• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تطہیر الاعتقاد عن درن الالحاد کا اردو ترجمہ ۔۔۔۔۔۔۔۔آئینہ توحید۔

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
تطہیر الاعتقاد عن درن الالحاد کا اردو ترجمہ


آئینہ توحید​

تصنیف:۔۔۔فضیلۃ الشیخ محمد بن اسماعیل صنعانی رحمہ اللہ
ترجمہ:۔۔۔مولانا سیف الرحمن الفلاح ایم۔اے
ناشر:مرکز الدعوۃ الاسلامیۃ،اوکاڑہ پاکستان
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
فہرست عنوانات
تعارف
مصنف رسالہ کے حالات
مقدمہ کتاب
چند اصول
فصل اول،عبادت کی اقسام
توحید عبادت کے بغیر توحید ربوبیت بے سود ہے
غیر اللہ کو نفع ونقصان پر قادر سمجھنا شرک ہے
قبر پر قربانی کا حکم
کسی شئے کا نام بدلنے سے حقیقت نہیں بدلتی
مزار،صنم و وثن کا دوسرا نام ہے
مزارات پر اللہ کے نام کی قربانی
فاسقوں کے متعلق دستگیری کا عقیدہ
سوال:جو لوگ اولیاء کی قبروں کے متعلق ایسا عقیدہ رکھتے ہیں کیا وہ مشرک ہیں؟
جواب:ہاں
سوال:کیا اولیاء کی قبروں کی تعظیم بھی شرک میں داخل ہے۔
جواب :ہاں
سوال:کیا ایسے لوگوں کے خلاف جہاد واجب ہے؟
جواب:پہلے توحید کی دعوت دیں
سوال:استغاثہ حدیث سے ثابت ہے؟
جواب:یہ دھوکہ اور فریب ہے۔
سوال:یہ کلمہ گو ہیں،ان کے ساتھ لڑائی کرنے سے منع کیا گیا ہے
جواب:نبی کریمﷺنےالابحقھا فرمایا ہے۔
سوال:حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کے قتل کرنے سے آپ ناراض کیوں ہوئے؟
جواب:یہ حکم اسلام کو قبول کرنے کے وقت ہےبعد میں اس کے معانی پر پختہ ہونا ضروری ہے
سوال:اہل قبور کے متعلق حسن عقیدت کا اظہار کرنا کیسا ہے؟
جواب:یہ تعظیم عبادت میں شامل ہےْ
سوال:قبر کے پاس نذر دینا کیسا ہے؟
جواب:قبر کے پاس نذر دینا حرام ہے۔
سوال:بعض اوقات نذر دینے والے کا کام ہوجاتا ہے۔
جواب:بتوں سے بھی مشرکوں کو بعض اوقات فائدہ پہنچ جاتا تھا۔
سوال:یہ کام تو ہر جگہ ہو رہا ہے۔
جواب:کسی کام کو اکثریت کی وجہ سے جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔
سوال:کیا تمام امت گمراہی پر متفق ہو گئی
جواب:اجماع کی حقیقت کچھ اور ہے
سوال:نبی کریمﷺکی قبر مبارک پر بھی گنبد ہے۔
جواب:یہ۶۷۸؁ھ میں بنایا گیا ہے،جو شرعی حجت نہیں بن سکتا
سوال:مجذوب کے افعال کے متعلق کیا حکم ہے؟
جواب:ان کے افعال شریعت میں سند نہیں ہوتے
سوال:مجذوبوں کے خوارق کو آپ کیا سمجھتے ہیں؟
جواب:یہ سب شیطانی امور ہیں۔
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
تعارف​

اللہ تعالیٰ کی عبادت انسان کا سب سے اہم فریضہ ہے۔اس میں غفلت شعاری اور سہل انکاری اس کے لیے ہر گز مناسب نہیں اور اس کی عبادت میں کسی اور کو شریک بنانا عبادت میں غفلت شعاری اور سہل انکاری سے بھی بدتر ہے۔دور حاضر میں ایسے لوگ بکثرت نظر آئیں گےجو اس بیماری میں مبتلا ہیں۔چنانچہ کوئی اللہ کی بارگاہ میں سر بسجود ہوتا ہےتو اس کے ساتھ ساتھ کسی مقبرہ یا مزار پر بھی اپنی جبین رگڑتا ہے۔کوئی خانہ خدا میں نماز کی ادائیگی کے بعد’’یاحی یا قیوم‘‘کا وظیفہ کرنے کی بجائے’’یا غوث اعظم‘‘وغیرہ کی رٹ لگاتا ہے۔
کوئی اللہ کے نام پر قربانی دینے کا اتنا اہم تصور نہیں کرتا جتنا صلحائے امت کی قبروں پرجانور ذبح کرنا ضروری سمجھتا ہے۔لیکن یہ تمام امور شرکیہ ہیں اور مشرک کی تمام عبادت رائیگاں جاتی ہےوہ درجہ قبولیت ہر گز حاصل نہیں کر سکتی بلکہ مشرک کا کوئی عمل خواہ کتنا بڑا ہو،ہر گز قبول نہیں ہوگا اور نہ ہے ایسا شخص اللہ کا قرب حاصل کر سکتا ہے۔
چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
((فَمَنْ كَانَ يَرْجُوْا لِقَآءَ رَبِّهٖ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّ لَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهٖۤ اَحَدًا))(الکھف:۱۱۰)
’’جو اللہ سے ملاقات کا خواہاں ہوتو اسے چاہیے کہ نیک اعمال کرتا رہےاور اپنے پروردگار کی عبادت میں کسی کو شریک نہ ٹھہرائے‘‘
نیک عمل کی تعریف یہ ہے:
کہ ایسا عمل جو اللہ کی رضا جوئی کے لیے اور رسول اللہﷺکے فرمان کے مطابق انجام دیا جائےاورآپﷺکے اسوہ حسنہ کی پیروی میں کیا جائے،اگر ان امور کا دھیان نہ رکھا جائےتو نیکی بھی نیکی نہیں رہے گی بلکہ زمرہ سیئات میں شمار ہوگی اور اس کا ثواب ملنے کی بجائے بازپرس ہوگی اور سزا ملے گی،بدیں وجہ نیکی کرتے وقت اللہ تعالیٰ کی رضا اوراس کے رسول اللہﷺکی سنت کو ہمیشہ ملحوظ رکھا جائے۔
اس موضوع پر’’شیخ محمد بن اسماعیل صنعانی رحمہ اللہ‘‘نےایک کتابچہ تصنیف کیا ہےجس کا نام’’تطہیر الاعتقاد عن درن الالحاد‘‘ہے،اس کا ترجمہ کرنے کا خواہاں ہوں،ذات ربانی پر مجھے کامل بھروسہ ہےکہ مجھے اس نیک کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی توفیق بخشے گا۔
کتابچہ کا ترجمہ شروع کرنے سے پہلے مصنف رسالہ کا مختصر سا تعارف کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
مصنف رسالہ کے مختصر حالات


