• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفصیلی تحقیق درکار ہے

فیاض ثاقب

مبتدی
شمولیت
ستمبر 30، 2016
پیغامات
80
ری ایکشن اسکور
10
پوائنٹ
29
⭕ ﺟﻮ ﻋﻮﺭﺗﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﻭﺍﻟﺪ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﮨﭩﺎ ﮐﺮ ﺍﺳﮑﯽ ﺟﮕﮧ ﺍﭘﻨﮯ ﺷﻮﮨﺮ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﺍﭘﻨﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ ﻭﮦ ﻏﻮﺭ ﮐﺮﯾﮟ ﮐﮧ ﯾﮧ ﺣﺮﺍﻡ ﮨﮯ۔

ﻣﺎﻥ ﻟﻮ ﮐﺴﯽ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﺎ ﺷﺎﺩﯼ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﻧﺎﻡ ﻓﺎﻃﻤﮧ ﻣﻘﺼﻮﺩ ﻋﻠﯽ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺷﺎﺩﯼ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﭘﻨﮯ ﺷﻮﮨﺮ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﮐﯿﺴﺎﺗﮫ ﺟﻮﮌ ﮐﺮ ﻓﺎﻃﻤﮧ ﺳﺎﺟﺪ ﺭﮐﮫ ﺩﯾﺎ۔

⭕ ﯾﮧ ﺣﺮﺍﻡ ﮨﮯ۔

ﺍﺱ ﮐﯽ ﺍﺟﺎﺯﺕ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮧ ﮐﻮﺉ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﺎﭖ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﮨﭩﺎ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﺷﻮﮨﺮ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﺍﭘﻨﮯ ﻧﺎﻡ ﮐﮯ ﺁﮔﮯ ﻟﮕﺎﮮٔ۔

ﯾﮧ ﮐﻔﺎﺭ ﮐﺎ ﻃﺮﯾﻘﮧ ﮨﮯ۔

ﮨﻤﯿﮟ ﺍﺳﮑﻮ ﺍﭘﻨﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﺑﭽﻨﺎ ﭼﺎﮨﯿﮯٔ۔

ﺣﻀﻮﺭ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﮐﯽ ﺣﺪﯾﺚ ﮐﯽ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﻣﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﯿﮟ -:

ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻋﻠﯿﮧ ﻭ ﺳﻠﻢ ﮐﺎ ﺍﺭﺷﺎﺩ ﮨﮯ
" ﺟﺲ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻧﺎﻡ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﻭﺍﻟﺪ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﮐﮯ ﻋﻼﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﻧﺎﻡ ﻣﯿﮟ ﮐﺴﯽ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﺟﻮﮌﺍ ( ﺟﻮ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺑﺎﭖ ﻧﮩﯿﮟ ) ﺍﺱ ﭘﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮑﮯ ﻓﺮﺷﺘﻮﮞ ﮐﯽ ﻟﻌﻨﺖ ﮨﮯ " ۔
ﺍﺑﻦ ﻣﺎﺟﮧ ﺣﺪﯾﺚ ﻧﻤﺒﺮ 2599

ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺑﻮ ﺩﺭ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻋﻨﮧ ﻧﮯ ﺳﻨﺎ ﮐﮧ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻋﻠﯿﮧ ﻭ ﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ "

ﮐﺴﯽ ﺁﺩﻣﯽ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻭﺍﻟﺪ ﮐﮯ ﺳﻮﺍ ﺍﭘﻨﯽ ﺷﻨﺎﺧﺖ ﮐﺴﯽ ﺍﻭﺭ ﮐﯿﺴﺎﺗﮫ ﻣﻼﺉ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﻔﺮ ﮐﯿﺎ۔

ﺟﺲ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺷﺨﺺ ﺳﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻧﺎﻡ ﮐﻮ ﺟﻮﮌﺍ ﺟﻮ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺑﺎﭖ ﻧﮩﯿﮟ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﺎ ﭨﮭﮑﺎﻧﺎ ﺟﮩﻨﻢ ﻣﯿﮟ ﺑﻨﺎﻟﮯ " ۔
ﺑﺨﺎﺭﯼ ﺷﺮﯾﻒ 3508

ﺣﻀﺮﺕ ﺳﻌﺪ ﺑﻦ ﺍﺑﯽ ﻭﻗﺎﺱ ﯾﺎ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺑﻮﺑﮑﺮ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮩﻤﺎ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻋﻠﯿﮧ ﻭ ﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ

