• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

توحید حاکمیت اور فاسق وظالم حکمرانوں کی تکفیر

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
پیش لفظ

کافی عرصہ پہلے فتنہ تکفیر کے موضوع پر ایک مفصل تحریر قلمبند کی تھی۔ اس کاایک حصہ ماہنامہ الاحیاء، اپریل 2011ء کے شمارہ میں شائع ہو چکا ہے۔ یہاں شیخ اسامہ بن لادن کے بارے سوالات کے حوالہ سے اہل فورم کے لیے شیئر کی جا رہی ہے۔ چونکہ یہ تحریر میں نے خود ہی کمپوز کی تھی اور ایڈیٹنگ بھی خود ہی کی تھی لہذا اس میں کمپوزنگ کی غلطیاں رہ جانے کے کافی امکانات ہیں، جن کے لیے معذرت خواہ ہوں۔
یہ تحریر یا کتاب دو حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلے حصہ میں مسئلہ تکفیر کا سلفی علماء کے اقوال کی روشنی میں جائزہ لیا گیا ہے اور دوسرے حصہ میں مسئلہ تکفیر پر کتاب وسنت کی نصوص سے براہ راست استدلال اور سلف صالحین کے فہم کے مطابق بحث کی گئی ہے۔
یہ واضح رہے کہ ماہنامہ الاحیاء میں شائع شدہ مضمون میں چند ایک مقامات پر میں نے تہذیب واصلاح کے بعد اس فورم پر اس مضمون کو شیئر کیا ہے تاکہ اگر کہیں کچھ لہجہ کی سختی محسوس ہوتی تھی تو اس کا ازالہ ہو سکے۔
کتاب کے حواشی یا فٹ نوٹس آخر میں دیے گئے ہیں اور متن میں جہاں جہاں جامنی رنگ میں نمبرز لگائے گئے ہیں تو یہ حواشی یا فٹ نوٹس کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
پہلا حصہ
توحید حاکمیت اور ظالم وفاسق حکمرانوں کی تکفیر

(سلفی علماء کے اقوال کی روشنی میں)

بلاشبہ مخصوص، استثنائی اور ناگزیر حالات میں دین اسلام کی حفاظت کے پیش نظر تکفیرکا مسئلہ شرعی حکم میں داخل ہے لیکن فی زمانہ حالات کے جبر ، حکمرانوں کے ظلم اور استحصال جیسے اسباب نے تکفیر کے مسئلے کو شرعی حکم سے زیادہ ردعمل(reaction) اور استثنائی سے زیادہ عمومی حکم کا درجہ دے دیا ہے۔اپنے اس مضمون میں ہم فطری انسانی ردعمل کی اس تحریک کا ایک تاریخی اور تحقیقی جائزہ پیش کریں گے اور تکفیر کے صحیح تصور کو سلفی علماء کے اقوال اور قرآن وسنت کی روشنی میں اجاگر کریں گے۔ ١٩٢٤ء میں خلافت عثمانیہ کے سقوط کے ساتھ امت مسلمہ میں مسلمانوں کی سیاسی اجتماعیت کے حوالے سے ایک خلاء پیدا ہو گیا۔ اس خلاء کو پر کرنے کے لیے عالم اسلام کے مختلف علاقوں میں احیائی اور انقلابی تحریکوں نے جنم لیا۔ دین اسلام کے اجتماعی، فکری، سیاسی، قانونی، آئینی، دستوری،معاشرتی ، انتظامی اور معاشی پہلوؤں سے متعلق بہت کچھ لکھا ، پڑھا اور سناگیا ۔
بعض مسلم ممالک میں نفاذ شریعت' نظام خلافت کے قیام یا اقامت دین کے لیے جدوجہد کرنے والی تحریکوں پر وقت کے فاسق و ظالم حکمرانوں کی طرف سے شدید قسم کا ظلم وستم ہوا تو فطری ردعمل کے نتیجے میں اسلامی تحریکوں کے کارکنان کی ایک معتد بہ جماعت میں ان ظالم حکمرانوں کے خلاف نفرت اور عداوت کا جذبہ اس قدر بڑھ گیا کہ اس کا اظہار ان کی تکفیر کی صورت میں ہونے لگا۔ حالات پر گہری نظر رکھنے والے حضرات بخوبی جانتے ہیں کہ دنیا بھر میں جہاں جہاں بھی حکمرانوں کی تکفیر کی تحریک چلی ہے وہ ہمیشہ احیائی تحریکوں پر ظلم کے ردعمل میں پیدا ہوئی ہے۔ اگر اصولی اور نظری بات کی جائے توخلافت عثمانیہ اور آج کی مسلمان حکومتوں میں کوئی بھی جوہری فرق نہیں ہے۔ خلافت عثمانیہ میں سوائے مجلہ أحکام عدلیہ کے، جو دیوانی قانون کے طور پر رائج تھا اور اس کی بھی پابندی عدالتوں کے لیے لازم نہ تھی، بقیہ تمام قوانین فرانسیسی، اطالوی اور برطانوی تھے(١) بلکہ سلطنت عثمانیہ کے اساسی قانون میں یہ بات بھی موجود تھی کہ سود شرعاً حرام ہے اور قانوناً جائز ہے۔علاوہ ازیں سلطنت کے قانون فوجداری میں یورپین قوانین کی تقلید میں حدود کو ساقط کر دیا گیا لیکن اس کے باوجود اس وقت کے علماء میں سے کسی مکتب فکر کے کسی بھی عالم دین کو بھی ہم نہیں دیکھتے کہ وہ خلافت عثمانیہ کے حکمرانوں یا دوسرے الفاظ میں اس وقت کے خلفاء کی تکفیر کر رہے ہوں۔
فاسق و ظالم حکمرانوں کی تکفیر کے بارے سلفی علماء کی آراء نقل کرنے سے پہلے ہم یہ وضاحت کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ اس وقت سلفی کے نام سے کئی ایک گروپس، جماعتیں یا تحریکیں کام کر رہی ہیں مثلاً مدخلی سلفی، جہادی سلفی، جدید سلفی، علمی سلفی، حزبی سلفی،اخوانی سلفی، مرجئی سلفی، قطبی سلفی، سروری سلفی اور سعودی سلفی وغیرہ۔ان میں سے ہر ایک جماعت یا گروپ یا تحریک منہج سلف صالحین کے فہم پر قرآن وسنت کی اتباع کی دعویدار ہے اور امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے اپنا فکر ثابت کرتی ہے۔ اس وقت عرب دنیا میں سعودی سلفی علماء کی روایت(version) سب سے زیادہ مستند سلفی روایت شمار ہوتی ہے اگرچہ ان میں بھی بعض مقامات پر اختلاف ہو جاتا ہے۔ اس اختلاف کی صورت میں شیخ بن باز ، شیخ صالح العثیمین اورشیخ عبد اللہ بن جبرین رحمہم اللہ کے موقف کو بقیہ سعودی علماء کی نسبت علمی اور عوامی حلقوں میں نسبتاً زیادہ استناد کی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔اپنے اس مضمون میں ہم سلفی جماعتوں میں سے نمائندہ سلفی جماعت یعنی ، سعودی سلفی، اور ان میں سے بھی کبار مستند سلفی علماء یعنی شیخ بن باز، شیخ صالح العثیمین اور شیخ عبد اللہ بن جبرین رحمہم اللہ وغیرہ کا موقف شرح وبسط سے بیان کریں گے اگرچہ ہم بقیہ سلفی علماء اور جماعتوں کا موقف بھی ساتھ ساتھ اجمالاً واضح کریں گے۔(٢)
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
مصر میں تکفیر کی تحریک
بعض سلفی وغیرسلفی علماء کا کہنا ہے کہ مصر میں تکفیر کی تحریک کا آغاز اخوانی تحریک کے رہنما سید قطب شہید کی تحریروں سے ہوا۔ علامہ یوسف قرضاوی لکھتے ہیں :
'' فی ھذة المرحلة ظھرت کتب الشھید سید قطب ' التی تمثل المرحلة الأخیرة من تفکیرہ ' والتی تنضح بتکفیر المجتمع' وتأجیل الدعوة الی النظام الاسلامی بفکرة تجدید الفقہ وتطویرہ ' واحیاء الاجتھاد' وتدعوا لی العزلة الشعوریة عن المجتمع' وقطع العلاقة مع الآخرین...ویتجلی ذلک أوضح ما یکون فی تفسیر 'فی ظلال القرآن' فی طبعتہ الثانیة وفی 'معالم الطریق' ومعظمہ مقتبس من الظلال.''(أولیات الحرکة السلامیة : ص ١١٠)
''اس مرحلے میں سید قطب کی وہ کتابیں سامنے آئیں، جو سید قطب کے فکر کے آخری مرحلے کی نمائندگی کر رہی تھیں اور ان کتابوں میں اسلامی معاشروں تکفیر، نظام اسلامی کے قیام کی دعوت کو مؤخر کرنا اور فقہ اسلامی کی تجدید، تشکیل اور اجتہاد کے احیاء کی دعوت کو مقدم کرنا مترشح ہوتا ہے۔ اسی طرح سید قطب کی یہ کتابیں اسلامی معاشروں سے شعوری علیحدگی اور اپنے کے علاوہ سے قطع تعلقی کی دعوت دیتی ہیں... اور یہ تمام افکار ان کی تفسیر 'فی ظلال القرآن' کے دوسرے ایڈیشن میں وضاحت سے موجود ہیں اور ان کی کتاب 'معالم الطریق' میں بھی ہیں اور اس کتاب کا اکثر حصہ ان کی تفسیر فی ظلا ل القرآن ہی پر مشتمل ہے۔''
شیخ ابو حسام الدین طرفاوی نے بھی اپنی کتاب 'الغلو فی التکفیر'میں تکفیری فکراور تحریک کی بنیاد سید قطب شہید کو قرار دیا ہے جبکہ محمود عزت کا کہنا ہے کہ سید قطب کا آخری کلام مسلمان معاشروں کی تکفیر نہ کرناتھا(٣)۔ جہاں تک سعودی سلفی علماء کا سید قطب شہید کے بارے رائے کا معاملہ تو اکثر کبار سلفی علماء سید قطب شہید کو جلیل القدر صحابہ کرام پرطعن، انبیاء کے لیے غیر مناسب کلمات کے استعمالات، وحدت الوجود کے قائل ہونے، حلول کے عقیدے کے مطابق قرآنی آیات کی تفسیر کرنے، صفات باری تعالی میں تحریف، مسلمان معاشروں کی تکفیر، مسئلہ جبر میں جبریہ کی تقلید، کلمہ توحید کی غلط تفسیر، عقیدے میں خبر واحد بلکہ خبر متواتر کابھی انکار، قرآن کو اللہ کی مخلوق قرار دینا، میزان کا انکار، اشتراکیت کا قائل ہونے، روح کو ازلی قرار دینے، بتوں اور قبر پرستی کے شرک کو شرک اکبر نہ سمجھنا، رؤیت باری تعالی، صفت ید، صفت وجہ اور استواء علی العرش کی باطل تاویلات پیش کرنا، صفت کلام سے مراد اللہ کا ارادہ لینا، نبوی معجزات کی توہین اور عقیدہ الولاء و البراء میں غلو سے متہم کرتے ہوئے بدعتی شمار کرتے ہیں(٤)
سید قطب شہید کے عقیدے اور منہج کو بدعتی قرار دینے پر سعودی عرب کی فتوی کمیٹی اور ہیئہ کبار العلماء کے رکن شیخ صالح الفوزان کا رسالہ 'براء ة علماء الأمة من تزکیة أھل البدعة والمذمة'کے نام سے موجودہے۔علاوہ ازیں مدینہ یونیورسٹی کے استاذ شیخ ربیع المدخلی نے بھی کئی ایک کتب میں سید قطب شہید پر رد کیا ہے اور اس بارے ان کی مفصل کتاب'أضواء سلامیة علی عقیدة سید قطب وفکرہ 'ایک معروف کتاب ہے۔علاوہ ازیں معروف سعودی عالم شیخ عبد اللہ الدویش کی بھی سید قطب کے رد میں کافی تحریریں موجود ہیں جن میں سے'المورد العذب الزلال فی التنبیہ علی أخطأ الظلال'ایک اہم تحریر ہے۔شیخ ابو عبد الرحمن الراجحی نے سید قطب کے عقائد کے رد میں ایک قصیدہ عربی زبان میں لکھاجو عرب دنیا میں بہت معروف ہوا یہ قصیدہ 'الھائیة فی بیان عقیدة سید قطب البدعیة'کے نام سے مشہور ہے۔
لیکن ہم یہاں یہ بات بھی واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ کوئی بھی شیء اس دنیا میں شر محض نہیں ہے۔ سید قطب شہید رحمہ اللہ میں عقیدے کے بگاڑ کے باوجود بہت سی خوبیاں تھیں اور دین اسلام کے لیے ان کی قربانیاں ایک تسلیم شدہ امر ہے۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ بعض مقامات پر اگرچہ واقعتاً سید قطب کے عقیدے میں کجی محسوس ہوتی ہے لیکن بعض مقامات پر ناقدین کی طرف سے سید قطب شہید رحمہ اللہ کی عبارتوں کو کھینچ تان کر ان کے کھاتے میں وہ الزام بھی ڈال دیے جاتے ہیں جو ان کے عقائد معلوم و محسوس نہیں ہوتے ہیں۔بہر حال سید قطب شہید ایک داعی، مصلح اور ادیب تھے اور اس اعتبار سے ان کا مقام مسلم اور قابل تعریف ہے لیکن انہیں ایک فقیہ یا مجتہد کے مقام پر فائز کرنا یا عقیدہ جیسے محتاط علم میں ان کو رہنما بنانا خود ان کے ساتھ بھی زیادتی ہے اور عوام الناس کے ساتھ بھی۔
ہم یہ بھی واضح کرنا چاہتے ہیں کہ بعض سلفی نوجوان یاطلبۃ العلم، کبار علماء کے اس قسم کے رد کو کسی شخصیت کو رگیدنے یا مسخ کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں حالانکہ علماء کا مقصد کسی شخص کی ذات کو گندا کرنا نہیں ہوتا۔ عام طور پربعض نوجوان جذباتی قسم کے متشدد سلفیہ کا یہ منہج بن چکا ہے کہ کسی بھی داعی، مصلح یا خادم دین کے بارے انہیں عقیدے یامنہج کی کسی خرابی کا علم ہوتا ہے تو وہ اس داعی یا مصلح کی پوری شخصیت ہی کو مسخ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس نوجوان سلفی نظریاتی تشدد کا نتیجہ ہے کہ آج سلفیہ کئی ایک جماعتوں میں تقسیم ہو کر ایک دوسرے کی تکفیر کر رہے ہیں ۔اور یہ سب انٹر نیٹ پر موجود ہے۔ انبیاء و رسل کے علاوہ اس عالم بشری میں کوئی بھی معصوم نہیں ہے اورہر کوئی خطا کا پتلا ہے لہذا کسی کی فکری خطا یا عقیدے کے بگاڑ کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ آپ ان کی من جملہ دینی خدمات یا اوصاف حسنہ ہی کا رد کر دیں ۔ قرآن مجید تو یہود تک کے بعض اوصاف پر ان کی تعریف کرتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ومن أھل الکتاب من ا ن تأمنہ بقنطاریؤدہ الیک.(آل عمران : ٧٥)
مصر میں بھی اگرچہ قانون سازی کی تاریخ ڈیڑھ سو سال پرانی ہے (٥) لیکن مصر کے ظالم حکمرانوں کے ظلم کے خلاف ردعمل کی صورت میں تکفیر کی تحریک کا باقاعدہ آغاز سید قطب شہید کی تحریروں کی روشنی میں بیسیویں صدی عیسوی کی سترکی دہائی میں ہوا(٦)۔ مصر میں تکفیر کا دوسرا مرحلہ 'جماعت المسلمین' سے شروع ہواجنہیں 'جماعة التکفیر والھجرة'کا نام دیا گیا۔ اس جماعت کی ابتداء حسن البناء کی قائم کردہ جماعت'الخوان المسلمون'کے ان راکین سے ہوئی جنہیں حکومت مصر کی طرف سے پابند سلاسل کیا گیااور ان پر معاصر حکام کی طرف سے شدید ظلم و ستم ہوا۔١٩٦٧ء میں جیل میں قید اخوانیوں کے لیے جمہوریہ مصر کے صدر جمال عبد الناصر کی طرف سے یہ حکم جاری ہوا کہ اخوانی کارکنان صدرکی تائید و حمایت کریں ۔ اکثر اخوانی اراکین نے اپنے آپ کو مجبور اور حالت اکراہ میں سمجھتے ہوئے صدر کی تائید کر دی جبکہ نوجوانوں کی ایک جماعت نے اس تائید سے انکار کر دیا اور صدر اور اس کے حواریوں حتی کہ ان اخوانیوں کو بھی مرتد قرار دیا جو صدر کی تائید کر چکے تھے۔نوجوانوں کی اس جماعت نے یہ بھی کہا کہ جو ان مرتدین کو مرتد نہ کہے وہ بھی مرتد ہو جائے گا۔ ان نوجوانوں کے امام اس وقت انجینئر علی اسماعیل تھے۔ علی اسماعیل نے بعد میں اپنے افکار اور نظریات سے توبہ کر لی ۔
ان کے بعد شکری مصطفی نے ان نوجونواں کی قیادت سنبھال لی اور تنظیم کو بیعت کی بنیادوں پر منظم کیا۔ شکری مصطفی کے دور میں اس جماعت کے افکار و نظریات میں تشدد اور بھی بڑھ گیا اور جو بھی جماعت سے علیحدہ ہوتا تو اس کو وہ ایک طرف تو جسمانی سزا دینا اپنا حق سمجھتے تھے اور دوسری طرف اس کی تکفیر بھی کرتے تھے۔٣٠مارچ ١٩٧٨ء کوحکومت مصر کی طرف سے شکری مصطفی اور ان کے ساتھیوں کو پھانسی کی سزا سنائی گئی۔ شکری مصطفی کے بعد اس جماعت کی قیادت ماہر عبد اللہ زناتی نے سنبھال لی۔ اس جماعت کے بنیادی عقائد میں تکفیر اور ہجرت شامل ہے۔ تکفیر کے اصول کے تحت یہ ان حکمرانوں کی تکفیر کرتے ہیں جو اسلامی شریعت کے مطابق فیصلے نہیں کرتے ۔ یہ حکمرانوں کے علاوہ ان مسلمان معاشروں کی بھی تکفیر کرتے ہیں جو اپنے حکمرانوں کے فیصلوں پر راضی ہوں یا انہیں ووٹ دیں یا کسی طرح سے بھی ان کے ساتھ تعاون کریں۔ یہ ان علماء کی بھی تکفیر کرتے ہیں جو شریعت کے مطابق فیصلے نہ کرنے والے مسلمان حکمرانوں کی تکفیر نہیں کرتے۔ یہ جماعت تمام مسلمانوں کے لیے اپنے امام سے بیعت کو واجب قرار دیتی ہے جس مسلمان تک ان کے امام کی دعوت پہنچ جائے اور وہ اس کی بیعت نہ کرے تو اس مسلمان کی بھی وہ تکفیر کرتے ہیں۔ اسی طرح اگر کوئی ان کی جماعت میں شامل ہونے کے بعد نکل جائے تو وہ بھی ان کے نزدیک مرتد اور واجب القتل ہے۔ اپنے ہجرت کے اصول کے تحت انہوں نے تمام اسلامی معاشروں کو دور جاہلیت کے معاشرے قرار دیا اور ان سے قطع تعلقی کا حکم جاری کیا ۔ اس جماعت کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ موجودہ اسلامی معاشروں میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر نہیں ہے کیونکہ یہ جاہلی معاشرے ہیں اور جاہلی معاشرے کو اللہ کے رسول نے ایمان کی دعوت دی لہذا ان مسلمان معاشروں کو بھی مکہ کے جاہلی معاشرے پر قیاس کرتے ہوئے صرف ایمان کی دعوت دینی چاہیے۔ اس جماعت کے بعض اکابرین کو پھانسی چڑھا دیا گیا، بعض نے اپنے افکار سے رجوع کر لیا اور بعض مختلف علاقوں اور بلاد اسلامیہ میں منتشر ہو کر اپنا یہ فکر پھیلانے لگ گئے۔ (الموسوعة المیسرة ' جماعات غالیة ' جماعة التکفیر والھجرة)
مصر میں تکفیر کی اس تحریک کا زوال تیسرے مرحلے میں الاخوان کے مرشد عام شیخ حسن الھضیبی سے شروع ہوا ۔ انہوں نے 'دعاة لا قضاة'کے نام سے کتاب لکھی اور اس میں اخوانیوں کو مسلمان معاشروں اور عمومی تکفیر سے منع کیا۔ انہوں نے اپنی تحریک کے اراکین میں اس بات کو اجاگر کیا کہ ہم داعی ہیں نہ کہ قاضی۔ شیخ نے یہ واضح کیا کہ اخوانیوں کا اصل کام لوگوں کی اصلاح ہے نہ کہ ان پر فتوے لگانا اور ان کے کفر کے فیصلے جاری کرنا۔ علامہ قرضاوی نے اپنی کتاب'ظاھرة الغلو فی التکفیر'میں اس کتاب کی تعریف کی ہے اور کہا ہے کہ اس کتاب نے اخوانیوں کو ان کے صحیح منہج اور کام کا احساس دلایا۔
مصر کے معروف سلفی عالم دین شیخ احمد شاکر رحمہ اللہ کے بارے عام طور پر یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ وہ حکمرانوں کی تکفیر کے قائل تھے۔ ہمارے علم کی حد تک ان کی کوئی ایسی تحریر نہیں ہے جس میں انہوں نے توحید حاکمیت کی بیان پر مصری یا عثمانی حکمرانوں کی تکفیر کی ہو۔ ہاں! ان کی بعض ایسی تحریریں ضرور موجود ہیں جس میں انہوں نے وضعی قوانین کے مطابق فیصلے کرنے کو جائز قرار دینے والوں کو گمراہ قرار دیا ہے ۔شیخ ایک جگہ فرماتے ہیں:
''وھذہ الآثار عن ابن عباس وغیرہ ممایلعب بہ المضللون فی عصرنا ھذا من المنتسبین للعلم' ومن غیرھم من الجراء علی الدین یجعلونھا عذرا أو باحة للقوانین الوضعیة الوثنیة الموضوعة التی ضربت علی بلاد المسلمین.''(عمدة التفسیر:جلد ١، ص ٥١٤)
'' اور حضرت عبد اللہ بن عباس کے ان آثار وغیرہ کی بنیاد پر ہمارے زمانے کے بعض نام نہاد اہل علم اور دین کے معاملے میں جرات کا اظہار کرنے والے کھیل تماشہ کرتے ہیں اور وہ ان آثارکو بنیاد بناتے ہوئے ان شرکیہ وضعی قوانین کو قابل عذر یا مباح قرار دیتے ہیں جو مسلمان ممالک میں نافذ کیے گئے ہیں۔''
شیخ کی درج ذیل عبارت اپنے موقف میں انتہائی صریح ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ سلفی علماء کا اس بات پر اتفا ق ہے کہ جو حضرات خلاف اسلام وضعی قوانین کے نفاذ یا ان کے مطابق فیصلوں کو مباح یا قابل عذر قرار دیتے ہیںوہ گمراہ تو کجا دائرہ اسلام سے بھی خارج ہو جاتے ہیں۔شیخ نے اسی فعل کو ایک دوسری جگہ کفر بواح قرار دیا ہے۔ شیخ فرماتے ہیں:
''ان الأمر فی ھذہ القوانین الوضعیة واضح وضوح الشمس ھی کفر بواح لا خفاء فیہ.''(عمدة التفسیر : جلد١، ص١٧٤٤)
''ان وضعی قوانین کا معاملہ روز روشن کی طرح واضح ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ ایسا کفر بواح ہے کہ جس میں کوئی شک نہیں ہے۔''
وضعی قوانین کے کفریہ ہونے میں بھی کوئی شک نہیں ہے اور جو ان کفریہ قوانین کے مطابق فیصلوں کو جائز، حلال یا قابل عذر سمجھے تو اس کے اس عمل کے کفر بواح ہونے میں بھی کوئی شک نہیں ہے لیکن یہ واضح رہے کہ شیخ نے اس فعل کے فاعلین کو کافر قرار نہیں دیا ہے بلکہ اصل زور فعل کے کفریہ اور کفر بواح ہونے پر ہے۔
کسی فعل کے 'کفریہ' ہونے یا 'کفر بواح' ہونے اور اس کے فاعل کو 'کافر' قرار دینے میں جو فرق ہے وہ اہل علم سے مخفی نہیں ہے۔یہ بھی واضح رہے کہ کسی فعل کو 'کفر' یا 'شرک' یا 'کفر بواح'قرار دینے کو عرف عام میں تکفیر نہیں کہتے کیونکہ تکفیر تو 'فاعل ِ کفر' یا' فاعل ِ شرک' کی ہوتی ہے نہ کہ' افعال کفر' یا 'افعال شرک' کی۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
سعودی عرب میں تکفیر کی تحریک
سعودی حکمران خاندان آل سعود کی اسلام مخالف خارجہ پالیسیوں ' بعض اسلامی ممالک کے خلاف امریکی حکومت کو لاجسٹک سپورٹ اور اڈوں کی فراہمی اور امریکہ کے ساتھ حد سے بڑھے ہوئے تعلقات کے تناظر میں بعض اہل علم اور دینی طبقات کی طرف سے شدید ردعمل کا اظہار ہوا۔ سعودی حکمرانوں نے اس رد عمل کے نتیجے میں اپنی اصلاح کی بجائے ایسے دینی عناصر کو قید و بند کی صعوبتوں میں مبتلا کر دیایا ملک بدر کر دیایا جبر و اکراہ کے ساتھ یک طرفہ شرائط منواتے ہوئے اپنی سابقہ حیثیت پر برقرار رکھا۔ اس ظلم کے نتیجے میں خاندان آل سعود کی تکفیر کی تحریک شروع ہو گئی۔ اس تکفیر کی تحریک میں زیادہ تر جہادی تحریکوں سے متعلق نوجوان یا تیسرے درجے کے علماء شامل ہیں۔شیخ اسامہ بن لادن فرماتے ہیں:

