• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تقلید کی حقیقت

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
Last edited by a moderator:

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
سبب تألیف

میں نے حنفی گھرانے میں آنکھ کھولی اور حنفی گھرانے ہی میں پرورش پائی حنفی معاشرے میں زندگی گزاری اور اسی طرح حنفی جامعہ سے تعلیم حاصل کی اسی لئے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی تقلید کرتا آیا، کیونکہ میرا سب سے بڑا محسن جو میرا سبب وجود ہے وہ حنفی ہے۔ اس کے بعد میرے اساتذہ کرام جنہوں نے مجھے علم و دانائی سکھائی وہ بھی سب حنفی تھے اسی وجہ سے حنفی مذہب میرے دل و دماغ میں راسخ ہو گیا ۔ اسی لئے لاشعوری طور پر میں وہی کہتا جو صاحب ردالمختار نے کہا ہے:
(الحق ما نحن علیہ و الباطل ما علیہ خصومنا)
ترجمہ : حق وہی ہے جس پرہم ہیں اور جس پر ہمارے مخالفین ہیں وہ باطل ہے۔
اسی لئے کبھی تحقیق کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی کہ کہاں تک ہم حق پر ہیں کیونکہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی عظمت اور عمدہ فقاہت اور تقدم کو دیکھ کر ہر حدیث جو ان کے مذہب کے خلاف ہوتی ، ہیچ معلوم ہوتی اور جسم میں کانٹوں کی طرح چبھتی اور پھر اس سے راہِ فرار حاصل کرنے کیلئے جو اصول و طریقے سیکھے تھے سارے اس پر منطبق کر دیتے تھے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
شمع شعور کب روشن ہوئی؟
جب بندہ ناچیز چوتھی کلاس میں تھا اور فقہ کی کتاب شرح الوقایہ پڑھ رہا تھا اور استاذ محترم عبدالقیم حفظہ اللہ اذان کے مسئلہ پر بحث فرما رہے تھے ،
اس دوران ایک طالب علم نے ان سے یہ سوال کیا کہ بلال رضی اللہ عنہ تہجد کیلئے اذان دیتے تھے ، اس پر ہمارا عمل کیوں نہیں ہے۔ تو اس پر استاذ کا جواب یہ تھا کہ یہ ہمارا مذہب نہیں ہے،
امام شافعی کا مذہب ہے ۔
اس دن سے میرے دل میں یہ کھٹکا ہوا کہ آخر ایسا کیوں ہے کہ آپ ﷺ کے سامنے بلال رضی اللہ عنہ کا اذان دینا صحیح ہے اور ہمارے نزدیک صحیح نہیں ہے
اور دوسری بات میں نے یہ دیکھی کہ ہر مسئلہ پر امام شافعی رحمہ اللہ کے مذہب کو غلط ثابت کیا جاتا تھا اورامام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے مذہب کو صحیح۔
ان تمام حالتوں کو دیکھ کر دل میں یہ بات آئی کہ ضرور کوئی حقیقت چھپائی جا رہی ہے ۔ اس بات کا یقین اس وقت ہوا جب میرے والد محترم نے مجھے بار بار تلقین کی کہ باہر کی کتابیں بالکل نہ پڑھنا فقط درسی کتب پر توجہ دینا لیکن بتقاضہ (بنو آدم حریص فیما منع) ہر مسئلہ کیلئے چاروں مذہبوں کی کتابیں دیکھنا ضروری سمجھتا تھا اور جب ان کتابوں کی طرف رجوع کرتا تو حقیقت کچھ اور پاتا۔
بہر حال یہ انسان پر بہت مشکل ہے کہ وہ اس مذہب کو چھوڑ دے جو اس کے باپ دادا اور اساتذہ کرام کا مذہب ہو لیکن کیا یہ عذر اللہ کو قبول ہے اور کیا یہ سبب نجات بن سکتا ہے؟ اور جب کوئی باطل عقیدہ والا ہمارے سامنے یہ عذر رکھ دے تو کیا ہم اسے یہ کہہ کر قبول کر لیتے ہیں کہ تم اپنے محسنین کے مذہب پر باقی رہو، قائم رہو کیونکہ یہ بزرگ تمہارے خیر خواہ ہیں ؟ ہرگز نہیں اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر ہم اپنے لئے اس کو کیسے دلیل بنا لیتے ہیں ؟ کیا ہمیں اس آیت سے ڈر نہیں لگتا :
اِذْ تَبَرَّأَ الَّذِیْنَ اتُّبِعُوْا مِنَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْا وَرَأَ وُاالْعَذَابَ وَتَقَطَّعَتْ بِہِمُ الأَسْبَابُ وَقَالَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْا لَوْ أَنَّ لَنَا کَرَّۃً فَنَتَبَرَّأُ مِنْہُمْ کَمَا تَبَرَّؤُا مِنَّا۔ (سورۃ البقرۃ ۱۶۶)
ترجمہ : ’’جس وقت پیشوا لوگ اپنے تابعداروں سے بیزار ہو جائیں گے اور عذاب کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے اور کل رشتہ ناطے ٹوٹ جائیں گے اور تابعدار لوگ کہنے لگیں گے کاش ہم دنیا کی طرف دوبارہ جائیں تو ہم بھی ان سے ایسے ہی بیزار ہو جائیں جیسے یہ ہم سے ہیں‘‘۔
بہر حال پھر رفتہ رفتہ حدیث کی طرف میرا رجحان بڑھتا گیا اور مذہب حدیث کو سینے سے لگا لیا لیکن اس کی سزا مجھے میرے اساتذہ نے یہ دی کہ مجھے بخاری شریف اور دیگر حدیث کے دروس سے نکال دیا اور بغیر سند کے جامعہ سے رخصت کر دیا ۔
ھذا جزاء من اتخذ الحدیث مذھبہ