" ﺟﻮ ﯾﮧ ﮐﮩﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻭﮦ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﮐﺴﯽ ﮐﯿﺴﺎﺗﮫ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﺟﻮﮌﺗﺎ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺍﺳﮑﺎ ﺑﺎﭖ ﻧﮩﯿﮟ ﯾﮧ ﺟﺎﻥ ﮐﺮ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﺳﮑﺎ ﺣﻘﯿﻘﯽ ﺑﺎﭖ ﻧﮩﯿﮟ :
ﺟﻨﺖ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻟﯿﮯٔ ﺣﺮﺍﻡ ﮨﮯ " ۔

ﺑﺨﺎﺭﯼ ﺷﺮﯾﻒ .4072

ﺍﺱ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺍﻭﺭ ﮐﯿﺎ ﻭﺍﺭﻧﻨﮓ ﮨﻮﺳﮑﺘﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﯾﮧ ﮐﻔﺎﺭ ﮐﺎ ﻃﺮﯾﻘﮧ ﮨﮯ۔

ﺣﻀﺮﺍﺕ ﯾﮧ ﮐﻔﺎﺭ ﮐﺎ ﻃﺮﯾﻘﮧ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺁﺝ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺑﮩﻨﯿﮟ ﺑﮍﮮ ﺷﻮﻕ ﺳﮯ ﺍﺳﮑﻮ ﺍﭘﻨﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ۔

ﯾﺎﺩ ﺭﮨﮯ ﺑﺎﭖ ﮐﺎ ﺭﺷﺘﮧ ﮐﺴﯽ ﺑﮭﯽ ﻧﮯٔ ﺭﺷﺘﮯ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﭨﻮﭨﺘﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﻭﻻﺩ ﮐﯽ ﺷﻨﺎﺧﺖ ﺍﻭﺭ ﭘﮩﭽﺎﻥ ﺍﺳﮑﮯ ﻭﺍﻟﺪ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﺳﮯ ﮨﻮﮔﯽ۔

ﺍﮔﺮ ﺷﻮﮨﺮ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﻟﮕﺎﻧﺎ ﺟﺎﺋﺰ ﺍﻭﺭ ﺻﺤﯿﺢ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﻮ ﺣﻀﻮﺭ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﮐﯽ ﺑﯿﻮﯾﻮﮞ ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﺎ ﻧﺎﻡ ﺑﺪﻻ ﮨﻮﺗﺎ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺷﻮﮨﺮ ﺗﻮ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ ﺍﻓﻀﻞ ﺗﺮﯾﻦ ﺷﺨﺺ ﺗﮭﮯ۔

ﺣﻀﺮﺕ خدیجہ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮩﺎ ﮨﻤﯿﺸﮧ خدیجہ ﺑﻨﺖ ﺧﻮﺍﻟﺪ ﺭﮨﯿﮟ۔

ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺎﺋﯿﺸﮧ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮩﺎ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﺗﺎ ﻋﻤﺮ ﻋﺎﺋﯿﺸﮧ ﺻﺪﯾﻘﮧ ﺭﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺑﻮﺑﮑﺮ ﺻﺪﯾﻖ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻋﻨﮧ ﮐﯽ ﺑﯿﭩﯽ ﺗﮭﯿﮟ۔

ﯾﮩﺎﮞ ﺗﮏ ﺣﻀﻮﺭ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﮐﯽ ﻭﮦ ﺑﯿﻮﯾﺎﮞ ﺟﻦ ﮐﮯ ﻭﺍﻟﺪ ﮐﻔﺎﺭ ﺗﮭﮯ ﺁﭖ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻧﮯ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﮐﺎ ﻟﻘﺐ ﺑﮭﯽ ﮐﺒﮭﯽ ﺗﺒﺪﯾﻞ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ۔

ﺣﻀﺮﺕ ﺻﻔﯿﮧ ﺑﻨﺖ ﺣﯿﺎﯾﮧ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻋﻨﮩﺎ ﮐﺎ ﺑﺎﭖ ﯾﮩﻮﺩﯼ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺣﻀﻮﺭ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﮐﺎ ﺟﺎﻧﯽ ﺩﺷﻤﻦ ﺑﮭﯽ ﺗﮭﺎ۔

ﺣﻀﻮﺭ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﯿﻮﯼ ﺣﻀﺮﺕ ﺻﻔﯿﮧ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮩﺎ ﮐﯿﺴﺎﺗﮫ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻟﻘﺐ ﮐﻮ ﺑﺪﻟﻨﮯ ﮐﮯ ﺑﺠﺎﮮٔ ﻭﯾﺴﮯ ﮨﯽ ﺑﺮﻗﺮﺍﺭ ﺭﮐﮭﺎ۔

