• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر قرآن کے چند اصول وکلیات

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
تفسیر قرآن کے چند اصول وکلیات
جن کا جاننا قرآن کے ہر مفسر اور طالب علم کے لیے ضروری ہے​

(۱) نکرہ جب نفی، نہی یا استفہام کے سیاق میں یاشرط کے سیاق میں واقع ہو تو وہ عموم کا فائدہ دیتا ہے۔ اسی طرح مفرد مضاف بھی عموم کا مفہوم رکھتا ہے چنانچہ جب مذکورہ اشیا کے بعد نکرہ پایا جائے یا وہ مفرد ہو اور معرفہ کی طرف مضاف ہو تو اس لفظ میں شامل سب کو ثابت کرو اور صرف سبب نزول کو پیش نظر نہ رکھو کیونکہ ’’اعتبار لفظ کے عموم کا ہے‘ سبب کے خصوص کا نہیں۔‘‘

لہٰذا تمام واقعات اور افعال جو واقع ہو چکے ہیں اور وہ تمام افعال وواقعات جو نئے نئے پیش آتے رہیں گے‘ ان کو قرآن کے ان ہی عمومات پر محمول کیا جائے گا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن مجید میں ہر چیز کی وضاحت موجود ہے جو واقعہ بھی پیش آئے گا اور جو بھی نئی صورت حال پیش آئے گی‘ قرآن مجید میں اس کی وضاحت اور تشریح موجود ہوگی۔

(۲) صفت اور اسم جنس پرالف لام (اَ لْ) داخل ہونے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس حکم میں وہ تمام مفاہیم شامل ہیں جو اس اسم یا صفت سے سمجھے جاسکتے ہیں۔

(۳) قرآن مجید کا ایک قاعدہ کلیہ یہ بھی ہے کہ وہ:

ا : اللہ کی توحید اور اس کی معرفت کی دعوت دیتا ہے۔ اس مقصد کے لیے اللہ تعالیٰ کے اسمائے گرامی‘ اس کی صفات اور ان افعال کا ذکر کرتاہے جن سے ثابت ہوتا ہے کہ صرف اسی کو وحدانیت حاصل ہے اور اس کی صفاتِ کمال کا ذکر کرتا ہے۔

ب : وہ اس بات کی دعوت دیتا ہے کہ اللہ ہی حق ہے اور اسی کی عبادت حق ہے۔ اس کو چھوڑ کر لوگ جس جس کو بھی پکارتے ہیں‘ وہ سب باطل ہے۔ اللہ کے سوا جن کو پوجا جاتا ہے قرآن ان کا ہر لحاظ سے ناقص ہونا واضح کرتا ہے۔

ج : وہ اس بات کو ماننے کی دعوت دیتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ (قرآن‘ سنت‘ شریعت) لے کر آئے ‘ وہ صحیح اور سچ ہے ۔ اس مقصد کے لیے وہ اس کے محکم اور مکمل ہونے کو‘ اس کی تمام خبروںکے سچا ہونے کو اور احکام کے بہترین ہونے کو واضح کرتا ہے نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انسانیت کے اعلیٰ ترین مقام پر فائز ہونے کو واضح کرتا ہے جس تک نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کوئی پہنچ سکا نہ آپ کے بعد۔ قرآن چیلنج کرتا ہے کہ اگر مخالف سچے ہیں تو ایسی عظیم کتاب یا شریعت لاکر دکھائیں۔

قرآن مجید توحید کے اثبات کے لیے اللہ تعالیٰ کی گواہی پیش کرتا ہے جس میں اللہ تعالیٰ کے اقوال وافعال بھی شامل ہیں اور دلائل وبراہین کے ساتھ اس کی تائید بھی شامل ہے اور اہل توحید کی مدد اور غلبہ کی صورت میں عملی گواہی بھی شامل ہے ۔ اس کے علاوہ انصاف پسند اہل علم کی گواہی بھی پیش کی گئی ہے۔ اخبارواحکام پر مشتمل حق کا موازنہ مخالفین کی باتوں کے جھوٹا ہونے اور احکام کے باطل ہونے کی وضاحت کرکے کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں طرح طرح کے معجزات کے ذریعے بھی حق کی تائید ہوتی ہے۔