یہ ہے تقلید اور مقلدین کی حقیقت جس میں ہم عرصہ دراز سے غوطے لگا رہے تھے ۔آیئے اب اس کتاب کو پڑھ کر کچھ اپنے بارے میں بھی فیصلہ کیجئے۔
واﷲ یھدی الی سواء السبیل ۔
محمود الحسن الجمیری
سابق طالب علم جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
پیش لفظ

إن الحمد ﷲ نحمدہ ونستعینہ ونستغفرہ ونعوذ باللہ من شرور أنفسنا ومن سیئات أعمالنا۔من یھدہ اللہ فلا مضل لہ ومن یضللہ فلا ھادی لہ۔ وأشھد ان لا إلہ إلا اللہ وحدہ لا شریک لہ وأشھد أن محمدا عبدہ ورسولہ وصلی اللہ علی إمام الأنبیاء والمرسلین وعلی ألہ وصحبہ أجمعین وعلی من تبعھم بإحسان ودعا بدعوتھم إلی یوم الدین۔
أما بعد‘ فقد قال اللہ تعالی فی کتابہ الکریم :
’’اتَّبِعُوْا مَا أنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِنْ رَّبِّکُمْ وَلا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِہٖ أوْلِیَائَ قَلِیْلا ً مَّا تَذکَّرُوْنَ‘‘
(الأعراف۔۳)
وقال رسول اﷲ ﷺ:( ترکتکم علی بیضاء لیلھا کنھارھا لا یزیغ عنھا بعدی الا ھالک (۱)
کچھ عرصہ پہلے ایک کتاب بنام ( ترویحات خمسہ) جو کہ حکیم میر محمد ربانی صاحب کی تصنیف ہے اور اسی طرح ایک اور کتاب (أغراض الجلالین)
رواہ احمد وابن ماجہ۔ و قال رسول اﷲ ﷺ ترکت فیکم أمرین لن تضلو ما تمسکتم بھما کتاب اﷲ و سنتۃ نبیہ ۔ رواہ مالک رحمہ اللہ فی الموطأ باب ۴۶/۳ والحاکم فی المستدرک والتبریزي فی المشکوۃ حدیث ۱۸۶ والسیوطی فی الجامع الصغیر حدیث رقم: ۲۹۳۷، سلسلہ ’’الأحادیث الصحیحۃ‘‘ ۱۷۶۱
جس کے مصنف عبدالغنی جاجروی صاحب ہیں، نظر سے گزری۔
ان دونوں کتابوں کے مصنفین نے اپنے اپنے غالیانہ اور متعصبانہ انداز سے تقلید کو ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی ہے بلکہ یہاں تک کہ لکھ دیا ہے کہ پہلا غیر مقلد بن کر ظاہر ہونے والا شخص شیطان تھا۔
اور یہی دعویٰ مفتی محمد ولی درویش صاحب (استاذ جامعۃ العلوم الإسلامیۃ بنوری ٹائون ۔کراچی)نے اپنی کتاب ( کیا نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ پڑھنا سنت ہے) میں کیا ہے ۔بلکہ اس سے بھی بڑھ کر مزے کی بات یہ ہے کہ میر محمد صاحب نے موسیٰ علیہ السلام کو خضر علیہ السلام کا مقلد ثابت کیا ہے۔
اس سے پہلے کہ میں اس بحث کو لے کر آگے چلوں قارئین کرام کو یہ بتا دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ
تقلید کسے کہتے ہیں اور اس کی کیا تعریف ہے اور کیا اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں تقلید کی اجازت دی ہے یا نہیں ۔اور اسی طرح علمائے أحناف اور غیر أحناف سلف کے نزدیک تقلید کی کیا حیثیت تھی اور اس کے بارے میں ان کی کیا رائے تھی ۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
’’ تقلید‘‘علمائے أحناف کے نزدیک

فإن التقلید ھو الأخذ بقول الغیر بغیر معرفۃ دلیلہ۔(عقود رسم المفتی ص ۲۳ للعلامۃ الشامي الحنفی)
کسی دوسرے کے قول کو بغیر کسی دلیل کے لینے کو تقلید کہتے ہیں ۔
التقلید العمل بقول الغیر من غیر حجۃ ۔( مسلم الثبوت ج۲ ص۔۳۵۰)۔ تقلید دوسرے کے قول پر بغیر کسی دلیل کے عمل کرنے کا نام ہے۔
التقلید اتباع الانسان غیرہ فیما یقول أو یفعل معتقدا الحقیقۃ فیہ من غیر نظر و تأمل فی الدلیل کأن ھذٰا المتبع جعل قول الغیر أوفعلہ قلادۃ فی عنقہ من غیر مطالبۃ الدلیل ( حاشیہ حسامی۔۲)

تقلید یہ ہے کہ کسی دوسرے انسان کے قول یا فعل کی پیروی کرنا بغیر کسی سوچ و سمجھ کے اس اعتقاد کے ساتھ کہ جو کچھ وہ کہتا ہے یا کرتا ہے وہی حق ہے۔ گویا کہ اس مقلد نے اس دوسرے شخص کے قول و فعل کا طوق اپنی گردن میں پہن لیا ہے اب وہ کسی دلیل کا مطالبہ نہیں کر سکتا ہے۔
قال ابن الھمام التقلیدالعمل بقول من لیس قولہ احدی الحجج بلا حجۃ ۔(تیسیرا التحریر)
ابن الھمام حنفی کا کہنا ہے کہ تقلید یہ ہے کہ عمل کرنا کسی کے قول پر جس کے قول میں کسی قسم کی کوئی حجت نہیں ہے بلکہ بلا حجت ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
ابطال تقلید کے لئے قرآنی دلیل

اب آئیے ہم یہی بات قرآن کریم کی روشنی میں پرکھتے ہیں کیا ہمارے لئے بغیر کسی دلیل کے کسی کی پیروی کرنا جائز ہے یا نہیں ۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:۔
قُلْ ھَاتُوا بُرْھَانَکُمْ إنْ کُنْتُمْ صَادِقِینِ (البقرۃ۔۱۱۱) آپ کہہ دیجئے کہ اگر تم ( اپنے عمل و اعتقاد میں ) سچے ہو تو دلیل لائو۔