ﺟﻨﺖ ﻣﯿﮟ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﮐﯽ ﺳﺮﺩﺍﺭ ﺣﻀﺮﺕ ﻓﺎﻃﻤﮧ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻋﻨﮩﺎ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﻓﺎﻃﻤﮧ ﺑﻨﺖ ﻣﺤﻤﺪ ( ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭ ﺳﻠﻢ ) ﺭﮨﯿﮟ۔

ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻠﯽ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻋﻨﮧ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﭘﻨﮯ ﻧﺎﻡ ﮐﻮ ﮐﺒﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﻮﮌﺍ۔

ﮔﺰﺍﺭﺵ ﺟﺲ ﺑﮩﻦ ﻧﮯ ﻏﻠﻄﯽ ﺳﮯ ﺍﯾﺴﺎ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ﯾﺎ ﮐﺴﯽ ﺷﻮﮨﺮ ﻧﮯ ﻻﻋﻠﻤﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺴﺎ ﮐﯿﺎ ﮨﻮ ﻭﮦ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﮐﮯ ﺣﻀﻮﺭ ﺳﭽﯽ ﺗﻮﺑﮧ ﮐﺮﮮ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﻭﺍﻟﺪ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﻭﺍﭘﺲ ﺍﭘﻨﮯ ﻧﺎﻡ ﮐﯿﺴﺎﺗﮫ ﺟﻮﮌﮮ۔

ﮨﻤﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﻋﻤﺎﻝ ﮐﺎ ﺣﺴﺎﺏ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﺰﻭﺟﻞ ﮐﻮ ﺩﯾﻨﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺳﺮﺍﺳﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺭﺳﻮﻝ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻋﻠﯿﮧ ﻭ ﺳﻠﻢ ﮐﯽ ﻧﺎﻓﺮﻣﺎﻧﯽ ﮨﮯ۔

ﺣﻀﺮﺍﺕ ﺍﺱ ﭘﻮﺳﭧ ﮐﻮ ﭘﮍﮬﻨﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺷﯿﺌﺮ ﮐﺮﯾﮟ ﺗﺎﮐﮧ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﮨﺮ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﺗﮏ ﭘﮩﻨﭽﮯ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺍﺱ ﭘﺮ ﻋﻤﻞ ﮐﺮﮮ ﺍﻭﺭ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﻧﯿﺖ ﺧﯿﺮ ﮐﺎ ﺛﻮﺍﺏ ﻣﻠﮯ۔
 
Last edited by a moderator:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
ﺟﻮ ﻋﻮﺭﺗﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﻭﺍﻟﺪ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﮨﭩﺎ ﮐﺮ ﺍﺳﮑﯽ ﺟﮕﮧ ﺍﭘﻨﮯ ﺷﻮﮨﺮ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﺍﭘﻨﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
شادی کے بعد بیوی کے نام کے ساتھ خاوند کا نام لگانا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہمارے ہاں معاشرتی طورپر خواتین شادی سے پہلے خود کو اپنے والد کی طرف منسوب کرتی ہیں:مثلاً:‘‘رقیہ محمود’’ یعنی محمود کی بیٹی رقیہ ،لیکن شادی کے بعد اس نسبت کوترک کرکے اپنے خاوند کی طرف خود کو منسوب کرتی ہیں،مثلاً:‘‘رقیہ عامر’’یعنی عامر کی بیوی ،اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

