• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
رَ‌بَّنَا إِنَّكَ مَن تُدْخِلِ النَّارَ‌ فَقَدْ أَخْزَيْتَهُ ۖ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنصَارٍ‌ ﴿١٩٢﴾
اے ہمارے پالنے والے تو جسے جہنم میں ڈالے یقیناً تو نے اسے رسوا کیا اور ظالموں کا مددگار کوئی نہیں۔
رَّ‌بَّنَا إِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِيًا يُنَادِي لِلْإِيمَانِ أَنْ آمِنُوا بِرَ‌بِّكُمْ فَآمَنَّا ۚ رَ‌بَّنَا فَاغْفِرْ‌ لَنَا ذُنُوبَنَا وَكَفِّرْ‌ عَنَّا سَيِّئَاتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الْأَبْرَ‌ارِ‌ ﴿١٩٣﴾
اے ہمارے رب! ہم نے سنا کہ منادی کرنے والا با آواز بلند ایمان کی طرف بلا رہا ہے کہ لوگو! اپنے رب پر ایمان لاؤ پس ہم ایمان لائے یا الٰہی! اب تو ہمارے گناہ معاف فرما اور ہماری برائیاں ہم سے دور کردے اور ہماری موت نیکوں کے ساتھ کر۔
رَ‌بَّنَا وَآتِنَا مَا وَعَدتَّنَا عَلَىٰ رُ‌سُلِكَ وَلَا تُخْزِنَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۗ إِنَّكَ لَا تُخْلِفُ الْمِيعَادَ ﴿١٩٤﴾
اے ہمارے پالنے والے معبود! ہمیں وہ دے جس کا وعدہ تو نے ہم سے اپنے رسولوں کی زبانی کیا ہے اور ہمیں قیامت کے دن رسوا نہ کر یقیناً تو وعدہ خلافی نہیں کرتا۔
فَاسْتَجَابَ لَهُمْ رَ‌بُّهُمْ أَنِّي لَا أُضِيعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنكُم مِّن ذَكَرٍ‌ أَوْ أُنثَىٰ ۖ بَعْضُكُم مِّن بَعْضٍ ۖ فَالَّذِينَ هَاجَرُ‌وا وَأُخْرِ‌جُوا مِن دِيَارِ‌هِمْ وَأُوذُوا فِي سَبِيلِي وَقَاتَلُوا وَقُتِلُوا لَأُكَفِّرَ‌نَّ عَنْهُمْ سَيِّئَاتِهِمْ وَلَأُدْخِلَنَّهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِ‌ي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ‌ ثَوَابًا مِّنْ عِندِ اللَّـهِ ۗ وَاللَّـهُ عِندَهُ حُسْنُ الثَّوَابِ ﴿١٩٥﴾
پس ان کے رب نے ان کی دعا قبول فرمائی (١) کہ تم میں سے کسی کام کرنے والے کے کام کو خواہ وہ مرد ہو یا عورت میں ہرگز ضائع نہیں کرتا (٢) تم آپس میں ایک دوسرے کے ہم جنس ہو (٣) اس لئے وہ لوگ جنہوں نے ہجرت کی اور اپنے گھروں سے نکال دیئے گئے اور جنہیں میری راہ میں ایذا دی گئی اور جنہوں نے جہاد کیا اور شہید کئے گئے میں ضرور ضرور ان کی برائیاں ان سے دور کردوں گا اور بالیقین انہیں جنتوں میں لے جاؤنگا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں یہ ہے ثواب اللہ تعالٰی کی طرف سے اور اللہ تعالٰی ہی کے پاس بہترین ثواب ہے۔
١٩٥۔١ فَا َسْتَجَابَ یہاں اَجَابَ ' قبول فرما لی ' کے معنی میں ہے (فتح القدیر)
١٩٥۔٢ مرد ہو یا عورت کی وضاحت اس لئے کردی کہ اسلام نے بعض معاملات میں مرد اور عورت کے درمیان ان کے ایک دوسرے سے مختلف فطری اوصاف کی بنا پر جو فرق کیا ہے۔ مثلا قومیت اور حاکمیت میں، کسب معاش کی ذمہ داری میں، جہاد میں حصہ لینے میں اور وراثت میں نصف حصہ ملنے میں۔ اس سے یہ نہ سمجھا جائے، کہ نیک اعمال کی جزا میں بھی شاید مرد عورت کے درمیان کچھ فرق کیا جائے گا، نہیں! ایسا نہیں ہوگا، نیکی کا جو اجر مرد کو ملے گا وہی عورت کو بھی ملے گا۔
