بہت افسوس ہوا ، اللہ تعالی ان کی کمیاں کوتاہیاں معاف فرماکر مغفرت فرمائے ۔ گو ہمارا ان سے عموما اختلاف ہی رہتا تھا ، لیکن اس کے باوجود ، انہیں ایک سلجھا ہوا ، انسان پایا ۔
استغفار،رحمت کی دعا اور تعزیت نہ کرنا:
اللہ تعالیٰ نے مشرکوں کے لیئے مغفرت کی دعا کرنے سے منع فرمایا ہے :﴿ مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ يَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِكِيْنَ وَلَوْ كَانُوْٓا اُولِيْ قُرْبٰى مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَھُمْ اَنَّھُمْ اَصْحٰبُ الْجَحِيْمِ ﴾ (التوبۃ:۱۱۳)
’’نبی کیلئے اور دوسرے مسلمانوں کیلئے جائز نہیں کہ وہ مشرکین کیلئے مغفرت کی دعا مانگیں اگرچہ وہ رشتہ دار ہی ہوں، اس امر کے ظاہر ہوجانے کے بعد کہ یہ لوگ جہنمی ہیں۔‘‘
سیدناعلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ’’ میں نے ایک آدمی کو اپنے مشرک والدین کے لیے دعا کرتے ہوئے سنا تو میں نے اسے کہا کیا تو اپنے والدین کے لیے دعا کر رہا ہے جبکہ وہ مشرک تھے؟اس نے جواب دیا ’’کیا ابراہیم علیہ السلام نے اپنے (مشرک) باپ کے لیے دعا نہیں کی تھی ؟سیدناعلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ سے اس بات کا ذکر کیا ۔تب اللہ تعالیٰ نے قرآن کی یہ آیات نازل فرمائیں:
﴿ وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرٰہِيْمَ لِاَبِيْہِ اِلَّا عَنْ مَّوْعِدَۃٍ وَّعَدَھَآ اِيَّاہُ فَلَمَّا تَـبَيَّنَ لَہٗٓ اَنَّہٗ عَدُوٌّ لِّلہِ تَبَرَّاَ مِنْہُ اِنَّ اِبْرٰہِيْمَ لَاَوَّاہٌ حَلِيْمٌ﴾ (التوبۃ:۱۱۴)
’’ابراہیم نے جو اپنے باپ کے لیے بخشش کی دعا کی تھی وہ تو صرف اس لیے کہ انہوں نے اپنے باپ سے اس بات کا وعدہ کیا ہوا تھا پھر جب ان پر واضح ہو گیا کہ وہ اللہ کا دشمن ہے تو وہ اس سے بیزار ہو گئے ‘‘[ سنن النسائی :۲۰۳۶]
اللہ تعالیٰ نے جہاں ابراہیم علیہ السلام کو ہمارے لیے اسوہ قرار دیا ہے، وہاں ارشاد فرمایاکہ کوئی ابراہیم علیہ السلام کا اپنے والد کے لیے دعائے مغفرت کرنے کو دلیل نہ بنائے :
﴿اِلَّا قَوْلَ اِبْرٰہِيْمَ لِاَبِيْہِ لَاَسْتَغْفِرَنَّ لَكَ وَمَآ اَمْلِكُ لَكَ مِنَ اللہِ مِنْ شَيْءٍ﴾(الممتحنۃ: ۴)
’’(یہ بات نمونہ نہیں ہے جو) ابراہیم نے اپنے باپ سے کہا تھا کہ میں تیرے لیے مغفرت کی دعا کروں گا حالانکہ میں تیرے لیے اللہ کے سامنے کچھ بھی اختیار نہیں رکھتا ۔‘‘
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ ’’قدریہ‘‘ کے بارے میں فرماتے ہیں
أولئک شرار ھذہ الأمۃ لاتعودوا مرضاھم ،ولا تصلوا علی موتاھم
’’وہ اس امت کے شریر ترین لوگ ہیں ،تم ان کے مریضوں کی عیادت نہ کرو اور اُن کے مرنے والوں کا جنازہ نہ پڑھو۔‘‘(شرح أصول اعتقادأھل السنۃ :۲/۶۴۳)
اسی بات کو مجاہد رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :((القدریۃ مجوس ھذہ الامۃ ویھودھا فان مرضوا فلا تعودوھم ،وان ماتو فلا تشھدوھم ))(الشریعۃ:۲۲۵)
بشر بن حارث رحمہ اللہ’’جہمیہ ‘‘کے بارے میں فرماتے ہیں :((لا تجالسوھم ولا تکلموھم وان مرضوا فلا تعودوھم وان ماتوا فلا تشھدوھم ((
