• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تقدیر سے گناہوں کے جواز پر استدلال

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
تقدیر سے گناہوں کے جواز پر استدلال

جس شخص کا یہ خیال ہے کہ تقدیر گناہ گاروں کے لیے حجت ہے تو وہ ان مشرکین کی جنس سے ہے جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
سَيَقُولُ الَّذِينَ أَشْرَ‌كُوا لَوْ شَاءَ اللَّـهُ مَا أَشْرَ‌كْنَا وَلَا آبَاؤُنَا وَلَا حَرَّ‌مْنَا مِن شَيْءٍ ۚ ﴿١٤٨﴾الانعام
''مشرکین کہیں گے کہ اگر اللہ چاہتا تو ہم شرک نہ کرتے اور نہ ہمارے باپ دادا ایسا کرتے اور نہ ہم کسی حلال چیز کو حرام کرتے۔''
اللہ تعالیٰ نے ان کے جواب میں فرمایا:
كَذٰلِكَ كَذَّبَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ حَتّٰي ذَاقُوْا بَاْسَـنَا ۰ۭ قُلْ ہَلْ عِنْدَكُمْ مِّنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوْہُ لَنَا ۰ۭ اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَاِنْ اَنْتُمْ اِلَّا تَخْرُصُوْنَ ۱۴۸ قُلْ فَلِلّٰہِ الْحُجَّۃُ الْبَالِغَۃُ ۰ۚ فَلَوْ شَاۗءَ لَہَدٰىكُمْ اَجْمَعِيْنَ ۱۴۹الانعام
''اسی طرح جو لوگ ان سے پہلے ہو گذرے ہیں، جھٹلاتے رہے ہیں، حتیٰ کہ انہوں نے ہمارے عذاب کا مزا چکھا، اے پیغمبر! ان سے پوچھو کہ تمہارے پاس کوئی سند بھی ہے کہ اس کو ہمارے لیے نکالو۔ تم تو نرے وہموں پر چلتے اور نری اٹکلیں ہی دوڑاتے ہو۔ اے پیغمبر! ان سے کہو کہ اللہ کی حجت کامل ہے۔ وہ چاہتا تو تم سب کو رستہ دکھا دیتا۔''
اگر تقدیر کسی کے لیے حجت ہوسکتی تو اللہ تعالیٰ پیغمبروں کے جھٹلانے والوں کو عذاب نہ دیتا اور قومِ نوح، عاد، ثمود، قومِ لوط اور قومِ فرعون عذاب الٰہی سے ہلاک نہ ہوتیں اور زیادتی کرنے والوں پر حدیں قائم کرنے کا حکم نہ دیا جاتا۔ تقدیر کو حجت وہی بنا سکتا ہے جو اپنی خواہش کا پیرو ہو اور اللہ تعالیٰ کی بتائی ہوئی راہ سے منحرف ہو۔ جو شخص تقدیر کو گناہ گاروں کے لیے حجت سمجھتا ہے، وہ ان سے مذمت اور عذاب کو اٹھا دیتا ہے۔ اس کو چاہیے کہ جب اس پر کوئی شخص تعدی کرے تو وہ اس کی نہ مذمت کرے اور نہ اس کو تکلیف پہنچائے بلکہ اس کے نزدیک لذت دینے والی اور دُکھ پہنچانے والی چیز برابر ہونی چاہیے۔ اس کے ساتھ کوئی برائی کرے یا نیکی، اس کے نزدیک کوئی فرق نہیں اور یہ امر طبعاً، عقلاً اور شرعاً محال ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
اَمْ نَجْعَلُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ كَالْمُفْسِدِيْنَ فِي الْاَرْضِ ۰ۡاَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقِيْنَ كَالْفُجَّارِ ۲۸
ص
''کیا ہم ایمان لانے والوں اور نیک کام کرنے والوں کو ان لوگوں کی طرح کر کے رکھیں گے جو زمین میں فساد کرتے ہیں یا ہم متقین کو گناہ گاروں کی طرح قرار دیں گے۔''
پھر فرمایا:
أَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِينَ كَالْمُجْرِ‌مِينَ ﴿٣٥﴾القلم
''کیا ہم مسلمین کو مجرمین کی طرح رکھیں گے۔''
نیز فرمایا:
اَمْ حَسِبَ الَّذِيْنَ اجْتَرَحُوا السَّيِّاٰتِ اَنْ نَّجْعَلَہُمْ كَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ۰ۙ سَوَاۗءً مَّحْيَاہُمْ وَمَمَاتُہُمْ ۰ۭ سَاۗءَ مَا يَحْكُمُوْنَ ۲۱ۧالجاثیہ
