• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

توحیدِ خالص بمقابلہ توحیدِ ناقص

فہد جاوید

مبتدی
شمولیت
مئی 27، 2015
پیغامات
2
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
4
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمداللہ رب العالمین اصلٰوۃ وسلام وعلیٰ رسولہ لکریم واصحابہِ واہل بیتِ واجماعین
امابعد!
دینِ اسلام کی اساس اور بنیاد عقیدہ توحید ہی ہے لہذا اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء اکرم علیہ سلام کو توحید کی دعوت دے کر ہی بنی نوع انسان کی ہدایت کے لئے مبعوث فرمایا۔ہر نبی کا دین اسلام ہی ہے مگر شریعت حالات و زمانے کے تقاضوں کے مطابق مختلف تھیں۔ چناچہ قرآن پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے’’اس کی وصیت ابراہیم ؑ اور یعقوب ؑ نے اپنی اولاد کو کی کہ ہمارے بچو! اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے اس دین(اسلام) کو پسند فرما لیا ، خبردار ! تم مسلمان ہی مرنا‘‘(سورۃ البقرہ:132)اسی عقیدہ توحید کی تائید بابل میں ان الفاظ کے ساتھ ملتی ہے’’ تب یسوع (علیہ سلام) نے اس سے کہا :اے شیطان ! دور ہو، کیونکہ لکھا ہے کہ تو اپنے خداوند خدا ہی کو سجدہ کراور صرف اسی کی عبادت کر‘‘(انجیل متی10:4)مگر عیسائیوں نے عقیدہ توحید کا سارا حلیہ ہی بدل دیا اور اپنے دین میں شرک کی آمیزش کر ڈالی مگر دعویٰ آج بھی موحد ہونے کا ہے۔یہی دعویٰ آج کا مسلمان بھی کرتا ہے مگر اس کا عمل بالکل اس کے برعکس ہے۔خالص موحد ہی سچا مسلمان ہوتا ہے اور جس کا عقیدہ ہی ناقص ہو وہ کس منہ سے خود کو توحید پرست ہونے کا دعویٰ کرسکتا ہے؟لہذا س مختصر تحریر کا مقصد عوام الناس کے سامنے چند ایمان کے چوروں کے چہرے پر سے نقاب اٹھانا ہے۔ذیل میں ’’توحیدِ ناقص‘‘ کے تحت ان حضرات کا عقیدہ تحریر کیا جا رہا ہے جو خود کو دین کا ٹھیکیدارظاہر کرتے ہیں ،اور ’’توحیدِ خالص‘‘ کے تحت صحیح عقیدہ توحیدپیش کیا جا رہا ہے۔
توحیدِ ناقص : مولانامحمد قاسم ناناتوی(بانی دارلعلوم دیوبند) اگر اکیلے کسی مزار پرجاتے اور دوسرا شخص وہاں موجود نہ ہوتا ، تو (بلند)آواز سے عرض کرتے کہ آپ میرے واسطے دعاء کریں. (سوانح قاسمی از مولانا مناظر احسن گیلانی حصہ اول صفحہ 29)
توحیدِ خالص: اہل قبور سے امداد طلب کرنا قرآن پاک سے متضاد عقیدہ ہے اسی عقیدے کا رد قرآن پاک میں ان الفاظ سے آتا ہے’’اور نہ زندے اورمُردے برابر ہو سکتے ہیں اللہ جس کو چاہتا ہے سنا دیتا ہے اور تم ان کو جو قبروں میں مدفون ہیں نہیں سنا سکتے۔‘‘ (سورہ فاطر:22)
توحیدِ ناقص : مولانا رشید احمد گنگوہی جوشِ خطابت میں اکثر یہ الفاظ فرماتے’’سن لو حق وہی ہے جو رشید احمد کی زبان سے نکلتا ہے اور بقسم کہتا ہوں کہ میں کچھ نہیں ہوں مگر اس زمانے میں ہدایت و نجات موقوف ہے میرے اتباع پر‘‘۔ (تذکرۃالرشید جلد دوم صفحہ 17)
توحیدِ خالص: کیا یہ دعویِٰ نبوت ہے؟ حالانکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے’’اگر حضرت موسیٰ علیہ سلام زندہ ہوں اور میر ادورِ نبوت پائے تو انہیں بھی میری اتباع کے بنا جنت نہیں مل سکتی‘‘ (سنن دارمی)