دور جاہلیت میں لوگ لے پالک کو اپنی طرف منسوب کرلیتے تھےا ور اسی نسبت سے اسے پکارا کرتے تھے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے تنبیہ فرمائی اور ہمیں آگاہ کیا کہ ‘‘ان (منہ بولے بیٹوں)کو ان کے باپوں کے نام سے ہی پکارا کرو،اللہ کے ہاں یہی انصاف کی بات ہے۔ ’’(۳۳/الاحزاب:۵)
اس آیت کا تقاضا ہے کہ انسان مرد ہو یا عورت اس کی نسبت حقیقی باپ کی طرف ہونی چاہیے۔امام بخاری ؒ نے اپنی صحیح میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے کہ لوگوں کو ان کے باپوں کے نام سے پکارا جائے ،پھر اس کے تحت حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے مروی ایک حدیث بیان کی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:‘‘قیامت کے دن ہر غدار کے لئے ایک جھنڈا نصب کیا جائے گا اور کہا جائے گا کہ یہ فلاں بن فلاں کی غداری ہے۔’’(صحیح بخاری ،الادب:۶۱۷۷)
شارح صحیح بخاری ابن بطال کہتے ہیں کہ باپ کے نام سے پکارنا ہی پہچان میں زیادہ واضح اورامتیاز میں زیادہ بلیغ ہے اور قرآن و حدیث کے دلائل بھی اس بات پر دلالت کرتے ہیں۔ (شرح بخاری،ص:۳۵۴،ج ۹)
جب قیامت کے دن باپ کی نسبت ہی تعارف کا ذریعہ ہو گی تو دنیا میں یہ نسبت اختیار کرنے میں کوئی قباحت ہے۔کتب حدیث میں جہاں فلاں بن فلاں کے نام استعمال ہوتے ہیں، اسی طرح عورتوں کے لئے فلاں بنت فلاں کے الفاظ آئے ،حالانکہ ان میں اکثر خواتین شادی شدہ تھیں۔ سیدہ عائشہ ؓ شادی سے پہلے بھی عائشہ بنت ابی بکر ؓ اور شادی کے بعد بھی انہیں اسی نسبت سے پکارا جاتا تھا۔ کسی موقع پر ‘‘عائشہ محمد ’’ نہیں کہاگیا۔ اس لئے ہمارارحجان اسی طرف ہے کہ شادی کے بعد بھی خواتین کو اپنےباپ کی نسبت سے پکاراجانا زیادہ مناسب ہے۔ معاشرتی طورپر نئی نسبت کو اختیار کرنے میں کئی ایک قباحتیں ہیں،مثلاً:بچی جب اٹھارہ سال کی ہوجاتی ہے تو اس کا شناختی کارڈ باپ کے نام سے بنتاہے۔ شادی کے بعد اسے تبدیل کرنے کی زحمت اٹھانی پڑتی ہے اور خاوند کی نسبت سے نیا شناختی کارڈ بنانا پڑتاہے۔ جب میاں بیوی سے کسی وجہ سے علیحدگی ہوجاتی ہے تو مزید تکلیف سے دوچار ہونا پڑتا ہے، کیونکہ قانونی کاغذات میں اس کا نام اپنے شوہر کے نام کے ساتھ منسلک ہوتا ہے،جبکہ شوہراس کے لئے اجنبی ہوچکاہوتاہے۔ جب وہ آگے کسی نئے مرد سے شادی کرتی ہے تو اسےمزید الجھن سے دوچار ہوناپڑے گا،جیسے جیسے اس کی زندگی میں خاوند وفات ،طلاق اورخلع کی وجہ سے تبدیل ہوتے ہیں،اسی طرح ا س کی شناخت بھی تبدیل ہوتی رہے گی۔اگر ہر بار شناختی کارڈ تبدیل کرانا پڑے تو یہ ایک دردسر ہے،دراصل مغربی تہذیب نے ہمارے ذہنوں کو خراب کیا ہے۔اسلام نے تو ہماری شناخت باپ سے کی ہے جو کسی صورت میں تبدیل نہیں ہوتی ۔ یہ نسبت دنیا اور آخرت میں برقرار رہے گی، اس لئے ہمیں چاہیے کہ اسی نسبت کو برقرار رکھیں تا کہ پریشانیوں اور الجھنوں سے محفوظ رہیں،ہماری اسلاف خواتین کوبھی یہی طریقہ تھا اور اب بھی بعض مسلم خواتین اپنے نام کے ساتھ اپنے باپ کا نام لگانا ہی پسند کرتی ہیں۔ اسلامی طرز عمل کو اختیار کرنے میں خیروبرکت ہے۔ (واللہ اعلم )
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

ج2ص466

محدث فتویٰ
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
عورت مرتے وقت جس خاوند کے ساتھ ہوگی جنت میں بھی اسی کے ساتھ ہوگی

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک عورت کی یکے بعد دیگرے کئی شادیاں ہوئی ہوں تو جنت میں کس خاوند کے ساتھ ہو گی۔ اگر کوئی نص ہو تو ذکر فرمائیں؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ابودرداء اور ام درداء رضی اللہ عنہما کا مکالمہ کہیں پڑھا ہے حوالہ اس وقت یاد نہیں ام درداء نے کہا میں آپ کو (ابودرداء کو) نہیں جانتی تھی گھر والوں نے آپ کے ساتھ شادی کر دی اب چاہتی ہوں کہ جنت میں بھی آپ کے ساتھ رہوں تو ابودرداء نے فرمایا پھر میرے بعد کسی کے ساتھ شادی نہ کرنا۔ تو اس حکماً مرفوع روایت سے پتہ چلتا ہے کہ عورت دنیا میں مرتے وقت جس خاوند کے پاس ہو اگر وہ دونوں جنت میں جائیں تو وہ اس کے پاس ہی ہو گی۔(1)
وباللہ التوفیق
(1)
قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم اَلْمَرْأَۃُ لِآخِرِ أَزوَاجِھَا۔ عورت اپنے آخری خاوند کے پاس ہو گی۔ السلسلۃ الصحیحۃ۔ ۱۲۸۱۔ ج۳۔ اسی مقام پر ابو درداء ﷜ والی روایت ہے۔


 
Top