تقلید شخصی کی حقیقت آل دیوبند کے اصولوں کی روشنی میں
محمد زبیر صادق آبادی
آل دیوبند کے نزدیک تقلید صرف مسائل اجتہادیہ میں کی جاتی ہے۔ چنانچہ ماسٹر امین اوکاڑوی نے لکھا ہے:
آل دیوبند کے نزدیک چار ائمہ (امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل) کے سوا کسی کی تقلید جائز نہیں اور اس پر اجماع ہے۔"صرف مسائل اجتہادیہ میں تقلید کی جاتی ہے۔" (تجلیات صفدر جلد 3، صفحہ 376)
چنانچہ سعید احمد پالن پوری دیوبندی نے لکھا ہے:
محمد بلال دیوبندی نے اپنے "شیخ الاسلام" ابن ہمام کا قول اس طرح نقل کیا ہے:"چنانچہ چوتھی صدی میں پوری امت مسلمہ نے ان چار ائمہ کی تقلید شخصی پر اجماع کر لیا، اور ان کے علاوہ کی تقلید کو ناجائز قرار دیا۔" (تسہیل ادلہ کاملہ ص 75)
آل دیوبند کے نزدیک ان چار ائمہ میں سے صرف امام ابو حنیفہ کی تقلید کی جائے گی، کیونکہ ان علاقوں کے متعلق جہاں احناف کی کثرت ہو ، سرفراز خان صفدر نے لکھا ہے:"اجماع منعقد ہو گیا اس بات پر کہ چار ائمہ کے علاوہ کسی کی تقلید نہیں ہوگی۔ (فتح القدیر بحوالہ فتح المبین ص 374، جواہر الفقہ ج1 ص122)" (اطمینان القلوب ص16)
یعنی آل دیوبند کے علماء کو بھی اگر کوئی اجتہادی مسئلہ پیش آ جائے تو ان پر بھی جاہل کا اطلاق ہوگا۔"۔۔۔اور ان علاقوں میں احناف اور فقہ حنفی ہی کی کثرت ہے۔ ظاہر امر ہے کہ اگر ان علاقوں میں کوئی ایسا مسئلہ پیش آ جائے جو منصوص نہیں تو حضرت امام ابو حنیفہ ؒ کی فقہ سے اگر کوئی شخص اکڑ کر گردن نکالتا ہے تو دوسرے ائمہ کرام ؒ کی فقہ تو وہاں ہے نہیں، اس کا نتیجہ اس کے سوا اور کیا ہوگا کہ وہ من مانی کاروائی کر کے شریعت کے پٹے ہی کو گردن سے اتار پھینکے گا۔ اور اسلام ہی کو خیرباد کہہ دے گا ایسے شخص کے لیے اگر حضرت امام ابو حنیفہ ؒ کی تقلید واجب نہ ہو تو اس کا اسلام کیسے محفوظ رہے گا۔؟ اور اپنے مقام پر ثابت ہے کہ لاعلمی کے وقت ایسے جاہل کا اہل علم کی طرف رجوع کرنا نص قرآنی سے واجب ہے۔۔" (الکلام المفید ص 177)
سرفراز صفدر نے مزید لکھا ہے:
محمد تقی عثمانی دیوبندی نے لکھا ہے:" اور تقلید شخصی کا یہی معنی ہے کہ ایک ہی ہستی اور ذات کو اپنے پیش نظر رکھ کر اس کی اطاعت اور فرمانبرداری کا دم بھرا جائے۔" (الکلام المفید ص 82)
تقی عثمانی صاحب نے مزید لکھا ہے:"اور دوسری صورت یہ ہے کہ تقلید کے لئے کسی ایک مجتہد عالم کو اختیار کیا جائے، اور ہر ایک مسئلہ میں اسی کا قول اختیار کیا جائے، اسے "تقلید شخصی" کہا جاتا ہے۔" (تقلید کی شرعی حیثیت ص 15)
رشید احمد گنگوہی دیوبندی نے لکھا ہے:"۔۔انہوں نے بعد میں ایک زبردست انتظامی مصلحت کے تحت "تقلید" کی مذکورہ دونوں قسموں میں سے صرف "تقلید شخصی" کو عمل کے لئے اختیار فرما لیا، اور یہ فتویٰ دے دیا کہ اب لوگوں کو صرف "تقلید شخصی" پر عمل کرنا چاہئے۔ اور کبھی کسی امام اور کبھی کسی امام کی تقلید کے بجائے کسی ایک مجتہد کو معین کر کے اسی کے مذہب کی پیروی کرنی چاہئے۔" (تقلید کی شرعی حیثیت ص 61-62)
