• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تعداد رکعات تراویح پر ایک کتاب

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
تراویح کی رکعات کتنی ہیں اس کی بحث ہندوستان اورپوری دنیا میں ایک گروہ نے شروع کی ہے،ورنہ اس سے قبل پوری دنیا میں بیس یااس سے زائد رکعات پر عمل ہوتاتھا،کمال یہ ہے کہ یہ گروہ نہ صرف اپنے طرزعمل کو واحد سنت قراردیتاہے بلکہ پوری دنیا صدیوں سے مسلمانوں کے چلے آرہے معمول کو غیرمسنون قراردیتاہے۔
تراویح کی تعداد کیااورکتنی ہیں؟اس پر جانبین سے بہت ساری کتابیں لکھی گئی ہیں ،ان میں سے ایک اہم کتاب مولانا حبیب الرحمن اعظمی صاحب کی ’’تعداد رکعات تراویح‘‘بھی ہے،جو ان کے مجموعہ رسائل میں شامل ہے۔
http://www.besturdubooks.net/2016/12/15/rasail-e-azmi/
اس کتاب میں مولانا نے رکعات تراویح کے ہرپہلو پر شافی وافی اور اصولی گفتگو کی ہے۔
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
رحمانی بهائی ، "صرف ایک گروہ" کہنا زیادتی هے ، اندهیر ہے ۔ ہاں اگر آپ نے یہ جملہ صرف پاکستان کے لیئے لکها هے جہاں صرف اصحاب ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی آراء پر عمل پیراء گروہ کے مقابل "صرف "ایک گروہ" لکها هے تو میرا اعتراض غلط هے اور آپکا جملہ صحیح هے ۔ کتاب اپنی جگہ اور آپکے جملے اپنی جگہ ۔ پوری دنیا میں پہلے بهی تعداد 8 بهی رہی ہیں اور ہیں بهی ۔ هوسکتا هے آپکی معلومات میں نا ہوں یا آپ نے دانستہ 8 رکعتوں کا ذکر کرنا ہی نا چاہا !
اپنی معلومات وسیع کریں
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
هندوستان میں تو اہل حدیث کے علاوہ بهی دیگر غیر حنفی 8 رکعت پڑهتے تهے اور آج بهی پڑهتے ہیں ۔ یقین نا هو تو بمبئی اور کیرالا والوں سے دریافت کرلیں ۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,587
پوائنٹ
791
تراویح کی رکعات کتنی ہیں اس کی بحث ہندوستان اورپوری دنیا میں ایک گروہ نے شروع کی ہے،ورنہ اس سے قبل پوری دنیا میں بیس یااس سے زائد رکعات پر عمل ہوتاتھا،
آپ نے بالکل غلط فرمایا ، کہ بیس سے کم تعداد رکعات تراویح کی بحث ہندوستان وغیرہ میں ایک گروہ نے شروع کی ،
محبت چونکہ انسان کو اندھا کردیتی ہے
﴿ حبك الشيئ يعمي ويصم
تو اہل حدیث کی محبت میں آپ کو یہ حقیقت نظر نہیں آئی کہ امام ابوحنیفہ کے شاگرد امام محمدؒ بن الحسن الشیبانی مؤطا میں روایت کرتے ہیں :
(باب قيام شهر رمضان وما فيه من الفضل)
أخبرنا مالك، حدثنا سعيد المقبري، عن أبي سلمة بن عبد الرحمن: أنه سأل عائشة كيف كانت صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم في رمضان؟ قالت: ما كان (1) رسول الله صلى الله عليه وسلم يزيد في رمضان ولا غيره على إحدى (2) عشرة ركعة (1) ، يصلي أربعا، فلا تسأل عن حسنهن (2) وطولهن، ثم يصلي أربعا (3) فلا تسأل عن حسنهن وطولهن ثم يصلي ثلاثا (4) ، قالت: فقلت: يا رسول الله أتنام (5) قبل أن توتر؟ فقال: يا عائشة عيناي تنامان (1) ولا ينام قلبي (2)

