• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تورک کا محل

ابن بشیر الحسینوی

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
1,114
ری ایکشن اسکور
4,478
پوائنٹ
376
نماز اسلام کے بنیادی ارکان میں سے دوسرا اہم رکن ہے، جس کی ادائیگی کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے رسول اﷲe نے ارشاد فرمایا:
’’نماز اس طرح پڑھو، جیسے مجھے پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو۔‘‘ (بخاری: ۱۳۶)
اس لیے نمازی کے ہر قول و فعل کا رسول اﷲe کی تعلیمات کے مطابق ہونا انتہائی ضروری ہے، اس کے مسائل میں سے ایک مسئلہ تشہد میں تورک اور افتراش کا ہے کہ نمازی کس تشہد میں افتراش کرے گا اور کس میں تورک؟
ہم اس کی تفصیل قارئینِ کرام کی خدمت میں پیش کرنا چاہتے ہیں۔
تورک کی ایک صورت تو یوں ہے کہ نمازی کا دائیں کولہے کو دائیں پیر پر اس طرح رکھنا کہ وہ کھڑا ہو اور انگلیوں کا رخ قبلہ کی طرف ہو، نیز بائیں کولہے کو زمین پر ٹیکنا اور بائیں پیر کو پھیلا کر دائیں طرف کو نکالنا۔
(القاموس الوحید، ص: ۱۴۸۱)
افتراش کے معنی ہیں کہ نمازی بایاں پاؤں اس طرح بچھائے کہ اس کی چھت زمین پر لگے اور وہ اس پاؤں پر بیٹھ جائے، اپنے دائیں کولہے کے ساتھ دائیں پاؤں کو زمین پر اس طرح گاڑ لے کہ اس کی انگلیوں کا رخ قبلہ کی طرف ہو۔ (روضۃ الطالبین للنووی: ۱/ ۱۶۲)
تشہد میں افتراش اور تورک کے سنت ہونے میں فقہائے کرام کا اختلاف ہے۔
ائمۂ اربعہ کا موقف:
امام ابو حنیفہa (کتاب الحجۃ علی أھل المدینۃ للشیباني: ۱/ ۹۶۲) اور احناف کے ہاں پہلے اور دوسرے یعنی دونوں تشہدوں اور دو سجدوں کے درمیان جلوس میں افتراش ہوگا۔
(المبسوط للشیبانی: ۱/ ۷ و شرح معاني الآثار للطحاوي: ۱/ ۱۶۲)
امام مالکa اور مالکیہ کے ہاں احناف کے برعکس ہر تشہد میں تورک ہوگا۔
(الاستذکار لابن عبد البر: ۴/ ۴۶۲ و المدونۃ الکبری: ۱/ ۲۷)
امام شافعیa (کتاب الأم: ۱/ ۱۰۱ باب الجلوس إذا رفع...) اور شوافع کے موقف کے مطابق دو تشہدوں والی نماز کے پہلے تشہد میں افتراش ہوگا اور دوسرے میں تورک اور ہر سلام والے تشہد میں بھی تورک ہوگا، جیسے نمازِ فجر، نمازِ جمعہ اور نمازِ عیدین وغیرہ ہیں۔
(المجموع شرح المہذب: ۳/ ۰۵۴ و روضۃ الطالبین کلاھما للنووي: ۱/ ۱۶۲)
امام احمدa کے ہاں ہر اس نماز کے دوسرے تشہد میں تورک ہوگا، جس میں دو تشہد ہوں گے، یعنی تین یا چار رکعتوں والی نمازوں (ظہر، عصر، مغرب اور عشاء وغیرہ) میں ہوگا۔ ایک تشہد والی نماز فجر، جمعہ، عیدین، وتر وغیرہ میں افتراش ہوگا۔
