالَ:سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الْقَاسِمِ ،وَمَابِالْمَدِينَةِ يَوْمَئِذٍ أَفْضَلُ مِنْهُ،قَالَ:سَمِعْتُ أَبِي،قَالَ:سَمِعْتُ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا،قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ سَفَرٍ وَقَدْ سَتَرْتُ بِقِرَامٍ لِي عَلَى سَهْوَةٍ لِي فِيهَا تَمَاثِيلُ،فَلَمَّارَآهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَتَكَهُ،وَقَالَ:أَشَدُّ النَّاسِ عَذَابًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ الَّذِينَ يُضَاهُونَ بِخَلْقِ اللَّهِ قَالَتْ:فَجَعَلْنَاهُ وِسَادَةً أَوْ وِسَادَتَيْنِ۔
میں نے اپنے والد( قاسم بن ابی بکر )سےسنا،انہوں نے بیان کیا کہ میں نے عائشہ رضی اللّٰہ عنہا سے سنا کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سفر( غزوہ تبوک )سے تشریف لائے تو میں نے اپنے گھر کے سائبان پر ایک پردہ لٹکا دیا تھا،اس پر تصویریں تھیں جب آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے دیکھا تو اسے کھینچ کر پھینک دیا اور فرمایا کہ قیامت کے دن سب سے زیادہ سخت عذاب میں وہ لوگ گرفتار ہوں گے جو اللّٰہ کی مخلوق کی طرح خود بھی بناتے ہیں۔ عائشہ رضی اللّٰہ عنہا نے بیان کیا کہ پھر میں نے پھاڑ کر اس پردہ کی ایک یا دو توشک بنا لیں۔"
{صحیح البخاری،كِتَابُ اللِّبَاسِ،بَابُ مَا وُطِئَ مِنَ التَّصَاوِيرِ:۵۹۵۴۔مسلم:۵۵۲۸۔نسائی:۵۳۷۱}

حدیث:۴
2105 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ أَخْبَرَنَا مَالِكٌ عَنْ نَافِعٍ عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّهَا أَخْبَرَتْهُ أَنَّهَا اشْتَرَتْ نُمْرُقَةً فِيهَا تَصَاوِيرُ فَلَمَّا رَآهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَامَ عَلَى الْبَابِ فَلَمْ يَدْخُلْهُ فَعَرَفْتُ فِي وَجْهِهِ الْكَرَاهِيَةَ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَتُوبُ إِلَى اللَّهِ وَإِلَى رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَاذَا أَذْنَبْتُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا بَالُ هَذِهِ النُّمْرُقَةِ قُلْتُ اشْتَرَيْتُهَا لَكَ لِتَقْعُدَ عَلَيْهَا وَتَوَسَّدَهَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ أَصْحَابَ هَذِهِ الصُّوَرِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يُعَذَّبُونَ فَيُقَالُ لَهُمْ أَحْيُوا مَا خَلَقْتُمْ وَقَالَ إِنَّ الْبَيْتَ الَّذِي فِيهِ الصُّوَرُ لَا تَدْخُلُهُ الْمَلَائِكَةُ۔
ترجمہ :ہم سے عبداللّٰہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں نافع نے، انہیں قاسم بن محمد نے اور انہیں ام المومنین عائشہ رضی اللّٰہ عنہا نے کہ انہوں نے ایک گدا خریدا جس پر مورتیں تھیں۔ رسول کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی نظر جوں ہی اس پر پڑی، آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم دروازے پر ہی کھڑے ہو گئے اور اندر داخل نہیں ہوئے۔( عائشہ رضی اللّٰہ عنہا نے بیان کیا کہ ) میں نے آپ کے چہرہ مبارک پر ناپسندیدگی کے آثار دیکھے تو عر ض کیا،یا رسول اللّٰہ!میں اللّٰہ کی بارگاہ میں توبہ کرتی ہوں اور اس کے رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سےمعافی مانگتی ہوں، فرمائیے مجھ سے کیا غلطی ہوئی ہے؟آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا، یہ گدا کیسا ہے؟ میں نے کہا کہ میں نے یہ آپ ہی کے لیے خریدا ہے تاکہ آپ اس پر بیٹھیں اوراس سے ٹیک لگائیں۔آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا،لیکن اس طرح کی مورتیں بنانے والے لوگ قیامت کے دن عذاب کئے جائیں گے۔ اور ان سے کہا جائے گاکہ تم لوگوں نے جس چیزکو بنایا اسے زندہ کر دکھاؤ۔آپ نے یہ بھی فرمایا کہ جن گھروں میں مورتیں ہوتی ہیں(رحمت کے)فرشتےان میں داخل نہیں ہوتے۔"
{صحیح البخاری،كِتَابُ البُيُوعِ،بَابُ التِّجَارَةِ فِيمَا يُكْرَهُ لُبْسُهُ لِلرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ:۲۱۰۵۔صحیح المسلم:۵۵۳۳،۵۵۳۴}
تشریح :اس حدیث سےصاف نکلتا ہےکہ جاندار کی مورت بنانا مطلقاً حرام ہے چائیے وہ پرنٹڈ مشین سے بنی ہو ،نقشی ہو یا مجسم۔اس لیے کہ تکئے پر نقشی صورتیں بنی ہوئی تھیں۔

