• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تلقین المیت سے متعلق روایات کا تحقیقی جائزہ

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
263
پوائنٹ
142
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

تلقین المیت سے متعلق روایات کا تحقیقی جائزہ


اس تحریر کو رومن اردو میں پڑھنے اور اسکین پیجیس کے لئے یہاں کلک کریں
https://ahlehadithhaq.wordpress.com/2016/11/18/talqeen-al-mayyat-se-mutaalliq-riwayaat-ka-tahqeeqi-jaizah/

بعض لوگ تلقین المیت ثابت کرنے کے لئے حدیث پیش کرتے ہیں:
"حَدَّثَنَا أَبُو عَقِيلٍ أَنَسُ بْنُ سَلْمٍ الْخَوْلَانِيُّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْعَلَاءِ الْحِمْصِيُّ، ثنا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ، ثنا عَبْدُ اللهِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْقُرَشِيُّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ اللهِ الْأَوْدِيِّ، قَالَ: شَهِدْتُ أَبَا أُمَامَةَ وَهُوَ فِي النَّزْعِ، فَقَالَ: إِذَا أَنَا مُتُّ، فَاصْنَعُوا بِي كَمَا أَمَرَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نصْنَعَ بِمَوْتَانَا، أَمَرَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: " إِذَا مَاتَ أَحَدٌ مِنْ إِخْوَانِكُمْ، فَسَوَّيْتُمِ التُّرَابَ عَلَى قَبْرِهِ، فَلْيَقُمْ أَحَدُكُمْ عَلَى رَأْسِ قَبْرِهِ، ثُمَّ لِيَقُلْ: يَا فُلَانَ بْنَ فُلَانَةَ، فَإِنَّهُ يَسْمَعُهُ وَلَا يُجِيبُ، ثُمَّ يَقُولُ: يَا فُلَانَ بْنَ فُلَانَةَ، فَإِنَّهُ يَسْتَوِي قَاعِدًا، ثُمَّ يَقُولُ: يَا فُلَانَ بْنَ فُلَانَةَ، فَإِنَّهُ يَقُولُ: أَرْشِدْنَا رَحِمَكَ اللهُ، وَلَكِنْ لَا تَشْعُرُونَ. فَلْيَقُلْ: اذْكُرْ مَا خَرَجْتَ عَلَيْهِ مِنَ الدُّنْيَا شَهَادَةَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، وَأَنَّكَ رَضِيتَ بِاللهِ رَبًّا، وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا، وَبِمُحَمَّدٍ نَبِيًّا، وَبِالْقُرْآنِ إِمَامًا، فَإِنَّ مُنْكَرًا وَنَكِيرًا يَأْخُذُ وَاحِدٌ مِنْهُمْا بِيَدِ صَاحِبِهِ وَيَقُولُ: انْطَلِقْ بِنَا مَا نَقْعُدُ عِنْدَ مَنْ قَدْ لُقِّنَ حُجَّتَهُ، فَيَكُونُ اللهُ حَجِيجَهُ دُونَهُمَا ". فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللهِ، فَإِنْ لَمْ يَعْرِفْ أُمَّهُ؟ قَالَ: «فَيَنْسُبُهُ إِلَى حَوَّاءَ، يَا فُلَانَ بْنَ حَوَّاءَ»"
کہ سعید بن عبداللہ الاودی بیان کرتے ہیں کہ میں سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں اس وقت حاضر ہوا،جب وہ جان کنی کی حالت میں تھے،وہ فرمانے لگے: جب میں فوت ہو جاؤں تو میرے ساتھ اسی طرح کا معاملہ کرنا،جس طرح ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مردوں کے ساتھ کرنے کا حکم دیا ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم ننے ہمیں حکم فرمایا تھا کہ جب تم میں سے کوئی فوت ہو جائے اور تم اسکی قبر پر مٹی برابر کر چکو تو تم میں سے ایک شکص اسکی قبر کے سرہانے کی جانب کھڑا ہو کر کہے،اے فلاں عورت کے فلاں بیٹے! جب وہ یہ کہے گا تو مردہ اٹھ کر بیٹھ جائے گا،مردہ یہ بات سنے گا،لیکن جواب نہیں دیگاـ پھر وہ کہے:اے فلاں عورت کے بیٹے فلاں!وہ کہے گا اللہ تجھ پر رحم کرے! ہماری رحنمائی کر،لیکن تم اسکا شعور نہیں رکھتےـ پھر کہے کہ تو اس بات کو یاد کر،جس پر دنیا سے رخصت ہوا ہےـ اس بات کی گواہی کہ اللہ کے سواء کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ـ تو اللہ کے رب ہونے،محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے،اسلام کے دین ہونے اور قرآن کے امام ہونے پر تھاـ منکر اور نکیر میں سے ایک،دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر کہتا ہے،چلو! جس آدمی کو اس کا جواب بتا دیا گیا ہو،اس کے پاس ہم نہیں بیٹھتےـ چنانچہ دونوں کے سامنے اللہ تعالی اسکا حامی بن جائے گاـ ایک آدمی نے عرض کی،اللہ کے رسول!اگر وہ (تلقین کرنے والا) اس کی (مرنے والے کی) ماں کو نہ جانتا ہو تو (کیا کرے؟) فرمایا: وہ اسے حواء علیہ السلام کی طرف منسوب کر کے کہے، اے حواء کے فلاں بیٹے ـ (المعجم الکبیر للطبرانی ج ۸ ص ۲۵۰،الدعاء للطبرانی ج ۳ ص ۲۹۸،وصایا علماء عند حضور الموت لابن زبیر ص ۴۶-۴۷،الشافی لعبدالعزیر نقلاً عن تلخیص الحبیر لابن حجر ج ۲ ص ۱۳۶،اتباع الاموات للابراھیم الحربی نقلاً عن المقاصد الحسنہ للسخاوی ص ۲۶۵،الاحکام لضیاء المقدسی نقلاً عن المقاصد الحسنہ لسخاوی ص ۲۶۵)