(مسائل الإمام أحمد بروایۃ ابنہ عبد اﷲ: ۱/ ۵۶۲، رقم: ۹۷۳ تا ۱۸۳ و مسائل أحمد بروایۃ ابن ھاني: ۱/ ۹۷، مسئلہ: ۹۸۳ و مسائل أحمد بروایۃ أبي داود صاحب السنن، ص: ۴۳ و الأوسط لابن المنذر: ۳/ ۴۰۲)
ائمۂ حنابلہ الخرقی، ابن قدامۃ، مرداویS وغیرہ کا بھی یہی موقف ہے۔
(المغني مع الشرح الکبیر: ۱/ ۸۷۵ والإنصاف: ۲/ ۷۸)
امام شافعی کا استدلال:
احناف کا مطلقاً افتراش اور مالکیہ کا مطلقاً تورک کا موقف تو بہر نوع صحیح احادیث کی رُو سے محلِ نظر ہے، اس لیے اس پر بحث کی ضرورت نہیں۔
امام شافعیa اور امام احمدa کا اس حد تک اتفاق ہے کہ نمازی نماز میں افتراش بھی کرے اور تورک بھی، مگر امام شافعیa کے ہاں تین یا چار رکعتوں والی نماز کے دوسرے تشہد میں تورک کرے، جیسا کہ امام احمدa کا موقف ہے، مگر امام شافعیa اس میں منفرد ہیں کہ ہر سلام والے تشہد میں بھی تورک کرے گا، جیسے نمازِ وتر، فجر اور جمعہ وغیرہ ہیں۔
ان دونوں ائمہ کا استدلال حضرت ابو حمید الساعدیt کی حدیث سے ہے، امام شافعیa کا استدلال حضرت ابو حمیدt کی حدیث کے ان الفاظ سے ہے:
۱۔ ((وإذا جلس في الرکعۃ الآخرۃ)) (بخاری: ۸۲۸)
کہ آپ آخری رکعت میں تورک کرتے۔
۲۔ ابو داود (۰۳۷، ۳۶۹) کے الفاظ یوں ہیں:
((حتی إذا کانت السجدۃ التي فیھا التسلیم... وقعد متورکا...))
کہ آپ نے سلام والے تشہد میں تورک کیا۔
لہٰذا امام شافعیa کے ہاں ہر سلام والے تشہد میں تورک کیا جائے گا۔
مناقشہ:
امام شافعیa کا ان الفاظ سے یہ استدلال محلِ نظر ہے، کیونکہ صحیح بخاری میں حضرت ابو حمیدt کی حدیث کے الفاظ یوں ہے:
((فإذا جلس في الرکعتین، جلس علی رجلہ الیسری، ونصب الیمنی، وإذا جلس في الرکعۃ الآخرۃ، قدم رجلہ الیسری، ونصب الأخری، وقعد علی مقعدتہ)) (بخاري: ۸۲۸)
خلاصۂ حدیث یہ ہے کہ رسول اﷲe نے پہلے تشہد میں افتراش کیا اور دوسرے میں تورک کیا اور یہاں دوسرے تشہد سے مراد چوتھی رکعت والا یعنی دوسرا تشہد ہے اور دوسرے تشہد میں تورک کے مشروع ہونے میں ان دونوں ائمہ کا کوئی اختلاف نہیں۔
رہا امام شافعیa کا ابو داود کی سلام والی روایت سے استدلال کرتے ہوئے یہ فرمانا کہ ہر سلام والے تشہد میں تورک کیا جائے گا، محلِ نظر ہے، کیونکہ اس میں سلام والے تشہد سے مراد بھی دوسرا تشہد یعنی چوتھی رکعت ہے، جیسا کہ دوسری جگہ اس کی صراحت موجود ہے، بلکہ سنن ابی داود (۱۳۷) میں حضرت ابو حمید الساعدیt کی حدیث کے یہ الفاظ ہیں:
((فإذا کان في الرابعۃ أفضی بورکہ الیسری إلی الأرض...))
