• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تعویذ پہننے سے متعلق ایک روایت کی تحقیق اورمغالطہ کاازالہ۔

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
نوٹ :-اس مضمون کو ہماری ویب سائٹ پر پڑھنے کے لئے ذیل کا لنک ملاحظہ کریں:


کچھ دنوں قبل ہمارے علاقہ میں ایک بریلوی مقرر تشریف لائے اورسامعین کو خطاب کیا ، اس خطاب کی ریکارڈنگ ہمارے پاس لائی گئی ، ہم نے تقریرسنی ، موصوف کا اندازبیان روایتی بریلوی خطباء سے ذرا ہٹ کرتھا ، آن جناب نے اپنی تقریرمیں باربار اہل حدیث‌ حضرات کانام لیا ، مگر ہمارے علم کے مطابق موصوف نے کوئی تلخ کلامی نہیں کی ، بلکہ دوران خطاب غیر مقلد کہنے کے بجائے اہل حدیث بھائی اورسلفی بھائی کہہ کر ہمیں مخاطب کیا ، نیز آن جناب کی بعض باتوں سے اس چیزکی بھی تصدیق ہوگئی کہ ہندوستان میں اہل حدیثوں کا وجود انگریزوں کے دورمیں نہیں ہوا۔
کیونکہ آن جناب نے تعویذ سے متعلق ایک روایت پیش کی اس کے بعد ان اہل علم کی فہرست پیش کی جنہوں‌ نے اسے اپنی اپنی کتابوں میں‌ درج کیا ہے ، فہرست میں بعض اہل علم کے ناموں کو گنانے کے بعد موصوف نے کہا کہ اب میں ان اہل حدیث علماء کے نام پیش کررہاہوں جنہوں‌ نے اس حدث کو اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے اس کے بعد موصوف نے اہل حدیث‌ علماء کی فہرست پیش کرتے ہوئے سب سے پہلے ابن تیمہ رحمہ اللہ کا نام پیش کیا اس کے بعد ابن تیمہ رحمہ اللہ کے شاگردوں مثلا ابن کثیر امام ذہبی اوردیگراہل علم کے نام پیش کئے۔
موصوف کی اس بات سے یہ حقیقت طشت ازبام ہوگئی کہ ہندوستان میں اہل حدیثوں کا وجود انگریزوں کے دورسے پہلے بلکہ بہت پہلے ہی سے تھا، کیونکہ موصوف نے خود اہل حدیث علماء کی فہرست میں ایسے لوگوں‌ کے نام گنائے ہیں جو انگریزوں کے وجود سے صدیوں سال پہلے اس دنیا سے چلے گے۔
بہرحال موصوف نے تعویذ والی روایت سے متعلق اپنی جو تحقیق پیش کی ہےہم ذیل کی سطور میں‌ اس کاجائزہ لیتے ہیں:
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
امام ترمذی رحمہ اللہ نے کہا:
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِذَا فَزِعَ أَحَدُكُمْ فِي النَّوْمِ فَلْيَقُلْ: أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّاتِ مِنْ غَضَبِهِ وَعِقَابِهِ وَشَرِّ عِبَادِهِ، وَمِنْ هَمَزَاتِ الشَّيَاطِينِ وَأَنْ يَحْضُرُونِ فَإِنَّهَا لَنْ تَضُرَّهُ ". فَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو، يُلَقِّنُهَا مَنْ بَلَغَ مِنْ وَلَدِهِ، وَمَنْ لَمْ يَبْلُغْ مِنْهُمْ كَتَبَهَا فِي صَكٍّ ثُمَّ عَلَّقَهَا فِي عُنُقِهِ.[سنن الترمذي 5/ 542 رقم 3528 ]
عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ ان کے والد سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر کوئی نیند میں ڈر جائے تو یہ دعا پڑھے أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّاتِ مِنْ غَضَبِهِ وَعِقَابِهِ وَشَرِّ عِبَادِهِ، وَمِنْ هَمَزَاتِ الشَّيَاطِينِ وَأَنْ يَحْضُرُونِ (یعنی۔ میں اللہ کے غضب، عقاب، اسکے بندوں کے فساد، شیطانی وساوس اور ان (شیطانوں) کے ہمارے پاس آنے سے اللہ کے پورے کلمات کی پناہ مانگتا ہوں) اگر وہ یہ دعا پڑھے گا تو وہ خواب اسے ضرر نہیں پہنچا سکے گا۔ عبداللہ بن عمرو یہ دعا اپنے بالغ بچوں کو سکھایا کرتے تھے اور نابالغ بچوں کے لیے لکھ کر ان کے گلے میں ڈال دیا کرتے تھے۔
اس روایت کو ترمذی ابوداود اوربہت ساری کتابوں سے موصوف نے پیش کرکے کہا کہ اس پریہ اعترض ہوسکتاہے کہ اس کی سند میں محمدبن اسحاق ہےاوریہ ضعیف ہے لیکن میں اس کی توثیق ثابت کرسکتاہوں۔
جوابا عرض ہے کہ کسی بھی اہل حدیث کا یہ اعتراض نہیں ہے کہ محمدبن اسحاق ضعیف ہےبلکہ اعتراض یہ ہے کہ ساری کتابوں میں یہ روایت ایک ہی سند سے نقل کی گئی ہے اوراس میں محمدبن اسحاق راوی ہے جس نے عن سے روایت کیا ہے اوریہ مدلس ہے۔

امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241)نے کہا:
امام عقیلی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
حَدَّثَنِي الْخَضِرُ بْنُ دَاوُدَ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ: مَا تَقُولُ فِي مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ؟ قَالَ: هُوَ كَثِيرُ التَّدْلِيسِ جِدًّا[الضعفاء الكبير للعقيلي 4/ 28 وسندہ صحیح، و الحضربن داود عندی ثقۃ]۔

امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354)نے کہا:
كان يدلس على الضعفاء فوقع المناكير في روايته من قبل أولئك [الثقات لابن حبان 7/ 383]

خطيب بغدادي رحمه الله (المتوفى463)نے کہا:
ويدلس في حديثه [تاريخ بغداد 2/ 21]

امام هيثمي رحمه الله (المتوفى807)نے کہا:
محمد بن إسحاق وهو مدلس[مجمع الزوائد:10/ 27]

حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے اسے طبقات المدلسین کے چوتھے طبقہ میں ذکرکرتے ہوئے لکھتے ہیں:
صدوق مشهور بالتدليس عن الضعفاء والمجهولين وعن شر منهم وصفه بذلك أحمد والدارقطني وغيرهما[تعريف اهل التقديس بمراتب الموصوفين بالتدليس ص: 51]

مذکورہ بالا تمام اقوال کاخلاصہ یہ کہ محمدبن اسحاق معروف مشہورمدلس راوی ہیں اوراصول حدیث میں یہ بات مسلم ہے کہ معروف مدلس کا عنعنہ مردود ہوتاہے، یعنی وہ جس روایت کو عن سے روایت کرے وہ روایت ضعیف ونامقبول ہوتی ہے۔
اورمذکورہ حدیث کے کسی بھی طریق میں محمدبن اسحاق کے سماع کی تصریح نہیں ہے لہٰذا یہ روایت ضعیف ہے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
کیا حدیث مذکورکی کوئی دوسری سند بھی ہے؟؟؟


بریلوی مقرر نے لوگوں کو مغالطہ دیتے ہوئے یہ کہا کہ اس حدیث کی ایک دوسری سند ایسی بھی ہے جس کے اندر محمدبن اسحاق راوی نہیں ہے ، چنانچہ نے موصوف نے امام بخاری رحمہ اللہ کی کتاب خلق افعال العباد سے مذکورہ حدیث درج ذیل سند سے پیش کی :

قَالَ أَحْمَدُ بْنُ خَالِدٍ: ثنا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: كَانَ الْوَلِيدُ بْنُ الْوَلِيدِ رَجُلًا يَفْزَعُ فِي مَنَامِهِ، وَذَكَرَ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا اضْطَجَعْتَ لِلنَّوْمِ فَقُلْ: بِسْمِ اللَّهِ أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّةِ مِنْ غَضَبِهِ وَعِقَابِهِ، وَمِنْ شَرِّ عِبَادِهِ وَمِنْ هَمَزَاتِ الشيَاطينَ، وَأَنْ يَحْضَرُونَ " فقَالَهَا فَذَهَبَ ذَلِكَ عَنْهُ وَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: «مَنْ بَلَغَ مِنْ بَنيِهِ عَلَّمَهُ إِيَّاهُنَّ، وَمَنْ كَانَ مِنْهُمْ صَغيرًا لَا يَعِيهَا كَتَبَهَا وَعَلَّقَهَا فِي عُنُقِهِ» (خلق أفعال العباد للبخاري ص: 96 بتحقیق عبد الرحمن عميرة)۔

