• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

توحید حاکمیت کی حقیقت علمائے سلف کے نظر میں!

شمولیت
نومبر 23، 2011
پیغامات
493
ری ایکشن اسکور
2,479
پوائنٹ
26
کاوش
ڈاکٹر عبداللہ سلفی​

بسم اللہ الرحمن الرحیم​

سوال:​
کچھ داعیان نے توحید کی تین معروف اقسام کے ساتھ ساتھ توحید حاکمیت کو بہت زیادہ اہمیت دینی شروع کردی ہے۔ تو کیا یہ چوتھی قسم ان تین اقسام میں داخل ہے؟ اگر نہیں ہے تو کیا ہم اسے ایک الگ قسم قرار دے کر اس کا خصوصی اہتمام کریں؟
اور یہ بھی کا جاتا ہے شیخ محمد بن عبد الوہاب (رحمتہ اللہ علیہ) نے توحید الوہیت کو اس لئے ذیادہ اہمیت دی جب انہوں نے مشاہدہ کیا کہ لوگ اس باب میں غفلت بر رہے ہیں اور اسی طرح امام احمد بن حنبل (رحمتہ اللہ علیہ) نے توحید اسماء صفات پر اس لئے خصوصی توجہ دی جب انہوں نے دیکھا کہ لوگ اس باب میں غفلت برت رہے ہیں۔ اب چونکہ فی زمانہ لوگ توحید حاکمیت میں غفلت کا شکار ہیں تو ہم پر لازم ہے کہ ہم اس پر زیادہ توجہ مرکوز رکھیں، سوال یہ ہے کہ کہاں تک یہ بات درست ہے؟

جواب:​
توحید کی تین اقسام ہیں: توحید ربوببیت، توحید الوہیت اور توحید اسماء وصفات اور کوئی چوتھی قسم نہیں۔ اور اللہ تعالی کی شریعت کے مطابق فیصلہ کرنا توحید الوہیت کے ضمن میں آتا ہے کیونکہ یہ تو اللہ تعالی کے لئے اداکی جانے والی عبادات کی اقسام میں سے ایک قسم ہے اور ہر قسم کی عبادت توحید الوہیت کے تحت آتی ہیں۔ پس"حاکمیت" کو توحید کی ایک علیحدہ قسم قرار دینا ایک بدعت ہے جو ہمارے علم کے مطابق کسی بھی عالم کا قول نہیں۔ہاں البتہ بعض نے اسے عام رکھا اور کہا کہ توحید کی دو قسمیں ہیں:
۱۔ توحید معرفت و اثبات ، اور یہ توحید ربوبیت اور اسماء وصفات پر مشتمل ہے۔
۲۔ توحید طلب و قصد، اور یہ توحید الوہیت ہے۔
اور کچھ نے اسے مزید مخصوص کرتے ہوئے تین اقسام کیں جیسا کہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں، واللہ اعلم۔
چنانچہ یہ واجب ہے کہ ہم مکمل توحید الوہیت پر توجہ دیں اور اس کی ابتداء شرک کا رد کرنے سے کریں کیونکہ یہ اکبر الکبائر ہے جس کی موجودگی میں تمام نیک اعمال ضائع ہو جاتے ہیں، اور اس کا مرتکب دائمی جہنمی ہے۔ تمام انبیاء کرام (علیہم السلام) نے اپنی دعوت کا آغاز ایک اللہ کی عبادت کا حکم دینے اور ہر قسم کے شرک کی نفی سے کیا، اور اللہ تعالی نے ہمیں انہی کے راستے کی پیروی کرنے اور دعوت دین ہو یا دیگر دینی امور ہمیں انہی کے منہج کی اتباع کا حکم دیا گیاہے۔ پس توحید پر اس کی تینوں اقسام سمیت توجہ دینا پر دور میں واجب ہے کیونکہ شرک اور اللہ تعالی کے اسماء وصفات کا انکار وتأویل آج بھی موجود ہے، بلکہ یہ تو پہلے سے زیادہ عام ہوچکے ہیں اور قرب قیامت تک ان کے خطرات میں اضافہ ہی ہوتا جائےگا، جبکہ حقیقت حال یہ ہے کہ ان دونوں امور کی یہ اہمیت وسنگینی بہت سے مسلمانوں پر مخفی ہے، اور ان دونوں کی طرف دعوت دینے والے بھی بہت بڑی تعداد میں ہیں اور بہت سرگرم ہیں، لہذا شرک کا وجود صرف شیخ محمد بن عبد الوہاب (رحمتہ اللہ علیہ)کے دور تک محدود نہ تھا اور نہ ہی اللہ تعالی کے اسماء وصفات کا انکار تأویل امام احمد بن حنبل(رحمتہ اللہ علیہ) کے دور تک محدود تھی، جیسا کہ سوال میں کہا گیا۔ بلکہ اس دور میں تو اس کے خطرات دوچند ہوگئے ہیں اور یہ پہلے سے زیادہ مسلم معاشروں میں پھل پھول رہے ہیں۔ اسی لئے انہیں ایسے لوگوں کی سخت ضرورت ہے جو انہیں اس میں ملوث ہونے سے روکیں اور اس کے مضرات سے انہیں آگاہ کریں۔ آخر میں یہ جاننا چاہیے کہ اللہ تعالی کے احکامات کی پابندی کرنا اور اس کی منع کردہ چیزوں سے اجتناب کرنا اور اس کی شریعت کو نافذ کرکے اس کے مطابق فیصلے کرنا یہ سب توحید کو اپنانے اور شرک سے پاک رہنے ہی میں شامل ہے۔
۔سماحتہ الشیخ عبد العزیز بن باز، والشیخ عبد العزیز بن عبد اللہ آل الشیخ، والشیخ صالح بن فوزان الفوزان ، والشیخ عبد اللہ بن عبد الرحمن الغدیان، والشیخ بکر بن عبد اللہ أبوزید۔
[المسلمون رقم: ۲۳¬¬¬۹،جمعہ ۲۵ ذوالحج ۱۴۱۷ھ بمطابق ۲ مئی ۱۹۹۷ ع]

