محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,783
- پوائنٹ
- 1,069
تقویٰ کا لباس!!!
مصنف: کاشف نصیر
اللہ تعالی نے بنی نوح انسان کو اپنا خلیفہ بناکر اس دنیا میں بھیجا اور اس کی تن پوشی کے لئے لباس کو پسند فرمایا کیونکہ عریانیت اللہ کے یہاں انتہائی ناپسندیدہ عمل ہے۔ ہمارے ماں باپ حضرت بی بی حوا اور حضرت آدم علیہ سلام بھی بلاشبہ حیادار تھے۔ جب ابلیس کے جال میں پھنس جانے کی وجہ سے ان کے جسم سے جنت کا لباس اتر گیا، تو وہ بہشت کے درختوں سے پتے توڑ توڑکر کر اپنے جسم کو چھپانے لگے اور اللہ تعالی سے دعا کرنے لگے کہ اے اللہ ہم سے خطا ہوگئی ؟''ہمیں معاف فرما''۔
ارشادباری تعالی ہے
''اے اولاد آدم ہم نے تم پر پوشاک اتاری کہ تمہاری ستر ڈھانکے اور تمہارے بدن کو زینت دے اور جو پرہیزگاری کا لباس ہے''(سورہ الاعراف:۲۶)۔
''اے اولاد آدم دیکھنا کہیں شیطان تمہیں بہکا نہ دے جس طرح تمہارے ماں باپ کو بہکاکر جنت سے نکلوادیا اور ان سے ان کے کپڑے اتار وادئے تاکہ ان کے ستر کھول کر دکھادے وہ اور اس کالشکر تم سب کو ایسی جگہ سے دیکھتا ہے جہاں سے تم ان سب کو نہیں دیکھ سکتے'' (سورہ الاعراف:۲۷)۔
دوسری طرف ابلیس اور اسکے لشکر کو برہنگی، عریانیت اور بے حیائی بہت پسند ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ یہ وہ ام الخبائث ہے جو کئی اور برائیوں کی نشو نما کرتی اور انہیں پالتی پوستی ہے۔ شیطان نے اس لئے سب سے پہلے انسان کے لباس پر حملہ کیا۔ آج بھی اس کا لشکر عریانیت پھلانے میں سرگرم ہے۔ کہیں عورت کو آزادی نسواں کا پرفریب نعرہ دیا اور اسے نقد جنس بناکر بازار میں لاکھڑا کردیا، کہیں برہندگی کو فطرت کا نام دے دیا، کہیں فیشن اور جدت کے نام پر انسان کوایسی مادر پدرآزادی دی کہ اسے اشرف المخلوقات کہ مقام سے گرا کر حیوانیت کے درجے پر لاکھڑا کیا، تو کہیں اسے احساس کمتری کی پاتال میں ایسا گرایا کہ وہ خود اپنی تہذیب سے متنفر اور بیزار ہوکر ابلیس کا تر نوالہ بن گیا. افسوس کہ مسلمان جنہیں تمام اقوام عالم کے لئے شرافت، شرم و حیا اور پاکیزگی کی مثال اور نمونہ ہونا چاہئے تھا بھی رسول ہاشمیﷺ کی ترکیب سے ہٹ کر روشن خیالی کے نام پر اس ابلسی تہذیب کو اپنے لئے باعث فخر و افتخار سمجھنے لگے ہیں اور تقویٰ اور پرہیزگاری کے لباس کو تنگ نظری، قدامت پرستی اور تہذہب کہن قرار دیتے ہیں۔ انکی اس خام خیالی کے مطابق مرد کی کھلی ہوئی پنڈلیاں، سر کی ٹوپی اور پجامہ عصر حاضر کے تقاضوں سے مطابقت نہیں رکھتی. کوئی انسے پوچھے عصر حاضر کے تقاضے کیا ہیں تو مغرب کی شرم و حیا، اخلاق، روحانیت اور پاکیزگی سے عاری معاشرے کی تصویر آپکے سامنے رکھ دیں گے.عورت کے حجاب بھی انکے لئے باعث شرمندگی اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن چکا ہے کیونکہ نیم برہنہ عورت کے بغیر انکی روشن خیال (خام خیالی) کا تصور ناممکن ہے.