توحیدِ ناقص : مولانا اشرف علی تھانوی مفتی الٰہی بخش کاندہلوی کے اشعار کا ترجمہ ان الفاظ میں پیش کرتے ہیں:
دستگیری کیجئے میرے نبی کشمکش میں تم ہی ہو میرے نبی (العطور المجموعۃ از مولانا محمد زکریا مہاجر مدنی صفحہ 265)
توحیدِ خالص: دوسرے اس طرح کے شعر کہے تو مشرک آپ کہیں تو عین توحید۔۔۔۔اس شرکیہ عقیدے برعکس اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ’’کہہ دو کہ اگر اللہ تمہارے ساتھ بُرائی کا ارادہ کرے تو کون تم کو اُس سے بچا سکتا ہے یا اگر تم پر مہربانی کرنی چاہے (تو کون اُس کو ہٹا سکتا ہے)؟ اور یہ لوگ اللہ کے سوا کسی کو اپنا نہ دوست پائیں گے اور نہ مددگار ۔‘‘ (سورہ الاحزاب: 17)
توحیدِ ناقص : مولانا خلیل احمد سہانپوری علمائے دیوبند کے عقائد بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:
’’ہمارے نزدیک اور ہمارے مشائخ کے نزدیک دعاوُں میں انبیاء و صلحاء و اولیاء و شہداء و صدیقین کاتوسل جائز ہے، ان کی حیات میں یا بعد وفات ، بایں طور پر کہ کہے یا اللہ میں بوسیلہ فلاں بزرگ کے تجھ سے دعا کی قبولیت اور حاجت براری چاہتا ہوں اسی جیسے اور کلمات کہے۔مولانا رشید احمد گنگوہی نے بھی اپنے فتاویٰ میں اس کو بیان کیا ہے۔‘‘ (المھندعلی المفندصفحہ 29)
توحیدِ خالص: آخر دیو بند اور بریلوی میں اختلاف کیا ہے؟دونوں ایک ہی سکہ کے دو رخ ہیں۔وسیلے کے شرک کا دروازہ قرآن پاک ان الفاظ میں بند کرتا ہے’’آپ کہ دیجئے پکارو انہیں جن کو تم اللہ تعالیٰ کے سوا(معبود)گمان کرتے ہو،پس وہ اختیار نہیں رکھتے تم سے تکلیف دور کرنے کا ،اور نہ بدلنے کا،وہ لوگ جنہیں یہ پکارتے ہیں،وہ خود ڈھونڈتے ہیں اپنے رب کی طرف وسیلہ کہ کون ان میں اپنے رب کے زیادہ قریب ہے اور وہ اس کی رحمت کی امید رکھتے ہیں اور وہ اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں بے شک تمہارے رب کا عذاب ڈرنے کی چیز ہے۔‘‘ (سورۃ بنی اسرائیل:56,57)
توحیدِ ناقص : مولانا خلیل احمد سہانپوری علمائے دیوبند کے عقائد بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:
’’ہم اور ہمارے مشائخ اور ہماری ساری جماعت بحمدللہ فروعات میں مقلد ہیں امام ابو حنیفہ ؒ کے، اور اصول و اعتقادیات میں پیرو ہیں امام ابوالحسن اشعریؒ اور امام ابو منصور ماتریدی ؒ کے اور طریق ہائے صوفیہ میں ہم کو انتساب حاصل ہے سلسلہ عالیہ حضراتِ نقشبندیہ،چشتیہ،قادریہ اور سہروردیہ کے ساتھ۔‘‘(المھندعلی المفندصفحہ 23)
توحیدِ خالص: آپ اعتقادیات میں پیرو ہیں امام ابوالحسن اشعریؒ اور امام ابو منصور ماتریدی کے اور فروعات میں مقلد ہیں امام ابو حنیفہ ؒ کے،آخر آپ نے اعتقادیات میں امام ابو حنیفہ ؒ کی تقلید کیوں نہ کی؟ کیا امام صاحب ؒ کے عقائد درست نہ تھے؟معاذاللہ یا عقائد میں امام صاحب کا علم ناکافی تھا؟ شریعت کے ہوتے ہوئے طریقت کی کیا ضرورت ہے؟ کیا شریعت آپ کے تزکیہ نفس کے لیے کافی نہیں؟ معاذاللہ۔اللہ اور اس کے رسول سے تو آپ نے کچھ لیے نہیں حالانکہ کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:’’آج ہم نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کر دیں اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند فرمایا۔‘‘ (سورہ مائدہ: 3)
