• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تقلید کی مذمت

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
513
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
تقلید کی مذمت

بسم اللہ الرحمن الرحیم

تقلید کی تعریف ہے دلیل جانے بغیر کسی قول کوقبول کرنا ۔اس بات پر اتفاق ہوچکا ہے کے تقلید علم نہیں ہے اور مقلد کو عالم نہیں کہا جاسکتا ۔(اعلام الموقعین :۱/۴۵)


اسی لیے علماء نے اپنی تقلید سے منع کیا ہے۔ ائمہ کرام رحمہم اﷲ کہتے ہیں کہ ہر شخص کا قول لیا جاسکتا ہے اور چھوڑا بھی جاسکتا ہے سوائے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے۔

امام ابو حنیفہ کہتے ہیں : جب نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی حدیث آجائے تو سر آنکھوں پر ہے اگر صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم میں سے کسی کا قول آجائے تو وہ بھی سر آنکھوں پر اور جب تابعین رحمہم اﷲ میں سے کسی کا قول آجائے تو وہ بھی آدمی ہیں ہم بھی آدمی ہیں۔

امام مالک رحمہ اﷲ فرماتے ہیں : ہم میں سے ہر ایک کا قول لیا بھی جاسکتا ہے اور ردّ بھی کیا جاسکتا ہے سوائے اس قبر والے (یعنی محمد صلی اﷲ علیہ وسلم ان کے قول کو لینا ہی لینا ہے رد نہیں کرنا)۔

امام شافعی رحمہ اﷲ فرماتے ہیں : جب صحیح حدیث آجائے تو وہی میرا مذہب ہے۔ نیز فرماتے ہیں جب میری بات نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی حدیث کے خلاف ہو تو میری بات کو دیوار پر دے مارو فرماتے ہیں : اس بات پر مسلمانوں کا اجماع ہے کہ جس کے سامنے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی سنت ظاہر اور واضح ہوکر آگئی تو اس کے لیے جائز نہیں کہ اس حدیث کو کسی کے قول اور رائے کی وجہ سے ترک کردے۔

امام احمد رحمہ اﷲ فرماتے ہیں: مجھے ان لوگوں پر تعجب ہوتا ہے جو حدیث کی سند سے واقف ہوتے ہیں کہ صحیح ہے پھر بھی وہ سفیان ثوری رحمہ اﷲ کے قول کی طرف جاتے ہیں جبکہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے :

فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَنْ تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (النور: ۶۳)

’’جو لوگ اس کے قول کی مخالفت کرتے ہیں انہیں ڈرنا چاہیے اس بات سے کہ انہیں فتنہ یا عذاب الیم پہنچ جائے ‘‘۔

امام صاحب رحمہ اﷲ مزید فرماتے ہیں: میری تقلید ہرگز نہ کرنا اور نہ ہی اوزاعی رحمہ اﷲ و سفیان رحمہ اﷲ کی تقلید کرنا وہاں سے لینا جہاں سے انہوں نے لیا ہے (یعنی علم اور شریعت )

عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں : ہو سکتا ہے کہ تم لوگوں پر آسمان سے پتھر برسیں اس لیے کہ میں کہتا ہوں رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہے تو تم کہتے ہو کہ ابو بکر و عمر رضی اﷲ عنہما نے یہ کہا ہے۔

(فتح المجید: ۳۸۷،۳۸۸)


علامہ سلیمان بن عبداﷲ رحمہ اﷲ فرماتے ہیں:

مومن پر فرض اور لازم ہے کہ جب اسے کتاب اﷲ اور سنت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم پہنچ جائے اور ان کے معنی سے بھی وہ واقف ہوجائے تو وہ ان پر عمل کرے۔ اگرچہ کوئی اس کی مخالفت ہی کیوں نہ کر رہا ہو اس لیے کہ اﷲ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی یہی حکم ہے علماء کا اس بات پر اجماع ہے سوائے جاہل مقلدین کے جبکہ مقلدین کو تو علماء میں شمار نہیں کیا جاتا۔ ابن عبدالبر رحمہ اﷲ نے اس بات پر اجماع نقل کیا ہے کہ مقلدین کو علماء میں شمار نہیں کیا جاسکتا ۔