''کیا جن لوگوں نے برے کام کیے ہیں، ان کو ہم ان لوگوں جیسا کر کے رکھیں گے، جو ایمان بھی لائے اور کام بھی اچھے کرتے تھے۔ کیا ان دونوں جماعتوں کا جینا مرنا ایک برابر ہوگا؟ یہ لوگ کیا ہی برے حکم لگایا کرتے ہیں۔''
اور فرمایا:
اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰكُمْ عَبَثًا وَّاَنَّكُمْ اِلَيْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ ۱۱۵المومنون
''کیا تمہارا یہ خیال ہے کہ ہم نے تمہیں بے مقصد پید اکر دیا ہے اور کیا تم ہماری طرف نہ لوٹائے جائو گے۔''
اور فرمایا:
اَيَحْسَبُ الْاِنْسَانُ اَنْ يُّتْرَكَ سُدًى ۳۶ۭالقیامۃ
''کیا انسان یہ خیال کرتا ہے کہ وہ یونہی چھوڑ دیا جائے گا ۔''(یعنی مہمل ہے جو امرونہی کا مکلف نہ ہو۔)
صحیحین میں ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آدم علیہ السلام اور موسیٰ علیہ السلام کی آپس میں بحث ہوئی۔ اس طرح کہ موسیٰ علیہ السلام نے کہا اے آدم! آپ ابوالبشر ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اور آپ میں روح پھونکی۔ اپنے فرشتوں سے آپ کے لیے سجدہ کرایا۔ اس کے باوجود آپ نے اپنے آپ کو اور ہم کو جنت سے نکالا۔ آدم علیہ السلام نے جواب دیا۔ آپ وہ موسیٰ علیہ السلام ہیں، جنہیں اللہ نے صفت ِ کلیمی سے منتخب فرمایا، اپنے ہاتھ سے آپ کے لیے تورات لکھی۔ ذرا یہ تو فرمائیے کہ میری پیدائش سے کتنی مدت پہلے آپ نے یہ آیت لکھی ہوئی دیکھی
وَعَصٰی آدَمُ رَبَّہ فَغَوٰیطہٰ
''آدم نے اپنے پروردگار کی نافرمانی کی پس وہ بھٹک گیا۔''
موسیٰ علیہ السلام نے جواب دیا کہ چالیس سال پہلے فرمایا تو پھر آپ مجھے ایک ایسی بات پر کیوں ملامت کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے میری پیدائش سے چالیس سال پہلے میری تقدیر میں لکھ دی تھی۔ جناب محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ آدم علیہ السلام موسیٰ علیہ السلام پر دلیل میں غالب آگئے
(بخاری، کتاب الانبیاء، باب وفات موسیٰ، رقم: ۳۴۰۹، مسلم ، کتاب القدر، باب حجاج آدم و موسیٰ، رقم: ۲۷۴۲، ابوداؤد، کتاب السنۃ، باب فی القدر، رقم: ۴۷۰۲۔)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اس حدیث کے بارے میں دو گروہ گمراہ ہوئے ہیں۔ ایک گروہ نے اس حدیث سے اس بِنا پر انکار ہی کر دیا کہ ان کے خیال میں یہ حدیث نافرمانیوں کا ارتکاب کرنے والوں کو مذمت اور عذاب سے بربنائے تقدیر بری قرار دیتی ہے۔
دوسرا گروہ پہلے گروہ سے بھی بدتر ہے۔ وہ تقدیر کو حجت قرار دیتے ہیں۔ کبھی یہ کہتے ہیں کہ تقدیر ان اہلِ حقیقت کے لیے حجت ہے جن کو اس کا شہود حاصل ہے یا ان لوگوں کے لیے جن کی رائے یہ ہے کہ وہ فعل پر قادر ہی نہیں ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ آدم علیہ السلام سیدناموسی علیہ السلام پر دلیل میں اس لئے غالب ہوئے کہ وہ ان کے باپ ہیں یا اس لیے کہ وہ توبہ کرچکے تھے یا اس لیے کہ گناہ ایک شریعت کے زمانے میں ہوا تھا اور ملامت دوسری شریعت کے دور میں یا اس لیے کہ یہ دنیا میں ہوگا نہ کہ قیامت میں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ سب تاویلات باطل ہیں۔