توحیدِ ناقص : مولانا خلیل احمد سہانپوری علمائے دیوبند کے عقائد بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:
’’اب رہا(سوال کہ)مشائخ کی روحانیت سے استفادہ کا اور ان سے سینوں اور قبروں سے باطنی فیوض پہنچنا، سو بے شک(یہ) صحیح ہے‘‘(المھندعلی المفندصفحہ 36)
توحیدِ خالص: قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے’’اور جن جن کو یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے سواء پکارتے ہیں وہ کسی چیز کو بھی پیدا نہیں کر سکتے، بلکہ وہ خود پیدا کیے ہوئے ہیں۔مردے ہیں زندہ نہیں ہیں،انہیں تو یہ بھی شعور نہیں کہ کب اٹھائے جائے گے۔‘‘ (سورہ النحل :20,21)
توحیدِ ناقص : مولانا خلیل احمد سہانپوری اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات کے مطالق علمائے دیوبند کے عقائد بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:’’یہ ممکن ہے کہ استواء سے مراد غلبہ ہو اور ہاتھ سے مراد قدرت ،تو یہ بھی ہمارے نزدیک حق ہے‘‘ (المھندعلی المفندصفحہ39)
توحیدِ خالص: جن کی تقلید کے دعوایدار ہیں ان سے بھی اختلاف ہے کیونکہ امام ابو حنیفہ ؒ فرماتے ہیں:’’اللہ تعالیٰ کے اعضاء کے بارے میں یہ نہیں کہہ سکتے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ سے مراد اس کا دستِ قدرت یا دستِ نعمت ہے کیونکہ اس سے اللہ تعالیٰ کی ایک صفت زائل ہو جائیگی۔‘‘(فقہ اکبرعقیدہ نمبر 35)
توحیدِ ناقص : مولانا محمد قاسم ناناتوی یہ شعر فرماتے تھے:
’’مدد کر اے کرم احمدی کہ تیرے سوا نہیں ہے قاسم بے کس کا کوئی حامی کار‘‘ (الشہاب الثاقب صفحہ 245)
توحیدِ خالص: غیر اللہ سے امداد چاہنا انہیں حاجت روا ماننا مکمل شرکیہ عقیدہ ہے قرآن پاک میں صاف الفاظ میں اس کا رد ہوتا ہے’’اور اگر تم ان کو پکارو تو وہ نہیں سنیں گے تمہاری پکار،اور اگر (بالفرض)سن بھی لیں تو تمہاری حاجت پوری نہ کر سکیں گے،اور وہ روزِ قیامت تمہارے شرک کا انکار کریں گے، اور آپ کو کوئی اللہ تعالیٰ جیسا خبردار خبریں نہ دے گا۔‘‘ (سورۃ فاطر: 14)
توحیدِ ناقص : مولانا اشرف علی تھانوی اپنے اکابرین کی کرامات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’مولانا رفیع الدین نے مولانا محمود الحسن کو اپنے حجرے میں بلایا اور اپنا لبادو دیکھایا جو خوب تر تھااور بھیگ رہا تھا ،فرمایا کہ واقعہ یہ ہے کہ ابھی ابھی مولانا ناناتوی جسدِ عنصری کے ساتھ میرے پاس تشریف لائے تھے۔جس سے میں ایک دم پسینہ پسینہ ہو گیا۔‘‘ (ارواحِ ثلاثہ حکایت نمبر247)
توحیدِ خالص: آپ کے بزرگ تو شاید مرنے کا ڈراما کرتے ہیں جو مرنے کہ باوجود ملنے آجاتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تو رسول اللہ ﷺ کے متعلق فرمایا ہے:’’بے شک آپ بھی انتقال کرنے والے ہیں اور یہ لوگ بھی مرنے والے ہیں۔‘‘(سورہ الزمر : 30)اور باقی انسانوں کے متعلق اللہ تعالیٰ کا قانون یہ ہے ’’اللہ تعالیٰ روح کو اس کی موت کے وقت قبض کرتا ہے اور جو ابھی نہیں مرا ہے اس کی روح نیند میں قبض کر لیتا ہے۔‘‘(سورہ الزمر : 42)