شیخ محمد بن اسماعیل بن صلاح رحمہ اللہ،کحلانی ثم صنعانی۱۰۵۹؁ھ کو کحلان شہر میں پیدا ہوئے،جب کچھ ہوش سنبھالا تو علم حاصل کرنے کا شوق پیدا ہواچنانچہ حصول علم کی خاطر مختلف مقامات کا سفر کیا،کبھی صنعا کے علماءکے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا،کبھی علمائے حجاز کی خدمت میں حاضر ہوکر علم سیکھنے کی خاطر سفر کی صعوبتیں برداشت کیں اور کبھی مکہ معظمہ اورمدینہ منورہ کے متبحر علماء کی خدمت میں حاضر ہوئے۔
تحصیل علوم کے بعد واپس صنعا شہر میں آکر قیام کیا اور درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا۔علم کے پیاسے دوردراز سے آتے اور اپنی علمی پیاس بجھا کر واپس چلے جاتے۔آپ کے درس میں سنت کی احیاء اور بدعت کی بیخ کنی کا ذکرکا اکثر ذکر ہوتا تھا بلکہ آپ عملی طور پر اس کام میں مصروف ہوگئے،
آپ کے علم وفضل کا چرچا گھر گھر ہونے لگا اور آپ کی شہرت چاردانگ عالم میں پھیل گئی۔آپ نے امر بالمعروف ونہی عن المنکرکے فریضے کا عَلم بلند کیااوراصلاحی عوت کے لیے شبانہ روز مصروف ہوگئے۔اس معاملے میں اہل بدعت اور گمراہ لوگوں کی مخالفت کو خاطر میں نہ لاتے۔اور بلاخوف وخطر اللہ کے احکام سناتے اور کسی کی ملامت کا ڈر نہ رکھتے تھے۔اہل بدعت،ملحد اور بے دین لوگ آپ کی دعوت کےسخت مخالف ہوگئے،اس کے باوجود ان کے اردگردلوگوں کا انبوہ کثیر جمع رہتا تھا۔
درس و تدریس اور زبانی وعظ و تذکیر کے ساتھ ساتھ قلم وقرطاس کا مشغلہ بھی جاری رکھا۔چنانچہ آپ نےاپنی زندگی میں چھوٹی بڑی بیسیوں کتابیں اور رسالے تصنیف کئے۔ان میں سے چند مشہور کتب کے نام مندرجہ ذیل ہیں۔
1:سبل السلام شرح بلوخ المرام
2:العدۃ(یہ عمدۃ الاحکام کا حاشیہ ہے)
3:اسبال المطر شرح نخبۃ الفکر
4:ارشاد النفادالیٰ تیسیر الاجتہاد
5:تطہیر الاعتقاد عن درن الالحاد

