• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تقویٰ کا لباس!!!

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
تقویٰ کا لباس!!!

مصنف: کاشف نصیر

اللہ تعالی نے بنی نوح انسان کو اپنا خلیفہ بناکر اس دنیا میں بھیجا اور اس کی تن پوشی کے لئے لباس کو پسند فرمایا کیونکہ عریانیت اللہ کے یہاں انتہائی ناپسندیدہ عمل ہے۔ ہمارے ماں باپ حضرت بی بی حوا اور حضرت آدم علیہ سلام بھی بلاشبہ حیادار تھے۔ جب ابلیس کے جال میں پھنس جانے کی وجہ سے ان کے جسم سے جنت کا لباس اتر گیا، تو وہ بہشت کے درختوں سے پتے توڑ توڑکر کر اپنے جسم کو چھپانے لگے اور اللہ تعالی سے دعا کرنے لگے کہ اے اللہ ہم سے خطا ہوگئی ؟''ہمیں معاف فرما''۔

ارشادباری تعالی ہے
''اے اولاد آدم ہم نے تم پر پوشاک اتاری کہ تمہاری ستر ڈھانکے اور تمہارے بدن کو زینت دے اور جو پرہیزگاری کا لباس ہے''(سورہ الاعراف:۲۶)۔


''اے اولاد آدم دیکھنا کہیں شیطان تمہیں بہکا نہ دے جس طرح تمہارے ماں باپ کو بہکاکر جنت سے نکلوادیا اور ان سے ان کے کپڑے اتار وادئے تاکہ ان کے ستر کھول کر دکھادے وہ اور اس کالشکر تم سب کو ایسی جگہ سے دیکھتا ہے جہاں سے تم ان سب کو نہیں دیکھ سکتے'' (سورہ الاعراف:۲۷)۔

دوسری طرف ابلیس اور اسکے لشکر کو برہنگی، عریانیت اور بے حیائی بہت پسند ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ یہ وہ ام الخبائث ہے جو کئی اور برائیوں کی نشو نما کرتی اور انہیں پالتی پوستی ہے۔ شیطان نے اس لئے سب سے پہلے انسان کے لباس پر حملہ کیا۔ آج بھی اس کا لشکر عریانیت پھلانے میں سرگرم ہے۔ کہیں عورت کو آزادی نسواں کا پرفریب نعرہ دیا اور اسے نقد جنس بناکر بازار میں لاکھڑا کردیا، کہیں برہندگی کو فطرت کا نام دے دیا، کہیں فیشن اور جدت کے نام پر انسان کوایسی مادر پدرآزادی دی کہ اسے اشرف المخلوقات کہ مقام سے گرا کر حیوانیت کے درجے پر لاکھڑا کیا، تو کہیں اسے احساس کمتری کی پاتال میں ایسا گرایا کہ وہ خود اپنی تہذیب سے متنفر اور بیزار ہوکر ابلیس کا تر نوالہ بن گیا. افسوس کہ مسلمان جنہیں تمام اقوام عالم کے لئے شرافت، شرم و حیا اور پاکیزگی کی مثال اور نمونہ ہونا چاہئے تھا بھی رسول ہاشمیﷺ کی ترکیب سے ہٹ کر روشن خیالی کے نام پر اس ابلسی تہذیب کو اپنے لئے باعث فخر و افتخار سمجھنے لگے ہیں اور تقویٰ اور پرہیزگاری کے لباس کو تنگ نظری، قدامت پرستی اور تہذہب کہن قرار دیتے ہیں۔ انکی اس خام خیالی کے مطابق مرد کی کھلی ہوئی پنڈلیاں، سر کی ٹوپی اور پجامہ عصر حاضر کے تقاضوں سے مطابقت نہیں رکھتی. کوئی انسے پوچھے عصر حاضر کے تقاضے کیا ہیں تو مغرب کی شرم و حیا، اخلاق، روحانیت اور پاکیزگی سے عاری معاشرے کی تصویر آپکے سامنے رکھ دیں گے.عورت کے حجاب بھی انکے لئے باعث شرمندگی اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن چکا ہے کیونکہ نیم برہنہ عورت کے بغیر انکی روشن خیال (خام خیالی) کا تصور ناممکن ہے.