''میرا اگلا پیغام اہل حل و عقد اور حق گو علماء کے نام ہے...یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ مجاہدین نے ابھی تک مکہ و مدینہ کی سر زمین پر قائم حکومت کے خلاف قتال شروع نہیں کیا۔اگر اس قتال کا آغاز ہوا تو اس کا سب سے پہلا نشانہ اس علاقے کے حکام اور کفر کے امام(یعنی آل سعود) بنیں گے۔فی الحال ہم صرف صلیبی اتحاد کے خلاف جنگ کر رہے ہیں۔''(اے اللہ! صرف تیرے لیے:ص ٨٥۔٨٦)
شیخ ماہر بن ظافرالقحطانی فرماتے ہیں:
''أفتی بن لادن شیخ المفتین ألم تروا أنھم حکموا غیر شرع أحکم الحاکمین فکانوا بہ من الکافرین.'' (حوار مع أھل التکفیر قبل التفجیر : ص ٢)
''مفتی اعظم اسامہ بن لادن نے یہ کہتے ہوئے فتوی دیاہے: کیا تم یہ نہیں دیکھتے کہ سعودی حکمرانوں نے أحکم الحاکمین کی شریعت کے خلاف فیصلے کیے ہیں پس اس وجہ سے وہ کافر ہیں۔ ''
سعودی حکمرانوں کے ظلم و ستم کے خلاف یہ ردعمل اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ جہادی عناصر اب اس حکومت کے ساتھ کسی قسم کے معاہدے ' بحث مباحثے یا مکالمے تک کے قائل نہیں ہیں۔ ڈاکٹر حمدعثمان فرماتے ہیں :
''ھذا التصور لھؤلاء المرتدین الذین أخذوا مقعد الحاکم الشرعی فی بلاد المسلمین یجعل الحوار معھم مستحیلا أصلا ولا حوار مع المرتدین شرعا وسیاسة لا بالسیف والقتال فی سبیل اللہ.''( بذل النصح والتذکیر لبقایا المفتونین بالتکفیر والتفجیر : ص١٥)
'' یہ ان سعودی مرتدین کا نقطہ نظر ہے جنہوں نے مسلمان ممالک میں شرعی امام کے منصب پر قبضہ کر لیا ہے اور ایسے مرتدین کے ساتھ dialogue بالکل بھی ممکن نہیں ہے کیونکہ مرتدین کے ساتھ نہ تو شرعاً dialogue درست ہے اور نہ ہی سیاستہ ًبلکہ ان کے ساتھ ایک ہی معاملہ درست ہے اور وہ جہاد اور قتال فی سبیل اللہ ہے۔''
ایک اور جگہ فرماتے ہیں:
'' لیعلم الجمیع أن علیھم ذا أرادوا منا أن نتراجع عن مبادئنا التی من أجلھا خلقنا و بھا أمرنا و من أجلھا دماء نا سفکنا فیلخرجوا محمدا من قبرہ لیقول لنا : لا تخرجوا المشرکین من جزیرة العرب لیخرجوہ لیقول : لا تجاھدوا المشرکین من جزیرة العرب لیخرجوہ لیقول : انکم مخطئون متطرفون رھابیون لا بدلکم أن تتراجعوا و تتوبوا' عندھا فقط سنسمع ونطیع لہ.''(صحیفة القبس الکویتیة' العدد ١١١٣٧' ٢٤ ربیع الأول' ١٤٢٥ھ)
'' ان سب کو یہ معلوم ہو جانا چاہیے کہ اگر وہ یہ چاہتے ہیں کہ ہم اپنے ان اصولوں اور مبادیات سے رجوع کریں جن کے لیے ہمیں پیدا کیا گیا ہے اور جن کا ہمیں پابند بنایا گیاہے اور جن کی خاطر ہم نے اپنا خون بہایا ہے تو انہیں چاہیے کہ وہ محمد کو قبر سے نکالیں تاکہ وہ ہمیں یہ کہیں: تم مشرکوں کو جزیرہ عرب سے نہ نکالو ۔اور وہ محمد کو قبر سے نکالیں تاکہ وہ ہمیں یہ کہیں: تم جزیرہ عرب کے مشرکوں سے جہاد نہ کرو تاکہ تم انہیں یہاں سے نکال دو۔ اور وہ محمد کو قبر سے نکالیں تا کہ وہ ہمیں کہیں: تم خطار کار ' افراط و تفریط کا شکار اور دہشت گرد ہو۔ تمہارے لیے یہ لازم ہے کہ تم اپنے موقف سے رجوع کرو اور اللہ کی جناب میں توبہ کرو تو تب ہم محمد کی بات کو سنیں گے اور اطاعت کریں گے۔''
بلاشبہ شیخ اسامہ بن لادن اور جہادی تحریکوں کے رہنماؤں کی امریکہ اور یورپین ممالک کے ظلم و کفرکے خلاف قربانیاں ناقابل فراموش ہیں اور کافرانہ ریاستوں کے خلاف ان کے اعمال و افعال کو ہمیشہ جمہور علماء کی تائید حاصل رہی ہے لیکن جب سے ان حضرات نے اپنے فتاوی کا رخ امریکہ اور یورپ سے موڑ کر مسلمان حکمرانوں کی طرف بالعموم اور سعودی شاہی خاندان کی طرف بالخصوص کیا ہے' اس وقت سے یہ علماء کے ہاں ایک متنازع شخصیت بن گئے ہیں۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ سعودی حکمرانوں کی تکفیر اور ان کے خلاف خروج کے اس عمل کو تقریباً جمیع سلفی علماء ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتے ہیں اور مسلمانوں کے خلاف اس جہاد کو فساد قرار دیتے ہیں۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
تکفیر کے بارے القاعدہ کے لٹریچر پر سلفی علماء کا تبصرہ
سعودی عرب کے بارے سعودی سلفی علماء کا کہنا یہ ہے کہ وہاں دوسرے اسلامی ممالک کی طرح سوائے انتظامی معاملات کے کوئی باقاعدہ وضعی قانون نافذ نہیں ہے بلکہ قرآن وسنت کو سپریم لاء کی حیثیت حاصل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سعودی سلفی علماء کی اکثریت قانون سازی کے عمل ہی کو حرام قرار دیتی ہے' چاہے وہ فقہ حنبلی یا فقہ حنفی ہی کے مطابق کیوں نہ ہو(٧)۔ اورسعودیہ کے حکمرانوں کو دوسرا امتیاز یہ حاصل ہے کہ وہ اہل توحید میں سے ہیں اور توحید الوہیت کو نافذ کرنے والے ہیں۔ شیخ بن باز رحمہ اللہ سعودی حکمرانوں کی تکفیر اور ان کے خلاف خروج کے لٹریچر پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
''أما ما یقوم بہ الآن محمد المسعری وسعد الفقیہ و أشباھھما من ناشری الدعوات الفاسدة الضالة فھذا بلا شک شر عظیم وھم دعاة شر عظیم وفساد کبیر والواجب الحذر من نشراتھم والقضاء علیھا واتلافھا وعدم التعاون معھم فی أی شیء یدعواا لی الفساد والشر والباطل والفتن لأن اللہ أمر بالتعاون علی البر والتقوی لا بالتعاون علی الفساد والشر ونشر الکذب ونشر الدعوات الباطلة التی تسبب الفرقة واختلال الأمن ا لی غیر ذلک؛ ھذا النشرات التی تصدر من الفقیہ أو من المسعری أو من غیرھما من دعاة الباطل ودعاة الشر والفرقة یجب القضاء علیھا واتلافھا وعدم الالتفات الیھا ویجب نصیحتھم وارشادھم للحق وتحذیرھم من ھذا الباطل ولا یجوز لأحد أن یتعاون معھم فی ھذا الشر ویجب أن ینصحوا وأن یعودواا لی رشدھم وأن یدعوا ھذا الباطل و یترکوہ ونصیحتی للمسعری والفقیہ وابن لادن وجمیع من یسلک سبیلھم أن یدعوا ھذا الطریق الوخیم وأن یتقوا اللہ ویحذروا نقمتہ وغضبہ وأن یعودواا لی رشدھم وأن یتوبوا الی اللہ مما سلف.''(مجموع فتاوی ومقالات : جلد٩' ص ١٠٠)
''فساد اور گمراہی پر مبنی افکار و دعوت پھیلانے والوں میں سے محمد المسعریاور سعد الفقیہ جیسے لوگ بھی شامل ہیں جواپنی دعوت لے کر کھڑے ہوئے ہیں۔بلاشبہ ان کی دعوت ایک بہت بڑا شر ہے اور یہ لوگ بھی ایک بڑے شر اور فتنے و فساد کے داعی ہیں۔پس یہ لازم ہے کہ ان کی تحریروں سے بچا جائے اور ان کے نظریات کے خلاف فیصلہ کیا جائے اور ان کی کتابوں کو تلف کیا جائے اور ان کے ساتھ ہر اس کام میں عدم تعاون کیا جائے جو فتنے، فساد، باطل اور شر کی طرف لے کر جانے والاہے۔کیونکہ اللہ تعالی نے نیکی اور تقوی کے کاموں میں تعاون کا حکم دیا ہے اور فساد، شر، جھوٹ کی اشاعت اورایسے باطل افکار جو تفرقے اور امن و امان کی خرابی وغیرہ کا سبب بنتے ہوں، کی اشاعت سے منع فرمایا ہے۔ یہ تحریریں جو سعد الفقیہ اور مسعری وغیرہ، جو شر،باطل اور امت میں تفرقے کے داعی ہیں، کی طرف سے شائع ہوتی ہیں، ان تحریروں کے خلاف فتوی دینااور ان کو تلف کرنا اور ان کی طرف عدم التفات واجب ہے۔اور ان لوگوں کو نصیحت کرنا اور ان کی حق بات کی طرف رہنمائی اور ان کو ان باطل افکار سے ڈرانا بھی ایک شرعی فریضہ ہے۔کسی بھی شخص کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ ان لوگوں کے ساتھ اس شرمیں تعاون کرے اور ان لوگوں پر یہ لازم ہے کہ وہ نصیحت حاصل کریں اورہدایت کے رستے کی طرف پلٹ آئیں اور اس باطل کو چھوڑ دیں۔مسعری، فقیہ اور اسامہ بن لادن اور جوشخص بھی ان کے رستے کو اختیار کرے، کو میری (یعنی شیخ بن باز کی)نصیحت یہ ہے کہ وہ اس گندے رستے کو چھوڑ دیں اور اللہ سے ڈریں اور اللہ کے انتقام اور غضب سے بچیں اور رشد و ہدایت کی طرف لوٹ آئیں اور جوکچھ ہو چکا اس سے اللہ کی جناب میں توبہ کریں کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالی نے اپنے بندوں کی توبہ قبول کرنے اور ان کے ساتھ احسان کا وعدہ فرمایا ہے۔''
شیخ صالح العثیمین رحمہ اللہ سعودی حکمرانوں کی تکفیر اور عیوب کے بارے رائج لٹریچر پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
''ولقد انتشر فی الآونة الآخیرة نشرات تأتی من خارج البلاد وربما تکتب فی داخل البلاد ' فیھا سب ولاة الأمور والقدح فیھم ولیس فیھا ذکر أی خلصة من خصال الخیر التی یقومون بھا وھذہ بلا شک من الغیبة و ذا کانت من الغیبة فقراء تھا حرام وکذلک تداولھا حرام ولا یجوز أن یتداولھا ولا أن ینشرھابین الناس وعلی من رآھا أن یمزقھا أو یحرقھا لأن ھذہ تسبب الفتن تسبب الفوضی تسبب الشر ولقد حذر مفتی ھذہ المملکة شیخنا عبد العزیز بن باز وفقہ اللہ ورحمہ بالدنیا والآخرة.'' (فتاوی فی التکفیر والخروج علی ولاة الأمر : ص ٢١)
''آج کل مملکت عربیہ اور دوسرے ممالک سے کچھ ایسی چیزیں نشر ہو رہی ہیں جن میں سعودی حکمرانوں کو بر ابھلا کہا جاتا ہے اور ان پر طعن کیا جاتا ہے اور ان نشریات میں ان کی کسی ایسی بھلائی یا اچھی خصلت کا تذکرہ تک نہیں ہوتا جسے وہ قائم کرتے ہیں اور یہ بلاشبہ غیبت میں شامل ہے۔ پس جبکہ یہ غیبت ہے تو اس کا پڑھنا بھی حرام ہے اور اسی طرح اس کا آگے پھیلانا بھی حرام ہے۔ ایسی نشریات کا پھیلانا یا ان کو عوام الناس کے مابین عام کرنا جائز نہیں ہے اور جو بھی شخص ایسی نشریات دیکھے وہ انہیں پھاڑ دے یا پانی میں بہا دے کیونکہ یہ فتنے، شر اور انتشار کا سبب بنتی ہیں اور مملکت عربیہ کے مفتی اعظم شیخ بن باز اس بارے متنبہ کر چکے ہیں کہ ان نشریات کو پھاڑ دینا چاہیے۔ اللہ شیخ پر دنیا اور آخرت میں رحم فرمائے۔''
شیخ صالح الفوزان، اسامہ بن لادن کی سعودی حکمرانوں کی تکفیر اور ان کے خلاف خروج کے بارے فرماتے ہیں:
'' السوال: لایخفی علیکم تاثیر أسامہ بن لادن علی الشباب فی العالم ' فالسوال ھل یسوغ لنا أن نصفہ أنہ من الخوارج لا سیما أنہ یؤید التفجیرات فی بلادنا وغیرھا؟ الجواب: کل من اعتق ھذا الفکر ودعا لیہ وحرض علیہ فھو من الخوارج بقطع النظر عن اسمہ وعن مکانہ فھذہ قاعدة أن کل ما دعا الی ھذا الفکر و ھو الخروج علی ولاة الأمور وتکفیر واستباحة دماء المسلمین فھو من الخوارج.''(فتاوی فی التکفیر والخروج علی ولاة الأمر : ص ٢٥)
''سوال: آپ پر نوجوان نسل میں اسامہ بن لادن کی شخصیت کی تاثیر مخفی نہیں ہے۔ پوچھنا یہ ہے کہ کیا ہمارے لیے یہ جائز ہے کہ ہم ان کو خوارج میں شمار کریں خاص طورپر اس وجہ سے کہ وہ ہمارے ممالک اور اس کے علاوہ مسلمان ممالک میں خود کش دھماکوں کی تائید کرتے ہیں۔
جواب: جس کا بھی یہ فکر ہو اور جو بھی اس فکر کا داعی ہو اور اس کی لوگوں کو ترغیب دے تو خوارج میں سے ہے ، چاہے اس کا نام یا اس کا مقام کچھ بھی ہو۔ قاعدہ کلیہ یہ ہے کہ جو شخص بھی اس فکر کا داعی ہو یعنی مسلمانوں حکمرانوں کے خلاف خروج۔ ان کو کافر قرار دینے اور مسلمانوں کے خون کو مباح سمجھتا ہو تو وہ خارجی ہے۔''
شیخ عبد العزیز آل الشیخ' اسامہ بن لادن کی سعودی حکمرانوں کی تکفیر اور ان کے خلاف خروج کے بارے فرماتے ہیں:
''السوال :ھل یجوز أن یقال أن ابن لادن ضال وھل یجوز للمسلمین الذین لیس عندھم علم کاف أن یستمعوا الی خطابتہ فی الأنترنت؟ الجواب: یا اخوانی ھؤلاء ھم سبب الشر والفساد وھم لا شک ضالون فی طریقتھم.'' (فتاوی فی التکفیر والخروج علی ولاة الأمر : ص ١٨' ١٩)
''سوال: کیا یہ جائز ہے کہ یہ کہاجائے کہ سعودی حکمرانوں کی تکفیر اور ان کے خلاف خروج کا فتوی دینے کی وجہ سےاسامہ بن لادن ایک گمراہ آدمی ہے اور کیا جاہل مسلمانوں کے لیے یہ درست ہے کہ وہ انٹرنیٹ وغیرہ پر اس کےایسےخطابات سنیں جو مسلمان حکمرانوں کی تکفیر اور ا ن کے خلاف خروج پر ابھارتے ہوں؟
جواب: میرے بھائیو! یہ لوگ شر و فساد کی جڑ ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں ہیں کہ یہ گمراہ ہیں۔''
ہیئہ کبار العلماء نے بھی سعودی حکمرانوں کی تکفیر اور ان کے خلاف خروج کے قائلین کو متنبہ اورخبردار کیا ہے۔ شیخ صالح الفوزان لکھتے ہیں:
'' السوال : لماذا لا تصدر فتاوی من کبار العلماء تحذر من رؤوس الخوارج مثل بن لادن والفقیہ والظواھری حتی لا یغتر بھم کثیر من الناس. الجواب : ظھر من ھیئة کبار العلماء عدة قرارات بالتندید من ھذہ الأعمال و أصحابھا .''( فتاوی فی التکفیر والخروج علی ولاة الأمر :ص ٢٥)
''سوال: کبار علماء کی طرف سے ایسے فتاوی جاری کیوں نہیں ہوتے جن میں خارجیوں کے سرغنہ اسامہ بن لادن، سعد الفقیہ اور ایمن الظواہری وغیرہ کے بارے لوگوں کی رہنمائی کی جائے تا کہ ان کی وجہ سے لوگوں کی اکثریت دھوکے کا شکار نہ ہو جائے۔
جواب: ہیئہ کبار العلماء کی طرف سے ان اصحاب اور ان کے اعمال و افعال کی مذمت میں کئی ایک قرار دادیں پاس ہو چکی ہیں۔''
شیخ صالح اللحیدان، اسامہ بن لادن اور ان کی تنظیم کی سعودی حکمرانوں کی تکفیر اور ان کے خلاف خروج کی تحریک کے بارے فرماتے ہیں:
''ما موقف المسلم من تنظیم القاعدة ومنھجھا الذی یتزعمہ أسامة بن لادن.الجواب: لا شک أن ھذا التنظیم لا خیر فیہ ولا ھو فی سبیل صلاح وفلاح...ثم ھذا التنظیم ھل نظم لقتال الکفار وخراجھم من بلاد الاسلام والتوجہ الی البلاد التی ترزح تحت دول غیرا سلامیة لنشر الدین فیھا أو ھذہ القاعدة تحت الشعوب فی أوطانھا علی الخروج علی سلطانھا لیحصل بذلک سفک دماء وھدار حقوق وتدمیر منشآت واشاعة خوف.''(فتاوی فی التکفیر والخروج علی ولاة الأمر : ص ٣٠)
'' ایک مسلمان کی القاعدہ نامی تنظیم اور اس کے منہج کے بارے کیا رائے ہونی چاہیے جس کی سربراہی جناب اسامہ بن لادن فرما رہے ہیں؟
جواب: اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس تنظیم میں کوئی خیر نہیں ہے اور نہ ہی یہ اصلاح اور فلاح کے رستے پر ہے... سوال یہ ہے کہ کیا یہ تنظیم کفار سے قتال اور ان کافروں کو مسلمان ممالک سے نکالنے یا ان اسلامی ممالک کی طرف توجہ دینے کے لیے کہ جو کافر حکومتوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں تاکہ ان میں دین اسلام کی نشر و اشاعت کی جائے، منظم کی گئی ہے یا اس تنظیم القاعدہ کا اصل کام مسلمان ممالک میں مسلمان حکمرانوں کے خلاف خروج ہے تاکہ اس سے دونوں طرف سے مسلمانوں کا خون بہے،حقوق تلف ہوں، تنصیبات تباہ ہوں اور مسلمان معاشروں میں خوف و ہراس پھیل جائے۔''
ان فتاوی کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اسامہ بن لادن کی مسلمان حکمرانوں کی تکفیراور ان کے خلاف خروج کی تحریک کو سلفی اہل علم کے طبقے میں ذرا برابر بھی اہمیت حاصل نہیں ہے۔ بعض مجاہدین کا کہنا ہے کہ اسامہ بن لادن سعودی حکمرانوں کی تکفیر اور ان کے خلاف خروج کے خلاف تھے یہاں تک انہیں أیمن الظواہری کی صحبت نصیب ہوئی اور أیمن الظواہری نے ان میں یہ تکفیری فکر کی بنیاد ڈالی اس کی گواہی شیخ عبد اللہ عزام کے اہل خانہ نے دی ہے(٨)۔ أیمن الظواہری مصری ہیں اور 'جماعة التکفیر والھجرة'سےمتاثر ہیں۔ یہ بات بھی نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ تکفیر کی تحریک کے اکثر قائدین یا تو دینی و شرعی علوم سے ناواقف ہیں یا پھرغیر معروف علماء میں سے ہیں(٩) ۔ مثلاً محمد المسعری ایک میڈیکل ڈاکٹر، سعد الفقیہ فزکس میں پی۔ایچ۔ڈی، ایمن الظواہری سرجری میں ایم ۔اے، اسامہ بن لادن سعودی نظام تعلیم کے مطابق ثانوی یعنی ایف۔اےپاس اور سید قطب ایک ادیب ہیں وغیرذلک۔
حق تو یہ تھا کہ سعودی حکمرانوں کی تکفیر کرنے والے یہ حضرات کبار علماء کے فتاوی اور نصائح کو قبول کرتے لیکن اس کا جواب اہل تکفیر کی طرف سے یہ آیا کہ انہوں نے کبار سلفی علماء کو علماء ماننے سے ہی انکار کر دیا۔شیخ أیمن الظواہری فرماتے ہیں:
''قال شیخنا علامة زمانہ أیمن الظواھری المصری فابن باز وابن عثیمین أسماء براقة من استمع الیھا کان من الجاھلین فأعرضوا عنھم تکونوا سالمین فالسمع والطاعة للمضحین المجاھدین لا لعملاء السلطان المداھنین.'' (حوار مع أھل التکفیر قبل التفجیر : ص ٢)
''علامة الزمان جناب شیخ أیمن الظواہری مصری نے یہ کہا ہے کہ بن باز اور بن عثیمین تو درحقیقت خوشنما نام ہیں جو بھی ان کو سنے گا وہ جہلاء میں سے ہو جائے گا پس تم ان سے اعراض کرو تاکہ تمہار ا فکر صحیح رہے اور اصل اطاعت ان مجاہدین کی کرو جو قربانی دینے والے ہیں نہ کہ ان علماء کی جو درباری مولوی ہیں اور دین کے معاملے میں مداہنت کرنے والے ہیں۔''
بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ حقیقی عالم دین یا تو وہ ہے جو جیل میں ہے یا پھر میدان جنگ میں۔ اس کے علاوہ ہم کسی کو عالم دین ہی نہیں مانتے۔ عالم کی یہ تعریف ہمارے خیال میں ایک بدعی تعریف ہے جس کے نتیجہ میں ایک عامی کو بھی حقیقی عالم دین بننے کا سنہری موقع حاصل ہوتا ہے بشرطیکہ وہ توحید حاکمیت پر چند کتابیں پڑھ کر حکمرانوں کے کفر کے فتوے جاری کرنا شروع کر دیں۔ اب تو ظاہری وضع قطع کی بھی اتنی اہمیت نہیں رہی ہے بلکہ امام بننے کی اصل شرط حکمرانوں کی تکفیر ہے اور آپ آج تکفیر شروع کر دیں کل سے لوگ آپ کو امام کہنا شروع کر دیں گے۔اللہ ہم سب کو ہدایت دے۔ آمین!
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
شیخ محمد بن ابراہیم آل الشیخ رحمہ اللہ اور معاصر کبار سلفی علماء کا اختلاف
سعودی سلفی علماء میں شیخ محمد بن ابراہیم نے 'تحکیم بغیر ما أنزل اللہ' کوتفصیل سے بیان کیا ہے۔ انہوں نے اپنے رسالہ 'تحکیم القوانین' میں اس کی دو قسمیں بیان کی ہیں۔ پہلی قسم وہ ہے جو دائرہ اسلام سے خارج کرتی ہے اور دوسری قسم وہ ہے جو دائرہ اسلام سے خارج نہیں کرتی۔ تحکیم کی وہ صورتیں جو دائرہ اسلام سے خارج کرنے کا سبب نبتی ہیں' شیخ محمد بن ابراہیم کے نزدیک چھ(٦) ہیں۔ شیخ فرماتے ہیں:
''أن الحاکم بغیر ما أنزل اللہ کافر ما کفر اعتقاد ناقل عن الملة وما کفر عمل لا ینقل عن الملة. أما الأول : وھو کفر الاعتقاد فھ وأنواع؛ أحدھا: أن یجحد الحاکم بغیرما أنزل اللہ أحقیة حکم اللہ ورسولہ...الثانی: أن لا یجحد الحاکم بغیر ما أنزل اللہ کون حکم اللہ ورسولہ حقا لکن اعتقد أن حکم غیر الرسول أحسن من حکمہ وأتم وأشمل...الثالث: أن لا یعتقد کونہ أحسن من حکم اللہ ورسولہ لکن اعتقد أنہ مثلہ فھذا کالنوعین قبلہ فی کونہ کافرا الکفر الناقل عن الملة...الرابع: أن لا یعتقد کون حکم الحاکم بغیر ماأنزل اللہ مماثلا لحکم اللہ ورسولہ فضلا عن أن یعتقد کونہ أحسن منہ لکن اعتقد جواز الحکم بما یخالف حکم اللہ ورسولہ.''(رسالة تحکیم القوانین: ص ٢۔٣)
'' اللہ کی نازل کردہ شریعت کے علاوہ فیصلہ کرنے والا حاکم کافر ہوتا ہے اور اس کا کفر بعض صورتوں میں اسے دائرہ اسلام سے خارج کر دیتا ہے اور بعض صورتوں میں اسے خارج نہیں کرتا۔ پہلی صورت کو ہم اعتقادی کفر کا نام دیتے ہیں اور کی درج ذیل قسمیں بنتی ہیں:
پہلی قسم تو یہ ہے کہ اللہ کی نازل کردہ شریعت کے علاوہ فیصلہ کرنے والا حاکم، اللہ اور اس کے رسول کے حکم یعنی قانون کے حق ہونے کا ہی انکاری ہو...
دوسری صورت یہ ہے اللہ کی نازل کردہ شریعت کے علاوہ فیصلہ کرنے والا حاکم، اللہ اور اس کے رسول کے حکم یعنی قانون کو تو حق مانتا ہو لیکن اس کا اعتقاد یہ ہو ان کے علاوہ مثلا ً انگریز وغیرہ کا حکم یعنی قانون ان یعنی اللہ اور اس کے رسول کے حکم یعنی قانون سے زیادہ بہتر، جامع اور مکمل ہے...
تیسری قسم یہ ہے کہ اللہ کی نازل کردہ شریعت کے علاوہ فیصلہ کرنے والا حاکم یہ اعتقاد تونہ رکھے کہ غیراللہ کا قانون ، اللہ اور اس کے رسول کے قانون سے بہتر ہے لیکن ان دونوں کو برابر حیثیت دے تو اس صورت میں اس حاکم کا کفر ایسا ہو گا جو اسے ملت اسلامیہ سے خارج کر دے گا...
چوتھی صورت یہ ہے کہ اللہ کی نازل کردہ شریعت کے علاوہ فیصلہ کرنے والا حاکم نہ تو غیر اللہ کے قانون کو اللہ اور اس کے رسول کے قانون سے بہتر سمجھے اور نہ ہی اس کے برابر سمجھتا ہو لیکن اس کا عقیدہ یہ ہو کہ اللہ اور اس کے رسول کے مخالف قانون سے فیصلہ کرنا بھی جائز ہے ۔''
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ سلفی علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ان چار قسم کے اعتقادی کفر کے ساتھ غیر اللہ کے حکم مطابق فیصلہ کرنے والا حاکم یا جج دائرہ اسلام سے خارج ہے لیکن اس صورت میں بھی معین تکفیر اس وقت تک جائز نہ ہو گی جب تک کہ رسوخ فی العلم رکھنے والے علماء کی ایک جماعت شروط اور موانع کا لحاظ رکھتے ہوئے کسی معین حاکم یا جج کی تکفیر نہ کر دے۔ہاں! ان چار صورتوں کو اصولی انداز میں ہر کوئی بیان کر سکتا ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔شارح عقیدہ طحاویہ شیخ ابن أبی العز الحنفی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
''وھنا أمر یجب أن یتفطن لہ وھو : أن الحکم بغیر ما أنزل اللہ قد یکون کفراینقل عن الملة وقد یکون معصیة کبیرة أو صغیرة ویکون کفرا: امامجازیا واما کفرا أصغر علی القولین المذکورین.وذلک بحسب حال الحاکم: فانہ ا ن اعتقد أن الحکم بما أنزل اللہ غیر واجب ' وأنہ مخیر فیہ' أو استھان بہ مع تیقنہ أنہ حکم (اللہ) فھذا کفر أکبر.وان اعتقد وجوب الحکم بما أنزل اللہ وعلمہ فی ھذہ الواقعة وعدل عنہ مع اعترافہ بأنہ مستحق للعقوبة' فھذا عاص ویسمی کفرا مجازیا أو کفرا أصغر.ومن جھل حکم اللہ فیھا مع بذل جھدہ واستفراغ وسعہ فی معرفة الحکم وأخطأ فھذا مخطی لہ أجر علی اجتھادہ وخطؤہ مغفور.''(شرح عقیدة طحاویة : ص ٣٠٤۔٣٠٥)
''یہاں ایک اہم نکتے کو سمجھنا ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ کی نازل کردہ شریعت کے مطابق فیصلہ نہ کرنا بعض اوقات ایک ایسا کفر ہوتا ہے جو ملت اسلامیہ سے خارج کر دیتا ہے اور بعض اوقات یہ گناہ کبیرة یا گناہ صغیرة ہوتا ہے اور ان دو صورتوں میں اس کو مجازی کفر یا کفر أصغر کہیں گے اور اس کا فیصلہ حکمران کے حالات کے مطابق ہو گا۔اگر کسی حکمران کا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ کی نازل کردہ شریعت کے مطابق فیصلے کرنا غیر واجب ہے یا اختیاری ہے یا اس نے کسی حکم شرعی کویقین کے ساتھ اللہ کا حکم سمجھتے ہوئے اس کا مذاق اڑایاتو یہ تمام صورتیں کفر اکبر ہیں۔اور اگر کسی حکمران نے کسی واقعے میں اللہ کی نازل کردہ شریعت کے مطابق فیصلے کو تو واجب سمجھا لیکن اس نے اس شرعی حکم کے ساتھ اس مقدمے کا فیصلہ نہ کیا جبکہ وہ اس بات کا معترف بھی ہو کہ وہ اپنے اس عمل کی بنا پر سزا کا مستحق ہے تو ایسا حکمران گناہ گار ہے اور اس کے کفر کو مجازی کفر یا کفر أصغر کہیں گے۔اسی طرح جو حکمران اپنی مقدور بھر کوشش اور طاقت صرف کرنے کے باوجود اللہ کا حکم معلوم نہ کر سکا اور اپنے اجتہاد میں خطا کی بنا پر اللہ کے حکم کے مطابق اس نے فیصلہ نہ کیا تو یہ حکمران مجتہد مخطی ہے اور اسے اپنے اجتہاد کا ثواب ملے گا اور اس کی خطا قابل معافی ہے۔''
شیخ بن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
'' من حکم بغیر ما أنزل اللہ فلایخرج عن أربعة أنواع:١۔ من قال أنا أحکم بھذا لأنہ أفضل من الشریعة الاسلامیة فھو کافر کفرا أکبر۔٢۔ ومن قال : أنا أحکم بھذا لأنہ مثل الشریعة الاسلامیة فالحکم بھذا جائز وبالشریعة جائز؛ فھوکافر کفرا أکبر.٣۔ ومن قال : أنا أحکم بھذا والحکم بالشریعة الاسلامیة أفضل لکن الحکم بغیر ما أنزل اللہ جائز فھو کافر کفرا أکبر.٤۔ ومن قال أنا أحکم بھذا وھو یعتقد أن الحکم بغیر ما أنزل اللہ لایجوز ویقول : الحکم بالشریعة الاسلامیة أفضل ولا یجوز الحکم بغیرھا ولکنہ متساھل أو یفعل ھذا لأمر صادر عن احکامہ فھو کافر کفرا أصغر لا یخرج عن الملة ویعتبر من أکبر الکبائر.''
'' جس نے اللہ کی نازل کردہ شریعت کے علاوہ سے فیصلہ کیا تو وہ چار صورتوں میں سے ایک صورت میں لازما داخل ہو گا۔
١۔ جو شخص یہ کہے کہ میں اللہ کی نازل کردہ شریعت کے علاوہ[مثلا ً انگریزی قوانین] سے اس لیے فیصلہ کرتا ہوں کہ اسے شر یعت اسلامیہ سے بہتر خیال کرتا ہو تو ایسا شخص کا فر ہے اور اس کا کفر، کفر اکبر ہے۔
٢۔ اور جو شخص یہ کہے کہ میں اللہ کی نازل کردہ شریعت کے علاوہ مثلا ً انگریزی قوانین سے فیصلہ اس لیے فیصلہ کرتا ہوں کہ ان قوانین اور شریعت اسلامیہ کا درجہ برابر سمجھتا ہوں لہذا ان قوانین کے مطابق فیصلہ کو جائز سمجھتا ہوں تو ایسا شخص بھی کافر ہے اور اس کا کفر، کفر اکبر ہے۔
٣۔ جو کوئی یہ کہے کہ میں اللہ کی نازل کردہ شریعت کے علاوہ قوانین سے فیصلہ اس لیے کرتا ہوں کہ ان کے مطابق فیصلہ کرنا جائز ہے اگرچہ شریعت اسلامیہ کے مطابق فیصلہ افضل ہے تو ایسا شخص بھی کافر ہے او ر اس کا کفر، کفر اکبر ہے۔
٤۔ اور جو شخص یہ کہے کہ میں اللہ کی نازل کردہ شریعت کے علاوہ قوانین سے فیصلہ کرتاہوں لیکن میرا یہ اعتقاد ہے کہ اللہ کی نازل کردہ شریعت کے علاوہ قوانین سے فیصلہ کرناجائز نہیں ہے اور ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتا ہو کہ شریعت اسلامیہ سے فیصلہ کرنا ہی افضل ہے اور شریعت کے علاوہ قوانین سے فیصلہ کرنا جائزنہیں ہے لیکن وہ شخص متساہل ہو یا اپنے حکمرانوں کے مجبور کرنے کی وجہ سے ایسا کرتا ہوتو ایسا شخص بھی کافر ہے لیکن اس کا کفر، کفر اصغر ہے اور اس کفر کی وجہ سے وہ دائرہ اسلام سے خارج نہ ہو گا اور نہ ہی ایسا کفر اکبر الکبائر میں سے ہے۔''
شیخ بن باز رحمہ اللہ کا کلام اس مسئلے میں بہت واضح ہے کہ جب تک کوئی شخص شریعت کے علاوہ فیصلہ کرنے کو حلال نہ سمجھتا ہو، اس وقت تک وہ کافر نہیں ہوتا۔یہی استحلال کی شرط ہے جو جمیع کبار سلفی علماء نے عائد کی ہے۔البتہ کبار سعودی علماء میں سے شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ نے توحید حاکمیت کی بنیاد پر تکفیر کے حوالے سے ایک ایسے موقف کا اظہار کیاہے جو بعض حضرات کے لیے پریشانی کا باعث بنا ہے۔ شیخ محمد بن ابراہیم 'رسالہ تحکیم القوانین ' میں توحید حاکمیت کی بنیاد پر تکفیر کی چھ قسمیں بیان کرتے ہیں۔ جن میں چار کا ذکر ہم اوپر کر چکے ہیں جو کہ سلفی علماء میں اتفاقی ہیں جبکہ شیخ محمد بن ابراہیم نے توحید حاکمیت کی بنیاد پر تکفیر کی پانچویں اور چھٹی قسم بیان کی ہے وہ قابل بحث اور خصوصی توجہ کے لائق ہی ہے۔ شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ کے اس بیان کے ظاہر کے مطابق اگر کوئی حکمران یا قاضی یا جرگہ مجرد وضعی قوانین کے مطابق فیصلہ کر تا ہو، چاہے وہ اپنے اس عمل کو حرام یا ناجائز ہی کیوں نہ سمجھتا ہوں تو وہ ملت اسلامیہ سے خارج ہو جاتا ہے۔ شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ کے الفاظ ہیں :
''الخامس: ...فھذہ المحاکم فی کثیر من أمصار السلام مھیأة مکملة مفتوحة الأبواب والناس ا لیھا أسراب اثر أسراب یحکم احکامھا بینھم بما یخالف حکم السنة والکتاب من أحکام ذلک القانون وتلزمھم بہ وتقرھم علیہ وتحتمہ علیھم. فأی کفر فوق ھذا الکفر وأی مناقضة للشھادة بأن محمدا رسول اللہ بعد ھذہ المناقضة...السادس: ما یحکم بہ کثیر من رؤوساء العشائر' والقبائل من البوادی ونحوھم من حکایات آبائھم وأجدادھم وعاداتھم.''(رسالة تحکیم القوانین : ص٣)
''پانچویں قسم میں ... ایسی بہت سی عدالتیں آج بلاد اسلامیہ میں موجود ہیں جن کے دروازے ہر خاص وعام کے لیے کھلے ہیں اور لوگ جوق در جوق ان عدالتوں کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ ان عدالتوں کے حکمران لوگوں کے مابین اس وضعی قانون سے فیصلے کرتے ہیں جو کتاب وسنت کے خلاف ہے اور نہ صرف فیصلے کرتے ہیں بلکہ ان قوانین کو عوام الناس پر لاگو بھی کرتے ہیں اورلوگوں کو ان پر برقرار رکھتے ہیں اور انہی قوانین کو ان کے لیے حتمی قرار دیتے ہیں۔ پس اس کفر سے بڑھ کر اور کون سا کفر ہو گا اور محمد رسول اللہ کی اس سے زیادہ مخالفت کیا ہو گی؟...چھٹی قسم میں علاقائی قبائل اور جرگوں کے سردار شامل ہیں جوقرآن وسنت کے بالمقابل اپنے آباء و اجداد کی رسومات اور حکایات کے مطابق فیصلے کرتے ہیں۔''
معاصر کبار سعودی علماء شیخ محمد بن ابراہیم کے اس نقطہ نظر سے اتفاق نہیں کرتے اور سلفی علماء کی طرف سے ان کے اس قول کے کئی ایک جوابات دیے گئے ہیں یا توجیہات پیش کی گئی ہیں۔(١٠):
پہلی توجیہ
بعض سلفی علماء کا کہنا یہ ہے کہ شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ نے جو آخری دو قسمیں بیان کی ہیں اور ان کی بنیاد پر کفر اکبر کا فتوی لگایا ہے تو ان کی یہ رائے درست نہیں ہے۔ شیخ بن بازرحمہ اللہ سے جب شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ کے اس نقطہ نظر کے بارے سوال ہوا تو انہوں نے جواب میں کہا :
''سوال: ھناک فتوی للشیخ محمد بن ابراہیم آل الشیخ رحمہ اللہ یستدل بھا أصحاب التکفیر ھؤلاء علی أن الشیخ لا یفرق بین من حکم بغیر شرع اللہ عزوجل مستحلا ومن لیس کذلک کما ھو التفریق المعروف عند العلمائ. فقال الشیخ ابن باز : ھذا الأمر مستقر عند العلماء کما قدمت أن من استحل ذلک فقد کفر أمامن لم یستحل ذلک کأن یحکم بالرشوة ونحوھا فھذا کفر دون کفر...فقال السائل: ھم یستدلون بفتوی شیخ ابن ابراہیم؟ الشیخ بن باز: محمد بن ابراہیم لیس بمعصوم فھو عالم من العلماء یخطی ویصیب ولیس بنبی ورسول.'' (مجلة الفرقان: العدد : ٢٨' ص ١٢'کویت)
'' سوال: شیخ محمد بن ابراہیم کا ایک فتوی کہ جس سے اہل تکفیر استدلال کرتے ہیں، یہ ہے کہ شیخ محمد بن ابراہیم غیراللہ کی شریعت کے مطابق فیصلہ اسے جائز سمجھتے ہونے کرنے اور ناجائز سمجھتے ہوئے کرنے میں کوئی فرق نہیں کرتے تھے جیسا کہ علماء میں یہ فرق معروف و مشہور ہے ۔ شیخ بن باز نے جواب دیا: یہ فرق علماء کے ہاں بالکل واضح ہے جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں کہ جس نے غیر اللہ کی شریعت کے مطابق کوئی فیصلہ اسے حلال اور جائز سمجھتے ہوئے کیا تو یہ کفر اکبر ہے اور جس نے اس حلال یا جائز نہ سمجھتے ہوئے کوئی فیصلہ کیا مثلا ً رشوت وغیرہ لے کر تو یہ کفر دون کفر یعنی کفر اصغر ہے... سائل نے کہا: یہ لوگ شیخ محمد بن ابراہیم کے فتوی سے استدلال کرتے ہیں؟ شیخ بن باز نے جواب دیا: محمد بن ابراہیم معصوم نہ تھے ۔ وہ علماء میں سے ایک عالم دین تھے جو صحیح رائے بھی پیش کرتے تھے اور خطا بھی کرتے تھے اور وہ کوئی نبی یا رسول نہ تھے۔''
بعض لوگ شیخ بن باز رحمہ اللہ کے اس فتوی کے بارے یہ اعتراض نقل کرتے ہیں کہ یہ فتوی ان کی کیسٹ سے نقل شدہ ہے اور زبانی فتوی ہے جس میں احتیاط کا پہلو کم ہوتا ہے۔ ہمارے نزدیک یہ ایک انتہائی بودا اعتراض ہے کیونکہ شیخ بن باز رحمہ اللہ تونابینا تھے، ان کے تمام فتاوی ہی زبانی کلامی نقل ہوئے ہیں بلکہ فتاوی بن باز کے نام سے جو فتاوی سعودی عرب میں شیخ کی زندگی میں ہی شائع ہوتے رہے ہیں وہ ان کے ایک ٹی وی پروگرام'نور علی الدرب' اور دیگر مجالس علمیہ سے نقل کیے جاتے رہے ہیں، کیا شیخ کے جمیع زبانی و قولی فتاوی کو اس بنیاد پر مشکوک قرار دے دینا چاہیے؟(١١)