١٩٥۔٣ یہ جملہ معترضہ ہے اس کا مقصد پچھلے نکتے ہی کی وضاحت ہے یعنی اجر و اطاعت میں تم مرد اور عورت ایک جیسے ہی ہو۔ بعض روایت میں ہے کہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے ایک مرتبہ عرض کیا یارسول اللہ! اللہ تعالٰی نے ہجرت کے سلسلے میں عورتوں کا نام نہیں لیا۔ جس پر یہ آیت نازل ہوئی (تفسیر طبری، ابن کثیر و فتح القدیر)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
لَا يَغُرَّ‌نَّكَ تَقَلُّبُ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا فِي الْبِلَادِ ﴿١٩٦﴾
تجھے کافروں کا شہروں میں چلنا پھرنا فریب میں نہ ڈال دے (١)۔
١٩٦۔١ خطاب اگرچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے لیکن مخاطب پوری امت ہے، شہروں میں چلنے پھرنے سے مراد تجارت اور کاروبار کے لئے ایک شہر سے دوسرے شہر، ایک ملک سے دوسرے ملک جانا ہے، یہ تجارتی سفر و سائل دنیا کی فراوانی اور کاروبار کے وسعت و فروغ کی دلیل ہوتا ہے، اللہ تعالٰی فرماتا ہے، یہ سب کچھ عارضی اور چند روزہ فائدہ ہے، اس سے اہل ایمان کو دھوکا میں مبتلا نہیں ہونا چاہئے۔ اصل انجام پر نظر رکھنی چاہئے، جو ایمان میں محرومی کی صورت میں جہنم کا دائمی عذاب ہے جس میں دولت دنیا سے مالا مال
یہ کافر مبتلا ہونگے۔ یہ مضمون بھی متعدد مقامات پر بیان کیا گیا ہے۔ مثلا (مَا يُجَادِلُ فِيْٓ اٰيٰتِ اللّٰهِ اِلَّا الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فَلَا يَغْرُرْكَ تَــقَلُّبُهُمْ فِي الْبِلَادِ) 40۔غافر:4) اللہ کی آیتوں میں وہی لوگ جھگڑتے ہیں جو کافر ہیں، پس ان کا شہروں میں چلنا پھرنا آپ کو دھوکے میں نہ ڈالے۔"(قُلْ اِنَّ الَّذِيْنَ يَفْتَرُوْنَ عَلَي اللّٰهِ الْكَذِبَ لَا يُفْلِحُوْنَ 69؀ مَتَاعٌ فِي الدُّنْيَا ثُمَّ اِلَيْنَا مَرْجِعُھُمْ ثُمَّ نُذِيْقُھُمُ الْعَذَابَ الشَّدِيْدَ بِمَا كَانُوْا يَكْفُرُوْنَ 70؀ۧ ) 10۔یونس:70۔69) (نُمَـتِّعُهُمْ قَلِيْلًا ثُمَّ نَضْطَرُّهُمْ اِلٰى عَذَابٍ غَلِيْظٍ 24؀) 31۔لقمان:24)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
مَتَاعٌ قَلِيلٌ ثُمَّ مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ ۚ وَبِئْسَ الْمِهَادُ ﴿١٩٧﴾
یہ تو بہت ہی تھوڑا فائدہ ہے (١) اس کے بعد ان کا ٹھکانہ توجہنم ہے اور وہ بری جگہ ہے۔
١٩٧۔١ یعنی دنیا کے وسائل، آسائش اور سہولتیں بظاہر کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہوں، درحقیقت متاعِ قلیل ہی ہیں کیونکہ بالاخر انہیں فنا ہونا ہے اور ان کے بھی فنا ہونے سے پہلے وہ حضرات خود فنا ہو جائیں گے، جو ان کے حصول کی کوششوں میں اللہ کو بھی فراموش کئے رکھتے ہیں اور ہر قسم کے اخلاقی ضابطوں اور اللہ کی حدوں کو بھی پامال کرتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
لَـٰكِنِ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَ‌بَّهُمْ لَهُمْ جَنَّاتٌ تَجْرِ‌ي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ‌ خَالِدِينَ فِيهَا نُزُلًا مِّنْ عِندِ اللَّـهِ ۗ وَمَا عِندَ اللَّـهِ خَيْرٌ‌ لِّلْأَبْرَ‌ارِ‌ ﴿١٩٨﴾
