• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تقلید شخصی کی حقیقت آل دیوبند کے اصولوں کی روشنی میں

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
تقلید شخصی کی حقیقت آل دیوبند کے اصولوں کی روشنی میں

محمد زبیر صادق آبادی

آل دیوبند کے نزدیک تقلید صرف مسائل اجتہادیہ میں کی جاتی ہے۔ چنانچہ ماسٹر امین اوکاڑوی نے لکھا ہے:
"صرف مسائل اجتہادیہ میں تقلید کی جاتی ہے۔" (تجلیات صفدر جلد 3، صفحہ 376)
آل دیوبند کے نزدیک چار ائمہ (امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل) کے سوا کسی کی تقلید جائز نہیں اور اس پر اجماع ہے۔

چنانچہ سعید احمد پالن پوری دیوبندی نے لکھا ہے:
"چنانچہ چوتھی صدی میں پوری امت مسلمہ نے ان چار ائمہ کی تقلید شخصی پر اجماع کر لیا، اور ان کے علاوہ کی تقلید کو ناجائز قرار دیا۔" (تسہیل ادلہ کاملہ ص 75)
محمد بلال دیوبندی نے اپنے "شیخ الاسلام" ابن ہمام کا قول اس طرح نقل کیا ہے:
"اجماع منعقد ہو گیا اس بات پر کہ چار ائمہ کے علاوہ کسی کی تقلید نہیں ہوگی۔ (فتح القدیر بحوالہ فتح المبین ص 374، جواہر الفقہ ج1 ص122)" (اطمینان القلوب ص16)
آل دیوبند کے نزدیک ان چار ائمہ میں سے صرف امام ابو حنیفہ کی تقلید کی جائے گی، کیونکہ ان علاقوں کے متعلق جہاں احناف کی کثرت ہو ، سرفراز خان صفدر نے لکھا ہے:
"۔۔۔اور ان علاقوں میں احناف اور فقہ حنفی ہی کی کثرت ہے۔ ظاہر امر ہے کہ اگر ان علاقوں میں کوئی ایسا مسئلہ پیش آ جائے جو منصوص نہیں تو حضرت امام ابو حنیفہ ؒ کی فقہ سے اگر کوئی شخص اکڑ کر گردن نکالتا ہے تو دوسرے ائمہ کرام ؒ کی فقہ تو وہاں ہے نہیں، اس کا نتیجہ اس کے سوا اور کیا ہوگا کہ وہ من مانی کاروائی کر کے شریعت کے پٹے ہی کو گردن سے اتار پھینکے گا۔ اور اسلام ہی کو خیرباد کہہ دے گا ایسے شخص کے لیے اگر حضرت امام ابو حنیفہ ؒ کی تقلید واجب نہ ہو تو اس کا اسلام کیسے محفوظ رہے گا۔؟ اور اپنے مقام پر ثابت ہے کہ لاعلمی کے وقت ایسے جاہل کا اہل علم کی طرف رجوع کرنا نص قرآنی سے واجب ہے۔۔" (الکلام المفید ص 177)
یعنی آل دیوبند کے علماء کو بھی اگر کوئی اجتہادی مسئلہ پیش آ جائے تو ان پر بھی جاہل کا اطلاق ہوگا۔

سرفراز صفدر نے مزید لکھا ہے:
" اور تقلید شخصی کا یہی معنی ہے کہ ایک ہی ہستی اور ذات کو اپنے پیش نظر رکھ کر اس کی اطاعت اور فرمانبرداری کا دم بھرا جائے۔" (الکلام المفید ص 82)
محمد تقی عثمانی دیوبندی نے لکھا ہے:
"اور دوسری صورت یہ ہے کہ تقلید کے لئے کسی ایک مجتہد عالم کو اختیار کیا جائے، اور ہر ایک مسئلہ میں اسی کا قول اختیار کیا جائے، اسے "تقلید شخصی" کہا جاتا ہے۔" (تقلید کی شرعی حیثیت ص 15)
تقی عثمانی صاحب نے مزید لکھا ہے:
"۔۔انہوں نے بعد میں ایک زبردست انتظامی مصلحت کے تحت "تقلید" کی مذکورہ دونوں قسموں میں سے صرف "تقلید شخصی" کو عمل کے لئے اختیار فرما لیا، اور یہ فتویٰ دے دیا کہ اب لوگوں کو صرف "تقلید شخصی" پر عمل کرنا چاہئے۔ اور کبھی کسی امام اور کبھی کسی امام کی تقلید کے بجائے کسی ایک مجتہد کو معین کر کے اسی کے مذہب کی پیروی کرنی چاہئے۔" (تقلید کی شرعی حیثیت ص 61-62)
رشید احمد گنگوہی دیوبندی نے لکھا ہے:
"پہلی صورت کو تقلید شخصی کہتے ہیں کہ ایک شخص واحد کا مقلد ہو کر سب ضروریات ِ دین اس سے ہی حل کرے۔" (تالیفات رشیدیہ ص 518)
محمد قاسم نانوتوی دیوبندی نے کہا:
"دوسرے یہ کہ میں مقلد امام ابو حنیفہ کا ہوں، اس لئے میرے مقابلہ میں آپ جو قول بھی بطور معارضہ پیش کریں وہ امام ہی کا ہونا چاہئے۔ یہ بات مجھ پر حجت نہ ہوگی کہ شامی نے یہ لکھا ہے اور صاحب در مختار نے یہ فرمایا ہے، میں ان کا مقلد نہیں۔" (سوانح قاسمی جلد 2 صفحہ 22)
اوکاڑوی نے کہا:
"ہم امام ابو حنیفہ ؒ کے مقلد ہیں نہ کہ شاہ ولی اللہ کے۔" (فتوحات صفدر جلد 2 صفحہ 133)
محمد یوسف لدھیانوی دیوبندی نے لکھا ہے :
" پس اس خودرائی کا ایک ہی علاج تھا کہ نفس کو کسی ایک ماہر شریعت کے فتوی پر عمل کرنے کا پابند کیا جائے اور اسی کا نام تقلید شخصی ہے۔" (اختلاف امت اور صراط مستقیم حصہ اول ص 23، دوسرا نسخہ حصہ اول ص 34، اضافہ و ترمیم شدہ جدید ایڈیشن)
سرفراز خان صفدر دیوبندی نے لکھا ہے:
"۔۔اورجو شخص جس امام کا مقلد ہو تو وہ یہ نہ کرے کہ کسی مسئلہ میں کسی ایک امام کی تقلید کرے اور کسی میں کسی کی کیونکہ یہ کاروائی دین کو کھلونا بنا دے گی۔" (الکلام المفید ص 174)
مزید دیکھئے، اطمینان القلوب (ص16) اور تجلیات صفدر (2/51)