اس روایت کے کچھ شواہد بھی ہیں ان شاء اللہ اس کا بھی ذکر آگے آئے گا
تبصرہ:یہ سند سخت ترین ضعیف ہے کینکہ
۱-اسماعیل بن عیاش کی اہل حجاز سے بیان کردہ روایت ضعیف ہوتی ہے
مزکورہ روایت بھی اہل حجاز سے ہے لہذا ضعیف ہے

امام ابن عبدالبر رح (متوفی ۴۶۳ ھ) فرماتے ہیں:
"وَإِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ (عِنْدَهُمْ) أَيْضًا غَيْرُ مَقْبُولِ الْحَدِيثِ إِذَا حَدَّثَ عَنْ غَيْرِ أَهْلِ بَلَدِهِ فَإِذَا حَدَّثَ عَنِ الشَّامِيِّينَ فَحَدِيثُهُ مُسْتَقِيمٌ وَإِذَا حَدَّثَ عَنِ الْمَدَنِيِّينَ وَغَيْرِهِمْ مَا عَدَا الشَّامِيِّينَ فَفِي حَدِيثِهِ خَطَأٌ كَثِيرٌ وَاضْطِرَابٌ وَلَا أَعْلَمُ بَيْنَهُمْ خِلَافًا أَنَّهُ لَيْسَ بِشَيْءٍ فِيمَا رَوَى عَنْ غَيْرِ أَهْلِ بَلَدِهِ"
کہ اسماعیل بن عیاش جب اپنے علاقے والوں کے علاوہ کسی اور سے بیان کرے،تو محدثین کے ہاں اس کی حدیث بھی قبول نہیں ہوتی ـ جب وہ شامی لوگوں سے بیان کرے تو اس کی حدیث صحیح ہوتی ہےـ جب شامیوں کے علاوہ مدنیوں اور دیگر علاقے والوں سے بیان کرے تو اس کی روایت میں بہت زیادہ غلطی اور اضطراب ہوتا ہےـ میری معلومات کے مطابق محدثین کرام کا اس بات میں کوئی اختلاف نہیں کہ جب اسماعیل بن عیاش اپنے علاقے والوں کے علاوہ کسی سے بیان کرے تو اس کی حدیث قابل التفاق نہیں ہوتیـ (التمھید لابن عبدالبر ج ۶ ص ۴۲۹)

امام یعقوب بن سفیان الفسوی رح (متوفی ۲۷۷ ھ) فرماتے ہیں:

"وَتَكَلَّمِ قَوْمٌ فِي إِسْمَاعِيلَ، وَإِسْمَاعِيلُ ثِقَةٌ عَدْلٌ أَعْلَمُ النَّاسِ بِحَدِيثِ الشَّامِ، وَلَا يَدْفَعُهُ دَافِعٌ، وَأَكْثَرُ مَا تَكَلَّمُوا قَالُوا: يُغْرِبُ عَنْ ثِقَاتِ الْمَدَنِيِّينَ وَالْمَكِّيِّينَ"
کہ کچھ اہل علم نے اسماعیل بن عیاش پر جرح کی ہےـ اسماعیل ثقہ اور عدل ہیں،شام کی حدیث کو سب سے بڑھ کر جاننے والے ہیںـ کوئی بھی ان کو رد نہیں کرتا،زیادہ سے زیادہ انکے بارے میں یہ کہا گیا ہے کہ یہ مدینہ اور مکہ میں رہنے والے ثقہ راویوں سے منکر روایات بیان کرتے ہیں ۔ (المعرفہ والتاریخ ج ۲ ص ۴۲۴)

امام ابن حجر عسقلانی رح (متوفی ۸۵۲ ھ) فرماتے ہیں:

"صدوق في رواية عن أهل بلده مخلط في غيرهم"
کہ جب اپنے اہل عراق سے بیان کرے تو صدوق ہوتا ہے اور جب کسی اور سے بیان کرے تو حافظہ کی خرابی کا شکار ہوتا ہےـ (تقریب التھذیب ص ۱۴۲ رقم ۴۷۷)
یہ روایت بھی حجازیوں سے ہے،لہذا ضعیف ہےـ یہ جرح مفسر ہےـ

۲- اس روایت کا ایک راوی عبداللہ بن محمد القرشی مجہول ہے اسکی توثیق کہیں دستیاب نہیں ،چنانچہ امام ذہبی رح (متوفی ۷۴۸ ھ) فرماتے ہیں:

"عبدالله،لا يدرى من هو"
کہ یہ عبداللہ نامی راوی، معلوم نہیں ہو سکا کہ کون ہےـ (میزان الاعتدال ج ۳ ص ۲۴۴ تحقیق عمران بن ھارون)

۳- یحیی بن ابی کثیر مدلس ہیں

امام دارقطنی رح (متوفی ۳۸۵ ھ) فرماتے ہیں:

"ويحيى بن أبي كثير معروف بالتدليس"
کہ اور یحی بن ابی کثیر تدلیس میں مشہور ہیں. (علل الدارقطنی ج ۱۱ ص ۱۲۴)

امام حافظ ابن حجر رح نے یحیٰی بن کثیر کو طبقات ثالثہ میں ذکر کیا ہے. (النکت علی ابن الصلاح ص ۶۴۳)

اور ایک حدیث پر ان کے عنعنہ کی وجہ سے نقد کرتے ہوئے کہتے ہیں:

"وَقَالَ ابْنُ الْقَطَّانِ: حَدِيثُ جَابِرٍ صَحيِحٌ؛ لأَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ثِقَةٌ، وَقَدْ صَحَّ سَمَاعُهُ مِنْ جَابِرٍ.قُلْتُ: إِلا أَنَّ يَحْيَى بْنَ أَبِي كَثِيرٍ مُدَلِّسٌ"
کہ اور ابن قطان نے فرمایا کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث صحیح ہے اور بیشک محمد ابن عبدالرحمٰن ثقہ ہیں اور اس نے سنا ہے جابر رضی اللہ عنہ سے اور میں کہتا ہوں مگر بیشک یحیٰی بن ابی کثیر مدلس ہیں. (اتھاف المھرہ ج ۳ ص ۳۲۵)