دوسری توجیہ
بعض سلفی علماء نے اس رائے کا اظہار کیا ہے کہ شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ نے اپنے اس فتوی سے رجوع کر لیا تھااور ان کا آخری فتوی یہ ہے:
''وکذلک تحقیق معنی محمد رسول اللہ : من تحکیم شریعتہ' والتقید بھا' ونبذ ما خالفھا من القوانین والأوضاع وسائر الأشیاء التی ما أنزل اللہ بھا من سلطان ' والتی من حکم بھا أو حاکم الیھا؛ معتقدا صحة ذلک وجوازہ؛ فھو کافر الکفر الناقل عن الملة' فن فعل ذلک بدون اعتقاد ذلک وجوازہ ؛ فھو الکفر العملی الذی لا ینقل عن الملة.''(مجموع الفتاوی:جلد١، ص٨٠)
'' اسی طرح محمد رسول اللہ کے معنی کی تحقیق یہ ہے کہ آپ کی لائی ہوئی شریعت کے مطابق فیصلے کیے جائیں اور اس کی پابندی کی جائے اور شریعت اسلامیہ کے جتنے بھی وضعی قوانین ہیں کہ جن کے بارے اللہ تعالی نے کوئی دلیل نازل نہیں کی، ان کو پھینک دیا جائے۔ پس جس نے ان وضعی قوانین کے مطابق فیصلے کیے یا ان کے مطابق فیصلے کروائے اور اپنے اس فعل کے صحیح اور جائز ہونے کا عقیدہ رکھتا ہو تو وہ ایسا کفر ہے جو ملت اسلامیہ سے خارج ہو جاتا ہے اور جو شخص ان قوانین وضعیہ کے مطابق فیصلے کرے یا کروائے لیکن ان کے صحیح یا جائز ہونے کا عقیدہ نہ رکھتا ہو تو اس کا کفر عملی کفر ہے جو دین اسلام سے خارج نہیں کرتا۔''
پاکستان میں' اصلی اہل سنت' کی سلفی ویب سائیٹ اسی قول کو پیش کر رہی ہے۔
تیسری توجیہ
بعض سلفی علماء نے شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ کی بیان کردہ آخری دوقسموں کو بھی پہلی چار اقسام کا بیان قرار دیا ہے۔ شیخ عبد الرحمن بن معلا اللویحق کا کہنا یہ ہے کہ پہلی چار قسموں میں شیخ نے 'أن یجحد'یا 'أن یعتقد'کے الفاظ سے فاعل کو مخاطب کیا ہے جبکہ آخری دو قسموں میں شیخ نے فاعل کی بجائے فعل کو موضوع بحث بنایا ہے لہذا آخری دو قسمیں اپنے فاعل کے اعتبار سے پہلی چار قسموں میں شامل ہوں گی۔(الغلو فی الدین : ص٢٩١)۔ دوسرے الفاظ میں شیخ کی پہلی چار قسموں میں غیر معین اشخاص کی تکفیر کی گئی ہے جبکہ آخری دو قسموں میں کفر کو بیان کیا ہے لہذا پہلی چار قسمیں تکفیر سے متعلق ہیں اور آخری دو 'بیان کفر' ہیں۔
چوتھی توجیہ
بعض سلفی علماء شیخ محمد بن ابراہیم کی بیان کردہ آخری دو اقسام کی بنیاد پر تکفیر کے قائل ہیں(کتاب التوحید للشیخ الفوزان: ص ٦٦۔٦٧)ان سلفی علماء کے نزدیک اگر کوئی حکمران یا جج کسی ایسے قانون کے مطابق فیصلہ کرے جو کلی طور پر غیر اللہ کا قانون ہو اور اس میں اسلام نام کی کوئی چیز تک نہ ہو تو ایسے قانون کے مطابق فیصلہ اللہ کے کفر کے مترادف ہو گا اور اگر کوئی قانون ایسا ہو جو انگریزی اور اسلامی قوانین کا ملغوبہ ہو، جیسا کہ اکثر مسلمان ممالک کا معاملہ ہے ، تو ایسے قوانین کے مطابق فیصلہ کرنا اگرچہ کناہ کبیرہ تو ہے لیکن دائرہ اسلام سے اخراج کا باعث نہیں ہے جب تک کہ فیصلہ کرنے والااپنے اس عمل کو ناجائز اور حرام سمجھتا رہے۔ شیخ صالح الفوزان رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
''سوال: ما حکم تنحیة الشریعة السلامیة واستبدالھا بقوانین وضعیة کالقانون الفرنسی البریطانی وغیرھا مع جعلہ قانونا ینص فیہ علی أن قضایا النکاح والمیراث بالشریعة الاسلامیة؟ الجواب: من نحی الشریعة الاسلامیة نھائیا وأحل مکانھا القانون فھذا دلیل علی أنہ یری جواز ھذا الشیء لأنہ ما نحاھا وأحل محلھا القانون لا لأنہ یری أنھا أحسن من الشریعة ولو کان یری أن الشریعة أحسن منھا لما أزاح الشریعة وأحل محلھا القانون فھذا کفر باللہ عز وجل.أما من نص علی أن قضایا النکاح والمیراث فقط تکون علی حسب الشریعة ھذا یؤمن ببعض الکتاب ویکفر ببعض یعنی یحکم الشریعة فی بعض ویمنعھا فی بعض والدین لا یتجزأ تحکیم الشریعة لا یتجزأ فلا بد من تطبیق الشریعة تطبیقا کاملا ولا یطبق بعضھا ویترک بعضھا.''( أسئلة وأجوبة فی مسائل الایمان والکفر: ص ٩)
'' شریعت اسلامیہ کو معزول کرنے اور اس کی جگہ وضعی مثلا ً فرانسیسی یا برطانوی قوانین وغیرہ کو لانے کا کیا شرعی حکم ہے جبکہ ان کے ساتھ ایک یہ قانون بھی موجود ہو کہ نکاح اور وراثت وغیرہ کے معاملات شریعت اسلامیہ کے مطابق طے پائیں گے؟جواب: جس نے شریعت اسلامیہ کو کلی طور پر معزول کر دیا اور اس کی جگہ وضعی قانون کو نافذ کر دیا تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اس شیء کو جائز سمجھتا ہے کیونکہ اس نے شریعت کو معزول کر دیا ہے اور اس کی جگہ وضعی قانون کو نافذ کر دیا ہے تو یہ اس وجہ سے ہے کہ وہ اس وضعی قانون کو شریعت سے بہتر سمجھتا ہے اور اگر وہ شریعت کو اس وضعی قانون سے بہتر سمجھتا تو شریعت اسلامیہ کو زائل نہ کرتا اور اس کی جگہ وضعی قانون نافذ نہ کرتا پس حاکم کا یہ فعل اللہ کے انکار کے مترادف ہے اور جہاں تک اس کا معاملہ ہے جو یہ کہتا ہے کہ ہمارے قانون میں صرف نکاح اور وراثت کے معاملات شریعت کے مطابق طے ہوں گے تو وہ کتاب کے بعض حصے پر ایمان لاتا ہے اور بعض کا انکار کرتا ہے یعنی بعض میں شریعت کے مطابق فیصلے کرتا ہے اور بعض میں شریعت کے مطابق فیصلہ نہیں کررہا ہے ۔ اور دین کے حصے بخرے نہیں کیے جا سکتے ۔ اسی طرح شریعت کے مطابق فیصلوں میں بھی یہ تقسیم درست نہیں ہے لہذا یہ ایک لازمی امر ہے کہ مکمل فیصلے شریعت کے مطابق کیے جائیں اور ایسا معاملہ نہ ہو کہ بعض فیصلے تو شریعت کے مطابق ہوں اور بعض میں شریعت کو چھوڑدیا جائے۔''
بعض لوگوں کو شیخ صالح الفوازن کے بارے یہ غلط فہمی ہوئی کہ شاید وہ بھی وضعی قوانین کے متعلق فیصلہ کرنے والوں کی مطلق تکفیر کے قائل ہیں حالانکہ یہ درست نہیں۔ ان کا تفصیلی موقف یہی ہے جو ہم نے بیان کر دیا ہے ۔ خالد العنبری کی کتاب پر 'اللجنة الدائمة' کی طرف سے جو فتوی آیا تھا اس میں شیخ صالح الفوزان کے جو تاثرات تھے ان میں شیخ نے اسی تفصیل کو ' لأنہ یزیح تحکیم الشریعة السلامیة وینحیھا نھائیا' کے الفاظ سے اجمالاً بیان کیا ہے ۔
پانچویں توجیہ
بعض سلفی اہل علم کا کہنا یہ ہے کہ اگر بفرض محال یہ مان لیا جائے کہ شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ قضیہ معینہ اورتشریع عام میں فرق کرتے ہوئے معاصر مسلمان ممالک کے قوانین کے مطابق مجرد فیصلہ کرنے کی وجہ سے کسی حاکم یا جج کو ملت اسلامیہ سے خارج قرار دیتے ہیں تو ان کا یہ قول عقل اور نقل دونوں کے خلاف ہے لہذا ناقابل قبول ہے۔
شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ کے اس قول کے جہادی اوربعض انقلابی سلفی شارحین کا کہنا یہ ہے کہ شیخ کے قول کے مطابق معاصر حکمران یا جج حضرات جس آئین اور قانون کے مطابق فیصلہ کرتے ہیں اسے ایک مصدر اور منبع کی حیثیت حاصل ہوتی ہے اور جج حضرات اپنے فیصلوں میں باربار اس آئین یا قانون کی طرف رجوع کرتے ہیں لہذا قرون أولی میں کسی قاضی کا کسی خاص واقعے میں شریعت کے خلاف فیصلہ کرنا اور موجودہ دور میں کسی جج کا کسی واقعے میں بار بار کسی غیر شرعی قانون کے مطابق فیصلہ کرنا اور اس قانون کے مطابق فیصلے میں استمرار کا پایا جانا ایک بالکل مختلف معاملہ ہے۔
ہم بھی یہ کہتے ہیں کہ یہ دونوں صورتیں گناہ کے اعتبار سے برابر نہیں ہیں ۔ پہلی صورت گناہ میں ہلکے درجے کی ہے جبکہ دوسری صورت کا گناہ بہت بڑھ کر ہے لیکن یہ کفر اکبر نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص کسی گناہ پر اصرار کرتا ہے تو وہ گناہ کفر نہیں بن جاتا جیسا کہ ایک شرابی زندگی بھر شراب پیتا رہے اور ایک سود خور عمر بھرسود کھاتا رہے تو اس کے اس فعل کی برائی، قباحت اور شناعت تو بڑھ جائے گی لیکن اس کا یہ فعل گناہ کبیرہ ہی رہے گا نہ کہ کفر اکبر بن جائے گا۔
صحیح بخاری کی ایک روایت کے مطابق اللہ کے رسول کی صحبت میں رہنے والے ایک صحابی عبد اللہ الحمار شراب نوشی پر دوام اختیار کرنے والوں میں سے تھے اور اللہ کے رسول نے ان پر کئی دفعہ حد جاری فرمائی یہاں تک ایک دفعہ تنگ آکر بعض صحابہ نے اس پر لعن طعن کی کہ اتنی بار حد نافذ کرنے کے بعد بھی اس عادت کو نہیں چھوڑتے ہو تو اللہ کے رسول نے اس پر لعن طعن کرنے سے منع فرمایا اور کہا کہ میں جانتا ہوں کہ اس کے دل میں اللہ اور اس کے رسول کی محبت ہے۔ (صحیح بخاری ' کتاب الحدود ' باب ما یکرہ من لعن شارب الخمر)
پس نص سے ثابت ہوا کہ کسی برائی یا کبیرہ گناہ پر دوام اسے کفر اکبر نہیں بناتالہذا اگر قضیہ معینہ میں ایک چیز کبیرہ گناہ ہے جیسا کہ شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ کا بھی یہی کہنا ہے تو تشریع عام میں اس گناہ کبیرہ پر استمرار کی صورت میں وہ کفر اکبر کیسے بن جائے گی؟۔
اگر کوئی شخص مذکورہ بالا توجیہات پر مطمئن نہ تو پھرایسے شخص کو یہ کہا جا سکتا ہے کہ عقلی ومنطقی اعتبار سے شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ کا قول، ان کی جلالت علمی کے باوصف، اس لیے قابل قبول نہیں ہے کہ اس قول میں یہ بات موجود ہے کہ تحکیم بغیر ما أنزل اللہ میں اعتقادی کفر کی چھ اقسام ہیں اور اعتقادی کفر کے بیان میں پانچویں اور چھٹی قسم ایسی بیان کی ہے جو عمل سے متعلق ہے اور عملی کفر ہے۔انسان کا عمل ہر صورت میں اس کے عقیدے پر دلالت نہیں کرتا اور نہ ہی ہر صورت میں عمل کی عقیدے پر دلالت قطعی ہوتی ہے مثلا ً ایک شخص ساری عمر حرام سودکھاتا رہا ہے۔ اب کیا اس کا یہ عمل اس بات کی دلیل ہے کہ وہ سود کھانے کو جائز یا اچھا سمجھتا ہے جیسا کہ شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ کے قول میں یہ بات موجود ہے کہ حکمران یا جج ساری عمر غیر اللہ کے قانون کے مطابق فیصلے کرتا رہاہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ غیر اللہ کے قانون کو کتاب وسنت سے بہتر سمجھتا ہے۔ کسی عمل پر دوام اور استمرارکسی کے عقیدے کے لیے دلیل کیسے بنتا ہے ، یہ بات قابل فہم نہیں ہے۔ زنا کا ارتکاب ایک دفعہ ہو یا کوئی شخص زنا کا عادی مجرم ہو، دونوں صورتوں میں زنا کی حد ایک ہی ہو گی یعنی زنا کے عادی مجرم کے لیے کوئی علیحدہ سے سخت حد نازل نہیں ہوئی ہے، اگرچہ عادی مجرم کا گناہ ایک دفعہ کے مرتکب کے گناہ سے بہت بڑھ کرہے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
مجرد وضعی قانون کے مطابق فیصلہ یا اس کا نفاذ اور سلفی علماء کی رائے
شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ کے فتوی کے بارے ان مذکورہ بالا پانچ آراء میں سے دوسری رائے راجح ہے۔ شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ کا رسالہ تحکیم ١٣٨٠ھ میں پہلی دفعہ شائع ہوا جبکہ شیخ کا دوسرا فتوی محرم ١٣٨٥ھ کا ہے پس ثابت ہوا کہ یہی شیخ کاآخری قو ل ہے اور یہی جمیع اہل سنت کا بھی موقف ہے کہ مجرد وضعی قانون کے مطابق فیصلہ یا اس کا نفاذ خارج عن الملة نہیں ہے ا لا یہ کہ اس کے ساتھ استحلال قلبی یا جحود بھی ہو۔ علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
''وخلاصة الکلام : لا بد من معرفة أن الکفر کالفسق والظلم ینقسم الی قسمین : کفر وفسق وظلم یخرج من الملة وکل ذلک یعود الی الاستحلال القلبی وآخر لا یخرج من الملة یعود الی الاستحلال العملی.'' (التحذیر من فتنة التکفیر : ص ٩' ١٠)
''ہماری اس طویل بحث کا خلاصہ کلام یہ ہے کہ یہ جان لینا چاہیے کہ کفر بھی ظلم اور فسق کی مانند دو طرح کا ہے ۔ ایک کفر' ظلم اور فسق و فجور تو وہ ہے جو ملت اسلامیہ سے اخراج کا باعث بنتا ہے اور یہ وہ کفر ' ظلم یا فسق ہے جس میں کوئی کفر' ظلم یا فسق کا ارتکاب اسے دل سے حلال سمجھتے ہوئے کرے اور دوسرا کفر' ظلم یا فسق وہ ہے جو ملتاسلامیہ سے خارج نہیں کرتا اور یہ وہ ہے جس کا مرتکب عملاً اس کفر' ظلم یا فسق کو حلال سمجھ رہا ہو نہ کہ قلبی طور پر۔ ''
سعودی عرب کے مفتی اعظم شیخ بن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
''فقد اطلعت علی الجواب المفید الذی تفضل بہ صاحب الفضیلة الشیخ محمد ناصر الدین الألبانی وفقہ اللہ المنشور فی صحیفة المسلمون الذی أجاب بہ فضیلتہ من سألہ عن '' تکفیر من حکم بغیر ما أنزل اللہ من غیر تفصیل'' ... وقد أوضح أن الکفر کفران : أکبر وأصغر کما أن الظلم ظلمان وھکذا الفسق فسقان : أکبر وأصغر. فمن استحل الحکم بغیر ما أنزل اللہ أو الزنی أو الربا أو غیرھما من المحرمات المجمع علی تحریمھا فقد کفر کفرا أکبر وظلم ظلما أکبر وفسق فسقا أکبر : ومن فعلھا بدون استحلال کان کفرہ کفرا أصغر وظلمہ ظلما أصغر.''(التحذیر من فتنة التکفیر : ص ١٣ ' ١٤)
''میں تکفیر کے مسئلے میں اس جواب سے مطلع ہوا جسے فضیلة الشیخ جناب علامہ البانی نے نقل کیا ہے اور وہ 'المسلمون' نامی اخبار میں نشر ہوا ہے ۔ اپنے اس فتوی میں آنجناب نے' بغیر کسی تفصیل کے اس شخص کی تکفیر کہ جس نے اللہ کی نازل کردہ شریعت کے مطابق فیصلہ نہ کیا ہو' کے بارے اپنی رائے کا اظہار کیا ہے ... شیخ ألبانی نے یہ واضح کیا ہے کہ کفر دو قسم کا ہے : ایک کفر اکبر اور دوسرا کفر اصغر جیسا کہ ظلم اور فسق و فجور بھی دو قسم کا ہے۔ ایک ظلم اکبر اور دوسرا ظلم اصغر ' اسی طرح ایک فسق اکبر اوردوسرا فسق اصغر۔ جس نے اللہ کی نازل کردہ شریعت کے بغیر فیصلہ کرنے کو جائز اور حلال سمجھا یا زنا یا سود یاان کے علاوہ مجمع علیہ حرام شدہ امور میں سے کسی امر کو حلال سمجھا تو اس کا کفر تو کفر اکبر ہے یا اس کا ظلم تو ظلم اکبر اور اس کا فسق تو فسق اکبر ہے۔ اور جس نے اللہ کی نازل کردہ شریعت کو حلال جانے بغیر اس کے خلاف فیصلہ دیا تو اس کا کفر تو کفر اصغر ہے اور اس کا ظلم بھی ظلم اصغر ہے۔''
بعض لوگوں کو شیخ بن باز رحمہ اللہ کے ایک فتوی سے یہ غلط فہمی لاحق ہوئی کہ وہ وضعی قوانین کے مطابق فیصلوں کو مطلق طور پر کفر سمجھتے تھے حالانکہ شیخ کا یہ فتوی ان کے مذکورہ بالا فتاوی ہی کا ایک بیان ہے۔ شیخ بن باز رحمہ اللہ نے ایک جگہ فرمایا ہے:
'' وکل دولة لا تحکم بشرع اللہ ولا تنصاع لحکم اللہ ولا ترضاہ فھی دولة جاھلیة کافرة ظالمة فاسقة بنص ھذة الآیات المحکمات.''(المفصل فی شرح آیت الولاء والبراء : ص ٢٨٨)
'' ہر ریاست جو اللہ کی شریعت کے مطابق فیصلہ نہ کرتی ہو اور اللہ کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم نہ کرتی ہو اور اللہ کے حکم پرراضی نہ ہو تو وہ مذکورہ بالا محکم آیات کی روشنی میں جاہلی ' کافر ' ظالم اور فاسق ریاست ہے ۔''
اس فتوی میں 'ترضاہ' کے الفاظ اس بات کی واضح دلیل ہیں کہ شیخ بن باز رحمہ اللہ اس مسلمان ریاست کی تکفیر کرتے ہیں جو غیر اللہ کی شریعت کے مطابق فیصلے کرنے کو جائز اور حلال سمجھتی ہو اور یہی بات جمہور سلفی علماء بھی کہتے ہیں۔شیخ بن باز رحمہ اللہ کے جلیل القدر تلامذہ نے بھی ان کی طرف اسی موقف کی نسبت کی ہے جسے ہم ان کے حوالے سے بیان کر رہے ہیں ۔ شیخ عبد اللہ بن عبد العزیز جبرین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
''فقد ذھب بعض أھل العلم الی أن مجرد تحکیم قانون أو نظام عام مخالف لشرع اللہ تعالی کفر مخرج من الملة ولو لم یصحبہ اعتقاد أن ھذا القانون أفضل من شرع اللہ أو مثلہ أویجوز الحکم بہ ...وقد رجح شیخای الشیخ عبد العزیز بن باز والشیخ ابن عثیمین رحمھما اللہ القول الأول وھو أن الحکم بغیر ما أنزل اللہ لا یکون کفرا مخرجا من الملة مطلقا حتی یصحبہ اعتقاد جواز الحکم بہ أو أنہ أفضل من حکم اللہ أو مثلہ أو أی مکفر آخر.'' (تسھیل العقیدة السلامیة : ص ٢٤٢۔٢٤٣)
'' بعض اہل علم کا دوسراقول یہ ہے کہ مجرد کسی خلاف شرع وضعی قانون یا نظام عام سے فیصلہ کرنا ایسا کفر ہے جو ملت اسلامیہ سے اخراج کا باعث ہے اگرچہ اس شخص کا یہ اعتقاد نہ بھی ہو کہ وضعی قانون اللہ کی شریعت سے افضل یا اس کے برابر ہے یا اس سے فیصلہ کرنا جائز ہے ... ہمارے شیخین ' شیخ بن باز اور شیخ بن عثیمین رحمہما اللہ نے اس مسئلے میں پہلے قول کو ترجیح دی ہے اور وہ یہ ہے کہ مطلق طور پر اللہ کی نازل کردہشریعت کے علاوہ سے فیصلہ کرنا ایسا کفر نہیں ہے جو ملت اسلامیہ سے اخراج کا باعث ہو یہاں تک کہ وہ فیصلہ کرنے والا اس کے مطابق فیصلے کو جائز سمجھتا ہو یا شریعت سے افضل یا اسے بہتر سمجھتا ہو یا اس قسم کا کوئی کفریہ سبب پایا جاتا ہو۔''
شیخ صالح العثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
''والذی فھم من کلام الشیخین : أن الکفر لمن استحل ذلک وأما من حکم بہ علی أنہ معصیة مخالفة : فھذا لیس بکافر لأنہ لم یستحلہ لکن قد یکون خوفا أو عجزا أو ما أشبہ ذلک.''(التحذیر من فتنة التکفیر : ص ١٦)
''شیخین یعنی شیخ بن باز اور علامہ ألبانی کے کلام سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اللہ کی شریعت کے مطابق فیصلے نہ کرنے والے حاکم کا کفر،حقیقی اس صورت میں ہو گا جبکہ وہ اپنے اس فعل کو جائز سمجھتا ہو اور جو حاکم غیر اللہ کی شریعت کے مطابق فیصلے کرے اور اس کو معصیت یا دین کی مخالفت سمجھے تو وہ حقیقی کافر نہیں ہے کیونکہ اس نے اپنے اس فعل کو حلال نہیں سمجھا۔ بعض اوقات کوئی حاکم خوف یا عجز یا اس قسم کی وجوہات کی وجہ سے بھی شریعت کے خلاف فیصلہ کر دیتا ہے،(لہذا اس صورت میں بھی اس پر کفر کا فتوی نہیں لگا یا جائے گا)۔''
ایک اور مقام پر ایک سوال کے جواب میں شیخ صالح العثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
'' سؤال : اذا ألزم الحاکم الناس بشریعة مخالفة للکتاب والسنة مع اعترافہ بأن الحق ما فی الکتاب و السنة لکنہ یری ا لزام الناس بھذا الشریعة شھوة أو لاعتبارات أخری ' ھل یکون بفعلہ ھذا کافر أم لا بد أن ینظر فی اعتقادہ فی ھذہ المسألة ؟ فأجاب: أما فی ما یتعلق بالحکم بغیر ما أنزل اللہ فھو کما فی کتابہ العزیز ینقسم الی ثلاثہ أقسام : کفر وظلم وفسق علی حسب الأسباب التی بنی علیھا ھذا الحکم' فھذا الرجل یحکم بغیر ما أنزل اللہ تبعا لھواہ مع علمہ بأن الحق فیما قضی اللہ بہ' فھذا لا یکفر لکنہ بین فاسق وظالم.وأما ذا کان یشرع حکما عاما تمشی علیہ الأمة یری أن ذلک من المصلحة وقد لبس علیہ فیہ فلا یکفر أیضا' لأن کثیر من الحکام عندھم جھل بعلم الشریعة ویتصل بمن لا یعرف الحکم الشرعی وھم یرونہ عالما کبیرا فیحصل بذلک مخالفة واذا کان یعلم الشرع ولکنہ حکم بھذا أو شرع ھذا وجعلہ دستورا یمشی الناس علیہ نعتقد أنہ ظالم فی ذلک وللحق الذی جاء فی الکتاب والسنة أننا لا نستطیع أن نکفر ھذا وانما نکفر من یری أن الحکم بغیر ما أنزل اللہ أولی أن یکون الناس علیہ أو مثل حکم اللہ عزوجل فان ھذا کافر لأنہ یکذب بقولہ تعالی ألیس اللہ بأحکم الحاکمین وقولہ تعالی أفحکم الجاھلیة یبغون ومن أحسن من اللہ حکما لقوم یوقنون.''(تحکیم قوانین کے متعلق اقوال سلف: ص ٣١۔٣٢)
'' سوال: اگر کوئی حاکم کتاب و سنت کے مخالف کسی قانون کو نافذ کر دیتا ہے لیکن ساتھ ہی اس بات کا بھی اعتراف کرتا ہے کہ حق وہی ہے جو کتاب وسنت میں ہے اور اس مخالف ِ کتاب و سنت قانون کو اپنی خواہش نفس یا کئی اور وجوہات کی بنا پر نافذ کرتا ہے تو کیا اپنے اس فعل سے وہ کافر ہو جائے گا یا یہ لازم ہے کہ اس مسئلے میں اس پر کفر کا فتوی لگانے کے لیے اس کا عقیدہ دیکھا جائے ؟ جواب: ما أنزل اللہ کے غیر کے مطابق فیصلہ کرنے کی تین قسمیں یعنی کفر' ظلم اور فسق و فجور قرآن میں بیان کی گئی ہیں اور ان قسموں کا اطلاق اس حکم کے اسباب کے اعتبار سے بدلتا رہے گا۔ پس اگر کسی شخص نے اپنی خواہش نفس کے تحت ما أنزل اللہ کے غیر کے مطابق فیصلہ کیا جبکہ اس کا عقیدہ یہ ہو کہ اللہ کا فیصلہ حق ہے تو ایسے شخص کی تکفیر نہ ہو گی اور یہ ظالم اور فاسق کے مابین کسی رتبے پر ہو گا۔ اور اگر کوئی حکمران ما أنزل اللہ کے غیر کو تشریع عام یعنی عمومی قانون کے طور پر نافذ کرتا ہے تا کہ امت مسلمہ اس پر عمل کرے اور ایسا وہ اس لیے کرتا ہے کہ اسے اس میں کوئی مصلحت دکھائی دیتی ہیحالانکہ اصل حقیقت اس سے پوشیدہ ہوتی ہے تو ایسے حکمران کی بھی تکفیر نہ ہو گی کیونکہ اکثر حکمرانوں کا معاملہ یہ ہے کہ وہ شرعی احکام سے ناواقف ہوتے ہیںاور انہیں ایسے جہلاء کا قرب حاصل ہوتا ہے جنہیں وہ بہت بڑا عالم سمجھ رہے ہوتے ہیں ۔ پس اس طرح وہ شریعت کی مخالفت کرتے ہیں۔ اسی طرح اگر کوئی حکمران شریعت کو جانتا ہو لیکن اس نے کسی وضعیقانون کے مطابق فیصلہ کر دیا یا اسے بطور قانون اور دستور نافذ کر دیا تاکہ لوگ اس پر عمل کریں تو ایسے حکمران کے بارے بھی ہمارا عقیدہ یہی ہے کہ وہ اس مسئلے میں ظالم ہے اور حق بات کہ جس کے ساتھ کتاب و سنت وارد ہوئے ہیں' یہ ہے کہ اس حکمران کی بھی ہم تکفیر نہیں کر سکتے ہیں ۔ ہم تو صرف اسی حکمران کی تکفیر کریں گے جو ما أنزل اللہ کے غیر کے مطابق اس عقیدے کے ساتھ فیصلہ کرے کہ لوگوں کاما أنزل اللہ کے غیر پر چلنا اللہ کے حکم پر چلنے سے بہتر ہے یا وہ اللہ کے حکم کے برابر ہے ۔ ایسا حکمران بلاشبہ کافر ہے کیونکہ وہ اللہ تعالی کے قول' کیا اللہ تعالی سب حاکموں سے بڑھ کر حاکم نہیں ہے ' اور ' کیا وہ جاہلیت کے فیصلہ سے فیصلہ چاہتے ہیں اور اللہ سے بہتر کس کا فیصلہ ہوسکتا ہے ' ایسی قوم کے لیے جو کہ یقین رکھتے ہیں' کا انکار کر تا ہے۔''
شیخ محمد بن عبد الوہاب کے پڑپوتے شیخ عبد اللطیف بن عبد الرحمن آل الشیخ رحمہما اللہ فرماتے ہیں:
'' وانما یحرم اذا کان المستند الی الشریعة باطلة تخالف الکتاب والسنة کأحکام الیونان والفرنج والتتر وقوانینھم التی مصدرھا آراؤھم وأھواؤھم وکذلک البادیة وعاداتھم الجاریة. فمن استحل الحکم بھذا فی الدماء أو غیرھا فھو کافر قال تعالی : ومن لم یحکم بما أنزل اللہ فأولئک ھم الکفرون. وھذہ الآیة ذکر فیھا بعض المفسرین : أن الکفر المراد ھنا: کفر دون الکفر الأکبر لأنھم فھموا أنھا تتناول من حکم بغیر ما أنزل اللہ وھو غیر مستحل لذک لکنھم لا ینازعون فی عمومھا للمستحل وأن کفرہ مخرج عن الملة.''(منھاج التأسیس والتقدیس فی کشف شبھات داؤد بن جرجیس: ص٧٠' دار الھدایة)
'' اگر کتاب و سنت کے مخالف باطل احکامات مثلا ً یونانی' انگریزی اور تاتاری قوانین کہ جن کا منبع و سر چشمہ اہل باطل کی خواہشات اور آراء ہوتی ہیں' کو شرعی مرجع بنا لیا جائے تو یہ صرف ایک حرام کام ہے۔ اسی طرح کا معاملہ قبائلی جرگوںاور ان کے رسوم و رواج کے مطابق فیصلوںکا بھی ہےیعنی وہ بھی ایک حرام فعل ہے۔ پس جس نے ان باطل قوانین کے مطابق قتل و غارت اور دیگر مسائل میں فیصلہ کرنے کو حلال سمجھا تو ایسا شخص کافر ہے جیسا کہ اللہ کا ارشاد ہے: جو شخص اللہ کے نازل کردہ کے مطابق فیصلہ نہیں کرتا تو وہ کافر ہے ۔ بعض مفسرین نے اس بات کا ذکر کیا ہے کہ اس آیت میں کفر سے مراد کفر اکبر سے چھوٹا کفر یعنی کفر اصغر ہے کیونکہ ان مفسرین کے فہم کے مطابق اس آیت میں ما أنزل اللہ کے غیر کے مطابق فیصلہ کرنے سے مراد اس فیصلہ کو حلال نہ سمجھتے ہوئے کرنا ہے لیکن اہل علم کا اس بات پر بھی اتفاق ہے کہ جو حکمران اس فیصلہ کو حلال سمجھتا ہے تو وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے۔''
شیخ عبد الرحمن بن ناصر سعدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
'' فالحکم بغیر ما أنزل اللہ من أعمال أھل الکفر وقد یکون کفر ینقل عن الملة وذلک ا ذا اعتقد حلہ وجوازہ وقد یکون کبیرة من کبائر الذنوب ومن أعمال الکفر قد استحق من فعلہ العذاب الشدید...فھو ظلم أکبر عند استحلالہ وعظیمة کبیرة عند فعلہ غیر مستحل لہ.''(تفسیر سعدی : المائدة : ٤٥)
''ما أنزل اللہ کے مطابق فیصلہ نہ کرناکفریہ فعل ہے اور بعض صورتوں میں یہ دائرہ اسلام سے اخراج کا باعث بھی بنتا ہے اور یہ اس صورت میں ہے جب کوئی شخص اپنے اس فعل کو حلال اور جائز سمجھتا ہو۔ اور بعض اوقات یہ فعل ایک کبیرہ گناہ اور کفریہ فعل ہوتا ہے جس کا فاعل شدید عذاب کا مستحق ہے...پس اگر اس شخص نے اپنے اس فعل کو حلال سمجھا تو یہ کفر اکبر ہے اور اگر اس فعل کو حلال نہ سمجھا تو اس وقت یہ ایک کبیرہ گناہ ہے۔''
شیخ عبد المحسن العباد رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
'' ھل استبدال الشریعة الاسلامیة بالقوانین الوضعیة کفر فی ذاتہ؟ أم یحتاج الی الاستحلال القلبی والاعتقاد بجواز ذلک؟ وھل ھناک فرق فی الحکم مرة بغیرما أنزل اللہ وجعل القوانین تشریعا عاما مع اعتقاد عدم جواز ذلک؟ الجواب : یبدو أنہ لا فرق بین الحکم فی مسألة أو عشرة أو مئة أو أقل أو أکثر فما دام الانسان یعتبر نفسہ أنہ مخطیء وأنہ فعل أمرا منکرا وأنہ فعل معصیة وأنہ خائف من الذنب فھذا کفر دونکفر وأما مع الاستحلال ولو کان فی مسألة واحدة وھو یستحل فیھا الحکم بغیر ما أنزل اللہ ویعتبرذلک حلالا فنہ یکون کفرا أکبر.'' (شرح سنن أبی داؤد للشیخ عبد المحسن العباد :جلد10،ص 332' المکتبة الشاملة' الاصدار الثالث)
'' سوال: کیا شریعت اسلامیہ کی جگہ وضعی قوانین کا نفاذ بنفسہ کفر ہے؟ یا اس کے کفر ہونے کے لیے ضروری ہے کہ انسان دلی طور پر اس فعل کو حلال سمجھتا اور اس کے جواز کا عقیدہ رکھتا ہو؟ کیا ایک مرتبہ ما أنزل اللہ کے غیر کے مطابق فیصلہ کرنے اور وضعی قوانین کو مستقل و عمومی قانون بنا لینے میں کوئی فرق ہے جبکہ قانون ساز اس قانون سازی کے جائز نہ ہونے کا بھی عقیدہ رکھتا ہو؟جواب : یہ بات ظاہر ہے کہ کسی ایک مقدمہ یا دس یا سو یا اس سے زائد یا کم میں فیصلہ کرنے سےشرعی حکم میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جب تک انسان یہ سمجھتا ہو کہ وہ خطار کار ہے اور اس نے ایک برا اور نافرمانی کا کام کیا ہے اور اسے اپنے گناہ کا خوف بھی لاحق ہوتو یہ کفر اصغر ہے اور اگر وہ اپنے اس فعل کو حلال سمجھتا ہو' چاہے ایک مقدمہ میں ہی کیوں نہ ہو اور وہ اس مقدمہ میں ماأنزل اللہ کے غیر کے مطابق فیصلہ کو حلال سمجھتا ہو تو یہ کفر اکبر ہو گا۔''
شیخ عبد اللہ بن عبد العزیز جبرین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
''أن یضع تشریعا أو قانونا مخالفا لما جاء فی کتاب اللہ و سنة رسولہ و یحکم بہ معتقدا جواز الحکم بھذا القانون أو معتقدا أن ھذا القانون خیر من حکم اللہ أومثلہ فھذا شرک مخرج من الملة.''(تسھیل العقیدة الاسلامیة: ص ٢٤٢)
'' یہ کہ حکمران کوئی ایسی قانون سازی کرے جو کتاب اللہ اور سنت رسول کے مخالف ہو اور وہ اس قانون کے مطابق فیصلہ کرنے کو عقیدے کے اعتبار سے جائز سمجھتا ہو یا اس قانون کو اپنے عقیدے میں اللہ کے حکم سے بہتر خیال کرتا ہو یا اس کے برابر سمجھتا ہو تو یہ ایسا شرک ہے جو ملت اسلامیہ سے اخراج کا باعث ہے۔''
پس معاصر سلفی علماء کے نزدیک غیر اللہ کی شریعت کے مطابق فیصلے کرنے والے حکمرانوں کا کفر دو قسم کا ہے: کفر حقیقی اور کفر عملی' اگر تو حکمران غیر اللہ کی شریعت کے مطابق فیصلے اس کو حلال' شریعت اسلامیہ سے بہتر' اس کے برابر اور جائز سمجھتے ہوئے کر رہے ہیں تو یہ کفر اعتقادی ہے ورنہ کفر عملی۔اس تقسیم کے قائل عبد اللہ بن عباس'امام احمد بن حنبل'امام محمد بن نصر مروزی' امام ابن جریر طبری' امام ابن بطہ' امام ابن عبد البر' امام سمعانی' امام ابن جوزی' امام ابن العربی' امام قرطبی' امام ابن تیمیہ' امام ابن قیم' امام ابن کثیر' امام شاطبی' امام ابن أبی العز الحنفی'امام ابن حجر عسقلانی' شیخ عبد للطیف بن عبد الرحمن آل الشیخ'شیخ عبد الرحمن بن ناصر السعدی' علامہ صدیق حسن خان'علامہ محمد أمین شنقیطی رحمہم اللہ أجمعین اور شیخ عبد المحسن العباد بھی ہیں۔(١٢)
سعودی سلفی علماء میں شیخ سلمان بن فہد العودة اور شیخ سفر الحوالی حفظہما اللہ کے بارے یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ وہ اہل تکفیر میں سے ہیں اور سعودی حکمرانوں کی تکفیر کرتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ان دونوں شیوخ کی قدیم تحریروں میں تکفیر اور خروج کے مسئلہ میں تشدد پایا جاتا ہے لیکن سعودی حکومت کی طرف سے جب ان حضرات پر سختی ہوئی اور انہیں جیل میں قید کیا گیا ہے اور پھر بعض علماء کی کوششوں سے ایک معاہدے کے نتیجے میں یہ حضرات کئی سال بعد جیل سے باہر آئے تو انہوں نے اپنے منہج میں واضح تبدیلی کی ہے۔یہاں تک کہ جہادی عالم دین شیخ ابو معاویہ شامی نے 'الشیخ سلمان العودة یرد الشیخ سلمان العودة'کے نام سے مضمون لکھا جس میں شیخ سلمان العودہ کے سابقہ بیانات کی روشنی میں' کہ جن سے وہ رجوع کر چکے تھے' ان کے موجودہ موقف کا رد کیاکہ جسے انہوں نے نئے منہج کے طور پر اختیار کیا تھا۔ریاض میں ہونے والے خود کش حملوں کی بھی دونوں شیخین نے مخالفت کی ۔ علاوہ ازیں شیخ سفر الحوالی نے صحیفہ عکاظ کو دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں عراق میں جہاد کی غرض سے جانے والے سعودی نوجوانوں کو روکا اور انہیں یہ مشورہ دیا کہ اس بارے اہل عراق کا معاملہ انہی پر چھوڑ دیا جائے اور سعودی نوجوانوں کے وہاں جانے سے مفاسد پیدا ہوں گے۔ علاوہ ازیں شیخین نے افغانستان میں جہاد کی غرض سے جانے والے سعودی نوجوانوں کی کثیر تعداد کو بھی وہاںجانے سے روکا اور سعودی عرب میں ہی امریکہ کے خلاف ایک اصلاحی تحریک کی بنیاد رکھی اور ایسے افکار اور اعمال سے نوجوانوں کو منع کیا جن سے ان کی نظر میں مفاسد پیدا ہو سکتے تھے۔ تفصیل کے لیے درج ذیل ویب سائیٹ پر دیے گئے مضامین کا مطالعہ کریں۔(١٣)
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
پاکستان میں تکفیر کی تحریک
بعض سلفی علماء کا کہنا یہ ہے کہ اگرچہ مولانا مودودی رحمہ اللہ حکمرانوں کی تکفیر کرنے والے نہیں تھے لیکن تکفیر کی عالمی تحریک کی بنیاد مولانا مودودی رحمہ اللہ کے توحید حاکمیت کے بارے کچھ تصورات بنے ہیں۔مولانا مودودی رحمہ اللہ نے رب' دین' عبادت اور الہ جیسی بنیادی اصطلاحات کی حکومت ' سلطنت اور قانون سازی جیسے الفاظ کے ساتھ تشریح فرمائی اور ان بنیادی دینی اصطلاحات کو توحید حاکمیت کے گرداگرد ہی گھماتے پھیراتے رہے۔ مولانا مودودی رحمہ اللہ سے اس فکر کو سید قطب رحمہ اللہ نے لیا جنہوں نے اس میں مزید غلو پیدا کیا۔ اور سید قطب رحمہ اللہ سے یہ فکر 'جماعة التکفیر' اور 'القاعدة' نے لی۔ پھر ان دو جماعتوں سے یہ فکر پورے عالم اسلام میں پھیل گیا۔(الغلو فی التکفیر : ص٥١۔٦١)