بقول اقبالؒ
وضع میں تم ہو نصارٰی تو تمدن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں! جنہیں دیکھ کہ شرمائیں یہود
اللہ تعالی نے ہمیں شیطان کے فریب سے بچنے کی بار بار ہدایت کی ہے لیکن جن کے قلوب شیطان کی طرف راغب ہیں وہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کی ہدایت اور انکی عظیم سنتوں کے باوجود برہنگی اور بدتہذیبی کو بطور فیشن، اقوام عالم میں قبولیت کی سند اور عصر حاضر کے تقاضے سمجھ کر اپنائے ہوئے ہیں،
بقول علامہ اقبالؒ
روش مغرب ہے مدنظر وضع مشرق کو جانتے ہیں گناہ
یہ ڈرامہ دکھائے گا کیا سین پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ
لباس کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ یہ انسان کو دوسروں کی نظروں میں بے پردہ ہونے سے بچاتا ہے لیکن وہ لباس جو اس مقصد کو حاصل کرنے میں ناکام رہے، یا دوسروں پر برتری حاصل کرنے کے لئے یا کسی قوم کی مشابہت حاصل کرنے کے لیئے پہنا جائے قیامت کے روز وہ تمام حقائق سمجھا دیگا جو دنیا کی محبت میں پڑ کر سمجھ نہیں آتی۔
لباس کی کوئی خاص شکل یا ہیت شریعت مطہرہ نے متعین نہیں کی کہ فلاں لباس، فلاں ڈیزائن کا اور فلا چیز سے بنے ہوئے کپڑے کا استعمال کریں، ہر مقام، ماحول کی ضروریات، ثقافت اور روایات کے مطابق شرعی اصولوں کی روشنی میں تقویٰ کا لباس مسلمان خود اختیار کرلیتے ہیں البتہ کچھ حدود ایسی ضرور مقرر کی ہیں کہ ان کہ خلاف جانا ممنوع ہے اور ان حدود میں رہتے ہوئے آدمی جو وضع چاہے اختیار کرسکتا ہے۔ وہ حدود مندرجہ ذیل ہیں۔
لباس اتنا چھوٹا ،باریک یا چست نہ ہوکہ وہ اعضاء جسم ظاہر ہوجائیں جن کا چھپانا واجب ہے۔
ارشاد باری تعالی ہے
''اے اولاد آدم ہم نے تم پر پوشاک اتاری کہ تمہارے ستر ڈھانکے '' (الااعراف : ۲۶)
(1) لباس ایسا ہونا چاہیے جو پورے بدن خاص طور پرستر کو ڈھانپے، یاد رہے مرد کا ستر ناف سے گھٹنوں تک اورعورت کا ستر اسکا پورا بدن ہے ماسوائے چہرے، ہا تھ اور پاؤں کے۔
(2)ایسے تمام لباس جو اتنے باریک ہوں کہ ان کے پہننے کے باوجود پورا بدن یا بدن کا کچھ حصہ ظاہر ہوتا ہو یا یہ امکان ہو کے پسینے یا کسی اور وجہ سے بھیگ کر جسم کو ظاہر کردے گا سے اجتناب واجب ہے۔
(3)ایسے تمام لباس جو اتنے چست ہوں کہ ان کے پہننے سے بدن کے خدوخال اور وضع قطع ظاہر ہو کا پہننا بھی ہرگز جائز نہیں، اسکن فٹنگ اور جینس کی پینٹس کا بھی یہی معاملہ ہے کہ جسم کی خدوخال اور بناوٹ کو واضع کرتا ہے۔
کچھ اور نقات ایسے ہیں جو لباس میں تقوا پیدا کرتے اور جنکا خیال رکھنا بھی ضروری ہے، چنانچہ ذیل میں ہم ان نقات پر قرآن و حدیث کی روشنی میں نظر ڈال رہے ہیں.