لیکن ہر زمانے میں یہی دستور رہا کہ جب بھی مقلد سے اس کے عمل پر دلیل طلب کی جاتی ہے تو وہ بجائے دلیل لانے کے اپنے آباء و اجداد اور بڑوں کا عمل دکھاتا کہ یہ کام کرنے والے جتنے بزرگ ہیں کیا وہ سب گمراہ تھے؟ ہم تو انہی کی پیروی کریں گے۔
بالکل یہی بات قرآن کریم سے سنئیے۔
1۔قال تعالیٰ:
’’ وَإذَا قِیلَ لَھُمْ اتَّبِعُوْا مَا أنْزَلَ اللّٰہ قَالُوا بَلْ نَتَّبِعُ مَاوَجَدْنَا عَلَیہِ أبَائَنَا۔‘‘ (سورۃلقمان۔۲۱)
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اتاری ہوئی کتاب کی تابعداری کرو تو جواب دیتے ہیں کہ ہم تو اس طریقے کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادوں کو پایا۔
بالکل اسی طرح آج بھی کسی ـحنفی سے جب کہا جاتا ہے کہ بھائی اللہ تعالیٰ کا قرآن اور رسول اللہ ﷺکی حدیث تو یوں کہتی ہے تو وہ جواب میں یہ کہتا ہے کہ ہم نے اپنے باپ دادوں کو ھدایہ پر عمل کرتے ہوئے پایا ہے اور ہمارے لئے یہی کافی ہے۔
یہی حال قرآن کریم کی زبان سے سنیئے۔
2۔وقال تعالیٰ:
’’ وَاِذَا قِیْلَ لَھُمْ تَعَالَوْا اِلٰی مَا اَنْزَلَ اللّٰہُ وَاِلٰی الرَّسُوْلِ قَالُوْ حَسْبُنَا مَا وَجَدْنَا عَلَیْہِ أبَائَ نَا ‘‘(سورۃ المائدۃ ۱۰۴ )
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو احکام نازل فرمائے ہیں ان کی طرف اور رسول کی طرف رجوع کرو تو وہ کہتے ہیں کہ ہم کو وہی کافی ہے جس پر ہم نے اپنے باپ دادوں کو پایا ہے اب مقلدین کچھ بھی کہہ لیں لیکن اللہ تعالیٰ کا فیصلہ یہی ہے۔
3۔قال تعالیٰ:
’’ فَلا وَرَبِّکَ لاَ یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَھُمْ ثُمَّ لاَ یَجِدُوْا فِي أنْفُسِھِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلَّمُوْا تَسْلِیمًا ‘‘ (النساء ۶۵)
قسم ہے تیرے پروردگار کی یہ ایماندار نہیںہو سکتے جب تک تمام آپس کے اختلاف میں آپ کو حاکم نہ مان لیں پھرجو فیصلے آپ ان میں کر دیں ان سے اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی نہ پائیں اور فرمانبرداری کے ساتھ قبول کر لیں ۔
یہ آیت بتا رہی ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے رسول ﷺ کے فیصلہ سے راضی نہیں ہیں وہ لوگ کبھی مومن نہیں بن سکتے۔
ان آیات کی روشنی میں آپ خود فیصلہ کریں کہ اب بھی تقلید کے ناجائز ہونے میں کوئی شک ہے۔کیا اللہ تعالیٰ بغیر دلیل کے دین پر عمل کرنے کا حکم دے رہا ہے یا دلیل کے ساتھ۔
اللہ تعالیٰ کا تو فرمان ہے۔
’’ وَلاَ تَقْفُ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ ‘‘(سورۃ الاسراء ۳۶) ترجمہ:پیچھے مت پڑو اس چیز کے جس کا تمہیں کوئی علم نہیں ہے۔
کیا یہ ساری آیتیں تقلید کا حکم دے رہی ہیں یا تقلید سے منع کر رہی ہیں ۔ اب شاید کوئی یہ کہہ دے کہ بھائی ہم تو اپنے علماء کی پیروی کرتے ہیں وہ تو علماء ہی جانتے ہیں
اور اللہ تعالیٰ کا فرمان بھی ہے۔
’’ فَاسْئَلُوْا أھْلَ الذِّکْرِ إِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ ‘‘ (النحل ۴۳) ترجمہ: اہل علم سے پوچھو اگر تم نہیں جانتے ہو۔
اور علمائے اہل حدیث کے عوام بھی ان سے پوچھتے ہیں اور ان کی تقلید کرتے ہیں ہم پر کیا طعن؟
تو جواب اس کا یہ ہے :۔
اگر کسی سے کچھ پوچھنے کا نام تقلید ہے تو پھر آج دنیا میں کوئی بھی حنفی نہیں ہے کیونکہ اما م ابو حنیفہ رحمہ اللہ تو دنیا میں نہیں رہے اور ہر حنفی اپنے اپنے علاقہ کے مفتی یا مسجد کے امام صاحب سے مسئلہ پوچھتا ہے تو پھر وہ اس مفتی یا اما م مسجد کا مقلد بن گیا نہ کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا۔
اگر کوئی یہ کہے کہ بھائی ہمارا مفتی یا امام اس کو امام ابو حنیفہ ؒ کا مسئلہ ہی بتائے گا ۔ اسی لئے وہ اس مفتی یا امام مسجد کا مقلد نہیں ہو گا۔ بلکہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا ہی مقلد رہے گا۔
تو عرض یہ ہے کہ اسی طرح جب کوئی ہم سے مسئلہ پوچھے گا تو ہم اسے رسول اللہ ﷺ کی حدیث بتائیں گے اس لئے وہ ہمارا مقلد نہیں ہو گا بلکہ رسول اللہ ﷺ کا متبع ہو گا۔
دوسری بات یہ کہ یہ آیت تو خود ہمارے لئے دلیل ہے نہ کہ مقلدین کے لئے کیونکہ اگر کسی کو علم نہ ہو تو وہ پوچھتا ہے پوچھنے کے بعد اسے علم ہو جاتا ہے کیونکہ آیت میں ہے ’’ إِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ ‘‘ اگر تم کو علم نہ ہو تو پوچھواور یہ اس لئے تا کہ عمل علم کے مطابق ہو سکے اوریہ علم اس کے عمل پر دلیل ہو۔حالانکہ تقلید نام ہے بغیر کسی دلیل اور حجت کے اس پر عمل کرنا۔جیسے پیچھے حوالہ جات کے ساتھ تعریف گزر چکی ہے۔