۴- اس کے ایک راوی سعید بن عبداللہ اودی کی توثیق نہیں مل سکی اسی لئے حافظ ہیثمی رح فرماتے ہیں:

"وفی إسنادہ جماعة،لم أعرفهم"
کہ اس (طبرانی) کی سند میں کئی راوی ایسے ہیں جنھیں میں پہچان نہیں سکا. (مجمع الزوائد ج ۳ ص ۴۵)

لہذا حافظ ابن حجر رح کا یہ کہنا صحیح نہیں:

"إسناده صالح،وقد قواه الضياء في أحكامه"
کہ اس کی سند حسن ہے.امام ضیاء مقدسی نے اسے اپنی کتاب احکام میں اسے مضبوط قرار دیا ہے.(التلخیص الحبیر ج ۲ ص ۱۳۶،۱۳۵ ح ۷۹۶)

جبکہ خود حافظ ابن حجر رح ایک مقام پر اس حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں:

"هذا حديث غريب،وسند الحديث من الطريقين ضعيف جدا"
کہ یہ حدیث غریب ہے اور اسکی دونوں سندیں ضعیف ہیں. (الفتوحات الربانیہ ج ۴ ص ۱۳۸)

اسی لئے حافظ سخاوی رح نے لکھا ہے کہ:

"وضعفه ابن الصلاح، ثم النووي، وابن القيم، والعراقي، وشيخنا في بعض تصانيفه،"
ہمارے شیخ امام ابن حجر رح نے اپنی بعض تصانیف میں اس حدیث کو ضعیف کہا ہے. (المقاصد الحسنة ص ۲۶۵)

حافظ ابن حجر رح کے شیخ حافظ عراقی رح فرماتے ہیں:

"اخرجه الطبراني اسناد ضعيف"
کہ اس روایت کو امام طبرانی نے ضعیف سند کے ساتھ بیان کیا ہے. (تخريج أحاديث إحياء علوم الدين ص ۲۶۱۴و تخريج أحاديث الإحياء = المغني عن حمل الأسفار ص ۱۸۷۵)

امام نووی رح فرماتے ہیں:

"اسنادہ ضعیف"
کہ اس کی سند ضعیف ہے
(المجموع شرح المھذب ج ۵ ص ۲۷۴)

امام ابن صلاح رح فرماتے ہیں:

"لَيْسَ بالقائم إِسْنَاده"
کہ اس کی سند قابل حجت نہیں. (فتاوی ابن صلاح ص ۲۶۱)

امام ابن قیم رح فرماتے ہیں:

"ضعيف بِاتِّفَاق أهل الْعلم بِالْحَدِيثِ"
کہ محدثین کرام کا اس حدیث کے ضعیف ہونے پر اتفاق ہے. (تحفتہ المودود ص ۲۱۵)

نیز فرماتے ہیں:

"فلا تقوم به حجة"
کہ اسے دلیل نہیں بنایا جا سکتا ہے
(تھذیب السنن ص ۲۳۳۸)

امام ہیثمی رح (متوفی ۸۰۷ ھ) فرماتے ہیں:

"وفی إسنادہ جماعة،لم أعرفهم"
کہ اس (طبرانی) کی سند میں کئی راوی ایسے ہیں جنھیں میں پہچان نہیں سکا.(مجمع الزوائد ج ۳ ص ۴۵)

امام سیوطی رح (متوفی ۹۱۱ ھ) فرماتے ہیں:

"التَّلْقِينَ لَمْ يَثْبُتْ فِيهِ حَدِيثٌ صَحِيحٌ وَلَا حَسَنٌ، بَلْ حَدِيثُهُ ضَعِيفٌ بِاتِّفَاقِ الْمُحَدِّثِينَ؛"
کہ (قبر پر) تلقین کرنا کسی صحیح یا حسن حدیث سے ثابت نہیں،بلکہ اس بارے میں مروی حدیث باتفاقِ محدثین ضعیف ہے.(الحاوی للفتاوی ج ۲ ص ۱۹۱)

نیز کہتے ہیں:

"في معجم الطبراني بسند ضعيف"
کہ یہ روایت ضعیف سند کے ساتھ معجم طبرانی میں موجود ہے.(الدرر المنتثرة في الأحاديث المشتهرة ص ۲۱۵)

لہذا علامہ عینی حنفی رح کا اس کی سند کو صحیح کہنا بے معنی اور ناقابل التفاق ہے. (البنایہ فی شرح الھدایہ ج ۳ ص ۱۷۷)

نیز حافظ ابن ملقن رح کا اس بارے میں یہ کہنا بھی قطعاً صحیح نہیں کہ:

"اسناده،لا أعلم به بأساً"
اس کی سند میں مجھے کوئی حرج معلوم نہیں ہوتا. (البدر المنیر ج ۵ ص ۳۳۴)

کیونکہ ایک مقام پر وہ خود اسماعیل بن عیاش کے بارے میں لکھتے ہیں:

"وَهُوَ عَن غير الشاميين لَيْسَ بشي عِنْد الْجُمْهُور."
کہ جمہور محدثین کرام کے نزدیک اس کی غیر شامیوں سے روایت ناقابل التفاق ہے. (البدر المنیر ج ۴ ص ۵۴۳)
اور اس سند میں اسماعیل بن عیاش غیر شامیوں سے روایت کر رہا ہے
ثابت ہوا کہ ائمہ حدیث اور علمائے سنت کے نزدیق یہ روایت ضعیف ہے

علامہ صنعانی رح (متوفی ۱۱۶۲ ھ) فرماتے ہیں:

"وَيَتَحَصَّلُ مِنْ كَلَامِ أَئِمَّةِ التَّحْقِيقِ أَنَّهُ حَدِيثٌ ضَعِيفٌ"
کہ محققین ائمہ دین کے کلام سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے.(سبل السلام شرح بلوغ المرام ج ۲ ص ۳۲۶)