کہ آپ چوتھی رکعت میں تورک کرتے۔
اسی طرح کتاب الأم (۱/ ۱۰۱) اور مسند الشافعی (ص: ۵۹، رقم: ۲۷۷) میں ’’فإذا جلس في الأربع‘‘ کی بھی صراحت موجود ہے اور الأحادیث یفسر بعضھا بعضا کے قاعدہ کی رو سے یہاں ’’التسلیم‘‘ سے مراد چوتھی رکعت ہے اور یہی دلیل امام احمد بن حنبلa اور دیگر حنابلہ کی ہے کہ اُس نماز کے دوسرے تشہد میں تورک کیا جائے گا، جس میں دو تشہد ہوں گے۔
امام شافعیa کے اس موقف کے کمزور ہونے کی وجہ یہ ہے کہ حضرت ابو حمید الساعدیt سے رواۃِ حدیث نے حدیث کو مختصر طور پر بیان کرتے ہوئے پہلے تشہد کا تذکرہ چھوڑ دیا اور دوسرے تشہد کو سلام والے تشہد سے تعبیر کر دیا، جس سے امام شافعیa وغیرہ سمجھے کہ ہر سلام والے تشہد میں تورک ہوگا، حالانکہ ایسا نہیں۔
امام شافعیa وغیرہ کے موقف کی تردید:
چنانچہ امام ابن القیمa امام شافعیa کے اس استدلال پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’فھذا السیاق ظاھر في اختصاص ھذا الجلوس بالتشھد الثاني.‘‘ (زاد المعاد لابن القیم: ۱/ ۴۵۲)
حدیث کا سیاق اس پر دلالت کرتا ہے کہ تورک ثلاثی اور رباعی رکعتوں والی نمازوں کے دوسرے تشہد میں کیا جائے گا۔‘‘
ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ بعض ہندی شارحینِ حدیث وغیرہ نے امام شافعیa کے موقف کو ترجیح دی ہے۔ مگر امام ابن القیمa کی اس تصریح کے بعد ان کا یہ موقف بھی محلِ نظر ہے بلکہ مشہور ہندی محدث شارح المشکوۃ مولانا عبیداﷲ رحمانیa ان کی رائے کے برعکس اپنا فیصلہ یوں دیتے ہیں:
’’شوافع کا ابو داود، ترمذی کی روایت ’’إذا کانت السجدۃ التي فیھا التسلیم‘‘ اور صحیح بخاری کی روایت ’’وإذا جلس في الرکعۃ الآخرۃ‘‘ کے عموم سے یہ استدلال کرنا کہ ثنائی رکعتوں یعنی صبح، جمعہ وغیرہ کے تشہد میں بھی تورک کیا جائے گا، میرے نزدیک انتہائی زیادہ محلِ نظر ہے۔‘‘ (مرعاۃ المفاتیح: ۳/ ۸۶)
عالمِ اسلام کے مشہور محدث علامہ البانی صفۃ صلاۃ النبیe (۳/ ۷۸۹) اور شیخ محمد عمر باز مول (جزء حدیث أبي حمید الساعدي في صفۃ صلاۃ النبيﷺ، ص: ۲۵) بھی حضرت ابو حمید الساعدیt کی حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ان کی حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ تورک تین یا چار رکعتوں والی نمازوں کے دوسرے تشہد میں ہوگا۔
اس لیے امام ابن القیمa اور دیگر محدثین کی اس تصریح کے بعد یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ امام شافعی کا یہ موقف قابلِ غور ہے اور حدیث کے صحیح معنی بھی وہی ہیں جو امام ابن القیم، مولانا رحمانی اور شیخ البانیS وغیرہ نے سمجھے ہیں۔
