• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تکفیر کے درجات اور مشرکین کی تکفیر میں توقف کرنے والے کے درجات

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
514
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
"سِلْسِلَةٌ عِلْمِيَّةٌ فِيْ بَيَانِ مَسَائِلَ مَنْهَجِيَّةٍ"
منہجی مسائل کے بیان میں علمی سلسلہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الحمدُ للهِ ربِّ العالمين، وَ لَا عُدْوَانَ إِلَّا عَلَى الظَّالِمِينَ، وَ اَشْهَدُ اَنْ لاَاِلهَ اِلاَّ اللهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيْكَ لَهُ الْمَلِكُ الْحَقُّ اْلمُبِيْنَ، وَاَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُوْلُهُ إِمَامُ الْأَوَّلِيْنَ وَ الْآٰخِرِيْنَ، أَمَّا بَعْدُ:

تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں، اور اچھا انجام پرہیز گاروں کے لیے ہے، اور ظالموں کے سوا کسی سے کوئی دشمنی نہیں، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اور وہی بادشاہ، حق اور مبین ہے، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں، جو کہ پہلوں اور بعد والوں کے امام ہیں، اما بعد:


اس حصے میں ہم اللہ تعالیٰ کی مدد سے دو مسائل کے حوالے سے بات کریں گے :

  • پہلا مسئلہ: کیا تمام مشرکین کی تکفیر ایک ہی درجے پر ہوگی یا اس کے مختلف درجات ہیں؟
  • دوسرا مسئلہ: جس میں ہم مشرکین کی تکفیر میں توقف کرنے والے کے درجات کو بیان کریں گے۔
:: پہلا مسئلہ ::

ہم پہلے مسئلے کو شروع کرتے ہیں، یعنی "کیا تمام مشرکین کی تکفیر ایک ہی درجے پر ہوگی؟ یا اس کے مختلف درجات ہیں؟

تو جواب ہے : کہ اہلِ علم نے اس بات پر نصوص کو بیان کیا ہے کہ تکفیر ایک شرعی حکم ہے، اور اس کے دو امور کے حساب سے مختلف درجات ہیں۔

پہلا امر :
شریعت میں اس کے ثبوت کی قوت ہے، یعنی لوگوں میں سے کسی شخص کے کفر پر دلیلِ شرعی کس قدر واضح اور ظاہر ہے، اور اسی کو "معرفتِ حکم" کہا جاتا ہے۔

دوسرا امر : شرک یا کفر میں واقع ہونے والے معین شخص پر اس کے ثبوت کی قوت ہے اور اسی کو "معرفتِ حال" کہا جاتا ہے، اور یہ دیکھنے، سننے اور گواہوں کی گواہی دینے سے عبارت ہوتی ہے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے فرمایا :

التكفير حكم شـرعي، يرجع إلى إباحة المال، وسفك الدماء، والحكم بالخلود في النار، فمأخذه كمأخذ سائر الأحكام الشـرعية، فتارة يدرك بيقين، وتارة يدرك بظن غالب، وتارة يتردد فيه، ومهما حصل تردد فالتوقف عن التكفير أولى، والمبادرة إلى التكفير إنما تغلب على طباع من يغلب عليهم الجهل

تکفیر ایک شرعی حکم ہے جس کے نتیجے میں مال اور خون حلال ہو جاتا ہے اور اس میں ہمیشہ جہنم میں رہنے کا حکم لگتا ہے، پس اس کا ماخذ بھی وہی ہے جو شریعت کے دیگر احکام کا ہے، پس کبھی تو اس کا ادراک یقین کے ساتھ ہوتا ہے اور کبھی ظنِ غالب کے ساتھ ہوتا ہے اور کبھی اس میں تردد واقع ہوتا ہے، تو جس قدر بھی تردد واقع ہو تو اسی قدر تکفیر سے رک جانا بہتر ہے، اور تکفیر میں جلد بازی کرنا یہ صرف انہی طبیعتوں پر غالب ہوتا ہے کہ جن پر جہالت غالب ہوتی ہے۔
( آپ رحمہ اللہ کی بات ختم ہوئی)

[بغیۃ المرتاد فی الرد علی المتفلسفۃ والقرامطۃ والباطنیۃ، ۳۴۵]

اور یہ بات اس شخص کی بات کے برعکس ہے کہ جو یہ گمان کرتا ہے کہ کفر اور شرک کی تمام صورتیں ایک ہی درجہ پر ہیں، بایں طور کہ اس کے ادراک میں عالم اور جاہل برابر ہیں، اور اس بات کے باطل ہونے میں کوئی شک نہیں، اور یہ کہ اس بارے میں اہلِ علم نے جو مؤقف اختیار کیا ہے یہ اس کے مخالف ہے، بلکہ اس بات میں بھی شک نہیں کہ یہ ان نصوص کے بھی مخالف ہے جو اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ بعض کفر دوسروں سے زیادہ شدید ہوتے ہیں۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

هُمْ لِلۡکُفۡرِ یَوۡمَئِذٍ اَقۡرَبُ مِنۡهُمۡ لِلۡاِیۡمَانِ ۔ [آل عمران: ۱۶۷]
ترجمہ: وہ اس دن ایمان کی بہ نسبت کفر سے زیادہ قریب ہوں گے۔

اور ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

اِنَّمَا النَّسِیۡٓءُ زِیَادَۃٌ فِی الۡکُفۡرِ ۔ [التوبۃ: ۳۷]
ترجمہ: مہینوں کا آگے پیچھے کر دینا کفر میں اور بھی زیادتی ہے۔

اور ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

اِنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا بَعۡدَ اِیۡمَانِہِمۡ ثُمَّ ازۡدَادُوۡا کُفۡرًا۔ [آل عمران: ۹۰]
ترجمہ: بیشک جو لوگ اپنے ایمان لانے کے بعد کُفر کریں پھر کُفر میں بڑھ جائیں۔

اور ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

اَلۡاَعۡرَابُ اَشَدُّ کُفۡرًا وَّ نِفَاقًا۔ [التوبۃ: ۹۷]
ترجمہ: دیہاتی لوگ کفر اور نفاق میں زیادہ سخت ہیں۔


:: دوسرا مسئلہ ::

مشرکین کی تکفیر میں توقف کرنے والے کے درجات :

پس ہم کہتے ہیں کہ مشرکین کے بارے میں توقف کرنے والوں کے کئی درجات ہیں، جن میں دلیلِ شرعی کی قوت اور کفر و شرک کا ظہور اثر انداز ہوتا ہے۔

شیخ و مجدد محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ نے فرمایا :