مندرجہ بالا احادیث اور دیگر بہت سے دلائل تصویر کی حُرمت پر دلالت کرتے ہیں,اور یہ ایک ایسا مسئلہ ہےکہ جس پر اُمّت کا اتفاق ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے تصویر کشی سے صرف قریش کے کافروں کو ہی نہیں روکا تھا، بلکہ تمام صحابہ کرام آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے مخاطب تھے، چنانچہ یہ ساری امت کو عمومی حکم تھا، اس لیے تصویر بنانے والا مسلمان ہے یا کافر اس سے تصویر کے حکم میں کوئی فرق نہیں پڑتا لہذا کسی بھی پیر ولی پیغمبر کی تصویر ر بنانا حرام ہے چاہے وہ تعظیم کے لئے ہو یا کسی اور مقصد کے لیے۔جیسا کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم کونسا تصویروں کی عبادت کرتے ہیں تو ایسے لوگوں سے پوچھنا چاہیے کہ مندرجہ بالا حدیث میں جب رسول اللہ اپنے گھر تشریف لائے اور دیکھا کہ ایک پردے پر تصویریں بنی ہوئی تھیں آپ رسول اللہ سخت ناراض ہو گئے اور فوری طور پر حضرت عائشہ کو اس پردے کو ہٹانے کا حکم دیا ،کیا حضرت عائشہ ان تصویروں کی عبادت کر رہی تھی؟ نعوذ باللہ ،ہرگز نہیں ۔

ڈیجیٹل تصویر

جو اختلاف ہے وہ اس بات میں واقع ہوا ہےکہ جدید ذرائع کیمرے سے ڈجیٹل تصویر (یعنی ایسی تصویریں یا فوٹوگرافی جن کو چھوا نہیں جا سکتا) اور ویڈیوز بنانا وغیرہ کیا حُکم رکھتی ہے؟