اسی طرح امام شافعی رحمہ اللہ ( فقہ الأکبر) میں تقلید کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
ومعني التقلید قبول قول من لا یدری ما قال من أین قال وذلک لا یکون علما (الفقہ الأکبر ص۷)
تقلید کا معنی یہ ہے کہ اس شخص کا قول قبول کر لینا جس کو یہ معلوم نہیں کہ اس نے کیا کہا اور کہاں سے کہا اور یہ چیز علم نہیں ہے۔
تیسری بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اہل علم سے ان کی اپنی رائے پوچھنے کو نہیں کہا بلکہ اللہ اور اس کے رسول اللہ ﷺ کا فرمان کیا ہے؟ پوچھنے کو کہا ہے
اور آج کل کوئی بھی حنفی عالم قرآن و حدیث سے فتویٰ نہیں دیتا بلکہ فتاوی شامی‘فتاوی دیوبند ‘ھدایہ وغیرہ سے فتوے دیتا ہے حالانکہ مستفتی لکھتا ہے قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب دیجئے۔بھلا وہ لوگ قرآن و حدیث کی روشنی میں کیسے جواب دے سکتے ہیں جو قرآن کے علاوہ کسی اور کتاب کو قرآن کا درجہ دیتے ہوں
حنفیوں کا کہنا ہے:۔
ِإن الھدایۃ کالقرآن قد نسخت من قبلھا فی الشرع من کتب (مقدمہ الھدایۃ ج۲)
ترجمہ: بالیقین ھدایہ قرآن کریم کی مانند ہے اور اس کے سوا شریعت کی تمام کتابیں منسوخ ہو چکی ہیں ۔
یعنی حنفیوں کا یہ کہنا ہے کہ جس طرح قرآن سے پہلے تمام کتابیں منسوخ ہو چکی ہیں اور ان پر عمل کرنے والا گمراہ اور ملت اسلام سے خارج ہو گا اسی طرح ھدایہ سے پہلے جو کتب تصنیف ہوئی ہیں وہ سب کی سب منسوخ ہیں چاہے وہ بخاری شریف ہو یا مسلم شریف۔ امام مالک رحمہ اللہ کی موطا ہو یا امام شافعی رحمہ اللہ کی کتاب الأم ہو یا امام احمد رحمہ اللہ کی مسند احمد ہو۔ ان کتابوں پر عمل کرنے والا گویا کہ منسوخ شدہ کتب پر عمل کرنے والا ہے اور دین اسلام سے نکلا ہوا ہے۔
یہی بات شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ صاحب کی زبان سے سنیے۔
وتری العامۃ سیما الیوم فی کل قطر یتقیدون بمذھب من مذاھب المتقدمین یرون خروج الانسان من مذھب من قلدہ ولو فی مسألۃ کالخروج من الملۃ کأنہ نبي بعث الیہ وافترضت طاعتہ علیہ وکان أوائل الأمۃ قبل المائۃ الرابعۃ غیر متقیدین بمذھب واحد۔ (التفھیمات الالھیۃ ج۱ص ۲۰۶، حجۃ اللہ البالغۃ ج۱ص ۴۴۵)۔
ترجمہ : عام لوگ خاص طور پر آج کل ہر جگہ میں متقدمین کے کسی ایک مذہب کے پابند نظر آئیں گے۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ کسی انسان کا اپنا مذہب جس کی وہ تقلید کرتا ہے اس سے نکلنا‘چاہے کسی بھی ایک مسئلہ میں کیوں نہ ہو گویا کہ دین اسلام سے نکل جانا ہے وہ اپنے امام کو گویا ایک بھیجا ہوا نبی سمجھتے ہیں اور اس امام کی اطاعت اس پر فرض کی گئی گردانتے ہیں ۔ حالانکہ امت کے پہلے لوگ چوتھی صدی سے پہلے کسی ایک مذہب کے پابند نہیں تھے۔
اس سے بڑھ کر اور سنیے ‘حنفی حضرات ہر اس شخص پر لعنت بھیجتے ہیں جو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے قول کو رد کر دے۔
فلعنۃ ربنا أعداد رمل علی من رد قول أبی حنیفۃ رحمہ اللہ (رد المحتار ج۱ص۶۳)
ترجمہ : اس شخص پر ریت کے ذروں کے برابر ہمارے رب کی طرف سے لعنت ہو جو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے قول کو رد کر دے۔
آئیے اب میں آپ کو بتاتا ہوں کہ کن کن حضرات نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے قول کو رد کیا ہے جن پر احناف رات دن لعنت بھیجنے پر تلے ہوئے ہیں۔

امام مالک رحمہ اللہ (۱۷۹ھ)،امام محمد (۱۸۹ھ)، امام شافعی رحمہ اللہ (۲۰۴ھ)، اما م ابو یوسف رحمہ اللہ (۲۰۸ھ)، امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ (۲۴۱ھ)، امام بخاری رحمہ اللہ (۲۵۶ھ)، امام نسائی (۳۰۳ھ)، امام طحاوی رحمہ اللہ (۳۲۱ھ)، امام ابن حزم (۴۵۶ھ)، امام ابن عبد البر رحمہ اللہ (۴۶۳ھ)، امام نووی رحمہ اللہ (۶۷۶ھ)، امام ابن تیمیۃ رحمہ اللہ (۷۲۸ھ)۔
اور بھی بے شمار حضرات نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے کئی اقوال کو رد کیا ہے قارئین کرام سلف صالحین پر لعنت بھیجنا ہی احناف کی بزرگی اور دینداری ہے۔