زرولی خان دیوبندی نے لکھا ہے:
"ہم ابو حنیفہ کے قول کا اعتبار کریں گے کیونکہ ہم حنفی ہیں نہ کہ یوسفی ۔" (احسن المقال ص 53)
محمود حسن صاحب نے بھی لکھا ہے:
" لیکن سوائے امام اور کسی کے قول سے ہم پر حجت قائم کرنا بعید از عقل ہے۔" (ایضاح الادلہ ص 276، دوسرا نسخہ ص 489)
محمود حسن دیوبندی نے دوسری جگہ لکھا ہے:
" ہم امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کے مقلد ہیں، تمام حنفیہ کے مقلد نہیں" (ایضاح الادلہ ص 488)
ماسٹر امین اوکاڑوی نے لکھا ہے :
"ہم مسائل منصوصہ میں قال رسول اللہ کذا اور مسائل اجتہادیہ میں قال ابو حنیفہ کذا کہتے ہیں۔" (تجلیات صفدر ج 6 صفحہ 153)
آل دیوبند کے مذکورہ حوالوں سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہو گئی کہ ان کے نزدیک صرف امام ابو حنیفہ کے ان اقوال کو جو انہوں نے اجتہاد کر کے بتائے ہیں، تسلیم کرنا تقلید شخصی ہے اور یہ ان کے نزدیک واجب ہے۔ امام ابو حنیفہ کے علاوہ کسی کے اجتہاد کو تسلیم کرنا تقلید نہیں، کیونکہ اگر امام ابو حنیفہ کے علاوہ کسی دوسرے کے اجتہاد کو تسلیم کرنے کو تقلید کہیں گے تو اجماع کے منکر بن جائیں گے اور اجماع کے متعلق ماسٹر امین اوکاڑوی نے لکھا ہے:
"اجماع امت کا مخالف بنص کتاب و سنت دوزخی ہے۔" (تجلیات صفدر جلد 1 صفحہ 287)
جاری ہے۔۔۔
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
ماسٹر امین اوکاڑوی نے مزید لکھا ہے :
"آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اجماعی فیصلوں سے انحراف کرنے والے کو شیطان اور دوزخی قرار دیا ہے (مشکوٰۃ)" (تجلیات صفدر جلد 6 صفحہ 189)
جبکہ اجتہادات تو آل دیوبند نے بھی کئے ہیں۔

چنانچہ اشرف علی تھانوی دیوبندی نے لکھا ہے :
"اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ چار سو برس کے بعد کسی کو اجتہاد کے قابل دماغ نہیں ملا۔ کیونکہ اس پر کوئی دلیل قائم نہیں۔ علاوہ ازیں یہ مطلقاً صحیح بھی نہیں ہو سکتا کیونکہ ہر زمانہ میں ہزاروں ایسی جزئیات نئی نئی پیش آتی ہیں جن کا کوئی حکم آئمہ مجتہدین سے منقول نہیں اور علماء خود اجتہاد کر کے ان کا جواب بتلاتے ہیں۔ پس اگر اجتہاد کا باب بالکل بند ہو گیا اور اب کسی کا دماغ اجتہاد کے قابل نہیں ہو سکتا تو کیا ایسے نئے نئے مسائل کا جواب شریعت سے نہیں ملے گا؟ یا ان مسائل کے جواب کے لئے کوئی نیا نبی آسمان سے اترے گا۔ اگر یہی بات ہے تو خدا خیر کرے کہیں قؔ ، دؔ، نؔ والے نہ سن لیں ۔ کہیں یہ بات ان کے کانوں میں پڑ گئی تو مسیح موعود کے دلائل نبوت کی فہرست میں ایک اور دلیل کا اضافہ کر لیں گے۔ پھر اس آیت کے کیا معنی ہونگے الیوم اکملت لکم دینکم۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ دین کی تکمیل ہو چکی کہ دروازہ اجتہاد اگر بالکل بند کر دیا جائے تو پھر شریعت کی تکمیل کس طرح مانی جائے گی۔ کیونکہ ظاہر ہے کہ بہت سے مسائل ایسے ہیں کہ ان کا جواب کتب فقہ میں مذکور نہیں۔ نہ آئمہ مجتہدین سے کہیں منقول ہے۔
نئے مسائل کے جوابات:

پچھلے دنوں میں ایک سوال آیا تھا کہ ہوائی جہاز میں نماز ہو سکتی ہے یا نہیں۔ اب بتلائیے کہ اگر اجتہاد بعد چار سو برس کے بالکل جائز نہیں تو اس مسئلے کا شریعت میں کوئی بھی جواب نہیں۔ پہلے زمانہ میں ہوائی جہاز نہ تھا نہ فقہا اس کو جانتے تھے۔ نہ کوئی حکم لکھا۔ اب ہم لوگ خود اجتہاد کرتے ہیں۔ اور ایسے نئے مسائل کا جواب دیتے ہیں۔ ۔۔" (اشرف الجواب ص 280-281، دوسرا نسخہ 275-276 فقرہ نمبر 97)
محمد یوسف لدھیانوی نے شعرانی کے حوالے سے لکھا ہے:
"بہت سے مسائل ایسے ملیں گے اور ہیں جن کا ذکر موجودہ فقہ حنفی کے عظیم الشان ذخیرہ میں نہیں ملتا۔" (قافلہ حق جلد نمبر 4 شمارہ 3 صفحہ 13)
سرفراز صفدر نے بھی لکھا ہے :
"اس کے علاوہ کہیں کہیں میرے اپنے استنباطات اور اجتہادات بھی ہونگے۔" (احسن الکلام 1/63، دوسرا نسخہ 41/1)
اب ظاہر ہے دیوبندی اپنے ان علماء کے اجتہادات کو تسلیم کرنے سے ان کے مقلد تو نہیں بن جائیں گے، کیونکہ ان کے نزدیک چار ائمہ کے سوا کسی کی بھی تقلید اجماع کی مخالفت ہے۔اسی طرح اگر اہل حدیث علماء اجتہاد کریں اور عوام اہل حدیث ان کو تسلیم کر لیں تو یہ بھی کوئی تقلید نہیں ہوگی او رعلماء اہل حدیث کا اجتہاد کرنا کوئی عجیب و غریب بات نہیں، کیونکہ علمائے دیوبند بھی تو اجتہاد کرتے ہیں جیسا کہ اشرف علی تھانوی اور سرفراز صفدر وغیرہما کے حوالے نقل کئے جا چکے ہیں اور بات علمائے دیوبند کے اجتہاد کی چلی ہے تو یہاں ایک دیوبندی لطیفہ بھی سنتے جائیے۔ عبدالرشید دیوبندی نے انور شاہ کشمیری دیوبندی کے متعلق لکھا ہے :
"اس سلسلہ میں ایک لطیفہ یاد آیا جو اس مقام کے مناسب حال ہے اور وہ یہ کہ حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ایک بار مناظرہ میں جو حضرت ممدوح اور ایک اہل حدیث کے مابین ہوا، اہل حدیث عالم نے پوچھا۔ کیا آپ ابو حنیفہ ؒ کے مقلد ہیں۔۔؟ فرمایا نہیں۔ میں خود مجتہد ہوں اور اپنی تحقیق پر عمل کرتا ہوں۔" (بیس بڑے مسلمان ص 383)

