3:
توحید کی بڑی بڑی دو قسمیں ہیں:
قسم اول:
توحید ربوبیت،خالقیت اوررازقیت وغیرہ ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک ہی ہے،وہی تمام جہانوں کا خالق اور ان کا رب ہے۔وہی ان کو رزق دیتا ہے۔ان امور کا مشرک بھی اقرار کرتے تھے۔وہ ان امور میں اللہ کا شریک نہیں ٹھہراتے تھےبلکہ ان امور کی نسبت صرف اللہ کی طرف کرتے تھےاور توحید کے قائل تھے،جیسا کہ چوتھے اصول اور قاعدے میں عنقریب اس کا ذکر آئے گا۔
قسم دوم:
دوسری قسم کی توحید،توحید عبادت ہے۔اس کا مطلب یہ ہےکہ تمام عبادات اللہ تعالیٰ کے لیے کی جائیں اوران میں کسی کو اللہ کا شریک نہ مانا جائے،
یہ وہ توحید ہےجس میں انہوں نےاللہ کے شریک بنائے۔شریک کے لفظ سے یہ بات واضح ہوتی ہےکہ وہ اللہ تعالیٰ کو مانتے تھے۔تو اس عالم کائنات میں انبیائے الہی کی تشریف آوری کی غرض وغایت توحید کی قسم اول کی توثیق اورپختگی اور قسم ثانی کی مشرکوں کو دعوت دینا تھا۔جیسا کہ مشرکوں کو خطاب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
((اَفِي اللّٰهِ شَكٌّ))(ابراہیم:۱۰)
’’بتلاؤ کیا تمہیں اللہ تعالیٰ کی ہستی پر کچھ شک ہے؟‘‘
نیز فرمایا:
((هَلْ مِنْ خَالِقٍ غَيْرُ اللّٰهِ))(فاطر:۳)
’’بتلاؤ تو سہی کیا اللہ کے سوا کوئی خالق ہے‘‘
اس سے مقصود ان کو اللہ کی عبادت میں کسی کو شریک کرنے سے روکنا تھا۔چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
((وَ لَقَدْ بَعَثْنَا فِيْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ))(النحل:۳۶)
’’ہم نے ہر قوم اورہر امت میں کوئی نہ کوئی رسول ضرور بھیجا جس نے لوگوں کو یہ دعوت دی کہ تم صرف اللہ کی عبادت کرو‘‘
’’
فِيْ كُلِّ اُمَّةٍ ‘‘کے الفاظ سے ظاہر ہوتا ہےکہ ہر امت اور قوم میں جو پیغمبر مبعوث ہوئے ان کی غرض وغایت صرف یہی تھی کہ لوگوں کو اس امر کی دعوت دیں کہ صرف ایک اللہ کی عبادت کرو،وہ صرف یہ بات بتلانے کے لیے اور پہچان کرانے کے لیے نہیں بھیجے گئےکہ اللہ تعالیٰ تمام جہان کا پیدا کرنے والا ہے اور وہ زمین و آسمان کا رب ہےکیونکہ اس کے تو وہ پہلے ہی قائل اور اس کو مانتے تھے۔یہی وجہ تھی کہ اس مضمون کی اکثر آیات بصغیۂ استفہام تقریری نازل ہوئیں،جیسے فرمایا:
((هَلْ مِنْ خَالِقٍ غَيْرُ اللّٰهِ))(فاطر:۳)
’’کیا اللہ کے سوا کوئی اور خالق ہے‘‘
((اَفَمَنْ يَّخْلُقُ كَمَنْ لَّا يَخْلُقُ))(النحل:۱۷)
’’کیا خالق اور غیر خالق دونوں کا درجہ برابر ہو سکتا ہے‘‘
((اَفِي اللّٰهِ شَكٌّ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ))(ابراہیم:۱۰)
’’کیا اللہ کی ہستی میں کے متعلق کوئی شک ہےجو زمین و آسمان کا خالق ہے‘‘
((اَغَيْرَ اللّٰهِ اَتَّخِذُ وَلِيًّا فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ))(الانعام:۱۴)
’’کیا اللہ کو چھوڑ کر کسی اور کو معبود بناؤں،حالانکہ اللہ تعالیٰ آسمان وزمین کا پیداکرنے والا ہے‘‘
((اَرُوْنِيْ مَا ذَا خَلَقُوْا مِنَ الْاَرْضِ))(الاحقاف:۴)
’’مجھے دکھلاؤ کہ تمہارے معبودوں نےزمین سے کس شے کو پیدا کیا ‘‘
ان سب آیات میں استفہام تقریری کا استعمال ہوا ہےکیونکہ وہ ان امور کا اقرار کرتے اور مانتے تھے۔