توحیدِ ناقص : جو کوئی اس اسم کو پانچ سال بحکم خذ حرً فاقل الفاً دعوۃ دے گا اس کے تمام کام برسر ترقی ہوں گیاور ملکِ سلیمان علیہ السلام حاصل اس کے ہاتھ آئے گا۔اور متصرف زمین و آسمان ہو گا۔اور تمام مخلوقات عالم صغیر و کبیر اس کے زیرِ تسخیر ہو گی اور تمام عالم اس کی برکت سے منور ہو گا..........برق باران و باد سب اس کے مسخر ہوں گے جسکو جس وقت چاہے ظاہر کرے۔یہاں تک کہ اگر وہ حکم کرے تو آفتاب شب کو نمودار ہو جائے۔(جواہرِ خمسہ کامل مترجم مرزا محمد بیگ نقشبندی ناشر دارالاشاعت کراچی صفحہ267)
توحیدِ خالص: اگر یہ کرنے سے اتنا سب کچھ حاصل ہو جاتا ہے تو آپ کو یہ سب کیوں نہ ملا؟ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے تو رسول اللہ ﷺ کے متعلق یہاں تک فرمایا ہے’’ آپ ﷺ فرما دیجئے کہ میں خود اپنی ذات کے لئے کسی نفع کا اختیار نہیں رکھتا اور نہ کسی ضررکا، مگر اتنا ہی کہ جتنا اللہ نے چاہا اور اگر میں غیب کی باتیں جانتا ہوتا تو میں بہت منافع حاصل کر لیتااور کوئی نقصان مجھے نہ پہنچتامیں تو محض ڈرانے والا اور بشارت دینے والا ہوں ان لوگوں کو جو ایمان رکھتے ہیں۔‘‘ (سورۃالاعراف :188)
توحیدِ ناقص : غزوہ تبوک میں جب لشکرِ اسلام کو شکست ہونے لگی تو حضرت جبرائیل علیہ السلام رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوئے اور یہ کلمات لائے۔ ترجمہ’’عجائبات کرنے والے حضرت علیؓ کو پکارو تو سہی تم ہر مصیبت اور بلاء میں انہیں مشکل کشاء پاؤ گے۔ تجھے تیری بے پناہ عظمتوں کا واسطہ اے اللہ! آپ ﷺ کو اپنی وسیع نبوت کا واسطہ اے محمد ﷺ! اور حضرت علیؓ آپ کی ولایت کے صدقے میں تمام رنج و غم اور مصیبتیں دور فرمائیں اور ہماری خبر رکھیئے۔ یا علیؓ یا علیؓ یا علیؓ ‘‘ابھی تین مرتبہ بھی نہ نکلا تھا کہ حضرت علیؓ حاضر ہوئے اور لشکرِ کفار کے ساتھ محاربہ کیا بعض قتل ہوئے اور بعض فرار ہوئے۔اسلام کی فتح ہوئی ۔ (فتح الغیب ضمیمہ جواہرِ خمسہ کامل مترجم مرزا محمد بیگ نقشبندی ناشر دارالاشاعت کراچی صفحہ456)
توحیدِ خالص: شرک میں شیعہ کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔اسے مشرکین کے متعلق قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے’’کہو ! بھلا دیکھو تو اگر تم پر اللہ کا عذابآجائے یا قیامت آموجود ہو تو کیا تم (ایسی حالت میں) اللہ کے سوا کسی اور کو پکارو گے؟ اگر سچے ہو (تو بتاؤ) ۔ (نہیں) بلکہ (مصیبت کے وقت) تم اُسی کو پکارتے ہو تو جس دُکھ کیلئے اُسے پکارتے ہو وہ اگر چاہتا ہے تو اُس کو دُور کر دیتا ہے اور جن کو تم شریک بناتے ہو (اس وقت) انہیں بھول جاتے ہو ۔‘‘(سورہ الانعام : 40-41)
توحیدِ ناقص : السلام علیکم یا رجال الغیب و یا ارواح المقدسۃ ا غیثونی بغوثۃ و انظرونی بنظرۃیا رقباء
(جواہرِ خمسہ کامل مترجم مرزا محمد بیگ نقشبندی ناشر دارالاشاعت کراچی صفحہ310)