بقول اقبالؒ
وضع میں تم ہو نصارٰی تو تمدن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں! جنہیں دیکھ کہ شرمائیں یہود

اللہ تعالی نے ہمیں شیطان کے فریب سے بچنے کی بار بار ہدایت کی ہے لیکن جن کے قلوب شیطان کی طرف راغب ہیں وہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کی ہدایت اور انکی عظیم سنتوں کے باوجود برہنگی اور بدتہذیبی کو بطور فیشن، اقوام عالم میں قبولیت کی سند اور عصر حاضر کے تقاضے سمجھ کر اپنائے ہوئے ہیں،

بقول علامہ اقبالؒ
روش مغرب ہے مدنظر وضع مشرق کو جانتے ہیں گناہ
یہ ڈرامہ دکھائے گا کیا سین پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ

لباس کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ یہ انسان کو دوسروں کی نظروں میں بے پردہ ہونے سے بچاتا ہے لیکن وہ لباس جو اس مقصد کو حاصل کرنے میں ناکام رہے، یا دوسروں پر برتری حاصل کرنے کے لئے یا کسی قوم کی مشابہت حاصل کرنے کے لیئے پہنا جائے قیامت کے روز وہ تمام حقائق سمجھا دیگا جو دنیا کی محبت میں پڑ کر سمجھ نہیں آتی۔
لباس کی کوئی خاص شکل یا ہیت شریعت مطہرہ نے متعین نہیں کی کہ فلاں لباس، فلاں ڈیزائن کا اور فلا چیز سے بنے ہوئے کپڑے کا استعمال کریں، ہر مقام، ماحول کی ضروریات، ثقافت اور روایات کے مطابق شرعی اصولوں کی روشنی میں تقویٰ کا لباس مسلمان خود اختیار کرلیتے ہیں البتہ کچھ حدود ایسی ضرور مقرر کی ہیں کہ ان کہ خلاف جانا ممنوع ہے اور ان حدود میں رہتے ہوئے آدمی جو وضع چاہے اختیار کرسکتا ہے۔ وہ حدود مندرجہ ذیل ہیں۔
لباس اتنا چھوٹا ،باریک یا چست نہ ہوکہ وہ اعضاء جسم ظاہر ہوجائیں جن کا چھپانا واجب ہے۔

ارشاد باری تعالی ہے
''اے اولاد آدم ہم نے تم پر پوشاک اتاری کہ تمہارے ستر ڈھانکے '' (الااعراف : ۲۶)

(1) لباس ایسا ہونا چاہیے جو پورے بدن خاص طور پرستر کو ڈھانپے، یاد رہے مرد کا ستر ناف سے گھٹنوں تک اورعورت کا ستر اسکا پورا بدن ہے ماسوائے چہرے، ہا تھ اور پاؤں کے۔

(2)ایسے تمام لباس جو اتنے باریک ہوں کہ ان کے پہننے کے باوجود پورا بدن یا بدن کا کچھ حصہ ظاہر ہوتا ہو یا یہ امکان ہو کے پسینے یا کسی اور وجہ سے بھیگ کر جسم کو ظاہر کردے گا سے اجتناب واجب ہے۔

(3)ایسے تمام لباس جو اتنے چست ہوں کہ ان کے پہننے سے بدن کے خدوخال اور وضع قطع ظاہر ہو کا پہننا بھی ہرگز جائز نہیں، اسکن فٹنگ اور جینس کی پینٹس کا بھی یہی معاملہ ہے کہ جسم کی خدوخال اور بناوٹ کو واضع کرتا ہے۔
کچھ اور نقات ایسے ہیں جو لباس میں تقوا پیدا کرتے اور جنکا خیال رکھنا بھی ضروری ہے، چنانچہ ذیل میں ہم ان نقات پر قرآن و حدیث کی روشنی میں نظر ڈال رہے ہیں.
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
لباس مشہور ہونے کے لئے یا تکبر کی نیت سے نہ پہنا جائے:

حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا ''جس نے مشہور ہونے کے لئے کپڑا پہنا ، اللہ تعالی اسے قیامت کے دن ایسا ہی لباس پہنا ئے گا اور اس میں آگ لگادیگا'' (ابوداود)۔ حضرت عبداللہ ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا ''جو شخص تکبر کی راہ سے اپنا کپڑا لٹکائے گا اللہ تعالی قیامت کے دن اس کو دیکھے گا بھی نہیں''۔ (حدیث نمبر۷۷۴،کتاب اللباس،جلد۳ ،صحیح بخاری )
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
عورتیں مردوں کے لباس اور مرد عورتوں کے لباس نہ پہنیں:

حضرت ابو ہرہرہؓ سے روایت ہے کہ
'' رسول ﷺ نے اس مرد پر لعنت کی جو عورتوں کا لباس پہنے اوراس عورت پر بھی لعنت کی ہے جو مردوں کا لباس پہنے''۔ایک اور حدیث میں یوں آیا ہے کہ'' حضرت عائشہؓ سے کسی نے کہا کہ ایک عورت مردانہ جوتا پہنتی ہے ، ام المومنینؓ نے کہا رسول ﷺ نے مرد بننے والی عورت پر لعنت کی ہے''( صحیح بخاری)۔
کچھ احساس کمتری کے ستائے ہوئے کم ظرف ایسے ہیں کہ مخالف جنس کی شباہت اختیار کرتے ہیں اور اسے فیشن اور روشن خیالی سمجھتے ہیں، یہ نفس کے بندے اللہ کی اطاعت کے بجائے اپنے دل کی بے راہ روی میں مبتلا ہیں ، یقیناُ ایسے لوگ صریح گمراہی پر ہیں۔ ان ہی لوگوں کے بارے میں ارشاد باری تعالی ہے کہ ''کیا تم نے اس شخص کو نہیں دیکھا جس نے خواہش نفس کواپنا خدا بنا رکھا ہے تو کیا تم ان پر نگہبان ہوسکتے ہو؟'' (سورہ الفرقان:۴۳)
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
لباس میں غیر قوم(کافر و فاسق فوم ) کی مشابہت اختیار نہ کی جائے:

حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا
''جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی وہ ان میں سے ہے'' (ابوداؤد :۲۳۲)۔
وہ لباس جو کسی کافر و مشرک قوم کی شناخت ہو پہننا درست نہیں۔ جیسے 'زنار' ہندوؤں اور 'ٹائی' اہل مغرب (یہودنصارٰی) کی شناخت ہے۔ شرٹ کے مقابلے میں لمبا کرتا اور ٹائی کے مقابلے میں ٹوپی اور عمامہ مسلمانوں کی ذاتی شناخت اوربشمول آپﷺ تمام انبیاء علیہ السلام کی سنت مطہرہ ہے۔ اسی لمبے کرتے سے متعلق قرآن و سنت میں حضرت یوسفؑ کا قول یوں نقل ہے کہ ''یہ میراکرتا لے جاؤ اور میرے باپ کے منہ پر ڈالدو وہ بینا ہوجائینگے'' (سورہ یوسف:۹۳) اور حضرت جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ'' آپﷺنے عبداللہ بن ابی سلول کی موت پر اسکے مسلمان بیٹے کو اپنا کرتا دے دیا تاکہ وہ اسے اپنے باپ کو پہنا دے'' (صحیح بخاری)۔