اس کو پیش کرنے کے بعد بریلوی مقررنے کہا کہ دیکھیں اس سند میں محمد بن اسحاق نہیں ہے اس لئے اس سند پر کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا۔
جوابا عرض ہے کہ یہ بات کہنا یا تو اصول حدیث سے ناواقفیت کی دلیل ہے ، یا صریح ہٹ دھرمی ہے ، کیونکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی محولہ کتاب خلق افعال العباد والی روایت کی سندمیں بھی محمدبن اسحاق ہی ہے۔

دراصل خلق افعال العباد کا جونسخہ عبد الرحمن عميرة صاحب کی تحقیق سے چھپا ہے اس میں غلطی سے مذکورہ حدیث کی سند میں محمدبن اسحاق کی جگہ محمدبن اسماعیل چھاپ دیا گیا ہے، مکتبہ شاملہ میں‌ بھی یہی نسخہ ہے اوراس میں‌ بھی یہی غلطی ہے، مقررموصوف نے جہالت یا ہٹ دھرمی کا ثبوت دیتے ہوئے اسے دوسرا راوی سمجھ لیا ۔

حالانکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی یہ کتاب ہمارے ناقص علم کے مطابق پوری دنیا میں سب سے پہلے ہندوستان سے چھی اوراس میں حدیث کی سند میں محمدبن اسحاق ہی چھپا تھا۔ (دیکھئے خلق افعال العباد :ص 88مطبوعہ ہند)

سردست اس ہندوستانی مطبوعہ نسخہ تک ہماری رسائی نہیں ہے لیکن علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسی ہندوستانی مطبوعہ نسخہ سے اس حدیث کی سنداپنی کتاب صحیحہ میں نقل کی جیساکہ بریلوی مقررنے بھی اس کا حوالہ دیا تھا لیکن آن جناب نے یہ مغالطہ دیا کہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے جبکہ ایساہرگزنہیں بلکہ سچ یہ ہے کہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے ضعیف کہا ہے.

البتہ اس حدیث کا ابتدائی ٹکڑا جس میں تعویذ والی مستدل بات نہیں ہے وہ چونکہ علامہ البانی رحمہ اللہ کی تحقیقی میں دوسری صحیح احادیث سے ثابت ہے اس لئے صرف اس حصہ کو علامہ البانی رحمہ اللہ نے حسن کہا ہے اورساتھ میں پوری صراحت کے ساتھ یہ وضاحت کردی ہے کہ اس حدیث میں تعویذوالی بات ہے اس کی تائید کسی صحیح حدیث سے نہیں ہوتی بلکہ یہ بات صرف اسی ضعیف حدیث ہی میں ہے اس لئے یہ ضعیف ہے۔

علامہ البانی رحمہ اللہ صحیحہ میں لکھتے ہیں:
قلت: لكن ابن إسحاق مدلس وقد عنعنه في جميع الطرق عنه، وهذه الزيادة منكرة عندي، لتفرده بها. والله أعلم.( سلسلة الأحاديث الصحيحة: 1 / 529)

اس کے بعد علامہ البانی رحمہ اللہ نے امام بخاری رحمہ اللہ کی کتاب خلق افعال العباد مطبوعہ ھند سے اس روایت کی سند ان الفاظ میں پیش کی ہے:
وقد علقه البخاري في " أفعال العباد " (ص 88 طبع الهند) : قال أحمد بن خالد حدثنا محمد بن إسحاق به مثل لفظ ابن عياش. (سلسلة الأحاديث الصحيحة 1/ 529)