یہ کتاب اگرچہ مختصر ہےتاہم یہ بہت کارآمد اور مفید ہے۔مصنف نے اس میں ایک مقدمہ بیان کیا ہے اورپانچ اصول بیان کئے ہیں اور باقی فصلیں ذکر کی ہیں۔
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
مقدمہ
مقدمہ میں اس امر کا ذکر کیا گیا ہےکہ اکثر شہروں میں لوگ شرک کے مہلک مرض مبتلا ہیں۔لوگ بزرگوں کی قبروں کی تعظیم کے بہانے شرک کرتے ہیں اور کاہن جو علم غیب کی خبریں دیتے ہیں،ان کی تصدیق کرتے ہیں،اندریں حالات میں نے ارادہ کیا کہ ایسی کتاب لکھوں جو ان کے مشرکانہ عقائد کی وضاحت کرے۔
اصول:
جب کہ اصول میں یہ بیان کیا ہےکہ:
1:قرآن کریم برحق ہے۔
2:تمام انبیاء اور پیغمبر توحید الوہیت کی وضاحت کی خاطر دنیا میں تشریف لائے۔
3:انسان کی عبادت کے لیے یہ بنیادی امر ہے۔
4:توحید ربوبیت کی وضاحت کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ انسانی فطرت میں مرکوز ہے اور مشرک بھی اس کااقرار کرتے ہیں۔
5:مجرد توحید ربوبیت کا اقرار کافی نہیں کیونکہ توحید عبادت میں انہوں نے خلل ڈال دیا۔
فصول:
فصول میں ان پانچ اصولوں کی تفصیل اور تشریح بیان کی گئی ہے،جس میں اہل بدعت کے شبہات اور مغالطوں کا پردہ چاک کیا گیا ہےاورآسان اور عام فہم بنانے کے لیے سوال و جواب کی طرز پر لکھا ہےتاکہ پڑھنے والے پر اس کی حجت قائم ہوجائے اور اس کا کوئی عذرباقی نہ رہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔(مترجم)
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
مقدمہ(مصنف)
تمام تعریفوں کے لائق اللہ تعالیٰ ہےجو اپنے بندوں سے توحید ربوبیت کواس وقت تک قبول نہیں کرتاجب تک وہ توحید عبادت میں اسے واحد تصور نہ کریں اور اس کا کوئی شریک نہ ٹھہرائیں،اس کے ساتھ کسی اور کے سامنےفریاد نہ کریں اور مدد کے لیے کسی اور کو نہ پکاریں اور اس کے سوا کسی پر بھروسہ نہ کریں،جب کوئی پریشانی لاحق ہو تواس کی طرف رجوع کریں،اسے کے اسمائے حسنہ کے ساتھ اسے پکاریں اور اس کا قرب حاصل کرنے کے لیےکسی سفارشی کو تلاش نہ کریں۔ایسا کوئی ہےجو اس کی اجازت کے بغیراس کے ہاں سفارش کرنے کی جرت کرے۔میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں،وہی رب اور معبودہے۔حضرت محمدﷺاس کے بندے اور رسول ہیں۔اس نے آپﷺسے فرمایا:
’’آپ لوگوں میں یہ اعلان فرمادیں کہ مجھے اپنے نفع و نقصان پر کوئی اختیار نہیں مگر جو اللہ چاہے وہی ہوتا ہےاوراس اعلان کی تصدیق کے لیےبس اللہ کی گواہی ہی کافی ہے۔
اللہ کی رحمتیں نازل ہوں نبی کریمﷺپراورآپ کی آل اورآپ کے تابعداروں پر جنہوں نے آپ کی پوری پیروی کی تاکہ ان کے اعمال ناقص نہ رہیں اور ان کے دلوں کا ہر ایسے اعتقاد سے پاک کیا جو توحید ربانی میں خلل کا موجب ہو۔
بعد ازاں اس کتابچے کانام’’تطہیر الاعتقاد عن ردن الالحاد‘‘تجویز کرتا ہوں۔
جب میں نے یمن،شام،نجد،تہامہ اور دیگر اسلامی ملکوں میں کچھ شہروں اور بستیوں میں لوگوں کو دیکھا کہ وہ اللہ کے بندوں کو اللہ کا شریک بنانے میں دریغ نہیں کرتےاور وہ کہتے ہیں کہ اہل قبور اورزندہ لوگ غیب کی خبریں جانتے ہیں اور ان کو کشف ہو جاتا ہے،حالانکہ یہ لوگ فاسق وفاجر ہوتے ہیں۔یہ مسلمانوں کی کسی مسجد میں بھول کر بھی نماز پڑھنے کے لیے نہیں جاتے،ان کو رکوع وسجدہ کرتے ہوئے کبھی نہی دیکھا گیا،ان کو کتاب وسنت کا علم قطعی نہیں ہوتا،یہ نہ قیامت سے ڈرتے ہیں اور نہ انہیں جزا وسزا کی فکر ہوتی ہے،
تو ان حالات کے پیش نظر میں نے اس تصنیف کی ذمہ داری کا بیڑا اٹھایا۔میں نے اپنی ذمہ داری کو محسوس کیا اوراپنے فرض کی ادائیگی کو ضروری سمجھا کہ جس بات سے اللہ ناراض ہوتا ہےمیں بھی اس کو برا سمجھوں تاکہ میرا شماراس زمرہ میں نہ ہوجو کتمان حق کے مرض میں مبتلا ہیں۔
چند اصول:
آپ یہ بات ذہین نشین کر لیں کہ دین کے قواعد کے چند بنیادی اصول ہیں۔ان میں سے چند اہم اور بنیادی اصول ہیں،جن کی پہچان ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے،درج ذیل ہیں:
1:
اس بات کا جاننا ضروری ہے کہ جو کچھ قرآن پاک میں ہےوہ برحق ہے اور اس میں کوئی شے غلط اور باطل نہیں۔اس حدیث میں صداقت و حقانیت کے سوا کچھ نہیں۔اس میں کذب و افتراء کا قطعا شائبہ نہیں،یہ تمام کا تمام رشد و ہدایت کا منبع ہے۔اس میں ضلالت و گمراہی کا کوئی راستہ نہیں۔اس کی تعلیم حاصل کرنا علم ہےجہالت نہیں،اس میں جو کچھ ہے شک وشبہ سے بالاتر ہے۔یہ ایک ایسا اصول ہےکہ اس کے بغیر کسی کا اسلام پورا ہوتا ہےنہ ایمان۔ہاں جب اس کا اقرار کرے،اس پر ایمان لائے اوراسے برحق تصور کرےتو اس کا ایمان پایہ تکمیل تک پہنچ گیا۔اس کو ماننے اوراس پر عمل پیرا ہونے میں کسی کا اختلاف نہیں،تمام علماء متفقہ طور پراس مسئلہ کے قائل ہیں۔
2:
اللہ تعالیٰ نے اپنے تمام رسول اور انبیاء اس لیے مبعوث فرمائے ہیں تاکہ اس کے بندوں کو اللہ کی توحید کی دعوت دیں اور یہ بتلائیں کہ صرف اسی کی عبادت کی جائے۔چنانچہ ہر رسول جب اپنی قوم میں تشریف لایاتو اس نے سب سے پہلےاپنی قوم کے سامنے یہ آواز بلند کی:
((يٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَيْرُهٗ))(الاعراف:۵۹)
’’اے میری قوم اللہ کی عبادت کرو،اس کے سوا کوئی ہستی عبادت کے لائق نہیں‘‘
تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت مت کرو،جب اللہ کی عبادت کروتو اللہ ہی سے ڈرو اور میری تابعداری میں اللہ کی عبادت کرو۔
لاالہ لا اللہ کا یہی مطلب ہے۔تمام انبیاء نے اپنی اپنی قوم کو دعوت توحید دی اور اس کے معانی کے مطابق اعتقاد رکھنے کی تلقین کی۔چنانچہ صرف زبان سے کلمہ پڑھ لینا کافی نہیں بلکہ اس کے مطابق اس عقیدہ کا اثر قلب پر بھی ہو۔