’’ان کو اپنے ساتھ مت بٹھاؤ،مان سے کلام نہ کرو ،اگر وہ بیمار پڑ جائیں تو ان کی عیادت مت کرو اور اگر وہ مر جائیں تو ان کے جنازوں میں مت شریک ہو۔‘‘(السنۃ لعبداللہ بن أحمد :۱/۱۲۶)
ربیع بن سلیمان رحمہ اللہ فرماتے ہیں
القرآن کلام اللہ غیر مخلوق فمن قال غیر ھذا فان مرض فلا تعودوہ وان مات فلا تشھدوا جنازتہ وھو کافر باللہ العظیم (شرح أصول اعتقادأھل السنۃ :۱/۳۲۲)
’’قرآن اللہ تعالیٰ کا کلا م ہے ،مخلوق نہیں ۔جس کسی نے اس کے سوا کچھ اور کہا تو اگر وہ مریض ہو، اُس کی عیادت مت کرو اور اگر وہ مر جائے، اس کے جنازے میں مت شریک ہو کیونکہ وہ کافر ہے ۔‘‘
شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ لکھتے ہیں ’’اللہ تعالیٰ نے ان کیلئے استغفار اور رحمت کی دعا کرنا حرام قرار دیا ہے کیونکہ ان کے لئے استغفار اور رحمت کی دعا کرنے میں ان کی محبت اور ان کے دین کی صحت کا اعتراف شامل ہے ۔(دوستی اور دشمنی کا معیار،ص23)
سلف کے ان اقوال سے ثابت ہوتا ہے کہ بدعت مکفرہ میں واقع ہونے والوں کے ساتھ ایسا ہی سلوک کیا جائے گا، مگر جہاں تک ان کی عیادت کرنے کا تعلق ہے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کافر کی عیادت کے لیے جانا ثابت ہے ۔اس لیے اگر ایسا کرنے میں کوئی مصلحت پائی جاتی ہو تو عیادت کرنا جائز ہے ۔حاصل کلام یہ ہے کہ بدعت مکفرہ کے مرتکب دشمنی اوربغض کے مستحق ہیں سلف صالحین کے ان اقوال سے اس حقیقت کو سمجھا جا سکتا ہے۔
ایک شخص جس نے زندگی بھر کبھی نماز پڑھی نہ روزہ رکھا اور جن پتھر درخت اور بتوں کے نام پر ذبح کرتا رہا اور اسی حالت میں مرگیا تو کیا اس کے کسی رشتہ دار کے لئے اس کی طرف سے حج کرنا یا اسکے لئے مغفرت کی دعاء کرنا جائز ہے۔؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته! الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جو شخص سوا ل میں مذکور حالت کے مطابق مرا ہو اسے شرک اکبرکا مرتکب سمجھا جائے گا۔اور ایسے شخص کی طرف سے حج کرنا یا اس کے لئے بخشش کی دعا کرنا جائز نہیں ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ٰ ہے:
﴿ما كانَ لِلنَّبِىِّ وَالَّذينَ ءامَنوا أَن يَستَغفِروا لِلمُشرِكينَ وَلَو كانوا أُولى قُربى مِن بَعدِ ما تَبَيَّنَ لَهُم أَنَّهُم أَصحـبُ الجَحيمِ ﴿١١٣﴾...سورۃ التوبۃ
’’نبی(ﷺ)اورمومنوں کو یہ حق نہیں پہنچتاکہ وہ مشرکوں کے لئے اس بات کے واضح ہوجانے کے بعد کہ وہ دوزخی ہیں ،بخشش کی دعا کریں اگرچہ وہ (مشرک ،مومنوں اورنبیﷺ)کےقرابت دارہی کیوں نہ ہوں۔‘‘
اور حدیث سے ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«استاذنت ربي ان ازور قبر امي فاذن لي واستازنه ان استغفرلنا لها فلم باذن لي» (صحیح مسلم۔کتاب الجنائز باب الستیذان النبی ربہ فی زیارۃ قبر امہ ح:٢٢٥٨’٢٢٥٩)
'' میں نے اپنی ماں کی قبر کی زیارت کے لئے اللہ تعالیٰ ٰ سے اجازت طلب کی تو اس نے مجھے اجازت عطا فرمادی اور میں نے مغفرت کی دعاء کرنے کی اجازت مانگی تو اس نے مجھے اس کی اجازت نہ دی۔''
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتوی کمیٹی
محدث فتوی