تنبیہ: بعض اوقات آل دیوبند ہر ایک کو اجتہاد کرنے کا کہتے ہیں۔ چنانچہ ہدایہ میں لکھا ہوا ہے:
"پھر اگر مصلی پر قبلہ مشتبہ ہو جائے اور حال یہ کہ کوئی موجود بھی نہیں جس سے قبلہ کا رخ پوچھے تو اجتہاد کرے۔" (ہدایہ مع اشرف الہدایہ 1/396 ترجمہ جمیل احمد دیوبندی)
آل دیوبند کے نزدیک قرآن ، حدیث اور اجماع کو ماننا تقلید نہیں، جیسا کہ شروع میں اوکاڑوی کی عبارت سے واضح کیا جا چکا ہے ۔ آل دیوبند کے امام سرفراز صفدر نے لکھا ہے:
"اصول دین۔ عقائد اور منصوص احکام میں نہ تو اجتہاد جائز ہے اور نہ صرف تقلید آئمہ کرام ؒ پر اکتفاء درست ہے۔ تقلید صرف ان مسائل میں جائز ہے جن پر نصوص قرآن کریم، حدیث شریف اور اقوال حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے صراحتہً روشنی نہ پڑتی ہو ایسے مسائل میں اجتہاد کی ضرورت بھی پیش آئے گی اور مجتہد کے اس اجتہاد کو تسلیم کرنا امر مطلوب ہے۔۔۔" (الکلام المفید ص 172)
سرفراز صفدر نے مزید لکھا ہے :
"بفضلہ تعالیٰ یہ بات بیان کی جا چکی ہے کہ عقائد اور اصول دین میں تقلید جائز اور درست نہیں ہے اور نہ ہی نصوص قرآن کریم اور صریح و صحیح احادیث اور اجماع امت کے خلاف مسائل میں تقلید جائز ہے۔ تقلید تو ان پیش آمدہ مسائل میں جائز ہے جو نہ تو قرآن کریم سے صراحتہً ثابت ہوں اور نہ احادیث صحیحہ صریحہ سے اور نہ اقوال حضرات صحابہ کرام سے اور حضرات مقلدین کے نزدیک جس امام کی تقلید کی جاتی ہے وہ ان کو ہرگز معصوم بھی نہیں مانتے بلکہ تمام اصول فقہ کی کتابوں میں صراحت کے ساتھ یہ جملہ مذکور ہے ۔ المجتہد یخطی ویصیب۔" (الکلام المفید ص 235)
آل دیوبند کے "شیخ الاسلام" ابن ہمام نے لکھا ہے:
"مسئلہ: تقلید اس شخص کے قول پر بغیر دلیل کے عمل کو کہتے ہیں جس کا قول (چار) دلائل میں سے نہیں ہے۔ پس نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور اجماع کی طرف رجوع تقلید میں سے نہیں ہے ۔ " (تحریر ابن ہمام فی علم الاصول 3/ 453، دین میں تقلید کا مسئلہ ص 10)
نوٹ: عربی عبارت کا ترجمہ نقل کیا گیا ہے۔

محمد تقی عثمانی دیوبندی کے بقول: "مشہور حنفی عالم عبدالغنی نابلسی" نے لکھا ہے:
"دراصل تقلید کی ضرورت ان مسائل میں پڑتی ہے جن میں علماء کا اختلاف رہا ہو۔" (تقلید کی شرعی حیثیت ص 11)
نیز الیاس فیصل دیوبندی نے لکھا ہے:
"جو مسائل قرآن و سنت و اجماع سے ثابت ہیں۔ ان میں قیاس نہیں چلتا۔" (نماز پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ص 30)
آل دیوبند کے اصول کے مطابق اجماع کو ماننا تقلید نہیں، اس کی مزید وضاحت ماسٹر امین اوکاڑوی کی عبارت سے پیش خدمت ہے۔ ماسٹر امین اوکاڑوی نے لکھا ہے:
"اصحاب صحاح ستہ کا محدث ہونا اجماع امت سے ثابت ہے۔" (تجلیات صفدر 3/380)
اب ظاہر ہے یہ محدثین تو امام ابو حنیفہ کی وفات کے بعد پیدا ہوئے ہیں تو ثابت ہوا کہ اجماع کو ماننا امام ابو حنیفہ کی تقلید نہیں۔ اور اجماع کے متعلق جمیل احمد دیوبندی نے لکھا ہے:
"یہ تمام احادیث اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ یہ امت اجتماعی طور پر خطاء سے معصوم ہے یعنی پوری امت خطاء اور ضلالت پر اتفاق کر لے ایسا نہیں ہو سکتا ہے اور جب ایسا ہے تو اجماع کا ماننا اور اس کا حجت ہونا ثابت ہوگا۔" (غیر مقلدین کیا ہیں؟ 1/385)
ماسٹر امین اوکاڑوی نے کہا:
"اجماع امت ایسی چیز ہے جس کو ہم معصوم مانتے ہیں۔" (فتوحات صفدر جلد 3 صفحہ 273)
امین اوکاڑوی نے لکھا ہے:
"اجماع معصوم ہوتا ہے۔" (تجلیات صفدر 3/402)
جبکہ ائمہ مجتہدین کے اجتہاد سے متعلق سرفراز صفدر کی عبارت گزر چکی ہے کہ ان کے اجتہاد میں خطاء کا احتمال ہوتا ہے اور تقی عثمانی صاحب نے بھی لکھا ہے:
"اور آئمہ مجتہدین کے بارے میں تمام مقلدین کا عقیدہ یہ ہے کہ ان کے ہر اجتہاد میں خطاء کا احتمال ہے۔" (تقلید کی شرعی حیثیت ص 125)
اب یہ بات آل دیوبند کے اصولوں کے مطابق واضح ہو چکی ہے کہ:
قرآن، حدیث اور اجماع کو ماننا تقلید نہیں بلکہ تقلید صرف اور صرف امام ابو حنیفہ کے اس قول کو جس میں خطاء کا احتمال ہو، ماننے کا نام ہے۔
نیز بعض ایسے مسائل کہ جن میں آل دیوبند کے اصولوں کی روشنی میں احادیث موجود ہوں، خواہ متعارض ہی کیوں نہ ہوں، مثلاً رفع الیدین اور قراء ۃ خلف الامام، ان میں بھی تقلید نہیں کی جائے گی،

کیونکہ منیر احمد منور دیوبندی نے لکھا ہے:
"وہ مسائل جن کے ادلہ متعارض ہیں جیسے رفع یدین، قراۃ خلف الامام وغیرہ مسائل میں اثبات و نفی کی حدیثیں موجود ہیں اور محدثین نے کتب حدیث میں دونوں قسم کے باب قائم کر کے دونوں طرح کی حدیثیں نقل کی ہیں" (12 مسائل ص 8-9)
رفع یدین کے مسئلہ کو ماسٹر امین اوکاڑوی نے بھی مسائل منصوصہ متعارضہ میں شمار کیا ہے۔ دیکھئے تجلیات صفدر (6/91)

سرفراز صفدر نے لکھا ہے:
"مسئلہ ترک رفع یدین میں احناف تقلید نہیں کرتے بلکہ اس میں احادیث صحیحہ اور صریحہ کی پیروی کرتے ہیں۔ " (الکلام المفید ص 212)
سرفراز صفدر صاحب نے مزید لکھا ہے :

