• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
وَإِن يَمْسَسْكَ اللَّـهُ بِضُرٍّ‌ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ ۖ وَإِن يُرِ‌دْكَ بِخَيْرٍ‌ فَلَا رَ‌ادَّ لِفَضْلِهِ ۚ يُصِيبُ بِهِ مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ ۚ وَهُوَ الْغَفُورُ‌ الرَّ‌حِيمُ ﴿١٠٧﴾
اور اگر اللہ تم کو کوئی تکلیف پہنچائے تو بجز اس کے اور کوئی اس کو دور کرنے والا نہیں ہے اور اگر وہ تم کو کوئی خیر پہنچانا چاہیے تو اس کے فضل کا کوئی ہٹانے والا نہیں (١) وہ اپنا فضل اپنے بندوں میں سے جس پر چاہے نچھاور کر دے اور وہ بڑی مغفرت بڑی رحمت والا ہے۔
١٠٧۔١ خیر کو یہاں فضل سے اس لئے تعبیر فرمایا کہ اللہ تعلیٰ اپنے بندوں کے ساتھ جو بھلائی کا معاملہ فرماتا ہے، اعمال کے اعتبار سے اگرچہ بندے اس کے مستحق نہیں۔ لیکن یہ محض اس کا فضل ہے کہ وہ اعمال سے قطع نظر کرتے ہوئے، انسانوں پر پھر بھی رحم و کرم فرماتا ہے
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَكُمُ الْحَقُّ مِن رَّ‌بِّكُمْ ۖ فَمَنِ اهْتَدَىٰ فَإِنَّمَا يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ ۖ وَمَن ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا ۖ وَمَا أَنَا عَلَيْكُم بِوَكِيلٍ ﴿١٠٨﴾
آپ کہہ دیجئے کہ اے لوگو! تمہارے پاس حق تمہارے رب کی طرف سے پہنچ چکا ہے (١) اس لئے جو شخص راہ راست پر آجائے سو وہ اپنے واسطے راہ راست پر آئے گا (٢) اور جو شخص بےراہ رہے گا تو اس کا بےراہ ہونا اسی پر پڑے گا (٣) اور میں تم پر مسلط نہیں کیا گیا۔
١٠٨۔١ حق سے مراد قرآن اور دین اسلام ہے، جس میں توحید الٰہی اور رسالت محمدیہ پر ایمان نہایت ضروری ہے۔
١٠٨۔٢ یعنی اس کا فائدہ اسی کو ہوگا کہ قیامت والے دن اللہ کے عذاب سے بچ جائے گا۔
١٠٨۔ ٣ یعنی اس کا نقصان اور وبال اسی پر پڑے گا کہ قیامت کو جہنم کی آگ میں جلے گا۔ گویا کوئی ہدایت کا راستہ اپنائے گا تو، تو اس سے کوئی اللہ کی طاقت میں اضافہ نہیں ہو جائے گا اور اگر کوئی کفر اور ضلالت کو اختیار کرے گا تو اس سے اللہ کی حکومت و طاقت میں کوئی فرق واقع نہیں ہو جائے گا۔ گویا ایمان و ہدایت کی ترغیب اور کفر و ضلالت سے بچنے کی تاکید و ترتیب، دونوں سے مقصد انسانوں ہی کی بھلائی اور خیر خواہی ہے۔ اللہ کی اپنی کوئی غرض نہیں۔
١٠٨۔٤یعنی یہ ذمہ داری مجھے نہیں سونپی گئی ہے کہ میں ہر صورت میں تمہیں مسلمان بنا کر چھوڑوں بلکہ میں تو صرف بشیر اور نذیر اور مبلغ اور داعی ہوں۔ میرا کام صرف اہل ایمان کو خوشخبری دینا، نافرمانوں کو اللہ کے عذاب اور اس کے مواخذے سے ڈرانا اور اللہ کے پیغام کی دعوت وتبلیغ ہے۔ کوئی اس دعوت کو مان کر ایمان لاتا ہے تو ٹھیک ہے، کوئی نہیں مانتا تو میں اس بات کا مکلف نہیں ہوں کہ اس سے زبردستی منوا کر چھوڑوں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
وَاتَّبِعْ مَا يُوحَىٰ إِلَيْكَ وَاصْبِرْ‌ حَتَّىٰ يَحْكُمَ اللَّـهُ ۚ وَهُوَ خَيْرُ‌ الْحَاكِمِينَ ﴿١٠٩﴾
اور آپ اس کی پیروی کرتے رہیے جو کچھ آپ کے پاس وحی بھیجی جاتی ہے اور صبر کیجئے (!) یہاں تک کہ اللہ فیصلہ کر دے اور وہ سب فیصلہ کرنے والوں میں اچھا ہے (٢)۔
