• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تلون مزاجی

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
عصر حاضر کے انسان کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ وہ ہر چیز میں بہت جلد اور تیزی سے حاصل ہونے والی تبدیلی کا خواہاں ہے۔ انسان کی طبیعت ایسی ہے کہ وہ یکسانیت سے اکتاہٹ محسوس کرتی ہے اور تبدیلی کی طرف مائل رہتی ہے۔ انسانی مزاج کا یہ وصف اس کی خوبی بھی ہے اور کمزوری بھی۔ اگر یہ مزاج نہ ہو تو زندگی سے حرکت ہی ختم ہو جائے اور انسان جمود کا شکار ہو جائے اور دوسری صورت میں اگر تو یہ مزاج حد سے بڑھ جائے تو اسے تلون مزاجی کہتے ہیں۔ یعنی تبدیلی کی طرف مائل رہنے والا مزاج نہ رکھنا جمود پیدا کرتا ہے اور ہر قدم تبدیلی کی طرف مائل مزاج تلون مزاجی پیدا کرتا ہے اور یہ دونوں مطلوب نہیں ہیں۔

تلون مزاجی سے مراد ایسا مزاج ہے جس میں ٹھہراو نہ ہو اور جلد تبدیل ہو جانے والا ہو۔ تبدیلی انسانی زندگی بلکہ اس کے مزاج کا حصہ ہے۔ انسان تبدیلی کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ تبدیلی نہ ہونے کا مطلب دنیا کا خاتمہ ہے۔ لیکن آئے روز تبدیلی کی خواہش یا کوشش کرتے رہنا ایک عیب اور کمزوری ہے کیونکہ زندگی حرکت اور سکون دونوں کے توازن کا نام ہے۔ ہمارے ابا آدم علیہ الصلاۃ والسلام نے جنت میں رہتے ہوئے تبدیلی کی خواہش کی۔

ہم میں سے ہر شخص تبدیلی چاہتا ہے، اپنے لباس میں، اپنے رہن سہن میں حتی کہ زندگی کی ہر اس چیز میں جو اس سے متعلق ہو۔ لوگ اپنے موبائل، لیپ ٹاپ، گاڑی، گھر، ملازمت، کاروبار، پیشہ، مدرسہ، یونیورسٹی، تنظیم، جماعت حتی کہ بیوی تک سے اکتا جاتے ہیں۔ مدرسہ یا یونیورسٹی کے ایک طالب علم ہی کی مثال لے لیں۔ ایک مدرسہ یا یونیورسٹی میں دو کلاسیں پڑھنے کے بعد اس میں دوسرے مدرسہ میں داخلہ لینے کی خواہش پیدا ہو جاتی ہے۔ ایک گاڑی لینے کے بعد ہمیں بہتر گاڑی کی ضرورت محسوس ہوتی ہے حالانکہ پہلی گاڑی ہماری ضرورت پوری کر رہی ہوتی ہے۔ لوگ اپنی بیویوں سے اکتا جاتے ہیں حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ اگر دوسری لے آئیں تو وہ ہر گز اس سے بہتر نہیں ہوگی کیونکہ جنس ایک ہی ہے۔ لوگ ایک جگہ ملازمت چھوڑ کر دوسری جگہ جوائن کرنے کو انجوائے کرتے ہیں حالانکہ دوسری جگہ میں بعض اوقات انہیں کوئی زیادہ فوائد حاصل نہیں ہو رہے ہوتے ہیں۔ بعض لوگ اعلی دنیاوی تعلیم کے بعد دین کی تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں، وہ اپنی زندگیاں دین کے لیے وقف کرنے کی بات کرتے ہیں حالانکہ ان میں سے بھی اکثر کے پیچھے اصل محرک ان کے مزاج کا تلون ہوتا ہے نہ کہ کوئی عزم واستقلال۔ ایسے لوگ دنیا سے دین کی طرف آ کر دوبارہ دنیا کی طرف چلے بھی جاتے ہیں۔ مدرسہ یا یونیورسٹی کے اساتذہ کی مثال لے لیں کہ بعض استاذ متنوع فنون میں رسوخ کی خواہش کی بنا پر ہر سال نیا کورس تدریس کے لیے منتخب کر لیتے ہیں کیونکہ وہ ایک ہی مضمون کو دوسری بار پڑھانے میں اکتاہٹ محسوس کرتے ہیں۔

جو لوگ متلون مزاج ہوتے ہیں، ان میں یہ کمزوری بھی ہوتی ہے کہ وہ جو اچھا لگے، اسے کر گزرنے کی سوچتے ہیں حالانکہ ان میں اس کی استطاعت نہیں ہوتی۔ تلون مزاجی انسان کے اوقات اور صلاحیتوں دونوں کو برباد کر دیتی ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ جو بھی کام کرے، چاہے دنیا کا ہو یا دین کا، اس میں ٹھہراو پیدا کرے۔ کم از کم پانچ سال سے پہلے اپنی زندگی کے بارے کوئی بڑا فیصلہ کرنے میں جلدی نہ کرے۔ کہیں ملازمت اختیار کی ہے تو پانچ سال وہاں رہے۔ کوئی کاروبار شروع کیا ہے تو پانچ سال تک جیسے تیسے چلائے۔ گاڑی لی ہے تو کم از کم پانچ سال بعد اسے تبدیل کرے۔ کسی مدرسہ یا یونیورسٹی میں طالب علم ہے تو پانچ سال سے پہلے وہاں سے نکلنے کا نہ سوچے۔ ایک استاذ کو چاہیے کہ وہ ایک کورس کم از کم پانچ سال تک پڑھائے۔ ان شاء اللہ، اس تدبیر سے انسان کی زندگی میں ٹھہراو آ جائے گا۔

بعض اوقات تبدیلی کی خواہش زیادہ زور اس وقت پکڑتی ہے جبکہ انسان یہ سمجھتا ہو کہ یہ تبدیلی اسے آگے لے کر جانے والی ہے۔ ہم میں سے ہر شخص ذاتی نمو personal grooming چاہتا ہے اور بعض دیندار لوگ یہ اس لیے بھی چاہتے ہیں کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہماری ذات دین کے تعارف کا ایک ذریعہ ہے لہذا اگر ہم اپنی ذات کو بنانے یا سنوارنے پر توجہ دیتے ہیں تو یہ دین ہی کی ایک خدمت ہے۔ اس سوچ میں اخلاص بھی ہو سکتا ہے اور اپنے آپ سے دھوکا بھی لیکن یہ اس وقت ہمارا موضوع نہیں ہے۔ ہمارا مقصود اس وقت صرف یہ ہے کہ دین کے نام پر بعض اوقات ہم اپنی شخصیت کے نمو اور ارتقاء میں بہت زیادہ گم ہوتے چلے جاتے ہیں اور کم وقت میں بہت کچھ بننے کے لیے تلون مزاجی کا شکار ہو جاتے ہیں جس سے باعتبار نتیجہ کچھ حاصل نہیں ہوتا جیسا کہ دنیادار شخص کو راتوں رات کروڑ پتی بننے کے خواب میں سوائے ڈیپریشن کے اور کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
تلون مزاجی کا ایک اور بہترین حل قناعت بھی ہے جس پر ہم ان شاء اللہ علیحدہ سے گفتگو کریں گے۔
 
Top