علامہ شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمۃ اللہ علیہ

جریدہ المسلمون رقم ٦٣٩ میں شیخ توحید حاکمیت سے متعلق سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:
"جو کوئی بھی اس بات کا مدعی ہے کہ توحید کی ایک چوتھی قسم ہے جسے توحید حاکمیت کہتے ہیں تو اسے مبتدع (بدعتی) کہا جائےگا۔ یہ ایک بدعتیانہ تقسیم ہے جو ایک ایسے شخص سے صادر ہوئی ہے جسے دین عقیدے کے معاملات کا کوئی فہم حاصل نہیں۔ کیونکہ "حاکمیت" تو توحید ربوبیت کے تحت آتی ہے اس اعتبار سے کہ اللہ تعالی جو چاہتا ہے فیصلہ صادر فرماتا ہے۔اور یہ توحید الوہیت میں بھی اس طور پر شامل ہے کہ بندے کو اللہ تعالی کی نازل کی ہوئی شریعت کے مطابق ہی اس کی عبادت کرنی چاہیے۔ پس یہ توحید کی تین معروف اقسام سے خارج نہیں ہوسکتی یعنی توحید ربوبیت، توحید الوہیت اور توحید اسماء وصفات۔"

سوال:​
اس شخص کے بارے میں آپ کیا کہیں گے جو توحید کی ایک چوتھی قسم بنام "توحید حاکمیت" کرتا ہے؟
جواب:​
"ہم کہیں گے کہ وہ جاہل اور گمراہ ہے کیونکہ توحید حاکمیت تو توحید الہی ہی ہے۔ کیونکہ حاکم تو اللہ تعالی ہی ہے اور جب آپ کہتے ہیں کہ توحید کی تین اقسام ہیں جیسا کہ علماء کرام کہتے ہیں تو اس وقت بھی توحید حاکمیت توحید ربوبیت میں داخل ہوتی ہے کیونکہ توحید ربوبیت اللہ تعالی کی حکم، خلق اور تدبیر میں توحید ہی تو ہے لہذا یہ قول منکر وبدعت ہے۔"
پھر جب شیخ سے پوچھا گیا کہ ہم ان کے اس دعوی کا توڑ کس طرح کریں؟ تو آپ نے فرمایا:
"ہم ان کی اس بات کا توڑ ان سے یہ پوچھ کر کرسکتے ہیں کہ: حاکمیت کا معنی کیا ہے؟ ان کا جواب اس کے سوا اور کچھ نہ ہوگا کہ حکم اور فرمانروائی کا حق صرف اللہ تعالی کو حاصل ہے اور یہ تو توحید ربوبیت ہوئی، پس اللہ تعالی ہی رب ہے، خالق ہے، حاکم اعلی ہے اور جس کے ہاتھ میں تمام کاموں کی تدبیر ہے۔ اب رہی بات کہ ان (چوتھی قسم بنانےوالوں) کا اسے بیان کرنے سے مقصد کیا ہے اوران کے اس پرخطر نظریہ کی کیا توضیح ہے، تو (درحقیقت) ہمیں ان کی نیتوں اور خواہشات کا علم نہیں لہذا ہم اس معاملہ کی سنگینی کا اندازہ نہیں کرسکتے۔"
(المسلمون رقم: ٦٣٩، جمعہ ٢٥ ذوالحج ١٤١٧ھ بمطابق ٢ مئی ١٩٩٧ع ، اور لقاء المفتوح رقم ١٥٠ منعقدہ ٢٠ شوال، ١٤١٧ھ)


