• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
فَنُزُلٌ مِّنْ حَمِيمٍ ﴿٩٣﴾
تو کھولتے ہوئے پانی کی مہمانی ہے۔
وَتَصْلِيَةُ جَحِيمٍ ﴿٩٤﴾
اور دوزخ میں جانا ہے۔
إِنَّ هَـٰذَا لَهُوَ حَقُّ الْيَقِينِ ﴿٩٥﴾
یہ خبر سراسر حق اور قطعاً یقینی ہے۔
فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَ‌بِّكَ الْعَظِيمِ ﴿٩٦﴾
پس تو اپنے عظیم الشان پروردگار کی تسبیح کر (١)
٩٦۔ ١ حدیث میں آتا ہے کہ دو کلمے اللہ کو بہت محبوب ہیں، زبان پر ہلکے اور وزن میں بھاری۔ سُبْحَانَ اللّٰہِ وَ بِحَمْدِہِ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ (صحیح بخاری)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
سورة الحدید

(سورة الحدید ۔ سورہ نمبر ٥۷ ۔ تعداد آیات ۲۹)​
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالٰی کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
سَبَّحَ لِلَّـهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضِ ۖ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ﴿١﴾
آسمانوں اور زمین کی بادشاہت اسی کی ہے وہی زندگی دیتا ہے اور موت بھی وہ ہرچیز پر قادر ہے۔
لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضِ ۖ يُحْيِي وَيُمِيتُ ۖ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ‌ ﴿٢﴾
وہی پہلے ہے اور وہی پیچھے، وہی ظاہر ہے اور وہی مخفی، وہ ہرچیز کو بخوبی جاننے والا ہے (١)
٣۔١ وہی اول ہے یعنی اس سے پہلے کچھ نہ تھا، وہی آخر ہے، اس کے بعد کوئی چیز نہ ہوگی، وہی ظاہر ہے۔ یعنی وہ سب پر غالب ہے، اس پر کوئی غالب نہیں، وہی باطن ہے، یعنی باطن کی ساری باتوں کو صرف وہی جانتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
هُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْ‌شِ ۚ يَعْلَمُ مَا يَلِجُ فِي الْأَرْ‌ضِ وَمَا يَخْرُ‌جُ مِنْهَا وَمَا يَنزِلُ مِنَ السَّمَاءِ وَمَا يَعْرُ‌جُ فِيهَا ۖ وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ ۚ وَاللَّـهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ‌ ﴿٤﴾
وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا پھر عرش پر مستوی (١) ہوگیا۔ اور وہ خوب جانتا ہے اس چیز کو جو زمین میں جائے (٢) اور جو اس سے نکلے (٣) اور جو آسماں سے نیچے آئے (٤) اور جو کچھ چڑھ کر اس میں جائے (٥) اور جہاں کہیں تم ہو وہ تمہارے ساتھ ہے (٦) اور جو تم کر رہے ہو وہ اللہ دیکھ رہا ہے۔
٤۔١اس مفہوم کی آیات (إِنَّ رَ‌بَّكُمُ اللَّـهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْ‌شِ يُغْشِي اللَّيْلَ النَّهَارَ‌ يَطْلُبُهُ حَثِيثًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ‌ وَالنُّجُومَ مُسَخَّرَ‌اتٍ بِأَمْرِ‌هِ ۗ أَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ‌ ۗ تَبَارَ‌كَ اللَّـهُ رَ‌بُّ الْعَالَمِينَ ﴿٥٤﴾۔ الاعراف)، (إِنَّ رَ‌بَّكُمُ اللَّـهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْ‌شِ ۖ يُدَبِّرُ‌ الْأَمْرَ‌ ۖ مَا مِن شَفِيعٍ إِلَّا مِن بَعْدِ إِذْنِهِ ۚ ذَٰلِكُمُ اللَّـهُ رَ‌بُّكُمْ فَاعْبُدُوهُ ۚ أَفَلَا تَذَكَّرُ‌ونَ ﴿٣﴾۔یونس)، (اللَّـهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْ‌شِ ۖ مَا لَكُم مِّن دُونِهِ مِن وَلِيٍّ وَلَا شَفِيعٍ ۚ أَفَلَا تَتَذَكَّرُ‌ونَ ﴿٤﴾۔ السجدہ) وغیرھا من الآیات میں گزر چکی ہیں، ان کے حواشی ملاحظہ فرمالیے جائیں۔