١٠٩۔١ اللہ تعالٰی جس چیز کی وحی کرے، اسے مضبوطی سے پکڑ لیں، جس کا امر کرے، اسے عمل میں لائیں، جس سے روکے رک جائیں اور کسی چیز میں کوتاہی نہ کریں۔ اور وحی کی اطاعت و پیروی میں جو تکلیفیں آئیں، مخالفین کی طرف سے جو ایذائیں پہنچیں اور تبلیغ و دعوت کی راہ میں جن دشواریوں سے گزرنا پڑے، ان پر صبر کریں اور ثابت قدمی سے سب کا مقابلہ کریں۔
١٠٩۔٢ کیونکہ اس کا علم بھی کامل ہے، اس کی قدرت و طاقت بھی وسیع ہے اور اس کی رحمت بھی عام ہے اس لئے اس سے زیادہ بہتر فیصلہ کرنے والا اور کون ہو سکتا ہے؟
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
سورة ھود

(سورة ھود ۔ سورہ نمبر ۱۱ ۔ تعداد آیات ۱۲۳)​
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالٰی کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے
اس سورت میں بھی ان قوموں کا تذکرہ ہے جو آیات الہی اور پیغمبروں کی تکذیب کر کے عذاب الہی کا نشانہ بنیں اور تاریخ کے صفحات سے یا تو حرف غلط کی طرح مٹ گئیں یا اوراق تاریخ پر عبرت کا نمونہ بنی موجود ہیں۔ اسی لیے حدیث میں آتا ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ کیا بات ہے آپ بوڑھے سے نظر آتے ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے سورہ ہود، واقعہ، عم یتسآءلون، اور اذالشمس کورت وغیرہ نے بوڑھا کر دیا ہے۔ (ترمذی)
الر‌ ۚ كِتَابٌ أُحْكِمَتْ آيَاتُهُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِن لَّدُنْ حَكِيمٍ خَبِيرٍ‌ ﴿١﴾
الر، یہ ایک ایسی کتاب ہے کہ اس کی آیتیں محکم کی گئی ہیں (١) پھر صاف صاف بیان کی گئی ہیں (٢) ایک حکیم باخبر کی طرف سے (٣)
١۔١ یعنی الفاظ و نظم کے اعتبار سے اتنی محکم اور پختہ ہیں کہ ان کی ترکیب اور معنی میں کوئی خلل نہیں۔
١۔٢ پھر اس میں احکام و شرائع، مواعظ و قصص، عقائد و ایمانیات اور آداب و اخلاق جس طرح وضاحت اور تفصیل سے بیان کئے گئے ہیں، پچھلی کتابوں میں اس کی نظیر نہیں آئی۔
١۔٣ یعنی اپنے اقوال میں حکیم ہے، اس لئے اس کی طرف سے نازل کردہ باتیں حکمت سے خالی نہیں اور وہ خبر رکھنے والا بھی ہے۔ یعنی تمام معاملات اور ان کے انجام سے باخبر ہے۔ اس لئے اس کی باتوں پر عمل کرنے سے ہی انسان برے انجام سے بچ سکتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا اللَّـهَ ۚ إِنَّنِي لَكُم مِّنْهُ نَذِيرٌ‌ وَبَشِيرٌ‌ ﴿٢﴾
یہ کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت مت کرو میں تم کو اللہ کی طرف سے ڈرانے والا اور بشارت دینے والا ہوں۔
وَأَنِ اسْتَغْفِرُ‌وا رَ‌بَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ يُمَتِّعْكُم مَّتَاعًا حَسَنًا إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ ۖ وَإِن تَوَلَّوْا فَإِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ كَبِيرٍ‌ ﴿٣﴾
اور یہ کہ تم لوگ اپنے گناہ اپنے رب سے معاف کراؤ پھر اس کی طرف متوجہ رہو، وہ تم کو وقت مقرر تک اچھا سامان (١) (زندگی) دے گا اور ہر زیادہ عمل کرنے والے کو زیادہ ثواب دے گا۔ اور اگر تم لوگ جھٹلاتے رہے تو مجھ کو تمہارے لئے ایک بڑے دن (٢) کے عذاب کا اندیشہ ہے۔
