• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
قُلْ إِنَّ الْمَوْتَ الَّذِي تَفِرُّ‌ونَ مِنْهُ فَإِنَّهُ مُلَاقِيكُمْ ۖ ثُمَّ تُرَ‌دُّونَ إِلَىٰ عَالِمِ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ ﴿٨﴾
کہہ دیجئے! کہ جس موت سے تم بھاگتے پھرتے ہو وہ تو تمہیں پہنچ کر رہے گی پھر تم سب چھپے کھلے کے جاننے والے (اللہ) کی طرف لوٹائے جاؤ گے اور وہ تمہیں تمہارے کئے ہوئے تمام کام بتلا دے گا۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِن يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَىٰ ذِكْرِ‌ اللَّـهِ وَذَرُ‌وا الْبَيْعَ ۚ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ‌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ ﴿٩﴾
اے وہ لوگوں جو ایمان لائے ہو! جمعہ کے دن نماز کی اذان دی جائے تو تم اللہ کے ذکر کی طرف دوڑ پڑو اور خرید و فروخت چھوڑ دو (١) یہ تمہارے حق میں بہت ہی بہتر ہے اگر تم جانتے ہو۔
٩۔١ یہ اذان کس طرح دی جائے، اس کے الفاظ کیا ہوں؟ یہ قرآن میں کہیں نہیں ہے۔ البتہ حدیث میں ہے جس سے یہ معلوم ہوا کہ حدیث کے بغیر قرآن کو سمجھنا ممکن ہے نہ اس پر عمل کرنا ہی۔ جمعہ کو، جمعہ اس لئے کہتے ہیں کہ اس دن اللہ تعالٰی ہرچیز کی پیدائش سے فارغ ہوگیا تھا، یوں گویا تمام مخلوقات کا اس دن اجتماع ہوگیا، یا نماز کے لئے لوگوں کا اجتماع ہوتا ہے اس بنا پر کہتے ہیں (فتح القدیر) فَاَسْعَوْا کا مطلب یہ نہیں کہ دوڑ کر آؤ، بلکہ یہ ہے کہ اذان کے بعد فوراً کاروبار بند کر کے آجاؤ۔ کیونکہ نماز کے لیے دوڑ کر آنا ممنوع ہے، وقار اور سکینت کے ساتھ آنے کی تاکید کی گئی ہے۔ (صحیح بخاری) بعض حضرات نے ذروا البیع (خرید وفروخت) چھوڑ دو سے استدلال کیا ہے کہ جمعہ صرف شہروں میں فرض ہے اہل دیہات پر نہیں۔ کیونکہ کاروبار اور خریدوفروخت شہروں میں ہی ہوتی ہے دیہاتوں میں نہیں۔ حالانکہ اول تو دنیا میں کوئی ایسا گاؤں نہیں جہاں خرید وفروخت اور کاروبار نہ ہوتا ہو اس لیے یہ دعوٰی خلاف واقعہ دوسرا بیع اور کاروبار سے مطلب دنیا کے مشاغل ہیں وہ جیسے بھی اور جس قسم کے بھی ہوں۔ اذان جمعہ کے بعد انہیں ترک کردیا جائے۔ کیا اہل دیہات کے مشاغل دنیا نہیں ہوتے؟ کیا کیھتی باڑی کاروبار اور مشاغل دنیا سے مخلتف چیز ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلَاةُ فَانتَشِرُ‌وا فِي الْأَرْ‌ضِ وَابْتَغُوا مِن فَضْلِ اللَّـهِ وَاذْكُرُ‌وا اللَّـهَ كَثِيرً‌ا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ﴿١٠﴾
پھر جب نماز ہو چکے تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو (١) اور بکثرت اللہ کا ذکر کیا کرو تاکہ تم فلاح پالو۔
١٠۔١ اس سے مراد کاروبار اور تجارت ہے۔ یعنی نماز جمعہ سے فارغ ہو کر تم اپنے اپنے کاروبار اور دنیا کے مشاغل میں مصروف ہو جاؤ۔ مقصد اس امر کی وضاحت ہے کہ جمعہ کے دن کاروبار بند رکھنے کی ضرورت نہیں۔ صرف نماز کے وقت ایسا کرنا ضروری ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
وَإِذَا رَ‌أَوْا تِجَارَ‌ةً أَوْ لَهْوًا انفَضُّوا إِلَيْهَا وَتَرَ‌كُوكَ قَائِمًا ۚ قُلْ مَا عِندَ اللَّـهِ خَيْرٌ‌ مِّنَ اللَّـهْوِ وَمِنَ التِّجَارَ‌ةِ ۚ وَاللَّـهُ خَيْرُ‌ الرَّ‌ازِقِينَ ﴿١١﴾
جب کوئی سودا بکتا دیکھیں یا کوئی تماشا نظر آجائے تو اس کی طرف دوڑ جاتے ہیں اور آپ کو کھڑا ہی چھوڑ دیتے ہیں (١) آپ کہہ دیجئے کہ اللہ کے پاس جو ہے (٢) وہ کھیل اور تجارت سے بہتر ہے (٣) اور اللہ تعالٰی بہترین روزی رساں ہے (٤)۔