تنبیہ: مسند الفاروق لابن کثیر (۱/ ۶۶۱) میں حضرت عمرt کی مرفوع روایت سے مطلقاً سلام والے تشہد میں تورک کا اثبات بھی محلِ نظر ہے، کیونکہ عبداﷲ بن القاسم مولی ابی بکر الصدیق مجہول راوی ہے۔ جسے حافظ ابن حبان نے کتاب الثقات (۵/ ۶۴) میں ذکر کیا ہے، یہ قاعدہ معروف ہے کہ حافظ صاحب ایسے مجاہیل کو کتاب الثقات میں ذکر کر دیتے ہیں۔ لہٰذا یہ حدیث مولیٰ ابی بکر کی جہالت کی وجہ سے ضعیف ہے۔
خلاصہ:
راجح موقف یہ ہے کہ تورک ہر اس نماز کے دوسرے تشہد میں ہوگا جس میں دو تشہد ہوں گے، لہٰذا ایک تشہد والی نماز افتراش ہوگا۔
یہی موقف امام احمد بن حنبل اور حنابلہ کے علاوہ امام ابن القیم، علامہ البانی، مولانا عبیداﷲ رحمانی، شیخ ابن باز (فتاوی: ۷/ ۷۱)، شیخ محمد بن صالح عثیمین (فتاوی ارکانِ اسلام، ص: ۵۸۲ طبع دارالسلام)، مولانا امین اﷲ پشاوری (فتاوی الدین الخالص: ۴/ ۰۴۳)، ابو مالک کمال بن السید سالم (صحیح فقہ السنۃ: ۱/ ۷۴۳) وغیرہ کا ہے۔ بلکہ شیخ ابو عبیدہ مشہور بن حسن نے فجر، جمعہ اور نفلی نماز میں تورک کو غلط قرار دیا ہے۔ (القول المبین في أخطأ المصلین، ص: ۰۶۱)
دو رکعتوں میں افتراش:
چونکہ رسول اﷲe سے ثلاثی اور رباعی سے کم رکعتوں والی نماز کے علاوہ کسی میں تورک کرنا ثابت نہیں، جبکہ محدث البانیa کے ہاں رسول اﷲe کا دو رکعتوں والی نماز، جس میں سلام پھیرا جائے، میں افتراش کرنا ثابت ہے، ان کے الفاظ ہیں:
’’فھذا نص في أن الافتراش إنما کان في الرکعتین والظاھر أن الصلاۃ کانت ثنائیۃ ولعلھا صلاۃ الصبح.‘‘
’’حضرت وائل بن حجرt کی حدیث اس موقف میں نص ہے کہ ثنائی رکعتوں والی نماز کے تشہد میں افتراش ہوگا، کیونکہ حضرت وائلt کی حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ دو رکعتوں والی نماز اور شاید نمازِ فجر تھی۔‘‘ (صفۃ صلاۃ النبي: ۳/ ۴۸۹ و تمام المنۃ، ص: ۳۲۲)
مزید حضرت عائشہr کی حدیث (مسلم: ۸۹۴) کے بارے میں بھی فرمایا:
’’گویا یہ حدیث اس میں نص ہے کہ دو رکعتوں والی نماز کے تشہد میں افتراش ہوگا۔‘‘ (صفۃ صلاۃ النبيﷺ: ۳/ ۳۸۹)
نیز فرمایا:
’’حضرت ابن عمرw کی حدیث بھی حضرت وائلt اور حضرت عائشہr کی حدیث کی تائید کرتی ہے۔‘‘ (تمام المنۃ، ص: ۳۲۲)
مولانا امین اﷲ پشاوری نے بھی حضرت وائلt کی حدیث سے یہی استدلال کیا ہے اور علامہ البانی کی موافقت کی ہے۔ (فتاوی الدین الخالص: ۴/ ۰۴۳)
بحوالہ
مقالات اثریہ حصہ اول
 