"حالانکہ ترک رفع یدین بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل ہے اور مسئلہ تقلید کے سلسلہ میں احناف کے عدم رفع یدین کے فعل کو جو بالکل غیر متعلق ہے ذکر کے جناب میاں صاحب ؒ اپنے حواریوں کو یہ باور کرانے کے درپے ہیں کہ احناف ترک رفع یدین میں تقلید کرتے ہیں اور مابدولت حدیث پر عامل ہیں اس سے زیادہ تعصب اور کیا ہوگا؟ یا ہو سکتا ہے؟ و ثانیاً میاں صاحب ؒ کا اخلاقی فریضہ تھا کہ وہ ترک رفع یدین کے منصوص مسئلہ کو تقلید کی بحث میں مثال کے طور پر بھی نہ ذکر کرتے کیونکہ تقلید غیر منصوص مسائل میں ہوتی ہے اور یہ تو صحیح حدیث سے ثابت شدہ مسئلہ ہے۔" (الکلام المفید ص 215)
اشرف علی تھانوی نے کہا:
"باقی رفع الیدین اور آمین یہ تو غیر مقلدیت نہیں۔" (ملفوظات 26/332)
محمد یوسف لدھیانوی دیوبندی نے لکھا ہے :
"رفع یدین اور ترک رفع یدین باجماع امت دونوں جائز ہیں۔" (اختلاف امت اور صراط مستقیم جلد 2 صفحہ 17)
اگرچہ ترک رفع یدین کے بارے میں لدھیانوی کی بات بالکل غلط ہے، لیکن الزامی طور پر ہم یہ کہتے ہیں کہ جب آپ کے نزدیک یہ مسئلہ اجماعی ہے تو اجماع آپ کے نزدیک معصوم ہوتا ہے اور تقلید اجتہادی مسائل میں ہوتی ہے جن میں خطا کا احتمال ہوتا ہے تو اس طرح بھی یہ ثابت ہوا کہ رفع یدین کا مسئلہ تقلید کا مسئلہ نہیں۔

جاری ہے۔۔۔
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
مذکورہ عبارت سے یہ بات ثابت ہو گئی کہ جس مسئلہ کو بعض دیوبندی علماء منصوصہ متعارضہ تسلیم کرتے ہیں اس مسئلہ میں آل دیوبند کے امام سرفراز خان صفدر نے سرے سے تقلید کا انکار کر دیا ہے اور اس مسئلہ میں تقلید کرنے والوں کو احناف سے خارج کر دیا ہے۔ الغرض جو مسئلہ ان کے نزدیک منصوصہ متعارضہ ہو وہ اس میں بھی تقلید نہیں کرتے۔

رفع یدین یا ترک رفع یدین کا مسئلہ آل دیوبند کے اصولوں کی روشنی میں تقلید کا مسئلہ نہیں، اس پر ایک دلیل یہ بھی ہے کہ امین اوکاڑوی دیوبندی نے لکھا ہے:

"امام بخاری ؒ، امام شافعیؒ کے مقلد ہیں۔" (جزءالقراۃ مترجم ص 17)
اور مسئلہ رفع یدین میں بقول اوکاڑوی، امام بخاری رحمہ اللہ کا امام شافعی رحمہ اللہ سے اختلاف ہے۔ دیکھئے جزء رفع الیدین مترجم ص 251۔

قارئین کرام ! اس کی ایک دوسری مثال بھی ملاحظہ فرما لیں:
سرفراز صفدر دیوبندی نے اہل حدیث سے مخاطب ہو کر لکھا ہے:

"اس عبارت سے یہ معلوم ہوا کہ جن آیات اور احادیث کو وہ قرات خلف الامام کےسلسلہ میں بطور دلیل پیش کرتے ہیں وہ نص اور قطعیت کے ساتھ ان کے نزدیک بھی اس دعویٰ پر دال نہیں ہیں ورنہ وہ اس مسئلہ کو اجتہادی مسئلہ کبھی نہ کہتے، کیونکہ اجتہاد وہاں ہوتا ہے جہاں صراحت نہ ہو اور ان حضرات کا اس مسئلہ کو اجتہادی کہنا ہی اس بات کی واضح دلیل ہے کہ صریح، صحیح اور منطوق طور پر ان کے پاس کوئی دلیل موجود نہیں ہے جبھی تو یہ مسئلہ ان کے نزدیک اجتہادی ہے لہٰذا آیات و احادیث کو ترک کرنے کا احناف پر الزام اور طعن بالکل بے جا ہے اس لیے کہ بقول ان حضرات کے احناف نے دلائل اور احادیث کو ترک نہیں کیا۔ بلکہ ان کے اس مفہوم اور معنیٰ کو ترک کیا ہے، جس کو مجوزین حضرات اپنے اجتہادی رنگ میں اپناتے ہیں اور اس کے برعکس احناف نص قطعی اور صریح و صحیح احادیث سے مقتدی کا وظیفہ ترک القرات خلف الامام بتاتے ہیں۔۔" (احسن الکلام ص 598 طبع جدید)
مذکورہ عبارت میں سرفراز صفدر صاحب نے قراءۃ خلف الامام کے مسئلہ کو بھی اجتہادی تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے اور نص قطعی اور صریح و صحیح احادیث پر عمل پیرا ہونے کا دعویٰ کیا ہے اور بڑی صراحت سے یہ بات واضح کر دی گئی ہے کہ آل دیوبند کے نزدیک تقلید صرف امام ابو حنیفہ کے ان اقوال میں کی جاتی ہے ، جن کا تعلق اجتہاد سے ہو۔

محمد تقی عثمانی صاحب نے بھی لکھا ہے :

"قرآن و سنت کے قطعی احکام میں کسی امام کی تقلید ضرور ی نہیں سمجھی گئی۔" (تقلید کی شرعی حیثیت ص 13)
مسئلہ قراءت خلف الامام آل دیوبند کے اصولوں کی روشنی میں تقلید کا مسئلہ نہیں، اس پر ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اوکاڑوی کے بقول امام بخاری رحمہ اللہ، امام شافعی رحمہ اللہ کے مقلد ہیں۔ (جزء القراءۃ مترجم ص 17)
اور مسئلہ قراءت خلف الامام میں بقول اوکاڑوی امام بخاری رحمہ اللہ نے امام شافعی رحمہ اللہ سے اختلاف کیا ہے۔ دیکھئے، جزء القراءۃ (مترجم ص 45)

قارئین کرام! یہ بات بھی آپ کو بتانا ضروری ہے کہ آل دیوبند کے اصولوں کے مطابق کوئی شخص خواہ کتنا ہی معتبر کیوں نہ ہو، اس کی وہ بات جو بسند صحیح ثابت نہ ہو تسلیم نہیں کی جائے گی۔ مثال کے طور پر اگر امام بخاری رحمہ اللہ جیسے محدث کہ جن کے متعلق آل ِ دیوبند کے"حکیم الاسلام" قاری محمد طیب نے لکھا ہے:

"بہرحال امام بخاری ؒ کا حافظہ، ان کا اتقان اور ان کا زہد و تقویٰ یہ گو اظہر من الشمس ہے ۔ ساری دنیا اس کو جانتی ہے۔" (خطبات حکیم الاسلام 6/67)
اگر امام بخاری رحمہ اللہ بھی کسی تابعی کا قول بغیر سند کے نقل کریں تو سرفراز صفدر صاحب اسے یوں ٹھکراتے ہیں:

"امام بخاری ؒ نے اپنے استدلال میں ان کے اثر کی کوئی سند نقل نہیں کی اور بے سند بات حجت نہیں ہو سکتی۔" (احسن الکلام 1/327، دوسرا نسخہ 403/1)
نیز دیکھئے احسن الکلام (149/2، دوسرا نسخہ 163/2)