علامہ شیخ محمد ناصرالدین البانی (رحمۃ اللہ علیہ)​

شیخ ناصرالدین البانی (رحمۃ اللہ علیہ) سے پوچھا گیا کہ فضیلۃ الشیخ (بارک اللہ فیک) علماء سلف (رحمہم اللہ) نے توحید کی تین اقسام بیان کی ہیں: توحید ربوبیت، توحید الوہیت اور توحید اسماء وصفات، تو کیا یہ ہمارے لئے جائز ہے کہ ہم توحید کی ایک چوتھی قسم "توحید حاکمیت" یا "توحید فی الحکم" کے نام بیان کریں؟
شیخ (رحمۃ اللہ علیہ) نے جواب ارشاد فرمایا:
(اے سائل) خوش ہوجاؤ! کیونکہ (میرا جواب یہ ہے کہ) یہ صحیح نہیں۔ اگرچہ یہ صحیح نہیں (کہنا کافی ہی کیوں نہ ہو) لیکن جواب اس طرح سے نہیں دیا جاتا۔ (لہذا اس کی قدرے تفصیل مندرجہ ذیل ہے)
بلکہ حاکمیت تو توحید الوہیت کی ہی شاخوں میں سے ایک شاخ ہے اور موجودہ دور میں وہ لوگ جو اپنی توجہ اس چوتھی نئی بدعتیانہ تقسیم پر مرکوز رکھتے ہیں وہ اسے بطور ایک سیاسی ہتھیار کے استعمال کرتے ہیں نہ کہ لوگوں کو وہ توحید سکھانے کے لئےکہ جسے لے کر تمام انبیاء ومرسلین آئے تھے۔ سو اگر آپ چاہیں تو میں نے جو کچھ ابھی کہا ہے میں اسے ثابت کرنے کے لئےتیار ہوں (اگرچہ یہ سوال کئی مرتبہ پیش کیا جاچکا ہے اور اس کا جواب بھی دیا جاچکا ہے) اور اگر آپ چاہیں تو ہم اپنے اسی موضوع کو جاری رکھیں۔
میں اس قسم کی صورتحال میں (جو کچھ میں نے ابھی بیان کیا ہے اس کی دلیل کے طور پر) ہمیشہ یہ کہا کرتا ہوں کہ لفظ "الحاکمیۃ" موجودہ دور کی کچھ جماعتوں کی مخصوص سیاسی دعوت کا حصہ ہے۔ اور میں یہاں ایک واقعہ بیان کروں گا جو خود میرے اور ایک صاحب جو دمشق کی کسی مسجد میں خطبہ ارشاد فرمارہے تھےکے مابین پیش آیا۔ الغرض اس خطیب کا سارا خطبۂ جمعہ اس بات پر تھا کہ حاکمیت اور قانون صرف اللہ تعالی کے لئےہی ہونا چاہیے مگر اس شخص نے فقہی معاملے میں ایک غلطی کا ارتکاب کیا۔ چناچہ جب وہ نماز سے فارغ ہوا تو میں ا سکے پاس گیا اور سلام عرض کرکے کہا کہ: "میرے بھائی آپ نے فلاں فلاں کام کیا ہے جو مخالفِ سنت ہے۔" تو اس نے جواب دیا کہ: "دراصل میں ایک حنفی ہوں اور حنفی مذہب میں وہی ہے جو میں نے کیا ہے۔" تو میں نے کہا: "سبحان اللہ! ابھی تو آپ نے خطبہ ارشاد فرمایا کہ حکم اور فیصلہ صرف اللہ تعالی کا ہی چلے گا لیکن آپ نے اس لفظ کو محض ان حکمرانوں پر حملہ کرنے کے لئے استعمال کیا جو بزعم آپ کے کافر ہیں کیونکہ وہ اسلامی شریعت کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے۔ اور آپ اپنی ذات کے متعلق بھول گئے کہ اللہ تعالی کے حکم کا تو ہرمسلمان پابند ہے۔ اگر ایسا نہیں تو کیوں جب میں نے آپ سے کہا کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسا ایسا کیا تھا توآپ نے جواب دیا کہ میرا مذہب فلاں ہے۔ اس صورت میں تو آپ خود اس چیز کی مخالفت کررہے ہیں جس کی طرف آپ لوگوں کو دعوت دیتے ہیں۔"
پس اگر یہ حقیقت نہ ہو کہ وہ اس دعوت کو محض اپنے سیاسی پروپیگنڈہ کے لئے استعمال کررہے ہیں تو ہم خود یہ کہیں گے: "ھذہ بضاعتنا ردت إلینا" (یہ تو ہماری ہی چیز تھی جو ہماری طرف لوٹا دی گئی)
سو ہم توحید الوہیت یا توحید عبادت کی جس دعوت کی طرف لوگوں کو بلاتے ہیں اس میں تو حاکمیت ہی نہیں (جس پر آپ نے تمام تر توجہ مرکوز کی ہوئی ہے) بلکہ اس کے علاوہ بھی دیگر عقائد واعمال شامل ہیں۔ جس چیز پر آپ توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں اس کی دعوت تو (درحقیقت) ہم دیتے ہیں۔ حدیث حذیفہ بن یمان (رضی اللہ عنہ) میں ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت تلاوت فرمائی:
"﴿ اتَّخَذُواْ أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللّهِ ﴾ (التوبة: ٣١)
﴿انہوں نے اپنے احبار (علماء) اور رہبان (درویشوں) کو اللہ کے سوا رب بنالیا﴾
اس پر عدی بن حاتم (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا: ہم نے تو انہیں اللہ کے سوا اپنا رب نہیں بنایا تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جواب دیا کہ کیا وہ جس حلال چیز کو تم پر حرام کردیتے تو کیا تم اسے حرام قرار نہیں دیتے تھے، اور اگر کسی حرام چیز کو تم پر حلال کردیتے تو کیا تم اسے حلال نہیں بنالیتے تھے؟ عدی بن حاتم (رضی اللہ عنہ) نے کہا: ہاں! جہاں تک اس کی بات ہے تو ایسا تو کیا کرتے تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: یہی توتمہارا انہیں رب بنانا ہے۔"
سو ہم ہی ہیں وہ جو اس حدیث کو بیان کرتے ہیں اور لوگوں میں پھیلاتے ہیں۔ لہذا انہوں نے توحید الوہیت یا عبادت کے صرف ایک حصے کو ایک بدعتیانہ عنوان دے کر محض سیاسی مقاصد کے خاطر ہی مقدم رکھا۔
چناچہ میں اس قسم کی اصطلاح استعمال کرنے میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتا اگر صرف اسے بنا عمل کے پروپگینڈہ نہ بنایا جائے۔ پس جیسا کہ میں نشاندہی کرچکا ہوں کہ یہ توحید عبادت میں داخل ہے لیکن آپ ان لوگوں کو پائیں گے کہ یہ لوگ ہر اس طریقے سے اللہ تعالی کی عبادت کرتے ہیں جو انہیں بھلا لگتا ہے، اور جب ان سے کہا جاتا ہے (جیسا کہ میں نے ایک خطیب کا واقعہ سنایا) کہ کوئی سنت کے خلاف عمل کررہا ہے یا کوئی چیز نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان کے خلاف ہے تو وہ کہتا ہے: میرا مذہب فلانی ہے۔
حکم صرف اللہ سبحانہ و تعالی کا ہی ہونا چاہیے یہ محض کفار و مشرکین کے ہی لئے نہیں بلکہ ہر اس شخص کے خلاف حجت ہے جو اللہ تعالی کی مخالفت اس کی کتاب میں نازل شدہ احکام اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت کی نافرمانی کرکے کرے۔ اس قسم کے سوالات کے بارے میں میرا یہی جواب ہے۔"
(المسلمون رقم: ٦٣٩، جمعہ ٢٥ ذوالحج ١٤١٧ھ بمطابق ٢ مئی ١٩٩٧ع)