تنبیہ: اس روایت کو ضعیف قرار دینے کے بعد حافظ نووی رح (متوفی ۶۷۶ ھ) لکھتے ہیں:

"وَقَدْ اتَّفَقَ عُلَمَاءُ الْمُحَدِّثِينَ وَغَيْرُهُمْ عَلَى الْمُسَامَحَةِ فِي أَحَادِيثِ الْفَضَائِلِ وَالتَّرْغِيبِ وَالتَّرْهِيبِ"
کہ محدثین کرام اور دیگر اہل علم کا فضائل اور ترغیب و ترہیب پر مبنی احادیث کے بارے میں نرمی برتنے پر اتفاق ہے.(المجموع شرح المھذب ج ۵ ص ۲۷۴)

حافظ نووی رح کے رد و جواب میں مشہور اہل حدیث عالم،علامہ ناصر الدین البانی رح (متوفی ۱۴۲۰ ھ) فرماتے ہیں:

"ولا يرد هنا ما اشتهر من القول بالعمل بالحديث الضعيف في فضائل الأعمال، فإن هذا محله فيما ثبت مشروعيته بالكتاب أو السنة الصحيحة، أما ما ليس كذلك فلا يجوز العمل فيه بالحديث الضعيف، لأنه تشريع ولا يجوز ذلك بالحديث الضعيف، لأنه لا يفيد إلا الظن المرجوح اتفاقا فكيف يجوز العمل بمثله؟"
کہ فضائل اعمال میں ضعیف حدیث پر عمل کرنے کے بارے میں جو بات مشہور ہے،اس کا اطلاق یہاں نہیں ہو سکتا.اس کا اطلاق تو ان اعمال پر ہوتا ہے جس کی مشروعیت قرآنِ کریم اور صحیح احادیث سے ثابت ہے. جو عمل کتاب و سنت سے ثابت نہ ہو،اس بارے میں ضعیف حدیث پر عمل جائز نہیں،کیونہ یہ (ثواب کے لئے عمل کرنا) شریعت ہے اور شریعت ضعیف حدیث سے ثابت نہیں ہوتی.ضعیف حدیث بالاتفاق مرجوح ظن کا فائدہ دیتی ہے.ایسی کمزور دلیل پر عمل کرنا کیونکر جائز ہوا؟. (سلسلتہ الاحادیث الضعیفہ ج ۲ ص ۶۵)

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رح فرماتے ہیں:

"ولم يقل أحد من الأئمة أنه يجوز أن يجعل الشيء واجباً أو مستحباً بحديث ضعيف ، ومن قال هذا فقد خالف الإجماع"
کہ ائمہ دین میں سے کسی نے یہ نہیں کہا کہ ضعیف حدیث کی بنیاد پر کسی عمل کو واجب یا مستحب کہنا جائز ہے. جو شخص ایسا دعوی کرتا ہے وہ اجماعِ امت کا مخالف ہے. (مجموع الفتاوی ابن تیمیہ ج ۱ ص ۲۵۱)
بعض اہل علم کا خیال ہے کہ اس ضعیف حدیث کے کئی شواہد بھی ہیں.ہم وہ شواہد بھی قرائن کرام کے سامنے پیش کر رہے ہیں،ملاحظہ فرمائیں:

(الف) وَأخرج ابْن مَنْدَه عَن أبي أُمَامَة رَضِي الله عَنهُ قَالَ: إِذا مت فدفنتموني فَليقمْ إِنْسَان عِنْد رَأْسِي فَلْيقل: ياصدي بن عجلَان اذكر مَا كنت عَلَيْهِ فِي الدُّنْيَا شَهَادَة أَن لَا إِلَه إِلَّا الله وَأَن مُحَمَّدًا رَسُول الله
سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے،انھوں نے فرمایا: جب میں فوت ہو جاؤں اور تم مجھے دفن کر چکو تو ایک انسان میرے سر کے پاس کھڑے ہو کر کہے : اے صدی بن عجلان (سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ کا نام) اس عقیدے کو یاد کر جس پر تو زندگی میں قائم تھا،یعنی توحید الٰہی و رسالت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اقرار. (الدرر منثور ج ۵ ص ۳۹)

تبصرہ:- یہ اثر بے سند ہونے کی وجہ سے باطل ہے،دین کی بنیاد سند پر ہے

(ب) مزکورہ بالا مرفوع روایت کی ایک دوسری سند بھی ہے:

علي بن حجر، ثنا حماد بن عمرو، عن عبد الله بن محمد القرشي، عن يحيى بن أبي كثير عن سعيد الأودي قال........(المنتقى من مسموعات ص ۱۷ ذکر الموت لابن شاھین، نقلاً عن المقاصد الحسنة ص ۲۶۵)

تبصرہ:- یہ سفید جھوٹ ہے.اس سند کو گڑھنے والا حماد بن عمرو نصیبی ہے
اس کے بارے میں امام یحیی بن معین رح فرماتے ہیں:

"مِمَّنْ يَكْذِبُ وَيَضَعُ الْحَدِيثَ"
کہ یہ کذاب اور حدیث گڑھنے والا راوی ہے. (الکامل فی ضعفاء الرجال ج ۳ ص ۱۰)

امام ابن شاھین رح حماد بن عمرو النصیبی کے بارے میں فرماتے ہیں:

"لم يكن بثقة قد رأيته"
کہ یہ ثقہ نہیں تھا،میں نے اسے دیکھا ہوا ہے. (تاریخ اسماء الضعفاء والکذابین ص ۷۴)

امام ابن حبان رح فرماتے ہیں:

"يضع الْحَدِيث وضعا عَلَى الثِّقَات"
کہ یہ روایات خود گڑھ کر ثقہ راویوں کے ذمے تھوپ دیتا تھا. (المجروحین من المحدثین ج ۱ ص ۳۰۷)

امام بخاری رح فرماتے ہیں:

"مُنكر الحَدِيث ضعفه عَليّ بن حجر"
کہ یہ منکر الحدیث راوی ہے،اسے علی بن حجر نے ضعیف قرار دیا ہے.(تاریخ الصغیر ج ۲ ص ۲۶۵ و تاریخ الکبیر ج ۳ ص ۲۸)

امام حاکم رح فرماتے ہیں:

"يرْوى عَن جمَاعَة من الثِّقَات أَحَادِيث مَوْضُوعَة سَاقِطَة"
کہ یہ کئی ثقہ راویوں سے منسوب کر کے من گھڑت اور سخت ضعیف روایات بیان کرتا ہے. (المدخل الی الصحیح ص ۱۵)

امام ابن عدی رح فرماتے ہیں:

"قد عده السلف فيمن يضع الحديث."
کہ اسے سلف صالحین نے حدیث گڑھنے والوں میں شمار کیا ہے. (الکامل فی الضعفاء ج ۵ ص ۳۹۶)
معلوم ہوا کہ یہ راوی باتفاق محدثین کذاب اور وضّاع ہے.لہذا یہ سند جھوٹی ہے.