ہ : آخرت کے اثبات کے لیے اللہ کی کامل قدرت کو دلیل بنایا گیا ہے۔ آسمان وزمین کی تخلیق جو انسانوں کی تخلیق سے عظیم تر مظہر ہے‘ یہ بھی آخرت کے وقوع کی دلیل ہے۔ ایک دلیل یہ بھی ہے کہ جس خالق نے کائنات کو پہلی بار پیدا کیا ہے وہ دوبارہ پیدا کرنے پر بھی قادر ہے اور جو خالق زمین کو مردہ کرنے کے بعد زندہ کردیتا ہے وہ فوت ہو نے والوں کو بھی دوبارہ زندگی بخش سکتا ہے۔ علاوہ ازیں گزشتہ قوموں کے وہ حالات بیان کرتا ہے جو انسانوں کے مشاہدہ میں آچکے ہیں اور ان قوموں کا دنیا میں عذاب کے ذریعے سے تباہ ہو جانا اخروی سزا کی ایک جھلک اور نمونہ ہے۔

و : قرآن مجید تمام اہل باطل یعنی کفار‘ مشرکین اور ملحدین کو دین اسلام کی خوبیاں بیان کرکے اسے قبول کرنے کی دعوت دیتا ہے‘ وہ عقائد‘ اخلاق اور اعمال میں بہترین راستہ کی طرف راہنمائی مہیا کرتا ہے‘ وہ اللہ کی عظمت‘ ربوبیت اور عظیم نعمتوں کا ذکر کرکے واضح کرتا ہے کہ جو ذات مطلق کمال سے متصف ہے اور تمام نعمتیں بھی اسی کی طرف سے ہیں‘ تو عبادت بھی صرف اسی کا حق ہے۔ باطل پرست جن عقائد واعمال کے حامل ہیں اگر ان کا تجزیہ کیا جائے تو اس میں شراور باطل کے سوا کچھ نہیں جن کا انجام خطرناک ہے۔

(۴) تفسیر کا ایک اصول یہ بھی ہے کہ جب آیت کی دلالت مطابقت اور دلالت تضمن آپ کی سمجھ میں آجائے تو جان لیں کہ اس مفہوم کے لوازم جن کے بغیر یہ چیزوجود میں نہیں آسکتی اور اس کے شروط وتوابع بھی اسی مفہوم میں شامل اور تابع ہیں جن اشیا کے بغیر کوئی خبر مکمل نہیں ہوتی‘ وہ اشیا اس خبر کے تابع ہیں اور جن اشیا کے بغیر کوئی حکم مکمل نہیں ہوتا‘ وہ اشیا اس حکم کے تابع ہیںنیز جن آیات میںبظاہر تعارض اور تناقض محسوس ہوتا ہے‘ ان میں تناقض اور تعارض حقیقت میں موجود نہیں بلکہ ہر نص کو اس کے مناسب حالات پر محمول کرنا چاہیے۔ علاوہ ازیں کسی متعلق مثلاً مفعول وغیرہ کو حذف کرنے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ معنی عام ہے کیونکہ حذف کا سب سے بڑا فائدہ یہی ہے۔ ایسی چیز کو حذف کرنا جائز نہیں جس کا سیاق کلام یا قرینہ حالیہ سے علم نہ ہو سکے۔ اسی طرح وہ احکام جن کے ساتھ کسی شرط یا صفت کی قید ذکر کی گئی ہے‘ وہاں یہ مقصود نہیں کہ اس حکم کے ثبوت کے لیے اس قید کا وجود لازمی ہے۔

(۵) جب اللہ تعالیٰ کسی کام کا حکم دے تو اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس کی ضد ممنوع ہے اور جب کسی کام سے منع کیا جائے تو اس میں اس کی ضد کا حکم پایا جاتا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ اپنی ذات کو کسی نقص سے پاک بیان فرمائے تو اس سے اللہ کے لیے وہ کمال ثابت ہوگا جو اس نقص کا متضاد ہے۔ اسی طرح جب کسی رسول اور ولی کی تعریف کرتے ہوئے انھیں کسی نقص سے پاک قرار دیا جائے تو اس میں ان کی تعریف پائی جاتی ہے اور ثابت ہوتا ہے کہ ان میں اس نقص کی متضاد اچھی صفت موجود ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے جنت سے نقائص کی نفی سے اس سے برعکس صفات کا وجود ثابت ہوتا ہے۔

