بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ !
تميمة (تعویذ ، گنڈے ، دھاگہ ، چمڑے کے ٹکڑے)
دس افراد کا قافلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نو (9) افراد سے بیعت لی اور ایک کو چھوڑ دیا ، لوگوں نے عرض کی کہ اس کا کیا معاملہ ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کے بازو میں تميمة ہے ، اس آدمی نے اِس کو کاٹ دیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے بیعت لے کر فرمایا کہ جس نے یہ پہنا ، یا ، لٹکایا ، اس نے شرک کیا
-----------------------------------------------------------
(غاية المرام للألباني:294، ،الترغيب والترهيب :4/239، ،
صحيح الترغيب :3455 ، ، السلسلة الصحيحة :1/889 ، ،
مجمع الزوائد :5/106 ، ، مسند أحمد: مسند العشرة المبشرين بالجنة : مسند الشاميين : حديث عقبة بن عامر الجهني عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم :17091)
عربی زبان میں التمیمة کے معنی اس دھاگے، تار ، یا گنڈے کے ہیں، جسے گلے یا جسم کے کسی اور حصے میں باندھا جائے۔
اصطلاح میں تمیمة کسے کہتے ہیں اس سلسلے میں حافظ ابن حجر اور ابن الأثیر الجزری وغیرہ اہل علم کی تعریفات کا خلاصہ یہ ہے کہ اس سے مراد وہ دھاگے، گنڈے اور تیر کے تانت ہیں جنھیں اہل عرب جاہلیت میں انسانوں خود ، جانوروں یا گھروں وغیرہ پر کسی متوقع یا بالفعل واقع شر مثلا، مرض، نظربد، بخار ، جادو، ٹونے اور ٹوٹکے یا دیگر آفات ومصائب وغیرہ سے حفاظت کی خاطر لٹکایا باندھا کرتے تھے ، جسے اسلام نے حرام قرار دیا ہے۔
(فتح الباری،10/166، والنھایة، 1/198)۔
قرآنی تعویذ پہننا یا اس کا کوئی طریقہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں اور نہ ہی اس کی صحابہ کرام کو کبھی تعلیم فرمائی ،، دم کرنا کرانا جائز ہے کہ وہ احادیث سے ثابت ہے