بہر حال صورت حال جو بھی ہو پاکستان میں تکفیر کی باقاعدہ تحریک کا آغاز سوات، وزیرستان اور دیگر قبائلی علاقوں کے باشندوں پر حکومت پاکستان کے ظلم و ستم کے ردعمل میں شروع ہوا۔ پاکستان میں انگریزی قوانین کا نفاذ شروع دن سے ہی ہے لیکن پاکستان کے قیام کی نصف صدی تک حکمرانوں کی تکفیر کا کوئی سلسلہ نظر نہیں آتا بلکہ جو حکمرانوں کی تکفیر کرنے والے جہادی گروہ ہیں۔ وہ نصف صدی کے اس طویل دورانیے میں حکومت پاکستان کی سرپرستی میں جہاد فرماتے نظر آتے ہیں۔ پس پاکستانی حکمرانوں کی تکفیر کی حالیہ تحریک کا اصل سبب فطری انسانی ردعمل ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ پاکستانی حکمران فاسق و فاجر اور ظالم ہیں لیکن ان کے کافر ہونے کے بارے معروف مکاتب فکر میں سے کسی بھی مکتب فکر کے علماء کا تاحال کوئی فتوی جاری نہیں ہوا ہے۔

پہلا سلفی گروہ
پاکستانی افواج اور سیکورٹی فورسز کے ظلم وستم کے خلاف کھڑے ہونے والے مجاہدین کا اس بارے موقف واضح ہے کہ وہ موجودہ حکمرانوں اور ا ن کے ہر قسم کے معاونین کو کافر قرار دیتے ہیں۔ اس بارے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں بہت سا لٹریچر عام ہے اور عام کیا جارہا ہے۔ پاکستان میں اس فکر کا نمائندہ ادارہ 'مؤحدین' نامی ویب سائیٹ ہے جس پر اس فکر سے متعلق بیسیوں کتابیں موجود ہیں۔ ویب سائیٹ کے مندرجات سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کو چلانے والے جہادی سلفی حضرات ہیں۔ اس ویب سائیٹ پر موجود سارا لٹریچر درحقیقت اس عربی لٹریچر کا ترجمہ ہے جسے القاعدہ اور عالمی جہادی تحریکوں میں شامل علماء اور ان کے قائدین نے مرتب کیا ہے ۔ شیخ عبد الرحمن بن عبد الحمید امین لکھتے ہیں:

''اور ان مددگاروں وحامیوں میں وہ لوگ بھی برابر کے شریک ہیں جو عملی طور پر ان کی مدد وحمایت کرتے ہیں مثلاً فوجی،سپاہی،فورسز،اسپیشل فورسز،جمہوریت پسند،امن قام کرنے والے اور سراغ رساں افراد ،پولیس ،وزراء،لیڈرز،اور وہ ارکان سلطنت جن سے مرتد حکام خفیہ ریاستی امور میں مشاورت کرتے ہیں یہ تمام طاغوت کے حامی اور مددگار ہیں جو نہ صرف اس کی بلکہ اس کی سلطنت ،اس کے بنائے گئے کفریہ قوانین ودستور کی بھی حفاظت کرتے ہیں اور یہی لوگ ہیں جوعوام الناس اور اللہ کے قانون کے مطابق حکومت کے درمیان سب سے بڑی رکاوٹیں ہیں بلکہ یہ لوگ توطاغوت اورطاغوتی نظام کے دفاع اور حفاظت میں سردھڑ کی بازیاں لگادیتے ہیں اور اس کی مخالفت کرنے والوں اور اس کے خلاف بغاوت کرنے والوں پر غداری کا الزام لگاکر انہیں سزائے موت دیتے ہیں ۔اگر یہ سب نہ ہوتے تو وہ مرتد حکام بھی نہ ہوتے یہ ان کی بقاء اور ان کی حکومت کی بقاء کی ضمانت ہیں یہی اصل سبب ہیں سو جب ان حکام کو مرتد اور کافر قرار دیا جاتا ہے کیونکہ وہ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق حکومت نہیں کرتے توہر وہ شخص جو ان کی کسی بھی طرح مادی یا معنوی مدد یاحمایت کرے یا کسی بھی طرح ان کا دفاع کرے وہ بھی انہی کی طرح کافر ومرتد ہوا کیونکہ یہی طاغوت اور طاغوتی نظام کا (بلاواسطہ)اولین حامی ومددگار ہے اورمسلمانوں پر ان کے ملکوں میں ان مرتد حکام کے وضع کردہ کفریہ قوانین کونافذ کرکے ان ملکوں میں کفر بواح (ایسا کفر جو انسان کو اسلام کی حدود سے نکال دیتا ہے)کو ظاہر کرنے کا اولین سبب ہے۔اور فقہاء جانتے ہیں کہ کسی بھی شئے سے بلاواسطہ تعلق رکھنے والے اور اس شئے کاسبب بننے والے کابھی شرعاً وہی حکم ہوتا ہے جو خود اس شئے کا ہوتا ہے۔لہٰذا اس اصول کی رو سے طاغوت کے حامی،مددگار ،معاونین بھی طاغوت اور اس کی طرح کافر ومرتد ہوئے علاوہ ازیں کتاب وسنت میں موجود دلائل سے بھی یہی ثابت او رمتحقق ہوتا ہے۔''(نثراللؤلؤ والیاقوت لبیان حکم الشرع فی أعوان وأنصار الطاغوت' شیخ عبدالرحمٰن بن عبدالحمید الامین'مترجم: أبوعلی السلفی المہاجر' ص ١٦۔١٧ )