اس کا مطلب یہ ہےکہ یہ عقیدہ رکھا جائےکہ اللہ تعالیٰ اپنی الوہیت اور ربوبیت میں یکتا ہےاوراس میں اس کا کوئی شریک نہیں اور غیر اللہ کی عبادت کا انکار کیا جائےاوران سے برأت کا اظہار کیا جائے۔یہ ایک ایسا قاعدہ اور اصول ہےکہ اس میں شک و شبہات کوہرگزدخل نہیں اور کسی شخص کا ایمان اس وقت تک کامل نہیں ہو سکتاجب تک اسے اس کا پورا پورا علم نہیں ہوجاتا۔
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
3:
توحید کی بڑی بڑی دو قسمیں ہیں:
قسم اول:
توحید ربوبیت،خالقیت اوررازقیت وغیرہ ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک ہی ہے،وہی تمام جہانوں کا خالق اور ان کا رب ہے۔وہی ان کو رزق دیتا ہے۔ان امور کا مشرک بھی اقرار کرتے تھے۔وہ ان امور میں اللہ کا شریک نہیں ٹھہراتے تھےبلکہ ان امور کی نسبت صرف اللہ کی طرف کرتے تھےاور توحید کے قائل تھے،جیسا کہ چوتھے اصول اور قاعدے میں عنقریب اس کا ذکر آئے گا۔
قسم دوم:
دوسری قسم کی توحید،توحید عبادت ہے۔اس کا مطلب یہ ہےکہ تمام عبادات اللہ تعالیٰ کے لیے کی جائیں اوران میں کسی کو اللہ کا شریک نہ مانا جائے،
یہ وہ توحید ہےجس میں انہوں نےاللہ کے شریک بنائے۔شریک کے لفظ سے یہ بات واضح ہوتی ہےکہ وہ اللہ تعالیٰ کو مانتے تھے۔تو اس عالم کائنات میں انبیائے الہی کی تشریف آوری کی غرض وغایت توحید کی قسم اول کی توثیق اورپختگی اور قسم ثانی کی مشرکوں کو دعوت دینا تھا۔جیسا کہ مشرکوں کو خطاب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
((اَفِي اللّٰهِ شَكٌّ))(ابراہیم:۱۰)
’’بتلاؤ کیا تمہیں اللہ تعالیٰ کی ہستی پر کچھ شک ہے؟‘‘
نیز فرمایا:
((هَلْ مِنْ خَالِقٍ غَيْرُ اللّٰهِ))(فاطر:۳)
’’بتلاؤ تو سہی کیا اللہ کے سوا کوئی خالق ہے‘‘
اس سے مقصود ان کو اللہ کی عبادت میں کسی کو شریک کرنے سے روکنا تھا۔چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
((وَ لَقَدْ بَعَثْنَا فِيْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ))(النحل:۳۶)
’’ہم نے ہر قوم اورہر امت میں کوئی نہ کوئی رسول ضرور بھیجا جس نے لوگوں کو یہ دعوت دی کہ تم صرف اللہ کی عبادت کرو‘‘
’’ فِيْ كُلِّ اُمَّةٍ ‘‘کے الفاظ سے ظاہر ہوتا ہےکہ ہر امت اور قوم میں جو پیغمبر مبعوث ہوئے ان کی غرض وغایت صرف یہی تھی کہ لوگوں کو اس امر کی دعوت دیں کہ صرف ایک اللہ کی عبادت کرو،وہ صرف یہ بات بتلانے کے لیے اور پہچان کرانے کے لیے نہیں بھیجے گئےکہ اللہ تعالیٰ تمام جہان کا پیدا کرنے والا ہے اور وہ زمین و آسمان کا رب ہےکیونکہ اس کے تو وہ پہلے ہی قائل اور اس کو مانتے تھے۔یہی وجہ تھی کہ اس مضمون کی اکثر آیات بصغیۂ استفہام تقریری نازل ہوئیں،جیسے فرمایا:
((هَلْ مِنْ خَالِقٍ غَيْرُ اللّٰهِ))(فاطر:۳)
’’کیا اللہ کے سوا کوئی اور خالق ہے‘‘
((اَفَمَنْ يَّخْلُقُ كَمَنْ لَّا يَخْلُقُ))(النحل:۱۷)
’’کیا خالق اور غیر خالق دونوں کا درجہ برابر ہو سکتا ہے‘‘
((اَفِي اللّٰهِ شَكٌّ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ))(ابراہیم:۱۰)
’’کیا اللہ کی ہستی میں کے متعلق کوئی شک ہےجو زمین و آسمان کا خالق ہے‘‘
((اَغَيْرَ اللّٰهِ اَتَّخِذُ وَلِيًّا فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ))(الانعام:۱۴)
’’کیا اللہ کو چھوڑ کر کسی اور کو معبود بناؤں،حالانکہ اللہ تعالیٰ آسمان وزمین کا پیداکرنے والا ہے‘‘
((اَرُوْنِيْ مَا ذَا خَلَقُوْا مِنَ الْاَرْضِ))(الاحقاف:۴)
’’مجھے دکھلاؤ کہ تمہارے معبودوں نےزمین سے کس شے کو پیدا کیا ‘‘
ان سب آیات میں استفہام تقریری کا استعمال ہوا ہےکیونکہ وہ ان امور کا اقرار کرتے اور مانتے تھے۔
اس سے معلوم ہوتا ہےکہ مشرکوں نےصنام اور بتوں کو معبود نہیں بنایا تھا،نہ ان کی عبادت کرتے تھے،نہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی والدہ کو اللہ کا شریک بناتے تھےاور نہ فرشتوں کی عبادت کرتے تھےبلکہ انہوں نے ان کو اپنا معبود اس معنیٰ میں بنایا تھاکہ یہ اللہ کے مقرب ہیں اور ہم کو بھی یہ اللہ کے قریب کر دیں گے۔چنانچہ وہ اللہ کی ہستی کا اقرار کرتے تھےلیکن اس کے ساتھ کفریہ کلمات بھی کہتے تھے۔وہ کہتے تھےکہ ہم ان کو اللہ نہیں سمجھتے بلکہ ہم ان کی عبادت صرف اور صرف اس لیے کرتے ہیں،تاکہ یہ اللہ کے ہاں ہماری سفارش کریں۔
ان کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺکو یوں مخاطب فرمایا:
((قُلْ اَتُنَبِّـُٔوْنَ۠ اللّٰهَ بِمَا لَا يَعْلَمُ فِي السَّمٰوٰتِ وَ لَا فِي الْاَرْضِ سُبْحٰنَهٗ وَ تَعٰلٰى عَمَّا يُشْرِكُوْنَ))(یونس:۱۸)
’’آپ ان سے پو چھیں،کیاتم اللہ کو ایسی باتے بتلاتے ہو،جو زمین اآسمان میں کوئی نہیں جانتا،جو وہ شرک کی باتیں کرتے ہیں،اللہ تعالیٰ اس سے منزہ اور پاک ہے‘‘
تو اللہ تعالیٰ نے ان کے سفارشی بنانے کوشریک فرمایا ہےاوراپنے وجود کو شریک سے پاک گردانا ہےکیونکہ اللہ کے ہاں اس کی اجازت کے بغیر سفارش کرنے کی کسی کو ہمت نہیں۔ہاں جس کو وہ اجازت دےتو اس کی اجازت سےجس کام کے متعلق وہ حکم دےگا سفارش کریں گے۔یہ لوگ اللہ کے ہاں کیسے سفارشی بناتے ہیں،حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو سفارش کا اجازت نامہ نہیں دیا اور نہ ان میں سفارش کرنے کی اہلیت ہے۔حقیقت یہ ہےکہ یہ لوگ قیامت کے دن ان کے کسی کام نہیں آئیں گے۔
4:
وہ مشرک جن کی طرف اللہ کے رسول مبعوث ہوئے،اقرار کرتے تھےکہ ہمارا خالق اللہ ہے۔جیسے ارشاد باری تعالیٰ ہے:
((وَ لَىِٕنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ خَلَقَهُمْ لَيَقُوْلُنَّ اللّٰهُ))(الزخرف:۸۷)
’’اگر ان مشرکوں سے پوچھو کہ تم کو کس نے پیدا کیا تو وہ یہی کہیں گےکہ ہم کو اللہ نے پیدا کیا ہے‘‘