٤۔٢ یعنی زمین میں بارش کے جو قطرے اور غلہ جات و میوہ جات کے جو بیج داخل ہوتے ہیں کی کیفیت کو وہ جانتا ہے۔
(۳) جو درخت، چاہے وہ پھلوں کے ہوں یا غلوں کے یا زینت اور آرائش کے اور خوشبو والے پھولوں یہ جتنے بھی اور جیسے بھی باہر نکلتے ہیں۔ سب اللہ کے علم میں ہیں۔ جیسے دوسرے مقام پر فرمایا اور اللہ تعالٰی ہی کے پاس ہیں تمام مخفی اشیاء کے خزانے، ان کو کوئی نہیں جانتا بجز اللہ کے، اور وہ تمام چیزوں کو جانتا ہے جو کچھ خشکی میں اور جو کچھ دریاؤں میں ہیں۔ کوئی پتہ نہیں گرتا مگر وہ اسکو بھی جانتا ہے، اور کوئی دانہ کوئی زمین کے تاریک حصوں میں نہیں پڑتا اور نہ کوئی تر اور نہ کوئی خشک چیز گرتی ہے، مگر یہ سب کتاب مبین میں ہیں۔
(٤) بارش، اولے، برف تقدیر اور وہ احکام، جو فرشتے لے کر اترتے ہیں۔
(٥) فرشتے انسانوں کے جو عمل لے کر چڑھتے ہیں جس طرح حدیث میں آتا ہے کہ اللہ کی طرف رات کے عمل دن سے پہلے اور دن کے عمل رات سے پہلے چڑھتے ہیں۔
(٦) یعنی تم خشکی میں ہو یا تری میں، رات ہو یا دن، گھروں میں ہو یا صحراؤں میں، ہر جگہ ہر وقت وہ اپنے علم وبصر کے لحاظ سے تمہارے ساتھ ہے یعنی تمہارے ایک ایک عمل کو دیکھتا ہے، تمہاری ایک ایک بات کو جانتا اور سنتا ہے۔ یہی مضمون (وَأَنِ اسْتَغْفِرُ‌وا رَ‌بَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ يُمَتِّعْكُم مَّتَاعًا حَسَنًا إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ ۖ وَإِن تَوَلَّوْا فَإِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ كَبِيرٍ‌ ﴿٣﴾۔ہود)۔ (سَوَاءٌ مِّنكُم مَّنْ أَسَرَّ‌ الْقَوْلَ وَمَن جَهَرَ‌ بِهِ وَمَنْ هُوَ مُسْتَخْفٍ بِاللَّيْلِ وَسَارِ‌بٌ بِالنَّهَارِ‌ ﴿١٠﴾۔ الرعد) اور دیگر آیات میں بھی بیان کیا گیا ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
لَّهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضِ ۚ وَإِلَى اللَّـهِ تُرْ‌جَعُ الْأُمُورُ‌ ﴿٥﴾
آسمانوں کی اور زمین کی بادشاہی اسی کی ہے اور تمام کام اس کی طرف لوٹائے جاتے ہیں۔
يُولِجُ اللَّيْلَ فِي النَّهَارِ‌ وَيُولِجُ النَّهَارَ‌ فِي اللَّيْلِ ۚ وَهُوَ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ‌ ﴿٦﴾
وہی رات کو دن میں لے جاتا ہے اور وہی دن کو رات میں داخل کر دیتا ہے اور سینوں کے بھید کا پورا عالم ہے۔
آمِنُوا بِاللَّـهِ وَرَ‌سُولِهِ وَأَنفِقُوا مِمَّا جَعَلَكُم مُّسْتَخْلَفِينَ فِيهِ ۖ فَالَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَأَنفَقُوا لَهُمْ أَجْرٌ‌ كَبِيرٌ‌ ﴿٧﴾
اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لے آؤ اور اس مال میں سے خرچ کرو جس میں اللہ نے تمہیں (دوسروں کا) جانشین بنایا ہے پس تم میں سے جو ایمان لائیں اور خیرات کریں انہیں بہت بڑا ثواب ملے گا۔
وَمَا لَكُمْ لَا تُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ ۙ وَالرَّ‌سُولُ يَدْعُوكُمْ لِتُؤْمِنُوا بِرَ‌بِّكُمْ وَقَدْ أَخَذَ مِيثَاقَكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ﴿٨﴾
تم اللہ پر ایمان کیوں نہیں لاتے؟ حالانکہ خود رسول تمہیں اپنے رب پر ایمان لانے کی دعوت دے رہا ہے اور اگر تم مومن ہو تو وہ تم سے مضبوط عہد و پیمان بھی لے چکا ہے (١)