(۶) جب حق واضح اور بالکل روشن ہو جائے تو پھر کسی علمی بحث کی گنجائش رہتی ہے نہ عملی اختلاف کی بلکہ تمام معارضات ومجادلات کالمعدوم ہوجاتے ہیں۔

(۷) قرآن مجید جس چیز کی نفی کرے وہ چیز یا تو واقعتاً موجود ہی نہیں ہوتی ہے یاموجود ہوتی ہے لیکن مفید ونافع نہیں ہوتی بلکہ بے کارہوتی ہے۔

(۸) موہوم کے ذریعے سے معلوم کا رد نہیں کیا جاسکتا اور ثابت شدہ حقیقت کے مقابلے میں مجہول اور نامعلوم امور کو پیش نہیں کیا جاسکتا کیونکہ حق کو چھوڑ کر جو چیز بھی اختیار کی جائے گی وہ باطل ہی ہو سکتی ہے اور کچھ نہیں۔

(۹) اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بہت سے مقامات پر ایمان اور عمل صالح کا ذکر فرمایا ہے۔ ان دونوں پر دنیا وآخرت میں جزا اور بہت سے اچھے نتائج کا دارومدار بیان کیا ہے۔ ایسے مواقع پر’’ایمان‘‘ سے مراد ہے’’ ان چیزوں پر پختہ یقین جن کو سچ ماننے کا اللہ نے اور اس کے رسول نے حکم دیا ہے۔‘‘ اس میں جسم کے ساتھ عمل کرنا بھی شامل ہے اور ’’عمل صالح‘‘ سے مراد ’’اللہ کے حقوق اور بندوں کے حقوق کی ادائیگی‘‘ ہے۔ اسی طرح اللہ نے تقوے کا حکم دیا ہے اور متقین کی تعریف کی ہے اور بھلائیوں کے حصول اور شرور سے نجات کا دارومدار تقوے پر رکھا ہے۔ کامل تقویٰ یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کے احکامات کی تعمیل کی جائے۔ ان کے منع کیے ہوئے کاموں سے اجتناب کیا جائے اور ان کی دی ہوئی خبروں کو سچا مانا جائے۔

(۱۰) جب اللہ تعالیٰ ’’بِرّ اور تقویٰ‘‘ (نیکی اور پرہیزگاری) کا اکٹھاذکر فرماتا ہے توتقویٰ سے مراد تمام گناہوں سے بچنا اور نیکی سے مراد تمام اچھے کام کرنا ہوتا ہے۔ جب ان دوالفاظ میں سے کوئی ایک لفظ مذکور ہوتو دوسرا بھی اس میں شامل ہوتا ہے۔

(۱۱) اللہ تعالیٰ نے بہت سے مقامات پر مطلوبہ ہدایت کا ذکر فرمایا ہے اور ہدایت یافتہ لوگوں کی تعریف فرمائی ہے اور بتایا ہے کہ ہدایت اسی کے ہاتھ میں ہے اور ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم اس سے ہدایت مانگیں اور ایسے اسباب اختیار کریں جن سے ہدایت حاصل ہوتی ہے۔ اس میں علم وعمل دونوں کی ہدایت شامل ہے۔ چنانچہ ہدایت یافتہ وہ شخص ہے جس نے حق کو پہچانا اور اس پر عمل بھی کیا۔ ہدایت کا متضاد گمراہی{ضَلاَل} اور سرکشی {غَیّ} ہے۔ جس نے حق کو پہچان لیا لیکن اس پر عمل نہ کیا‘ وہ غَاوِی (سرکش) ہے اور جو حق سے بے خبررہا وہ ضَالّ (گمراہ ) ہے۔

(۱۲) اللہ تعالیٰ نے احسان (نیکی کا کام اچھے انداز سے انجام دینے) کا حکم دیا ہے اور اہل احسان کی تعریف کی ہے اور بہت سی آیات میں ان کے لیے گونا گوں نعمتوں کا ذکر فرمایا ہے۔ احسان کا مطلب یہ ہے کہ ’’تو اللہ کی عبادت اس طرح کرے جیسے تو اسے دیکھ رہا ہے اگر تو اسے نہیں دیکھتا تو وہ تو تجھے دیکھتا ہے۔‘‘ اور جس قدر ممکن ہو‘ مخلوق کو مالی‘ بدنی اور قولی فائدہ پہنچانا بھی احسان میں شامل ہے۔