٣۔١ یہاں اس سامان دنیا کو جس کو قرآن نے عام طور پر ' متاع غرور ' دھوکے کا سامان کہا ہے، یہاں اسے ' متاع حسن ' قرار دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو آخرت سے غافل ہو کر متاع دنیا سے استفادہ کر لے گا، اس کے لئے یہ متاع غرور ہے، کیونکہ اس کے بعد اسے برے انجام سے دو چار ہونا ہے اور جو آخرت کی تیاری کے ساتھ ساتھ اس سے فائدہ اٹھائے گا، اس کے لئے یہ چند روزہ سامان زندگی متاع حسن ہے، کیونکہ اس نے اللہ کے احکام کے مطابق برتا ہے۔
٣۔٢ بڑے دن سے مراد قیامت کا دن ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
إِلَى اللَّـهِ مَرْ‌جِعُكُمْ ۖ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ‌ ﴿٤﴾
تم کو اللہ ہی کے پاس جانا ہے اور وہ ہر شے پر پوری قدرت رکھتا ہے۔
أَلَا إِنَّهُمْ يَثْنُونَ صُدُورَ‌هُمْ لِيَسْتَخْفُوا مِنْهُ ۚ أَلَا حِينَ يَسْتَغْشُونَ ثِيَابَهُمْ يَعْلَمُ مَا يُسِرُّ‌ونَ وَمَا يُعْلِنُونَ ۚ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ‌ ﴿٥﴾
یاد رکھو وہ لوگ اپنے سینوں کو دوہرا کئے دیتے ہیں تاکہ اپنی باتیں (اللہ) سے چھپا سکیں (١) یاد رکھو کہ وہ لوگ جس وقت اپنے کپڑے لپیٹتے ہیں وہ اس وقت بھی سب جانتا ہے جو کچھ چھپاتے ہیں اور جو کچھ وہ ظاہر کرتے ہیں۔ بالیقین وہ دلوں کے اندر کی باتیں جانتا ہے۔
٥۔١ اس کی شان نزول میں مفسرین کا اختلاف ہے، اس لئے اس کے مفہوم میں بھی اختلاف ہے۔ تاہم صحیح بخاری (تفسیر سورت ہود) میں بیان کردہ شان نزول سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ان مسلمانوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو غلبہ حیا کی وجہ سے قضائے حاجت اور بیوی سے ہم بستری کے وقت برہنہ ہونا پسند نہیں کرتے تھے کہ اللہ ہمیں دیکھ رہا ہے، اس لئے ایسے موقع پر وہ شرم گاہ کو چھپانے کے لئے اپنے سینوں کو دوہرا کر لیتے تھے۔ اللہ نے فرمایا کہ رات کے اندھیرے میں جب وہ بستروں میں اپنے آپ کو کپڑوں میں ڈھانپ لیتے تھے، تو اس وقت بھی وہ ان کو دیکھتا اور ان کی چھپی اور اعلانیہ باتوں کو جانتا ہے۔ مطلب یہ کہ شرم و حیا کا جذبہ اپنی جگہ بہت اچھا ہے لیکن اس میں اتنا غلو اور افراط بھی صحیح نہیں، اس لئے کہ جس ذات کی خاطر وہ ایسا کرتے ہیں اس سے تو پھر بھی وہ نہیں چھپ سکتے، تو پھر اس طرح کے تکلف کا کیا فائدہ؟
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
پارہ 12
وَمَا مِن دَابَّةٍ فِي الْأَرْ‌ضِ إِلَّا عَلَى اللَّـهِ رِ‌زْقُهَا وَيَعْلَمُ مُسْتَقَرَّ‌هَا وَمُسْتَوْدَعَهَا ۚ كُلٌّ فِي كِتَابٍ مُّبِينٍ ﴿٦﴾
زمین پر چلنے پھرنے والے جتنے جاندار ہیں سب کی روزیاں اللہ تعالٰی پر ہیں (١) وہی ان کے رہنے سہنے کی جگہ کو جانتا ہے اور ان کے سونپے جانے (٢) کی جگہ کو بھی، سب کچھ واضح کتاب میں موجود ہے۔
٦۔١ یعنی وہ کفیل اور ذمے دار ہے۔ زمین پر چلنے والی ہر مخلوق، انسان ہو یا جن، چرند ہو یا پرند، چھوٹی ہو یا بڑی، بحری ہو یا بری۔ ہر ایک کو اس کی ضروریات کے مطابق وہ خوراک مہیا کرتا ہے۔