لیکن بریلوی مقررنے یہ سب کچھ دیکھنے اورپڑھنے کے باوجود بھی عوام کودھوکہ دیااوران کے سامنے صرف یہ کہا کہ اہل حدیث کے بہت بڑے عالم البانی نے بھی اسے صحیحہ میں نقل کیا ہے۔
نیز اسی صحیحہ میں علامہ البانی رحمہ اللہ نے خلق افعال العباد کے ہندوستانی مطبوعہ نسخہ سے مذکورہ حدیث کی سندمیں محمدبن اسحاق کانام نقل کیا ہے لیکن بریلوی مقررنے اس سلسلے میں کوئی وضاحت نہیں ۔
ہندوستانی مطبوعہ نسخہ کے علاوہ بلاد عرب میں امام بخاری رحمہ اللہ کی یہی کتاب شیخ فہدبن سلیمان الفہید کی تحقیق سے بھی چھپی ہے اوراس میں اس حدیث کی سند میں محمدبن اسماعیل کے بجائے محمدبن اسحاق ہی ہے ۔
ملاحظہ ہو اس نسخہ کا فوٹو:


صرف یہی نہیں بلکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی اس کتاب کے جتنے بھی مخطوطے ہیں ہماری ناقص علم کے مطابق کسی ایک میں بھی مذکورہ سند میں محمدبن اسحاق کی جگہ محمدبن اسماعیل نہیں ہے، شیخ فہدبن سلیمان الفہید نے سات قلمی نسخوں کوسامنے رکھتے ہوئے اس کتاب کی تحقیق کی ہے لیکن کسی ایک بھی مخطوطہ میں انہیں محمدبن اسحاق کی جگہ محمدبن اسماعیل نظر نہیں‌ آیا ، کیونکہ انہوں نے مذکورہ حدیث کی سند میں محمدبن اسحاق ہی کانام درج کیا ہے اورحا شیہ میں محمدبن اسحاق کے نام پرکوئی حاشیہ نہیں لگایا ہے اوراس مقام پر کسی بھی نسخے کا کوئی اختلاف ذکر نہیں کیا ہے۔
شیخ فہدبن سلیمان الفہیدنے جن نسخوں کو سامنے رکھتے ہوئے مذکورہ کتاب کی تحقیق کی ہے ان میں سے ایک نسخہ کا عکس اگے ملاحظہ ہوا:
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
ایک اورزبردست شہادت


امام بخاری رحمہ اللہ نے خلق افعال العباد میں جس راوی ’’أحمد بن خالد‘‘ سے مذکورہ روایت نقل کی ہے ٹھیک اسی راوی سے اسی حدیث کو امام ابونعیم الاصبہانی رحمہ اللہ نے بھی اپنی کتاب معرفة الصحابة (5/ 2727) میں روایت کیا ہے اور امام ابونعیم رحمہ اللہ کی کتاب معرفۃ الصحابہ میں‌ بھی ’’أحمد بن خالد‘‘ کے استاذ کا نام ’’محمد بن إسحاق‘‘ ہی ہے ۔
ملاحظہ ہو امام ابونعیم اصبہانی رحمہ اللہ کی کتاب معرفة الصحابة کے محولہ صفحہ کا فوٹو:
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
دوسری زبردست شہادت

امام بخاری رحمہ اللہ نے خلق افعال العباد میں جس راوی ''أحمد بن خالد'' سے مذکورہ روایت نقل کی ہے ٹھیک اسی راوی سے اسی حدیث کو امام نسائی رحمہ اللہ نے بھی اپنی کتاب عمل اليوم والليلة ص: 453 رقم766 میں روایت کیا ہے اور امام نسائی رحمہ اللہ کی اس کتاب عمل اليوم والليلة میں‌ بھی ''أحمد بن خالد'' کے استاذ کا نام ''محمد بن إسحاق'' ہی ہے ۔

ملاحظہ ہو امام نسائي رحمه الله (المتوفى303)نے کہا:
أَخْبرنِي عمرَان بن بكار قَالَ حَدثنَا أَحْمد بن خَالِد قَالَ حَدثنَا ابْن اسحق عَن عَمْرو بن شُعَيْب عَن أَبِيه عَن جده قَالَ كَانَ خَالِد بن الْوَلِيد بن الْمُغيرَة رجلا يفزع فِي مَنَامه فَذكر ذَلِك لرَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم فَقَالَ لَهُ النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم إِذا اضطجعت فَقل باسم الله أعوذ بِكَلِمَات الله التَّامَّة من غَضَبه وعقابه و (من) شَرّ عباده وَمن همزات الشَّيَاطِين وَأَن يحْضرُون فَقَالَهَا فَذهب ذَلِك عَنهُ [عمل اليوم والليلة للنسائي ص: 453 رقم766 ]۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
تیسری زبردست شہادت