امام مسلم رح (متوفی ۲۶۱ ھ) فرماتے ہیں:

"فَأَمَّا مَا كَانَ مِنْهَا عَنْ قَوْمٍ هُمْ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ مُتَّهَمُونَ، أَوْ عِنْدَ الْأَكْثَرِ مِنْهُمْ، فَلَسْنَا نَتَشَاغَلُ بِتَخْرِيجِ حَدِيثِهِمْ،"
کہ جن راویوں پر تمام محدثین کرام کے ہاں یا اکثر کے ہاں حدیث گڑھنے کا الزام ہو،ہم ان کی حدیث بیان کرنے میں مشغول نہیں ہوتے. (مقدمہ صحیح مسلم ص ۷)

اس روایت میں عبداللہ بن محمد قرشی راوی غیر معروف راوی ہے،نیز یحیی بن ابو کثیر مدلس ہے،سماع کی تصریح نہیں کی. پھر سعید ازدی یا سعید اودی بھی مجہول ہے اس کا ایک شاہد یہ بھی ہے جس کو قاضی خلعی نے نقل کیا ہے:
"أَخْبَرَنَا أبو مُحَمَّد إسماعيل بن رجاء [٢٢٢/أ] بن سعيد بن عبيد الله العسقلاني، قال: أَخْبَرَنَا أبو بكر مُحَمَّد بن أَحْمَد الجندري، قال: حَدَّثَنَا أبو مُحَمَّد عبد الله بن أبان بن شداد، قال:حَدَّثَنَا أبو الدرداء هاشم بن مُحَمَّد الأنصاري، قال: حَدَّثَنَا عتبة بن السكن عن أبي زكريا عن جابر عن سعيد الأودي، قال: دخلت على أبي أمامة الباهلي وهو في النزع فقال لي يا سعيد إذا أنا مت فاصنعوا بي كما أمرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم أن نصنع بموتانا، فإنه قال: إذا مات الرجلُ منكم فدفنتموه فليقُمْ أحدُكم عند رأسِهِ فليقلْ يا فلان ابن فلانة فإنه سيسمعُ فليقلْ يا فلان ابن فلانة فإنه سيستوى قاعدًا، فليقلْ يا فلان ابن فلانة فإنه سيقولُ أرشدني رحمك اللَّهُ فيقول: اذكرْ ما خرجتَ عليه من دارالدنيا شهادةُ أن لا إلهَ إلا اللَّهُ وحده لاشريك له وأن مُحَمَّدا عبدُه ورسولُه وأنَّ الساعةَ آتيةٌ لا ريبَ فيها وأنَّ اللهَ يبعثُ من في القبورِ فإنَّ مُنْكرا ونكيرا يأخذُ كلُّ واحدٍ منهما بيدِ صاحبِهِ ويقول له: ما نصنعُ عند رجلٍ قد لُقِّن حُجَّتُه فيكون اللَّهُ حجيجَهما دُونَه" (الفوائد المنتقاة الحسان الصحاح والغرائب (الخلعيات) - مخطوط ج ۲ ص ۳۲۳)

اس کی سند بھی موضوع (من گڑھت) ہے.محدث البانی رح اس کے بارے میں فرماتے ہیں:

"هذا إسناد ضعيف جدا، لم أعرف أحد منهم غير عتبة بن السكن، قال الدارقطني: " متروك الحديث " وقال البيهقي: " واه منسوب إلى الوضع"
کہ یہ حدیث ضعیف ہے.میں عتبہ بن سکن کے علاوہ اس کے راویوں میں سے کسی کو بھی پہچان نہیں پایا اور عتبہ کے بارے میں امام دارقطنی رح فرماتے ہیں کہ وہ متروک الحدیث ہے اور امام بیہقی رح فرماتے ہیں یہ ضعیف راوی ہے اور اس پر حدیثیں گڑھنے کا الزام ہے. (سلسلتہ الاحادیث الضعیفہ ج ۲ ص ۶۴)

عتبہ بن سکن سخت مجروح راوی ہے اس کے بارے میں امام ابن حبان رح فرماتے ہیں:

"يخطىء وَيُخَالف"
کہ یہ غلطیاں کرتا ہے اور ثقہ راویوں کی مخالفت کرتا ہے. (کتاب الثقات ج ۸ ص ۵۰۸)

امام ابن الجوزی رح فرماتے ہیں:

"قَالَ الدَّارَقُطْنِيّ مُنكر الحَدِيث مَتْرُوك الحَدِيث"
کہ امام دارقطنی رح نے اسے منکر الحدیث اور متروک قرار دیا ہے. (الضعفاء والمتروکین لابن الجوزی ج ۲ ص ۱۶۶)

حافظ بزار رح فرماتے ہیں:
"قَدْ رَوَى عَن الأَوْزاعِيّ أَحَادِيثَ لَمْ يُتَابَعْ عَلَيْهَا"
کہ اس نے امام اوزاعی رح کی طرف منسوب کر کے منکر روایات بیان کی ہیں. (مسند البزار ج ۲ ص ۱۰۳)

امام ہیثمی رح فرماتے ہیں:

"وهو متروك"
کہ یہ متروک راوی ہے. (مجمع الزوائد ج ۳ ص ۲۰۲)

اس سند کے دیگر راویوں کی توثیق بھی نہیں ملی.لہذا یہ سند بالکل باطل ہے.