ذہن میں رکھیں کہ یہاں بحث یہ نہیں کہ اہل مغرب کا لباس حرام ہے یا حلال، مسئلہ یہ ہے کہ کونسا سا لباس تقویٰ اور پرہیزگاری کا لباس ہے، وہ لباس جو مسلمانوں کی خاص شناخت ہے اور حضورﷺ اور صحابہ سے ہو کر ہم تک پہنچا یا وہ لباس جو نوآبادیاتی دور میں انگریز حاکموں کی طرف سے محکوم عوام پر یہ کہ کر تھونپا گیا کہ یہ لباس Executive ہے اور مقامی لباس جدت اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن چکا ہے ۔ انگریزوں کا مقصد ہندوستانیوں خاص طور پہ مسلمانوں کی تہذیب کو مٹانا اور انہیں بے راہ رو کرنا تھا۔مگر سلام ہے ہمارے اسلاف پر کہ انہوں نے انگریز حکمرانوں کی تہذیبی یلغار کا مقابلہ کیا اور غلامی کے دور میں بھی اپنی دینی روِش نہیں بدلی مگر آزادی کہ بعد ہم نے خود وہ وہ کام کئے جو دو سو برس میں فرنگی راج نہ کرسکی۔ ہم نے مغربی تہذیب کو روشن خیالی اور وسعت دماغی کے نام پر نا صرف قبول کیا بلکہ تہذیبِ مغرب اور اسلام کو یکجاں کرنے کی کوششیں کیں۔ لباس سے جو معاملہ شروع ہوا، وہ زندگی کے تمام گوشوں پر اثرانداز ہوتے ہوئے اپنی انتہاکو پہنچ چکا ہے اور یوں اس فرنگی اسلام نے مسلمانوں کو اسلام کی اصلی روح بہت دور کر دیا ۔ مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی شفیع احمد عثمانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

'' ایک شخص ابتدا میں صرف انگریزی جوتا استعمال کرتاہے اور سمجھتا ہے کہ اس سے ہم انگریز نہیں بن گئے، لیکن تھوڑے عرصے میں وہ یہ دیکھ لے گا کہ یہ انگریزی جوتا اس کے بدن سے اسلامی پاجامہ اتر واکرٹخنوں سے سے نیچا پاجامہ پہننے پر مجبورکر دے گا، پھر یہ پاجامہ اس کاکرتااور عبا اتروائے گا اور جب اعضاء ا ور جوارح اور بدن انسان کی پارلیمنٹ کے سب مغربی رنگ کے ہوگئے تو اس کے سلطانِ سر تاج کومجبور ہوکر انکا تابع بننا پڑے گااور انگریزی ٹوپی اسلامی عمامے کی جگہ لے گی اور جب خود گھڑے گھڑائے صاحب بہادرہوگئے تو سمجھ لیجئے کہ اب گھر کے قدیم اصول و رواج کی خیر نہیں، کیونکہ یہ کسے کسائے صاحب بہادرکسی مسند پر نہیں بیٹھ سکتے ، دستر خوان پر کھانا تناول نہیں فرما سکتے ، نماز کیلئے بار بار وضو نہیں کر سکتے ۔ غرض گھر کا پرانا فرنیچر ، رخصت ، طہارت و عبادت رخصت،''. ...... دیکھ لیا ایک انگریزی جوتے کی آفت کہاں تک پہنچی اور کس طرح اس نے تمہارے دین او ر دنیا کو تباہ کر ڈالا، حقیقت میں گناہوں کا ایک سلسلہ ہے ۔ جب انسان ایک خطا کرتا ہے تو دوسرااس سے خودبخود لگ جاتا.. ایک حدیث میں ہے کہ نیکی کی فوری جزا یہ ہے کہ اس کے دوسری نیکی کی توفیق ہوتی ہے اور گناہ کی فوری سزا یہ ہے کہاس کے بعددوسرے گناہ میں مبتلا ہوجاتا ہے۔''