علامہ شیخ صالح بن فوزان الفوزان (حفظہ اللہ)

’’دروس من القرآن الکریم" میں باب باندھتے ہیں کہ "توحید کی تقسیم میں خطاء‘‘
معاصرین میں کچھ ایسے ہیں جو توحید کو چار اقسام میں تقسیم کرتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ توحید کی چار اقسام ہیں: ١- توحید ربوبیت، ٢- توحید الوہیت، ٣- توحید اسماء وصفات اور ٤- توحید حاکمیت۔ اور اس کی توجیہ یہ بیان کرتے ہیں کہ یہ توحید کی جو اقسام ہیں ایک اصطلاحی (علماء کا آسانی کی خاطر بنایا ہوا) مسئلہ ہے توقیفی (شرعی نصوص میں وارد) تو نہیں لہذا اس کی تین سے ذیادہ اقسام کردینے میں کوئی مانع نہیں۔
تو ایسوں کو کہاجائیگا کہ: یہ تقسیم اصطلاحی مسئلہ نہیں ہے بلکہ اس تقسیم کا مرجع تو کتاب وسنت ہی ہے۔ جب سلف نے توحید کی تین اقسام کیں تھی تو انہوں نے قرآن وسنت ہی میں تتبع و استقراء اور غوروفکر کیا تھا۔
جہاں تک معاملہ ہے حاکمیت الہی کا تو یہ حق ہے۔ واجب ہے کہ فیصلے اللہ تعالی کی شریعت کے مطابق کئےجائیں لیکن یہ تو توحید عبادت (الوہیت) میں داخل ہے کیونکہ یہ اللہ تعالی کی اطاعت ہے۔ اور سلف نے توحید حاکمیت سے غفلت نہیں برتی کہ کوئی بعد میں آئے اور اس قسم کا اضافہ کردے، بلکہ ان کے نزدیک تو یہ توحید عبادت یعنی توحید الوہیت میں داخل تھی۔ کیونکہ اللہ تعالی کی عبادت میں سے یہ بھی ہے کہ اس کی شریعت کے مطابق فیصلوں کے ذریعہ اطاعت کی جائے، اور اسے کوئی علیحدہ سے قسم نہ بنایا جائے۔ کیونکہ اس سے یہ لازم آیگاکہ آپ نماز کو بھی توحید کی اقسام میں سے ایک قسم بنا دیں، اسی طرح زکوۃ، روزہ اور حج کو بھی ایک ایک قسم بنا دیں، یہاں تک کہ تمام انواع عبادت کو توحید کی اقسام بنا دیں، اس طرح توحید کی اتنی لامتناہی اقسام بن جائیں گی! اور یہ غلط ہے۔ جبکہ صحیح یہ ہے کہ تمام انواع عبادت توحید کی ایک ہی قسم کے تحت آجاتی ہیں اور وہ ہے توحید الوہیت، کیونکہ یہ ان سب کو اپنے اندر سموئےہوئےہے جس میں کسی دوسری قسم کے شامل ہونے کی کوئی گنجائش نہیں۔اور ان میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو ان چار اقسام میں ایک پانچویں قسم کا بھی اضافہ کرتے ہیں اور اسے اتباعِ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام دیتے ہیں جبکہ یہ غلط ہے۔ اتباعِ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو ایسا حق ہے جس کے سوا کوئی چارہ نہیں لیکن یہ اتباعِ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) توحید کے لوازم میں سے ہے، یہی وجہ ہے کہ کلمہ شہادت لا الہ الا اللہ کی صحت کا اعتبار نہیں جب تک اس کے ساتھ محمد رسول اللہ کی شہادت نہ ہو۔
اور اللہ تعالی کی توحید کی شہادت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کی شہادت کو مستلزم ہے، چناچہ یہ لوازم توحید میں سے ہے نہ کہ توحید کی ایک مستقل قسم۔ اور توحید کی مخالفت کرنے والے کو مشرک یا کافر کہا جاتا ہے جبکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اتباع کی مخالفت کرنے والے کو بدعتی کہا جاتا ہے۔