مصنف: کاشف نصیر
اللہ تعالی نے بنی نوح انسان کو اپنا خلیفہ بناکر اس دنیا میں بھیجا اور اس کی تن پوشی کے لئے لباس کو پسند فرمایا کیونکہ عریانیت اللہ کے یہاں انتہائی ناپسندیدہ عمل ہے۔ ہمارے ماں باپ حضرت بی بی حوا اور حضرت آدم علیہ سلام بھی بلاشبہ حیادار تھے۔ جب ابلیس کے جال میں پھنس جانے کی وجہ سے ان کے جسم سے جنت کا لباس اتر گیا، تو وہ بہشت کے درختوں سے پتے توڑ توڑکر کر اپنے جسم کو چھپانے لگے اور اللہ تعالی سے دعا کرنے لگے کہ اے اللہ ہم سے خطا ہوگئی ؟''ہمیں معاف فرما''۔
ارشادباری تعالی ہے
''اے اولاد آدم ہم نے تم پر پوشاک اتاری کہ تمہاری ستر ڈھانکے اور تمہارے بدن کو زینت دے اور جو پرہیزگاری کا لباس ہے''(سورہ الاعراف:۲۶)۔
''اے اولاد آدم دیکھنا کہیں شیطان تمہیں بہکا نہ دے جس طرح تمہارے ماں باپ کو بہکاکر جنت سے نکلوادیا اور ان سے ان کے کپڑے اتار وادئے تاکہ ان کے ستر کھول کر دکھادے وہ اور اس کالشکر تم سب کو ایسی جگہ سے دیکھتا ہے جہاں سے تم ان سب کو نہیں دیکھ سکتے'' (سورہ الاعراف:۲۷)۔
دوسری طرف ابلیس اور اسکے لشکر کو برہنگی، عریانیت اور بے حیائی بہت پسند ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ یہ وہ ام الخبائث ہے جو کئی اور برائیوں کی نشو نما کرتی اور انہیں پالتی پوستی ہے۔ شیطان نے اس لئے سب سے پہلے انسان کے لباس پر حملہ کیا۔ آج بھی اس کا لشکر عریانیت پھلانے میں سرگرم ہے۔ کہیں عورت کو آزادی نسواں کا پرفریب نعرہ دیا اور اسے نقد جنس بناکر بازار میں لاکھڑا کردیا، کہیں برہندگی کو فطرت کا نام دے دیا، کہیں فیشن اور جدت کے نام پر انسان کوایسی مادر پدرآزادی دی کہ اسے اشرف المخلوقات کہ مقام سے گرا کر حیوانیت کے درجے پر لاکھڑا کیا، تو کہیں اسے احساس کمتری کی پاتال میں ایسا گرایا کہ وہ خود اپنی تہذیب سے متنفر اور بیزار ہوکر ابلیس کا تر نوالہ بن گیا. افسوس کہ مسلمان جنہیں تمام اقوام عالم کے لئے شرافت، شرم و حیا اور پاکیزگی کی مثال اور نمونہ ہونا چاہئے تھا بھی رسول ہاشمیﷺ کی ترکیب سے ہٹ کر روشن خیالی کے نام پر اس ابلسی تہذیب کو اپنے لئے باعث فخر و افتخار سمجھنے لگے ہیں اور تقویٰ اور پرہیزگاری کے لباس کو تنگ نظری، قدامت پرستی اور تہذہب کہن قرار دیتے ہیں۔ انکی اس خام خیالی کے مطابق مرد کی کھلی ہوئی پنڈلیاں، سر کی ٹوپی اور پجامہ عصر حاضر کے تقاضوں سے مطابقت نہیں رکھتی. کوئی انسے پوچھے عصر حاضر کے تقاضے کیا ہیں تو مغرب کی شرم و حیا، اخلاق، روحانیت اور پاکیزگی سے عاری معاشرے کی تصویر آپکے سامنے رکھ دیں گے.عورت کے حجاب بھی انکے لئے باعث شرمندگی اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن چکا ہے کیونکہ نیم برہنہ عورت کے بغیر انکی روشن خیال (خام خیالی) کا تصور ناممکن ہے.