(ج) وَعَنْ ضَمْرَةَ بْنِ حَبِيبٍ أَحَدِ التَّابِعِينَ قَالَ: كَانُوا يَسْتَحِبُّونَ إِذَا سُوِّيَ عَلَى الْمَيِّتِ قَبْرُهُ, وَانْصَرَفَ النَّاسُ عَنْهُ, أَنْ يُقَالَ عِنْدَ قَبْرِهِ: يَا فُلَانُ! قُلْ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ. ثَلَاثُ مَرَّاتٍ, يَا فُلَانُ! قُلْ: رَبِّيَ اللَّهُ, وَدِينِيَ الْإِسْلَامُ, وَنَبِيِّ مُحَمَّدٌ - صلى الله عليه وسلم
ایک تابعی ضمرہ بن حبیب کہتے ہیں کہ جب میت پر قبر کو برابر کر دیا جاتا اور لوگ واپس چلے جاتے تو وہ اس کی قبر کے پاس یہ کہنا مستحب سمجھتے تھے:اے فلاں ! تو لا اله الا الله کہ (تین مرتبہ)،تو کہہ کہ میرا رب اللہ ہے اور میرا دین اسلام ہے اور میرے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں. (سنن سعید بن منصور ،نقلاً عن بلوغ المرام من ادلة الاحكام ص ۱۶۶)

تبصرہ=> اس کی سند ضعیف ہے،اس میں "اشیاخ بن اہل حمص" مجہول و نا معلوم ہیں، لہذا یہ ناقابل حجت اور ناقابل عمل ہے.

(د) حَدَّثَنَا عَبْدَانُ بْنُ أَحْمَدَ، ثنا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ، ح وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَالِدٍ الرَّاسِبِيُّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدِ بْنِ حِسَابٍ، قَالَا: ثنا مُحَمَّدُ بْنُ حُمْرَانَ، عَنْ عَطِيَّةَ الرَّعَّاءِ، عَنِ الْحَكَمِ بْنِ الْحَارِثِ السُّلَمِيِّ أَنَّهُ غَزَا مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثَ غَزَوَاتٍ، قَالَ: قَالَ لَنَا: «إِذَا دَفَنْتُمُونِي ورَشَشْتُمْ عَلَى قَبْرِي الْمَاءَ، فَقُومُوا عَلَى قَبْرِي وَاسْتَقْبِلُوا الْقِبْلَةَ وَادْعُوا لِي»
حکم بن حارث السلمی نے کہا جب تم مجھے دفن کر دو اور میری قبر پر پانی چھڑک دو تو میری قبر پر کھڑے ہو کر قبلے کی طرف رخ کرو اور میرے لئے دعا کرو. (المعجم الکبیر للطبرانی ج ۳ ص ۲۱۵)

تبصرہ=> اس کی سند ضعیف ہے، حافظ ہیثمی رح فرماتے ہیں:
"عَطِيَّةُ الدَّعَّاءُ، وَلَمْ أَعْرِفْهُ."
کہ عطیہ دعا کو میں نہیں پہچانتا. (مجمع الزوائد ج ۳ ص ۴۴)

دوسری بات یہ ہے کہ اس کا مروجہ تلقین سے کیا تعلق ہے؟ قبر پر کھڑے ہو کر دعا کرنا تو جائز ہے. حیرانی والی بات تو یہ ہے کہ امام ابن حجر رح نے اسے حدیث ابو امامہ رضی اللہ عنہ کا شاہد بنایا ہے.

(و) حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْكَلْبِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا إِدْرِيسُ الْأَوْدِيُّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، قَالَ: حَضَرْتُ ابْنَ عُمَرَ فِي جِنَازَةٍ، فَلَمَّا وَضَعَهَا فِي اللَّحْدِ، قَالَ: «بِسْمِ اللَّهِ، وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَعَلَى مِلَّةِ رَسُولِ اللَّهِ»
امام سعید بن مسیب تابعی رح کہتے ہیں کہ میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایک جنازے میں حاضر ہوا.جب انہوں نے میت کو لحد میں رکھا تو فرمایا: اللہ کے نام سے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ پر. (سنن ابن ماجہ ج ۱ ص ۴۹۵ ح ۱۵۵۳،المعجم الکبیر ج ۱۲ ص ۲۷۴ ح ۱۳۰۹۴،سنن الکبری للبیھقی ج ۴ ص ۵۵)

تبصرہ=> یہ سخت ترین ضعیف روایت ہے،کیونکہ
اس کا راوی حماد بن عبدالرحمن کلبی ضعیف ہے

حافظ ابن حجر عسقلانی رح نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے. (تقریب التھذیب ص ۲۶۹)

امام بوصیری رح (متوفی ۸۴۰ ھ) فرماتے ہیں:

"هَذَا إِسْنَاد فِيهِ حَمَّاد بن عبد الرَّحْمَن وَهُوَ مُتَّفق على تَضْعِيفه"
کہ اس سند میں حماد بن عبدالرحمن راوی موجود ہے جس کو ضعیف قرار دینے پر تمام محدثین متفق ہیں. (مصباح الزجاجة في زوائد ابن ماجة ج ۲ ص ۱۴۸)

ادریس بن صبیح اودی راوی مجہول ہے
امام ابو حاتم الرازی نے اسے مجہول قرار دیا ہے. (الجرح و تعدیل ج ۲ ص ۲۶۴)

امام ابن حبان رح فرماتے ہیں:

"يغرب ويخطئ على قلته"
کہ بہت کم روایات بیان کرنے کے باوجود اس کی روایات میں نکارت اور غلطیاں موجود ہیں. (الثقات ج ۱ ص ۷۸)

امام ابن عدی رح نے اسے ادریس بن یزید اودی قرار دیا ہے
امام ابن حجر رح فرماتے ہیں:

"وقول ابن عدى اصوب"
کہ امام ابن عدی رح کا قول ہی زیادہ صائب ہے. (تھذیب التھذیب ج ۱ ص ۱۷۱ دوسرا نسخہ ج ۱ ص ۱۹۵)

یہ بات بے دلیل ہونے کی وجہ سے درست نہیں

اس ضعیف روایت کا مروجہ بدعتی تلقین سے دور کا بھی تعلق نہیں. معلوم ہوا شواہد کی رٹ لگانے والوں کا دامن بالکل خالی ہے

فائدہ نمبر ۱ => امام حلبی رح امام سبکی رح سے نقل کرتے ہیں:

"حديث تلقين النبي صلى الله عليه وسلم لابنه ليس له أصل أي صحيح أو حسن"
کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے بیٹے کو تلقین کرنے والی روایت کی کوئی صحیح یا حسن سند موجود نہیں. (سیرة الحلبية ج ۳ ص ۴۳۷)

فائدہ نمبر ۲ => امام ابن قیم رح (متوفی ۷۵۱ ھ) فرماتے ہیں:

"فَهَذَا الحَدِيث وَإِن لم يثبت فإتصال الْعَمَل بِهِ فِي سَائِر الْأَمْصَار والأعصار من غير انكار كَاف فِي الْعَمَل بِهِ"
کہ یہ حدیث اگر چہ صحیح ثابت نہیں،لیکن تمام علاقوں میں ہر زمانے میں اس پر بغیر انکار کے عمل ہوتا رہا ہے. یہی بات اس پر عمل کے جائز ہونے کے لئے کافی ہے. (کتاب الروح ص ۶۰)

کتاب الروح کے متعلق علامہ البانی رح فرماتے ہیں:

"فإني في شك كبير من صحة نسبة " الروح " إليه أو لعله ألفه في أول طلبه للعلم. والله أعلم"
کہ میں کتاب الروح کی علامہ ابن قیم رح کی طرف نسبت کے حوالے سے کافی شک و شبہ میں مبتلا ہوں.(یا تو یہ ان کی تصنیف ہی نہیں) یا پھر انہوں نے اپنے طلب علم کے اوائل میں اسے تالیف کیا تھا. واللہ اعلم!. (تحقیق الآیات البینات ص ۶۰)

ہو سکتا ہے یہ عبارت الحاقی ہو،یعنی کسی ناسخ کی غلطی سے درج ہو گئی ہو،کیونکہ امام ابن قیم رح خود سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

"وَلَمْ يَكُنْ يَجْلِسُ يَقْرَأُ عِنْدَ الْقَبْرِ، وَلَا يُلَقِّنُ الْمَيِّتَ كَمَا يَفْعَلُهُ النَّاسُ الْيَوْمَ،"
کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبر کے پاس قراءت کرنے نہیں بیٹھتے تھے،نہ ہی (قبر پر) میت کو تلقین کرتے تھے،جیسا کہ موجودہ زمانے میں لوگ کرتے ہیں. (زاد المعاد ج ۱ ص ۵۰۳)

تلقین المیت کو ثابت کرنے کے لئے سنن ابن ماجہ سے یہ حدیث بھی پیش کی جاتی ہے:

"حدثنا محمد بن بشار قال: حدثنا أبو عامر قال: حدثنا كثير بن زيد، عن إسحاق بن عبد الله بن جعفر، عن أبيه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لقنوا موتاكم: لا إله إلا الله الحليم الكريم، سبحان الله رب العرش العظيم، الحمد لله رب العالمين " قالوا: يا رسول الله كيف للأحياء؟ قال: «أجود، وأجود»"
حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اپنے مرنے والوں کو ان الفاظ کی تلقین کرو ": لا إله إلا الله الحليم الكريم، سبحان الله رب العرش العظيم، الحمد لله رب العالمين" "اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں جو حلیم و کریم ہے ،پاک ہے اللہ جو عرش عظیم کا مالک ہے.سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے"صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! زندوں کے لئے یہ ذکر کیسا ہے؟ فرمایا: "زیادہ اچھا زیادہ عمدہ". (سنن ابن ماجہ ج ۲ ص ۴۲۸)

تبصرہ=> یہ روایت ضعیف ہے اس میں دو علتیں ہیں

۱- إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ مجہول ہے کسی ایک بھی امام نے اس کی توثیق نہیں کی ہے

۲- کثیر بن زید بھی ضعیف ہے
امام علی بن مدینی رح (متوفی ۲۳۴ ھ) فرماتے ہیں:

"صَالح وَلَيْسَ بِالْقَوِيّ"
کہ نیک و صالح تھا مگر قوی نہیں تھا. (سؤالات ابن أبي شيبة لابن المديني ص ۵ و شاملہ ص ۹۵)

امام ابو زرعہ الرازی رح (متوفی ۲۶۴ ھ) فرماتے ہیں:

"هو صدوق فيه لين"
کہ وہ سچا تھا لیکن حدیث میں کمزور تھا. (الجرح و تعدیل ج ۷ ص ۱۵۱ و سند صحیح)

امام ابو حاتم الرازی رح (متوفی ۲۷۷ ھ) فرماتے ہیں:

"صالح ليس بالقوى"
کہ نیک و صالح تھا مگر قوی نہیں تھا. (الجرح و تعدیل ج ۷ ص ۱۵۱)

امام نسائی رح (متوفی ۳۰۳ ھ) فرماتے ہیں:

"كثير بن زيد ضَعِيف"
کہ کثیر بن زید ضعیف ہے. (کتاب الضعفاء والمتروکین ص ۲۰۶)

امام ابن معین رح (متوفی ۳۲۷ ھ) فرماتے ہیں:
"ليس بذاك القوى"
کہ یہ قوی نہیں تھا. (الجرح و تعدیل ج ۷ ص ۱۵۱ وسند صحیح)

نیز فرماتے ہیں:

"ليس بشيء"
کہ یہ کچھ بھی نہیں تھا. (تاريخ ابن ابى خيثمة ج ۲ ص ۳۳۶)

