غزنوی
رکن
- شمولیت
- جون 21، 2011
- پیغامات
- 177
- ری ایکشن اسکور
- 659
- پوائنٹ
- 76
تعدّد ازواج
نظام اجتماعی کے لئے بنائے گئے قوانین اسی وقت کامل ، ترقی پسندا ور فائدہ مند ثابت ہو سکتے ہیں جب انسانی فطرت کے مطابق ہوں اور بشری ضرورتوں کو مکمل طور پر پورا کرتے ہوں۔قوانین بناتے وقت واضع قانون کے سامنے معاشرے کے تمام حالات ہوں ۔ اگر یہ صورت نہیں ہے تو پھر وہ قوانین باقی نہیں رہ سکتے ۔
اسلام کے بر خلاف کلیسا اور مسیحی مبلغین نے تعدّد ازواج کے مسئلہ کو اس طرح غلط طریقے سے پیش کیا کہ آج یہ مسئلہ دنیا میں محل بحث بن گیا ہے۔ اپنی کمزور و سست پوزیشن کو بچانے کے لئے کلیسا ناواقف لوگوں پر تعدد ازواج کے مسئلے کوہزاروں تہمت و تبدیلی ٴحقائق کے ساتھ پیش کرتا ہے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ یہ مسئلہ عورتوں پر ظلم و جور کے مرادف ہے کیونکہ عیسائی مبلغین لوگوں کو یہ باور کراتے ہیں کہ مردوں کو حسب دل خواہ کسی قید و بند کے بغیر عورتوں سے شادی کرنے کا اختیار ہے اور اپنی سختیوں کا پابند بنانے کا حق ہے ۔اسلامی قوانین دنیا کے کسی خاص طبقے یا جگہ کے لئے نہیں ہیں بلکہ یہ تمام دنیا اور ہر زمان ومکان کے لئے ہیں اور نظام آفرینش کے عین مطابق بھی ہیں ۔ اسی لئے ہر زمانے میں بشری تقاضوں کو پورا کرتے رہے ہیں ۔ حوادثات کے مد وجزر میں مضمحل و نابود نہیں ہوئے اور نہ نابود ہو سکتے ہیں بلکہ اس دنیا میں جب تک انسان موجود ہے یہ قوانین اپنی برتری اور قدر و قیمت منواتے رہیں گے ۔
گذشتہ انبیاء کی تاریخ اور موجودہ ادیان کے مطالعہ سے یہ حقیقت بخوبی واضح ہو جاتی ہے کہ تعدد ازواج کا مسئلہ اسلام سے پہلے رائج و مرسوم تھا یہ کوئی نئی بات نہیں ہے جس کو صرف اسلام نے ایجاد کیا ہو ۔ مثلا چین میں ” لیکی “ قانون کی بناء پر ایک شخص کو ۱۳۰ عورتوں سے شادی کرنے کا حق تھا اور یہودی قانون میں ایک مرد کئی سو عورتوں سے شادی کر سکتا تھا ۔ (۱)در حقیقت اسلام کے خلاف یہ پروپیگنڈہ ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں ہے حالانکہ ان لوگوں کے ذہنوں میںاس مسئلے کے خلاف دور از کار اور خلاف انصاف باتیں موجود ہیں لیکن اگر تعصب کی عینک اتار کر واقع بینی کے ساتھ عقل و منطق کی رو سے ، انسانی معاشرے کی فطرت پر غور کر کے بے شمار واقعات و حادثات کو نظر میں رکھتے ہوئے اور قوموں کی زندگی کے تغیرات اور تحولات کو دیکھتے ہوئے اس اسلامی قانون کے بارے میں سوچا جائے اور انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے فیصلہ کیا جائے تو اس قانون کے اصولی و منطقی ہونے میں کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہے گا ۔
اسی طرح ” ارد شیر بابکان “ اور ” شارلمانی “ کے لئے لکھا گیاہے کہ ان میں سے ہر ایک کے حرم سرا میں تقریباً چار سو عورتیں تھیں ۔
توریت ( جو تعدد ازواج کو جائز سمجھتی ہے ) کے خلاف انجیل نے بھی کوئی آواز نہیں اٹھائی بلکہ اس مسئلے میں خاموش ہے۔ اسی لئے آٹھویں صدی عیسوی کے نصف آخر تک یعنی شارلمانی بادشاہ فرانس کے زمانے تک مسیحی یورپ میں تعدد ازواج کی باقاعدہ رسم تھی اور کلیسا اس کی مخالفت نہیں کرتا تھا لیکن اسی بادشاہ ( شارلمانی ) کے زمانے میں کلیسا کے حکم سے پورے یورپ کے اندر یہ مسئلہ منسوخ قرار دیا گیا اور جن لوگوں کے پاس کئی کئی عورتیں تھیں ان کو شرعی لحاظ سے صرف ایک ایک عورت پر اکتفا کرنا پڑا اور اسی باعث عیسائی بد کاری و زنا کاری کی طرف مائل ہونے لگے اور جن کے پاس صرف ایک بیوی تھی وہ فسق و فجور کی طرف مائل ہو گئے زمانہٴ جاہلیت میں عرب کے مختلف قبیلوں میں نہایت نا پسند یدہ طریقے سے تعدد ازواج کا مسئلہ رائج تھا اورعدالت، مالی حیثیت اور دیگر شرائط کا لحاظ کئے بغیر ہر شخص اپنی حسب ِ خواہش جتنی عورتیں چاہے رکہ سکتا تھا ۔ اس وقت عورتوں کی کوئی قدر و قیمت نہیں تھی ، ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنا ایک عام بات تھی ۔ مردوں کی مطلق العنانی نے عورتوں پر عرصہٴ حیات تنگ کر رکھا تھا ۔
اسلام نے اس ظلم کی مخالفت کی اور اس فساد کا خاتمہ کر دیا لیکن مخصوص شرائط کے ساتھ ۔اسلام نے اصل مسئلہ تعدد ازواج کو قبول کیا البتہ معاشرے کی ضرورتوں اور مرد و عورت کے مصالح کو پیش نظر رکھتے ہوئے عورتوں کی تعداد کو صرف چار میں محدود کر دیا ۔
اس کے علاوہ تعدد ازواج کا قانون تمام مسلمانوں کے لئے نماز ، روزے کی طرح ہر شخص پر واجب و لازم نہیں ہے کہ اگر ایک شخص چند عورتوں کے ساتھ عادلانہ برتاؤ کر سکتا ہو اور اس کے معاشی حالت بھی چند عورتوں سے شادی کی اجازت دیتی ہو اور وہ اس کے باوجود صرف ایک عورت سے شادی کرے تو گویا اس نے فعل حرام کا ارتکاب کیا ! ایسا قطعاًنہیں ہے ۔یہ بات قابل لحاظ ہے کہ اسلام کی نظر میں شادی بیاہ کے مسئلے میں اصل تعدد نہیں ہے بلکہ یہ ایک اجتماعی پیش بندی ہے جس کی بنیاد یہ ہے کہ مختلف خطروں کو دور کیا جا سکے کیونکہ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ بڑے ضرر سے بچنے کے لئے چھوٹا ضرر انسان کو برداشت کرنا پڑتا ہے ۔ مثلا جان بچانے کے لئے مال کی قربانی مذموم نہیں ہے ۔