حدیث کے معنی یہ ہیں کہ موسیٰ علیہ السلام نے اپنے باپ کو محض اس وجہ سے ملامت کیا کہ شجرہِ ممنوعہ سے اس کے پھل کھانے کی وجہ سے اس کی آئندہ نسلوں کو تکلیفیں پہنچیں۔ اسی لیے موسیٰ علیہ السلام نے آدم علیہ السلام سے کہا کہ آپ نے ہمیں اور اپنے آپ کو کیوں جنت سے نکال دیا۔ یہ ملامت محض اس وجہ سے نہیں کہ آدم علیہ السلام نے گناہ کیا اور توبہ کی کیونکہ موسیٰ علیہ السلام کو معلوم تھا کہ گناہ سے توبہ کرنے والا مستحقِ ملامت نہیں ہوتا۔ اور وہ توبہ بھی کر چکے تھے۔ نیز اگر آدم علیہ السلام کا یہ عقیدہ ہوتا کہ تقدیر کی وجہ سے وہ ملامت سے بری ہوگئے ہیں تو وہ یہ نہ کہتے:
رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَـنَا ۰۫ وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ ۲۳الاعراف
''اے ہمارے پروردگار! ہم نے اپنے نفسوں پر ظلم کیا اور اگر تو مغفرت نہ کرے اور ہم پر رحم نہ کرے تو ہم زیاں کاروں میں سے ہوجائیں گے۔''
مومن کو حکم ہے کہ مصائب آئیں تو صبر کرے اور راضی برضا ہوجائے اور اگر گناہ سرزد ہو جائے تو معافی مانگے توبہ کرے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
فَاصْبِرْ اِنَّ وَعْدَ اللہِ حَقٌّ وَّاسْتَـغْفِرْ لِذَنْۢبِكَالغافر
''صبر کرو اللہ کا وعدہ سچا ہے اور اپنے گناہوں سے معافی مانگ۔''
سو مصائب پر صبر کرنے اور معائب (گناہوں) پر استغفار کرنے کا حکم فرمایا :
نیز اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
مَآ اَصَابَ مِنْ مُّصِيْبَۃٍ اِلَّا بِـاِذْنِ اللہِ ۰ۭ وَمَنْ يُّؤْمِنْۢ بِاللہِ يَہْدِ قَلْبَہ ۰ۭالتغابن
''جو بھی مصیبت آتی ہے تو اللہ کے حکم سے آتی ہے اور جو اللہ پر ایمان لاتا ہے، اللہ اس کے دل کو ہدایت عطا فرماتا ہے۔''
ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ یہ وہ شخص ہوتا ہے، جسے مصیبت پہنچے تو وہ سمجھ لیتا ہے کہ وہ اللہ کی طرف سے ہے تو وہ راضی ہوجاتا ہے اور پیکر تسلیم ورضا بن جاتا ہے۔ چنانچہ جب مومنین پر بیماری، افلاس اور بدحالی وغیرہ کی مصیبت آجائے تو وہ اللہ کے حکم پر صبر کرتے ہیں۔ اگرچہ یہ مصیبت کسی اور کے گناہ کے باعث ہو۔ مثلاً کسی کے باپ نے گناہوں میں مال خرچ کر ڈالا اور اس کی اولاد اس وجہ سے محتاج ہوگئی تو اولاد کو مصیبت پر صبر کرنا چاہیے اور جب وہ اپنے مفادات تلف ہونے پر باپ کو ملامت کرنے لگیں تو ان کے لیے تقدیر کا ذکر کیا جائے گا۔
علماء کا اتفاق ہے کہ صبر واجب ہے اور اس سے بھی اعلیٰ درجہ اللہ کے حکم کے ساتھ راضی ہونا ہے۔ بعض کے نزدیک رضا بھی واجب ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ مستحب ہے اور یہی صحیح ہے اور اس سے بلند تر مقام اس امر کا ہے کہ انسان مصیبت کے موقع پر شکر کرے اور مصیبت کو اس بنا پر نعمت ِ الٰہی سمجھے کہ اس مصیبت کی وجہ سے اس کے گناہ دُور ہوتے ہیں اور اس کے درجے بلند ہوتے ہیں۔ وہ اللہ کی طرف جھکتا ہے۔ اس کے سامنے گڑگڑاتا ہے۔ مخلوقات سے امیدیں منقطع کر کے خالص باری تعالیٰ کی ذات پر توکل کر لیتا ہے۔
رہے گمراہ اور سرکش لوگ وہ تو گناہ کرنے اور اپنی خواہشوں کا اتبا ع کرتے وقت تقدیر کو حجت بناتے ہیں لیکن جب اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے نیکیاں سرزد ہونے لگیں تو وہ انہیں اپنی فضیلت کا نتیجہ سمجھتے ہیں چنانچہ کسی عالم نے کہا کہ تو طاعت کے وقت تو قدری ہے(قدری جویہ کہے ۔ تقدیر الٰہی کا وجود نہیں انسان مختار مطلق ہے۔)