٨۔١ ابن کثیر نے اخذ کا فاعل الرسول کو بنایا ہے اور مراد وہ بیعت لی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام سے لیتے تھے کہ خوشی اور ناخوشی ہر حالت میں اطاعت کرنی ہے اور امام ابن جریر کے نزدیک اس کا فاعل اللہ ہے اور مراد وہ عہد ہے جو اللہ تعالٰی نے تمام انسانوں سے اس وقت لیا تھا جب انہیں آدم علیہ السلام کی پشت سے نکالا تھا، جو عہد الست کہلاتا ہے، جس کا ذکر (وَالَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا سَنَسْـتَدْرِجُهُمْ مِّنْ حَيْثُ لَا يَعْلَمُوْنَ ١٨٢؀ښ) 7۔ الاعراف:182) میں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
هُوَ الَّذِي يُنَزِّلُ عَلَىٰ عَبْدِهِ آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ لِّيُخْرِ‌جَكُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ‌ ۚ وَإِنَّ اللَّـهَ بِكُمْ لَرَ‌ءُوفٌ رَّ‌حِيمٌ ﴿٩﴾
وہ (اللہ) ہی ہے جو اپنے بندے پر واضح آیتیں اتارتا ہے تاکہ وہ تمہیں اندھیروں سے نور کی طرف لے جائے یقیناً اللہ تعالٰی تم پر نرمی کرنے والا رحم کرنے والا ہے۔
وَمَا لَكُمْ أَلَّا تُنفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ وَلِلَّـهِ مِيرَ‌اثُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضِ ۚ لَا يَسْتَوِي مِنكُم مَّنْ أَنفَقَ مِن قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ ۚ أُولَـٰئِكَ أَعْظَمُ دَرَ‌جَةً مِّنَ الَّذِينَ أَنفَقُوا مِن بَعْدُ وَقَاتَلُوا ۚ وَكُلًّا وَعَدَ اللَّـهُ الْحُسْنَىٰ ۚ وَاللَّـهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ‌ ﴿١٠﴾
تمہیں کیا ہو گیا ہے جو تم اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے؟ دراصل آسمانوں اور زمینوں کی میراث کا مالک (تنہا) اللہ ہی ہے تم میں سے جن لوگوں نے فتح سے پہلے فی سبیل اللہ دیا ہے اور قتال کیا ہے وہ (دوسروں کے) برابر نہیں (۱) بلکہ ان کے بہت بڑے درجے ہیں جنہوں نے فتح کے بعد خیراتیں دیں اور جہاد کیے، (۲) ہاں بھلائی کا وعدہ تو اللہ تعالٰی کا ان سب سے ہے (۳) جو کچھ تم کر رہے ہو اس سے اللہ خبردار ہے۔
١٠۔١ فتح سے مراد اکثر مفسرین کے نزدیک فتح مکہ ہے۔ بعض نے صلح حدیبیہ کو فتح مبین کا مصداق سمجھ کر اسے مراد لیا ہے۔ بہر حال صلح حدیبیہ یا فتح مکہ سے قبل مسلمان تعداد اور قوت کے لحاظ سے بھی کم تر تھے اور مسلمانوں کی مالی حالت بھی بہت کمزور تھی۔ ان حالات میں اللہ کی راہ میں خرچ کرنا اور جہاد میں حصہ لینا، دونوں کام نہایت مشکل اور بڑے دل گردے کا کام تھا، جب کہ فتح مکہ کے بعد یہ صورت حال بدل گئی۔ مسلمان قوت وتعداد میں بھی بڑھتے چلے گئے اور انکی مالی حالت بھی پہلے سے کہیں زیادہ بہتر ہوگئی۔ اس میں اللہ تعالٰی نے دونوں ادوار کے مسلمانوں کی بابت فرمایا کہ یہ اجر میں برابر نہیں ہوسکتے۔
(۲) کیونکہ پہلوں کا انفاق اور جہاد، دونوں کام نہایت کٹھن حالات میں ہوئے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اہل فضل و عزم کو دیگر لوگوں کے مقابلے میں مقدم رکھنا چاہیے۔ اسی لیے اہل سنت کے نزدیک شرف وفضل میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سب سے مقدم ہیں، کیونکہ مومن اول بھی وہی ہیں اور منفق اول اور مجاہد اول بھی وہی۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو اپنی زندگی اور موجودگی میں نماز کے لیے آگے کیا، اور اسی بنیاد پر مومنوں (صحابہ کرام) نے انہیں استحقاق خلافت میں مقدم رکھا۔ رضی اللہ عنہم و رضوا عنہ۔