(۱۳) اللہ تعالیٰ نے اصلاح کا حکم دیا ہے اور اصلاح کرنے والوں کی تعریف کی ہے اور خبردی ہے کہ وہ ان کے ثواب واجر کو ضائع نہیں کرتا۔

اصلاح کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کے عقائد اور اخلاق کو اور تمام معاملات کو درست کرنے کی کوشش کی جائے حتیٰ کہ زیادہ سے زیادہ ممکن حد تک درست ہو جائیں۔ اس میں دینی معاملات کی اصلاح بھی شامل ہے اور دنیاوی معاملات کی بھی‘ افراد کی اصلاح بھی شامل ہے اور جماعتوں کی بھی۔ اس کی متضاد کیفیت فساد ہے۔

اللہ تعالیٰ نے فسادسے منع کیا ہے اور فساد (خرابی) پیدا کرنے والوں کی مذمت کی ہے۔ ان کی متعدد سزائیں ذکر فرمائی ہیں اور بتایا ہے کہ وہ ان کے دینی اور دنیوی معاملات کو درست نہیں فرمائے گا۔

(۱۴) اللہ نے یقین اور یقین رکھنے والوں کی تعریف کی ہے اور واضح فرمایا ہے کہ قرآنی آیات اور آفاقی آیات سے یہی لوگ مستفید ہوتے ہیں۔

یقین علم سے خاص ہے ‘اس کی تعریف یہ ہے ’’پختہ علم جس کے نتیجے میں عمل صالح اور اطمینان قلب حاصل ہو جائے۔‘‘

(۱۵) اللہ تعالیٰ نے صبر کا حکم دیا ہے‘ صبر کرنے والوں کی تعریف کی ہے اور دنیا وآخرت میں ملنے والی جزا کا ذکر فرمایا ہے ۔ قرآن مجید کے تقریباً نوے مقامات پر ان امور کا بیان ہے۔ صبر میں اس کی تینوں قسمیں شامل ہیں۔ (ا) اللہ کی اطاعت پر صبر (اور ثابت قدمی)حتیٰ کہ اطاعت کے اعمال ہر لحاظ سے مکمل ادا ہوں۔ (ب) اللہ کے حرام کردہ کاموں سے صبریعنی نفس برائی کا حکم دے تو انسان اسے اس سے منع کردے۔(ج) اللہ کی تقدیر پر صبر یعنی زندگی میں پیش آنے والے تکلیف دہ واقعات ومعاملات کا سامنا صبروتسلیم سے کرے۔ دل میںیا زبان سے یا بدن کی کسی حرکت سے اللہ کا اس فیصلے پر ناراضی کا اظہار نہ ہو۔

(۱۶) اللہ تعالیٰ نے شکر کی تعریف کی ہے اور شکرکرنے والوں کا ثواب بیان فرمایا ہے اور واضح کیا ہے کہ شکر کرنے والوں کا مقام دنیا اور آخرت میں بلند ترین ہے۔

شکر کا حقیقی مطلب ہے ’’اللہ کی تمام نعمتوں کا اعتراف کرنا‘ ان کی وجہ سے اللہ کی تعریف کرنااور انعام کرنے والے رب کی اطاعت میں ان (نعمتوں ) سے مددلینا۔‘‘

(۱۷) اللہ تعالیٰ نے بہت سے مقامات پر خوف اور خشیت کا ذکر کیا ہے‘ اس کا حکم دیا ہے‘ اہل خشیت کی تعریف کی ہے‘ ان کا ثواب بیان کیا ہے اور یہ واضح کیا ہے کہ اللہ سے ڈرنے والے وہ ہیں جو اس کی آیات سے فائدہ اٹھاتے اور اس کے حرام کیے ہوئے کاموں سے پرہیز کرتے ہیں۔

خوف اور خشیت کی حقیقت یہ ہے کہ ’’بندہ اللہ کے سامنے پیش ہونے سے ڈر جائے اور اس خوف کے ذریعے سے اپنے نفس کو ہراس کام سے روک لے جسے اللہ نے حرام کیا ہے۔‘‘