یہ دو انتہاؤں کو پہنچے ہوئےمخالفین اہل سنت کے کچھ اقوال ہیں۔
ایک انتہا پسند یامفرط تو وہ ہے جو تین اقسام سے ذیادہ توحید کی اقسام کرتا ہے (جیسے توحید حاکمیت)۔
دوسرا انتہا پسند یا مفرط وہ ہے جو صرف ایک قسم (توحید ربوبیت) پر اکتفا کرتا ہے اور باقی اقسام (الوہیت، اسماء وصفات) سے لاپرواہی برتتا ہے، بلکہ ان میں سے جو سب سے اہم ہے اسی سے لاپرواہی برتتا ہے، جو کہ اصل مطلوب ہے یعنی توحید الوہیت۔"
" دروس من القرآن الکریم"، ص: (10)

سوال:​
فضیلۃ الشیخ بعض ایسے لوگ ہیں جو توحید کی ایک چوتھی قسم بناتے ہیں اور اسے توحید حاکمیت کا نام دیتے ہیں؟
الشیخ:​
یہ بالکل غلط ہے اور گمراہی ہے ، اور اہل علم کے یہاں جو بات مقرر ہے کہ توحید کی دو یا تین اقسام ہیں اس پرخوامخواہ کا ایک اضافہ ہے۔ چناچہ ان میں ایک فریق کہتا ہے کہ توحید کی ایک ہی قسم ہے اور دوسرا کہتا نہیں بلکہ توحید کی چار اقسام ہے جبکہ حقیقت میں یہ سب گمراہی ہے

سوال:​
شیخ وہ یہ حجت پیش کرتے ہیں کہ اس تقسیم کی جو اصل ہے ...
الشیخ:​
وہ اسے توحید حاکمیت کے نام سے کیوں ایک مستقل قسم بناتے ہیں اور کیوں نہیں اسے توحید الوہیت میں داخل سمجھتے؟ جبکہ بلاشبہ یہ توحید الوہیت ہی میں شامل ہے۔ کیونکہ یہ تو عبادات کی ہی ایک قسم ہے اورانہیں کی انواع میں سے ایک نوع ہے جن کے ذریعہ اللہ تعالی کی عبادت کی جاتی ہے۔

سوال :​
شیخ وہ کہتے ہیں کہ توحید کی یہ تین اقسام ربوبیت، الوہیت اور اسماء وصفات علماء کے اجتہادات اور تتبع و استقراء کی نتیجہ میں وجود پذیر ہوئیں ہیں (لہذا اس میں کمی و ذیادتی کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں)؟
الشیخ:​
صحیح ہے، بس ہمیں ان کا اجتہاد ہی کافی ہے اور جس پر ان کا اجماع ہوگیا ہے تو ہمیں بھی اس پر اضافہ کرنے کی کوئی حاجت نہیں۔ (ایک طرف تو) ان کا اجماع ہوگیا ہے پھر اس بیسویں صدی میں کوئی جاہل آئےاور دعوی کرے کہ میں بھی مجتہد ہوں اور اس تقسیم میں اضافہ کرےجس پر علماء کرام کا اجماع ہوچکا ہے، یہ سب گمراہی کے سوا اور کچھ نہیں۔

سوال:​
اس بیان کردہ علت کے بارے میں کیا کہیں گے؟
الشیخ :​
مزید برآں یہ ایک وا‏ضح غلطی ہےکیونکہ حاکمیت جو ہے وہ توحید الوہیت میں داخل ہے، کس نے اسے ایک مستقل قسم قرار دیا ہے؟ پھر اسے چاہیے کہ نماز کو بھی پانچویں یا چھٹی قسم بنالے،
اسی طرح جہاد کو ساتویں قسم بنادےاور ہر عبادت کو توحید کی اقسام بنانا شروع کردے، یہ سب کچھ غلط ہے۔

سوال:​
تو کیا ہم اس قول کو بدعت کہیں گے؟
الشیخ:​
بالکل یہ تو اجماع کے خلاف ہے، کسی بھی اہل علم نے ایسا نہیں کہا چناچہ یہ اجماع کے خلاف ہوا