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,980
پوائنٹ
323
موصوف کا کہنا
اقتباس:
خلاصہ:
راجح موقف یہ ہے کہ تورک ہر اس نماز کے دوسرے تشہد میں ہوگا جس میں دو تشہد ہوں گے، لہٰذا ایک تشہد والی نماز افتراش ہوگا۔

محل نظر ہے ۔
کیونکہ صحیح بخاری میں حضرت ابو حمیدt کی حدیث کے الفاظ یوں ہیں:
((فإذا جلس في الرکعتین، جلس علی رجلہ الیسری، ونصب الیمنی، وإذا جلس في الرکعۃ الآخرۃ، قدم رجلہ الیسری، ونصب الأخری، وقعد علی مقعدتہ)) (بخاري: ۸۲۸)
اور ابو داود (۰۳۷، ۳۶۹) کے الفاظ یوں ہیں:
((حتی إذا کانت السجدۃ التي فیھا التسلیم... وقعد متورکا...))
ان روایات کے الفاظ التی فیہا التسلیم اور الرکعۃ الآخرۃ عام ہیں جو کہ ہر اس رکعت کو شامل ہیں جو آخری ہو جس میں سلام ہو خواہ وہ پہلی ہو یا دوسری ہو یا تیسری ہو یا چوتھی ہو یا پانچویں ہو ساتویں یا نویں !
اور سنن ابی داود (۱۳۷) میں حضرت ابو حمید الساعدیt کی حدیث کے یہ الفاظ : ((فإذا کان في الرابعۃ أفضی بورکہ الیسری إلی الأرض...)) اس عام کے ایک فرد کو بیان کر رہے ہیں اور علم اصول کا مسلمہ قاعدہ ہے کہ عام کے افراد میں سے کسی ایک کا ذکر اس عام کی تخصیص نہیں کرتا ہے ۔
لہذا درست خلاصہ کلام یہ ہے کہ
نماز کی ہر اس رکعت میں تورک کیا جائے گا جو آخری ہو اور جس میں سلام ہو ۔ خواہ درمیان میں تشہد ہو یا نہ ہو ۔
تنبیہ بلیغ : اگر" الرابعۃ" کو مخصص مان لیا جائے تو بھی موصوف کا نکالا ہوا خلاصہ "راجح موقف یہ ہے کہ تورک ہر اس نماز کے دوسرے تشہد میں ہوگا جس میں دو تشہد ہوں گے" باطل ٹھہرتا ہے ۔ کیونکہ دو تشہدوں والی نماز میں سات اور نو رکعت والی نمازیں بھی شامل ہیں جبکہ موصوف "الرابعۃ" کو مخصص قرار دے کرزاد المعاد لابن القیم:( ۱/ ۴۵۲) سے یہ مقولہ نقل فرما رہے ہیں ’’فھذا السیاق ظاھر في اختصاص ھذا الجلوس بالتشھد الثاني.‘‘ جبکہ ابن القیم رحمہ اللہ کا یہ مقولہ بھی ظاہر فاشل ہے کما بینا!
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
جزاکم اللہ ۔
تورک کی ایک صورت تو یوں ہے کہ نمازی کا دائیں کولہے کو دائیں پیر پر اس طرح رکھنا کہ وہ کھڑا ہو اور انگلیوں کا رخ قبلہ کی طرف ہو، نیز بائیں کولہے کو زمین پر ٹیکنا اور بائیں پیر کو پھیلا کر دائیں طرف کو نکالنا۔
(القاموس الوحید، ص: ۱۴۸۱)
تورک کا جو طریقہ بتایا گیا ہے کافی مشکل بلکہ میں نے تو کوشش کی ہے نا ممکن لگتا ہے ۔ چاہے افتراش ہو چاہے تورک کسی بھی صورت میں آپ دائیں کولہے کو دائیں پیر پر نہیں رکھ سکتے ۔
شروح حدیث وغیرہ میں جو طریقہ تورک کا ہے اس میں صرف اتنا ہےکہ دایاں پاؤں کھڑا کریں اور بائیں کو دائیں ران کے نیچے سے گزار کے بچھا دیں اور اس طرح آپ کے کولہے زمین پر لگیں گے ۔
علمائے کرام رہنمائی فرمائیں ۔
 