فقیراللہ دیوبندی نے لکھا ہے:
"اور کوئی بے سند بات قبول کرنے کے قابل نہیں ہوتی" (خاتمۃ الکلام ص 158)
اسی طرح اگر حسن بصری رحمہ اللہ جیسے تابعی کسی ایسے صحابی رضی اللہ عنہ کا قول بیان کریں جن سے ان کی ملاقات ثابت نہ ہو تو سرفراز صفدر اورا ن کے اکابر اسے تسلیم نہیں کرتے۔
تفصیل کے لئے دیکھئے ازالۃ الریب (ص237)، نصب الرایہ (126/2)، البحر الرائق (40/2) ، مستملی (ص 416)، بذل المجہود (329/2) اور الحدیث حضرو نمبر 76 (ص 46-47)

قارئین کرام! بدرالدین عینی احناف کے بہت بڑے امام ہیں۔ سرفراز صاحب نے ان کو "بلند پایہ حنفی فقیہہ، محدث اور شیخ الاسلام" جیسے القاب سے نوازا ہے۔ دیکھئے ازالۃ الریب (ص 408)
اسی بدرالدین عینی نے اپنی کتاب عمدۃ القاری (126/11 ح 2010) میں لکھا ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ نے اپنے لئے گیارہ رکعات تراویح کو اختیار کیا، تو ماسٹرا مین اوکاڑوی نے اس قول کو اور ایک دوسرے قول کو یعنی دونوں کو یہ کہہ کر رد کر دیا:

"یہ دونوں قول بالکل بے سند ہیں۔" (تجلیات صفدر 3/239)
اب میرا آل دیوبند سے یہ سوال ہے کہ کوئی ایک ایسا مسئلہ جس میں:
امام بخاری نے امام شافعی کی تقلید کی ہو اور آل دیوبند نے امام ابو حنیفہ کی تقلید کی ہو ، اور وہ مسئلہ:

  • نہ قرآن میں ہو
  • نہ حدیث میں ہو ، اور
  • نہ اس پر اجماع ہو
  • امام ابو حنیفہ کا صحیح سند کے ساتھ ایسا قول ہو جس کا تعلق اجتہاد سے ہو، اور
  • آل دیوبند کا اس قول پر عمل ہو، اور
  • اہل حدیث نے اس قول کا انکار کیا ہو

پیش فرمائیں، تاکہ پتا تو چلے کہ کس مسئلے کا نام انہوں نے تقلید شخصی رکھا ہوا ہے۔۔!!

میں نے صرف ایک مسئلے کا مطالبہ کیا ہے، جبکہ سرفراز صفدر نے لکھا ہے :
"جن مسائل میں مقلدین نے تقلید کی ہے، وہ بے شمار مسائل ہیں" (الکلام المفید ص 181)
امین اوکاڑوی نے لکھا ہے :"اجتہادی مسائل کی تعداد بارہ لاکھ نوے ہزار ہے" (تجلیات صفدر 5/171)
جاری ہے۔۔۔
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
البتہ اہل حدیث جس تقلید کی مذمت کرتے ہیں اس کی دس مثالیں درج ذیل ہیں:

1۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((ان المتبایعین بالخیار فی بیعھما مالم یتفرقا او یکون البیع خیاراً)) دکاندار اور گاہک کو اپنے سودے میں (واپسی کا ) اختیار ہوتا ہے، جب تک دونوں (بلحاظِ جسم ) جدا نہ ہو جائیں یا (ایک دوسرے کو ) اختیار (دینے) والا سودا ہو۔ (نافع کہتے ہیں کہ ) ابن عمر رضی اللہ عنہ جب کوئی پسندیدہ چیز خریدنا چاہتے تو اپنے (بیچنے والے) ساتھی سے (بلحاظ جسم) جدا ہو جاتے تھے۔ (صحیح البخاری، کتاب البیوع، باب کم یجوز الخیار ح 210، صحیح مسلم : 1531)


حنفی حضرات یہ مسئلہ نہیں مانتے، جبکہ امام شافعی و محدثین کرام ان صحیح احادیث کی وجہ سے اسی مسئلہ کے قائل و فاعل ہیں۔

محمود حسن دیوبندی نے کہا:
"یترجح مذھبہ وقال: الحق والانصاف ان الترجیح للشافعی فی ھذہ المسئلۃ و نحن مقلدون یجب علینا تقلید امامنا ابی حنیفۃ واللہ اعلم" یعنی: اس (امام شافعی) کا مذہب راجح ہے۔ اور (محمود حسن نے ) کہا: حق و انصاف یہ ہے کہ اس مسئلے میں (امام ) شافعی کو ترجیح حاصل ہے اور ہم مقلد ہیں ہم پر ہمارے امام ابو حنیفہ کی تقلید واجب ہے، واللہ اعلم۔ (تقریر ترمذی ص 36، نسخہ اخریٰ ص 39)
غور کریں! کس طرح حق و انصاف چھوڑ کر اپنے مزعوم امام کی تقلید کو سینے سے لگا لیا گیا ہے، یہی محمود حسن صاحب صاف صاف اعلان کرتے ہیں:

"لیکن سوائے امام اور کسی کے قول سے ہم پر حجت قائم کرنا بعید از عقل ہے۔" (ایضاح الادلہ ص 276 سطر 19، مطبوعہ: مطبع قاسمی مدرستہ اسلامیہ دیوبند 1330ھ ، دوسرا نسخہ ص 489)
آل دیوبند کی مستند کتاب "بیس بڑے مسلمان" کے صفحہ 298 پر محمود حسن کی کتابوں میں تیسرے نمبر کے تحت لکھا ہوا ہے:
"نمبر 3 تقریر ترمذی بزبان عربی : یہ تقریر ترمذی شریف کے حاشیہ پر چھپ چکی ہے اور مقبول خاص و عام ہے۔"
اس تقریر کے مرتب کے متعلق سرفراز صفدر صاحب نے لکھا ہے:
"ترمذی کی تقریر کے مرتب حضرت مولانا نظام الدین صاحب کیرانوی ؒ ہیں۔" (الکلام المفید ص 281)

2۔ ایک حدیث جس کے مطابق ایسے مقتدی کہ جن کا امام نفل پڑھ رہا ہو اور مقتدی اس کے پیچھے فرض نماز پڑھیں تو مقتدیوں کی نماز بالکل صحیح ہو جائے گی، حنفیوں کے امام ملا علی قاری سے جب اس کا کوئی مناسب جواب نہ بن سکا تو عاجز آ کر لکھ دیا:

"وعلی قواعد مذھبنا مشکل جداً" یعنی ہمارے مذہب کے اصول پر یہ حدیث بہت مشکل ہے۔ (مرقاۃ 3/282، دوسرا نسخہ 3/526)
3۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ایک عورت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرتی تھی، تو اس کے شوہر نے اس عورت کو قتل کر دیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
"الا اشھدوا ان دمھا ھدر" سن لو! گواہ رہو کہ اس عورت کا خون رائیگاں ہے۔ (سنن ابی داؤد، کتاب الحدود، باب الحکم فیمن سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ح 4361، و سندہ صحیح)
اس حدیث اور دوسرے دلائل سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی کرنے والا واجب القتل ہے۔ یہی مسلک امام شافعی اور محدثین کرام کا ہے۔ جبکہ حنفیوں کے نزدیک شاتم الرسول کا ذمہ باقی رہتا ہے۔ دیکھئے الہدایہ (ج 1 ص 598)