سوال:​
فضیلۃ الشیخ (وفقکم اللہ) اس شخص کے بارے میں کیا حکم ہے جو کہتا ہے کہ: "لا الہ الا اللہ" (اللہ تعالی کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں) کا معنی ہے: "لا حاکم الا اللہ" (اللہ تعالی کے سوا کوئی حاکم اعلی نہیں)؟
الشیخ:​
"ما شاء اللہ! اس نے تو ایک جزء ہی لیا ہے، بہت ہی مختصر حصہ "لا الہ الا اللہ" کے معنی سے، اور اس کی اصل کو چھوڑ دیا ہے جو کہ توحید اور عبادت ہے، "لا الہ الا اللہ" کا معنی ہے (اللہ تعالی کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں)۔
اور اس میں شرک کی نفی ہے اور توحید کا اثبات، جبکہ حاکمیت تو "لا الہ الا اللہ" کے معنی میں سے صرف ایک جزء ہے، لیکن اصل تو توحید ہے، کلمۂ طیبہ "لا الہ الا اللہ" میں اصل تو توحید ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿ وَمَا أُمِرُواْ إِلاَّ لِيَعْبُدُواْ إِلَـهًا وَاحِدًا ﴾ (التوبة: ٣١31)
﴿اور انہیں تو حکم دیا ہی نہیں گیا تھا مگر صرف اس بات کا کہ ایک معبود (اللہ) کی عبادت کرو﴾
﴿ وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّه َمُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ ﴾ (البينة: 5)
﴿اور انہیں تو حکم دیا ہی نہیں گیا تھا مگر اخلاص کے ساتھ صرف اللہ تعالی کی عبادت کرنے کا﴾
﴿ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ ﴾ (اذاريات: 56)
﴿اور میں نے جنوں اور انسانوں کو محض اپنی عبادت کے لئے ہی پیدا کیا ہے﴾
لیکن یہ دراصل ایک فتنہ ہے کیونکہ جو لوگ اس قسم کی بات کرتے ہیں،
یا تو وہ جاہل ہیں جوکلام اللہ اور کلام رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بلا علم تفسیر کررہے ہیں جبکہ یہ تو عام دنیاوی تعلیم و ثقافت سے متاثر لوگ ہیں جنہیں یہ "مفکرین"قرار دیتے ہیں۔ لیکن ان کے پاس اللہ کے دین کا فہم وفقہ نہیں ہوتا اور اللہ کے دین میں عدم فقہ ایک آفت ہے، کسی کے لئےبھی یہ جائز نہیں کہ جب اس کے پاس دین کا فقہ و علم نہ ہو تو وہ کلام اللہ اور کلام رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تفسیر میں زورآزمائی کرے۔ یہ کافی نہیں کہ وہ دنیاوی تعلیم وثقافت آشنا ہو اور وہ میگزین و اخبارات پڑھ پڑھ کر احوال عالم سے اور لوگوں کے حالات حاضرہ سے واقف ہو، ایسے شخص کو عالم نہیں کہتے۔ بلکہ یہ تو مثقف (ثقافت شناس) ہے۔ تفسیر کلام اللہ و کلام رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں سوائےعلماء کرام کے کسی کو دخل اندازی کرنا جائز نہیں، جو اہل علم و اہل فقہ ہیں۔
فضیلۃ الشیخ کی آفیشل ویب سائٹ موقع معالي الشيخ صالح بن فوزان الفوزان سے لئے گئے۔