فهؤلاء الطواغيت الذين يعتقد الناس فيهم من أهل الخرج وغيرهم مشهورون عند الخاص والعام بذلك، وأنهم يترشحون له، ويأمرون به الناس: كلهم كفار مرتدون عن الإسلام، ومن جادل عنهم، أو أنكر على من كفرهم، أو زعم أن فعلهم هذا لو كان باطلا فلا يخرجهم إلى الكفر: فأقل أحوال هذا المجادل أنه فاسق، لا يقبل خطه ولا شهادته، ولا يصلى خلفه

یہ طواغیت کہ جن کے بارے میں لوگ یعنی اہلِ خرج وغیرہ عقیدت رکھتے ہیں یہ شرک کے ساتھ ہر خاص و عام کے ہاں مشہور ہیں اور وہ اس کا دفاع کرتے ہیں اور لوگوں کو اس کا حکم دیتے ہیں، یہ سب کے سب کفار ہیں اور اسلام سے مرتد ہو چکے ہیں، اور جو کوئی ان کی طرف سے جھگڑا کرے یا انہیں کافر کہنے والے کا انکار کرے یا یہ گمان کرے کہ ان کا یہ فعل اگرچہ باطل ہی سہی لیکن یہ انہیں کفر کی طرف نہیں لے جاتا، تو اس جھگڑا کرنے والے کی کم سے کم حالت یہ ہے کہ وہ فاسق ہے، نا تو اس کی تحریر قبول کی جائے گی اور نہ ہی اس کی گواہی، اور نا ہی اس کے پیچھے نماز پڑھی جائے گی۔
(آپ رحمہ اللہ کی بات ختم ہوئی)

[الدرر السنیۃ، ۱۰/۵۲]

پس آپ رحمہ اللہ کی بات پر غور و فکر کرو کہ کس طرح سے آپ نے ان طواغیت کے بارے میں توقف کرنے والے کی حالتوں کو بیان کیا ہے کہ جن میں سب سے کمتر درجہ فسق ہے، اور یہ اس بات کی تائید ہے کہ مشرکین کے بارے میں توقف کرنے والوں کی کئی حالتیں اور درجات ہیں۔

ان درجات میں دلیلِ شرعی کی قوت اور کفر و شرک کا ظہور اثر انداز ہوتا ہے، قطع نظر اس کی شدت سے، بسا اوقات شرک اپنی نوعیت میں شدید تر ہوتا ہے لیکن اپنے ظہور میں اس سے کہیں کم تر ہوتا ہے۔

اس کی مثال :

شـرك عباد الأصنام مع شـرك الجهمية؛ فالحكم بتكفير المتوقف في عباد الأصنام أقوى من الحكم بتكفير المتوقف في الجهمية؛ وذلك لأن عبادة الأصنام أشد ظهورا من التجهم، مع أن التجهم أشد شـركا.

بتوں کے پجاریوں کا شرک، جہمیہ کے شرک کے متقابل ہے، پس بتوں کے پجاریوں کے بارے میں توقف کرنے والے کی تکفیر کا حکم جہمیہ کے بارے میں توقف کرنے والے کی تکفیر کے حکم سے زیادہ مضبوط ہے، اور یہ اس لیے کہ بتوں کی پرستش جہمیت سے ظہور میں شدید تر ہے باوجود اس کے کہ جہمیت شرک میں شدید تر ہے۔

علامہ ابن القیم رحمہ اللہ نے فرمایا :

فإن المشـرك المقر بصفات الرب خير من المعطل الجاحد لصفات كماله... فأين القدح في صفات الكمال والجحد لها من عبادة واسطة بين المعبود الحق وبين العابد، يتقرب إليه بعبادة تلك الواسطة إعظاما له وإجلالا؟ فداء التعطيل هذا الداء العضال الذي لا دواء له

بے شک اللہ تعالیٰ کی صفات کا اقرار کرنے والا مشرک، رب تعالیٰ کی صفات ِکمال کا انکار کرنے والے اور اسے معطل کرنے والے سے بہتر ہے۔ بس کہاں صفاتِ کمال میں نقطہ چینی اور ان کا انکار اور کہاں معبودِ حق اور عابد کے درمیان کسی واسطے کی عبادت، کہ اس ذات کی عظمت و جلالت کی وجہ سے اس واسطے کے عبادت کرتے ہوئے وہ اس کا قرب پانا چاہے، پس صفات کو معطل کرنا ایسا ناسور ہے کہ جس کا کوئی علاج نہیں۔

[الداء والدواء، ۱۴۴]

آپ رحمہ اللہ نے مزید فرمایا :

فشـرك عباد الأصنام والأوثان والشمس والقمر والكواكب خير من توحيد هؤلاء بكثير، فإنه شـرك في الإلهية مع إثبات صانع العالم وصفاته وأفعاله وقدرته ومشيئته وعلمه بالكليات والجزئيات، وتوحيد هؤلاء تعطيل لربوبيته وإلهيته وسائر صفاته، وهذا التوحيد ملازم لأعظم أنواع الشـرك، ولهذا كلما كان الرجل أعظم تعطيلا كان أعظم شـركا

بتوں، مورتیوں، سورج، چاند اور ستاروں کے پجاریوں کا شرک ان لوگوں کی توحید سے بدرجہ بہتر ہے، اس لیے کہ یہ الوہیت میں تو شرک ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس میں جہان کو بنانے والے کا، اس کی صفات کا، اس کے افعال کا، اس کی قدرت کا، اس کی مشیت کا اور کلیات اور جزئیات کے بارے میں اس کا علم کا اثبات موجود ہے، جبکہ ان لوگوں کی توحید، اس کی ربوبیت، اس کی الوہیت، اور اس کی تمام صفات کو معطل کر ڈالنے والی ہے، اور اس توحید سے شرک کی بڑی اقسام لازم آتی ہیں، اسی لیے جو شخص صفات کو معطل کرنے میں زیادہ ہو گا تو اس کا شرک بھی اسی قدر زیادہ ہو گا۔
(آپ رحمہ اللہ کی بات ختم ہوئی)

[مختصر الصواعق المرسلۃ، ۱۸۶]

مذکورہ بالا کی بنیاد پر مشرکین اور کفار کے بارے میں توقف کرنے والوں کے درجات ذکر کریں گے، اس بنیاد پر کہ ان کے کفر پر دلائل اس قدر واضح اور مشہور ہیں، اس میں ہم اہلِ علم کے نصوص کو مدِنظر رکھیں گے۔
  • پہلا درجہ:
من توقف فيمن علم كفره بالضـرورة من دين أهل الملل
وہ شخص جو کسی ایسے شخص کے بارے میں توقف کرے کہ جس کا کفر آسمانی دینوں میں بہر صورت معلوم ہو کر رہنے والا ہے: (پھر اس میں بھی تفصیل ہے۔۔۔)