(۳) اس میں وضاحت فرما دی ہے کہ صحابہ کرام کے درمیان شرف و فضل میں فرق تو ضرور ہے لیکن فرق درجات کا مطلب یہ نہیں کہ بعد میں مسلمان ہونے والے صحابہ کرام ایمان اور اخلاق کے اعتبار سے بالکل ہی گئے گزرے تھے، جیسا کہ بعض حضرات، حضرت معاویہ ان کے والد حضرت ابو سفیان اور دیگر بعض ایسے ہی جلیل القدر صحابہ کے بارے میں ہرزہ سرائی یا انہیں طلقاء کہہ کر انکی تنقیص و اہانت کرتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں فرمایا ہے کہ لا تسبوا اصحابی میرے صحابہ پر سب و شتم نہ کرو، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھوں میں میری جان ہے کہ اگر تم میں سے کوئی شخص احد پہاڑ جتنا سونا بھی اللہ کی راہ میں خرچ کردے تو وہ میرے صحابی کے خرچ کیے ہوئے ایک مد بلکہ نصف مد کے بھی برابر نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
مَّن ذَا الَّذِي يُقْرِ‌ضُ اللَّـهَ قَرْ‌ضًا حَسَنًا فَيُضَاعِفَهُ لَهُ وَلَهُ أَجْرٌ‌ كَرِ‌يمٌ ﴿١١﴾
کون ہے جو اللہ تعالٰی کو اچھی طرح قرض دے پھر اللہ تعالٰی اسے اس کے لئے بڑھاتا چلا جائے اور اس کے لئے پسندیدہ اجر ثابت ہو جائے۔ (۱)
(۱) اللہ کو قرض حسن دینے کا مطلب ہے، اللہ کی راہ میں صدقہ و خیرات کرنا، یہ مال، جو انسان اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہے، اللہ ہی کا دیا ہوا ہے، اس کے باوجود اسے قرض قرار دینا، یہ اللہ کا فضل و احسان ہے کہ وہ اس انفاق پر اسی طرح اجر دے گا جس طرح قرض کی ادائیگی ضروری ہوتی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
يَوْمَ تَرَ‌ى الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ يَسْعَىٰ نُورُ‌هُم بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَبِأَيْمَانِهِم بُشْرَ‌اكُمُ الْيَوْمَ جَنَّاتٌ تَجْرِ‌ي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ‌ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ ﴿١٢﴾
(قیامت کے) دن تو دیکھے گا کہ ایماندار مردوں اور عورتوں کا نور انکے آگے آگے اور ان کے دائیں دوڑ رہا ہوگا (١) آج تمہیں ان جنتوں کی خوشخبری ہے جنکے نیچے نہریں جاری ہیں جن میں ہمیشہ کی رہائش ہے۔ یہ ہے بڑی کامیابی (٢)
١٢۔١ یہ عرصہ محشر میں پل صراط میں ہوگا، یہ نور ان کے ایمان اور عمل صالح کا صلہ ہوگا، جس کی روشنی میں وہ جنت کا راستہ آسانی سے طے کرلیں گے۔ امام ابن کثیر اور امام ابن جریر وغیرہما نے وَ بِاَیْمَانِھِمْ کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ ان کے دائیں ہاتھوں میں ان کے اعمال نامے ہوں گے۔
(۲) یہ وہ فرشتے کہیں گے جو ان کے استقبال اور پیشوائی کے لیے وہاں ہوں گے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
يَوْمَ يَقُولُ الْمُنَافِقُونَ وَالْمُنَافِقَاتُ لِلَّذِينَ آمَنُوا انظُرُ‌ونَا نَقْتَبِسْ مِن نُّورِ‌كُمْ قِيلَ ارْ‌جِعُوا وَرَ‌اءَكُمْ فَالْتَمِسُوا نُورً‌ا فَضُرِ‌بَ بَيْنَهُم بِسُورٍ‌ لَّهُ بَابٌ بَاطِنُهُ فِيهِ الرَّ‌حْمَةُ وَظَاهِرُ‌هُ مِن قِبَلِهِ الْعَذَابُ ﴿١٣﴾