لیکن جو لوگ اپنے رب سے ڈرتے رہے ان کے لئے جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے یہ مہمانی ہے اللہ کی طرف سے اور نیکوکاروں کے لئے جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ بہت ہی بہتر ہے (١)۔
١٩٨۔١ ان کے برعکس جو تقویٰ اور خداوندی کی زندگی گزار کر اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہونگے۔ گو دنیا میں ان کے پاس خدا فراموشوں کی طرح دولت کے انبار اور رزق کی فروانی نہ رہی ہوگی، مگر وہ اللہ کے مہمان ہونگے جو تمام کائنات کا خالق اور مالک ہے اور وہاں ان ابرار (نیک لوگوں) کو جو اجر و صلہ ملے گا، وہ اس سے بہتر ہوگا جو دنیا میں کافروں کو عارضی طور پر ملتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
وَإِنَّ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ لَمَن يُؤْمِنُ بِاللَّـهِ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْكُمْ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْهِمْ خَاشِعِينَ لِلَّـهِ لَا يَشْتَرُ‌ونَ بِآيَاتِ اللَّـهِ ثَمَنًا قَلِيلًا ۗ أُولَـٰئِكَ لَهُمْ أَجْرُ‌هُمْ عِندَ رَ‌بِّهِمْ ۗ إِنَّ اللَّـهَ سَرِ‌يعُ الْحِسَابِ ﴿١٩٩﴾
یقیناً اہل کتاب میں سے بعض ایسے بھی ہیں جو اللہ تعالٰی پر ایمان لاتے ہیں اور تمہاری طرف جو اتارا گیا اور ان کی طرف جو نازل ہوا اس پر بھی اللہ تعالٰی سے ڈرتے ہیں اور اللہ تعالٰی کی آیتوں کو تھوڑی تھوڑی قیمت پر بیچتے بھی نہیں (١) ان کا بدلہ ان کے رب کے پاس ہے یقیناً اللہ تعالٰی جلد حساب لینے والا ہے۔
١٩٩۔١ اس آیت میں اہل کتاب کے اس گروہ کا ذکر ہے جسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان لانے کا شرف حاصل ہوا۔ ان کے ایمان اور ایمانی صفات کا تذکرہ فرما کر اللہ تعالٰی نے انہیں دوسرے اہل کتاب سے ممتاز کر دیا، جن کا مشن ہی اسلام، پیغمبر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرنا، آیات الٰہی میں تحریف و تبدیل کرنا اور دنیا کے عارضی اور فانی مفادات کے لئے کرنا تھا۔ اللہ تعالٰی نے فرمایا یہ مومنین اہل کتاب ایسے نہیں ہیں، بلکہ یہ اللہ سے ڈرنے والے ہیں اور اللہ کی آیتوں کو تھوڑی تھوڑی قیمت پر بیچنے والے نہیں۔ حافظ ابن کثیرنے لکھا ہے کہ آیت میں جن مومنین اہل کتاب کا ذکر ہے، یہودیوں کی تعداد دس تک بھی نہیں پہنچی البتہ عیسائی بڑی تعداد میں مسلمان ہوئے اور انہوں نے دین حق کو اپنایا۔ (تفسیر ابن کثیر)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اصْبِرُ‌وا وَصَابِرُ‌وا وَرَ‌ابِطُوا وَاتَّقُوا اللَّـهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ﴿٢٠٠﴾
اے ایمان والو! تم ثابت قدم رہو (١) اور ایک دوسرے کو تھامے رکھو اور جہاد کے لئے تیار رہو تاکہ تم مراد کو پہنچو۔