https://archive.org/stream/moumjad/moumjad01#page/n617/mode/2up

یعنی ماہ رمضان کا قیام اور اس کی فضیلت ( اس کی توضیح میں علامہ عبدالحی لکھتے ہیں " ويسمى التراويح " اس قیام سے مراد تراویح ہے :
❀جناب ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رمضان میں (رات کی) نماز (تراویح) کیسی ہوتی تھی ؟ تو ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا :
ما كان يزيد فى رمضان ولا فى غيره على إحدي عشرة ركعة إلخ ”رمضان ہو یا غیر رمضان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔“ الخ
_____________________
اس کے حاشیہ میں مشہور حنفی عالم علامہ عبدالحی لکھنوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
قوله: إحدى عشر ركعة، روى ابن أبي شيبة وعبد بن حميد والبغوي والبيهقي والطبراني، عن ابن عباس: أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يصلي بعشرين ركعة والوتر في رمضان. وفي سنده إبراهيم بن عثمان أبو شيبة جد ابن أبي شيبة صاحب المصنف، وهو مقدوح فيه، وقد ذكرت كلام الأئمة عليه في "تحفة الأخيار". وقال جماعة من العلماء - منهم الزيلعي وابن الهمام والسيوطي والزرقاني -: إن هذا الحديث مع ضعفه معارض بحديث عائشة الصحيح في عدم الزيادة على إحدى عشرة ركعة، فيقبل الصحيح ويطرح غيره،
https://archive.org/stream/moumjad/moumjad01#page/n619/mode/2up
اس کلام کا خلاصہ یہ کہ :
ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس حدیث کا تعلق رمضان میں ادا کی جانے والی تراویح سے ہے
اور اس روایت میں گیارہ رکعت تراویح مع الوتر کا ثبوت ہے ، جبکہ مصنف ابن ابی شیبہؒ اور عبد بن حمید ،بغوی ؒ اور طبرانی
وغیرہ میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی بیس رکعات تراویح کی روایت ضعیف ہے کیونکہ اس کا راوی ابراہیم بن عثمانابو شیبہ ضعیف ہے ، اور ہمارے جلیل القدرعلماء جیسے امام زیلعیؒ ،ابن الھمامؒ ،امام سیوطیؒ ، علامہ الزرقانیؒ کا کہنا ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی بیس رکعات تراویح کی یہ روایت ضعیف ہونے کے ساتھ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے منقول صحیح حدیث کے معارض ہے جس میں گیارہ رکعت تراویح کا ثبوت، اور گیارہ سے زائد کی نفی ہے ،
تو اس تعارض میں صحیح حدیث کو قبول کیا جائے گا اور ضعیف کو چھوڑ دیا جائےگا ۔
ـــــــــــــــــــــــ

اس تفصیل سے واضح ہوا کہ :
نماز وتر کے علاوہ آٹھ رکعات تراویح کی بحث کسی ایک گروہ نے شروع نہیں کی ، بلکہ صحیح احادیث کے پیش نظر حنفی علماء و فقہاء نے بڑے اہتمام سے پیش کی ہے ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

أحمد بن محمد بن إسماعيل الطحطاوي الحنفي(المتوفى: 1231هـ):


ذكر في فتح القدير ما حاصله أن الدليل يقتضی أن تكون السنة من العشرين ما فعله صلی الله عليه وسلم منهاثم تركه خشية أن يكتب علينا والباقي مستحبا وقد ثبت أن ذلك كان إحدی عشرة ركعة بالوتر كما ثبت في الصحيحين من عائشة فاذا يكون المسنون علی أصول مشايخنا ثمانی منها والمستحب اثنتی عشرة انتهي بحر.وروي ابن أبي شيبة من حديث ابن عباس كان صلی الله عليه وسلم يصلی في رمضان عشرين ركعة والوتر وسناده ضعيف ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الخ
ترجمہ :
فقہ حنفی کی مشہور و مستند کتاب " الدرالمختار " کے حاشیہ میں علامہ احمد بن محمد الطحطاوی المصری (المتوفی 2131ھ ) ایک نامی گرامی حنفی فقیہ امام ابن الھمام (المتوفی 861ھ ) کے حوالہ سے لکھتے ہیں :
"علامہ ابن الھمام نے فتح القدیر میں جو بیان کیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ دلیل کا تقاضا یہ ہے کہ تروایح کی کی بیس رکعات میں سے سنت اتنی ہی رکعات ہیں ، جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل ہے، اور اسے نبی صلی اللہ علیہ نے ہم پر فرض ہو جانے کے خوف سے ترک کردیا تھا، اور باقی رکعات مستحب ہیں۔
اور یہ صحیحین میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے ثابت ہے کہ وہ (نبی صلی اللہ علیہ کا عمل) گیارہ رکعات 11 (بشمول وتر) ہیں۔ تو ہمارے مشائخ کے اصول کے مطابق یہ آٹھ 8 رکعات سنت اور باقی بارہ 12 رکعات مستحب ہیں۔