(تیسیر العزیز الحمید: ۵۴۷،۵۴۶)

عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں: اتباع کرو بدعتی مت بنو۔ یہ تمہارے لیے کافی ہے۔ امام اوزاعی رحمہ اﷲ فرماتے ہیں سلف صالحین رحمہم اللہ کے نقش قدم پر چلتے رہو اگرچہ لوگ تمہیں چھوڑ دیں اور لوگوں کی آراء سے خود کو بچائے رکھو اگرچہ وہ کتنی ہی خوبصورت باتیں کریں ۔امام ابن تیمیہ رحمہ اﷲ فرماتے ہیں۔جس کے پاس دلیل ( یعنی قرآن وحدیث ) نہیں وہ راہ سے بھٹک گیا ہے ۔

(الحق و الیقین فی عداوة الطغاة والمرتدین من کلام ائمة الدعوة النجدیة (رحمھم اللّٰہ) لفضیلة الشیخ ابوعبدالرحمن الاثری سلطان بن بجاد العتیبی رحمہ اللّٰہ مترجم: فضیلۃالشیخ ابوجنید حفظہ اﷲ، ص : ۱۷ ، مکتبہ: عبداﷲابن المبارک رحمہ اﷲ)
 
شمولیت
اپریل 28، 2021
پیغامات
3
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
9
تقلید کی مذمت

بسم اللہ الرحمن الرحیم

تقلید کی تعریف ہے دلیل جانے بغیر کسی قول کوقبول کرنا ۔اس بات پر اتفاق ہوچکا ہے کے تقلید علم نہیں ہے اور مقلد کو عالم نہیں کہا جاسکتا ۔(اعلام الموقعین :۱/۴۵)


اسی لیے علماء نے اپنی تقلید سے منع کیا ہے۔ ائمہ کرام رحمہم اﷲ کہتے ہیں کہ ہر شخص کا قول لیا جاسکتا ہے اور چھوڑا بھی جاسکتا ہے سوائے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے۔

امام ابو حنیفہ کہتے ہیں : جب نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی حدیث آجائے تو سر آنکھوں پر ہے اگر صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم میں سے کسی کا قول آجائے تو وہ بھی سر آنکھوں پر اور جب تابعین رحمہم اﷲ میں سے کسی کا قول آجائے تو وہ بھی آدمی ہیں ہم بھی آدمی ہیں۔

امام مالک رحمہ اﷲ فرماتے ہیں : ہم میں سے ہر ایک کا قول لیا بھی جاسکتا ہے اور ردّ بھی کیا جاسکتا ہے سوائے اس قبر والے (یعنی محمد صلی اﷲ علیہ وسلم ان کے قول کو لینا ہی لینا ہے رد نہیں کرنا)۔

امام شافعی رحمہ اﷲ فرماتے ہیں : جب صحیح حدیث آجائے تو وہی میرا مذہب ہے۔ نیز فرماتے ہیں جب میری بات نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی حدیث کے خلاف ہو تو میری بات کو دیوار پر دے مارو فرماتے ہیں : اس بات پر مسلمانوں کا اجماع ہے کہ جس کے سامنے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی سنت ظاہر اور واضح ہوکر آگئی تو اس کے لیے جائز نہیں کہ اس حدیث کو کسی کے قول اور رائے کی وجہ سے ترک کردے۔

امام احمد رحمہ اﷲ فرماتے ہیں: مجھے ان لوگوں پر تعجب ہوتا ہے جو حدیث کی سند سے واقف ہوتے ہیں کہ صحیح ہے پھر بھی وہ سفیان ثوری رحمہ اﷲ کے قول کی طرف جاتے ہیں جبکہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے :

فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَنْ تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (النور: ۶۳)

’’جو لوگ اس کے قول کی مخالفت کرتے ہیں انہیں ڈرنا چاہیے اس بات سے کہ انہیں فتنہ یا عذاب الیم پہنچ جائے ‘‘۔

امام صاحب رحمہ اﷲ مزید فرماتے ہیں: میری تقلید ہرگز نہ کرنا اور نہ ہی اوزاعی رحمہ اﷲ و سفیان رحمہ اﷲ کی تقلید کرنا وہاں سے لینا جہاں سے انہوں نے لیا ہے (یعنی علم اور شریعت )

عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں : ہو سکتا ہے کہ تم لوگوں پر آسمان سے پتھر برسیں اس لیے کہ میں کہتا ہوں رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہے تو تم کہتے ہو کہ ابو بکر و عمر رضی اﷲ عنہما نے یہ کہا ہے۔

(فتح المجید: ۳۸۷،۳۸۸)


علامہ سلیمان بن عبداﷲ رحمہ اﷲ فرماتے ہیں:

مومن پر فرض اور لازم ہے کہ جب اسے کتاب اﷲ اور سنت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم پہنچ جائے اور ان کے معنی سے بھی وہ واقف ہوجائے تو وہ ان پر عمل کرے۔ اگرچہ کوئی اس کی مخالفت ہی کیوں نہ کر رہا ہو اس لیے کہ اﷲ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی یہی حکم ہے علماء کا اس بات پر اجماع ہے سوائے جاہل مقلدین کے جبکہ مقلدین کو تو علماء میں شمار نہیں کیا جاتا۔ ابن عبدالبر رحمہ اﷲ نے اس بات پر اجماع نقل کیا ہے کہ مقلدین کو علماء میں شمار نہیں کیا جاسکتا ۔

(تیسیر العزیز الحمید: ۵۴۷،۵۴۶)

عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں: اتباع کرو بدعتی مت بنو۔ یہ تمہارے لیے کافی ہے۔ امام اوزاعی رحمہ اﷲ فرماتے ہیں سلف صالحین رحمہم اللہ کے نقش قدم پر چلتے رہو اگرچہ لوگ تمہیں چھوڑ دیں اور لوگوں کی آراء سے خود کو بچائے رکھو اگرچہ وہ کتنی ہی خوبصورت باتیں کریں ۔امام ابن تیمیہ رحمہ اﷲ فرماتے ہیں۔جس کے پاس دلیل ( یعنی قرآن وحدیث ) نہیں وہ راہ سے بھٹک گیا ہے ۔

(الحق و الیقین فی عداوة الطغاة والمرتدین من کلام ائمة الدعوة النجدیة (رحمھم اللّٰہ) لفضیلة الشیخ ابوعبدالرحمن الاثری سلطان بن بجاد العتیبی رحمہ اللّٰہ مترجم: فضیلۃالشیخ ابوجنید حفظہ اﷲ، ص : ۱۷ ، مکتبہ: عبداﷲابن المبارک رحمہ اﷲ)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
"تقلید" کو جس افراط و تفریط سے مخالفین و موافقین پیش کرتے چلے آ رہے ہیں ٫ اس کا لازمی نتیجہ تقلید کی وہ حالی بد نمائیگی ہے ، جو لوگوں میں تقلید کرنے والوں کے تئیں بد گمانی ؛ بل ان سے تنفر اور تکدر کا سبب بنتی چلی جا رہی ہے ۔
نہ تو "تقلید" کی وہی صورت صحیح ہے ، جسے "موافقین" حد درجہ غلو و جمود کے ساتھ پیش کرتے ہیں ، اور نہ ہی وہ تصویر درست ہے ، جسے مخالفین "قرآن و سنت" کے مقابلے کی چیز بتلا کر دکھاتے ہیں ۔
بل کہ "تقلید شخصی" کا جو غلط اور نا روا تصور لوگوں کے ذہنوں میں نقش ہو کر رہ گیا ، اس نے تو اور تباہ کاریاں پھیلائی ہیں ، حقیقت یہ ہے کہ جس "تقلید شخصی" کا لوگ نام لیتے ہیں ، اس کا سرے سے کوئی وجود نہ کل تھا اور نہ آج ہے ، اور ان شاء اللہ نہ کبھی ہوگا ؛ بل کہ تقلید کرنے والے تو ایک "مکتبہ فکر" کی تقلید کرتے ہیں ، جس سے وہ بھی مستغنی نہیں ہو سکتے ، جو تقلید کی مذمت ایڑی چوٹی کا زور لگا کر کرتے ہیں ؛ بل کہ واقعہ تو یہ ہے کہ ایسی تقلید تو وہ خود کرتے ہیں ۔
 
Top