١١۔١ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جمعے کا خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ ایک قافلہ آگیا، لوگوں کو پتہ چلا تو خطبہ چھوڑ کر باہر خرید و فروخت کے لئے چلے گئے کہ کہیں سامان فروخت ختم نہ ہو جائے صرف ١٢ آدمی مسجد میں رہ گئے جس پر یہ آیت نازل ہوئی (صحیح بخاری)۔ انفضاض کے معنی ہیں مائل اور متوجہ ہونا دوڑ کر منتشر ہوجانا۔ الیھا میں ضمیر کا مرجع تجارۃ ہے یہاں صرف ضمیر تجارت پر اکتفا کیا اس لیے کہ جب تجارت بھی باوجود جائز اور ضروری ہونے کے دوران خطبہ مذموم ہے تو کھیل وغیرہ کے مذموم ہونے کیا شک ہوسکتا ہے؟ علاوہ ازیں قائما سے معلوم ہوا کہ خطبہ جمعہ کھڑے ہو کر دینا سنت ہے۔ چنانچہ حدیث میں بھی آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دو خطبے ہوتے تھے، جن کے درمیان آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھتے تھے، قرآن پڑھتے اور لوگوں کو وعظ و نصیحت فرماتے۔ (صحیح مسلم)
١١۔٢ یعنی اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کی اطاعت کی جو جزائے عظیم ہے
۔ ١١۔٣ جس کی طرف تم دوڑ کر گئے اور مسجد سے نکل گئے اور خطبہ جمعہ کی سماعت بھی نہیں کی۔
١١۔٤ پس اسی سے روزی طلب کرو اور اطاعت کے ذریعے سے اسی کی طرف وسیلہ پکڑو۔ اس کی اطاعت اور اس کی طرف رزق حاصل کرنے کا بہت بڑا سبب ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
سورة المنافقون

(سورة المنافقون ۔ سورہ نمبر ٦۳ ۔ تعداد آیات ۱۱)​
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالٰی کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
إِذَا جَاءَكَ الْمُنَافِقُونَ قَالُوا نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَ‌سُولُ اللَّـهِ ۗ وَاللَّـهُ يَعْلَمُ إِنَّكَ لَرَ‌سُولُهُ وَاللَّـهُ يَشْهَدُ إِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَكَاذِبُونَ ﴿١﴾
تیرے پاس جب منافق آتے ہیں تو کہتے ہیں ہم اس بات کے گواہ ہیں کہ بیشک آپ اللہ کے رسول ہیں (١) اور اللہ جانتا ہے کہ یقیناً آپ اللہ کے رسول ہیں (٢) اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ یہ منافق قطعًا جھوٹے ہیں (٣)
١۔١ منافقین سے مراد عبد اللہ بن ابی اور اس کے ساتھی ہیں۔ یہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے تو قسمیں کھا کھا کر کہتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔
١۔٢ یہ جملہ معترضہ ہے جو مضمون ماقبل کی تاکید کے لیے ہے جس کا اظہار منافقین بطور منافقت کے کیا کرتے تھے۔ اللہ تعالٰی نے فرمایا یہ تو ویسے ہی زبان سے کہتے ہیں، ان کے دل اس یقین سے خالی ہیں۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم واقعی اللہ کے رسول ہیں۔
١۔٣ اس بات میں کہ وہ دل سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی گواہی دیتے ہیں، یعنی دل سے گواہی نہیں دیتے صرف زبان سے دھوکا دینے کے لئے اظہار کرتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اتَّخَذُوا أَيْمَانَهُمْ جُنَّةً فَصَدُّوا عَن سَبِيلِ اللَّـهِ ۚ إِنَّهُمْ سَاءَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿٢﴾
انہوں نے اپنی قسموں کو ڈھال بنا رکھا ہے (۱) پس اللہ کی راہ سے رک گئے (۲) بیشک برا ہے وہ کام جو یہ کر رہے ہیں۔
٢۔١ یعنی وہ قسم کھا کر کہتے ہیں کہ وہ تمہاری طرح مسلمان ہیں اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں انہوں نے اپنی اس قسم کو ڈھال بنا رکھا ہے۔ اس کے ذریعے سے وہ تم سے بچے رہتے ہیں اور کافروں کی طرح یہ تمہاری تلواروں کی زد میں نہیں آتے۔
٢۔٢ دوسرا ترجمہ یہ ہے کہ انہوں نے شک و شبہات پیدا کرکے لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ آمَنُوا ثُمَّ كَفَرُ‌وا فَطُبِعَ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ فَهُمْ لَا يَفْقَهُونَ ﴿٣﴾