اور جو مصنف ابن ابی شیبہ میں جناب ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بیس رکعات تراویح کی روایت آئی ہے اس کی اسناد ضعیف ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,587
پوائنٹ
791
تراویح کی تعداد کیااورکتنی ہیں؟اس پر جانبین سے بہت ساری کتابیں لکھی گئی ہیں ،ان میں سے ایک اہم کتاب مولانا حبیب الرحمن اعظمی صاحب کی ’’تعداد رکعات تراویح‘‘بھی ہے،
مولوی حبیب الرحمن اعظمی کی " تعداد رکعات تراویح " کے جواب میں اہل حدیث کے محقق عالم علامہ نذیر احمد رحمانیؒ نے ساڑھے چار سو صفحات پر مشتمل انتہائی علمی کتاب "انوار المصابیح بجواب رکعات التراویح
مرتب فرما کر اعظمی صاحب کے تمام دلائل و دعاوی کا شافی و کافی جواب دیا ہے
Anwar-ul-Masabeeh-Bajwab-Rakat-e-Taraweeh.jpg

یہاں سے ڈاؤن لوڈ کریں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,587
پوائنٹ
791
مولوی حبیب الرحمن اعظمی کی " تعداد رکعات تراویح " کے جواب میں اہل حدیث کے محقق عالم علامہ نذیر احمد رحمانیؒ کی انتہائی علمی کتاب "انوار المصابیح بجواب رکعات التراویح "
اگر آن لائن پڑھنا چاہیں ،تو یہاں کلک کریں
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,587
پوائنٹ
791
تراویح کی رکعات کتنی ہیں اس کی بحث ہندوستان اورپوری دنیا میں ایک گروہ نے شروع کی ہے،ورنہ اس سے قبل پوری دنیا میں بیس یااس سے زائد رکعات پر عمل ہوتاتھا،کمال یہ ہے کہ یہ گروہ نہ صرف اپنے طرزعمل کو واحد سنت قراردیتاہے بلکہ پوری دنیا صدیوں سے مسلمانوں کے چلے آرہے معمول کو غیرمسنون قراردیتاہے۔
تراویح کی رکعات کتنی ہیں اس کی بحث ہندوستان اورپوری دنیا میں جس گروہ نے شروع کی اس کے چند اراکین کا تعارف پیش ہے ۔

ابن ہمام حنفی (متوفی 861؁ھ) لکھتے ہیں :
فتحصل من هذا كله أن قيام رمضان سنة احديٰ عشرة ركعة بالوتر فى جماعة
”اس سب کا حاصل (نتیجہ) یہ ہے کہ قیام رمضان (تراویح) گیارہ رکعات مع وتر، جماعت کے ساتھ سنت ہے . [فتح القدير شرح الهدايه ج 1 ص 407 باب النوافل]
سید احمد طحطاوی حنفی (متوفی 1233؁ھ) نے کہا :
لأن النبى عليه الصلوة و السلام لم يصلها عشرين، بل ثماني
کیونکہ بے شک نبی علیہ الصلوٰۃ و السلام نے بیس نہیں پڑھیں بلکہ آٹھ پڑھیں۔ [حاشيه الطحطاوي على الدر المختارج 1 ص 295]
ابن نجیم مصری (متوفی 970؁ھ) نے ابن ہمام حنفی کو بطور اقرار نقل کیا کہ
فإذن يكون المسنون على أصول مشايخنا ثمانية منها والمستحب اثنا عشر
”پس اس طرح ہمارے مشائخ کے اصول پر ان میں سے آٹھ (رکعتیں) مسنون اور بارہ (رکعتیں) مستحب ہوجاتی ہیں۔“ [البحرالرائق ج 2 ص 67]
تنبیہ : ابن ہمام وغیرہ کا آٹھ کے بعد بارہ [12] رکعتوں کو مستحب کہنا حنفیوں و تقلیدیوں کے اس قول کے سراسر خلاف ہے کہ ”بیس رکعات تراویح سنت مؤکدہ ہے اور اس سے کم یا زیادہ جائز نہیں ہے۔“
ملا علی قاری حنفی (متوفی 1014؁ھ) نے کہا :