جب کہ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے کہ جب میری امت میں پندرہ خصلتیں پائی جائیں گی تو ان پر اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہو گا اور ان میں سے ایک (اذا لعن آخر ھذہ الأمۃ أولھا) (ترمذی رقم حدیث۲۲۱۰، ابن ماجہ) جب اس امت کے آخر میں آنے والے لوگ پہلوں پر لعنت بھیجنے لگیں گے۔
ایک دوسری جگہ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے:
(ومن لعن مؤمنا فھو کقتلہ) (بخاری کتاب الأدب باب ۴۴ رقم الحدیث۶۰۴۷) جس نے کسی مسلمان پر لعنت بھیجی گویا کہ اس نے اس کو قتل کر دیا۔
بلکہ دنیا میں سب سے بدبخت لوگ وہ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام کی زبانی لعنت کی ۔ جیسا کہ بنی اسرائیل پر اللہ تعالیٰ نے دائود و عیسیٰ علیہما السلام کی زبانی لعنت کی ہے جس کو قرآن کریم میں ذکر کیا ہے:
’’ لُعِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ عَلٰی لِسَانِ دَاوُدَ وَعِیْسَی بْنِ مَرْیَمَ ‘‘
اور یہ شرف صرف اور صرف احناف کو حاصل ہے کیوں کہ چاروں مذہبوں میں سے صرف احناف ہی حلالہ کے قائل ہیں جس کے کرنے اور کروانے والے پر نبی کریم ﷺ نے لعنت بھیجی ہے۔
عن ابن مسعود رضی اﷲ عنہ قال ( لعن رسول اﷲ ﷺ المحلل والمحلل لہ (رواہ الترمذی وقال حدیث حسن صحیح رقم الحدیث۱۱۲۰، وأبوداود حدیث ۲۰۷۶ وابن ماجہ والدارمي) عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حلالہ کرنے اور کروانے والے دونوں پر لعنت بھیجی ہے۔
احناف کی بددعا تو یقینا آج تک کسی کو نہیں لگی ہو گی لیکن نبی ﷺ کی بدعا رد نہیں ہوتی ہے تا قیامت تک لگتی رہے گی۔
قارئین کرام! یہ ہے مقلدین کا اماموں کو ماننے کا طریقہ اور احترام کا طریقہ۔ چلیں آگے چلتے ہیں ۔
اگر تھوڑی دیر کے لئے مان بھی لیا جائے کہ:
’’ فَاسْئَلُوا أھْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ ‘‘
سے تقلید ثابت ہوتی ہے تو آئیے دیکھیں اس آیت کے بارے میں حضرات احناف کا کیا خیال ہے۔
’’ فَاِنْ کُنْت فِیْ شَکِّ مِّمَّا أنْزَلْنَا اِلَیْکَ فَاسْئَلِ الَّذِیْنَ یَقُرَأوْنَ الْکِتَابَ مِنْ قَبْلِکَ‘‘ (یونس۔۹۴)
ترجمہ: اے محمد ﷺ جو کچھ ہم نے آپ کی طرف نازل کیا ہے اس میں اگر آپ کو کسی قسم کا شک ہو تو آپ پوچھ لیجئے ان لوگوں سے جو کتاب ( تورات اور انجیل ) پڑھتے ہیں۔
کیا یہاں پر بھی احناف یہی کہیں گے کہ نبی کریم ﷺ کو (نعوذ باللہ) اللہ تعالیٰ نے یہود و نصریٰ کی تقلید کا حکم کیا ہے اگر ایسا نہیں بلکہ یقینا ایسا نہیں تو
(فاسئل) کا معنی احناف (تقلید) نہیں لے سکتے اور ہر گز نہیں لے سکیں گے۔ القرآن یفسر بعضہ بعضا قرآن کی آیت ایک دوسرے کی تفسیر کرتی ہے تو پتہ چلا کہ یہاں پر (فَاسْئَلُوْا) کا معنی تحقیق ہے نہ کہ تقلید جس کا دعویٰ احناف اور دیگر مقلدین بھی کرتے ہیں ۔
اور یہ معنی ہم نے اپنی طرف سے نہیں گھڑا۔آیت کا ماقبل بتا رہا ہے۔
’’ وَمَا أرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ ِالاَّ رِجَالاً نُوْحِیْ اِلَیْھِمْ فَاسْئَلُوْا أھْلَ الذِّکْرِ اِنْ ُکُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ‘‘ (النحل ۴۳)
ترجمہ: آپ سے پہلے ہم نے مردوں کے علاوہ کسی کو نبی بنا کر نہیںبھیجا جن کی طرف ہم وحی بھیجتے رہیں پس اس چیز کا اگر تم کو علم نہ ہو تو اہل علم سے پوچھ لو یعنی تحقیق کر لو۔
اور اگر یہاں پر (فاسئلوا) سے مراد تقلید لیں گے تو پھر معنی یہ بنے گا کہ اگر محمد ﷺ کے نبی ہونے میں تمہیں کوئی شک ہو تو اہل علم یعنی اہل کتاب یہود و نصاریٰ کی تقلیدکرو۔حالانکہ آیت کا یہ مطلب کسی بھی مفسر نے نہیں لیا ۔ جبکہ موسیٰ علیہ السلام کو بھی قرآن کریم کی موجودگی میں تورات پر عمل کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ اللھم اھد قومي فانھم لا یعلمون۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
إبطال (ردِّ) تقلید کے لئے اقوال صحابہ

اب آئیے دیکھتے ہیں تقلید کے بارے میں صحابہ کرام کی کیا رائے تھی۔
وعن ابن مسعود رضی اللہ عنہ قال لا یقلد احدکم دینہ رجلا ان آمن آمن وإن کفر کفر۔ (ارشاد الفحول ج ۲ص ۳۵۷ اعلام الموقعین ج۲ ص۱۶۸)
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا ہے کہ تم میں سے کوئی آدمی اپنے دین کے بارے میں کسی آدمی کی تقلید نہ کرے کہ جب وہ کسی بات پر ایمان لاتا ہے تو وہ بھی ایمان لاتا ہے جب وہ کسی بات کا انکار کرتا ہے تو وہ بھی انکار کرتا ہے۔
