تراویح کی رکعات کتنی ہیں اس کی بحث ہندوستان اورپوری دنیا میں ایک گروہ نے شروع کی ہے،ورنہ اس سے قبل پوری دنیا میں بیس یااس سے زائد رکعات پر عمل ہوتاتھا،
آپ نے بالکل غلط فرمایا ، کہ بیس سے کم تعداد رکعات تراویح کی بحث ہندوستان وغیرہ میں ایک گروہ نے شروع کی ،
محبت چونکہ انسان کو اندھا کردیتی ہے
﴿ حبك الشيئ يعمي ويصم﴾
تو اہل حدیث کی محبت میں آپ کو یہ حقیقت نظر نہیں آئی کہ
امام ابوحنیفہ کے شاگرد امام محمدؒ بن الحسن الشیبانی مؤطا میں روایت کرتے ہیں :
(باب قيام شهر رمضان وما فيه من الفضل)
أخبرنا مالك، حدثنا سعيد المقبري، عن أبي سلمة بن عبد الرحمن: أنه سأل عائشة كيف كانت صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم في رمضان؟ قالت: ما كان (1) رسول الله صلى الله عليه وسلم يزيد في رمضان ولا غيره على إحدى (2) عشرة ركعة (1) ، يصلي أربعا، فلا تسأل عن حسنهن (2) وطولهن، ثم يصلي أربعا (3) فلا تسأل عن حسنهن وطولهن ثم يصلي ثلاثا (4) ، قالت: فقلت: يا رسول الله أتنام (5) قبل أن توتر؟ فقال: يا عائشة عيناي تنامان (1) ولا ينام قلبي (2)
https://archive.org/stream/moumjad/moumjad01#page/n617/mode/2up
یعنی ماہ رمضان کا قیام اور اس کی فضیلت ( اس کی توضیح میں علامہ عبدالحی لکھتے ہیں " ويسمى التراويح " اس قیام سے مراد تراویح ہے :
❀جناب ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رمضان میں (رات کی) نماز (تراویح) کیسی ہوتی تھی ؟ تو ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا :ما كان يزيد فى رمضان ولا فى غيره على إحدي عشرة ركعة إلخ ”رمضان ہو یا غیر رمضان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔“ الخ
_____________________
اس کے حاشیہ میں مشہور حنفی عالم علامہ عبدالحی لکھنوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
قوله: إحدى عشر ركعة، روى ابن أبي شيبة وعبد بن حميد والبغوي والبيهقي والطبراني، عن ابن عباس: أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يصلي بعشرين ركعة والوتر في رمضان. وفي سنده إبراهيم بن عثمان أبو شيبة جد ابن أبي شيبة صاحب المصنف، وهو مقدوح فيه، وقد ذكرت كلام الأئمة عليه في "تحفة الأخيار". وقال جماعة من العلماء - منهم الزيلعي وابن الهمام والسيوطي والزرقاني -: إن هذا الحديث مع ضعفه معارض بحديث عائشة الصحيح في عدم الزيادة على إحدى عشرة ركعة، فيقبل الصحيح ويطرح غيره،
https://archive.org/stream/moumjad/moumjad01#page/n619/mode/2up
اس کلام کا خلاصہ یہ کہ :
ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس حدیث کا تعلق رمضان میں ادا کی جانے والی تراویح سے ہے
اور اس روایت میں گیارہ رکعت تراویح مع الوتر کا ثبوت ہے ، جبکہ مصنف ابن ابی شیبہؒ اور عبد بن حمید ،بغوی ؒ اور طبرانی
وغیرہ میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی بیس رکعات تراویح کی روایت ضعیف ہے کیونکہ اس کا راوی ابراہیم بن عثمانابو شیبہ ضعیف ہے ، اور ہمارے جلیل القدرعلماء جیسے امام زیلعیؒ ،ابن الھمامؒ ،امام سیوطیؒ ، علامہ الزرقانیؒ کا کہنا ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی بیس رکعات تراویح کی یہ روایت ضعیف ہونے کے ساتھ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے منقول صحیح حدیث کے معارض ہے جس میں گیارہ رکعت تراویح کا ثبوت، اور گیارہ سے زائد کی نفی ہے ،
تو اس تعارض میں صحیح حدیث کو قبول کیا جائے گا اور ضعیف کو چھوڑ دیا جائےگا ۔
ـــــــــــــــــــــــ
❀
اس تفصیل سے واضح ہوا کہ :
نماز وتر کے علاوہ آٹھ رکعات تراویح کی بحث کسی ایک گروہ نے شروع نہیں کی ، بلکہ صحیح احادیث کے پیش نظر حنفی علماء و فقہاء نے بڑے اہتمام سے پیش کی ہے ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
❀
أحمد بن محمد بن إسماعيل الطحطاوي الحنفي(المتوفى: 1231هـ):
ذكر في فتح القدير ما حاصله أن الدليل يقتضی أن تكون السنة من العشرين ما فعله صلی الله عليه وسلم منهاثم تركه خشية أن يكتب علينا والباقي مستحبا وقد ثبت أن ذلك كان إحدی عشرة ركعة بالوتر كما ثبت في الصحيحين من عائشة فاذا يكون المسنون علی أصول مشايخنا ثمانی منها والمستحب اثنتی عشرة انتهي بحر.وروي ابن أبي شيبة من حديث ابن عباس كان صلی الله عليه وسلم يصلی في رمضان عشرين ركعة والوتر وسناده ضعيف ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الخ
ترجمہ :
فقہ حنفی کی مشہور و مستند کتاب " الدرالمختار " کے حاشیہ میں علامہ احمد بن محمد الطحطاوی المصری (المتوفی 2131ھ ) ایک نامی گرامی حنفی فقیہ امام ابن الھمام (المتوفی 861ھ ) کے حوالہ سے لکھتے ہیں :
"علامہ ابن الھمام نے فتح القدیر میں جو بیان کیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ دلیل کا تقاضا یہ ہے کہ تروایح کی کی بیس رکعات میں سے سنت اتنی ہی رکعات ہیں ، جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل ہے، اور اسے نبی صلی اللہ علیہ نے ہم پر فرض ہو جانے کے خوف سے ترک کردیا تھا، اور باقی رکعات مستحب ہیں۔
اور یہ صحیحین میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے ثابت ہے کہ وہ (نبی صلی اللہ علیہ کا عمل) گیارہ رکعات 11 (بشمول وتر) ہیں۔ تو ہمارے مشائخ کے اصول کے مطابق یہ آٹھ 8 رکعات سنت اور باقی بارہ 12 رکعات مستحب ہیں۔
اور جو مصنف ابن ابی شیبہ میں جناب ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بیس رکعات تراویح کی روایت آئی ہے اس کی اسناد ضعیف ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