اولاً :
من توقف في إبليس أو فرعون أو مدع الإلهية لنفسه أو لغيره
وہ شخص جو ابلیس، فرعون یا اپنے لیے یا اپنے ماسوا کے لیے الوہیت کا دعویٰ کرنے والے کے بارے میں توقف کرے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے فرعون کو کافر نہ کہنے والے کی تکفیر کے بارے میں فرمایا :

وقد علم بالاضطرار من دين أهل الملل؛ المسلمين واليهود والنصارى: أن فرعون من أكفر الخلق بـالله

تحقیق آسمانی دینوں میں یعنی مسلمانوں، یہودیوں اور عیسائیوں کے دینوں میں یہ بات بہر صورت معلوم ہے کہ فرعون لوگوں میں سے سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کرنے والا تھا۔
(آپ رحمہ اللہ کی بات ختم ہوئی)

[مجموع الفتاویٰ ۲/۱۲۵]

ثانیاً :
من توقف في عباد الأصنام، ولو انتسبوا للإسلام
وہ شخص جو بتوں کے پجاریوں کے بارے میں توقف کرے اگرچہ وہ اسلام سے ہی نسبت رکھتے ہوں۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بتوں کی عبادت کو صحیح گرداننے والے کی تکفیر کے بارے میں فرمایا:

ومن لم يكفرهم فهو أكفر من اليهود والنصارى؛ فإن اليهود والنصارى يكفرون عباد الأصنام

اور جو کوئی ان کو کافر قرار نہ دے تو وہ یہود ونصاریٰ سے بھی بڑھ کر کافر ہے کیونکہ یہود ونصاریٰ بتوں کے پجاریوں کی تکفیر کرتے ہیں۔
(آپ رحمہ اللہ کی بات ختم ہوئی)

[مجموع الفتاویٰ، ۲/۱۲۸]

ابن وزیر صنعانی رحمہ اللہ نے فرمایا :

ولا شك أن من شك في كفر عابد الأصنام وجب تكفيره، ومن لم يكفره، ولا علة لذلك إلا أن كفره معلوم من الدين ضـرورة

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ جس نے کسی بت کے پجاری کے کفر میں شک کیا یا اسے کافر قرار نہ دیا تو اس کی اپنی تکفیر واجب ہے، اور اس کی علت بہر صورت یہی ہے کہ اس کا کفر دین میں بہر صورت معلوم ہو کر رہنے والا ہے۔
(آپ رحمہ اللہ کی بات ختم ہوئی)

[الروض الباسم (۲/۵۰۹]

وحكم المتوقف في هذه المرتبة الكفر، ولا يعذر بالجهل في ذلك كل من بلغته الحجة الرسالية
اور اس درجے میں توقف کرنے والے کا حکم کفر کا ہے اور جس کسی تک بھی حجتِ رسالیت پہنچ چکی ہو تو اسے اس میں جہالت کا کوئی عذر حاصل نہیں ہوگا۔
  • دوسرا درجہ:
من توقف فيمن علم كفرهم بالضـرورة من دين المسلمين خاصة؛ كمن توقف في اليهود والنصارى، أو كل من فارق دين الإسلام

وہ شخص جو ان لوگوں کے بارے میں توقف کرے کہ جن کا کفر خاص طور پر مسلمانوں کے دین میں بہر صورت معلوم ہو، جیسا کہ یہود ونصاریٰ اور دینِ اسلام کو چھوڑ دینے والے کے بارے میں توقف کرنے والا۔

قاضی عیاض رحمہ اللہ نے فرمایا :

نكفر من لم يكفر من دان بغير ملة المسلمين من الملل، أو وقف فيهم، أو شك، أو صحح مذهبهم

ہم اس شخص کی تکفیر کرتے ہیں جو مسلمانوں کی ملت کے علاؤہ سے کسی اور دین اپنا لے یا ان کے بارے میں توقف کرے یا شک کرے، یا ان کے مذہب کو صحیح گردانے۔
(آپ رحمہ اللہ کی بات ختم ہوئی)

[الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰ، ۲/۲۸۶]

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے فرمایا:

ومن لم يحرم التدين بعد مبعثه صلى الله عليه وسلم بدين اليهود والنصارى، بل من لم يكفرهم ويبغضهم فليس بمسلم بـاتفاق المسلمين

جو شخص آپ ﷺ کی بعثت کے بعد یہود ونصاریٰ کا دین اختیار کرنے کو حرام نہیں سمجھتا، بلکہ جو ان کی تکفیر نہیں کرتا، ان سے بغض نہیں رکھتا تو اس بات پر مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ وہ مسلمان نہیں ہے۔
(آپ رحمہ اللہ کی بات ختم ہوئی)

[مجموع الفتاویٰ، ۲۷/۴۶۴]

وحكم المتوقف في هذه المرتبة الكفر، ولا يعذر بالجهل في ذلك كل من بلغته الحجة الرسالية
اور اس درجے میں توقف کرنے والے کا حکم کفر کا ہے اور جس کسی تک بھی حجتِ رسالیت پہنچ چکی ہو تو اسے اس میں جہالت کا عذر حاصل نہیں ہوگا۔
  • تیسرا درجہ:
من توقف فيمن ينتسب للإسلام ووقع في شـرك أو كفر مجمع على كفر من وقع فيه، وهؤلاء على مراتب۔

وہ شخص جو کسی ایسے شخص کے بارے میں توقف کرے کہ جو اسلام سے نسبت رکھتا ہو اور پھر کسی ایسے شرک یا کفر میں واقع ہو جائے کہ جس میں واقع ہونے کے کفر پر اجماع ہو، ایسے لوگوں کی کئی صورتیں ہیں۔


تیسرے درجے کی پہلی صورت :

من لم يكن له تأويل
ایسا شخص کہ جس کے پاس کوئی تاویل نہ ہو۔

فإنه إما أن يقتصـر على تبيين الحال له، وإما أن يقتصـر على تبيين حكم الشـرع فيهم، وإما أن تبين له حالهم ويبين له حكم الشـرع فيهم، وهذا بناء على ظهور الشـرك وظهور حال المتوقف فيهم؛ فإن توقف بعد ذلك فهو كافر، وأما إن كان حالهم ظاهرا، وحكم الشـرع فيهم ظاهرا؛ فيحكم بكفر المتوقف من غير تبيين