ہمارا دین ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جس میں زندگی کے ہر گوشے میں ہمارے لیے کامل ہدایت موجود ہے، ہمارے پاس امور مملکت سے لے انفرادی زندگی تک ہر معاملے میں نا صرف احکامات ہیں بلکہ آپﷺ کی صورت میں ایک بہترین عملی نمونہ بھی ہمارے سامنے ہیں۔ ارشاد باری تعالہ ہے کہ '' تم کو رسول اللہ ﷺ کی پیروی بہتر ہے'' (الاحزاب:۲۱)۔ چنانچہ اسلام ہم سے اس بات کا متقاضی ہے کہ ہم ایسی قوم بنیں جس کی دوسر ی قومیں تقلید کریں مگرہمارا یہ حال ہو چکاہے کہ ہم ہر معاملے میں اہل مغرب کی تہذیبی چکاچوند کا شکارہیں، یہ سلسلہ مسلمان جیسی شاندار قوم کی وقار کے عین خلاف ہے ،
بقول علامہ اقبالؒ
اپنی ملت پہ قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمیﷺ
اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اس روشن خیالی کے دھوکے سے نکل کر دامن سنت نبویﷺ میں آباد ہوجائیں، یہود نصارٰی کی نقالی کے بجائے آپ ﷺ اور تقلید میں عافیت جانیں۔ اپنی قومی و ملی شناخت اور اپنے آباء کے ورثے پر فخر کرتے ہوئے قوموں کی برادری میں غیرت مند اور خودمختار قوم کی حیثیت سے آگے بڑھیں۔ شروع میں دقت آئیگی مغربی یلغار کے ترنوالے جگہ جگہ روکاوٹیں پیدا کرینگے ، لوگ آپ کا مذاق اڑائیں گے ، آپ کو ملازمتوں سے برخاست کیا جائے گا ، مگر ایسے لمحات میں یہ یاد کیجیے گا کہ قرون او لیٰ کے مسلمانوں نےکس قدر سخت رکاوٹیں عبور کرتے ہوئے اللہ کی رضاحاصل کی اور پھر خود اللہ نے کہا '' وہ مجھ سے راضی اور میں ان سے راضی
'' بقو ل شاعر
ان پتھروں پہ چل کے اگر آسکو تو آؤ
میرے گھر کے راستو ں میں کوئی کہکشاں نہیں ہے
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
مرد ریشمی لباس نہ پہنیں اور نہ ہی چمکیلے شوخ لباس:

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا کہ ''جو کوئی دنیا میں ریشمی کپڑاپہنے اس کو آخرت میں یہ کپڑا نہیں ملے گا''(صحیح بخاری)۔ اسی طرح حضرت انس بن مالکؓ فرماتے ہیں کہ حضوررﷺنے مردوں کو زعفران کے رنگ(زرق برق لباس) سے منع فرمایا'' (صحیح بخاری)۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
زینت کے لئے لباس پہننا:

جہاں اسلام نمود نمائش ، بدتہذیبی اور عریانیت کے خلاف ہے وہاں زیب و زینت سے ہرگز نہیں روکتا اچھا دِکھائی دیناتمام انسانوں کا حق ہے اورایک حد میں زیب و زینت اور بناؤ سنگار جائز ہی نہیں بلکہ مستحب بھی ہے ، ارشاد باری تعالی ہے: ''اے اولاد آدم ہم نے تم پر پوشاک اتاری کہ تمہاری ستر ڈھانکے اور تمہارے بدن کو زینت دے'' (سورہ الاعراف:۲۶)۔

جو لوگ باوجود استطاعت کے اجڑے ہوئے، بے سلیقہ اورپرانے کپڑے پہنتے ہیں انکا یہ عمل ہرگز اسلام پر نہیں بلکہ سنت نبویﷺکے خلاف ہے، ' 'حضرت براء کہتے ہیں کہ آپ ﷺ میانہ قامت تھے، میں نے آپﷺ کو ایک سرخ کپڑے پہنے ہوئے دیکھا ، اتنا خوبصورت میں نے کسی کو نہیں دیکھاْ '' (صحیح بخاری)۔