*مفتی ابوعبدالرحمٰن رفیق طاہر صاحب فرماتےہیں کہ*:
کچھ اَہل عِلم کی رائے یہ ہے کہ یہ تصاویر نہیں ہیں بلکہ یہ عَکس ہے,اور عکس کے جَواز میں کوئی شَک نہیں ہے،لہٰذا فوٹو گرافی اور ویڈیو بنانا جائز اور مشروع عمل ہے۔"
جبکہ اہل علم کا دوسرا گروہ اسے بھی تصویر ہی سمجھتا ہےاور کہتا ہےکہ یہ تصویر کی جَدید شَکل ہے,چونکہ تصویر کی حُرمت میں کوئی شُبہہ نہیں ہے,لہٰذا فوٹو گرافی اور ویڈیو(بنانا) ناجائز اور حرام ہے۔(اس گروہ میں شیخ نصیراحمد کاشف اور شیخ ابومحمدعبدالاحدسلفی وغیرھم شامل ہیں)۔"
اہل علم کا ایک تیسرا گروہ یہ رائے رکھتا ہےکہ یہ تصویر ہی ہے،لیکن باَمرِ مجبوری ہم دِین کی دَعوت و تبلیغ کی غرض سے ویڈیو کو استعمال کرسکتے ہیں۔یہ رائے اکثر اہل علم کی ہےجن میں عرب وعجم کے بہت سے علماء شامل ہیں۔(اس گروہ میں قاری صہیب احمدمیرمحمدی حفظہ اللّٰہ تعالیٰ وغیرھم شامل ہیں)۔"
یعنی اس تیسری رائے کے حاملین نے ویڈیو کو اصلاً مباح اور حلال قرار نہیں دیا ہے,لیکن دینی اصول" اضطرار" کو ملحوظ رکھ کر قاعدہ فقہیہ " الضرورات تبيح المحظورات "( ضرورتیں ناجائز کاموں کو جائز بنا دیتی ہیں)پر عمل پیرا ہوتے ہوئے الیکٹرانک میڈیا کے اس تیز ترین دور میں ویڈیو کو تبلیغ دین کے مقاصد میں بامر مجبوری استعمال کرنا مباح قرار دیا ہے ,یعنی دعوت و تبلیغ کے علاوہ,یہ گروہ بھی اسے ناجائز ہی سمجھتا ہے,اور بلا امر مجبوری اسے جائز قرار نہیں دیتا ہے۔"۔

لیکن مسئلہ چونکہ اِجتہادی ہے اس میں خطأ کا امکان بھی بہر حال موجود ہی ہے ,لہٰذا دیکھنا یہ ہے کہ ان تینوں فریقوں کے کیا دلائل ہیں اور ان تینوں میں سے مضبوط دلائل کس گروہ کے پاس ہیں
الیکٹرانک تصویر جو سکرین پر نظر آتی ہے متحرک یعنی ویڈیو ہو اسکا شریعت اسلامیہ میں کیا حکم ہے ۔ بہت سے اہل علم مووی کے جواز کا فتوى دیتے ہیں اور کچھ اس سے منع کرنے والے بھی ہیں ۔ ہم شش وپنج میں ہیں کہ کس طرف جائیں ۔ کچھ علماء اسے مطلق طور پر جائز کہتے ہیں اور کچھ صرف...

شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کی تصویر

شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کی تصویر بھی حرام ہے تو جو علماء کرام اسے مجبوری یا اضطراب کے تحت مستقل طور پرجائز قرار دیتے ہیں تووہ بھی بلکل غلط ہے!!! کیونکہ اضطرار میں ممنوعہ کاموں کو سرانجام دینے کی جو رُخصت اللّٰہ تعالیٰ نے دی ہے اس میں بھی قید لگا ئی ہےکہ:
((اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیۡکُمُ الۡمَیۡتَۃَ وَ الدَّمَ وَ لَحۡمَ الۡخِنۡزِیۡرِ وَ مَاۤ اُہِلَّ بِہٖ لِغَیۡرِ اللّٰہِ ۚ فَمَنِ اضۡطُرَّ غَیۡرَ بَاغٍ وَّ لَا عَادٍ فَلَاۤ اِثۡمَ عَلَیۡہِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۱۷۳﴾
تم پر مُردہ اور(بہا ہوا)خون اور سور کا گوشت اور ہر وہ چیز جس پر اللّٰہ کے سوا دوسروں کا نام پکارا گیا ہو حرام ہے پھر جو مجبور ہو جائے اور وہ حد سے بڑھنے والا اور زیادتی کرنے والا نہ ہو ،اس پر ان کے کھانے میں کوئی گناہ نہیں،اللّٰہ تعالٰی بخشش کرنے والا مہربان ہے۔"))
[سورۃ البقرۃ:۱۷۳]
نیز فرمایا:
((حُرِّمَتۡ عَلَیۡکُمُ الۡمَیۡتَۃُ وَ الدَّمُ وَ لَحۡمُ الۡخِنۡزِیۡرِ وَ مَاۤ اُہِلَّ لِغَیۡرِ اللّٰہِ بِہٖ وَ الۡمُنۡخَنِقَۃُ وَ الۡمَوۡقُوۡذَۃُ وَ الۡمُتَرَدِّیَۃُ وَ النَّطِیۡحَۃُ وَ مَاۤ اَکَلَ السَّبُعُ اِلَّا مَا ذَکَّیۡتُمۡ ۟ وَ مَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ وَ اَنۡ تَسۡتَقۡسِمُوۡا بِالۡاَزۡلَامِ ؕ ذٰلِکُمۡ فِسۡقٌ ؕ اَلۡیَوۡمَ یَئِسَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡ دِیۡنِکُمۡ فَلَا تَخۡشَوۡہُمۡ وَ اخۡشَوۡنِ ؕ اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ وَ اَتۡمَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ نِعۡمَتِیۡ وَ رَضِیۡتُ لَکُمُ الۡاِسۡلَامَ دِیۡنًا ؕ فَمَنِ اضۡطُرَّ فِیۡ مَخۡمَصَۃٍ غَیۡرَ مُتَجَانِفٍ لِّاِثۡمٍ ۙ فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۳﴾
تم پر حرام کیا گیا مُردار اور خون اور خنزیر کا گوشت اور جس پر اللّٰہ کے سوا دوسرے کا نام پکارا گیا ہو،اور جو گلا گھٹنے سے مَرا ہو ،اور جو کسی ضرب سے مرگیا ہواور جو اونچی جگہ سے گر کر مرا ہو جو کسی کے سینگ مارنے سے مرا ہو،اور جسے درندوں نے پھاڑ کھایا ہو ،لیکن اسے تم ذبح کر ڈالو تو حرام نہیں،اور جو آستانوں پر ذبح کیا گیا ہو، اور یہ بھی کہ قرعہ کے تیروں کے ذریعے فال گیری ہو، یہ سب بدترین گناہ ہیں ،آج کفار تمھارے دین سے نااُمید ہوگئے،خبردار تم ان سے نہ ڈرنا اور مجھ سے ڈرتے رہنا،آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کر دیا اور تم پر اپنا انعام بھرپور کر دیا اور تمہارے لئے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہوگیا، پس جو شخص شدت کی بھوک میں بے قرار ہو جائے بشرطیکہ کسی گناہ کی طرف اس کا میلان نہ ہو تو یقیناً اللہ تعالٰی معاف کرنے والا ہے اور بہت بڑا مہربان ہے۔"))
" [سورۃ المائدة:۳]
یعنی بوقت اضطرار , بقدر اضطرار ممنوع وحرام کی رُخصت ہے,وقت اضطرار کے بعد یا قدر اضطرار سے زائد نہیں!!!
اور پھر شریعت نے لفظ"ضرورۃ" نہیں بلکہ"اضطرار" بولا ہے۔اور فقہی قاعدہ" الضرورات تبيح المحظورات" انہی آیات سے مستفاد ہےاور اس میں بھی لفظ ضرورت کا معنى اضطرار ہی ہے۔اضطرا ہوتا کیا ہے؟یہ سمجھنے کے لیے ہم انہی آیات پر غور کریں جن میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے تو بات بہت واضح ہو جاتی ہے۔
ان آیات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ بھوک کی وجہ سے اگر کوئی شخص مجبور ہو جائے اور اس کی دسترس میں کوئی حلال چیز نہ ہو,اور بھوک کی بناء پر اس کی زندگی کو خطرہ لاحق ہو اور حرام کھانے سے اس کی جان بچ سکتی ہو تو اس کے لیے رُخصت ہے کہ جس قدر حرام کھانے سے اس کی جان بچ سکتی ہے صرف اس قدر حرام کھالے اس سے زائد نہ کھائے، پیٹ بھرنا شروع نہ کردے اور پھر دوبارہ اس حرام کی طرف نگاہ اُٹھا کر بھی نہ دیکھے۔(یعنی اس حرام کو کھانا عادت نہ بنا لے۔)
یادر ہے کہ کوئی صاحب علم مطلقاً تصویر کو ناجائز نہیں کہہ سکتا ,کیونکہ ممنوع صرف ذِی روح جانداروں کی تصاویر ہیں ,بس اگر ذی روح کی تصاویر نہ ہوں تو اس کی حلت میں کسی قسم کا کوئی اشکال باقی نہیں رہتا ہے۔لہٰذا حرام کام سے بچیں۔"