پس یہ (یعنی اس شخص کا کفر) یا تو اس پر حال بیان کرنے پر موقوف ہوگا یا یہ ان کے بارے میں شرعی حکم بیان کرنے پر موقوف ہوگا اور یا اس پر ان کا حال اور ان کے بارے میں شرعی حکم اس پر بیان ہو چکا ہوگا، اور اس کا دارومدار شرک کے ظہور پر اور ان کے بارے میں توقف کرنے والے کے حال کے ظہور پر ہوگا، پس اس کے بعد بھی اگر وہ توقف کرے تو وہ کافر ہے، بصورتِ دیگر اگر ان کا حال بھی ظاہر ہو اور ان کے بارے میں شرعی حکم بھی ظاہر ہو تو پھر بغیر کسی چیز کو بیان کیے توقف کرنے والے پر کفر کا حکم لگا دیا جائے گا۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے باطنیہ کے ایک گروہ کے بارے میں فرمایا:

ومن كان محسنا للظن بهم، وادعى أنه لم يعرف حالهم: عرف حالهم؛ فإن لم يباينهم ويظهر لهم الإنكار وإلا ألحق بهم وجعل منهم

کوئی بھی شخص جو ان کے بارے میں اچھا گمان رکھتا ہے اور یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اسے ان کا حال معلوم نہیں، تو اسے ان کا حال بتایا جائے گا، پس اگر وہ پھر بھی ان کی مخالفت نہ کرے اور کھل کر ان کا انکار نہ کرے تو اسے انہیں کے ساتھ ملا دیا جائے گا، اور اسے انہی میں سے شمار کیا جائے گا۔
(آپ رحمہ اللہ کی بات ختم ہوئی)

[مجموع الفتاویٰ، ۲/۱۳۲]

فـانظر هنا كيف اقتصـر شيخ الإسلام في تكفير المتوقف في هذه الطائفة على تعريفه بحالهم.

پس یہاں دیکھو کہ کس طرح شیخ الاسلام رحمہ اللہ نے اس گروہ کے بارے میں توقف کرنے والے کے کفر کو اس (تکفیر نا کرنے والے) پر ان کی حالت کے بیان کیے جانے پر موقوف فرمایا ہے۔

شیخ سلیمان بن عبداللہ رحمہ اللہ نے اپنے دور کے بعض مرتدین کے بارے میں فرمایا :

فإن كان شاكا في كفرهم أو جاهلا بكفرهم، بينت له الأدلة من كتاب الله وسنة رسوله صلى الله عليه وسلم على كفرهم، فإن شك بعد ذلك أو تردد، فإنه كافر بإجماع العلماء على: أن من شك في كفر الكافر فهو كافر

پس اگر کوئی شخص ان کے کفر میں شک کرتا ہے یا ان کے کفر سے جاہل ہے، تو اس کے لیے ان کے کفر پر اللہ تعالیٰ کی کتاب اور اس کے رسول ﷺ کی احادیث میں سے دلائل کو بیان کیا جائے گا، پس اس کے بعد بھی اگر وہ شک کرے یا تردد کرے تو وہ علماء کے اس اجماع کی وجہ سے کافر ہے کہ جس کسی نے کسی کافر کے کفر میں شک کیا تو وہ کافر ہے۔
(آپ رحمہ اللہ کی بات ختم ہوئی)

[الدرر السنیۃ، ۸/۱۶۰]

نلاحظ هنا أن الشيخ سليمان اشترط تبيين الحكم الشـرعي للمتوقف قبل تكفيره.

ہم یہاں ملاحظہ کر سکتے ہیں کہ شیخ سلیمان رحمہ اللہ نے توقف کرنے والے کی تکفیر سے پہلے اس پر حکمِ شرعی بیان کرنے کی شرط لگائی ہے۔

امام ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ نے قرآن کو مخلوق کہنے والے کے بارے میں فرمایا :

ومن شك في كفره ممن يفهم ولا يجهل فهو كافر، ومن كان جاهلا علم؛ فإن أذعن بالحق بتكفيره وإلا ألزم الكفر

جو کوئی بھی سوجھ بوجھ رکھنے والا شخص بغیر کسی جہالت کے اس کے کفر میں شک کرے تو وہ کافر ہے، اور جو کوئی جاہل ہو تو اسے بتلایا جائے گا، پس اگر وہ اس کی تکفیر کر کے حق کے سامنے سرنگوں ہو جائے تو ٹھیک ہے وگرنہ اس پر بھی کفر کا حکم لگے گا۔
(آپ رحمہ اللہ کی بات ختم ہوئی)

[طبقات لحنابلۃ، ۱/۲۸۶]

في هذه الصورة اشترط أبو حاتم تعليم المتوقف قبل تكفيره.

اس صورت میں ابو حاتم رحمہ اللہ نے توقف کرنے والے کو اس کی تکفیر سے پہلے اسے بتلا دینے کی شرط لگائی ہے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے حلولیہ کے بارے میں فرمایا :

ومن شك في كفر هؤلاء بعد معرفة قولهم ومعرفة دين الإسلام فهو كافر؛ كمن يشك في كفر اليهود والنصارى والمشـركين

اور جس کسی نے بھی دینِ اسلام کو جان لینے اور ان لوگوں کی باتوں کو جان لینے کے بعد ان کے کفر میں شک کیا تو وہ کافر ہے، جیسا کہ یہود ونصاریٰ اور مشرکین کے کفر میں شک کرنے والا کافر ہے۔
(آپ رحمہ اللہ کی بات ختم ہوئی)

[مجموع الفتاویٰ، ۲/۳۶۸]

أما في هذه الصورة فقد اشترط تعريف الحال والحكم الشـرعي معا.

اس صورت میں آپ رحمہ اللہ نے حال اور حکمِ شرعی کو اکٹھے بیان کرنے کی شرط لگائی ہے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے دروز فرقے کے بارے میں فرمایا :

كفر هؤلاء مما لا يختلف فيه المسلمون؛ بل من شك في كفرهم فهو كافر مثلهم


ان لوگوں کا کفر ایسا کفر ہے کہ جس میں مسلمانوں کو کوئی اختلاف نہیں، بلکہ جو کوئی بھی ان کے کفر میں شک کرے گا تو وہ انہی کی طرح کافر شمار ہوگا۔ (آپ رحمہ اللہ کی بات ختم ہوئی)

[مجموع الفتاویٰ، ۳۵/۱۶۲]

ونلاحظ في هذه الصورة أنه لم يشترط في تكفير المتوقف تبيين الحال، ولا تبيين الحكم؛ وذلك لظهور حال تلك الطائفة، وظهور الأدلة على كفرهم.