فتحصل من هذا كله أن قيام رمضان سنة إحديٰ عشرة بالوترفي جماعة فعله عليه الصلوة و السلام
”اس سب کا حاصل (نتیجہ) یہ ہے کہ قیام رمضان (تراویح) گیارہ رکعات مع وتر، جماعت کے ساتھ سنت ہے، یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل ہے۔“ [مرقاة المفاتيح 382/3 ح 1303]
دیوبندیوں کے منظور نظر محمد احسن نانوتوی (متوفی 1312؁ھ) فرماتے ہیں :
لأن النبى صلى الله عليه وسلم لم يصلها عشرين بل ثمانيا
”کیونکہ بے شک نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیس [20] نہیں پڑھیں بلکہ آٹھ [8] پڑھیں۔“ [حاشيه كنز الدقائق ص 36 حاشيه : 4]
نیز دیکھئے [شرح کنز الدقائق لابی السعود الحنفی ص 265]
دیوبندیوں کے منظور خاطر عبدالشکور لکھنوی (متوفی 1381؁ھ) لکھتے ہیں کہ :
”اگرچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آٹھ رکعت تراویح مسنون ہے اور ایک ضعیف روایت میں ابن عباس سے بیس رکعت بھی۔ مگر …..“
[علم الفقه ص 198، حاشيه]
دیوبندیوں کے دل پسند عبدالحئی لکھنوی (متوفی 1304؁ھ) لکھتے ہیں :
”آپ نے تراویح دو طرح ادا کی ہے۔

بیس رکعتیں بے جماعت…… لیکن اس روایت کی سند ضعیف ہے ….
آٹھ رکعتیں اور تین رکعت وتر باجماعت….“
[مجموعه فتاويٰ عبدالحئي ج 1 ص 331، 332]
خلیل احمد سہارنپوری دیوبندی (متوفی 1345؁ھ) لکھتے ہیں :
”البتہ بعض علماء نے جیسے ابن ہمام آٹھ کو سنت اور زائد کو مستحب لکھاہے سو یہ قول قابل طعن کے نہیں۔“
[براهين قاطعه ص 8]
خلیل احمد سہارنپوری مزید لکھتے ہیں کہ ”اور سنت مؤکدہ ہونا تراویح کا آٹھ رکعت تو بالاتفاق ہے اگر خلاف ہے تو بارہ میں ہے۔“ [براهين قاطعه ص 195]
انور شاہ کشمیری دیوبندی (متوفی 1352؁ھ) فرماتے ہیں :
ولا مناص من تسليم أن تراويحه عليه السلام كانت ثمانية ركعات ولم يثبت فى رواية من الروايات أنه عليه السلام صلى التراويح و التجهد عليحدة فى رمضان…. وأما النبى صلى الله عليه وسلم فصح عنه ثمان ركعات و أما عشرون ركعة فهو عنه عليه السلام بسند ضعيف و عليٰ ضعفه اتفاق….
”اور اس کے تسلیم کرنے سے کوئی چھٹکارا نہیں ہے کہ آپ علیہ السلام کی تراویح آٹھ رکعات تھی اور روایتوں میں سے کسی ایک روایت میں بھی یہ ثابت نہیں ہے کہ آپ علیہ السلام نے رمضان میں تراویح اور تہجد علیحدہ پڑھے ہوں…… رہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تو آپ سے آٹھ رکعتیں صحیح ثابت ہیں اور رہی بیس رکعتیں تو وہ آپ علیہ السلام سے ضعیف سند کے ساتھ ہیں اور اس کے ضعیف ہونے پر اتفاق ہے۔“ [العرف الشذي ص 166 ج 1]
نماز تراویح کے بارے میں حسن بن عمار بن علی الشرنبلالی حنفی (متوفی 1069؁ھ) فرماتے ہیں :
(وصلوتها بالجماعة سنة كفاية) لما يثبت أنه صلى الله عليه وسلم صلى، بالجماعة احديٰ عشرة ركعة بالوتر..
”(اور اس کی باجماعت نماز سنت کفایہ ہے) کیونکہ یہ ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جماعت کے ساتھ گیارہ رکعتیں مع وتر پڑھی ہیں۔“ [مراقي الفلاح شرح نور الايضاح ص 98]
محمد یوسف بنوری دیوبندی (متوفی 1397؁ھ) نے کہا :
فلا بد من تسليم أنه صلى الله عليه وسلم صلى التراويح أيضا ثماني ركعات
”پس یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آٹھ رکعات تراویح بھی پڑھی ہے۔“ [معارف السنن ج 5 ص 543]
تنبیہ یہ تمام حوالے ان لوگوں پر بطور الزام و اتمام حجت پیش کیے گئے ہیں جو ان علماء کو اپنا اکابر مانتے ہیں،
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
محمد یوسف بنوری دیوبندی (متوفی 1397؁ھ) نے کہا :
فلا بد من تسليم أنه صلى الله عليه وسلم صلى التراويح أيضا ثماني ركعات
”پس یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آٹھ رکعات تراویح بھی پڑھی ہے۔“ [معارف السنن ج 5 ص 543]
آپ حضرات یوں تو تقلید کے خلاف ہروقت شمشیر بکف رہتے ہیں لیکن علمی مباحث میں اسی تقلیدی رویہ کا بھونڈی نمائش کرتے ہیں،آپ نے کہیں سے کاپی کرکے یہ سارا طومار یہاں پیسٹ تو کردیا لیکن ایک مرتبہ بھی اصل مراجع سے رجوع کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ یہ اقوال واقعتاًکس کے ہیں اور ان کا قائل کون ہے اور ناقل کون ہے؟
مولانا بنوری نے حوالہ کو جب میں نے دیکھا تو وہ حضرت شیخ انورشاہ کشمیری کا قول ہے اور وہ صرف اس کے ناقل ہیں،جیساکہ اسی پیراگراف کے آخر میں انہوں نے واضح کیاہے کہ یہ ہمارے شیخ کے فوائد میں سے ہے،کماافادہ شیخنا،اورآپ نے کمال کرتے ہوئے ناقل کو قائل بنادیا۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,587
پوائنٹ
791
مولانا بنوری نے حوالہ کو جب میں نے دیکھا تو وہ حضرت شیخ انورشاہ کشمیری کا قول ہے اور وہ صرف اس کے ناقل ہیں
یہاں اسی تقلیدی رویہ کو برقرار رکھتے ہوئے حقیقت سے چشم پوشی کا مظاہرہ کیا ، اسی لئے میں نے ابتداء میں واضح کردیا تھا کہ
محبت چونکہ انسان کو اندھا کردیتی ہے