یہ اس سب اسلئے ہے کہ یہ ایمان لا کر پھر کافر ہوگئے (١) پس ان کے دلوں پر مہر کر دی گئی ہے۔ اب یہ نہیں سمجھتے۔
٣۔١ اس سے معلوم ہوا کہ منافقین بھی صریح کافر ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
وَإِذَا رَ‌أَيْتَهُمْ تُعْجِبُكَ أَجْسَامُهُمْ ۖ وَإِن يَقُولُوا تَسْمَعْ لِقَوْلِهِمْ ۖ كَأَنَّهُمْ خُشُبٌ مُّسَنَّدَةٌ ۖ يَحْسَبُونَ كُلَّ صَيْحَةٍ عَلَيْهِمْ ۚ هُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْ‌هُمْ ۚ قَاتَلَهُمُ اللَّـهُ ۖ أَنَّىٰ يُؤْفَكُونَ ﴿٤﴾
جب آپ انہیں دیکھ لیں تو ان کے جسم آپ کو خوشنما معلوم ہوں (١) یہ جب باتیں کرنے لگیں تو آپ ان کی باتوں پر (اپنا) کان لگائیں (٢) گویا کہ یہ لکڑیاں ہیں اور دیوار کے سہارے لگائی ہوئی (۳) ہیں ہر سخت آواز کو اپنے خلاف سمجھتے ہیں (٤) یہی حقیقی دشمن ہیں ان سے بچو اللہ انہیں غارت کرے کہاں سے پھرے جاتے ہیں۔
٤۔١ یعنی ان کے حسن و جمال اور رونق و شادابی کی وجہ سے۔
٤۔٢ یعنی زبان کی فصاحت و بلاغت کی وجہ سے۔
٤۔۳ یعنی اپنی درازئی قد اور حسن ورعنائی، عدم فہم ور قلت خیر میں ایسے ہیں گویا کہ دیوار پر لگائی ہوئی لکڑیاں ہیں جو دیکھنے والوں کو تو بھلی لگتی ہے لیکن کسی کو فائدہ نہیں پہنچا سکتی۔
٤۔٤ یعنی بزدل ایسے ہیں کہ کوئی زوردار آواز سن لیں تو سمجھتے ہیں کہ ہم پر کوئی آفت نازل ہوگئی یا گھبرا اُٹھتے ہیں کہ ہمارے خلاف کسی کاروائی کا آغاز تونہیں ہو رہا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا يَسْتَغْفِرْ‌ لَكُمْ رَ‌سُولُ اللَّـهِ لَوَّوْا رُ‌ءُوسَهُمْ وَرَ‌أَيْتَهُمْ يَصُدُّونَ وَهُم مُّسْتَكْبِرُ‌ونَ ﴿٥﴾
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آؤ تمہارے لئے اللہ کے رسول استغفار کریں تو اپنے سر مٹکاتے ہیں (١) اور آپ دیکھیں گے کہ وہ تکبر کرتے ہوئے رک جاتے ہیں (٢)۔
٥۔١ یعنی استغفار سے اعراض کرتے ہوئے اپنے سروں کو موڑ لیتے ہیں۔
٥۔٢ یعنی کہنے والے کی بات سے منہ موڑ لیں گے یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اعراض کرلیں گے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَسْتَغْفَرْ‌تَ لَهُمْ أَمْ لَمْ تَسْتَغْفِرْ‌ لَهُمْ لَن يَغْفِرَ‌ اللَّـهُ لَهُمْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ ﴿٦﴾
ان کے حق میں آپکا استغفار کرنا اور نہ کرنا دونوں برابر ہیں (١) اللہ تعالٰی انہیں ہرگز نہ بخشے گا (٢) بیشک اللہ تعالٰی (ایسے) نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا،
٦۔١ اپنے نفاق پر اصرار اور کفر پر قائم رہنے کی وجہ سے وہ ایسے مقام پر پہنچ گئے جہاں استغفار اور عدم استغفار ان کے حق میں برابر ہے۔
٦۔٢ اگر اسی حالت میں نفاق میں مر گئے۔ ہاں اگر وہ زندگی میں کفر و نفاق سے تائب ہوجائیں تو بات اور ہے، پھر ان کی مغفرت ممکن ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
هُمُ الَّذِينَ يَقُولُونَ لَا تُنفِقُوا عَلَىٰ مَنْ عِندَ رَ‌سُولِ اللَّـهِ حَتَّىٰ يَنفَضُّوا ۗ وَلِلَّـهِ خَزَائِنُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضِ وَلَـٰكِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَا يَفْقَهُونَ ﴿٧﴾
یہی وہ ہیں جو کہتے ہیں کہ جو لوگ رسول اللہ کے پاس ہیں ان پر کچھ خرچ نہ کرو یہاں تک کہ وہ ادھر ادھر ہو جائیں اور آسمان و زمین کے خزانے اللہ تعالٰی کی ملکیت ہیں (١) لیکن یہ منافق بےسمجھ ہیں (۲)۔
٧۔١ مطلب یہ کہ مہاجرین کا رازق اللہ تعالٰی ہے اس لئے رزق کے خزانے اسی کے پاس ہیں، وہ جس کو جتنا چاہے دے اور جس سے چاہے روک لے۔
٧۔٢ منافق اس حقیقت کو نہیں جانتے، اس لئے وہ سمجھتے ہیں کہ انصار اگر مہاجرین کی طرف دست تعاون دراز نہ کریں تو وہ بھوکے مر جائیں گے۔
 
Top