امام بخاری رحمہ اللہ نے خلق افعال العباد میں جس راوی ''أحمد بن خالد'' سے مذکورہ روایت نقل کی ہے ٹھیک اسی راوی سے اسی حدیث کو امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے بھی اپنی کتاب [التمهيد: 24/ 110] میں روایت کیا ہے اور امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ کی اس کتاب التمهيد میں‌ بھی ''أحمد بن خالد'' کے استاذ کا نام ''محمد بن إسحاق'' ہی ہے ۔
ملاحظہ ہو:
امام ابن عبد البر رحمه الله (المتوفى463)نے کہا:
أَخْبَرَنَا قَاسِمُ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ سَعْدٍ قَالَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ مَنْصُورٍ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَنْجَرٍ قَالَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ خَالِدٍ الْوَهْبِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جده كَانَ الْوَلِيدُ بْنُ الْوَلِيدِ بْنِ الْمُغِيرَةِ يُرَوَّعُ فِي مَنَامِهِ قَالَ فَذُكِرَ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا اضْطَجَعْتَ لِلنَّوْمِ فَقُلْ بِسْمِ اللَّهِ أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّةِ مِنْ غَضَبِهِ وَعِقَابِهِ وَشَرِّ عِبَادِهِ وَشَرِّ هَمَزَاتِ الشَّيَاطِينِ وَأَنْ يَحْضُرُونِ فَقَالَهَا فَذَهَبَ عَنْهُ ذَلِكَ فَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو يُعَلِّمُهَا مَنْ بَلَغَ مِنْ بَنِيهِ وَمَنْ كَانَ منهم صغيرا لَا يُقِيمُهَا كَتَبَهَا وَعَلَّقَهَا عَلَيْهِ [التمهيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد 24/ 110]
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
کچھ مزید شواہد

مذکورہ حقائق کے ساتھ اس بات پر بھی غورکیجئے کہ :
''أحمد بن خالد'' کے اساتذہ میں ''محمدبن اسحاق '' کا ذکر تو ملتا ہے مگر''محمدبن اسماعیل'' کاذکرکہیں نہیں ملتاہے۔
''عمرو بن شعيب '' کے شاگردوں میں ''محمدبن اسحاق '' کا ذکر تو ملتا ہے مگر''محمدبن اسماعیل'' کاذکرکہیں نہیں ملتاہے۔
مذکورہ حدیث بہت ساری کتب احادیث میں ہے مگر سب میں‌ محمدبن اسحاق ہی کے طریق سے مروی ہے۔

''محمدبن اسماعیل'' کون؟؟؟؟

ان تفصیلات کے بعد بھی اگرکوئی بضد ہے کہ خلق افعال العباد میں محمد بن اسحاق نہیں بلکہ محمدبن اسماعیل ہے توہمارا مطالبہ یہ ہے کہ اس طبقہ میں اس راوی کا تعین کریں اوراس کے حالات اوراس کی توثیق پیش کردیں، نیزاس کے اساتذہ اورتلامذہ کی فہرست بھی پیش کریں۔
اوراگریہ معلومات نہ پیش کرسکیں تو خود اس راوی کی جہالت کے سبب یہ روایت بھی ضعیف قرارپائے گی۔

خلاصہ کلام:
الغرض یہ کہ مذکورہ روایت کی صرف اورصرف ایک ہی سند ہے جس میں ابن اسحاق مدلس راوی نے عن سے روایت کیا ہے اورکسی بھی طریق میں نہ تو اس کے سماع کی تصریح ہے اورنہ ہی اس کا کوئی ثقہ متابع موجود ہے ، اس لئے یہ روایت ضعیف ہے۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,395
پوائنٹ
891
جزاکم اللہ خیراً کثیرا کفایت اللہ بھائی جان۔۔۔آپ کی پوسٹس پڑھنے میں بہت لطف آتا ہے کہ تردید میں آپ کسی پہلو کو چھوڑتے نہیں۔ اور مسئلہ کی حقیقت تمام پہلوؤں سے خوب واضح کر دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کے علم و عمل میں اضافہ فرمائے اور دونوں جہانوں میں کامیابی عطا فرمائیں۔ آمین یا رب العالمین۔
 
Top