شیخ عبد اللہ عمر أثری لکھتے ہیں:
''وکیل اور جج ہا ئیکورٹ وسیشن کورٹ کے جج اور وکیل جو اس نظام کو لانے والے ہیں اور اس پر عمل کرنے والے ہیں بلکہ بنیاد ہی یہ لوگ رکھتے ہیں یہ لوگ بھی اس نظام کے مضبوط مددگار ہیں بلکہ وہ یونیورسٹی جہاں سے یہ وکیل اور جج وضعی قانون پڑھ کر فارغ ہوتے ہیں یہ سب مرتد واجب القتل ہیں...خلاصہ کلام یہ کہ اس طرح کے بے دین حکمرانوں کی ہتھیار قول یا فعل سے مددکرنا اس طاغوتی مرتد اورکفریہ نظام کے دوام کا سبب بنتا ہے۔ان لوگوں پر کفر کا وارتداد کا حکم لگایا جائے گا(یہ مددگار کافر ومرتد ہیں)ان کے صدر ہوں ،امیر ہوں یا سربراہ جو ان پراپنا حکم چلاتے ہیں وہ اصل ہیں اور یہ ان کی فرع ہیں لہٰذا ان کا حکم ان پر بھی جاری ہوگا۔ان سربراہوں کاحکم آگے آئے گا فی الحال ہم ان کے مددگاروں جیسے علماء سوء ، درباری مولوی فوج،پولیس وکلاء اور پوری حکومتی کابینہ کے متعین کفر اور ان کے واجب القتل ہونے کے شریعت سے دلائل دیں گے ۔''( آسمانی قوانین سے اعراض' شیخ ابوعبدالرحمن عبداﷲعمر الاثری' مترجم شیخ ابوجنیدص ٤١' ٤٢'٤٣)
ان کے علاوہ بیسیوں کتابیں اس موقف کے اثبات میں muwahideen.tk ویب سائیٹ پر موجود ہیں۔اس موقف کو معروف کبار سلفی علماء کی حمایت حاصل نہیں ہے جیسا کہ اس ویب سائیٹ پر موجود بعض کتابوں سے بھی یہ واضح ہوتا ہے کہ کبارسلفی علماء ان کے موقف کے قائل نہیں ہیں اور یہ حضرات ان سلفی علماء کو ہدف تنقید بناتے ہیں مثلاًاس ویب سائیٹ پر 'الدولة السعودیة وموقف ابن باز منھا' نامی کتاب کے ترجمے کا مطالعہ فرمائیں ۔