شیخ صفی الرحمن مبارکپوری (رحمۃ اللہ علیہ) م ١٤٢٧ھ​
(برصغیر کے مشہور اہل حدیث عالم دین اور سیرت نبوی پر لکھی گئی شہرۂ آفاق کتاب "الرحیق المختوم" کے مصنف)
"مودودی صاحب کا ایک نظریہ جس پر وہ بڑی پُختگی کے ساتھہ جمے اور حقیقت یہ ہے کے اسی نظریہ کی بنیاد پر انہوں نے اپنی ایک الگ جماعت کی بنیاد رکھی اور اس نظریہ کو اتنی قوت سے پیش کیا کے بڑے بڑے علماء ان سے متاثر ہوگئے اور انہوں نے بھی اسکو قبول کر لیا۔ اگرچہ ان کی جماعت میں داخل نہیں ہوئے مگر متاثر ہوئے اور اسکو قبول کیا۔ میرے سامنے وہ چیز آئی تو میں بھی کچھہ دنوں تک الجھا رہا لیکن اسکے بعد اللہ تعالٰی نے اس مسئلے کو ایسا صاف کھول دیا کہ کسی قسم کا شک و شبہہ باقی نہیں رہا اور ابھی میں آپ کے سامنے پیش کروں گا تو آپ کو بھی ان شاءاللہ کوئی شک و شبہہ باقی نہیں رہے گا، اتنا صاف اللہ تعالٰی نے اس کو کھول دیا۔
مولانا کا نظریہ یہ تھا کہ کسی کی مستقل اطاعت کی جائے تو یہی اس کی عبادت ہے۔ مسلمان اللہ تعالٰی کی مستقل اطاعت کرتا ہے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت اس لئے کرتا ہے کہ اللہ تعالٰی نے ان کی اطاعت کا حکم دیا ہے۔ گویا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت جو ہے وہ اللہ تعالٰی کی اطاعت کی ماتحتی میں ہے لہذا آپ کی جب اطاعت کی جائے گی تو اللہ تعالٰی کی اطاعت ہو گی اور یہ عبادت اللہ کی عبادت بنے گی۔ اب وہاں سے انہوں نے ایک دوسرا مسئلہ نکالا کہ اگر کوئی حکومت اللہ تعالٰی کے قانون کی بالا دستی کے بغیر حکومت کر رہی ہو تو اس حکومت کی اطاعت کرنا، یہ اس کی عبادت کرنا ہے اور یہ شرک ہے اور یہیں سے شرک فی الحاکمیت کا نظریہ انہوں نے لیا اور اس کو بڑی قوت کے ساتھہ پیش کیا اور آج تک اس میں بہت سارے لوگ مشغول ہیں۔ اب میں اس کی حقیقت آپ کے سامنے (پیش کرتا ہوں) یعنی سو، دو سو، چار سو، چھہ سو اور کہیں کہیں آٹھہ سو صفحات تک کی کتابیں جو ہیں اس مسئلہ پر لوگوں نے لکھہ ماری ہیں۔ مسئلہ اس قدر الجھا دیا ہے اور اتنی لمبی لمبی بحث کہ اندازہ کرنا مشکل ہو جائے گا، اس لئے میں آپ کے سامنے چند لفظوں مین بہت دو ٹوک طریقے سے اس معاملے کو پیش کرتا ہوں۔
اطاعت عبادت ہے؟ یا عبادت کچھہ اور چیز ہے اور اطاعت کچھہ اور چیز ہے؟ اسکو آپ سمجھئے! اسکو سمجھنے کے لئے میں آپ کے سامنے ایک یا دو مثالیں پیش کرتا ہوں۔ میرے سامنے ایک نو جوان آیا جما عت اسلامی کا، باتیں کرنے لگا۔ میں بھی ان سے بات کر رہا تھا۔ اب وہ آیا اپنی دعوت کی طرف کہ صاحب ہماری یہ دعوت ہے، میں نے کہا ہاں میں جانتا ہوں۔ وہ چاہتا تھا کہ میں بھی اسکو قبول کر لوں۔ تو میں نے بولا دیکھو تمہاری یہ دعوت جو ہے صحیح نہیں ہے۔ کہا کیسے صحیح نہیں ہے؟ میں نے کہا کہ اگر یہ بیان تمہارا صحیح ہے کہ کوئی شخص کسی حکومت کی اطاعت کرے اور وہ حکومت اللہ کے قانون کی بالا دستی کے تحت نہ چل رہی ہو تو یہ اطاعت عبادت ہو جائے گی، اگر یہ بات صحیح ہے تو مہر بانی کر کے باہر چلے جاؤ اور کسی مسلمان کو دیکھو کہ وہ سڑک پر با ئیں کنارے سے (ہندوستان میں ہر چیز بائیں کنارے سے چلتی ہے سڑک پر) تو اگر وہ سڑک پر بائیں کنارے سے سائیکل چلا رہا ہو تو اسے کہو کہ بھائی تم ادھر سائیکل مت چلاؤ، اس کنارے میں سائیکل چلانا شرک ہے۔
اب وہ بڑے زور سے بلبلایا کہا کہ مولانا یہ کیا کہہ رہے ہیں؟ میں نے کہا میں وہی بات کر رہا ہوں جو تم نے کہی ہے۔ جو بات تم نے کہی ہے میں اسکا نتیجہ بتا رہا ہوں۔ کہا کیسے؟ میں نے کہا یہ حکومت ہندوستان جو ہے اس کی جو حکومت ہے وہ اللہ کے قانون کی بالا دستی کے بغیر ہے یا اللہ کے قانون کی بالا دستی کے تحت ہے؟ کہا کہ نہیں، اللہ کہ قانون کو تسلیم کیے بغیر حکومت کر رہی ہے۔ تو میں نے کہا اس کے جو قوانین ہونگے ان کی اطاعت کرنا شرک ہوگا یا نہیں ہوگا؟ کہا ہوگا۔ تو میں نے کہا اسی کے قانون کا ایک حصہ ہے کہ سائیکل سڑک کے بائیں کنارے چلائی جائیں۔ لہذا اگر کوئی بائیں کنارے سے سائیکل چلاتا ہے اس حکومت کی اطاعت کرتا ہے اور اسی اطاعت کو آپ عبادت کہتے ہیں۔ اور غیر اللہ کی عبادت کو شرک مانتے ہیں لہذا یہ شرک ہوا۔ اب وہ ایک دم پریشان ہو گیا۔ اس نے کہا کہ صاحب آپ ہی بتائیے کے پھر صحیح کیا ہے اور کیا نہیں ہے۔ میں نے کہا کہ دیکھو اطاعت دوسری چیز ہے اور عبادت دوسری چیز ہے۔