وہ زمین وآسمان کا پیدا کرنے والا بھی اللہ کو تسلیم کرتے تھے،جیسے ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَ لَىِٕنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ لَيَقُوْلُنَّ خَلَقَهُنَّ الْعَزِيْزُ الْعَلِيْمُۙ(الزخرف:۹)
’’اگر ان سے آپ دریافت کریں کہ زمین وآسمان کا خالق کون ہے؟تو وہ بلاشبہ یہی کہیں گےکہ ان کو اللہ نے پیدا کیا ہےجو غالب ہے اور جاننے والا ہے‘‘
وہ رازق ہےجو زندہ کو مردہ سے نکالتا ہےاور مردہ کوزندہ سے نکالتا ہےاوروہی ہےجو آسمان سے زمین کی طرف کام کی تدبیر کرتا ہےاورکانوں،آنکھوں اور دلوں کا مالک وہی ہے۔نیز فرمایا:
((قُلْ مَنْ يَّرْزُقُكُمْ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ اَمَّنْ يَّمْلِكُ السَّمْعَ وَ الْاَبْصَارَ وَ مَنْ يُّخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَ يُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ وَ مَنْ يُّدَبِّرُ الْاَمْرَ فَسَيَقُوْلُوْنَ۠ اللّٰهُ فَقُلْ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ))(یونس:۳۱)
’’آپ ان سے دریافت کیجیے کہ بتاؤ زمین وآسمان سے تمہیں رزق کون دیتا ہے،کانوں اور آنکھوں پر کس کا قبضہ ہے؟مردہ جسم سےجاندار اور جاندار کے جسم سے مردہ جسم کو نکالنا کس کا کام ہے اور ہر کام کی تدبیر کون کرتا ہے؟وہ فوراً بول اٹھیں گےکہ ان سب امور کو اللہ ہی کرتا ہے۔پھر آپ ان سے کہیں تمہیں خوف خدا کیوں نہیں آتا؟‘‘
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
نیز ارشاد فرمایا:
((قُلْ لِّمَنِ الْاَرْضُ وَ مَنْ فِيْهَاۤ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۔(۸۴)سَيَقُوْلُوْنَ لِلّٰهِ قُلْ اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ(۸۵)قُلْ مَنْ رَّبُّ السَّمٰوٰتِ السَّبْعِ وَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيْمِ(۸۶)سَيَقُوْلُوْنَ لِلّٰهِ قُلْ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ(۸۷)قُلْ مَنْۢ بِيَدِهٖ مَلَكُوْتُ كُلِّ شَيْءٍ وَّ هُوَ يُجِيْرُ وَ لَا يُجَارُ عَلَيْهِ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ(۸۸)سَيَقُوْلُوْنَ لِلّٰهِ قُلْ فَاَنّٰى تُسْحَرُوْنَ(۸۹)(المومنون:۸۴۔۸۹)
’’آپ ان مشرکین سے پوچھیں کہ زمین اورزمین کی اشیاءپرکس کا قبضہ ہے؟اگر تمہیں کچھ علم ہےتوبتاؤ تو سہی؟وہ فورا جواب دیں گےکہ یہ سب کچھ اللہ کا ہے۔پھر آپ ان سے سوال کیجیے کہ تم پھر نصیحت کیوں نہیں حاصل کرتے؟آپ ان سے دریافت کریں کہ بتاؤ ساتوں آسمانوں اور عرش عظیم کا رب کون ہے؟تو وہ فوراً بول اٹھیں گےکہ سب کچھ اللہ کا ہے۔پھر آپ ان سے پوچھیں،جب تم اللہ کو ایسی عظیم الشان ہستی تصور کرتے ہوتو پھر اس سے ڈرتے کیوں نہیں؟آپ ان سے دریافت کیجیے کہ اگر تم کو کچھ علم ہےتو بتاؤہر شے کا مالک کون ہے؟وہ ہر شے کو پناہ دیتا ہےاوراسے کسی کی پناہ کی ضرورت نہیں۔وہ فورا کہیں گےکہ سب کچھ اللہ ہی کا ہےتو پھر آپ ان سے دریافت کریں کہ تم کو کیسا جادو ہوا ہےکہ تم ان باتوں کا انکار کرتے ہو؟
فرعون جو کفر میں سب سے بازی لے گیا تھا اور سب سے زیادہ قبیح دعوی کیا اور بولا:
((اَنَا رَبُّكُمُ الْاَعْلٰى))(النزعت:۲۴)
’’میں تمہارا سب سے بڑا رب ہوں‘‘
اللہ تعالیٰ نے اس کے متعلق حضرت موسی علیہ السلام کی زبان سے کہلوایا:
((لَقَدْ عَلِمْتَ مَاۤ اَنْزَلَ هٰۤؤُلَآءِ اِلَّا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ بَصَآىِٕرَ))(بنی اسرائیل:۱۰۲)
’’تو خوب جانتا ہےکہ ان آیات کو زمین وآسمان کے رب نے نازل کیاہے،جن میں بصیرت ہے‘‘
نیز ابلیس کہتا ہے:
((اِنِّيْۤ اَخَافُ اللّٰهَ رَبَّ الْعٰلَمِيْنَ))(حشر:۱۶)
’’مجھے اللہ رب العالمین سے ڈر لگتا ہے‘‘
نیز کہتا ہے:
رب بما اغویتنی‘‘ایک اور مقام پر’’رَبِّ اَنْظِرْنِیْ‘‘کے الفاظ مذکور ہیں۔
چنانچہ ہر مشرک اس بات کا اقرار کرتا ہےکہ اس کا خالق اللہ ہے۔زمین وآسمان کا خالق بھی وہی ہے۔وہ ان کا اور جو کچھ ان میں موجود ہےسب کا رب ہے اورسب کا رازق ہے۔
بنابریں انبیاء نے ان پریہ حجت پیش کی کہ:
((اَفَمَنْ يَّخْلُقُ كَمَنْ لَّا يَخْلُقُ))(النحل:۱۷)
’’کیا خالق اور مخلوق برابر ہو سکتے ہیں‘‘
نیز فرمایا:
((اِنَّ الَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ لَنْ يَّخْلُقُوْا ذُبَابًا وَّ لَوِ اجْتَمَعُوْا لَهٗ))(الحج:۷۳)
’’اللہ کے سوا جن کو تم پکارتے ہووہ تو بیچارے اس قدر عاجز ہیں کہ ایک مکھی بنانے پر بھی قادر نہیں خواہ وہ تمام اکٹھے ہو کرکوشش کریں‘‘
اس سے معلوم ہوتا ہےکہ مشرک لوگ ان امور کا اقرار کرتے تھےاوران کو اس کا انکار کرنے کی کوئی گنجائش ہر گز نہ تھی۔
5:
عبادت انتہائی عاجزی اور انکسار کا نام ہےاور اس کا اظہار صرف اللہ کی بارگاہ میں کیا جاتا ہےکیونکہ وہ انواع واقسام کی نعمتوں کا مالک ہےاور اسی لائق ہےکہ اس کے سامنے انتہائی عاجزی اور خشوع و خضوع کا اظہار کیا جائے۔
جیسا کہ کشاف میں مذکور ہے۔پھر تمام عبادتوں کی جڑ اوربنیاد اللہ کی توحید ہےجس کے لیے اسی کلمہ کی قید ہےجس کی تمام انبیاء نے دعوت دی اور وہ کلمہ’’لا الہ الا اللہ‘‘ہے۔اس سے مراد اسے معانی ہر اعتقاد رکھنا ہےصرف زبان سے پڑھ لینا کافی نہیں۔
اس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی عبادت اور الوہیت میں یکتا ہے اور اس میں اس کا کوئی شریک نہیں اور اس کے سوا جو لوگوں نے باطل معبود بنا رکھے ہیں۔ان سے بیزاری کا اظہار کیا جائے۔کفار کلمہ کے معانی خوب جانتے تھے۔وہ اہل عرب تھے اور عربی زبان ان کی مادری تھی۔
چنانچہ نبی کریمﷺکی وعظ و تذکیر سن کر کہنے لگے:
’’اس پیغمبر نے تمام معبودوں سے منہ پھیر کرصرف ایک معبود کی عبادت کرنی شروع کر دی ہے،یہ تو بہت ہی عجیب بات ہے‘‘
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
الفصل الاول:

عبادت کی اقسام:
جب آپ نے ان قواعد واصولوں کو پہچان لیا تو آپ یہ بھی جان لیں کہ اللہ نے عبادت کو کئی اقسام میں منقسم فرمایا ہے۔کچھ ان میں اعتقادی ہیں جو دین کی بنیاد ہیں۔
مثلااس بات کا اقرار رکھے کہ وہ یقینی طور پر اس کا رب ہے۔پیدائش اور امر کے معاملہ پر اس کا مکمل کنڑول ہے،نفع ونقصان پر اسےمکمل دسترس ہے،اس کا کوئی شریک نہیں،اس کی اجازت کے بغیر اس کے ہاں کسی کو سفارش کرنے کی ہمت نہیں ہوگی۔وہ ایسا معبود نہیں کہ غیر کواپنی عبادت میں شامل کرےکیونکہ یہ الوہیت کے لوازم میں سے ہے۔
کچھ عبادتیں زبانی ہوتی ہیں جیسے کلمہ توحید کا زبان سے اقرار کرنا،جو شخص مذکور کلمہ کا اعتقاد رکھتا ہےلیکن زبان سے نہیں کہتاتو اس کے جان ومال کی حفاظت نہیں ہوگی،وہ شخص ابلیس کی مانند ہوگاکیونکہ وہ توحید ربانی کا قائل ہےبلکہ اس کا اقرار بھی کرتا ہے۔جیسا کہ اس کے متعلق ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں۔ہاں البتہ اس نے اللہ کے حکم سے سرتابی کی،جس کی بنا پر اس پر کفر کا فتوی صادر ہو گیا۔
جو شخص زبان سے کلمہ توحید پڑھتا ہےلیکن اس کے مطابق اس کا عقیدہ نہیں تو اس کی جان ومال مسلمانوں پر حرام ہیں،اپنے اندرونی نفاق کا اللہ تعالیٰ کو جوابدہ ہوگا۔ایسا شخص منافقوں کے زمرے میں شمار ہوگا اور اس پر منافقوں کے مطابق احکام نافذ ہوگے۔
بدنی عبادات جیسے نماز میں قیام، رکوع اور سجدہ وغیرہ۔روزہ اور حج کے افعال بھی اسی عبادت میں شمار ہیں۔
مالی عبادات جیسے اللہ کے حکم کی پیروی کرتے ہوئےاپنے مال میں سے کچھ متعین حصہ اللہ کی راہ میں دینا،پھر مالی اور بدنی عبادات میں سے کچھ امور واجب ہیں اور کچھ مستحب۔
مالی،قولی اور بدنی عبادات میں واجبات اور مستحبات بے شمار ہیں لیکن ان کی بنیادان مذکوربالاامور پر ہے۔جب ان امور سےآپ کو آگاہی ہوگی توآپ یہ بھی جان لیں کہ اللہ تعالیٰ نے اول سے آخر تک تمام انبیاء کو اس لیے بھیجا تھا تاکہ لوگوں کو اس امر کی دعوت دیں کہ اللہ کی عبادت میں اس کو کوئی شریک نہ ٹھہرائیں۔وہ صرف اس لیے تشریف نہیں لائے تھےکہ لوگوں کو بتائیں کہ اللہ کا کوئی شریک نہیں جو تخلیقی امور میں اس کا معاون اور مددگار ہوکیونکہ اس کا تو وہ اقرار کرتے تھےاور اس بات کو تسلیم کرتے تھے،
جیسا کہ ہم گزشتہ سطور میں ثابت کر چکے ہیں۔
اسی لیے وہ اپنے پیغمبر سے کہتے تھے:
((اَجِئْتَنَا لِنَعْبُدَ اللّٰهَ وَحْدَهٗ))(الاعراف:۷۰)
’’کیا تو ہمیں اس بات پر لگانا چاہتا ہےکہ ہم اپنے تمام بتوں کو چھوڑ کر صرف اللہ کی عبادت کریں‘‘
پیغمبروں سے ان کی مخالفت صرف اس بات پرتھی کہ صرف اللہ کی عبادت کرو۔وہ اللہ کی ذات کے منکر نہیں تھےاور نہ اس بات سے انکار کرتے تھےکہ اللہ تعالیٰ عبادت کےلائق ہےبلکہ وہ تو اقرار کرتے تھےکہ اللہ کی ذات لائق عبادت ہے۔ان کا انبیاء سے صرف اس بات سے اختلاف تھاکہ انبیاء انہیں کہتے تھےکہ صرف ایک اللہ کی عبادت کرو جبکہ وہ اللہ کی عبادت میں اوروں کو شریک کرتے تھے اور ان کو معبود سمجھتے تھے۔
جیسا کہ اللہ نے فرمایا:
((فَلَا تَجْعَلُوْا لِلّٰهِ اَنْدَادًا وَّ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ))(البقرہ:۲۲)
’’یعنی تمہیں اس بات کا علم ہےکہ اللہ کا کوئی شریک نہیں۔پھر تم اللہ کا شریک کیوں بناتے ہو‘‘
جب وہ حج کرتے تو تلبیہ یوں پڑھتے:
((لبیک لا شریک لک الا شریکاً ھو لک لملکہ وما ملک))
’’میں حاضر ہوں!الہی تیرا کوئی شریک نہیں،لیکن ایک شریک ہےجو اپنے آپ پر اختیار نہیں رکھتا اس کا بھی تو مالک ہے‘‘
نبی کریمﷺجب ان کا تلبیہ سنتے تو کہتے،جب یہ لوگ’’لَا شَرِیْکَ لَکَ‘‘کہتے ہیں تو اللہ کی توحید کا اقرار کرتے ہیں۔کاش وہ اس سے اگلا کلمہ’’الا شریکا ھو لک‘‘نہ کہتے‘‘
تو اس سے معلوم ہوتا ہےکہ وہ اللہ کو مانتے تھےلیکن اس کے ساتھ اور لوگوں کواس کے شریک بناتے تھے۔
قیامت کے روز اللہ مشرکوں کو مخاطب کرکے فرمائے گا:
((اَيْنَ شُرَكَآءِيَ الَّذِيْنَ كُنْتُمْ تَزْعُمُوْنَ))(القصص:۶۲)
’’میرے جو تم نے شریک بنائے ہوئے تھےان کو بلاؤ تو سہی وہ کہاں ہیں؟‘‘