(۱۸) امید کا مطلب یہ ہے کہ بندہ اللہ تعالیٰ کی عمومی رحمت کی امید رکھے (جو تمام مخلوقات پر ہوتی ہے) اور خصوصی رحمت کی امید رکھے (جو اس کے نیکو کار بندوں کے لیے مخصوص ہے۔) یعنی وہ امید رکھے کہ اللہ نے اپنے فضل سے اسے جو نیکیاں کرنے کی توفیق دی ہے‘ انھیں قبول فرمائے گا اور بندے سے جو لغزشیں ہوئی ہیں اور اس نے ان سے توبہ کرلی ہے‘ اللہ انھیں معاف فرمائے گا اور ہر حال میں اپنی امید اپنے رب ہی سے رکھے۔

(۱۹) اللہ تعالیٰ نے بہت سے مقامات پر انابت (اللہ کی طرف رجوع) کا ذکر فرمایا ہے اور اہل انابت کی تعریف فرمائی ہے۔ انابت کا مطلب ہے ’’دل کا ہر حال میں اللہ کی طرف کھنچنا‘‘ نعمت کے وقت وہ شکر کے ذریعے سے ‘ مصیبت میں عجزونیاز کے ذریعے سے اور نفس انسانی کی بہت سی ضروریات ومطلوبات کے موقع پر کثرت دعا کے ساتھ اللہ کی طرف متوجہ ہوتا ہے ۔ اس کے علاوہ ہر وقت اس کا نام لینا اور اس کا ذکر کرنا بھی انابت میں شامل ہے۔

انابت کا ایک مطلب یہ ہے کہ بندہ تمام گناہوں سے توبہ کے ذریعے سے اللہ کی طرف متوجہ ہو نیز اپنے تمام اقوال وافعال میں اس کی طرف رجوع کرے یعنی اپنے اعمال کو اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت کی روشنی میں پرکھے اور تمام اقوال وافعال کو شریعت کی ترازو میں تولے۔

(۲۰) اللہ تعالیٰ نے اخلاص کا حکم دیا ہے‘ اہل اخلاص کی تعریف کی ہے اور بتایا ہے کہ وہ صرف خالص عمل کو قبول کرتا ہے۔ اخلاص کا مطلب یہ ہے کہ ’’عمل کرنے والا اپنے عمل کو صرف اللہ کی رضا کے لیے اور اس سے ثواب حاصل کرنے کے لیے انجام دے۔‘‘ اس کے برعکس صورت میں ریاکاری اور نفسانی اغراض ومقاصد کے لیے کام کرنا شامل ہے۔

(۲۱) اللہ تعالیٰ نے تکبر سے منع فرمایا ہے۔ تکبر اور تکبر کرنے والوں کی مذمت کی ہے اور ان کو دنیا اور آخرت میں ملنے والی سزاؤں کا ذکر فرمایا ہے۔ تکبر کا مطلب ہے: ’’حق کو قبول نہ کرنا اور مخلوق کو حقیر سمجھنا۔‘‘ اس کی ضد ’’تواضع‘‘ (فروتنی، انکسار) ہے۔ اللہ نے اس کا حکم دیا ہے‘ تواضع کے حامل افراد کی تعریف کی ہے ۔ ان کا ثواب بیان کیا ہے۔ تواضع کا مطلب یہ ہے ’’حق کی بات تسلیم کرلینا جو بھی کہے اور دوسروں کو حقیر نہ سمجھنا بلکہ ان کی فضیلت کا اعتراف کرنا اور ان کے لیے وہی کچھ پسند کرنا جو خود کو پسند ہے۔‘‘

(۲۲) عدل (انصاف)کا مطلب ہے ’’حقوق اللہ اور حقوق العباد کو اداکرنا۔‘‘ ظلم‘ انصاف کی ضد ہے۔ اس میں انسان کا اپنی ذات پر ظلم مثلاً شرک اور دوسرے گناہ بھی شامل ہیں اور بندوں پر ظلم بھی جس کا تعلق ان کی جان‘ مال اور عزت سے ہے۔

(۲۳) صدق (سچ) کا مطلب ہے سیدھی راہ پرقائم رہنے میں ظاہر اور باطن کا برابر ہونا اور کذب (جھوٹ) اس کے برعکس کیفیت کو کہتے ہیں۔

(۲۴) اللہ کی حدود سے مراد وہ کام ہیں جو اس نے حرام کیے ہیں۔ ان کے بارے میں اس نے فرمایا ہے:

{تِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ فَلَا تَقْرَبُوْھَا} (البقرہ:۱۸۷)
’’یہ اللہ کی حدیں ہیں‘ ان کے قریب نہ جانا۔‘‘

بعض اوقات اس سے وہ کچھ مراد ہوتا ہے جس کو اللہ نے جائز اور حلال قراردیا ہے یا اس کی مقدار مقرر کی ہے اور اسے فرض کیا ہے ۔ اس کے بارے میں فرمان ہے:

{تِلْکَ حُدُوْدُاللّٰہِ فَلَا تَعْتَدُوْھَا} (البقرہ:۲۲۹)
’’یہ اللہ کی حدیں ہیں ان سے تجاوز نہ کرنا۔ ‘‘

یعنی یہ حدیں پارکرکے حرام میں داخل نہ ہو جانا۔

(۲۵) امانت سے مراد وہ اشیا ہیں جن کے بارے میں بندے پر اعتبار کیا جاتا ہے اور اسے دیانت دار سمجھا جاتا ہے۔ اس میں اللہ کے حقوق بھی شامل ہیں‘ خاص طور پر جو عام لوگوں سے پوشیدہ رہتے ہیں اور مخلوق کے حقوق بھی شامل ہیں۔

(۲۶) عہد اور وعدے میں اللہ اور بندے کے باہمی معاملات بھی شامل ہیں یعنی اللہ کی عبادت خلوص کے ساتھ کرنا اور بندے کے دوسرے بندوں کے ساتھ روز مرہ کے معاملات میں زبان اور عہد کی پاسداری کرنا۔

(۲۷) حکمت اور قَوَام سے مراد یہ ہے وہ کام کرنا جو کرنا چاہیے اور اس انداز سے کرنا جیسے کرنا چاہیے۔

(۲۸) اسراف وتبذیر (فضول خرچی اور بے جاخرچ) کا مطلب ہے خرچ کرنے میں جائز حد سے آگے بڑھ جانا۔ تقتیر اور بخل (کنجوسی) اس کے برعکس ہے یعنی واجب اخراجات بھی پورے نہ کرنا۔

(۲۹) المعروف (نیکی) میں ہر وہ چیز شامل ہے جس کا اچھا اور مفید ہونا شریعت اور عقل کی روشنی میں معروف ہو اور منکر (برائی) اس کے برعکس ہے۔

(۳۰) استقامت کا مطلب ہے اللہ کی اطاعت اور اس کے رسول کی اطاعت پر ہمیشہ قائم رہنا۔

(۳۱) دل کا مرض دو طرح کا ہوتا ہے۔ حق کے بارے میں شکوک وشبہات کا مرض اور حرام کاموں کے ارتکاب کی خواہش کا مرض۔

(۳۲) نفاق (منافقت) کا مطلب ہے نیکی کا اظہار کرنا جب کہ دل میں برائی پوشیدہ ہو۔ اس میں نفاق اعتقادی (عقیدہ کا نفاق ) بھی شامل ہے اور نفاق عملی (عمل کا نفاق ) بھی۔

(۳۳) قرآن مجید ایک مفہوم کے اعتبار سے سارے کا سارا محکم بھی ہے اور سارے کا سارا متشابہ بھی اور ایک مفہوم کے اعتبار سے اس کا کچھ حصہ محکم ہے اور کچھ متشابہ۔

محکم اس معنی میں ہے کہ اس کی آیات پختہ ہیں‘ حکمت کے مطابق ہیں۔ اس کی خبریں اعلیٰ ترین سچائی کی حامل ہیں اور اس کے احکام انتہائی خوب اور بہترین ہیں اور متشابہ اس معنی میں ہے کہ بلاغت اور حسن میں یکساں ہے‘ اس کا ایک حصہ دوسرے کی تصدیق کرتا ہے اور یہ یکسانیت درجہ کمال کو پہنچی ہوئی ہے۔ دوسرے مفہوم کے اعتبار سے قرآن مجید کے وہ مقام متشابہ ہیں جن میں اجمال ہے اور بعض معانی کا احتمال ہے اور محکم وہ ہے جس کا مفہوم واضح اور صریح ہے۔ جب متشابہ کو محکم کی روشنی میں سمجھا جائے تو ظاہری ٹکراؤ ختم ہو جاتا ہے اور تمام مضامین اپنی اپنی جگہ درست نظر آتے ہیں۔