تصویر کو گھر میں لٹکانا یا آویزاں کرنا

اپنے گھر میں تصویر کو آویزاں کرنا حرام ہے ایسے گھر میں فرشتے داخل نہیں ہوتے اور نہ ہی وہاں نماز ہوتی ہے

نبیﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھیجا تھا کہ وہ جس تصویر کو یا بت کو بھی دیکھیں اُسے مٹا ڈالیں۔ (صحیح مسلم،بَابُ الْأَمْرِ بِتَسْوِیَةِ الْقَبْرِ،رقم:۹۶۹، المستدرك للحاکم،کتاب الجنائز،رقم:۱۳۶۶)

لہذا کوئی تصویر آپ کے گھر میں لگی ہے تو اس پھاڑ دیں یا اس کے نقش و نگار مٹا دیں یا اس تصویر کو چھپا دیں تاکہ اس کا عکس نظر میں نظر نہ آئے اور رحمت کے فرشتے گھر میں داخل ہو سکیں

استثناء
نقش و نگاری یا پینٹنگ کلی طور پر اسلام میں حرام نہیں ، بلکہ صرف وہی تصویریں حرام ہیں جو ذی روح ہیں
،اس کے علاوہ بے جان چیزیں سورج چاند درخت وغیرہ کی تصویر کشی جائز ہے

اس کے علاوہ ایسی تصویر جس کا سر اور دھڑ کٹا ہوا ہے جو ایک مکمل تصویر کی طرح نہیں ہے بلکہ خاص ایک عضو میں ہے یعنی ایک ہاتھ ایک ناک ہو تو اسی تصویریں بھی جائز ہیں

بچوں کے کھلونے
جہاں تک کے بچوں کے کھلونوں کا تعلق ہے تو اس پر الشیخ محدث روپڑی نے بھی فرمایا تھا کہ گڑیا بنانے اور اس سے کھیلنے کی رخصت صرف بچیوں کے لیے ہے یہ اجازت عام نہیں


حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ آپ گڑیوں کے ساتھ کھیلا کرتی تھیں اور آنحضرتﷺ میری سہیلیوں کو میرے پاس لے آیا کرتے تھے تاکہ وہ میرے ساتھ کھیلیں۔

اس حدیث کو بخاری(۴۲۳/۱۰) مسلم(۱۲۵/۷) احمد(۶۶/۶، ۲۳۳تا۲۳۴)

الفاظ بھی امام احمد ہی کی روایت کے ہیں اور ابن سعد (۶۶/۸) نے روایت کیا ہے۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ کے پاس گڑیاں تھیں اور جب آنحضرتﷺ گھر تشریف لاتے تو ان سے کپڑے کے ساتھ پردہ کرلیتے۔ محدث ابو عوانہ اس کا سبب یہ بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ یہ اس لیے کرتے تاکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اپنے کھیل کو ختم نہ کریں۔