توحیدِ خالص: غیر اللہ پر توکل شرک کی سب سے بھیانک قسم ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو صرف اپنی بندگی کے لئے پیدا کیا اس لئے انسان کو صرف اپنے رب پر توکل کرنا چاہیے۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں’’(لوگو) اپنے رب سے عاجزی سے اور چپکے چپکے دعائیں مانگا کرو۔ وہ حد سے بڑھنے والوں کو دوست نہیں رکھتا ۔ اور ملک میں اصلاح کے بعد خرابی نہ کرنا اور اللہ سے خوف کرتے ہوئے اور امید رکھ کر دعائیں مانگتے رہنا کچھ شک نہیں کہ اللہ کی رحمت نیکی کرنے والوں سے قریب ہے ۔‘‘ (سورہ الاعراف : 55-56)
توحیدِ ناقص : مولانا شبیر احمد عثمانی تفسیرِ عثمانی میں سورہ فاتحہ کی آیت ایاک نستعین کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’اس آیتِ شریفہ سے معلوم ہوا کہ اس کی ذاتِ پاک کے سوا کسی سے حقیقت میں مدد مانگنی بالکل ناجائز ہے ہاں اگر کسی مقبول بندے کو(زندہ یا مردہ کی تخصیص کیے بغیر)محض واسطہ رحمتِ الہٰی اور غیر مستقل سمجھ کر استعانت ظاہری اس سے کرے تو یہ جائز ہے کہ درحقیقت حق تعالیٰ ہی سے استعانت ہے۔ ‘‘(تفسیرِ عثمانی سورہ فاتحہ آیت :4)
توحیدِ خالص: قرآن و سنت سے اس عقیدے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا، لہذا عقائد کی بنیاد ہوائی قلعوں پر نہیں ہوتی بلکہ قرآن و سنت کی واضح دلیل پر ہوتی ہے۔تمام انبیاء نے اللہ تعالیٰ پر ہی بھروسہ کرنے کا درس دیا ہے جس کا قرآنی ثبوت یہ ہے ’’ان کے پیغمبروں نے ان سے کہا کہ یہ تو سچ ہے کہ ہم تم جیسے ہی انسان ہیں لیکن اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے اپنا فضل کرتا ہے،اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیرہماری مجال نہیں کہ ہم کوئی معجزہ تمہیں لا دکھائیں اور ایمانداروں کو صرف اللہ تعالیٰ ہی پربھروسہ رکھنا چاہئے۔‘‘ (سورۃ ابراہیم: 11)
توحیدِ ناقص : مولانا مفتی محمد شفیع صاحب اپنی تفسیر معارف القرآن میں رقمطراز ہیں:
’’انبیا ء و اولیاء کو وسیلہ بنانا(زندہ یا مردہ کی تخصیص کیے بغیر)نہ مطلقاً جائز ہے اور نہ مطلقاً ناجائز۔بلکہ اس میں وہ تفصیل ہے جو اوپر بیان کی گئی ہے کہ کسی کو مختارِ مطلق سمجھ کر وسیلہ بنایا جائے تو شرک و حرام ہے اور محض واسطہ و ذریعہ سمجھ کر کیا جائے تو جائز ہے۔‘‘(تفسیر معارف القرآن صفحہ :102جلد اول)
توحیدِ خالص: یعنی آپ کریں تو جائز ہے کوئی اور کرے تو ناجائز، اللہ تعالیٰ کا فرمانِ عالیشان ہے’’آپ ﷺ کہ دیں ہمیں ہرگز نہ پہنچے گا مگر وہی جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے لکھ دیا ہے، وہی ہمارا مولا ہے، اور مومنوں کو اللہ تعالیٰ پر ہی بھروسہ کرنا چاہیے‘‘ (سورۃ التوبۃ:51)
توحیدِ ناقص : قاضی ثناء اللہ پانی پتی تفسیرِ مظہری میں زقمطراز ہیں:
’’شہدا کے زندہ ہونے کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی ارواح کو جسم کی سی قعت عطا فرماتے ہیں کہ اسکے ذریعہ سے وہ زمین، آسمان، جنت سب جگہ کی سیر کرتے ہیں اورشہدا و اولیاء اپنے دوستوں کی مدد کرتے اور اپنے دشمنوں کو ہلاک کرتے ہیں اور اسی حیات کی وجہ سے زمین ان کے بدن اور کفن کو نہیں کھاتی۔‘‘ (تفسیرِ مظہری سورہ البقراآیت :154)
