- شمولیت
- مارچ 08، 2011
- پیغامات
- 2,521
- ری ایکشن اسکور
- 11,555
- پوائنٹ
- 641
تکبر:ایک تجزیاتی مطالعہ
اللہ تعالیٰ نے انسان کے ظاہروباطن دونوں کی اصلاح کے لیے شریعت اسلامیہ اور انبیاء ورسل کا سلسلہ جاری فرمایاہے۔ انسانی طبیعت کا یہ خاصہ ہے کہ وہ باطن کی نسبت ظاہر پر توجہ زیادہ دیتی ہے اور باطن کی اصلاح کی بجائے ظاہر شریعت پر عمل ہی کو کل دین سمجھ لیتی ہے۔
سابقہ مسلمان اقوام مثلاًیہود پر بھی ایک زمانہ ایسا آیا کہ وہ موسوی شریعت کے ظاہر میں اس قدر الجھے کہ اپنی باطنی اصلاح سے کلی طور پر غافل ہو گئے۔ اس زمانہ میں ان میں تورات کے بڑے بڑے فقہاء اور علماء تو موجود تھے اور ظاہر شریعت پر عمل بھی خوب ہو رہاتھا لیکن منکسر المزاجی،تواضع، انکساری،نرم دلی، خدا خوفی، للہیت، خشیت، تقوی اور تقرب الی اللہ جیسے اوصاف حسنہ مفقود تھے تو اللہ تعالیٰ نے ان کی باطنی اصلاح اور تزکیہ کے لیے حضرت عیسی علیہ السلام کو مبعوث فرمایا۔ حضرت عیسی علیہ السلام کے معاصر انجیل میں موجود خطبات سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے علمائے یہود کو اپنے باطن کی اصلاح اور تزکیہ نہ کرنے کی وجہ سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ایک جگہ انجیل میں ہے:
خیر القرون کے بعد امت مسلمہ کی اکثریت میں بھی باطن کی اصلاح یا تزکیہ نفس کی نسبت ظاہر شریعت یعنی فقہی مسائل اور ان پر عمل کی طرف توجہ زیادہ رہی ہے جس کی وجہ سے دین کا یہ اہم گوشہ نظر انداز ہوتا رہا ہے۔ کچھ طبقات نے اگر ہر دور میں اصلاح باطن کی طرف 'تصوف' کے نام توجہ دی بھی تو اس میں اصلاح کے شرعی منہج اور طریقہ کار کو نظر انداز کیا گیااور اپنے ذاتی مشاہدات وتجربات کو اصلاح باطن اور تزکیہ کے نبوی طریق کار پر ترجیح دی گئی۔اس وقت یسوع یعنی حضرت عیسی علیہ السلام نے بھیڑ سے اور اپنے شاگردوں سے یہ باتیں کیں کہ فقیہ اور فریسی موسی علیہ السلام کی گدی پر بیٹھے ہیں۔ پس جو کچھ وہ تمہیں بتائیں وہ سب کرو اور مانو لیکن انکے سے کام نہ کرو کیونکہ وہ کہتے ہیں اور کرتے نہیں۔ وہ ایسے بھاری بوجھ جن کو اٹھانا مشکل ہے ، باندھ کر لوگوں کے کندھوں پر رکھتے ہیں مگر آپ ان کو اپنے انگلی سے بھی ہلانا نہیں چاہتے۔ وہ اپنے سب کام لوگوں کو دکھانے کو کرتے ہیں کیونکہ وہ اپنے تعویذ بڑے بناتے اور اپنی پوشاک کے کنارے چوڑے رکھتے ہیں۔ اور ضیافتوں میں صدر نشینی اور عبادت خانوں میں اعلی درجہ کی کرسیاں۔اور بازاروں میں سلام اور آدمیوں سے ربی کہلانا پسند کرتے ہیں۔۔۔اے ریاکارو فقیہو اور فریسیو تم پر افسوس!کہ آسمان کی بادشاہی لوگوں پر بند کرتے ہو کیونکہ نہ تو آپ داخل ہوتے ہو اور نہ داخل ہونے والوں کو داخل ہونے دیتے ہو۔ اے ریاکارو فقیہو اور فریسیو تم پر افسوس! تم بیواوں کا گھر دبا بیٹھے ہو اور دکھاوے کے لیے نماز کو طول دیتے ہو، تمہیں زیادہ سزا ہوگی۔سے ریاکارو فقیہو فریسیو تم پر افسوس!کہ ایک مرید کرنے کے لیے تری اور خشکی کا دورہ کرتے ہو اور جب وہ مرید ہو چکتا ہے تو اسے اپنے سے دونا جہنم کا فرزند بنا دیتے ہو۔۔۔اے ریاکارو فقیہو اور فریسیو تم پر افسوس!کہ پودینہ اور سونف اور زیرہ پر تو ’دَہ یکی‘ دیتے ہو، پر تم نے شریعت کی زیادہ بھاری باتوں یعنی انصاف اور رحم اور ایمان کو چھوڑ دیا ہے۔لازم تھا کہ یہ بھی کرتے اور وہ بھی نہ چھوڑتے۔اے اندھے راہ بتانے والو، جو مچھر چھانتے ہو اور اونٹ نگل جاتے ہو۔۔۔ اے ریاکارو فقیہو اور فریسیو تم پر افسوس!کہ تم سفیدی پھری ہوئی قبروں کی مانند ہو جو اوپر سے تو خوبصورت دکھائی دیتی ہیں مگر اندر مردوں کی ہڈیوں اور ہر طرح کی نجاست سے بھری ہیں۔ اسی طرح تم بھی ظاہر میں تو لوگوں کو راستباز دکھائی دیتے ہو مگر باطن میں ریاکاری اور بے دینی سے بھرے ہو ۔۔۔اے سانپو!اے افعی کے بچو!تم جہنم کی سزا سے کیونکر بچو گے؟(متی :باب 23)
اصلاح باطن اور تزکیہ نفس کا ایک اہم موضوع رذائل سے اپنے نفس اور باطن کو پاک کرنا ہے۔ رذائل انسانیہ میں سے ایک اہم تروصف تکبر ہے۔تکبر سے ملتے جلتے کئی ایک رذائل کی کتاب و سنت میں نشاندہی کی گئی ہے جو درج ذیل ہیں:
١۔ کبر
٢۔ عجب
٣۔ حب جاہ
٤۔ حب تفوق
٥۔ ریا