٢٠٠۔١ صبر کرو یعنی طاعت کے اختیار کرنے اور شہوات اور لذات ترک کرنے میں اپنے نفس کو مضبوط اور ثابت قدم رکھو، جنگ کی شدت میں دشمن کے مقابلے میں ڈٹے رہنا، یہ صبر کی سخت ترین صورت ہے اس لئے اسے علٰیحدہ بیان فرمایا محاذ جنگ میں مورچہ بند ہو کر ہمہ وقت چوکنا اور جہاد کے لئے تیار رہنا مرابطہ ہے۔ یہ بھی بڑے عزم ولولہ کا کام ہے، اسی لئے حدیث میں اس کی فضیلت بیان کی گئی ہے (رباط یوم فی سبیل اللہ خیر من الدنیا وما علیھا) (صحیح بخاری، باب فضل رباط یوم فی سبیل اللہ) اللہ کے راستے (جہاد) میں ایک دن پڑاؤ ڈالنا۔ (یعنی مورچہ بند ہونا) دنیا ومافیہا سے بہتر ہے "علاوہ ازیں حدیث میں مکارہ (یعنی ناگواری کے حالات میں) مکمل وضو کرنے، مسجدوں میں زیادہ دور سے چل کر جانے اور نماز کے بعد دوسری نماز کے انتظار کرنے کو بھی رباط کہا گیا ہے۔ (صحیح مسلم کتاب الطہارۃ)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
سورة النسآء

(سورة النسآء ۔ سورہ نمبر ٤ ۔ تعداد آیات ۱۷٦)​
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالٰی کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَ‌بَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِ‌جَالًا كَثِيرً‌ا وَنِسَاءً ۚ وَاتَّقُوا اللَّـهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْ‌حَامَ ۚ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَ‌قِيبًا ﴿١﴾
اے لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا (١) اسی سے اس کی بیوی کو پیدا کر کے ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلا دیں اس اللہ سے ڈرو جس کے نام پر ایک دوسرے سے مانگتے ہو اور رشتے ناتے توڑنے سے بھی بچو (٢) بیشک اللہ تعالٰی تم پر نگہبان ہے۔
١۔١ ' ایک جان ' سے مراد ابو البشر حضرت آدم علیہ السلام ہیں اور خَلَقَ مِنْہَا وَ زَوْجَھَا میں مِنْھَا سے وہی ' جان ' یعنی آدم علیہ السلام مراد ہیں اور آدم علیہ السلام سے ان کی زوجہ (بیوی) حضرت حوا کو پیدا کیا۔ حضرت حوا حضرت آدم علیہ السلام سے کس طرح پیدا ہوئیں؟ اس میں اختلاف ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے قول مروی ہے کہ حضرت حوا مرد ( یعنی آدم علیہ السلام) سے پیدا ہوئیں۔ یعنی ان کی بائیں پسلی سے۔ ایک حدیث میں کہا گیا ہے، عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے اور پسلی میں سب سے ٹیڑھا حصہ، اس کا بالائی حصہ ہے۔ اگر تو اسے سیدھا کرنا چاہے تو توڑ بیٹھے گا اگر تو اس سے فائدہ آٹھانا چاہے تو کجی کے ساتھ ہی فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ بعض علماء نے اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے حضرت ابن عباس رضی اللہ سے منقول رائے کی تائید کی۔ قرآن کے الفاظ خلق منھا سے اسی مؤقف کی تائید ہوتی ہے۔ حضرت حوا کی تخلیق اسی نفس واحدہ سے ہوئی ہے جسے آدم کہا جاتا ہے۔
١۔٢والارحام کا عطف اللہ پر ہے یعنی رحموں (رشتوں ناطوں) کو توڑنے سے بھی بچو۔ ارحام، رحم کی جمع ہے۔ مراد رشتہ داریاں ہیں جو رحم مادر کی بنیاد پر ہی قائم ہوتی ہیں اس سے محرم اور غیر محرم دونوں رشتے مراد ہیں رشتوں ناتوں کا توڑنا سخت کبیرہ گناہ ہے جسے قطع رحمی کہتے ہیں۔ احادیث میں قرابت داریوں کو ہر صورت میں قائم رکھنے اور ان کے حقوق ادا کرنے کی بڑی تاکید اور فضیلت بیان کی گئی ہے جسے صلہ رحمی کہا جاتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
وَآتُوا الْيَتَامَىٰ أَمْوَالَهُمْ ۖ وَلَا تَتَبَدَّلُوا الْخَبِيثَ بِالطَّيِّبِ ۖ وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَهُمْ إِلَىٰ أَمْوَالِكُمْ ۚ إِنَّهُ كَانَ حُوبًا كَبِيرً‌ا ﴿٢﴾