اس صورت میں ہم ملاحظہ کر سکتے ہیں کہ آپ رحمہ اللہ نے ان کے بارے میں توقف کرنے والے کی تکفیر میں حال بیان کرنے کی اور حکم بیان کرنے کی شرط عائد نہیں کی، اور یہ اس لیے کہ اس گروہ کا حال بھی خوب واضح ہے اور ان کے کفر پر دلائل بھی خوب واضح ہیں۔

تیسرے درجے کی دوسری قسم :

من كانت له أصول فاسدة فتأول
ایسا شخص جو غلط اصولوں کا سہارا لے کر تاویل کرتا ہو۔


فيؤثر في الحكم عليه شدة ظهور كفر المعين أو الطائفة، ففي حال شدة ظهور الكفر يعتبر كافرا معاندا متسترا بتأويله، وفي حالات أخرى اختلف بين تفسيقه وتكفيره

پس اس پر حکم لگانے میں معینہ شخص یا گروہ کے کفر کے ظہور کی شدت اثر انداز ہوگی، پس کفر کے ظہور کے شدید ہونے کی صورت میں ایسا شخص کافر، حق کا مخالف اور اپنی تاویل کو بطور ڈھال استعمال کرنے والا سمجھا جائے گا، جبکہ دیگر صورتوں میں اس کے فسق اور کفر کے درمیان اختلاف ہوگا۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے باطنیہ کے ایک گروہ کے بارے میں فرمایا :

وأما من قال: (لكلامهم تأويل يوافق الشـريعة)؛ فإنه من رءوسهم وأئمتهم؛ فإنه إن كان ذكيا فإنه يعرف كذب نفسه فيما قاله، وإن كان معتقدا لهذا باطنا وظاهرا فهو أكفر من النصارى؛ فمن لم يكفر هؤلاء، وجعل لكلامهم تأويلا، كان عن تكفير النصارى بالتثليث والاتحاد أبعد

جو شخص یہ کہے کہ ان کے کلام کی تاویل شریعت سے موافقت رکھتی ہے تو وہ ان کے سرغنوں اور اماموں میں سے ہے، کیونکہ اگر وہ سمجھدار ہے تو وہ اپنی بات کے جھوٹ کو خود ہی جانتا ہے، اور اگر وہ اس بات کا ظاہری یا باطنی طور کے اوپر اعتقاد رکھتا ہے تو وہ عیسائیوں سے بڑا کافر ہے، پس جو شخص ان کی تکفیر نہیں کرتا، یا ان کے کلام کی تاویل کرتا ہے تو وہ تثلیث اور اتحاد کی بنا پر عیسائیوں کی تکفیر سے بھی کہیں دور نکل چکا ہے۔

[مجموع الفتاویٰ، ۲/۱۳۳]

اور آپ رحمہ اللہ نے مزید فرمایا :

وعنه -أي الإمام أحمد- في تكفير من لا يكفر روايتان؛ -يعني في تكفير من لم يكفر الجهمية- أصحهما لا يكفر

آپ سے (یعنی امام احمد رحمہ اللہ سے) تکفیر نہ کرنے والے کی تکفیر کے بارے میں دو روایات ہیں، یعنی اس شخص کی تکفیر کے بارے میں کہ جو جہمیوں کی تکفیر نہیں کرتا، ان میں صحیح روایت یہی ہے کہ وہ کافر نہیں ہوگا۔
( آپ رحمہ للہ کی بات ختم ہوئی)

[مجموع الفتاویٰ، ۱۲/۴۸۶]

امام بخاری رحمہ اللہ نے فرمایا :

نظرت في كلام اليهود، والنصارى، والمجوس، فما رأيت قوما أضل في كفرهم منهم -يعني الجهمية-، وإني لأستجهل من لا يكفرهم، إلا من لا يعرف كفرهم


میں نے یہودیوں، عیسائیوں اور مجوسیوں کے کلام میں نظر دوڑائی ہے، پس میں نے کسی قوم کو بھی اپنے کفر میں ان سے (یعنی جہمیوں سے) زیادہ بڑھ کر گمراہ نہیں دیکھا، اور جو کوئی ان کی تکفیر نہیں کرتا تو میں اسے جاہل سمجھتا ہوں، چہ جائیکہ وہ ان کے کفر کو جانتا ہی نا ہو۔
(آپ رحمہ اللہ کی بات ختم)

[المصدر السابق (۲/۲۴/۳۴)]


والظاهر من قول الإمام البخاري أنه يذهب إلى عدم تكفير المتوقف في الجهمية؛ كإحدى الروايتين عن أحمد.

امام بخاری رحمہ اللہ کے قول سے ظاہر ہے کہ آپ نے جہمیہ کے بارے میں توقف کرنے والے کی تکفیر نہیں کی، جیسا کہ امام احمد رحمہ اللہ کی دو روایتوں میں سے ایک روایت ہے۔

مرداوی رحمہ اللہ نے فرمایا :

وذكر ابن حامد في أصوله كفر الخوارج والرافضة والقدرية والمرجئة، وقال

ابنِ حامد نے اپنے اصولوں میں خوارج، روافض، قدریہ اور مرجئہ کے کفر کو ذکر کیا ہے، آپ نے فرمایا :


من لم يكفر من كفرناه فسق وهجر، وفي كفره وجهان

"جن کی ہم نے تکفیر کی ہے اگر کوئی ان کی تکفیر نہیں کرتا تو وہ فاسق ہے اور اس سے لاتعلقی کی جائے گی، اور اس کے کفر میں دو رائے ہیں۔"

والذي ذكره هو وغيره من رواة المروذي، وأبي طالب، ويعقوب، وغيرهم: أنه لا يكفر

اور جس چیز کو آپ نے ذکر کیا ہے اسے آپ کے ماسوا مروذی، ابو طالب، یعقوب اور دیگر راویوں نے بھی ذکر کیا ہے کہ ایسا شخص کافر نہیں ہوگا۔

إلى أن قال: وقال في إنكار المعتزلة استخراج قلبه صلى الله عليه وسلم ليلة الإسـراء وإعادته: في كفرهم به وجهان، بناء على أصله في القدرية الذين ينكرون علم الله وأنه صفة له، وعلى من قال: لا أكفر من لا يكفر الجهمية