وقال ابن عباس رضی اﷲ عنہ یوشک ان تنزل علیکم حجارۃ من السماء أقول! قال رسول اللہ ﷺ وتقولون قال ابو بکر و عمر (زادالمعاد ج ۲، ص۱۹۵)
ترجمہ: عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے قریب ہے کہ تم لوگوں پر آسمان سے پتھر برسیں میں تم سے کہتا ہوں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اور تم مجھے کہتے ہو ابو بکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایاہے۔
آج بھی بالکل یہی حال مقلدین کا ہے جب امام سے کوئی بات منقول نہ ہو تو وہ اس بات کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے اسی طرح کوئی بات اگر حدیث کے خلاف امام سے منقول ہو پھر اسے چھوڑنے کیلئے تیار نہیں ہوتے۔ الٹا کہتے ہیں کیا ہمارے امام کو یہ حدیث نہیں ملی تھی ؟ جب انہوں نے اس حدیث کو نہیں لیا تو ہم کیوں لیں۔ بالفاظ دیگر یعنی ہمارے امام سے نبی کریم ﷺ کی کوئی بھی حدیث نہیں چھوٹی ۔
اب ان سے کوئی پوچھے کیا آپ کے امام نے ایک لاکھ چوبیس ہزار کم و بیش تمام صحابہ کرام سے ملاقات کی تھی؟ اگر کہتے ہو کہ کی تھی تو یہ جھوٹ روزِ روشن کی طرح واضح ہے اور اگر کہتے ہو کہ نہیں کی تھی اور یقینا نہیں کی تھی تو پھر یہ ماننا پڑے گا کہ تمام حدیثیں بھی ان کو نہیں ملی تھیں
تو پھر سوال یہ ہو گا کہ جو حدیثیں آپ کے مسلک کے خلاف امام مالک رحمہ اللہ کے پاس ہیں یا امام شافعی رحمہ اللہ کے پاس ہیں یا امام احمد ابن حنبل رحمہ اللہ کے پاس ہیں یا امام بخاری رحمہ اللہ اور امام مسلم رحمہ اللہ اور دیگر محدثین کے پاس ہیں انہوں نے اپنی طرف سے گھڑی ہیں یا ان کو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے کوئی دشمنی تھی یا ان کے خلاف اپنا مذہب اور جماعت تیار کرنا مقصود تھا حالانکہ صحیح حدیث کے مقابلہ میں کسی صحابی کا فعل بھی حجت نہیں ہے۔
یہ بات ہم اپنے طرف سے نہیں کر رہے ہیں بلکہ جلیل القدر صحابی کی زبان سے سنیں۔ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کسی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں۔
قال عبد اﷲ بن عمر: أرأیت ان کان أبی نھیٰ عنھا وصنعھا رسول اللہ ﷺ أأمرأبي یتبع أم أمر رسول ﷺ فقال الرجل بل أمر رسول اللہ فقال: لقد صنعھا رسول ﷺ (رواہ الترمذی فی باب ماجاء فی التمتع رقم الحدیث ۸۲۴)
ترجمہ : تومجھے بتا اگر اس کام سے میرے والد نے منع کیا ہو اور اللہ کے رسول ﷺ نے اس کو کیا ہو بتا کس کی اتباع کرنی چاہئے؟ میرے والد کی یا اللہ کے رسول ﷺ کی ؟ تو اس نے کہا بیشک اللہ کے رسول ﷺکی اتباع کی جائے گی۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تو پھر سن لے اللہ کے رسول ﷺ نے اس کام کو کیا ہے۔
اس سے یہ بات صاف ظاہر ہے کہ صحابہ کرام کے نزدیک بھی نبی کریم ﷺ کی حدیث کے سامنے کسی صحابی کا قول یا فعل حجت نہیں تھا۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
تقلید کے رَدّ میں احناف کے اقوال

صاحب مسلم الثبوت لکھتے ہیں:
إذلا واجب إلا ما أوجبہ اللہ ولم یوجب علی أحد أن یتمذھب بمذھب رجل من الائمۃ (مسلم الثبوت ص ۳۵۵ ج۲) أجمع المحققون علی منع العوام من تقلید الصحابۃ ( مسلم الثبوت ج۲ ص ۲۵۶)
ترجمہ: عمل وہی واجب ہے جو اللہ نے واجب کیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے کسی پر بھی کسی امام کے مذہب کو واجب نہیں کیا۔
محققین کا اس بات پر اجماع ہے کہ عوام کے لئے صحابہ کی تقلید کرنا جائز نہیں ہے۔
ان کی تقسیم عجیب ہے امام کی تقلید کو تو اپنے اوپر فرض سمجھتے ہیں اور جو صحابہ کرام علم اور تقویٰ میں امام سے کئی گنا بڑھ کر ہیں ان کی تقلید سے عوام کو منع کرتے ہیں۔’’ تِلْکَ اِذًاقِسْمَۃٌ ضِیْزٰی‘‘ یہ تقسیم تو بڑی ظالمانہ ہے۔
ملا علی قاری حنفی لکھتے ہیں ۔
ان اﷲ لم یکلف أحداً أن یکون حنفیا أو مالکیا أو شافعیا أو حنبلیا بل کلفھم أن یعملوا بالسنۃ (شرح عین العلم ص ۳۲۶)
اللہ تعالیٰ نے کسی کو اس بات کا مکلف نہیں بنایا کہ وہ ـحنفی یا شافعی یا مالکی یا حنبلی بنے بلکہ اللہ تعالیٰ نے سب کو سنت رسول اللہ ﷺ پر عمل کرنے کا مکلف بنایا ہے۔
اب آئیے دیکھتے ہیں کیا خود اما م ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے اپنی تقلید کا حکم دیا ہے یا نہیں ۔
سئل أبو حنیفۃ إذا قلت قولا وکتاب اللہ یخالفہ: قال أترکوا قولی بکتاب اللہ قال إذا قلت قولا وحدیث رسول اللہ ﷺ یخالفہ قال اترکوا قولی بخبر الرسول ( عقد الجید ص۴۵)