بقول اقبالؒ
وضع میں تم ہو نصارٰی تو تمدن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں! جنہیں دیکھ کہ شرمائیں یہود
اللہ تعالی نے ہمیں شیطان کے فریب سے بچنے کی بار بار ہدایت کی ہے لیکن جن کے قلوب شیطان کی طرف راغب ہیں وہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کی ہدایت اور انکی عظیم سنتوں کے باوجود برہنگی اور بدتہذیبی کو بطور فیشن، اقوام عالم میں قبولیت کی سند اور عصر حاضر کے تقاضے سمجھ کر اپنائے ہوئے ہیں،
بقول علامہ اقبالؒ
روش مغرب ہے مدنظر وضع مشرق کو جانتے ہیں گناہ
یہ ڈرامہ دکھائے گا کیا سین پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ
لباس کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ یہ انسان کو دوسروں کی نظروں میں بے پردہ ہونے سے بچاتا ہے لیکن وہ لباس جو اس مقصد کو حاصل کرنے میں ناکام رہے، یا دوسروں پر برتری حاصل کرنے کے لئے یا کسی قوم کی مشابہت حاصل کرنے کے لیئے پہنا جائے قیامت کے روز وہ تمام حقائق سمجھا دیگا جو دنیا کی محبت میں پڑ کر سمجھ نہیں آتی۔
لباس کی کوئی خاص شکل یا ہیت شریعت مطہرہ نے متعین نہیں کی کہ فلاں لباس، فلاں ڈیزائن کا اور فلا چیز سے بنے ہوئے کپڑے کا استعمال کریں، ہر مقام، ماحول کی ضروریات، ثقافت اور روایات کے مطابق شرعی اصولوں کی روشنی میں تقویٰ کا لباس مسلمان خود اختیار کرلیتے ہیں البتہ کچھ حدود ایسی ضرور مقرر کی ہیں کہ ان کہ خلاف جانا ممنوع ہے اور ان حدود میں رہتے ہوئے آدمی جو وضع چاہے اختیار کرسکتا ہے۔ وہ حدود مندرجہ ذیل ہیں۔
لباس اتنا چھوٹا ،باریک یا چست نہ ہوکہ وہ اعضاء جسم ظاہر ہوجائیں جن کا چھپانا واجب ہے۔
ارشاد باری تعالی ہے
''اے اولاد آدم ہم نے تم پر پوشاک اتاری کہ تمہارے ستر ڈھانکے '' (الااعراف : ۲۶)
(1) لباس ایسا ہونا چاہیے جو پورے بدن خاص طور پرستر کو ڈھانپے، یاد رہے مرد کا ستر ناف سے گھٹنوں تک اورعورت کا ستر اسکا پورا بدن ہے ماسوائے چہرے، ہا تھ اور پاؤں کے۔
(2)ایسے تمام لباس جو اتنے باریک ہوں کہ ان کے پہننے کے باوجود پورا بدن یا بدن کا کچھ حصہ ظاہر ہوتا ہو یا یہ امکان ہو کے پسینے یا کسی اور وجہ سے بھیگ کر جسم کو ظاہر کردے گا سے اجتناب واجب ہے۔
(3)ایسے تمام لباس جو اتنے چست ہوں کہ ان کے پہننے سے بدن کے خدوخال اور وضع قطع ظاہر ہو کا پہننا بھی ہرگز جائز نہیں، اسکن فٹنگ اور جینس کی پینٹس کا بھی یہی معاملہ ہے کہ جسم کی خدوخال اور بناوٹ کو واضع کرتا ہے۔
کچھ اور نقات ایسے ہیں جو لباس میں تقوا پیدا کرتے اور جنکا خیال رکھنا بھی ضروری ہے، چنانچہ ذیل میں ہم ان نقات پر قرآن و حدیث کی روشنی میں نظر ڈال رہے ہیں.