ابوعیینہ

مبتدی
شمولیت
جنوری 17، 2012
پیغامات
58
ری ایکشن اسکور
281
پوائنٹ
0
تورک کی ایک صورت تو یوں ہے کہ نمازی کا دائیں کولہے کو دائیں پیر کے ساتھ اس طرح رکھنا کہ پاوں کھڑا ہو اور انگلیوں کا رخ قبلہ کی طرف ہو، نیز بائیں کولہے کو زمین پر ٹیکنا اور بائیں پیر کو پھیلا کر دائیں طرف کو نکالنا۔
(القاموس الوحید، ص: ۱۴۸۱)
بس پاوںکے ساتھ الفاظ سےمکمل تعبیر سمجھ آجاتی ہے ۔اور یہ تعریف صحیح ہے
 

Muhammad Waqas

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 12، 2011
پیغامات
356
ری ایکشن اسکور
1,596
پوائنٹ
139

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
امام مالکa اور مالکیہ کے ہاں احناف کے برعکس ہر تشہد میں تورک ہوگا۔(الاستذکار لابن عبد البر: ۴/ ۴۶۲ و المدونۃ الکبری: ۱/ ۲۷)
مؤطا امام محمد کے مطالعہ سے معلوم ہوتاہے کہ
امام محمد نے اپنے استاذ امام مالک کی طرف یہ بات منسوب کی ہے کہ :امام مالک رحمہ اللہ نے تشہد اوسط میں تورک کے بجائے بائیں پاؤں پر بیٹھنے کا فتوی دیا ہے، چنانچہ مؤطا امام محمد میں ہے:

قال محمد : وبهذا نأخذ وهو قول أبي حنيفة - رحمه الله - وكان مالك بن أنس يأخذ بذلك في الركعتين الأوليين
یعنی امام مالک رحمہ اللہ وائل بن حجر کی حدیث کو (چہاررکعتی یا سہ رکعتی نماز کی ) پہلی دونوں رکعتوں پر محمول کرتے تھے۔[الموطأ رواية محمد بن الحسن :1/ 239]۔

امام احمدa کے ہاں ہر اس نماز کے دوسرے تشہد میں تورک ہوگا، جس میں دو تشہد ہوں گے،
امام احمد کی طرف ایک قول یہ بھی منسوب ہے کہ نماز کی کسی بھی بیٹھک میں‌ تورک نہیں کیا جائے گا، یعنی جو بات ابوحنیفہ کی طرف منسوب ہے وہی بات امام احمد کی طرف بھی منسوب ہے۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
وَاخْتَلَفَ فِيهِ قَوْلُ أَحْمَدَ
یعنی تورک سے متعلق امام احمد سے مختلف اقوال مروی ہیں۔[فتح الباري لابن حجر: 2/ 309]۔

علامہ شمس الحق عظیم آبادی لکھتے ہیں:
لكن احمد يقول يفترش في التشهد الثاني كالأول[عون المعبود لمحمد آبادي :8/ 99 ]۔
لیکن امام احمد کہتے ہیں کہ دوسرے تشہد میں بھی پہلے کی طرح بائیں‌پاؤں پر بیٹھیں گے(یعنی دوسرے تشہد میں بھی تورک نہیں کریں گے).
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
رہا امام شافعیa کا ابو داود کی سلام والی روایت سے استدلال کرتے ہوئے یہ فرمانا کہ ہر سلام والے تشہد میں تورک کیا جائے گا، محلِ نظر ہے، کیونکہ اس میں سلام والے تشہد سے مراد بھی دوسرا تشہد یعنی چوتھی رکعت ہے، جیسا کہ دوسری جگہ اس کی صراحت موجود ہے
اولا:
اگرحدیث ابوحمیدساعدی میں دوسرے تشہد میں ’’تورک ‘‘ کے مذکورہونے سے یہ لازم آتاہے کہ یہ ’’تورک ‘‘ صرف دوسرے تشہد کے ساتھ خاص ہے تو عرض ہے کہ مسلم کی ایک حدیث میں‌ دعائے تعوذ کا ذکر بھی دوسرے تشہد میں ہے ملاحظہ ہو:
۔۔۔۔ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا فَرَغَ أَحَدُكُمْ مِنَ التَّشَهُّدِ الْآخِرِ، فَلْيَتَعَوَّذْ بِاللهِ مِنْ أَرْبَعٍ: مِنْ عَذَابِ جَهَنَّمَ، وَمِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، وَمِنْ فِتْنَةِ الْمَحْيَا وَالْمَمَاتِ، وَمِنْ شَرِّ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ[صحيح مسلم: 1/ 412 رقم 588]۔
کیا خیال ہے ؟؟؟ کیا مذکوہ دعائے تعوذ بھی صرف دوسرے تشہد کے ساتھ خاص ہے یعنی فجر وغیرہ کی نماز میں یہ دعاء مسنون نہیں ؟؟؟؟ فما کا ن جوابکم فھو جوابنا۔