یہاں تک کہ انہوں نے کہا : معراج کے بعد نبی ﷺ کا دل نکال کر دوبارہ واپس ڈالنے پر معتزلہ کے انکار کے بارے آپ نے فرمایا کہ ان کے کفر کے بارے میں دو رائے ہیں، یا تو اس کا دارومدار اس بات پر ہوگا کہ یہ شخص اصلاً قدریہ میں سے ہے کہ جو اللہ تعالیٰ کے علم کا انکار کرتے ہیں جبکہ وہ اس کی صفت ہے، یا اس کا دارو مدار کہنے والے کے اس قول پر ہوگا کہ میں جہمیہ کی تکفیر نہ کرنے والوں کو کافر نہیں کہتا۔ (آپ رحمہ اللہ کی بات ختم ہوئی)

[الانصاف فی معرفۃ الراجح من الخلاف (۱۰/۳۲۴) بتصرف یسیر]

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے فرمایا :

وأما السلف والأئمة فلم يتنازعوا في عدم تكفير المرجئة والشيعة المفضلة -يعني الذين يفضلون عليا على سائر الصحابة بلا طعن فيهم

أئمہِ اسلاف کے درمیان مرجئوں اور تفضیلی شیعوں وغیرہ کی تکفیر نہ کرنے کے بارے میں کوئی تنازعہ نہیں ہے، یعنی کہ وہ شیعے جو طعن و تشنیع کیے بغیر علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیگر تمام صحابہ سے افضل مانتے ہیں۔

ونحو ذلك، ولم تختلف نصوص أحمد في أنه لا يكفر هؤلاء، وإن كان من أصحابه من حكى في تكفير جميع أهل البدع -من هؤلاء وغيرهم- خلافا عنه أو في مذهبه، حتى أطلق بعضهم تخليد هؤلاء وغيرهم، وهذا غلط على مذهبه وعلى الشـريعة


امام احمد رحمہ اللہ کے نصوص میں اس بات پر کوئی اختلاف نہیں ہے کہ آپ رحمہ اللہ ان لوگوں کی تکفیر نہیں کرتے تھے، اگرچہ آپ کے ساتھیوں میں سے کچھ ایسے افراد بھی ہیں، جنہوں نے آپ سے اور آپ کے مذہب سے اختلاف کرتے ہوئے ان کی اور ان کے ماسوا دیگر تمام اہل بدعت کی تکفیر کی ہے، یہاں تک کہ ان میں سے بعض نے تو ان لوگوں اور ان کے ماسوا دیگر پر ہمیشہ آگ میں رہنے کا حکم بھی لگایا ہے جبکہ یہ آپ کے مذہب اور شریعت کی رُو سے غلط ہے۔ (آپ رحمہ اللہ کی بات ختم ہوئی)

[مجموع الفتاویٰ، ۳/۳۵۱]

تیسرے درجے کی تیسری صورت:

من كانت له أصول صحيحة فتأول
ایسا شخص جو صحیح اصولوں کی بنیاد پر تاویل کرتا ہو۔

كما جاء في خطأ بعض الصحابة رضي الله عنهم في تكفير بعض المرتدين؛ حيث بين الله تعالى خطأ من توقف، ولم يحكم عليهم بكفر.

جیسا کہ بعض مرتدین کی تکفیر کے بارے میں بعض صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی خطا کے بارے میں احادیث میں وارد ہوا ہے کہ جہاں اللہ تعالیٰ نے توقف کرنے والوں کی غلطی کو بیان کر دیا اور ان پر کفر کا حکم نہیں لگایا۔

چناچہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا :

كان قوم من أهل مكة أسلموا، وكانوا يستخفون بالإسلام، فأخرجهم المشـركون معهم يوم بدر، فأصيب بعضهم وقتل بعض، فقال المسلمون: "كان أصحابنا هؤلاء مسلمين وأكرهوا فـــاستغفروا لهم"، فنزلت

اہل مکہ میں سے کچھ لوگ اسلام لے کر آئے تھے اور وہ اپنے اسلام کو چھپاتے تھے، پس بدر کے دن مشرکین انہیں اپنے ساتھ لے کر نکلے، چنانچہ ان میں سے بعض زخمی ہوئے اور بعض قتل ہو گئے، تو مسلمانوں نے کہا کہ یہ ہمارے ساتھی ہیں یہ لوگ مسلمان ہیں انہیں مجبور کیا گیا تھا، پس انہوں نے ان کے لیے دعائے مغفرت کی تو یہ آیت نازل ہوئی :

إِنَّ الَّذِينَ تَوَفَّاهُمُ الْمَلآئِكَةُ ظَالِمِي أَنْفُسِهِمْ قَالُواْ فِيمَ كُنتُمْ قَالُواْ كُنَّا مُسْتَضْعَفِينَ فِي الأَرْضِ قَالْوَاْ أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللّهِ وَاسِعَةً فَتُهَاجِرُواْ فِيهَا فَأُوْلَـئِكَ مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ وَسَاءتْ مَصِيرًا۔ [النساء : ۹۷]

ترجمہ: جن لوگوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا۔ اور اسی حالت میں فرشتے ان کی روح قبض کرنے آئے تو بولے تم کس حالت میں تھے ؟ وہ کہنے لگے کہ ہم تو زمین میں بے بس بنا دیئے گئے تھے۔ فرشتوں نے کہا کیا اللہ کی زمین کشادہ نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کرجاتے؟ لہذا ایسے لوگوں کا ٹھکانا جہنم ہے، اور وہ نہایت برا انجام ہے ۔

قال: فكتب إلي من بقي من المسلمين بهذه الآية، وأنه لا عذر لهم، قال: فخرجوا فلحقهم المشـركون فأعطوهم الفتنة، فنزلت فيهم هذه الآية

اور فرمایا : مسلمانوں میں سے باقی بچ جانے والوں نے مجھے یہ آیت لکھ بھیجی اور یہ کہ ان کے لیے کوئی عذر نہیں ہے اور فرمایا: کہ وہ ابھی نکلے ہی تھے کہ انہیں مشرکین نے آ لیا اور فتنے کا شکار کر دیا، پس ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی :

وَمِنَ النَّاسِ مَن يَقُولُ آمَنَّا بِاللَّهِ فَإِذَا أُوذِيَ فِي اللَّهِ جَعَلَ فِتْنَةَ النَّاسِ كَعَذَابِ اللَّهِ وَلَئِن جَاء نَصْرٌ مِّن رَّبِّكَ لَيَقُولُنَّ إِنَّا كُنَّا مَعَكُمْ أَوَلَيْسَ اللَّهُ بِأَعْلَمَ بِمَا فِي صُدُورِ الْعَالَمِينَ۔ [العنکبوت: ۱۰]