توحیدِ خالص: یعنی قبر پرستی آپ کی ایجاد ہے ہم دوسروں کو الزام دیتے رہے۔حالانکہ کہ صحابہؓ ،تابعینؒ اور تبع تابعینؒ صرف اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے تھے کیونکہ ارشادِ ربانی ہے ’’اگر اللہ تعالیٰ تمہاری مدد کرے تو تم پر کوئی غالب نہیں آ سکتا اگر وہ تمہیں چھوڑ دے تو اس کے بعد کون ہے جو تمہاری مدد کرے ، ایمان والوں کو اللہ تعالیٰ پر ہی بھروسہ رکھنا چاہئے۔‘‘ (سورۃ آل عمران:160)
توحیدِ ناقص: حاجی امداد اللہ مہاجر مکی جو کہ مولانا محمد قاسم ناناتوی ،مولانا رشید احمد گنگوہی اور مولانا اشرف علی تھانوی کے پیر و مرشد ہیں(کلیاتِ امدادیہ ناشر دارالاشاعت لاہورصفحہ 2)فنا فی اللہ کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :’’من رانی فقد راٗی الحق یعنی جس نے مجھے دیکھا اس نے اللہ کو دیکھا۔ ‘‘ العیاذ باللہ(کلیاتِ امدادیہ ضیاء القلوب ناشر دارالاشاعت لاہورصفحہ 35)
توحیدِ خالص: صوفیت کی انتہا انسان کو دین سے اسی طرح باہر کر دیتی ہے یہی طریقت کا شیطانی راستہ ہے مگر اس کے برعکس رحمانی راستہ تو شریعت کا ہے جس کی اتباع کے متعلق اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ’’آپ فرما دیجئے کہ بالیقین میری نماز اور میری ساری عبادت اور میرا جینا اور میرا مرنا یہ سب خالص اللہ تعالیٰ ہی کا ہے جو سارے جہان کا مالک ہے۔‘‘ (سورہ الانعام:162)
توحیدِ ناقص : مزید لکھتے ہیں:’’اس مرتبے میں خدا کا خلیفہ ہو کر لوگوں کو اس تک پہنچاتا ہے اور ظاہر میں بندہ اور باطن میں خدا ہو جاتا ہے۔ العیاذ باللہ(کلیاتِ امدادیہ ضیاء القلوب ناشر دارالاشاعت لاہورصفحہ 36)
توحیدِ خالص: انسان کو ہر حال میں صرف اللہ تعالیٰ کا ہی شکر گزار ہونا چاہیے کیونکہ اسلام عاجزی سکھاتا ہے نہ کہ خود سری۔ ارشاد ہوتا ہے کہ’’اے لوگو! تم یاد کرواپنے اوپراللہ تعالیٰ کی نعمت،کیا اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی پیدا کرنے والاہے؟وہ تمہیں آسمان سے رزق دیتا ہے اور زمین سے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں تو کہاں تم الٹے پھرے جاتے ہو؟‘‘ (سورہ فاطر :3)
توحیدِ ناقص : پھر فنا در فنا اللہ کے مراتب بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’اور اس کے بعد اس کو ہوہو کے ذکر میں اس قدر منہمک ہو جانا چاہیے کہ خود مذکور یعنی (اللہ) ہو جائے اور فنا در فنا کے یہی معنی ہیں۔‘‘(کلیاتِ امدادیہ ضیاء القلوب ناشر دارالاشاعت لاہورصفحہ 18)
تو حیدِ خالص: یہ محض شیطانی وسوسے ہیں قرآن پاک میں ایسے ہی لوگوں کے بارے نصیحت فرماتا ہے کہ’’اور تحقیق ہم نے انسان کو پیدا کیااور ہم جانتے ہیں جو وسوسے گزرتے ہیں اس کے جی میں،اور ہم اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں‘‘ (سورۃ ق:16)
توحیدِ ناقص : حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رسول اللہ ﷺ سے مناجات کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’یا رسولِ کبریا فریاد ہے یا محمد مصطفےٰﷺ فریاد ہے آپ ﷺ کی امداد ہو میرا یا نبیﷺ حال ابتر ہوا فریاد ہے‘‘