ثانیا:
اگردوتشہدی صلاۃ کے تشہد ثانی کے ساتھ ’’تورک‘‘ کے خاص ہونے کی وجہ یہی ہے کہ ابوحمید ساعدی کی حدیث میں اس کا ذکر تشہدثانی میں‌ ہے توساتھ ہی ساتھ یہ بھی ماننا پڑھے گا کہ :
’’افتراش‘“ کی کیفیت بھی دوتشہدی صلاۃ کے تشہد اوسط ہی کے ساتھ خاص ہے ، یعنی ایسے تشہد کے ساتھ جو درمیان میں آتا ہو نہ کی نماز کے اخیرمیں !!!!!!
کیونکہ حدیث ابوحمید ساعدی میں اس کا ذکر بھی تشہد اوسط ہی میں ہے ۔

بعض لوگ کہتےہیں کہ جس حدیث میں ’’تورک‘‘ کا محل بتلایا گیا ہے اس میں دوتشہدی نماز کا ذکر ہے اور ’’تورک‘‘ کا ذکر دوسرے تشہد میں ہے لہٰذا یہ تورک صرف دو تشہدی صلاۃ کے دوسرے تشہد ہی کے ساتھ خاص ہے۔
عرض ہے کہ ہم بھی کہہ سکتے ہیں کہ جس حدیث‌ میں ’’افتراش‘‘ کا محل بتلایا گیا ہے اس میں بھی ’’دو تشہدی نماز ‘‘ کا بیان ہے اور’’افتراش ‘‘ کا ذکر تشہد اوسط (درمیانی تشہد) میں ہے لہٰذا ’’افتراش ‘‘ بھی دو تشہدی نماز کے تشہد اوسط (درمیانی تشہد) ہی کے ساتھ خاص ہوگا اور ایسی نماز میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہوگی جس میں‌ صرف ایک ہی تشہد ہو کیونکہ یہ تشہد ، دو تشہدی نماز کا تشہد اوسط نہیں۔

ثالثا:
ابوحمیدساعدی کی حدیث میں‌ تورک کا محل تشہد ثانی کو بتلایا گیا ہے مگر حدیث کے متعدد طرق میں اسے بیان کرنے کے لئے جو تعبیروشکل اختیارکی گئی ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ یہاں یہ بتلانا مقصود نہیں‌ ہے کہ یہ تورک صرف دوسرے تشہد کے ساتھ خاص ہے بلکہ مقصود یہ ہے کہ یہ تورک نماز کی آخری بیٹھک کے ساتھ خاص ہے ، ملاحظہ ہوں مختلف طرق سے یہ الفاظ:

بخاری کے الفاظ ہیں:
وإذا جلس في الركعة الآخرة ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔[صحيح البخاري: 1/ 165]۔

نسائی کے الفاظ ہیں:
إذا كان في الركعتين اللتين تنقضي فيهما الصلاة أخر رجله اليسرى وقعد على شقه متوركا ثم سلم [سنن النسائي 3/ 34]۔

ترمذی کے الفاظ‌ ہیں:
حتى كانت الركعة التي تنقضي فيها صلاته أخر رجله اليسرى وقعد على شقه متوركا ثم سلم [سنن الترمذي 2/ 105]۔

ابوداؤد کے الفاظ ہیں:
حتى إذا كانت السجدة التي فيها التسليم أخر رجله اليسرى وقعد متوركا[سنن أبي داود: 1/ 252]۔

ابن حبان کے الفاظ ہیں:
حَتَّى إِذَا كَانَتِ السَّجْدَةُ الَّتِي تَكُونُ خَاتِمَةَ الصَّلَاةِ رَفَعَ رَأْسَهُ مِنْهُمَا وَأَخَّرَ رِجْلَهُ وَقَعَدَ مُتَوَرِّكًا[صحيح ابن حبان: 5/ 188]۔

غورکریں ان تمام الفاظ‌ میں ’’تورک‘“ کے محل کو ایسے الفاظ سے بیان کیا جارہاہے جو نماز کے اختتامی اورآخری جلوس پر دلالت کریں ، اس کا صاف صاف مطلب یہ ہے کہ کسی ’’محل‘‘ کے محل تورک ہونے کی یہ وجہ نہیں ہے کہ وہ ثانی یعنی دوسرا ہے بلکہ اصل وجہ یہ ہے کہ وہ اختتامی اور اخری ہے ۔