ترجمہ: اور کچھ لوگ ایسے ہیں کہ وہ کہہ دیتے ہیں کہ : ہم اللہ پر ایمان لے آئے ہیں، پھر جب ان کو اللہ کے راستے میں کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ لوگوں کی پہنچائی ہوئی تکلیف کو ایسا سمجھتے ہیں جیسا اللہ کا عذاب، اور اگر کبھی تمہارے پروردگار کی طرف سے کوئی مدد ان ( مسلمانوں ) کے پاس آجائے تو وہ ضرور یہ کہیں گے کہ : ہم تو تمہارے ساتھ تھے۔ بھلا کیا اللہ کو وہ باتیں اچھی طرح معلوم نہیں ہیں جو سارے دنیا جہان کے لوگوں کے سینوں میں چھپی ہیں؟
(آپ رضی الله عنہما کی بات ختم ہوئی)

[رواہ الطبری فی تفسیرہ (۹/۱۰۲) مستند]

اور شیخ عبد اللہ بن محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ نے فرمایا :

فأنزل الله هذه الآية، وبين فيها حكم هؤلاء المشـركين، وأنهم من أهل النار، مع تكلمهم بالإسلام


پس اللہ تعالیٰ نے اس آیت کو نازل کر دیا اور اس میں ان مشرکین کا حکم بیان کر دیا کہ وہ اہل دوزخ میں سے ہیں، باوجود اس کے کہ وہ اسلام کے نام لیوا ہیں۔
(آپ رحمہ اللہ کی بات ختم ہوئی)

[الدرر السنیۃ، ۱۰/۲۴۱]

وروي أن الصحابة رضي الله عنهم اختلفوا في تكفير بعض المرتدين، فلما بين الله تعالى كفر هؤلاء القوم لم يأمر من توقف فيهم بتجديد إسلامه

اور روایت کیا گیا ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بعض مرتدین کے تکفیر کے بارے میں اختلاف کا شکار ہو گئے تھے، پس اللہ تعالیٰ نے اس قوم کے کفر کو بیان کر دیا اور جس کسی نے ان کے بارے میں توقف کیا تھا تو اسے اپنے اسلام کی تجدید کا حکم نہیں دیا گیا۔

پس ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

فَمَا لَكُمْ فِي الْمُنَافِقِينَ فِئَتَيْنِ وَاللّهُ أَرْكَسَهُم بِمَا كَسَبُواْ أَتُرِيدُونَ أَن تَهْدُواْ مَنْ أَضَلَّ اللّهُ وَمَن يُضْلِلِ اللّهُ فَلَن تَجِدَ لَهُ سَبِيلاً۔
[النساء: ۸۸]

ترجمہ: تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ منافقوں کے بارے میں دو گروہوں میں بٹ ہو رہے ہو؟ انہیں تو ان کے اعمال کی وجہ سے اللہ تعالٰی نے اوندھا کر دیا ہے۔ اب کیا تم یہ منصوبے بنا رہے ہو کہ اللہ تعالٰی کے گمراہ کیے ہوؤں کو تم راہ راست پر لا کھڑا کرو جسے اللہ تعالٰی راہ سے بھٹکا دے تُم ہرگز اس کے لئے کوئی راہ نہ پاؤ گے۔

اس آیت کے شانِ نزول کے بارے میں صحیح احادیث میں وارد ہوا ہے :

أن النبي صلى الله عليه وسلم خرج إلى أحد، فرجع ناس ممن كان معه، فكان أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم فيهم فرقتين، قال بعضهم: "نقتلهم"، وقال بعضهم: "لا"

نبی ﷺ جب اُحد کی طرف نکلے تو آپ کے ساتھ لوگوں میں سے کچھ لوگ واپس پلٹ گئے، پس نبی ﷺ کے صحابہ میں دو گروہ بن گئے، بعض نے کہا ہم انہیں قتل کریں گے اور بعض نے کہا نہیں۔


[متفق علیہ، صحیح بخاری (۲/۱۰۵/۱۳۹۹)، صحیح مسلم (۲/۵/۷۸۱]


اور مجاہد رحمہ اللہ سے ایک روایت میں یہی منقول ہے کہ آپ نے فرمایا :

قوم خرجوا من مكة حتى أتوا المدينة يزعمون أنهم مهاجرون، ثم ارتدوا بعد ذلك، فـاستأذنوا النبي صلى الله عليه وسلم إلى مكة ليأتوا ببضائع لهم يتجرون فيها، فـاختلف فيهم المؤمنون، فقائل يقول: "هم منافقون"، وقائل يقول: "هم مؤمنون"، فبين الله نفاقهم، فأمر بقتالهم

کچھ لوگ مکہ سے نکلے تھے یہاں تک کہ وہ مدینہ تک جا پہنچے، وہ گمان کر رہے تھے کہ وہ مہاجرین ہیں، پھر اس کے بعد وہ مرتد ہو گئے، چنانچہ انہوں نے نبی کریم ﷺ سے مکہ جانے کی اجازت طلب کی تاکہ وہ اپنا سامان لے آئیں جس کے ساتھ وہ وہاں تجارت کر سکیں، پس ان کے بارے میں اہلِ ایمان میں اختلاف ہو گیا، کچھ نے کہا کہ وہ منافق ہیں اور کچھ نے کہا کہ وہ مومن ہیں، پس اللہ تعالیٰ نے ان کے نفاق کو بیان کر دیا اور ان سے قتال کا حکم دیا۔
(آپ رحمہ اللہ کی بات ختم ہوئی)

[رواہ الطبری فی تفسیرہ (۸/۹/۱۰۰۵۲) مستند]

اور ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، آپ نے فرمایا :

فكانوا كذلك فئتين والرسول عندهم لا ينهى واحدا من الفريقين عن شـيء، فنزلت: {فَمَا لَكُمْ فِي الْمُنَافِقِينَ فِئَتَيْنِ} [
النساء: ۸۸] الآية

اسی طرح وہ (یعنی اہل ایمان) دو گروہ بن گئے جبکہ رسول اللہ ﷺ ان کے پاس تھے، آپ نے دونوں فریقوں میں سے کسی کو بھی کسی چیز سے منع نہیں کیا۔ پس یہ آیت نازل ہوئی : "فَمَا لَكُمْ فِىْ ٱلْمُنٰفِقِيْنَ فِئَتَيْنِ".
(آپ رضی الله عنہما کی بات ختم ہوئی)

[تفسیر الطبری (۸/۱۰/۱۰۰۵۳]

امام طبری رحمہ اللہ، اللہ تعالیٰ کے اس فرمان "فَمَا لَكُمْ فِىْ ٱلْمُنٰفِقِيْنَ فِئَتَيْنِ وَاللّٰهُ أَرْكَسَهُمْ بِمَا كَسَبُوْا" کی تاویل میں فرماتے ہیں :