ایک اورمقام پر فرمایا:
((وَ قِيْلَ ادْعُوْا شُرَكَآءَكُمْ فَدَعَوْهُمْ فَلَمْ يَسْتَجِيْبُوْا لَهُمْ))(القصص:۶۴)
’’اللہ تعالیٰ مشرکوں سے فرمائے گا،تم نے جو میرے شریک بنا رکھے تھے۔ان کو بلاؤ،وہ ان کو پکاریں گےلیکن وہ ان کو کوئی جواب نہ دیں گے‘‘

ایک اور مقام پر اللہ رب العزت نے اپنے نبی کریمﷺسےمخاطب ہو کر فرمایا:
((قُلِ ادْعُوْا شُرَكَآءَكُمْ ثُمَّ كِيْدُوْنِ فَلَا تُنْظِرُوْنِ))(الاعراف:۱۹۵)
’’آپ ان مشرکوں سےکہیں کہ تم نے اللہ کے جو شریک بنا رکھے ہیں،ان سب کو بلالو۔پھر میرے ساتھ جو داؤ کرنا چاہتے ہو کرو اور مجھے مہلت مت دو‘‘
تو ان آیات سے ثابت ہوتا ہےکہ وہ اللہ کا شریک تو بناتے تھےلیکن اللہ کی ذات کے منکر نہیں تھے۔وہ بتوں کو خدا نہیں سمجھتے تھےبلکہ ان کی عبادت،ان کے سامنے خشوع و خضوع کا اظہاراور ان کے پاس قربانی کے جانوراس لیے ذبح کرتے تھےتاکہ وہ ان کو اللہ کے مقرب بنا دیں اور ان کی اللہ کے ہاں سفارش کریں کیونکہ وہ اس پر اعتقاد رکھتے تھےکہ ان کے ذریعے اللہ کا قرب حاصل ہوتا ہےاوریہ اس کے ہاں سفارش کرتے ہیں۔