رابعا:
ایک تشہد والی نماز میں جو تنہا تشہد ہوتاہے وہ ابوحمید ساعدی کی حدیث میں مذکور دوسرا تشہد ہی ہوتا ہے نہ کہا پہلا یا درمیانی تشہد ۔
کیونکہ ایک تشہد والی نماز کا تنہا تشہد اپنی کیفیت وشکل کے اعتبارسے دوتشہدی نماز کا دوسرا تشہد ہی ہے اورجب یہ اپنی نوعیت و شکل کے لحاظ سے دوتشہدی نماز کا دوسرا تشہد ہی ہے تو اذکار وادعیہ کی طرح اس کی کیفیت بھی وہی ہوگی۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
بلکہ سنن ابی داود (۱۳۷) میں حضرت ابو حمید الساعدیt کی حدیث کے یہ الفاظ ہیں: ((فإذا کان في الرابعۃ أفضی بورکہ الیسری إلی الأرض...)) کہ آپ چوتھی رکعت میں تورک کرتے۔
اسی طرح کتاب الأم (۱/ ۱۰۱) اور مسند الشافعی (ص: ۵۹، رقم: ۲۷۷) میں ’’فإذا جلس في الأربع‘‘ کی بھی صراحت موجود ہے اور الأحادیث یفسر بعضھا بعضا کے قاعدہ کی رو سے یہاں ’’التسلیم‘‘ سے مراد چوتھی رکعت ہے اور یہی دلیل امام احمد بن حنبلa اور دیگر حنابلہ کی ہے کہ اُس نماز کے دوسرے تشہد میں تورک کیا جائے گا، جس میں دو تشہد ہوں گے۔
اولا:
بخاری میں ’’ الركعة الآخرة‘‘ کے الفاظ ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ کیفیت آخری رکعت کی ہے ، اور ابوداؤد میں ’’فإذا كانت الرابعة‘‘ کے الفاظ ہیں‌ اورچونکہ رکعت رابعہ بھی آخری رکعت ہی ہوتی ہے اس لئے اس روایت میں‌ بھی وہی چیز بتلائی گئی ہے جو روایت بخاری میں مذکور ہے ۔
دراصل ابوداؤد وغیرہ کی روایت میں‌ ’’رکعت رابعہ‘‘ کو تورک کا محل بتلانے سے یہ لازم نہیں آتا کہ یہ تورک صرف اسی رکعت رابعہ ہی کے ساتھ خاص ہے ، کیونکہ یہاں ’’رکعت کو‘‘ ’’رابعہ‘‘ کہنے سے یہ مقصود نہیں ہے کہ جلوس فی الرابعہ ہی کی کیفیت بتلائی جائے۔
بلکہ اس سے اصل مقصود یہ ہے کہ جلوس فی آخرالصلاۃ کی کیفیت بتلائی جائے ، اب جلوس فی آخرالصلوۃ کو واضح کرنے کے لئے اس جلوس سے متصل رکعت کا نام لے لیا گیا تاکہ اسم رکعت اس بات پر دلالت کردے کہ یہ جلوس آخرالصلاۃ کا جلوس ہے۔
پس رابعہ کی دلالت اس پر نہیں ہے کہ مذکورہ کیفیت رابعہ ہی کے ساتھ خاص ہے بلکہ اس کی اصل دلالت اس پر ہے کہ یہ کیفیت آخرالصلاۃ کے جلوس کے ساتھ مخصوص ہے۔
یہی وجہ ہے کہ دیگر روایات میں اس جلوس کی نشاندہی کے لئے ایسے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں جو اختتام صلاۃ پر دلالت کریں‌ نہ کہ تعیین رکعت پر۔

ثانیا:
اگریہ مان لیا جائے کہ ابوداؤد کی روایت کی بناپر صرف ابوحمید ساعدی کی دیگر روایات میں رکعت اخیرہ وغیرہ سے مراد چوتھی رکعت ہے تو پھر سہ رکعتی نماز یعنی مغرب میں بھی تورک مسنون نہیں ہوگا، کیونکہ اس میں چوتھی رکعت نہیں ہوتی، مگراس کا کوئی قائل نہیں فماکان جوابھم فھو جوابنا۔
 
Top