(۳۴) قرآن مجید میں اللہ کی جو معیت بیان کی گئی ہے (یعنی وہ اپنے بندوں کے ساتھ ہے) اس کی دو قسمیں ہیں :

(ا) علم کے لحاظ سے معیت: یہ عام معیت ہے۔ بندے جہاں بھی ہوں اللہ اپنے علم وقدرت کے لحاظ سے ان کے ساتھ ہے۔

(ب) خاص معیت: یعنی اپنے خاص بندوں کے ساتھ ہے‘ ان کی مدد کرتا ہے اور ان سے لطف واحسان کا معاملہ کرتا ہے۔

(۳۵) دعا میں دو چیزیں شامل ہیں۔ دعائے عبادت: اس میں ہر وہ عبادت شامل ہے جس کا اللہ نے اور اس کے رسول نے حکم دیا ہے اور دعائے سوال یعنی اللہ سے فائدہ مند چیزوں کے حصول اور نقصان دہ اشیا سے بچاؤ کی درخواست کرنا ۔

(۳۶) طیبات (پاک چیزیں) ان سے مراد ہر پاک اور مفید چیز ہے خواہ وہ عقیدہ ہو یا اخلاق یا اعمال‘ کھانے کی چیز ہو یا پینے کی یا کمائی کے ذرائع ہوں۔ خبیث (ناپاک) اس کے برعکس معنی میں مستعمل ہے۔

بعض اوقات خبیث سے مراد نکمی چیز اور طیب سے عمدہ چیز بھی مراد ہوتی ہے جیسے ارشاد الٰہی ہے:

{یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْفِقُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا کَسَبْتُمْ وَمِمَّآ اَخْرَجْنَا لَکُمْ مِّنَْ الْاَرْضِ وَلَا تَیَمَّمُوا الْخَبِیْثَ مِنْہُ تُنْفِقُوْنَ وَلَسْتُمْ بِاٰخِذِیْہِ اِلَّآ اَنْ تُغْمِضُوْا فِیْہِ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ حَمِیْدٌ} (البقرۃ:۲۶۷)

’’اے ایمان والو! ان پاک (یعنی عمدہ) چیزوں سے خرچ کروجو تم نے کمائی ہیں اور جو ہم نے تمہارے لیے زمین سے نکالی ہے اور خبیث (نکمی) چیز کا قصد نہ کرو کہ تم اس میں سے خرچ کرتے ہو اور خود اسے لیتے نہیں مگر یہ کہ چشم پوشی کرلو۔ جان لو کہ اللہ تعالیٰ بے پروا قابل تعریف ہے۔‘‘

(۳۷) نفقہ (خرچ کرنا) اس میں واجب اخراجات بھی شامل ہیں جیسے زکوٰۃ‘ کفارہ‘ اپنی ذات کے ضروری اخراجات‘ بیوی بچوں اور غلاموں وغیرہ پر خرچ اور مستحب اخراجات بھی جیسے کسی بھی نیکی کے کام میں خرچ کرنا۔

(۳۸) اللہ پر توکل اور اس سے مدد مانگنا‘ اللہ نے اس کا حکم دیا ہے اور بہت سی آیات میں اللہ پر بھروسہ کرنے والوں کی تعریف کی ہے۔ اس کا مطلب دینی اور دنیوی فوائد کے حصول اور نقصانات وتکالیف سے بچاؤ کے لیے دل میں اللہ پر اعتماد کی قوت اور اس مقصد کے حصول کے لیے اللہ پر یقین ہے۔

(۳۹) اللہ تعالیٰ نے عقل اور عقل والوں کی تعریف کی ہے اور بتایا ہے کہ عقل والے ہی آیات الٰہی سے فائدہ حاصل کرتے ہیں۔ (عقل کا لغوی معنی باندھنا اور روکنا ہے) عقل وہ ہوتی ہے جو نفع مند حقائق کو سمجھ کر قابوکرلیتی ہے اور ان کے مطابق کام کرتی ہے۔ وہ انسان کو برے کاموں سے روک کر رکھتی ہے۔ اس کو ’’حِجْرٌ‘ لُبٌّ اور نُھْیَۃ ‘‘ (جمع نھیٰ) بھی اسی لیے کہتے ہیں کہ وہ انسان کو نقصان دہ کاموں سے منع کرتی اور محفوظ رکھتی ہے۔