٦۔٢ مستقر اور مستودع کی تعریف میں اختلاف ہے بعض کے نزدیک منتہائے سیر (یعنی زمین میں چل پھر کر جہاں رک جائے) مستقر ہے اور جس کو ٹھکانا بنائے وہ مستودع ہے۔ بعض کے نزدیک رحم مادر مستقر اور باپ کی صلب مستودع ہے اور بعض کے نزدیک زندگی میں انسان یا حیوان جہاں رہائش پذیر ہو وہ اس کا مستقر ہے اور جہاں مرنے کے بعد دفن ہو وہ مستودع ہے تفسیر ابن کثیر امام شوکانی کہتے ہیں مستقر سے مراد رحم مادر اور مستودع سے وہ حصہ زمین ہے جس میں دفن ہو اور امام حاکم کی ایک روایت کی بنیاد پر اسی کو ترجیح دی ہے بہرحال جو بھی مطلب لیا جائے آیت کا مفہوم واضح ہے کہ چونکہ اللہ تعالٰی کو ہر ایک کے مستقر ومستودع کا علم ہے اس لیے وہ ہر ایک کو روزی پہنچانے پر قادر ہے اور ذمے دار ہے اور وہ اپنی ذمے داری پوری کرتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ وَكَانَ عَرْ‌شُهُ عَلَى الْمَاءِ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا ۗ وَلَئِن قُلْتَ إِنَّكُم مَّبْعُوثُونَ مِن بَعْدِ الْمَوْتِ لَيَقُولَنَّ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا إِنْ هَـٰذَا إِلَّا سِحْرٌ‌ مُّبِينٌ ﴿٧﴾
اللہ ہی وہ ہے جس نے چھ دن میں آسمان و زمین کو پیدا کیا اور اس کا عرش پانی پر تھا (١) تاکہ وہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے اچھے عمل والا کون ہے، (٢) اگر آپ ان سے کہیں کہ تم لوگ مرنے کے بعد اٹھا کھڑے کئے جاؤ گے تو کافر لوگ پلٹ کر جواب دیں گے یہ تو نرا صاف صاف جادو ہی ہے۔
٧۔١ یہی بات صحیح احادیث میں بھی بیان کی گئی ہے۔ چنانچہ ایک حدیث میں آتا ہے کہ ' اللہ تعالٰی نے آسمان و زمین کی تخلیق سے پچاس ہزار سال قبل، مخلوقات کی تقدیر لکھی ' اس وقت اس کا عرش پانی پر تھا۔ صحیح مسلم
٧۔٢ یعنی یہ آسمان و زمین یوں ہی عبث اور بلا مقصد نہیں بنائے، بلکہ اس سے مقصود انسانوں (اور جنوں) کی آزمائش ہے کہ کون اچھے اعمال کرتا ہے۔
ملحوظہ: اللہ تعالٰی نے یہاں یہ نہیں فرمایا کہ کون زیادہ عمل کرتا ہے بلکہ فرمایا کون زیادہ اچھے عمل کرتا ہے۔ اس لیے کہ اچھا عمل وہ ہوتا ہے جو صرف رضائے الہی کی خاطر ہو اور دوسرا یہ کہ وہ سنت کے مطابق ہو۔ ان دو شرطوں میں سے ایک شرط بھی فوت ہو جائے گی تو وہ اچھا عمل نہیں رہے گا، پھر وہ چاہے کتنا بھی زیادہ ہو، اللہ کے ہاں اس کی کوئی حیثیت نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
وَلَئِنْ أَخَّرْ‌نَا عَنْهُمُ الْعَذَابَ إِلَىٰ أُمَّةٍ مَّعْدُودَةٍ لَّيَقُولُنَّ مَا يَحْبِسُهُ ۗ أَلَا يَوْمَ يَأْتِيهِمْ لَيْسَ مَصْرُ‌وفًا عَنْهُمْ وَحَاقَ بِهِم مَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ ﴿٨﴾
اور اگر ہم ان سے عذاب کو گنی چنی مدت تک کے لئے پیچھے ڈال دیں تو یہ ضرور پکار اٹھیں گے کہ عذاب کو کون سی چیز روکے ہوئے ہے، سنو! جس دن وہ ان کے پاس آئے گا پھر ان سے ٹلنے والا نہیں پھر تو جس چیز کی ہنسی اڑا رہے تھے وہ انہیں گھیر لے گی (١)
٨۔١ یہاں استعجال (جلد طلب کرنے) کو استہزا سے تعبیر کیا گیا ہے کیونکہ وہ استعجال، بطور اسہزا ہی ہوتا تھا بہرحال مقصود یہ سمجھانا ہے کہ اللہ تعالٰی کی طرف سے تاخیر پر انسان کو غفلت نہیں کرنی چاہیے اس کی گرفت کسی بھی وقت ہو سکتی ہے
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
وَلَئِنْ أَذَقْنَا الْإِنسَانَ مِنَّا رَ‌حْمَةً ثُمَّ نَزَعْنَاهَا مِنْهُ إِنَّهُ لَيَئُوسٌ كَفُورٌ‌ ﴿٩﴾
اگر ہم انسان کو اپنی کسی نعمت کا ذائقہ چکھا کر پھر اسے اس سے لے لیں تو وہ بہت ہی ناامید اور بڑا نا شکرا بن جاتا ہے (١)
٩۔١ انسانوں میں عام طور پر جو مذموم صفات پائی جاتی ہیں اس میں اور اگلی آیت میں ان کا بیان ہے۔ نا امیدی کا تعلق مستقبل سے ہے اور ناشکری کا ماضی و حال سے۔
 
Top