اور نافرمانی کے وقت جبری(جبری وہ ہوتا ہے جو کہے کہ انسان مجبور محض ہے۔)
جو مذہب تیری خواہش کے موافق ہوجائے تو اسی کا ہورہتا ہے، اچھے لوگ اور ہدایت یافتہ لوگ جب نیکی کرتے ہیں تو ان کو یہ شہود ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے یہ نیکی کرائی ہے۔ وہی ہے جس نے ان پر انعام فرمایا۔ ان کو مسلمان بنایا۔ ان کو پابندِ نماز کیا۔ ان کے دل میں تقویٰ ڈالا۔ اس کی توفیق کے سوا کسی کو طاقت و توانائی نہیں ہے۔ ان اہلِ ہدایت و ارشاد کو اللہ تعالیٰ تقدیر کے شہود کے ذریعے سے خود پسندی، احسان جتلانے اور دکھ دینے، جیسی موذی عادتوں سے بچاتا ہے اور جب ایسے لوگ کوئی برا کام کر بیٹھتے ہیں تو اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتے اور اس کی بارگاہ میں اس گناہ سے توبہ کرتے ہیں۔
(جب وہ کسی کے ساتھ نیکی کرتے ہیں تو وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے یہ امر تقدیر میں لکھ رکھا تھا کہ ہم فلاں شخص کے ساتھ یہ نیکی کریں گے، اس وجہ سے ان کے دل میں فخر نہیں پیدا ہوتا اور نہ احسان جتانے کے فعل مذموم کا ارتکاب کرتے ہیں۔)
صحیح بخاری میں سیدنا شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سید الاستغفار یہ ہے کہ بندہ یہ دعا پڑھے۔
اَللّٰھُمَّ اَنْتَ رَبِیْ لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ خَلَقْتَنِیْ وَاَنَا عَبْدُکَ وَاَنَا عَلٰی عَھْدِکَ وَوَعْدِکَ مَا اسْتَطَعْتُ اَعُوْذُبِکَ مِنْ شَرِّمَا صَنَعْتُ اَبُوْئُ لَکَ بِنِعْمَتِکَ عَلَیَّ وَاَبُوْئُ بِذَنْبِیْ فَاغْفِرْلِیْ فَاِنَّہ لَا یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اَنْتَ
(بخاری ، کتاب الدعوات، باب افضل الاستغفار، رقم: ۶۳۰۶، ترمذی، کتاب الدعوات۔مسند احمد (۴؍۲۲۱))
''اے اللہ! تو میرا پروردگار ہے تیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں تو نے مجھے پیدا کیا میں تیرا بندہ ہوں، جہاں تک مجھ میں طاقت ہے میں تیرے عہد و وعدہ پر قائم ہوں، اپنے کیے کی برائی سے میں تیرے پاس پناہ لیتا ہوں، تیرے فضل و کرم سے جو کہ مجھ پر ہے، میں اقرار کرتا ہوں اور اپنے گناہوں کا اعتراف کرتا ہوں تو مجھے معاف کر دے کیونکہ تیرے سوا کوئی نہیں جو گناہوں کو معاف کرے۔ جو شخص یقین کے ساتھ صبح کے وقت یہ دعا پڑھے اور اسی رات مر جائے تو وہ جنت میں داخل ہوگا۔''
اور صحیح حدیث میں ہے کہ سیدناابوذر رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا کہ جناب محمد رسول اللہ انور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:
''اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے۔ اے میرے بندو! میں نے ظلم کو اپنے آپ پر حرام کر دیا اور تمہارے مابین بھی ظلم کی تحریم کر دی ہے۔ اس لیے ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو، اے میرے بندو! دن رات تم سے خطائیں سرزد ہوتی ہیں اور میں سارے گناہ معاف کر دیتا ہوں۔ اور پرواہ نہیں کرتا سو مجھ سے مغفرت طلب کرو میں تمہیں معاف کر دوں۔ اے میرے بندو! تم سب بھوکے ہو۔ سوائے اس کے جسے میں کھانا کھلا دوں۔ اس لیے مجھ سے کھانا مانگو کہ میں تمہیں کھانا دوں۔ اے میرے بندو! تم سب ننگے ہو مگر وہ ننگا نہیں جسے میں کپڑا پہنا دوں، اس لیے مجھ سے ہی کپڑا مانگو کہ میں تم کو کپڑا پہنا دوں۔ اے میرے بندو! تم سب رستہ بھول جانے والے ہو مگر وہ گمراہ نہیں جسے میں رستہ بتا دوں۔ مجھی سے رستہ معلوم کرنے کے لیے دعا کرو۔ میں تمہیں رستہ بتا دوں۔ اے میرے بندو! میرا نقصان کرنا تمہاری پہنچ میں نہیں کہ مجھے نقصان پہنچا سکو اور میری نفع رسانی بھی تمہاری پہنچ میں نہیں کہ مجھے فائدہ پہنچا سکو۔ اے میرے بندو! اگر تمہارا پہلا اور تمہارا آخری فرد اور تمہارا انسان اور جن یعنی ساری کی ساری مخلوقات بدرجہ اتم متقی اور پاکیزہ دل ہوجائے تو اس سے میری بادشاہی میں کوئی زیادتی نہیں ہوسکتی۔ اے میرے بندو! اگر تم سب کے سب انتہا درجے کے بدکردار اور سیاہ کار بن جائو تو میری بادشاہی میں کوئی کمی واقع نہیں ہوسکتی۔ اے میرے بندو! اگر تمہارے پہلے اور تمہارے آخری اور تمہارے انسان اور تمہارے جن سب کے سب کسی ایک میدان میں جمع ہوکر مجھ سے مانگنا شروع کریں اور میں ہر ایک کو اس کی منہ مانگی مرادیں دے دوں تو میرے خزانوں میں اسی طرح کوئی کمی نہیں آسکتی۔ جس طرح ایک سوئی کو سمندر میں ایک دفعہ ڈبو کر نکال لینے سے سمندر کی حیثیت آبی میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ میرے بندو! یہی بات ہے کہ یہ تمہارے ہی اعمال ہیں جن کو میں شمار کرتا ہوں اور پھر پورے طور پر تمہیں لوٹا دیتا ہوں۔ سو جو شخص بھلائی دیکھے وہ اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کرے اور جو شخص اس کے سوا کچھ اور دیکھے تو وہ اپنے آپ ہی کو ملامت کرے۔''
(مسلم کتاب البروالصلۃ باب تحریم الظلم رقم: ۶۵۷۲، ترمذی کتاب صفۃ القیامۃ باب ماجاء فی شدۃ الوعید للمتکبرین، رقم: ۳۴۹۵)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
پس اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ اگر بندہ بھلائی دیکھے تو اللہ تعالیٰ کی حمد کہے اور اگر برائی دیکھے تو اپنے آپ ہی کو ملامت کرے۔
بہت سے لوگ زبانِ ''حقیقت'' سے گفتگو تو کرتے ہیں لیکن اس قدر امتیاز نہیں کر سکتے کہ ایک حقیقت کونیہ قدریہ ہے۔ جس کا تعلق اللہ تعالیٰ کی تخلیق اور مشیئت کے ساتھ ہے اور ایک حقیقت دینیہ امریہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور اس کی محبت سے تعلق رکھتی ہے۔ اسی طرح وہ حقیقت دینیہ جس کا حکم اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبروں کی زبان سے فرمایا ہے، کی پابندی کرنے والے میں اور اس دوسرے شخص کے درمیان فرق روا نہیں رکھتے جو کہ اپنے ذوق ووجدان کی پابندی کرتا اور کتاب و سنت کا لحاظ نہیں کرتا۔یہی حال لفظ شریعت کا ہے، بہت سے لوگ اس پر بحث تو کرتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والی شریعت اور حاکم کے حکم کے مابین فرق نہیں کرتے حالانکہ اوّل الذکر کتاب و سنت کی بتائی ہوئی شریعت ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے بھیجی ہے۔ اس سے کسی مخلوق کو خروج جائز نہیں اور اس سے وہی خروج کرتا ہے جو کافر ہو۔ آخرالذکر وہ ہے جس کی صحت و سقم یقینی امر نہیں ہے کیونکہ حاکم کبھی ٹھیک فیصلہ کرتا ہے کبھی خطا کرتا ہے۔ یہ بھی اس وقت جب کہ وہ عالم و عادل ہو۔

الفرقان بین اولیاء الرحمان و اولیاء الشیطان- امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ
 
Top