اس دن منافق مرد و عورت ایمانداروں سے کہیں گے کہ ہمارا انتظار تو کرو کہ ہم بھی تمہارے نور سے کچھ روشنی حاصل کرلیں۔ جواب دیا جائے گا کہ تم اپنے پیچھے لوٹ جاؤ (١) اور روشنی تلاش کرو پھر ان کے اور ان کے درمیان (٢) ایک دیوار حائل کر دی جائے گی جس میں دروازہ بھی ہوگا اس کے اندرونی حصہ میں تو رحمت ہوگی (٤) اور باہر کی طرف عذاب ہوگا۔(٥)
١٣۔١ یہ منافقین کچھ فاصلے تک اہل ایمان کے ساتھ ان کی روشنی میں چلیں گے، پھر اللہ تعالٰی منافقین پر اندھیر مسلط فرما دے گا، اس وقت وہ اہل ایمان سے یہ کہیں گے۔
١٣۔٢ اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں جاکر اسی طرح ایمان اور عمل صالح کی پونجی لے کر آؤ، جس طرح ہم لائے ہیں یا مذاق کے طور پر اہل ایمان کہیں گے کہ پیچھے جہاں سے ہم نور لائے تھے وہی جا کر تلاش کرو۔
١٣۔٣ یعنی مومنین اور منافقین کے درمیان۔
(٤) اس سے مراد جنت ہے جس میں اہل ایمان داخل ہوچکے ہوں گے۔
(٥) یعنی وہ حصہ ہے جس میں جہنم ہوگی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
يُنَادُونَهُمْ أَلَمْ نَكُن مَّعَكُمْ ۖ قَالُوا بَلَىٰ وَلَـٰكِنَّكُمْ فَتَنتُمْ أَنفُسَكُمْ وَتَرَ‌بَّصْتُمْ وَارْ‌تَبْتُمْ وَغَرَّ‌تْكُمُ الْأَمَانِيُّ حَتَّىٰ جَاءَ أَمْرُ‌ اللَّـهِ وَغَرَّ‌كُم بِاللَّـهِ الْغَرُ‌ورُ‌ ﴿١٤﴾
یہ چلا چلا کر ان سے کہیں گے کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھے (١) وہ کہیں گے ہاں تھے تو سہی لیکن تم نے اپنے آپ کو فتنہ میں پھنسا رکھا (٢) تھا اور وہ انتظار میں ہی رہے (٣) اور شک وشبہ کرتے رہے (٤) تمہیں تمہاری فضول تمناؤں نے دھوکے میں ہی رکھا (۵) یہاں تک کہ اللہ کا حکم آپہنچا ( ٦) اور تمہیں اللہ کے بارے میں دھوکے رکھنے والے نے دھوکے میں رکھا۔(۷)
١٤۔١ یعنی دیوار حائل ہونے پر منافقین مسلمانوں سے کہیں گے کہ دنیا میں ہم تمھارے ساتھ نمازیں نہیں پڑھتے تھے اور جہاد وغیرہ میں حصہ نہیں لیتے تھے۔
١٤۔٢ تم نے اپنے دلوں میں کفر اور نفاق چھپا رکھا تھا۔
١٤۔٣ کہ شاید مسلمان کسی گردش کا شکار ہوجائیں
١٤۔٤ دین کے معاملے میں، اسی لیے قرآن کو مانا نہ دلائل ومعجزات کو۔
۱٤۔۵جس میں تمہیں شیطان نے مبتلا کیے رکھا۔
۱٤۔ ٦ یعنی تمہیں موت آگئی، یا مسلمان بالآخر غالب رہے اور تمہاری آرزوں پر پانی پھر گیا۔
۱٤۔۷یعنی اللہ کے حلم اور اس کے قانون امہال کی وجہ سے تمہیں شیطان نے دھوکے میں ڈالے رکھا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
فَالْيَوْمَ لَا يُؤْخَذُ مِنكُمْ فِدْيَةٌ وَلَا مِنَ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا ۚ مَأْوَاكُمُ النَّارُ‌ ۖ هِيَ مَوْلَاكُمْ ۖ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ‌ ﴿١٥﴾
الغرض، آج تم سے فدیہ (اور نہ بدلہ) قبول کیا جائے گا اور نہ کافروں سے تم (سب) کا ٹھکانا دوزخ ہے وہی تمہاری رفیق ہے (۱) اور وہ برا ٹھکانا ہے۔
۱۵۔۱مولیٰ اسے کہتے ہیں جو کسی کے کاموں کا متولی یعنی ذمے دار بنے گویا اب جہنم ہی اس بات کی ذمہ دار ہے کہ انہیں سخت سے سخت تر عذاب کا مزا چکھائے بعض کہتے ہیں کہ ہمیشہ ساتھ رہنے والے کو بھی مولیٰ کہہ لیتے ہیں یعنی اب جہنم کی آگ ہی ان کی ہمیشہ کی ساتھی اور رفیق ہوگی، بعض کہتے ہیں کہ اللہ تعالٰی جہنم کو بھی عقل وشعور عطا فرمائے گا پس وہ کافروں کے خلاف غیظ وغضب کا اظہار کرے گی، یعنی ان کی والی بنے گی اور انہیں عذاب الیم سے دوچار کرے گی۔
 
Top