اس سے معلوم ہوتا ہےکہ مشرکوں نےصنام اور بتوں کو معبود نہیں بنایا تھا،نہ ان کی عبادت کرتے تھے،نہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی والدہ کو اللہ کا شریک بناتے تھےاور نہ فرشتوں کی عبادت کرتے تھےبلکہ انہوں نے ان کو اپنا معبود اس معنیٰ میں بنایا تھاکہ یہ اللہ کے مقرب ہیں اور ہم کو بھی یہ اللہ کے قریب کر دیں گے۔چنانچہ وہ اللہ کی ہستی کا اقرار کرتے تھےلیکن اس کے ساتھ کفریہ کلمات بھی کہتے تھے۔وہ کہتے تھےکہ ہم ان کو اللہ نہیں سمجھتے بلکہ ہم ان کی عبادت صرف اور صرف اس لیے کرتے ہیں،تاکہ یہ اللہ کے ہاں ہماری سفارش کریں۔
ان کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺکو یوں مخاطب فرمایا:
((قُلْ اَتُنَبِّـُٔوْنَ۠ اللّٰهَ بِمَا لَا يَعْلَمُ فِي السَّمٰوٰتِ وَ لَا فِي الْاَرْضِ سُبْحٰنَهٗ وَ تَعٰلٰى عَمَّا يُشْرِكُوْنَ))(یونس:۱۸)
’’آپ ان سے پو چھیں،کیاتم اللہ کو ایسی باتے بتلاتے ہو،جو زمین اآسمان میں کوئی نہیں جانتا،جو وہ شرک کی باتیں کرتے ہیں،اللہ تعالیٰ اس سے منزہ اور پاک ہے‘‘
تو اللہ تعالیٰ نے ان کے سفارشی بنانے کوشریک فرمایا ہےاوراپنے وجود کو شریک سے پاک گردانا ہےکیونکہ اللہ کے ہاں اس کی اجازت کے بغیر سفارش کرنے کی کسی کو ہمت نہیں۔ہاں جس کو وہ اجازت دےتو اس کی اجازت سےجس کام کے متعلق وہ حکم دےگا سفارش کریں گے۔یہ لوگ اللہ کے ہاں کیسے سفارشی بناتے ہیں،حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو سفارش کا اجازت نامہ نہیں دیا اور نہ ان میں سفارش کرنے کی اہلیت ہے۔حقیقت یہ ہےکہ یہ لوگ قیامت کے دن ان کے کسی کام نہیں آئیں گے۔
4:
وہ مشرک جن کی طرف اللہ کے رسول مبعوث ہوئے،اقرار کرتے تھےکہ ہمارا خالق اللہ ہے۔جیسے ارشاد باری تعالیٰ ہے:
((وَ لَىِٕنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ خَلَقَهُمْ لَيَقُوْلُنَّ اللّٰهُ))(الزخرف:۸۷)
’’اگر ان مشرکوں سے پوچھو کہ تم کو کس نے پیدا کیا تو وہ یہی کہیں گےکہ ہم کو اللہ نے پیدا کیا ہے‘‘
وہ زمین وآسمان کا پیدا کرنے والا بھی اللہ کو تسلیم کرتے تھے،جیسے ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَ لَىِٕنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ لَيَقُوْلُنَّ خَلَقَهُنَّ الْعَزِيْزُ الْعَلِيْمُۙ(الزخرف:۹)
’’اگر ان سے آپ دریافت کریں کہ زمین وآسمان کا خالق کون ہے؟تو وہ بلاشبہ یہی کہیں گےکہ ان کو اللہ نے پیدا کیا ہےجو غالب ہے اور جاننے والا ہے‘‘
وہ رازق ہےجو زندہ کو مردہ سے نکالتا ہےاور مردہ کوزندہ سے نکالتا ہےاوروہی ہےجو آسمان سے زمین کی طرف کام کی تدبیر کرتا ہےاورکانوں،آنکھوں اور دلوں کا مالک وہی ہے۔نیز فرمایا:
((قُلْ مَنْ يَّرْزُقُكُمْ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ اَمَّنْ يَّمْلِكُ السَّمْعَ وَ الْاَبْصَارَ وَ مَنْ يُّخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَ يُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ وَ مَنْ يُّدَبِّرُ الْاَمْرَ فَسَيَقُوْلُوْنَ۠ اللّٰهُ فَقُلْ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ))(یونس:۳۱)
’’آپ ان سے دریافت کیجیے کہ بتاؤ زمین وآسمان سے تمہیں رزق کون دیتا ہے،کانوں اور آنکھوں پر کس کا قبضہ ہے؟مردہ جسم سےجاندار اور جاندار کے جسم سے مردہ جسم کو نکالنا کس کا کام ہے اور ہر کام کی تدبیر کون کرتا ہے؟وہ فوراً بول اٹھیں گےکہ ان سب امور کو اللہ ہی کرتا ہے۔پھر آپ ان سے کہیں تمہیں خوف خدا کیوں نہیں آتا؟‘‘