اس حدیث کو ابن سعد نے روایت کیا ہے اوراس کی سند بھی صحیح ہے۔ اس حدیث سے یہ استدلال بھی کیا گیا ہے کہ بچیوں کے لیے گڑیاں بنانا جائز ہے۔

۔ قاضی عیاض نے بھی بڑے وثوق کے ساتھ یہ بیان فرمایا ہے اور اسے جمہور کا مذہب بتایا ہے۔ بچیوں کے لیے گڑیوں کی خرید و فروخت کو جائز قرار دیا ہے تاکہ انھیں بچپن ہی سے امورِ خانہ داری کی تربیت دی جا سکے۔

۲۔ حضرت ربیع بنت معوذ سے روایت ہے کہ آنحضرتﷺ نے عاشوراء کی صبح بستیوں( جو مدینہ منورہ کے گردو پیش تھیں) کی طرف پیغام بھجوایا کہ جس نے روزہ نہ رکھا ہو وہ دن کا باقی حصہ بھی اسی حالت میں گزارے، اور جس نے روزہ رکھا ہو وہ روزے کو برقرار رکھے۔ حضرت ربیع بیان فرماتی ہیں، کہ اس کے بعد ہم ہمیشہ روزے رکھتے تھے اور چھوٹے بچوں کو بھی روزہ رکھواتے تھے اور انھیں اپنے ساتھ مسجد میں بھی لے جایا کرتے تھے۔ ہم بچوں کو روئی کی گڑیاں بنا کر دیا کرتے وہ انھیں اپنے ساتھ مسجد میں بھی لے جایا کرتے تھے۔ جب کوئی بچہ کھانے کی وجہ سے روتا تو دل(بہلانے کے لیے) اسے گڑیا دے دیتے۔ حتی کہ افطار کا وقت ہو جاتا۔ ایک روایت میں ہے کہ چھوٹے بچے جب ہم سے کھانا مانگتے تو ہم انھیں گڑیاں دے دیتے تاکہ وہ ان سے کھیلتے رہیں ا ور اپنے روزے کو پورا کرلیں۔اسے بخاری(۱۶۳/۴) نے روایت کیا ہے الفاظ بخاری ہی کے ہیں۔


خلاصہ کلام:
حلت و حرمت صرف اللہ تعالی کے اختیار میں ہے آج کل کے کچھ نام نہاد مولوی تصویر کو جائز قرار دیتے ہیں حالانکہ ان کے پاس کوئی سند نہیں لہذا ہمیں چاہیے کہ اللہ سے ڈرے اور ایسے جہل لوگوں سے دور رہیں۔
اس سے پہلے کہ اللہ ہمارا حساب لے ہمیں اپنا محاسبہ خود کر لینا چاہیے
ذی روح چیزوں کی تصویریں چاہے وہ ہاتھ سے بنائی گئی ہوں یا لکڑی وغیرہ پر کندہ کی گئی ہوں، یا مٹی وغیرہ سے بنائی گئی ہوں ان کی حرمت میں کوئی شک نہیں ہے لہذا یہ عمل کرنے والا گناہ کبیرہ میں مرتکب ہے،
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
747
ری ایکشن اسکور
128
پوائنٹ
108
حلت و حرمت صرف اللہ تعالی کے اختیار میں ہے آج کل کے کچھ نام نہاد مولوی تصویر کو جائز قرار دیتے ہیں حالانکہ ان کے پاس کوئی سند نہیں لہذا ہمیں چاہیے کہ اللہ سے ڈرے اور ایسے جہل لوگوں سے دور رہیں۔
محترم @126muhammad السلام علیکم
تصویر بنانا ایک تخلیقی عمل ہے ۔ اور بلا شبہ جاندار کی تصویر ناجائز ہے لیکن کیمرا صرف عکس دکھاتا ہے ۔
اس کو آپ تصویر کی تخلیق کیسے کہہ سکتے ہیں ۔
آئینہ بنانا بھی جائز نہیں ہونا چاہیے اس میں بھی ہمارا عکس یعنی تصویر نظر آتی ہے ؟
 
Top