ایسا ہو سکتا ہے کہ کبھی ایک ہی عمل اطاعت بھی ہو اور عبادت بھی ہو لیکن ایسا بھی ہو سکتا ہے ایک عمل اطاعت ہو عبادت نہ ہو۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے ایک عمل عبادت ہو اور اطاعت نہ ہو، یہ سب کچھہ ممکن ہے۔ کہا کیسے ہے؟ میں نے کہا آپ سنیں میں بتاتا ہوں۔ ابراہیم (علیہ السلام) اپنی قوم کے پاس آئے انہوں نے پوچھا کہ ﴿ مَا تَعْبُدُونَ ﴾، (تم لوگ کس چیز کی عبادت کرتے ہو؟) قوم نے کہا ( قَالُوا نَعْبُدُ أَصْنَامًا فَنَظَلُّ لَهَا عَاكِفِينَ ) (الشعراء: ٧٠-٧١)( کہ ہم بتوں کی عبادت کرتے ہیں اور انکے لیے مجاور بن کر بیٹھہ جاتے ہیں)۔
اب یہ بتائیے کہ ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم جن بتوں کی عبادت کر رہی تھی کیا وہ ان بتوں کی اطاعت بھی کر رہی تھی؟ وہ بت تو اس لائق سرے سے تھے ہی نہیں کہ کسی بات کا حکم دے سکیں یا کسی بات سے روک سکیں۔ تو یہ قوم جو عبادت کر رہی تھی وہ عبادت تو ہوئی لیکن اطاعت نہیں ہوگی یہاں پر۔ ماننا پڑے گا کہ ہاں بات ٹھیک ہے کہ وہ لوگ اطاعت تو نہیں کر رہے تھے مگر عبادت کر رہے تھے۔ مانا کہ اچھا اور آگے آؤ ذرا سا۔
عیسائیوں کے متعلق اللہ تعالٰی نے قرآن مجید میں کئی جگہ تبصرہ کیا ہے۔ قیامت کے روز پوچھے گا اللہ تعالٰی عیسٰی (علیہ السلام) سے کہ ﴿ أَأَنتَ قُلتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَـهَيْنِ ﴾ (المائدة: ١١٦) اے عیسٰی (کیا تم نے یہ کہا تھا کہ لوگوں مجھہ کو اور میری ماں کو معبود بنا لو؟) تو عیسٰی (علیہ السلام) فوراً اسکی نفی کریں گے۔ کہیں گے ہم نہیں جانتے۔ جب تک میں زندہ تھا میں انکی دیکھہ بھال کرتا رہا، جب تو نے مجھہ کو اٹھا لیا تو پھر تو انکا نگران تھا میں کچھہ نہیں جانتا کہ انہوں نے کیا کیا۔ اس طرح سے وہ اپنی براءت کریں گے۔ اچھا اسی قرآن میں یہ بتایا گیا ہے عیسائیوں کے تعلق سے اور عیسٰی (علیہ السلام) کی جوعبادت کرتے تھے کہ یہ لوگ ایسے شخص کی عبادت کرتے ہیں جو ان کو نہ نفع دے سکتا ہے نہ نقصان دے سکتا ہے۔ تو معلوم ہوا کہ وہ عیسٰی (علیہ السلام) کی عبادت کرتے تھے اور عیسٰی (علیہ السلام) نفع نقصان نہیں دے سکتے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ عیسٰی (علیہ السلام) کی عبادت جو وہ کر رہے تھے تو کیا انکی اطاعت بھی کر رہے تھے؟ میں نے ان سے پوچھا: عبادت تو ثابت ہوئی، قرآن نے بھی انکے اس عمل کو عبادت ہی کہا ہے، تو کیا عیسائی جو انکی عبادت کرتے ہیں یا کر رہے تھے تو انکی اطاعت بھی کر رہے تھے؟ اطاعت تو نہیں کر رہے تھے۔ عیسٰی (علیہ السلام) نے کبھی حکم نہیں دیا کے میری عبادت کرو، بلکہ اسے منع کیا ہے۔ تو وہ انکی معصیت کر رہے تھے۔ اطاعت کے بجائے نافرمانی کر رہے تھے اور وہ عبادت تھی۔ تو عبادت کے لئے ضروری نہیں ہے کے جسکی عبادت کی جائے اسکی اطاعت بھی کی جائے۔ بغیر اطاعت کے بھی عبادت ہو سکتی ہے اور نافرمانی کے صورت میں بھی عبادت ہو سکتی ہے۔ اسکو عبادت نہیں کہیں گے۔
یہ مسئلہ ہے، بالکل صاف ہو جاتا ہے۔ اب صاف ہونے کے بعد آپکو کیا جاننا چاہئیے؟ کسی کے حکم کو ماننا اور بجا لانا یہ اسکی اطاعت ہے۔ اور کسی کے تقرب کے لئے یعنی اسکی رضا کے لئے اور اسباب سے بالاتر ہو کر کے اسکی رضا کی جو صورت ہوتی ہے اس رضا کے لئے کوئی کام کرنا یہ اسکی عبادت ہے۔ تو وہ لوگ عیسٰی (علیہ السلام) کی رضا کے لئے کام کرتے تھے لہذا یہ ان کے عبادت تھی، اور انکی فرمانبرداری نہیں کرتے تھے لہذا اطاعت نہیں تھی۔ ہم نماز پڑھتے ہیں تو اس سےاللہ تعالٰی کی رضا چاہتے ہیں اور اسکا تقرب چاہتے ہیں، اس معنی میں یہ نماز عبادت ہے۔ اور اللہ نے جو حکم دیا ہے اسکو بجا لا رہے ہیں، اس معنی میں یہ اسکی اطاعت ہے۔ اطاعت دوسرے معنی میں ہے عبادت دوسرے معنی میں ہے۔ نماز ایک کام ہے مگر اس میں دونوں چیزیں جمع ہیں، اطاعت بھی ہے اور عبادت بھی ہے۔
اب مولانا مودودی نے چونکہ یہ نقطہ نکالا تھا کہ کسی کی مستقل اطاعت کرنا ہی عبادت ہے لہذا وہ کہتے تھے کہ بندہ اگر اللہ تعالٰی کی اطاعت میں زندگی گزارتا ہے تو ساری زندگی اسکی عبادت ہو جائےگی۔ تو انکے نقطہ نظر سے تو ظاہری بات ہے یہ عبادت ہو جائے گی۔ لیکن ظاہر بات ہے یہ قرآن کا جو نقطہ نظر ہے اسکے اعتبار سے یہ ساری زندگی یہ عبادت نہیں ہو گی۔ اطاعت البتہ ہو گی، اگر اللہ تعالٰی کا حکم وہ بجا لایا ہے تو ساری زندگی اس نے اطاعت کی ہے، اور یہ کار ثواب ہے اور اسکا اسکو ثواب ملے گا۔ لیکن اسکو عبادت نہیں کہیں گے۔ صحیح معنی یہی ہے
شیخ کی اردو تقریر کے آخر میں موجود سوال وجواب کی نشست سے لیا گیا.

پی ڈی ایف کتابچے کا لنک: توحید حاکمیت کی حقیقت علمائے سلف کے نظر میں!
 
Top