• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تم اپنا خیال کرو بس

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207


اللہ کے نزدیک ایک اور غصے والی بات
تم اپنا خیال کرو بس


قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم ((إِنَّ أَبْغَضَ الْکَلَامِ إِلَی اللّٰہِ أَنْ یَقُوْلَ الرَّجُلُ لِلرَّجُلِ: اِتَّقِ اللّٰہِ، فَیَقُوْلُ: عَلَیْکَ نَفْسَکَ))1
''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: اللہ عزوجل کے نزدیک ہر کلام و گفتگو سے زیادہ ناراضگی والی یہ بات بھی ہے کہ آدمی دوسرے سے شخص سے کہے: اللہ سے ڈرو۔ اور وہ جواباً کہے: تم اپنا خیال رکھو بس۔''
اِتِّقِ اللّٰہَ... اللہ سے ڈرو۔ کا معنی یہ ہے کہ: اللہ عزوجل کی پکڑ سے خبردار رہتے ہوئے اس کے احکام کو مانو اور اُس کے منع کردہ کاموں سے اجتناب کرو۔ جناب طلق بن حبیب سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا: تقویٰ یہ ہے کہ تم اللہ کی اطاعت میں عمل کرو۔ اُس کی رحمت پر امید رکھتے ہوئے اور یہ عمل اللہ عزوجل کی طرف سے عطا کردہ ''نور'' (قرآن و سنت والے علم) کے مطابق ہو۔ اور یہ کہ تم اللہ تعالیٰ کی معصیت و نافرمانی چھوڑ دو۔ یہ نافرمانی چھوڑنا بھی اسی نور کے مطابق ہو، اللہ کے عذاب کی سزا سے ہمیشہ خائف رہو۔
عَلَیْکَ نَفْسسَکَ... کا مطلب ہے کہ: انسان کو جب اس کے افعال و اقوال کے بارے میں وعظ و نصیحت کرتے ہوئے کہا جائے: اللہ سے ڈرو، اپنے غلط قسم کے قول و فعل کو چھوڑ دو اور حق سچ کی طرف پلٹ آؤ تو وہ اس سے انکار کردے۔ اسے جاہلانہ حمیت و غرور اور گناہ کے ذریعے ناراض ہونا آپکڑے۔ اس کا یہ رویہ اللہ تعالیٰ کے درج ذیل فرمان کے عین مطابق ہوتا ہے۔ فرمایا:
{وَاِذَا قِیْلَ لَہُ اتَّقِ اللّٰہَ اَخَذَتْہُ الْعِزَّۃُ بِالْاِثْمِ فَحَسْبُہٗ جَہَنَّمُ وَلَبِئْسَ الْمِہَادُo}[البقرہ:۲۰۶]
''اور جب اس سے کہا جاتا ہے اللہ سے ڈر تو اس کی عزت اسے گناہ میں پکڑے رکھتی ہے، سو اسے جہنم ہی کافی ہے اور یقینا وہ برا ٹھکانا ہے۔ ''
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 تفصیل کے لیے : امام قرطبی کی ''الجامع لاحکام القرآن جلد ۳، ص۱۵ اور تفسیر ابن کثیر جلد: ۱ ، ص ۸۷،۲۵۴۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
یہ اُس کافر اور منافق کی پہچان ہے جو اپنے آپ میں متکبر بنا پھرتا ہو۔ مومن آدمی کے لیے یہ بات نہایت ناپسندیدہ ہے کہ اسے اس ضمن میں کوئی حرج واقع ہو۔ جناب عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: آدمی کے لیے یہی ایک گناہ کافی ہے کہ وہ اپنے اُس مسلمان بھائی سے کہے: تم اپنے آپ کا خیال کرو تم جیسا آدمی مجھے نصیحت کر رہا ہے؟'' جو اس سے کہے: اللہ سے ڈرو۔'' یہاں اس آیت کریمہ میں ''اَلْعِزَّۃُ'' سے مراد: قوت اور غلبہ ہے۔ یہاں ''اَلْعِزَّۃُ'' سے مراد: حمیت و غرور بھی لیا گیا ہے۔ اس معنی میں شاعر کہتا ہے ^


أَخَـذَتْہُ عِزَّۃٌ مِنْ جَہْلِہٖ
فَتَوَلَّی مُغْضَبًا فِعل الضَّجْرِ


''اس کی جہالت کی وجہ سے اُسے حمیت و غرور نے آلیا۔ چنانچہ وہ پریشان و کبیدہ ہوکر غصہ کی حالت میں منہ موڑ کر چل دیا۔''
اَلْعِزَّۃُ ... کا ایک معنی یہاں پر روکنا اور شدت نفس سے بھی کیا گیا ہے۔ یعنی اُس نے حق کو قبول کرنے سے اپنے آپ کو روک لیا۔ چنانچہ اسے اس عزت نے گناہ میں مبتلا کردیا کہ جب اُس نے اسے تھام لیا تو۔ امام قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: آیت کریمہ کا مفہوم یہ ہے کہ: جب ایسے آدمی سے کہا جاتا ہے کہ: معصیت و نافرمانی پر پیش قدمی سے باز آجاؤ تو اُسے اس کی جاہلانہ حمیت گناہ پر ابھارتی ہے اور وہ اپنی حمیت و غرور کی خاطر کفر کا ارتکاب کرتا ہے۔ وعظ و نصیحت کو قبول کرنے سے اسے یہ جاہلی عزت و حمیت آڑے آتے ہوئے اس گناہ کے لیے ابھارتی ہے کہ جو اُس کے دل میں ہوتا ہے اور یہ نفاق ہوتا ہے۔
بیان کیا جاتا ہے کہ: ایک یہودی کو خلیفہ ہارون الرشید کے پاس کوئی حاجت تھی اور وہ ایک سال تک اس کے دروازے پر آتا جاتا رہا۔ مگر خلیفہ نے اس کی ضرورت پوری نہ کی۔ چنانچہ ایک دن یہودی ہارون الرشید کے دروازے پر کھڑا ہوگیا۔ جب خلیفہ باہر نکلا تو یہودی جلدی سے اس کے سامنے آکر کھڑا ہوگیا اور کہنے لگا: امیر المؤمنین اللہ سے ڈر جاؤ۔ ہارون الرشید اپنی سواری سے اترا اور اللہ عزوجل کے سامنے سجدہ ریز ہوگیا اور پھر جب سر اٹھایا تو یہودی کی ضرورت پوری کرنے کا حکم دیا جو کہ پوری کردی گئی۔ پھر جب ہارون الرشید واپس پلٹا تو اس سے کہا گیا: اے امیر المومنین! آپ یہودی کی ایک بات پر گھوڑے سے اتر پڑے؟ اس نے کہا: نہیں، مگر یہ ہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان یاد آگیا:
{وَاِذَا قِیْلَ لَہُ اتَّقِ اللّٰہَ اَخَذَتْہُ الْعِزَّۃُ بِالْاِثْمِ فَحَسْبُہٗ جَہَنَّمُ وَلَبِئْسَ الْمِہَادُo}[البقرہ:۲۰۶]
''اور جب اس سے کہا جاتا ہے اللہ سے ڈر تو اس کی عزت اسے گناہ میں پکڑے رکھتی ہے، سو اسے جہنم ہی کافی ہے اور یقینا وہ برا ٹھکانا ہے۔ ''
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

اللہ تعالی کی پسند اور ناپسند
 
Top