﴿ حبك الشيئ يعمي ويصم
تو اہل حدیث کی محبت
میں آپ کو یہ حقیقت نظر نہیں آئی کہ
امام ابوحنیفہ کے شاگرد امام محمدؒ بن الحسن الشیبانی مؤطا میں روایت کرتے ہیں :
(باب قيام شهر رمضان وما فيه من الفضل)
أخبرنا مالك، حدثنا سعيد المقبري، عن أبي سلمة بن عبد الرحمن: أنه سأل عائشة كيف كانت صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم في رمضان؟ قالت: ما كان (1) رسول الله صلى الله عليه وسلم يزيد في رمضان ولا غيره على إحدى (2) عشرة ركعة (1) ، يصلي أربعا، فلا تسأل عن حسنهن (2) وطولهن، ثم يصلي أربعا (3) فلا تسأل عن حسنهن وطولهن ثم يصلي ثلاثا (4) ، قالت: فقلت: يا رسول الله أتنام (5) قبل أن توتر؟ فقال: يا عائشة عيناي تنامان (1) ولا ينام قلبي (2)

https://archive.org/stream/moumjad/moumjad01#page/n617/mode/2up

یعنی ماہ رمضان کا قیام اور اس کی فضیلت ( اس کی توضیح میں علامہ عبدالحی لکھتے ہیں " ويسمى التراويح " اس قیام سے مراد تراویح ہے :
❀جناب ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رمضان میں (رات کی) نماز (تراویح) کیسی ہوتی تھی ؟ تو ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا :
ما كان يزيد فى رمضان ولا فى غيره على إحدي عشرة ركعة إلخ ”رمضان ہو یا غیر رمضان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔“ الخ
_____________________
اس کے حاشیہ میں مشہور حنفی عالم علامہ عبدالحی لکھنوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
قوله: إحدى عشر ركعة، روى ابن أبي شيبة وعبد بن حميد والبغوي والبيهقي والطبراني، عن ابن عباس: أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يصلي بعشرين ركعة والوتر في رمضان. وفي سنده إبراهيم بن عثمان أبو شيبة جد ابن أبي شيبة صاحب المصنف، وهو مقدوح فيه، وقد ذكرت كلام الأئمة عليه في "تحفة الأخيار". وقال جماعة من العلماء - منهم الزيلعي وابن الهمام والسيوطي والزرقاني -: إن هذا الحديث مع ضعفه معارض بحديث عائشة الصحيح في عدم الزيادة على إحدى عشرة ركعة، فيقبل الصحيح ويطرح غيره،