(۱) اور یتیموں کا مال ان کو دے دو اور حلال چیز کے بدلے ناپاک اور حرام چیز نہ لو اور اپنے مالوں کے ساتھ ان کے مال ملا کر کھا نہ جاؤ، بیشک یہ بہت بڑا گناہ ہے (۲)
٢۔١ یتیم جب بالغ اور باشعور ہو جائیں تو ان کا مال ان کے سپرد کر دو، خبیث سے گھٹیا چیزیں اور طیب سے عمدہ چیزیں مراد ہیں یعنی ایسا نہ کرو کہ ان کے مال سے اچھی چیزیں لے لو اور محض گنتی پوری کرنے کے لئے گھٹیا چیزیں ان کے بدلے میں رکھ دو، بدلایا گیا مال جو اگرچہ اصل میں طیب (پاک اور حلال) ہے لیکن تمہاری اس بد دیانتی نے اس میں خباثت داخل کر دی اور وہ اب طیب نہیں رہا، بلکہ تمہارے حق میں وہ خبیث (ناپاک اور حرام) ہو گیا۔ اسی طرح بد دیانتی سے ان کا مال اپنے مال میں ملا کر کھانا بھی ممنوع ہے ورنہ اگر مقصد خیر خواہی ہو تو ان کے مال کو اپنے مال میں ملانا جائز ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَىٰ فَانكِحُوا مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُ‌بَاعَ ۖ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَلَّا تَعُولُوا ﴿٣﴾
اگر تمہیں ڈر ہو کہ یتیم لڑکیوں سے نکاح کر کے تم انصاف نہ رکھ سکو گے تو اور عورتوں میں سے جو بھی تمہیں اچھی لگیں تم ان سے نکاح کر لو، دو دو، تین تین، چار چار سے، لیکن اگر تمہیں برابری نہ کر سکنے کا خوف ہو تو ایک ہی کافی ہے یا تمہاری ملکیت کی لونڈی (١) یہ زیادہ قریب ہے (کہ ایسا کرنے سے نا انصافی اور) ایک طرف جھکنے سے بچ جاؤ (٢)۔
٣۔١ اس کی تفسیر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس طرح مروی ہے کہ صاحب حیثیت اور صاحب جمال یتیم لڑکی کسی ولی کے زیر پرورش ہوتی تو اس کے مال اور حسن و جمال کی وجہ سے اس سے شادی تو کر لیتا لیکن اس کو دوسری عورتوں کی طرح پورا حق مہر نہ دیتا۔ اللہ تعالٰی نے اس ظلم سے روکا، کہ اگر تم گھر کی یتیم بچیوں کے ساتھ انصاف نہیں کر سکتے تو ان سے نکاح ہی مت کرو، تمہارے لئے دوسری عورتوں کے ساتھ نکاح کرنے کا راستہ کھلا ہے (صحیح بخاری) ایک کی بجائے دو سے، تین سے حتیٰ کے چار عورتوں تک سے تم نکاح کر سکتے ہو بشرطیکہ ان کے درمیان انصاف کے تقاضے پورے کر سکو ورنہ ایک ہی نکاح کرو یا اس کے بجائے لونڈی پر گزارا کرو۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ مسلمان مرد (اگر وہ ضرورت مند ہے) تو چار عورتیں بیک وقت اپنے نکاح میں رکھ سکتا ہے لیکن اس سے زیادہ نہیں جیسا کہ صحیح احادیث میں اس کی مذید صراحت اور تحدید کردی گئی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو چار سے زائد شادیاں کیں وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائص میں سے ہے جس پر کسی امتی کے لیے عمل کرنا جائز نہیں۔ (ابن کثیر)