’’سخت مشکل میں پھنسا ہوں آجکل اے میرے مشکل کشا فریاد ہے‘‘ (کلیاتِ امدادیہ نا لہ امدادِ غریب ناشر دارالاشاعت لاہورصفحہ 90)
تو حیدِ خالص: رسول اللہ ﷺ نے ابنِ عباسؓ کو فرمایاکہ:’’اے ابنِ عباسؓ!تم اللہ کے دین کی حفاظت کرواللہ تمہاری حفاظت کرے گا۔تم اللہ کے دین کی حفاظت کروتم اللہ کو اپنے روبرو پاؤ گے۔تم اگر مانگوتو صرف اللہ سے مانگو،مدد طلب کرو تو صرف اللہ سے مدد طلب کرو،جان رکھو!اگر ساری دنیاجمع ہو کربھی تمہیں کوئی فائدہ پہنچانا چاہے تو سوائے اس کے جو اللہ نے لکھ دیا ہے کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتی،اور اگر سب جمع ہو کر تجھے نقصان پہنچانا چاہے تو سوائے اس کہ جو اللہ نے تمہارے لئے لکھ دیا ہے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی کیونکہ اللہ نے تقدیر لکھنے والے قلموں کو اٹھا لیا اور لوحِ محفوظ کو خشک کر دیا۔‘‘(الترمذی)
توحیدِ ناقص : حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کا رسول اللہ ﷺ کو نور قرار دینا:
سب دیکھو نور محمد ﷺ کا سب پیچ ظہور محمد ﷺ کا کہیں حسن و جمال دکھایا ہے سب دیکھو نور محمد ﷺ کا‘‘ مزید لکھتے ہیں:
’’چہرہ تاباں کو دکھلا دو مجھے تم سے اے نورِ خدا فریاد ہے‘‘ (کلیاتِ امدادیہ نا لہ امدادِ غریب ناشر دارالاشاعت لاہورصفحہ 91)
توحیدِ خالص: ’’آپ کہ دیجئے کہ میں تو تم جیسا ہی ایک انسان ہوں،ہاں میری جانب وحی کی جاتی ہے کہ سب کا معبود صرف ایک ہی معبود ہے‘‘(سورۃ الکہف: 110)
توحیدِ ناقص : عقیدہ وحوۃالوجود(یعنی ہر شے میں خداکا موجود ہونا اور ہر شے میں خداہی خدا نظر آنا)(شمائم امدادیہ حصہ اول صفحہ 35)کو ثابت کرنے کے لئے حاجی صاحب کا سورہ الذٰریت آیت:21 کے ترجمہ میں تحریف کرنا:’’خدا تم میں ہے کیا تم نہیں دیکھتے ہو؟‘‘(کلیاتِ امدا؛دیہ ضیاء القلوب ناشر دارالاشاعت لاہورصفحہ 31)
توحیدِ خالص: اللہ تعالیٰ اپنے وجود کے لحاظ سے عرش پر مستویٰ ہے وحوۃ الوجود کا رد قرآن پاک ان الفاظ میں کرتا ہے’’وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیاپھر عرش پر مستوی ہوگیا‘‘(سورۃ الحدید: 4) آیت کا صحیح تر جمہ یہ ہے’’اور زمین میں یقین کرنے والوں کے لئے نشانیاں ہیں اور تمہاری ذات میں بھی(بہت سی نشانیاں ہیں)،تو کیا تم دیکھتے نہیں ہو؟‘‘ (سورۃ الذریت:20-21)
توحیدِ ناقص : ’’مشرب فقیر کایہ ہے کہ محفلِ مولود میں شریک ہوں بلکہ ذریعہ برکات سمجھ کر منعقد کرتا ہوں اور قیام میں لطف و لذت پاتا ہوں۔‘‘(کلیاتِ امدادیہ فیصلہ ہفت ناشر دارالاشاعت لاہورصفحہ 80)
توحیدِ خالص: بدعتی اسی خوش فہمی میں مبتلا ہوتا ہے کہ وہ اچھا عمل کر رہا ہے مگر اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کے عمل کی کوئی قیمت نہیں ایسے ہی لوگوں کی نشاندہی قرآن پاک میں یوں آتی ہے’’کہ دیجئے کہ کیا میں تمہیں بتا دوں کہ بااعتبار اعمال سب سے زیادہ خسارے میں کونہیں؟وہ ہیں کہ جن کی دنیاوی زندگی کی تمام تر کوششیں بے کار ہو گیءں اور وہ اسی گمان میں رہے کہ وہ بہت اچھے کام کر رہے ہیں‘‘(سورۃ الکہف :103-104)