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
واما ابو حنیفۃ واصحابہ فقالوا: لا ینتقض العھد بالسب ولا یقتل الذمی بذلک لکن یعزر علی اظھار ذلک۔۔" الخ ابو حنیفہ اور اس کے اصحاب (شاگردوں و متبعین) نے کہا: (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو) گالی دینے سے معاہدہ (ذمہ ) نہیں ٹوٹتا اور ذمی کو اس وجہ سے قتل نہیں کیا جائے گا، لیکن اگر وہ یہ حرکت علانیہ کرے تو اسے تعزیر لگے گی۔۔الخ (الصارم المسلول بحوالہ رد المختار علی الدر المختار ج 3 ص 305)
اس نازک مسئلے پر ابن نجیم حنفی نے لکھا ہے:

"نعم نفس المومن تمیل الیٰ قول المخالف فی مسئلۃ السب لکن اتباعنا للمذھب واجب جی ہاں، گالی کے مسئلے میں مومن کا دل (ہمارے) مخالف کے قول کی طرف مائل ہے۔ لیکن ہمارے لئے ہمارے مذہب کی اتباع (تقلید ) واجب ہے۔ (البحر الرائق شرح کنز الدقائق ج 5 ص 115)
4۔ حسین احمد مدنی ٹانڈوی لکھتے ہیں:
"ایک واقعہ پیش آیا کہ ایک مرتبی تین عالم (حنفی، شافعی اور حنبلی) مل کر ایک مالکی کے پاس گئے اور پوچھا کہ تم ارسال کیوں کرتے ہو؟ اس نے جواب دیا کہ میں امام مالک کا مقلد ہوں، دلیل ان سے جا کر پوچھو اگر مجھے دلائل معلوم ہوتے تو تقلید کیوں کرتا؟ تو وہ لوگ ساکت ہو گئے۔" (تقریر ترمذی اردو ص 399 مطبوعہ: کتاب خانہ مجیدیہ ملتان)
ارسال: ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھنا
ساکت: خاموش
اب دیکھئے، وہ لوگ ساکت کیوں ہو گئے تھے؟ کیا ہاتھ باندھ کر نماز پڑھنے کی کوئی صحیح حدیث موجود نہیں؟ یقیناً موجود ہے۔ لیکن انہیں پتا تھا کہ اگر اس مقلد کو حدیث منوائی تو خود بھی دوسری احادیث ماننا پڑیں گی۔

5۔ صحیح حدیث میں آیا ہے :
((من ادرک من الصبح رکعۃ قبل ان تطلع الشمس فقد ادرک الصبح)) جس نے صبح کی ایک رکعت، سورج طلوع ہونے سے پہلے پا لی تو اس نے یقیناً صبح ( کی نماز) پا لی۔ (البخاری: 579 و مسلم : 608)
فقہ حنفی اس صحیح حدیث کی مخالف ہے۔ "مفتی" رشید احمد لدھیانوی دیوبندی نے اس مسئلے پر کچھ بحث کر کے لکھا ہے:
"غرضیکہ یہ مسئلہ اب تک تشنہ تحقیق ہے۔ معہٰذا ہمارا فتویٰ اور عمل قول امام رحمہ اللہ تعالیٰ کے مطابق ہی رہے گا اس لئے کہ ہم امام رحمہ اللہ تعالیٰ کے مقلد ہیں اور مقلد کے لئے قول امام حجت ہوتا ہے نہ کہ ادلہ اربعہ کہ ان سے استدلال وظیفہ مجتہد ہے۔ " (ارشاد القاری الی صحیح البخاری ص 412)
اسی حدیث پر بحث کرتے ہوئے تقی عثمانی نے کہا ہے:
"حدیث باب حنفیہ کے بالکل خلاف ہے، مختلف مشائخ حنفیہ نے اس کا جواب دینے میں بڑا زور لگایا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ کوئی شافی جواب نہیں دیا جا سکا، یہی وجہ ہے کہ حنفیہ کے مسلک پر اس حدیث کو مشکلات میں شمار کیا گیا ہے۔" (درس ترمذی 1/ 434)

اس حدیث پر بحث کرتے ہوئے تقی عثمانی صاحب نے مزید کہا ہے:
"اور اس معاملہ میں تفریق بین الفجر و العصر کے بارے میں حنفیہ کے پاس کوئی نص صریح نہیں، صرف قیاس ہے اور وہ بھی مضبوط نہیں۔" (درس ترمذی 1/ 439)
جاری ہے۔۔۔
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
[h=2][/h]6۔ صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ اگر جنازہ مرد کا ہو تو امام میت کے سر کے سامنے کھڑا ہو اور اگر جنازہ عورت کا ہو تو امام میت کے وسط یعنی درمیان میں کھڑا ہو۔ دیکھئے اشرف الہدایہ (2/429)
لیکن قیاس کی وجہ سے حدیث کی ایسی تاویل کر کے جو تاویل خود جمیل احمد سکروڈھوی (مدرس دارلعلوم دیوبند) کے نزدیک معتبر تاویل نہیں، یہ فتویٰ دیا گیا کہ جنازہ خواہ مرد کا ہو یا عورت کا ، امام اس کے سینے کے مقابل کھڑا ہو۔
تفصیل کے لئے دیکھئے اشرف الہدایہ (2/ 429-428)
اور مزید ستم یہ کہ محمد بن "مفتی" محمد ابراہیم صادق آبادی دیوبندی نے اسی قیاسی اور بے دلیل فتوے کو سنت کا نام دے رکھا ہے۔ دیکھئے گلدستہ سنت ( ص 59)

7۔ صحیح حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے درندے کی کھال بچھا کر نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔ (دیکھئے نماز پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم از محمد الیاس فیصل دیوبندی ص 216)
نوٹ: یہ کتاب محمد ادریس انصاری دیوبندی کی پسند فرمودہ ہے۔ دیکھئے ( ص 22)
جبکہ سید مشتاق علی شاہ دیوبندی کی مرتب کردہ کتاب میں کتے کی کھال کے متعلق لکھا ہوا ہے:
"میں کہتا ہوں کہ دباغت کے بعد جب (کتے کی) کھال پاک ہو جاتی ہے تو اس سے جانماز یا ڈول بنانے میں کیا مضائقہ ہے۔؟" (فقہ حنفی پر اعتراضات کے جوابات ص 305)
8: نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سجدہ سہو اس طرح کیا کہ جب نماز پوری کر لی اور صرف سلام باقی رہ گیا تو دو سجدے سہو کے کئے اور پھر سلام پھیرا۔
دیکھئے صحیح بخاری مع تفہیم البخاری (1/575، 578۔۔کتاب السہو)
لیکن آل دیوبند کے نزدیک سجدہ سہو کا طریقہ یہ ہے کہ تشہد پڑھنے کے بعد ایک طرف سلام پھیرا جائے، پھر دو سجدے کئے جائیں۔ اس کے بعد تشہد اور آگے کا درود اور دعا پڑھی جائے، پھر سلام پھیرا جائے۔
دیکھئے تفہیم البخاری (1/577) اور بہشتی زیور (حصہ دوم ص 33)