الغرض اللہ نےاپنے پیغمبروں کو لوگوں کی طرف اس لیے بھیجا تا کہ ان کو اللہ کی عبادت کے ماسواہر شے کی عبادت سے روک دیں اور لوگوں کو بتلا دیں کہ اللہ کے شریک بنانے کے متعلق ان کا عقیدہ سراسر باطل اور غلط ہے۔یہ عقیدہ صرف اللہ رب العزت کے متعلق ہونا چاہیے اسی کا نام توحید عبادت ہے۔
توحید ربوبیت کے تو وہ قائل تھےجیسا کہ چوتھے اصول میں ذکر ہوچکا ہےکہ اللہ ہم سب کا پیدا کرنے والا ہے۔
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
پیغمبروں کی دعوت:

اس سے معلوم ہوتا ہےکہ وہ توحید جس کی طرف نوح علیہ السلام سے لے کرحضرت محمدﷺتک تمام انبیاءنے جو دعوت دی،وہ دعوت توحید تھی،اسی لیے اللہ کے رسول ان سے کہتے تھے:
((اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّا اللّٰهَ))(ھود:۲)
’’تم اللہ کے ماسوا کسی کی عبادت مت کرو‘‘

((اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَيْرُهٗ))(الاعراف:۵۹)
’’تم اللہ کی عبادت کرواس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں‘‘

بعض مشرک ایسے تھے جو فرشتوں کو پکارتے تھےاور مصائب وشدائد کے موقعہ پر ان سےدرخواستیں کرتے تھے،کچھ پتھروں کے پجاری تھےاور دکھ ودرد کے موقعہ پر ان کو پکارتے تھے۔اندیں حالات اللہ تعالیٰ نے حضرت محمدﷺکو مبعوث فرمایا تاکہ ان کو ایک اللہ کی دعوت دیں اور یہ کہ صرف اسی کی عبادت کریں جیسے ربوبیت میں،یعنی زمین وآسمان کا رب ہونے میں اسی کا اقرار کرتے تھے۔اسی طرح کلمہ’’لا الہٰ الا اللہ‘‘میں اسے خالص کریں اس کے معانی پر اعتقاد رکھتے ہوئے اس کے مقتضیات کے مطابق عمل کریں اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور کو مت پکاریں۔
چنانچہ فرمایا:
((لَهٗ دَعْوَةُ الْحَقِّ وَ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖ لَا يَسْتَجِيْبُوْنَ۠ لَهُمْ بِشَيْءٍ))(الرعد:۱۴)
’’اللہ کو پکارنا برحق ہےلیکن جو لوگ اس کے سوااوروں کو پکارتے ہیں تو وہ ان کی کسی بات کا جواب نہیں دیتے‘‘
اور فرمایا:
((وَ عَلَى اللّٰهِ فَتَوَكَّلُوْۤا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ))(المائدہ:۲۳)
’’اگر تم اللہ پر ایمان رکھتے ہوتو اسی پر بھروسہ کرو‘‘

یعنی ایمان باللہ کی تصدیق کی شرط یہ ہےکہ اس کے سواکسی پر بھروسہ نہ کیا جائے اور توکل صرف اسی ذات اقدس پر کیا جائےکہ دعا اور استغفاراللہ کے لیے خاص ہیں۔
اللہ نے اپنے بندوں کوحکم فرمایاکہ وہ یوں کہیں:
((اِيَّاكَ نَعْبُدُ))’’ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں‘‘
اس کلمہ کے قائل کی تصدیق اس وقت ہوگی،جب وہ اپنی تمام عبادات اللہ کے لیے خاص کرے،ورنہ وہ اپنے بیان میں جھوٹا ہوگا اور اسے ایسا کلمہ کہنے کی اجازت نہ ہوگی کیونکہ اس کے معانی یہ ہیں کہ ہم تجھ کو عبادت میں خاص کرتے ہیں۔
اللہ کے ارشاد’’یعنی میری ہی عبادت کرو اور مجھی سے ڈرو‘‘کا یہی مطلب ہےجیسا کہ علم بیان سے اس کی وضاحت ہوتی ہے۔اس کا مطلب یہ ہےکہ تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت مت کرواور غیر اللہ سے مت ڈرو۔
تو اس کی توحید عبادت کی تکمیل اس وقت ہوگی جبکہ دکھ سکھ میں پر قسم کی نداء اور دعا اللہ کے لیے ہویعنی صرف اللہ ہی سے مدد طلب کی جائے،اسی سے پناہ حاصل کی جائے،اسی کی نذر مانی جائے اور اسی کے نام قربانی دی جائے۔عبادت کی تمام اقسام خضوع وخشوع،قیام،اللہ کے سامنے عاجزی کا اظہار،رکوع،سجود،طواف وغیرہ تمام امور اللہ کے لیے کئے جائیں۔جو شخص ان امور میں سے کوئی امر اللہ کی مخلوق کے لیے کرتا ہے،خواہ وہ زندہ ہو یا مردہ یا جمادات وغیرہ ہو تو ایسا شخص شرک فی العبادت کا ارتکاب کرتا ہے۔
جس کے لیے وہ یہ کام کرے گاوہ اس کا الہٰ مقصود ہوگااور وہ اس کا عبادت کنندہ شمار ہوگاخواہ وہ فرشتہ ہو یا نبی،کوئی ولی ہو یا کوئی درخت یا قبر ہو،زندہ ہو یا مردہ۔تو اس عبادت سےیا اس قسم کی دیگر عبادات سے اس کا عبادت کنندہ شمار ہوگاخواہ وہ زبان سے اللہ کی ذات کا اقرار کرےاور اس کی عبادت کرےکیونکہ مشرکوں کا اللہ کا اقرار کرنا اور ان کے ذریعے اسی کا قرب حاصل کرنا انہیں مشرک ہونے سے خارج نہیں کرسکتا اور ان کے خون بہانے اور ان کے بچوں کو قید کرنے اور انکا مال لوٹنے سے بچا نہیں سکتا۔
چنانچہ رسول اکرمﷺفرماتے ہیں۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’انا اغنی الشرکآء عن الشرک‘‘
’’میرے جو شریک بنائے جاتے ہیں،میں ان کے شرک سے بیزار ہوں اور بے احتیاج ہوں‘‘
اللہ تعالیٰ ایسا کوئی عمل قبول نہیں کرتے جس میں شرک کی امیزش ہوتو شخص اللہ کی عبادت کے ساتھ غیر کی عبادت کرتا ہےوہ درحقیقت اللہ کی ذات پر ایمان ہی نہیں لایا۔
 
Top