https://archive.org/stream/moumjad/moumjad01#page/n619/mode/2up
اس کلام کا خلاصہ یہ کہ :
ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس حدیث کا تعلق رمضان میں ادا کی جانے والی تراویح سے ہے
اور اس روایت میں گیارہ رکعت تراویح مع الوتر کا ثبوت ہے ، جبکہ مصنف ابن ابی شیبہؒ اور عبد بن حمید ،بغوی ؒ اور طبرانی
وغیرہ میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی بیس رکعات تراویح کی روایت ضعیف ہے کیونکہ اس کا راوی ابراہیم بن عثمانابو شیبہ ضعیف ہے ، اور ہمارے جلیل القدرعلماء جیسے امام زیلعیؒ ،ابن الھمامؒ ،امام سیوطیؒ ، علامہ الزرقانیؒ کا کہنا ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی بیس رکعات تراویح کی یہ روایت ضعیف ہونے کے ساتھ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے منقول صحیح حدیث کے معارض ہے جس میں گیارہ رکعت تراویح کا ثبوت، اور گیارہ سے زائد کی نفی ہے ،
تو اس تعارض میں صحیح حدیث کو قبول کیا جائے گا اور ضعیف کو چھوڑ دیا جائےگا ۔
ـــــــــــــــــــــــ


اس تفصیل سے واضح ہوا کہ :
نماز وتر کے علاوہ آٹھ رکعات تراویح کی بحث کسی ایک گروہ نے شروع نہیں کی ، بلکہ صحیح احادیث کے پیش نظر حنفی علماء و فقہاء نے بڑے اہتمام سے پیش کی ہے ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


أحمد بن محمد بن إسماعيل الطحطاوي الحنفي(المتوفى: 1231هـ):


ذكر في فتح القدير ما حاصله أن الدليل يقتضی أن تكون السنة من العشرين ما فعله صلی الله عليه وسلم منهاثم تركه خشية أن يكتب علينا والباقي مستحبا وقد ثبت أن ذلك كان إحدی عشرة ركعة بالوتر كما ثبت في الصحيحين من عائشة فاذا يكون المسنون علی أصول مشايخنا ثمانی منها والمستحب اثنتی عشرة انتهي بحر.وروي ابن أبي شيبة من حديث ابن عباس كان صلی الله عليه وسلم يصلی في رمضان عشرين ركعة والوتر وسناده ضعيف ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الخ
ترجمہ :

فقہ حنفی کی مشہور و مستند کتاب " الدرالمختار " کے حاشیہ میں علامہ احمد بن محمد الطحطاوی المصری (المتوفی 2131ھ ) ایک نامی گرامی حنفی فقیہ امام ابن الھمام (المتوفی 861ھ ) کے حوالہ سے لکھتے ہیں :
"علامہ ابن الھمام نے فتح القدیر میں جو بیان کیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ دلیل کا تقاضا یہ ہے کہ تروایح کی کی بیس رکعات میں سے سنت اتنی ہی رکعات ہیں ، جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل ہے، اور اسے نبی صلی اللہ علیہ نے ہم پر فرض ہو جانے کے خوف سے ترک کردیا تھا، اور باقی رکعات مستحب ہیں۔
اور یہ صحیحین میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے ثابت ہے کہ وہ (نبی صلی اللہ علیہ کا عمل) گیارہ رکعات 11 (بشمول وتر) ہیں۔ تو ہمارے مشائخ کے اصول کے مطابق یہ آٹھ 8 رکعات سنت اور باقی بارہ 12 رکعات مستحب ہیں۔
اور جو مصنف ابن ابی شیبہ میں جناب ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بیس رکعات تراویح کی روایت آئی ہے اس کی اسناد ضعیف ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بچوں والی ضد ترک کرکے آنکھ کھولئے اور دیکھئے مولوی بنوری صاحب والاحوالہ تو تین چار پوسٹوں کے اختتام پر ہے
ہم نے حقیقت کشائی کی ابتداء امام محمد بن حسن سے کی تھی ،اور اصل کتاب کھول آپ کے سامنے رکھ دی تھی ،لیکن آپ ہیں کہ
اس ضد پر اڑے بیٹھے ہیں کہ نہیں مجھے کچھ دکھائی نہیں دیا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Top