صاف ستھرا اورلباس کا طاہر ہونا:
اسلام دین فطرت اور صفائی کو پسند کرتا ہے آنحضرتﷺ کا ارشاد ہے کہ'' طہارت نصف ایمان ہے'' اسلام میں ایسا لباس جائز نہیں جس پر نجاست لگی ہو اسی طرح میلا لباس بھی ناپسندیدہ ہے ۔آپ ﷺ ہمیشہ صاف ستھرے اور پاک لباس زیب تن فرماتے ، اور صحابہ آپ کی تقلید کرتے تھے ۔
اپنی مالی استطاعت کے مطابق لباس پہننا۔

مسلمانوں کو ا پنی مالی استطاعت کے مطابق لباس پہننا چاہیئے۔ غریب لوگوں کا شاہانہ لبا س پہننا فضول خرچی اور امیر لوگوں کا معمولی لبا س پہننا بخل اور ناشکری اور دونوں باتیں اسلام میں منع ہیں۔ آپﷺنے شاہانا لباس بھی پہنا اور معمولی لباس بھی ،مقصد دنوں کے لیے اپنی مثال قائم کرنا تھی۔ دونوں کو چاہئے کہ وہ حد اعتدال کی راہ پر رہیں امیر اتنا زیادہ شاہانا لباس بھی نہ پہنیں کہ غریبوں کے دل میں حرص اور احساس کمتری پیداہو، اور غریب اتنا گھٹیا لباس نہ پہنیں کی دیکھنے والا اسے حقیر اور کمتر جانے۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
مرد اپنے لباس کو ٹخنے سے نیچے نہ کریں:

مر د کا اپنے لباس کو ٹخنے سے نیچے گرانا سخت گناہ ہے ، اس حوالے سے بیشمار صحیح حدیثیں سے موجود ہیں جن میں سخت وعیدیں آئی ہیں۔
ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا
''جو کپڑا ٹخنے سے نیچے ہو جہنم میں لے جائے گا''(صحیح بخاری) ۔

ایک اورحدیث میں ہے کہ
'' ایک صحابی آپ ﷺ کے سامنے نماز ادا کرکے حاضر ہوئے تو آپ ﷺ نے انہیں اپنی نماز دہرانے کا حکم دیا، نماز دہرانے کے بعد صحابی دوبارہ حاضر ہوئے اور آپ ﷺ سے نماز دہرانے کے متعلق سوال کیا آپ ﷺ نے جواب دیا کہ تمہارا لباس تمہارے ٹخنے سے نیچے تھا اسلیئے تمہاری نماز نہیں ہوئی تھی'' (ابوداود)۔

آج کل بعض لوگ تواترکے ساتھ یہ غلط فہمیاں پھلا رہے ہیں کہ اسلام میں کپڑے خاص طور پر پینٹ کو ٹخنوں سے اوپر کرنے کے لئے نیچے سے اوپر کی طرف فولڈ کرنا منع ہے۔ ایسی بات بالکل من گھڑت ہے اور اس میں کوئی سچائی نہیں ، صحیح حدیثوں کے ذخائر میں ایسی کوئی بات ہم تک نہیں پہنچی۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سفید لباس کو پسند فرمایا ہے اور اس کی ترغیب بھی دی ہے جیسا کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:

''تم سفید لباس لازم پکڑو اس کو تمہارے زندہ لوگ پہنیں اور اس میں اپنے مردوں کو کفن دو یقینا یہ تمہارے بہترین کپڑوں میں سے ہے۔''

(ابو دائود۴۰۶۱، ابنِ ماجہ۵۶۶، ترمذی۵۴)
''سمرة بن جندب رضی اللہ عنہ نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، سفید لباس پہنو یقینا یہ بہت زیادہ و عمدہ ہے اور اس میں اپنے مردوں کو کفن دو۔''

(ترمذی۲۳۸۱۱، ابنِ ماجہ۳۵۸۷، نسائی ، طیالسی۱۸۰۰)
1779275_765480426798418_1760368221_n.jpg
 
Top