9۔ سیدنا ابو مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ " بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتے کی قیمت سے منع فرمایا ہے۔" (صحیح بخاری جلد 1 ص 298 کتاب البیوع ، صحیح مسلم جلد 2 صفحہ 19)
لیکن اس کے برعکس فتاویٰ عالمگیری میں لکھا ہوا ہے کہ
" اذا ذبح کلبہ و باع لحمہ جاز۔"
جب اپنا کتا ذبح کرے اور اس کا گوشت بیچے جائز ہے۔ (فتاویٰ عالمگیری جلد 3 صفحہ 115، اور فقہ حنفی پر اعتراضات کے جوابات ص 372)
10۔۔ فقہ حنفی کے اصول کی انتہائی معتبر کتابوں میں لکھا ہوا ہے:
"مصراۃ والی حدیث صرف حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہے اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ چونکہ غیر فقیہ ہیں اس لیے ان کی یہ روایت قیاس کے خلاف ہونے کی وجہ سے متروک ہے۔"
دیکھئے، خزائن السنن جلد دوم (ص 107، از عبدالقدوس قارن دیوبندی) نور الانوار (ص 183) اور اصول شاشی (ص 75)
تنبیہ: بعض دیوبندیوں نے اس بیہودہ اصول کو رد بھی کیا ہوا ہے۔
دیکھئے، خزائن السنن (جلد دوم ص 107، تالیف عبدالقدوس قارن دیوبندی)

جاری ہے۔۔۔
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
اور اسی بیہودہ قسم کی تقلید کی اہل حدیث مذمت کرتے ہیں تو انہیں غیر مقلدین کہہ کر طعنہ دیا جاتا ہے، جبکہ خود سرفراز صفدر نے لکھا ہے:
"ان آیات کریمات میں جس تقلید کی تردید کی گئی ہے وہ ایسی تقلید ہے جو اللہ تعالیٰ اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مد مقابل ہو ۔ ایسی تقلید کے حرام ، شرک، مذموم اور قبیح ہونے میں کیا شبہ ہے؟ اور اہل اسلام اور اہل علم میں کون ایسی تقلید کو جائز قرار دیتا ہے؟ اور ایسے مقلدوں کو کون مسلمان کہتا اور حق پر سمجھتا ہے۔" (الکلام المفید ص 298)
سرفراز صفدر صاحب نے مزید لکھا ہے :
"کوئی بدبخت اور ضدی مقلد دل میں یہ ٹھان لے کہ میرے امام کے قول کے خلاف اگر قرآن و حدیث سے بھی کوئی دلیل قائم ہو جائے تو میں اپنے مذہب کو نہیں چھوڑوں گا تو وہ مشرک ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ لا شک فیہ۔ لیکن ہوش و حواس صحیح رکھتے ہوئے کون نامراد قصداً و عملاً ایسا کرتا ہے یا کرے گا؟" (الکلام المفید ص 310)
قارئین کرام! ایسی کئی مثالیں اوپر بیان کی جا چکی ہیں کہ اعتراف کے باوجود حق کو ٹھکرایا گیا ہے اور نور الانوار اور اصول شاشی کے حوالے سے نقل کیا جا چکا ہے کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کو بعض حنفیوں نے محض قیاس کی وجہ سے انہیں غیر فقیہہ کہہ کر رد کر دیا ہے اور ان حنفیوں کی اس حرکت کو بعض آل دیوبند نے بھی غلط سمجھتے ہوئے رد کر دیا ہے۔ اس کے باوجود یہ کہنا کہ کون ایسی تقلید کرتا ہے؟ بڑا عجیب و غریب ہے۔ اشرف علی تھانوی کے بقول یہ گندی روش اکثر مقلدین میں پائی جاتی ہے۔ چنانچہ تھانوی صاحب نے کہا:

"اکثر مقلدین عوام بلکہ خواص اس قدر جامد ہوتے ہیں کہ اگر قول مجتہد کے خلاف کوئی آیت یا حدیث کان میں پڑتی ہے ان کے قلب میں انشراح و انبساط نہیں رہتا بلکہ اول استنکار قلب میں پیدا ہوتا ہے پھر تاویل کی فکر ہوتی ہے، خواہ کتنی ہی بعید ہو اور خواہ دوسری دلیل قوی اس کے معارض ہو بلکہ مجتہد کی دلیل اس مسئلے میں بجز قیاس کے کچھ بھی نہ ہو بلکہ خود اپنے دل میں اس تاویل کی وقعت نہ ہو مگر نصرتِ مذہب کے لئے تاویل ضروری سمجھتے ہیں۔ دل یہ نہیں مانتا کہ قول مجتہد کو چھوڑ کر حدیث صحیح صریح پر عمل کر لیں۔ بعض سنن مختلف فیہا مثلاً آمین بالجہر وغیرہ پر حرب و ضرب کی نوبت آ جاتی ہے اور قرون ثلاثہ میں اس کا شیوع بھی نہ ہوا تھا بلکہ کیفما اتفق جس سے چاہا مسئلہ دریافت کر لیا ۔ اگرچہ اس امر پر اجماع نقل کیا گیا ہے کہ مذاہب اربعہ کو چھوڑ کر مذہب خامس مستحدث کرنا جائز نہیں یعنی جو مسئلہ چاروں مذہبوں کے خلاف ہو اس پر عمل جائز نہیں کہ حق دائر و منحصرا ن چار میں ہے ۔ مگراس پر بھی کوئی دلیل نہیں۔ کیونکہ اہل ظاہر ہر زمانہ میں رہے اور یہ بھی نہیں کہ سب اہل ہویٰ ہوں ۔ وہ اس اتفاق سے علیحدہ رہے۔ دوسرے اگر اجماع ثابت بھی ہو جاوے مگر تقلید شخصی پر تو کبھی اجماع بھی نہیں ہوا۔ " (تذکرۃ الرشید 1/131)
اور ایسے مقلدین کے متعلق خود حنفیوں کے علامہ صدرالدین علی بن علی بن ابی العز الحنفی نے لکھا ہے:
"فانہ متی اعتقد انہ یجب علی الناس اتباع واحد بعینہ من ھذہ الائمۃ رضی اللہ عنھم اجمعین دون الآخرین فقد جعلہ بمنزلۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم، وذلک کفر۔"
پس جب وہ یہ عقیدہ رکھے کہ لوگوں پر ان اماموں میں سے ایک امام کی اتباع واجب ہے، اللہ ان سب سے راضی ہو، تو اس شخص نے اس امام کو نبی کے قائم مقام بنا دیا ہے اور یہ کفر ہے۔ (التنبیہ علی مشکلات الھدایۃ 2/542)
تقلید شخصی کے علاوہ تقلید کا لفظ بعض علماء مختلف معنوں میں بھی استعمال کرتے ہیں، مثلاً امام شافعی اور علامہ طحاوی کے نزدیک حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلیم کرنا تقلید کہلاتا ہے۔ ابو جعفر الطحاوی ، حدیث ماننے کو تقلید کہتے ہیں، مثلاً وہ فرماتے ہیں:
"فذھب قوم الیٰ ھذا الحدیث فقلدوہ"
پس ایک قوم اس (مرفوع) حدیث کی طرف گئی ہے، پس انہوں نے اس (حدیث) کی تقلید کی ہے۔ (شرح معانی الآثار 3/4 کتاب البیوع باب بیع الشعیر بالحنطۃ متفاضلاً)
گزشتہ صفحات پر حنفیوں و مالکیوں و شافعیوں و حنبلیوں کی کتابوں سے مفصل نقل کیا گیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بات (یعنی حدیث) ماننا تقلید نہیں ہے۔ لہٰذا علامہ طحاوی کا حدیث پر تقلید کا لفظ استعمال کرنا غلط ہے۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے بارے میں یہ ثابت شدہ حقیقت ہے کہ وہ حدیثیں مانتے تھے تو کیا اب یہ کہنا صحیح ہوگا کہ امام ابو حنیفہ مجتہد نہیں بلکہ مقلد تھے؟ جب وہ حدیثیں مان کر مقلد نہیں بنتے تو دوسرا آدمی حدیث مان کر کس طرح مقلد ہو سکتا ہے؟

امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"ولا یقلد احد دون رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم "
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی کی تقلید نہیں کرنی چاہئے۔ (مختصر المزنی، باب القضاء بحوالہ الرد علی من اخلد الی الارض للسیوطی ص 138)
یہاں پر تقلید کا لفظ بطور مجاز استعمال کیا گیا ہے۔ امام شافعی کے قول کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی شخص کی بات بلا دلیل قبول نہیں کرنی چاہئے۔

حافظ خطیب بغدادی اور حافظ ابن عبدالبر کے نزدیک عامی کا مفتی سے سوال کرنا تقلید کہلاتا ہے۔ تفصیل کے لئے دیکھئے، دین میں تقلید کا مسئلہ (ص44)
تو عرض ہے کہ آل دیوبند کے نزدیک بھی یہ دونوں قسم کے اقوال تقلید نہیں کہلاتے کیونکہ تمام ثقہ ائمہ مجتہدین بھی حدیث کو مانتے تھے اور آل دیوبند کا اعلان ہے کہ مجتہد مقلد نہیں ہوتا بلکہ تقلید تو جاہل کے لئے ہوتی ہے۔
سرفراز صاحب نے لکھا ہے :
"اور تقلید جاہل ہی کے لئے ہے۔" (الکلام المفید ص 234)
"(۔۔۔۔میرے نسخہ میں یہاں ایک لائن پڑھنے میں نہیں آ رہی ہے۔۔۔راجا) ۔۔۔۔اجتہاد واجب ، تقلید حرام ہے۔" (تجلیات صفدر 3/407)
اور اسی طرح عامی کا مفتی سے سوال کرنا بھی تقلید نہیں کہلاتا، ورنہ پھر تمام دیوبندی اپنے علماء کے مقلد بن جائیں گے۔ جبکہ آل دیوبند کا اعلان ہے کہ چار ائمہ کے سوا کسی کی تقلید جائز نہیں بلکہ اجماع کی مخالفت ہے۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ مذکورہ علماء کا تقلید کے لفظ کو استعمال کرنا مجازی طور پر ہے اور اسی طرح اگر کوئی مفتی اپنے اجتہاد سے کوئی مسئلہ بتائے، جیسا کہ تھانوی صاحب بتایا کرتے تھے تو اسے تسلیم کرنا بھی تقلید نہیں اور آل دیوبند کی انتہائی معتبر کتاب فتاویٰ عالمگیری میں لکھا ہوا ہے:

"اجمع الفقہاء علی ان المفتی یجب ان یکون من اھل الاجتھاد"
یعنی فقہاء کا اجماع ہے کہ مفتی کا اہل اجتہاد میں سے ہونا واجب ہے۔ (فتاویٰ عالمگیری جلد 3 باب 1 ص 308)
تنبیہ: دین میں تقلید کے مسئلہ کی حقیقت کو جاننے کے لئے حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ کی کتاب "دین میں تقلید کا مسئلہ" اور شمارہ الحدیث نمبر 75-76 میں تقلید کے متعلق شائع ہونے والے مضمون کا مطالعہ انتہائی مفیدہے۔
آل دیوبند کی کئی عبارتوں سے واضح کیا گیا ہے کہ تقلید شخصی خاص امام ابو حنیفہ کی رائے کو اپنے اوپر نافذ کرنے کا نام ہے۔ جبکہ خود الیاس گھمن کے رسالہ "قافلہ حق " میں ایک حدیث لکھی ہوئی ہے جس سے ان کے اس دعویٰ کی تردید ہوتی ہے۔ چنانچہ آل دیوبند کے "شہید اور مفتی" محمد یوسف نے لکھا ہے:

"حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث ہے۔۔ جس سے اس مشکلات کے حل کرنے میں پوری رہنمائی ملتی ہے۔
عن علی قال قلت یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان نزل بنا امر لیس فیہ بیان امر ولا نھی فما تامرنی قال شاوروا فیہ الفقھاء والعابدین ولا تمضوا فیہ رای خاصۃ۔ رواہ الطبرانی فی الاوسط ورجالہ موثقون من اھل الصحیح۔
ترجمہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں:"میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! اگر کوئی ایسا مسئلہ پیش آ جائے جس میں آپ کا کوئی بیان کرنے یا نہ کرنے کا نہ ملتا ہو تو آپ کیا ارشاد فرماتے ہیں کہ کیا کیا جائے؟" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "فقہاء و عابدین سے مشورہ کر کے فیصلہ کیا کریں شخصی رائے کو دخل نہ دیں۔" (مجمع الزوائد ج 1 ص 178)
اس حدیث کریم سے جہاں اجتماعی شورائی فیصلوں کی نہ صرف اہمیت بلکہ فرضیت ثابت ہوئی ساتھ ساتھ اس جماعت کی اہلیت کے شرائط بھی معلوم ہو گئے:
1۔ ایسے اہل علم ہوں کہ تفقہ فی الدین ان کو حاصل ہو۔
2۔ صالح و متقی اور عبادت گزار ہوں۔ " (قافلہ حق : جلد نمبر 4 شمارہ 3، ص 11)
اس حدیث میں شخصی رائے کو اختیار کرنے سے منع کر کے مشورے کا حکم دیا گیا ہے اور مشورہ لینا کوئی تقلید نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ( وشاورھم فی الامر) کے تحت مشورہ لینے کا حکم دیا ہے تو کیا نعوذباللہ، اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تقلید کا حکم دیا تھا؟ جبکہ تھانوی صاحب نے کہا:
"پس شاورھم فی الامر سے صرف یہ ثابت ہوا کہ حکام رعایا سے مشورہ کرلیا کریں یہ کہاں ثابت ہوا کہ ان کے مشورہ پر عمل بھی ضرور کیا کریں۔ " (اشرف الجواب ص 316 ، دوسرا نسخہ ص 309)
تھانوی صاحب نے مزید کہا:
"اور ہمارے پاس حدیث بریرہ رضی اللہ عنہ سے دلیل موجود ہے کہ کسی کے مشورہ پر عمل کرنا ضروری نہیں، خواہ نبی ہی کا مشورہ کیوں نہ ہو۔" (اشرف الجواب ص 16، دوسرا نسخہ ص 309)
تنبیہ ضروری: تقلید کے بارے میں آل دیوبند کے علماء کا سخت اختلاف ہے ، بعض کے نزدیک امام ابو حنیفہ کی تقلید واجب ہے ا ور تارک تقلید کا اسلام محفوظ نہیں رہ سکتا۔ جیسا کہ شروع میں سرفراز صفدر کا قول نقل کیا جا چکا ہے۔ جبکہ دوسری طرف ان کے "حکیم الامت" تھانوی نے کہا:
"ترک تقلید پر مواخذہ تو قیامت میں نہ ہوگا۔" (ملفوظات ج 26 ص 447)
دوسری جگہ فرمایا:
"ترک تقلید پر قیامت میں مواخذہ ہوگا تو نہ کیونکہ کسی قطعی کی مخالفت نہیں۔"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ختم شد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Top