اما م ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ اگرآپ کا کوئی قول اللہ تعالیٰ کی کتاب کے خلاف ہو تو کیا کریں فرمایا میرے قول کو چھوڑ دینا اللہ تعالیٰ کی کتاب کو لے لینا پھر کہا اگر آپ کا قول اللہ کے رسول ﷺ کی حدیث کے خلاف ہو تو ؟ فرمایا اسی طرح میرے قول کو چھوڑ دینا اللہ تعالیٰ کے رسول ﷺ کے فرمان کو لے لینا۔
اب دیکھتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ خود بھی کسی کی تقلید کرتے تھے یا نہیں ۔
اني لا اقلد التابعی لأنھم رجال ونحن رجال ولا یصح تقلیدہم ( نور الأنوار ص۲۱۹)
ترجمہ: امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا فرمان ہے میں کسی تابعی کی تقلید نہیں کرتاکیونکہ وہ بھی ہماری طرح انسان ہیں اور انکی تقلید صحیح نہیں ہے۔
اسی طرح علامہ شامی حنفی لکھتے ہیں:۔
إذا صح الحدیث وکان علی خلاف المذھب عمل بالحدیث ویکون ذلک مذھبہ ولا یخرج مقلدہ عن کونہ حنفیا بالعمل بہ فقد صح عن ابي حنیفۃ أنہ قال اذا صح الحدیث فھو مذھبی ۔ (شرح عقود رسم المفتی لا بن عابدین ص۱۹)
جب صحیح حدیث ملے اور وہ حدیث ہمارے مذہب کے خلاف ہو پھر حدیث ہی پر عمل کیا جائے گا اور وہی امام ابو ـحنیفہ رحمہ اللہ کا مذہب ہو گا اور اس صحیح حدیث پر عمل کرنے کی وجہ سے کوئی ـحنفیت سے نہیں نکلے گا کیونکہ امام صاحب کا فرمان ہے کہ جب حدیث صحیح ہو تو وہی میرا مذہب ہو گا۔
اسی طرح اور آگے جا کر لکھتے ہیں ۔
فاذا ظھر لہ صحۃ مذھب غیر إمامہ فی واقعۃ لم یجزلہ أن یقلد إمامہ (شرح عقود رسم المفتی ص۲۴)
ترجمہ : اگر کسی کے لئے اپنے امام کے علاوہ کسی اور امام کا مسلک صحیح ظاہر ہو جائے چاہے کسی بھی واقعہ میں ہو تو پھر اس کو اپنے امام کی تقلید کرنی جائز نہیں ہے۔
یہ تمام باتیں دلائل کے ساتھ پڑھنے کے بعد بھی اگر کسی مقلد کو تسلی نہ ہو اور اپنی اس تقلید سے توبہ نہ کرے تو پھر ہم اس کے بارے میں وہی کہیں گے جو کچھ علامہ عبد الحیی حنفی لکھنوی رحمہ اللہ نے کہا ہے۔
قد تعصبوا فی الحنفیۃ تعصبا شدیدا ً والتزموا بما فی الفتاوی التزاماً شدیداً وان وجدو ا حدیثا صحیحا أو أثرا صریحاً علی خلافہ وزعموا أنہ لو کان ھذا الحدیث صحیحا لأخذ صاحب المذھب ولم یحکم بخلافہ وھذا جھل منھم (النفع الکبیر ص۱۴۵)
ترجمہ: احناف کی ایک جماعت سخت تعصب میں مبتلاء ہے اور سختی سے کتب فتاویٰ کے ساتھ چمٹی ہوئی ہے اور اگر ان لوگوں کو کوئی صحیح حدیث یا کوئی صریح اثر مل جاتا ہے جو ان کے مذہب کے خلاف ہو تو وہ یہ کہتے ہیں کہ اگر یہ حدیث صحیح ہوتی تو امام صاحب ضرور اس کے مطابق فتویٰ دیتے اور اس کے خلاف فیصلہ نہ دیتے اور یہ ان لوگوں کی جہالت ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
أئمہ سلف کا مذہب

اب بھی شاید کسی کے دل میں یہ اعتراض پیدا ہو کہ اگر تقلید کے بارے میں ان بڑی بڑی ہستیوں کا یہ خیال ہے اور یہ فتویٰ ہے تو پھر انہوں نے تقلید کیوں کی؟
توآئیے آپ کو ہم بتاتے ہیں کیا وہ تقلید کرتے تھے یا نہیں ؟
یاد رہے کہ یہ جو کہا جاتا ہے کہ فلاں حنفی تھا یا مالکی تھا یا شافعی تھا یا حنبلی تھا اس کا بالکل یہ مطلب نہیں کہ وہ تقلید کرتے تھے بلکہ ہر کوئی اپنی اپنی دلیل اور اجتہاد کے مطابق چلتے تھے
اگر کوئی یہ سوال کرے کہ پھر ان کو حنفی کیوں کہتے تھے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ
چونکہ ان کا طرز استدلال اور استباط بالکل وہی تھا جو ان کے بزرگوں کا تھا اور ان کے اساتذہ کا تھا اس لئے ان کو حنفی کہا جاتا ہے۔ یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ ہر بات میں ان کی تقلید کرتے تھے ۔مثلاً امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے سب سے بڑے شاگرد امام ابو یوسف رحمہ اللہ اور امام محمد تھے اور یہ اس معنی میں حنفی تھے کہ انہوں نے اس مکتب سے تعلیم حاصل کی تھی جسکے سربراہ اور جس کے مئوسس امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تھے۔ اس معنی میں حنفی نہیں تھے کہ وہ ان کی تقلید کرتے تھے کیونکہ مقلد کیلئے اپنے امام کی بات کو رد کرنا کسی صورت میں درست نہیں ہے۔ جبکہ امام محمد رحمہ اللہ اور امام ابو یوسف رحمہ اللہ نے اپنے استاذ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کیساتھ دو تہائی مسائل میں اختلاف کیا ہے