٣۔٢ یعنی ایک ہی عورت سے شادی کرنا کافی ہو سکتا ہے۔ کیونکہ ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کی صورت میں انصاف کا اہتمام بہت مشکل ہے جس کی طرف قلبی میلان زیادہ ہوگا، ضروریات زندگی کی فراہمی میں زیادہ توجہ بھی اسی کی طرف ہوگی۔ یوں بیویوں کے درمیان وہ انصاف کرنے میں ناکام رہے گا اور اللہ کے ہاں مجرم قرار پائے گا۔ قرآن نے اس کی حقیقت کو دوسرے مقام پر نہایت اچھے انداز میں اس طرح بیان فرمایا ہے۔ (تم ہرگز اس بات کی طاقت نہ رکھو گے) کہ بیویوں کے درمیانانصاف کر سکو، اگرچہ تم اس کا اہتمام کرو۔ (اس لئے اتنا کرو) کہ ایک ہی طرف نہ جھک جاؤ کہ دوسری بیویوں کو بیچ ادھڑ میں لٹکا رکھو، اس سے معلوم ہوا کہ ایک سے زیادہ شادی کرنا اور بیویوں کے ساتھ انصاف نہ کرنا نامناسب اور نہایت خطرناک ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
وَآتُوا النِّسَاءَ صَدُقَاتِهِنَّ نِحْلَةً ۚ فَإِن طِبْنَ لَكُمْ عَن شَيْءٍ مِّنْهُ نَفْسًا فَكُلُوهُ هَنِيئًا مَّرِ‌يئًا ﴿٤﴾
اور عورتوں کو ان کے مہر راضی خوشی دے دو ہاں اگر وہ خود اپنی خوشی سے کچھ مہر چھوڑ دیں تو اسے شوق سے خوش ہو کر کھاؤ پیو۔
وَلَا تُؤْتُوا السُّفَهَاءَ أَمْوَالَكُمُ الَّتِي جَعَلَ اللَّـهُ لَكُمْ قِيَامًا وَارْ‌زُقُوهُمْ فِيهَا وَاكْسُوهُمْ وَقُولُوا لَهُمْ قَوْلًا مَّعْرُ‌وفًا ﴿٥﴾
بے عقل لوگوں کو اپنا مال نہ دے دو جس مال کو اللہ تعالٰی نے تمہاری گزران کے قائم رکھنے کا ذریعہ بنایا ہے ہاں انہیں اس مال سے کھلاؤ پلاؤ، پہناؤ، اوڑھاؤ اور انہیں معقولیت سے نرم بات کہو۔
وَابْتَلُوا الْيَتَامَىٰ حَتَّىٰ إِذَا بَلَغُوا النِّكَاحَ فَإِنْ آنَسْتُم مِّنْهُمْ رُ‌شْدًا فَادْفَعُوا إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ ۖ وَلَا تَأْكُلُوهَا إِسْرَ‌افًا وَبِدَارً‌ا أَن يَكْبَرُ‌وا ۚ وَمَن كَانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ ۖ وَمَن كَانَ فَقِيرً‌ا فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُ‌وفِ ۚ فَإِذَا دَفَعْتُمْ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ فَأَشْهِدُوا عَلَيْهِمْ ۚ وَكَفَىٰ بِاللَّـهِ حَسِيبًا ﴿٦﴾
(٦) اور یتیموں کو ان کے بالغ ہونے تک سدھارتے اور آزماتے رہو پھر اگر ان میں تم ہوشیاری اور حسن تدبیر پاؤ تو انہیں ان کے مال سونپ دو اور ان کے بڑے ہو جانے کے ڈر سے ان کے مالوں کو جلدی جلدی فضول خرچیوں میں تباہ نہ کر دو مال داروں کو چاہیے کہ (ان کے مال سے) بچتے رہیں ہاں مسکین محتاج ہو تو دستور کے مطابق واجبی طرح سے کھالے، پھر جب انہیں ان کے مال سونپو تو گواہ بنا لو دراصل حساب لینے والا اللہ تعالٰی ہی کافی ہے (١)
٦۔١ یتیموں کے مال کے بارے میں ضروری ہدایات دینے کے بعد یہ فرمانے کا مطلب یہ ہے کہ جب تک تمہارے پاس رہا، تم اس کی کس طرح حفاظت کی اور جب مال ان کے سپرد کیا تو اس میں کوئی کمی بیشی یا کسی قسم کی تبدیلی کی یا نہیں، عام لوگوں کو تو تمہاری امانت داری یا خیانت کا شاید پتہ نہ چلے۔ لیکن اللہ تعالٰی سے تو کوئی چیز چھپی نہیں۔ اسی لئے حدیث میں آتا ہے، کہ یہ بہت ذمہ داری کا کام ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے فرمایا "ابوذر! میں تمہیں ضعیف دیکھتا ہوں اور تمہارے لیے وہی چیز پسند کرتا ہوں، جو اپنے لئے پسند کرتا ہوں، تم دو آدمیوں پر بھی امیر نہ بننا، نہ کسی یتیم کے مال کا والی اور سر پرست "(صحیح مسلم، کتاب الامارۃ)
 
Top