توحید حاکمیت کی بنیاد پر تکفیر میں غلو اور ردعمل اس بات سے بھی ثابت ہوتا ہے کی ایسے اہل تکفیر گروہوں کے ہاں توحید الوہیت یا توحید اسماء وصفات کی اہمیت نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ قرآن و سنت جو کہ توحید الوہیت اور أسماء و صفات سے بھرے پڑے ہیں ' ان کے بیان یا ان کی بنیاد پر تکفیر کی بجائے توحید حاکمیت کی ایک مطلق آیت کو مسلمانوں کی تکفیر کی بنیاد بنانا ردعمل نہیں تو کیا ہے؟ اگر تکفیر کی موجودہ تحریک ظلم کے ردعمل کی تحریک نہ ہوتی اور شعوری سطح پر واقعتاً صحیح معنوں میں اسلامی عقیدے کی وضاحت کی تحریک ہوتی تو اس تحریک میں توحید کی اقسام کی بنیاد پر تکفیر کے مسئلے میں وہ توازن قائم ہوتا جو اللہ اور اس کے رسول نے توحید کی ان قسموں کے بیان میں قرآن وسنت میں قائم کیا ہے۔
وہ اہل تکفیر سلفی حضرات جو آج تک توحید اسماء وصفات کی بناء پر معتزلہ، جہمیہ، اشاعرہ، صوفیہ اور ماتریدیہ کا رد کرتے رہے ہیں اور انہیں گمراہ فرقوں میں شمار کرتے رہے ہیں آج انہی افکار کے حامل اشخاص کو صرف اس وجہ سے امامت کے مرتبے پر فائز کرتے ہیں کہ وہ توحید حاکمیت کی بناء پر حکمرانوں اور مسلمان معاشروں کی تکفیر میں ان کے امام ہیں۔ یہ أمر واقعہ ہے کہ توحید حاکمیت کی بناء پر تکفیر کی تحریک نے توحید الوہیت کہ جس سے قرآن بھرا پڑا ہے، کو کھڈے لائن لگا دیا ہے اور ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ توحید حاکمیت کی بناء پر مسلمان حکمرانوں کی تکفیر ہی موحد ہونے یا نہ ہونے کا واحد معیار حقیقی ہے۔ اگر اصل مسئلہ اسلامی عقیدے ہی کو واضح کرنا ہے تو توحید کے بیان میں یہ عدم توازن کیوں؟ توحید کی ایک نئی قسم کی بنیاد پر تو آدھی امت کی تکفیر کر دی جائے لیکن سلف صالحین کی قرآن وسنت سے ماخوذ شدہ تقسیم توحید ربوبیت، توحید الوہیت اور توحید اسماء و صفات کا نام تک آپ کی تحریروں میں نہ ملے اور ان اقسام کی بنیاد پر آپ کسی تکفیر کے قائل نظر نہ آتے ہوں۔ فیا للعجب !

دوسرا سلفی گروہ
دوسرا موقف جو پہلے موقف کے بالکل برعکس ہے، طارق علی بروہی یا سلفی کے نام سے ایک صاحب پیش فرما رہے ہیں۔ اس موقف کا نمائندہ ادارہ صفحۂ اول - اصلی اہل سنت نامی ویب سائیٹ ہے جس پر اس موقف سے متعلق بیسیوں کتابیں، رسائل، فتاوی اور لیکچرز موجود ہیں۔اس موقف کے مطابق موجودہ حکمران فاسق و فاجر اور ظالم تو ہیں لیکن کافر نہیں ہیں۔ایک طرح سے یہ ویب سائیٹ بھی دراصل تراجم پر مشتمل ہے اور حکمرانوں کی تکفیر کے بارے سعودی علماء کے موقف کی ترجمانی ہے۔اس ویب سائیٹ پر موجود درج ذیل کتب، رسائل اور فتاوی کے عناوین سے قارئین کو یہ اندازہ ہو سکتا ہے کہ یہ ویب سائیٹ مسلمان حکمرانوں کی تکفیر کے حوالے سے کیا موقف پیش کرہی ہے:
١۔ حکومت کے خلاف نشریات جاری کرنا جائز نہیں۔ شیخ عبد العزیز بن عبداللہ آل الشیخ
٢۔ توحید حاکمیت محض بطور ایک سیاسی ہتھکنڈا ۔شیخ ناصر الدین ألبانی
٣۔ کیا توحید عبادت قدیم ہو چکی اور موجودہ دور توحید حاکمیت بیان کرنے کا ہے۔ ھیئة کبارالعلماء(١٤)
٤۔ مسلمان حکمرانوں کی تکفیر ہی دہشت گردی کا سبب ہے۔ ھیئة کبار العلماء
٥۔ خود کش حملے ہر حال میں حرام ہیں۔ شیخ بن باز' شیخ صالح العثیمین' شیخ عبد العزیز بن عبد اللہ آل الشیخ' شیخ صالح الفوزان' شیخ عبد العزیز الراجحی' شیخ عبد المحسن العبیکان
٦۔ تحکیم قوانین سے متعلق معتبر علماء سلف صالحین کے اقوال(١٥)
٧۔ کیا شیخ محمدبن ابراہیم رحمہ اللہ علیہ کے تشریع عام پر تکفیر کے فتوی کو دلیل بنایا جا سکتا ہے؟ ' شیخ بن باز
٨۔ کیا آپ آیت تحکیم کی سلفی تفسیر کے قائل نہیں؟ ' شیخ صالح الفوزان
٩۔ آیت تحکیم کی صحیح تفسیر اور حکمرانوں کی غلط تکفیر ' شیخ بدیع الدین راشدی
١٠۔ حکمرانوں کی برائیاں اور عیب نشر کرنا حرام ہے ' شیخ صالح العثیمین
۱١۔ تکفیر میں بھی عدل و انصاف اور علم کی ضرورت ہے ' شیخ صالح الفوزان(١٦)


طارق علی بروہی صاحب کا اس پہلو سے کام قابل تحسین ہے کہ وہ سلفی علماء کی رائے کے تراجم پیش کر رہے ہیں لیکن دوسری طرف ان کے متشددانہ مزاج نے ان کے اخلاق، رویوں اوردوسروں کے بارے ذاتی نظریات میں جس عدم توازن اورعدم اعتدا ل کو جنم دیا ہے ، وہ اسے بھی سلف صالحین سے ثابت کرنے کی حتی الامکان ناکام کوشش کرتے رہتے ہیں۔دیکھنے میں آیا ہے کہ ایسے اخلاق اور رویوں سے عموما آپ کے حامی کم پیدا ہوتے ہیں اور مخالفین میں اضافہ ہوتا ہے اور ایساانسان اپنے فکر کی نشر واشاعت میں سب سے بڑی رکاوٹ خود بن جاتا ہے۔

پس طارق علی بروہی صاحب کی ویب سائیٹ کا ایک پہلو تو تعریفی ہے کہ تکفیر اور توحید حاکمیت کے مسئلہ میں وہ سلفی علماء ہی کا موقف پیش کر رہے ہیں لیکن اس ویب سائیٹ کے ذمہ داران، علماء کے ان فتاوی کو بعض اوقات کسی دینی شخصیت ہی کو مسخ کر دینے کی صورت میں پیش کرتے ہیں حالانکہ کبار سلفی علماء کا مقصود اس دینی شخصیت کو مسخ کرنا نہیں ہوتا بلکہ اس کے افکار و نظریات پر نقد کرنا مقصود ہوتا ہے(١٨)۔ اختلاف یا نقدتو کسی پر بھی ہو سکتا ہے' نبی کے علاوہ کوئی بھی معصوم نہیں ہے لیکن نقد میں انصاف کا دامن تھامے رکھنے والے حضرات بہت ہی کم ہوتے ہیں۔ جس طرح ایمان کی شاخیں ہیں ' اسی طرح کفر اور معصیت کی بھی شاخیں ہیں اور ایک شخص میں من وجہ کفر اور من وجہ ایمان یا من وجہ خیر او ر من وجہ شرکا جمع ہونا ممکن ہے۔ اس صورت میں انصاف کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ انسان کسی دینی شخصیت میں خیر کے پہلو کی تعریف کرے اور شر کے پہلو پر نقد کرے۔

تیسرا سلفی گروہ
تکفیر کے مسئلے میں تیسرا موقف ادارہ 'ایقاظ' کا ہے جس کے سرپرست پروفیسر حافظ سعید صاحب کے بھائی حامد کمال الدین صاحب ہیں۔ ادارہ ا'یقاظ' کا کہنا ہے :

١۔ کہ تکفیر کرتے وقت حکمرانوں اور عوام الناس میں فر ق ہو گا ۔ حکمرانوں کی تو تکفیر ہو گی لیکن عوام الناس کی تکفیر نہ ہو گی اور عوا م الناس کی تکفیر نہ کرنے کی وجہ وہ یہ بیان کرتے ہیں کہ ایسا کرنے سے وہ 'جماعة التکفیر' بن جائیں گے اور مصلحت اسی میں ہے کہ عوام الناس کی تکفیر نہ کی جائے۔

٢۔ حکمرانوں کی تکفیر کے بارے ان کا کہنا یہ ہے کہ ان کی مطلقاً تکفیر ہوگی اور یہ مطلق تکفیر ہر کوئی کر سکتا ہے۔ وہ حکمرانوں کی معین تکفیر کے بھی قائل ہیں لیکن اس کے لیے مستند علماء کی جماعت کے فتاوی کی طرف رجوع کے قائل ہیں ۔ (اداریہ 'سہ ماہی ایقاظ' جنوری ٢٠١٠ء)

٣۔ حکمرانوں کی مطلق تکفیر میں ادارہ ایقاظ کے بقول وہ شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ کی اس رائے کے قائل ہیں کہ جس کے مطابق مجرد غیر شرعی وضعی قوانین کے مطابق فیصلے کرنا یا ان کا نفاذ ہی ملت اسلامیہ سے اخراج کا باعث بن جاتا ہے ' چاہے ایسا کرنے والا اس کو حلال یا جائز سمجھتاہو یا نہ۔

٤۔ ادار ہ 'ایقاظ' کا یہ بھی دعوی ہے کہ وہ کبار سعودی علماء کے مقلد ہیں اور ان کی تقلید کے داعی بھی ہیں۔اس مکتب فکر کی نمایاں ترجمان ايقاظ نامی ویب سائیٹ ہے جس پر اس فکر سے متعلق بہت مواد موجود ہے۔

عقل و منطق کی روشنی میں اصل موقف دو ہی بنتے ہیں یا تو وہ جسے ادارہ 'موحدین' پیش کر رہا ہے کہ اگر کافر ہیں تو حکمرانوں کے ساتھ ساتھ ان کے ہر قسم کے معاونین بھی کافر قرار پاتے ہیں کیونکہ جس طرح غیر شرعی قوانین وضع کرنے والے اور ان کے مطابق فیصلے کرنے والے طاغوت ہیں تو ان عدالتوں سے فیصلے لینے والے عوام بھی 'تحاکم الی الطاغوت' میں شامل ہونے کی وجہ سے کفر کے مرتکب ہیں؟ یا پھردوسرا موقف سعودی علماء کا ہے جو حکمرانوں اورعوام الناس دونوں کو فاسق و فاجر شمار کرتے ہیں اور سعودی سلفی علماء کا یہ موقف ادارہ 'أصلی اہل سنت' پیش کرر ہا ہے ۔