اسی طرح امام مالک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ أجمعین کے مکتب اور مدرسہ سے تعلق رکھنے والے کی اپنے اپنے امام کی طرف نسبت کی جاتی ہے۔
مگر مقلدین نے کسی کو بھی معاف نہیں کیا بلکہ ہر ایک کے گلے میں تقلید کا پھندہ ڈالتے گئے ۔ یہاں تک کہ شاگردوں کو بھی اپنے اپنے اساتذہ کا مقلد بنا دیا ہے۔ حالانکہ ان میں سے کسی نے بھی اپنے آپ کو حنفی یا شافعی یا مالکی یا حنبلی نہیں لکھا ہے اور اگر ان کے شاگردوں کے اپنے اساتذہ کے ساتھ جو اختلافات ہوئے ہیں ان مسائل کو جمع کیا جائے تو کئی ضخیم جلدیں تیار ہو جائیں ۔
آپ خود ہی دیکھ لیں کہ جن کو یہ مقلدین حنفی یا شافعی کہتے ہیں وہ خود اپنے بارے میں کیا لکھتے ہیں ۔علامہ شامی لکھتے ہیں ۔الأئمۃ الشافعیۃ کالقفال والشیخ ابن علی والقاضی حسین رحمہ اﷲ أنھم کانوا یقولون لسنا مقلدین للشافعی رحمہ اﷲ بل وافق رأینا رأیہ ویقال مثلہ فی أصحاب أبي حنیفۃ مثل أبی یوسف رحمہ اﷲ ومحمد رحمہ اللہ بالأولی وقد خالفوہ فی کثیر من الفروع۔ (عقود رسم المفتی ص ۲۵)
ترجمہ: علماء شوافع مثلاً قفال، شیخ ابن علی اور قاضی حسین رحمہ اللہ ان سب کا یہ کہنا ہے کہ ہم امام شافعی کے مقلد نہیں ہیں بلکہ ہماری رائے ان کی رائے کے موافق ہو گئی ہے اور اسی طرح امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے شاگردوں کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے ۔( کہ وہ اما م ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے مقلد نہیں تھے) مثلاً ابو یوسف رحمہ اللہ اور محمد رحمہ اللہ کیونکہ انہوں نے اکثر مسائل میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی مخالفت کی ہے۔
اسی طرح امام طحاوی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب شرح معانی الأثار میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے بے شمار مسائل رد کئے ہیں ۔
قال الطحاوی لا بن حربویہ لا یقلد الا عصبي أو غبي (عقود رسم المفتی ص۲۶)
ترجمہ: اما م طحاوی امام ابن حربویہ سے کہتے ہیں تقلید تو متعصب یا بے وقوف ہی کرتا ہے۔
اسی طرح روح المعانی کے مصنف علامہ الوسی ـحنفی لکھتے ہیں ۔
ان کان للضلالۃ أب فالتقلید أبوھا (روح المعانی ج۱ ص ۹۷)
ترجمہ: اگر گمراہی کا کوئی باپ ہے تو تقلید اس کا باپ ہے ۔
اسی طرح امام نووی الشافعی رحمہ اللہ نے (جو کہ اعتدال میں نمونہ تھے) امام شافعی کے بہت سارے مسائل جو صحیح احادیث کے خلاف تھے ان کو چھوڑ کر صحیح احادیث کو اپنا مسلک بنا یا ہے دیکھ لیں۔ (المجموع للنووی) اور لکھتے ہیں‘یہی امام شافعی کا مسلک ہے کیونکہ امام شافعی رحمہ اللہ کا فرمان ہے ’’ اذا صح الحدیث فھو مذہبی۔‘‘صحیح حدیث میرا مذہب ہے ۔
جبکہ آج کل کے احناف کے نزدیک اگر کوئی شخص امام کے قول کو چھوڑ کر صحیح حدیث پر عمل کرے تو وہ راہ راست سے ہٹ جاتا ہے اور لعن طعن کا مستحق بن جاتا ہے جو کسی سے مخفی نہیں ہے۔
اس سے بڑھ کر تو یہ ہے کہ صحیح حدیث کو توڑ مروڑ کر اپنے مذہب کے تابع بنا دیتے ہیں ایمان کا تقاضہ تو یہ تھا کہ مذہب کو صحیح حدیث کے تابع بناتے جب کے رسول اللہ ﷺکا فرمان ہے۔
’’ لاَ یُؤْمِنُ اَحَدُ کُمْ حَتّٰی یَکُوْنَ ھَوَاہُ تَبَعًا لِمَا جِئْتُ بِہ‘‘ (رواہ البغوی فی شرح السنۃ والنووی فی أربعینہ وقال ھذا حدیث حسن رقم الحدیث ۴۱ وھو صحیح معناً)
ترجمہ: تم میں سے کوئی بھی ایمان والا نہیں بن سکتا جب تک اس کی تمام خواہشات میرے لائے ہوئے دین کے تابع نہ ہو جائیں ۔
اور اس جرم عظیم کا اقرار احناف کے بڑے بزرگ علمائوں نے بھی کیا ہے جن میں سے مولانا اشرف علی تھانوی صاحب بھی ہیں لکھتے ہیں:۔
بعض مقلدین نے اپنے ائمہ کو معصوم عن الخطاء و مصیب و جوبا و مفروض الاطاعت تصور کر کے عزم بالجزم کیا ہے کہ خواہ کیسی ہی حدیث صحیح مخالف قول امام صاحب کے ہو اور مستند قول امام کا بجز قیاس کے امردیگر نہ ہو پھر بھی بہت سے علل و خلل حدیث میں پیدا کر کے یا اس کی تاویل بعید کر کے حدیث کو رد کر دیں گے اور قول امام کو نہ چھوڑیں گے۔
ایسی تقلید حرام اور بمصداق قولہ تعالیٰ:
’’ اِتَّخَذُوْا اَحْبَارَھُمْ وَرُھْبَانَھُمْ اَرْبَابًا مَّنْ دُوْنِ اللّٰہِ ‘‘ اور خلاف وصیت أئمہ مرحومین کے ہیں۔ (فتاویٰ إمدادیہ ج ۴ ص ۹۰)۔

جاری ہے..................!!!!!!!
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top