توحیدِ ناقص : حاجی صاحب ذکر کے مراتب بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں: ’’(نوافل کے بعد)درود الصلوۃ والسلام علیک یا رسول اللہ،الصلوۃ والسلام علیک یا حبیب اللہ،الصلوۃ والسلام علیک یانبی اللہ تین بار عروج و نزول کے طریقے پر پڑ ھے۔‘‘ (کلیاتِ امدادیہ ضیاء القلوب ناشر دارالاشاعت لاہورصفحہ 15)
توحیدِ خالص: مشرکینِ مکہ بھی مصیبت کے وقت ایک اللہ کو پکارتے تھے تو پھر اسی ہر وقت اور ہر حالت میں اسی اللہ کو کیوں نہ پکارا جائے جو سب کی سنتا ہے’’آپﷺ کہ دیں بھلا دیکھو اگر تم پر اللہ تعالیٰ کا عذاب آئے یا تم پر قیامت آجائے ، کیا تم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو پکاروگے؟‘‘(سورۃ الانعام : 40)
توحیدِ ناقص : یہی عقائد موجودہ دور کے صوفی شیخ جناب پیر ذوالفقار احمد نقشبندی صاحب کے بھی ہیں ۔آپ سے پوچھا گیا کہ’’ اگر اولیاء اللہ کا فیض مرنے کے بعد بھی رہتا ہے تو دوسرے شیخ سے بیعت ہونے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘ اس کے جواب میں آپ لکھتے ہیں’’ فیض تو رہتا ہے مگر اس قدر نہیں کہ ناقص کو کامل بنا سکے۔‘‘ (تصوف و سلوک صفحہ 218)
توحیدِ خالص: آپ سے اچھے توبریلوی بزرگ ہیں جن کا فیض توزندہ و مردہ دونوں صورتوں میں کامل ہی رہتا ہے شرک کا دروازہ کھولنے والے ایسے عقیدے کے متعلق قرآن پاک کا ارشاد ہے کہ ’’یہاں تک کہ جب ان میں کسی کو موت آئے تو وہ کہتا ہے اے میرے رب! مجھے پھر دنیا میں واپس بھیج دے۔شاید میں اس میں کوئی اچھا کام کر لوں جو چھوڑ آیا ہوں،ہرگز نہیں، یہ تو ایک بات ہے جو وہ کہ رہا ہے اور ان کہ آگے ایک پردہ ہے قیامت کہ دن تک‘‘(سورۃ المومنوں:99-100)
توحیدِ ناقص : پیر ذوالفقار صاحب مولانا قاسم ناناتوی کے نعتیہ اشعار لکھتے ہیں جن میں رسول اللہ ﷺ کی بشریت کا انکار اور آپ ﷺ کا نور ہونا بتایا گیا ہے: سب سے پہلے مشیت کے انوار سے نقش روئے محمد ﷺ بنایا گیا
پھر اسی نور سے مانگ کر روشنی بزم کون و مکاں کو سجایا گیا (علمائے دیوبند کا تاریخی پسِ منظر صفحہ 26)
توحیدِ خالص: رسول اللہ ﷺ کے متعلق نور ہونے کا عقیدہ صرف بریلوی حضرات کا ہی نہیں ہے بلکہ یہ عقیدہ شروع سے آج تک تمام دیوبندی علماء کابھی رہا ہے حالانکہ قرآن پاک اس عقیدے کا مکمل رد کرتا ہے’’آپ کہ دیجئے کہ میرا پروردگار پاک ہے میں تو صرف ایک بشر ہی ہوں جو رسول بنایا گیاہوں‘‘(سورۃ بنی اسرائیل: 93)
توحیدِ ناقص : خود کو سگِ مدینہ(یعنی مدینہ کا کتا) کہنے کی رسم امیر دعوتِ اسلامی مولانا الیاس عطار قادری نے شروع نہیں کی بلکہ اس کے موجد مولانا قاسم ناناتوی ہیں لہذا پیر ذوالفقار صاحب مولانا کے چند اشعار لکھتے ہیں:
امیدیں لاکھوں ہیں لیکن بڑی امید ہے یہ کہ ہو سگانِ مدینہ میں نام میرا شمار (علمائے دیوبند کا تاریخی پسِ منظر صفحہ 26)
توحیدِ خالص: ’’رسول اللہ ﷺ نے کتوں کو قتل کر دینے کا حکم فرمایا تھا‘‘ (صحیح مسلم کتاب الطہارۃحدیث : 551)

إِنْ أُرِیْدُ إِلاَّ الإِصْلاَحَ مَا اسْتَطَعْتُ وَمَا تَوْفِیْقِیْ إِلاَّ بِاللّہ
وَآخِرُ دَعْوَاناْ أَنِ الْحَمْدُ لِلّہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن
 
Top