امام ابن جوزی رح (متوفی ۵۹۷ ھ) نے کثیر بن زید کو ضعفاء میں نقل کیا ہے. (الضعفاء والمتروکین ج ۳ ص ۲۲)

امام ذھبی رح (متوفی ۸۴۸ ھ) فرماتے ہیں:

"كُثَيْرُ بْنُ زَيْدٍ صُوَيْلِحُ فِيهِ لِينٌ"
کہ کثیر بن زید صالح ہے مگر اس میں کچھ کمزوری ہے. (معجم الشيوخ ج ۱ ص ۳۰۰)

امام ابن حجر عسقلانی رح (متوفی ۸۵۲ ھ) فرماتے ہیں:
"وَكثير بن زيد مُخْتَلف فِيهِ"
کہ اور کثیر بن زید مختلف فیہ راوی ہے. (تغلیق التعلیق ج ۳ ص ۲۴۹)

شیخ زبیر علی زئی رح نے بھی اس حدیث کو ضعیف کہا ہے. (سنن ابن ماجہ ج ۲ ص ۴۲۸)

اگر کسی ضعیف روایت کے حکم پر بعض لوگ عمل کریں تو وہ صحیح نہیں ہو جاتی ہے.لوگوں کے عمل سے سند کا صحیح ہونا محدثین کرام کا مذہب نہیں.اگر کسی روایت کے حکم پر،یعنی اس سے ماخوذ مسئلہ پر اجماع امت ثابت ہو جائے تب بھی وہ سند ضعیف ہی رہے گی،البتہ وہ مسئلہ اجماع امت کی وجہ سے شرعی درجہ حاصل کر لے گا. حدیث ابو امامہ رضی اللہ عنہ پر اگر بعض لوگوں نے عمل کیا ہے تو ان کے عمل سے اسے کچھ تقویت نہیں ملے گی.اس پر مستزاد یہ کہ بہت سے اہل علم نے اسے ضعیف و غیر ثابت قرار دیا ہے اور تلقین کو بدعت قرار دیا ہے.

اللہ ہم سب کو حق سمجھنے کی توفیق دے آمین

جزاک اللہ خیراً
 

khalil rana

رکن
شمولیت
دسمبر 05، 2015
پیغامات
218
ری ایکشن اسکور
33
پوائنٹ
52
ضعیف حدیث سے اتنی نفرت کیوں ،کیا ضعیف حدیث ،حدیث نہیں ہوتی ؟
 

khalil rana

رکن
شمولیت
دسمبر 05، 2015
پیغامات
218
ری ایکشن اسکور
33
پوائنٹ
52
جناب میں نے تو اتنا پوچھا ہے کہ ضعیف حدیث ، حدیث ہوتی ہے یا نہیں ؟
آپ نے جو پوسٹر لگایا ہے ، آپ اس سے یہ ثابت کررہے ہیں کہ بعض ضعیف احادیث فضائل واعمال میں مقبول نہیں۔
لیکن دوسری طرف آپ کا یہ عقیدہ بھی ہے کہ موضوع یعنی من گھڑت حدیث احکام میں تو نہیں البتہ فضائل میں مقبول ہے۔
asool fiqah 1.jpg
asool fiqah 2.jpg
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
اوپر شاہ شہید رحمۃ اللہ علیہ کے نام سے جس کتاب سے سکین لگایا ہے ، وہ عجیب ہے
پہلے صفحہ پر اردو میں کتاب کا نام ۔۔ اصولِ فقہ لکھا ہوا ہے ، جبکہ اگلا صفحہ مکمل عربی کا ہے ، اگر کتاب عربی میں تھی تو ۔۔ٹائیٹل پر نام اردو میں کیوں ؟
 

khalil rana

رکن
شمولیت
دسمبر 05، 2015
پیغامات
218
ری ایکشن اسکور
33
پوائنٹ
52
یہ بات آپ ناشرین یا مکتبہ سلفیہ یا دارالسلام والوں سے دریافت کریں کہ یہ نام اُردو رسم الخط میں کیوں لکھاگیا ہےیا کسی بھی اہل علم سے پوچھیں ،اہل علم کا مطالعہ ہونا ضروری ہے، اور اس کے بعد اس کا جواب بھی دیں۔

1.jpg
3.JPG

 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
ضعیف حدیث سے اتنی نفرت کیوں ،کیا ضعیف حدیث ،حدیث نہیں ہوتی ؟
لوگوں کو تو صحیح حدیث سے نفرت ہے. یہاں تک کہ صریح احادیث سے. ہم تو خیر پھر بھی ضعیف احادیث کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب نہیں کرتے. اور اسکا حکم خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے. مزید سلف صالحین کا بھی یہی طریقہ رہا ہے.
 

khalil rana

رکن
شمولیت
دسمبر 05، 2015
پیغامات
218
ری ایکشن اسکور
33
پوائنٹ
52
عمر اثری صاحب آپ بات کو دوسری طرف کیوں لے جاتے ہیں؟ ایک طرف تو آپ ضعیف حدیث سے نفرت کرتے ہیں اور دوسری طرف موضوع یعنی بناوٹی حدیث کو فضائل میں مقبول ہونا بھی لکھتے ہیں، غیر مقلدوں کا یہ گورکھ دھندا ہماری سمجھ سے تو باہر ہے۔
اگر ضعیف حدیث ، حدیث نہیں تو اس پر عمل کیوں کرتے ہیں، نیچے دئیے گئے ثبوت سے یہ ہی ثابت ہورہا ہے کہ آپ لوگ ضعیف حدیث کو حدیث ہی سمجھتے ہیں اور اس پر عمل بھی کرتے ہیں ۔
نیچے دئیے گئے مسئلہ میں کہ جو اذان دے وہی اقامت کہے تو اس سے نظم وضبط رہتا ہے ، یہ عمل ہی بہتر ہے ،غیر مقلدین کا یہ بات کہنا کسی صحیح حدیث کی بنیاد پر نہیں بلکہ عقل کی بنیاد پر ہے۔

azan 1.jpg
azan 2.jpg
azan 3.jpg
 
Top