محمد قاسم نانوتوی دیوبندی نے کہا:"پہلی صورت کو تقلید شخصی کہتے ہیں کہ ایک شخص واحد کا مقلد ہو کر سب ضروریات ِ دین اس سے ہی حل کرے۔" (تالیفات رشیدیہ ص 518)
اوکاڑوی نے کہا:"دوسرے یہ کہ میں مقلد امام ابو حنیفہ کا ہوں، اس لئے میرے مقابلہ میں آپ جو قول بھی بطور معارضہ پیش کریں وہ امام ہی کا ہونا چاہئے۔ یہ بات مجھ پر حجت نہ ہوگی کہ شامی نے یہ لکھا ہے اور صاحب در مختار نے یہ فرمایا ہے، میں ان کا مقلد نہیں۔" (سوانح قاسمی جلد 2 صفحہ 22)
محمد یوسف لدھیانوی دیوبندی نے لکھا ہے :"ہم امام ابو حنیفہ ؒ کے مقلد ہیں نہ کہ شاہ ولی اللہ کے۔" (فتوحات صفدر جلد 2 صفحہ 133)
سرفراز خان صفدر دیوبندی نے لکھا ہے:" پس اس خودرائی کا ایک ہی علاج تھا کہ نفس کو کسی ایک ماہر شریعت کے فتوی پر عمل کرنے کا پابند کیا جائے اور اسی کا نام تقلید شخصی ہے۔" (اختلاف امت اور صراط مستقیم حصہ اول ص 23، دوسرا نسخہ حصہ اول ص 34، اضافہ و ترمیم شدہ جدید ایڈیشن)
مزید دیکھئے، اطمینان القلوب (ص16) اور تجلیات صفدر (2/51)"۔۔اورجو شخص جس امام کا مقلد ہو تو وہ یہ نہ کرے کہ کسی مسئلہ میں کسی ایک امام کی تقلید کرے اور کسی میں کسی کی کیونکہ یہ کاروائی دین کو کھلونا بنا دے گی۔" (الکلام المفید ص 174)
زرولی خان دیوبندی نے لکھا ہے:
محمود حسن صاحب نے بھی لکھا ہے:"ہم ابو حنیفہ کے قول کا اعتبار کریں گے کیونکہ ہم حنفی ہیں نہ کہ یوسفی ۔" (احسن المقال ص 53)
محمود حسن دیوبندی نے دوسری جگہ لکھا ہے:" لیکن سوائے امام اور کسی کے قول سے ہم پر حجت قائم کرنا بعید از عقل ہے۔" (ایضاح الادلہ ص 276، دوسرا نسخہ ص 489)
ماسٹر امین اوکاڑوی نے لکھا ہے :" ہم امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کے مقلد ہیں، تمام حنفیہ کے مقلد نہیں" (ایضاح الادلہ ص 488)
آل دیوبند کے مذکورہ حوالوں سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہو گئی کہ ان کے نزدیک صرف امام ابو حنیفہ کے ان اقوال کو جو انہوں نے اجتہاد کر کے بتائے ہیں، تسلیم کرنا تقلید شخصی ہے اور یہ ان کے نزدیک واجب ہے۔ امام ابو حنیفہ کے علاوہ کسی کے اجتہاد کو تسلیم کرنا تقلید نہیں، کیونکہ اگر امام ابو حنیفہ کے علاوہ کسی دوسرے کے اجتہاد کو تسلیم کرنے کو تقلید کہیں گے تو اجماع کے منکر بن جائیں گے اور اجماع کے متعلق ماسٹر امین اوکاڑوی نے لکھا ہے:"ہم مسائل منصوصہ میں قال رسول اللہ کذا اور مسائل اجتہادیہ میں قال ابو حنیفہ کذا کہتے ہیں۔" (تجلیات صفدر ج 6 صفحہ 153)
جاری ہے۔۔۔"اجماع امت کا مخالف بنص کتاب و سنت دوزخی ہے۔" (تجلیات صفدر جلد 1 صفحہ 287)