جہاں تک اس تیسرے موقف کا تعلق ہے کہ حکمرانوں اورعوام الناس میں فرق کیا جائے اور عوام الناس کو تکفیر سے بچایا جائے تو یہ عقل و منطق سے بالاتر بات ہے۔ جب اللہ کی شریعت کے بالمقابل وضعی قوانین بنانے والے حکمران کافر ہیں تو ان وضعی قوانین کو پاس کرنے والی اسمبلیاں ' اور ان اسمبلیوں کو منتخب کرنے والے عوام الناس اور ان وضعی قوانین کے مطابق فیصلہ کرنے والی عدالتیں اور ان وضعی قوانین کے مطابق فیصلہ لینے والے عوام الناس اور ان وضعی قوانین کا نفاذ کرنے والے سیکورٹی فورسز کے ادارے اوران وضعی قوانین کی حفاظت کی خاطر جان قربان کرنے والی افواج پاکستان کیسے مسلمان ہو سکتی ہیں؟

ادارہ ایقاظ کی تکفیر کی بحث میں دوسرے نکتے کے بارے ہم یہ کہیں گے کہ ان کی طرف سے تکفیر مطلق اور تکفیر معین میں فرق کا یہ پہلو ایک قابل تعریف أمرہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اس پہلو کے اجاگر کرنے سے اصول تکفیر کا غلط استعمال بہت حد تک کنٹرول میں آ جاتا ہے۔
تیسرے نکتے کے بارے ہم مفصل بحث سابقہ صفحات میں کر چکے ہیں۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ اپنی اس رائے اور فتوی سے رجوع کر چکے ہیں کہ بغیرعقیدے کے مجرد غیر شرعی وضعی قوانین کے مطابق فیصلہ کرنے سے ہی کوئی شخص دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی شیخ کے فتوی کے بارے سلفی علماء کے چاررجحانات ہم نقل کر چکے ہیں۔

چوتھے نکتے کے بارے ہمارا کہنا یہ ہے کہ ادارہ' ایقاظ' کا اگرچہ دعوی تو یہی ہے کہ وہ کبار سعودی علماء کے مقلد ہیں لیکن یہ تقلید کچھ ایسی ہے کہ ادارہ 'ایقاظ' سابقہ علماء (مثلاً شیخ عبد الوہاب )کی عمومی نصوص کو پکڑ لیتا ہے اور پھر ان نصوص کی تشریح اور ان کا اطلاق اپنے فہم کی روشنی میں کرتا ہے اور اسے سلفی موقف قرار دے کر اس کی تقلید کی ہر کسی کو دعوت دے رہا ہے۔ اگر برا نہ منایا جائے تو یہ درحقیقت ادارہ 'ایقاظ' کی تقلید ہے نہ کہ سلفی علماء کی ۔ معاصر سعودی علماء ہی شیخ عبد الوہاب رحمہ اللہ کے حقیقی جانشین ہیں اور ان کبار علماء مثلا ً شیخ بن باز' شیخ صالح العثیمین' شیخ صالح الفوزان' علامہ ألبانی' شیخ عبد العزیزبن عبد اللہ آل الشیخ' شیخ عبد العزیز الراجحی' شیخ عبد المحسن العبیکان ا ور ہئیة کبار العلماء میں سے میں سے کوئی بھی معاصرمسلمان حکمرانوں کی تکفیر نہیں کرتا ۔ ہاں! القاعدہ اور جہادی سلفی علماء یہ تکفیر ضرور کرتے ہیں۔

دوسری اور اہم تر بات یہ ہے کہ سعودی علماء تو تارک صلاة کو بھی حقیقی کافر شمار کرتے ہیں علاوہ ازیں توحید الوہیت کی بنیاد پر عمومی تکفیر کا جس قدر زور ان علماء کے فتاوی میں نظر آتا ہے وہ توحید حاکمیت کی نسبت سے بہت ہی کم ہے۔ لیکن ادارہ 'ایقاظ 'سعودی علماء کے توحید الوہیت یا تارک صلاة کے بارے تکفیر کے صریح اور دوٹوک موقف کی بنیاد پر پاکستان میں تکفیر کاقائل نہیں ہے۔ اگر تو تقلید کا یہ معنی ہے کہ مقلد نے اپنی مرضی کے علماءمثلاً شیخ بن باز' شیخ صالح العثیمین اور علامہ ألبانی کی بجائے شیخ محمدبن ابراہیم رحمہم اللہ کی اور اپنی مرضی کے فتاوی مثلاً تارک صلاة کی بجائے حکمرانوں کی تکفیر کے مسئلہ میں ان علماء کی تقلید کرنی ہے تو یہ اجتہاد کی ایک قسم ہے نہ کہ تقلید۔ اور ایسے علماء کو فقہاء کی اصطلاح میں أصحاب ترجیح کہتے ہیں اور عموماً علماء أصحاب ترجیح کو مجتہدین میں ہی شمار کرتے ہیں۔اگر تو ادارہ 'ایقاظ' پاکستان کی جماعت اہل الحدیث کی طرح عدم تقلید اور اجتہاد کا دعویدار ہوتا تو ہمیں یہ اعتراض کرنے کا کوئی حق نہ تھا لیکن ایک طرف جب وہ پاکستانی اہل حدیث کبار علماء کی بجائےسعودی کبار علماء کی تقلید کے دعویدار ہیں اور پاکستانی اہل الحدیث کو بھی حنبلی فقہ کی اتباع کی دعوت دیتے ہیں اور معاملہ یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ پاکستان میں کسی کو ایسا عالم دین ماننے کو بھی تیار نہیں ہیں کہ جو قابل اتباع ہو تو پھر ان پر یہ اعتراض لازم طور پر وارد آتا ہے کہ وہ خود فقہ حنبلی کے جمہور علماء کے متبع نہیں ہیں تو دوسروں کو اس کی دعوت کیسے دے رہے ہیں؟ (١٧)

مسئلے کا سادہ سا حل یہ ہے کہ اگرادارہ ایقاظ واقعتاً حنبلی علماء کی تقلید کا قائل ہے تو کبار حنبلی علماء مثلا ھیئة کبار العلما وغیرہ کی خدمت میں تکفیر سے متعلق اپنا فکر تفصیلی طور پر پیش کر کے اس کے بارے تائیدی فتوی حاصل کرے اور پھر وہ یہ دعوی کرے کہ وہ حنبلی علماء کا مقلد ہے تو یہ دعوی فی الواقع درست ہو گا۔

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ادارہ ایقاظ سلفی العقیدہ فاضل' قابل 'مخلص ' دیندار اور تحریکی جذبے کے حامل افراد پر مشتمل ہے اور اگر یہ ادارہ اپنی صلاحیتیں مسلمان حکمرانوں کی تکفیر کے مسئلے ہی کے لیے وقف کرنے کی بجائے کسی قدر مسلمان معاشروں کی اصلاح اور تعمیری کام پر لگائے تو اس معاشرے میں ایک بڑا انقلاب برپا کر سکتا ہے اور میں ذاتی طور پر حامد کمال الدین صاحب کے جذبے اور عمل سے متاثر ہوں لیکن عمل وتحریک سے پہلے فکر کی درستگی ایک لازمی امر ہے۔ دعا ہے کہ اللہ ہم سب کو اس کام کے لیے وقف کرے کہ جس کے لیے اس نے انبیاء کو مبعوث کیا ہے۔ آمین!
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
تاتاری قانون ’الیاسق‘ سے معاصر حکمرانوں کی تکفیر پر استدلال
ہم یہاں یہ بھی واضح کرنا چاہتے ہیں کہ پاکستان میں بعض سلفی حضرات نے تاتاریوں کے قانون ' الیاسق' کے حوالے سے امام ابن کثیر اور امام ابن تیمیہ رحمہما اللہ کے اقوال نقل کیے ہیں ان دونوں أئمہ نے 'الیاسق' نامی تاتاری قانون کے مطابق فیصلہ کرنے والے اسلام کا دعوی کرنے والے تاتاریوں کو کافر قرار دیا ہے۔ بعض سلفی اہل علم نے اس کا جواب یہ دیاہےاس میں کوئی شک نہیں ہے کہ امام ابن کثیراورامام ابن تیمیہ رحمہما اللہ نے 'الیاسق' نامی مجموعہ قوانین کے مطابق فیصلہ کرنے والے تاتاریوں کو کافر قرار دیا ہے لیکن ان کی تکفیر کی وجہ یہ تھی کہ وہ اپنے مجموعہ قوانین کو شرعی قوانین کے برابر حیثیت دیتے تھے اور یہ اعتقادی کفر ہے اور کسی بھی انسانی قانون کو شرعی قانون کے برابر قرار دیناصریح کفر ہے جیسا کہ سلفی علماء کے حوالے سے ہم یہ بحث پہلے نقل کر چکے ہیں ۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اسلام قبول کرنے والے تاتاریوں کے عقائد کا تعارف کرواتے ہوئے فرماتے ہیں:

''قال أکبر مقدمیھم الذین قدموا الی الشام وھو یخاطب رسل المسلمین ویتقرب الیھم بأنامسلمون فقال : ھذان آیتان عظیمتان جاء ا من عند اللہ محمد وجنکیز خان فھذا غایة ما یتقرب بہ أکبر مقدمیھم الی المسلمین أن یسوی بین رسول اللہ أکرم الخلق علیہ وسید ولد آدم وخاتم المرسلین وبین ملک کافر مشرک من أعظم المشرکین کفرا وفسادا وعدوانا من جنس بخت نصر وأمثالہ وذلک أن اعتقاد ھؤلاء التتار کان فی جنکیز خان عظیما فانھم یعتقدون أنہ ابن اللہ من جنس ما یعتقدہ النصاری فی المسیح ویقولون ان الشمس حبلت أمہ وأنھا کانت فی خیمة فنزلت الشمس من کوة الخیمة فدخلت فیھا حتی حبلت ومعلوم عند کل ذی دین أن ھذا کذب ... وھم مع ھذا یجعلونہ أعظم رسول عند اللہ فی تعظیم ما سنہ لھم وشرعہ بظنہ وھو حتی یقولوا لماعندھم من المال ھذا رزق جنکیز خان ویشکرونہ علی أکلھم و شربھم وھم یستحلون قتل من عادی ما سنہ لھم ھذا الکافر الملعون المعادی للہ ولأنبیائہ ورسولہ وعبادہ المؤمنین فھذا وأمثالہ من مقدمیھم کان غایتہ بعد الاسلام أن یجعل محمدا بمنزلة ھذا الملعون.''(مجموع الفتاوی :جلد ٣،ص٥٤٢)
'' ان اسلام کے مدعی تاتاریوں میں سے جو لوگ شام آئے ۔ ان میں سب سے بڑے تارتاری نے مسلمانوں کے پیام بروں سے خطاب کرتے ہوئے اور اپنے آپ کو مسلمان اور ان کے قریب ثابت کرتے ہوئے کہا: یہ دو عظیم نشانیاں ہیں جو اللہ کی طرف سے آئی ہیں۔ ان میں سے ایک محمد عربی ہیں اور دوسرا چنگیز خان ہے۔ پس یہ ان کا وہ انتہائی عقیدہ ہے جس کے ذریعے وہ مسلمانوں کا قرب تلاش کرتے ہیں کہ انہوں نے اللہ کے رسول جو مخلوق میں سے سب سے بزرگ ' اولاد آدم کے سردار اور نبیوں کی مہر ہیں' انہیں اور ایک کافر اور مشرکین میں سب سے بڑھ کر مشرک' فسادی' ظالم اور بخت نصر کی نسل کو برابر قرار دیا؟ ۔ ان تاتاریوں کا چنگیز خان کے بارے عقیدہ بہت ہی گمراہ کن تھا۔ ان نام نہاد مسلمان تاتاریوں کا تو یہ عقیدہ تھا کہ چنگیز خان اللہ کا بیٹاہے اور یہ عقیدہ ایسا ہی ہے جیسا کہ عیسائیوں کا حضرت مسیح کے بارے عقیدہ تھا۔ یہ تاتاری کہتے ہیں کہ چنگیز خان کی ماں سورج سے حاملہ ہوئی تھی ۔ وہ ایک خیمہ میں تھی جب سورج خیمہ کے روشندان سے داخل ہوا اور اس کی ماں میں گھس گیا۔ پس اس طرح اس کی ماں حاملہ ہو گئی ۔ ہر صاحب علم یہ بات جانتا ہے کہ یہ جھوٹ ہے...اس کے ساتھ ان تاتاریوں کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ وہ چنگیز خان کو اللہ کا عظیم ترین رسول قرار دیتے ہیں کیونکہ چنگیز خان نے اپنے گمان سے ان کے لیے جو قوانین جاری کیے ہیں یا مقرر کیے ہیں یہ ان قوانین کی تعظیم کرتے ہیں اور ان کا معاملہ تو یہ ہے کہ جو ان کے پاس مال ہے ' اس کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ یہ چنگیز خان کا دیا ہوا رزق ہے اور اپنے کھانے اور پینے کے بعد(اللہ کی بجائے) چنگیز خان کا شکر اداکرتے ہیں اور یہ لوگ اس مسلمان کے قتل کو حلال سمجھتے ہیں جو ان کے ان قوانین کی مخالفت کرتا ہے جو اس کافر ملعون' اللہ ' انبیاء و رسل ' محمد عربی اور اللہ کے بندوں کے دشمن نے ان کے لیے مقرر کیے ہیں۔ پس یہ ان تاتاریوں اور ان کے بڑوں کے عقائدہیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ اسلام لانے کے بعد محمد عربی کو چنگیز خان ملعون کے برابر قرار دیتے ہیں۔''
اللہ کے رسول کو چنگیز خان کے برابر قرار دینا' چنگیز خان کو اللہ کا بیٹا قرار دینا' چنگیز خان کو اللہ کا رسول قرار دینا اور اس کے دیے گئے قوانین کی تعظیم کرنا' مجموعہ قوانین 'الیاسق' کا انکار کرنے والے مسلمانوں کے خون کو حلال سمجھنا اور کھانے پینے کے بعد چنگیزخان کا شکر ادا کرنا وغیرہ ایسے صریح کفریہ عقائد ہیں کہ جن کے کفر اکبر ہونے میں دو بندوں کا بھی اختلاف ممکن نہیں ہے لہذا 'الیاسق' کے مجموعہ قوانین کے بارے تاتاریوں کا جو رویہ اور عقیدہ تھا وہ اعتقادی کفر کا تھا اور اعتقادی کفر کی بنیاد پر سلفی علماء تکفیر کے قائل ہیں۔ پس آج بھی کوئی حکمران اگر وضعی مجموعہ قوانین کو من جانب اللہ سمجھتے ہیں یا اس قانون کے واضعین کو اللہ کے رسول کے برابر درجہ دیتے ہیں یا اس قانون کے مخالفین کے خون کو شرعا حلال سمجھتے ہیں توان کے کفر میں بھی کوئی شبہ باقی نہیں رہتا لیکن بغیر کسی کفریہ عقیدے کے مطلق ان وضعی قوانین کے مطابق فیصلے کرنے کو کفر اکبر قرار دینے کی کوئی شرعی ' عقلی ' نقلی یا تاریخی دلیل موجود نہیں ہے۔ہاں! ایسا عمل کفر اصغر یا مجازی کفر یا عملی کفر کہلانے کا مستحق ضرور ہے۔
بعض سلفی حضرات کا یہ بھی کہنا ہے کہ آج کل کے حکمرانوں اور سلف صالحین کے حکمرانوں میں بہت فرق تھا اسی لیے سلف صالحین نے اپنے دور کے حکمرانوں کی تکفیر نہیں کی لیکن ہمیں کرنی چاہیے۔ ہماری رائے میں یہ تجزیہ بھی تاریخ اور تاریخی حقائق سے چشم پوشی کا نتیجہ ہے۔(١٩)
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
پیش لفظ

کافی عرصہ پہلے فتنہ تکفیر کے موضوع پر ایک مفصل تحریر قلمبند کی تھی۔ اس کاایک حصہ ماہنامہ الاحیاء، اپریل 2011ء کے شمارہ میں شائع ہو چکا ہے۔ یہاں شیخ اسامہ بن لادن کے بارے سوالات کے حوالہ سے اہل فورم کے لیے شیئر کی جا رہی ہے۔ چونکہ یہ تحریر میں نے خود ہی کمپوز کی تھی اور ایڈیٹنگ بھی خود ہی کی تھی لہذا اس میں کمپوزنگ کی غلطیاں رہ جانے کے کافی امکانات ہیں، جن کے لیے معذرت خواہ ہوں۔
یہ تحریر یا کتاب دو حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلے حصہ میں مسئلہ تکفیر کا سلفی علماء کے اقوال کی روشنی میں جائزہ لیا گیا ہے اور دوسرے حصہ میں مسئلہ تکفیر پر کتاب وسنت کی نصوص سے براہ راست استدلال اور سلف صالحین کے فہم کے مطابق بحث کی گئی ہے۔
یہ واضح رہے کہ ماہنامہ الاحیاء میں شائع شدہ مضمون میں چند ایک مقامات پر میں نے تہذیب واصلاح کے بعد اس فورم پر اس مضمون کو شیئر کیا ہے تاکہ اگر کہیں کچھ لہجہ کی سختی محسوس ہوتی تھی تو اس کا ازالہ ہو سکے۔
کتاب کے حواشی یا فٹ نوٹس آخر میں دیے گئے ہیں اور متن میں جہاں جہاں جامنی رنگ میں نمبرز لگائے گئے ہیں تو یہ حواشی یا فٹ نوٹس کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔
جزاکم اللہ خیرا علوی بھائی! بہت بہترین مضمون شیئر کیا ہے آپ نے، اللہ تعالیٰ آپ کے علم وعمل میں اضافہ فرمائیں! تفرقہ بازی، شرک وبدعات کے فتنوں کے علاوہ عصر حاضر کے دو فتنے بہت بڑے ہیں، پہلا: سیکولر ازم، دوسرا: فتنہ تکفیر! جس میں سے دوسرے فتنے کی اصلاح کیلئے آپ کی یہ کاوش انتہائی قابل قدر ہے، اللہ تعالیٰ ہماری اصلاح فرمائیں!
ایک گزارش ہے کہ دیگر یونیکوڈ کتب کی طرح اس کے شروع میں بھی اگر ایک پوسٹ میں تفصیلی فہرست لنک کے ساتھ آجائے تو استفادہ مزید آسان ہوجائے گا، ان شاء اللہ!
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top