(۴۰) علم سے مراد ہدایت کو دلائل کے ساتھ پہچاننا ہے چنانچہ وہ مطلوب اور مفید مسائل کو‘ ان کے دلائل کو اور ان تک پہنچنے کے ذرائع کو جاننے کا نام ہے۔ علم نافع سے مراد حق کو جاننا اور اس پر عمل کرنا ہے۔ علم کے برعکس کیفیت کو جہل (جہالت‘ نادانی اور لاعلمی ) کہتے ہیں۔

(۴۱) ’’امت‘‘ کا لفظ قرآن مجید میں چار انداز سے استعمال ہوا ہے۔ (ا) زیادہ تر مقامات پر ’’امت‘‘ کا مطلب ’’لوگوں کی ایک جماعت یا گروہ‘‘ ہے۔ (ب) کہیں اس سے مراد ’’مدت‘‘ ہوتی ہے۔ (ج) بعض اوقات اس سے ’’دین‘‘ اور ’’ملت‘‘ مراد ہوتی ہے۔ (و) اور بعض اوقات اس سے ’’نیکی کا پیشوا‘‘ مراد ہوتا ہے۔

(۴۲) استویٰ کا لفظ قرآن مجید میں تین معنوں میں آیا ہے۔ (ا) اگر یہ (علیٰ) کے ساتھ استعمال ہو تو بلند ہونا مراد ہے مثلاً {ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ} (یونس:۳) ’’پھر اللہ تعالیٰ عرش پر بلند ہوا‘‘ (ب) اگر (الٰی) کے ساتھ مذکور ہو تو اس کا معنی ’’قصد‘‘ ہوتا ہے جیسے {ثُمَّ اسْتَوٰٓی اِلَی السَّمَآء فَسَوّٰھُنَّ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ} (البقرہ :۲۹ ) ’’پھر اس نے آسمان کی طرف قصد فرمایا تو انھیں برابر کر کے سات آسمان بنادیا‘‘ (ج) اگر یہ کسی حرف جر کے بغیر استعمال ہو تو ’’کامل ہونا‘‘ مراد ہوتا ہے جیسے {وَلَمَّا بَلَغَ اَشُدَّہٗ وَاسْتَوٰٓی} (اَلْقصص:۱۴) ’’جب آپ اپنی پوری طاقت کو پہنچے اور کامل ہو گئے۔‘‘

(۴۳) توبہ‘ بہت سی آیات میں اس کا حکم آیا ہے اور توبہ کرنے والوں کی تعریف اور ثواب کا ذکر ہوا ہے۔ توبہ کا معنی ہے: ’’اللہ جس چیز کو ظاہراً اور باطناً ناپسند کرتا ہے‘ اس سے پلٹ کر اس چیز کی طرف آجانا جسے اللہ تعالیٰ ظاہراً اور باطناً پسند کرتا ہے۔‘‘

(۴۴) صراط مستقیم (سیدھا راستہ) جس پر قائم رہنے کا اللہ نے حکم دیا ہے اور اس پر قائم رہنے والوں کی تعریف کی ہے۔ وہ ’’اعتدال والا راستہ ہے جو اللہ کی رضامندی اور ثواب تک پہنچاتا ہے‘‘ اور وہ ہے‘ نبی کریم ﷺ کے اقوال‘ افعال اور تمام احوال میں آپ کی پیروی کرنا۔

(۴۵) ذکر‘ جس کا اللہ نے حکم دیا ہے اور ذکر کرنے والوں کی تعریف کی ہے اور ان کی دنیوی اور اخروی جزا بیان کی ہے۔ جب یہ مطلق (بلاقید) بولا جائے تو اس میں اللہ کے قریب کرنے والی ہر چیز شامل ہو جاتی ہے مثلاً صحیح عقیدہ‘ مفید سوچ‘ اچھا اخلاق‘ قلبی یابدنی نیکی‘ اللہ کی حمدوثنا‘ اس کی تسبیح وتقدیس‘ شریعت کے اصولی اور فروعی مسائل سیکھنا یا ایسے علوم سیکھنا جو شریعت کا علم حاصل کرنے میں معاون ہوں ۔ یہ سب اللہ کے ذکر میں شامل ہے۔
ماخوذ: تیسیرالکریم الرحمٰن فی تفسیر کلام المنان​
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
جزاکم اللہ خیرا۔
 
Top