يعني بذلك: والله ردهم إلى أحكام أهل الشـرك في إباحة دمائهم، وسبي ذراريهم

اس کا مطلب یہ کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ان کے خون کے حلال ہونے اور ان کی اولادوں کو غلام بنانے میں اہل شرک کے احکام کی طرف پلٹا دیا۔
(آپ رحمہ کی بات ختم ہوئی)

[تفسیر الطبری، ۸/۷]

اور امام طبری رحمہ اللہ نے اسی موقف کو ترجیح دی ہے کہ یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی جو کہ اسلام سے مرتد ہو چکے تھے۔ چنانچہ آپ نے اس کے شانِ نزول کے بارے میں اسلاف کے اقوال کو ذکر کرنے کے بعد فرمایا :

وأولى هذه الأقوال بالصواب في ذلك: قول من قال: نزلت هذه الآية في اختلاف أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم في قوم كانوا ارتدوا عن الإسلام بعد إسلامهم من أهل مكة


ان اقوال میں سب زیادہ درست قول یہی ہے کہ یہ آیت اہل مکہ میں سے کچھ لوگوں کے اسلام لے آنے کے بعد اسلام سے مرتد ہو جانے کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کے درمیان ہونے والے اختلاف کے بارے میں نازل ہوئی۔ (آپ رحمہ کی بات ختم ہوئی)

[تفسیر الطبری، ۸/۱۳]

اہلِ سنت کے ایک امام ابن ابی زمنین رحمہ اللہ نے فرمایا :

هم قوم من المنافقين كانوا بالمدينة؛ فخرجوا منها إلى مكة، ثم خرجوا من مكة إلى اليمامة تجارا فـرتدوا عن الإسلام، وأظهروا ما في قلوبهم من الشـرك، فلقيهم المسلمون، فكانوا فيهم فئتين؛ أي فرقتين، فقال بعضهم: قد حلت دماؤهم؛ هم مشـركون مرتدون، وقال بعضهم: لم تحل دماؤهم؛ هم قوم عرضت لهم فتنة، فقال الله -تعالى-: {فَمَا لَكُمْ فِي الْمُنَافِقِينَ فِئَتَيْنِ} [النساء: ۸۸].

یہ لوگ منافقین میں سے تھے جو کہ مدینہ میں تھے، پس یہ وہاں سے مکہ کی طرف نکلے اور پھر مکہ سے تجارت کی غرض سے یمامہ کی طرف نکلے اور اسلام سے مرتد ہو گئے، اور ان کے دلوں میں جو شرک تھا اسے انہوں نے ظاہر کر دیا، پس مسلمان ان سے ملے تو ان میں دو گروہ یعنی دو فریق بن گئے، پس ان میں سے بعض نے کہا کہ ان کا خون حلال ہو چکا ہے کہ وہ مشرک اور مرتد ہیں، اور بعض نے کہا کہ ان کا خون حلال نہیں ہوا ہے بلکہ وہ لوگ فتنے کا شکار ہو گئے ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ نے فرما دیا "فَمَا لَكُمْ فِىْ ٱلْمُنٰفِقِيْنَ فِئَتَيْنِ
( آپ رحمہ اللہ کی بات ختم ہوئی)

[تفسیر القرآن العزیز لابن ابی زمنین، ۱/۳۹۳]

ورجح طائفة من العلماء أن عمر بن الخطاب رضي الله عنه توقف في تكفير مانعي الزكاة في بادئ أمرهم، ولما بين له أبو بكر رضي الله عنه كفرهم وافقه، ولم يستتبه على توقفه فيهم

اور علماء کی ایک جماعت نے اس بات کو ترجیح دی ہے کہ معاملے کی ابتداء میں عمر ابن خطاب رضی اللہ عنہ نے مانعینِ زکوٰۃ کی تکفیر میں توقف کیا تھا لیکن جب ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ پر ان کے کفر کو بیان کیا تو آپ نے ان سے موافقت کر لی، اور ان کے بارے میں آپ کے اس توقف پر آپ سے توبہ بھی نہیں کروائی گئی۔

پس تحقیق عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے صحیح روایات میں ثابت ہے :

أنه قال لأبي بكر رضي الله عنه في شأن "المرتدين": كيف تقاتل الناس؟ وقد قال رسول الله صلى الله عليه وسلم

انہوں نے ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مرتدین کے بارے میں کہا : کہ آپ کیونکر لوگوں سے قتال کرتے ہیں جبکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے :

أُمِرْتُ أَن أُقاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَقُولُوا لا إِلهَ إِلاَّ اللَّه، فَمَن قَالَهَا فَقَد عَصَمَ مِنِّي مَالَه وَ نَفسَه إِلاَّ بحَقِّه وحِسابُهُ عَلى اللَّهِ

مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے قتال کروں یہاں تک کہ وہ لَا إِلهَ إِلاَّ اللَّه کہنے لگیں، تو جس نے اسے کہا تو اس کا مال اور اس کی جان مجھ سے محفوظ ہوگئی، سوائے اس کے حق کے ساتھ ، اور اس کا باقی حساب اللہ تعالیٰ پر ہے۔

[متفق علیہ، صحیح بخاری (۳/۲۲/۱۸۸۴)، صحیح مسلم(۸/۱۲۱/۷۱۳۲]

اس صورت کا حکم :

أن المتوقف لا يكفر ابتداء، بل يحكم عليه بالخطأ، وهذا الحكم مبني على أن التكفير من الأحكام الشـرعية، وأن حكم المجتهد المخطئ فيه كحكم غيره ممن أخطأ في المسائل الشـرعية، فإذا بينت له الأدلة وانقطع تأويله ثم توقف بعد ذلك فهو كافر.

توقف کرنے والے کی ابتداء میں تکفیر نہیں کی جائے گی بلکہ اس پر خطاء کا حکم لگایا جائے گا، اور اس حکم کی بنیاد یہ ہے کہ تکفیر احکامِ شرعیہ میں سے ہے، اور اس میں خطاکار مجتہد کا حکم اس کے ماسوا مسائلِ شرعیہ میں خطا کرنے والے کے حکم ہی کی طرح ہے۔ پس جب اس پر دلائل بیان کر دئیے جائیں اور اس کی تاویل ختم ہو جائے پھر اس کے بعد بھی اگر وہ توقف کرے تو وہ کافر ہے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے فرمایا :

فإن الإيمان بوجوب الواجبات الظاهرة المتواترة وتحريم المحرمات الظاهرة المتواترة: هو من أعظم أصول الإيمان وقواعد الدين والجاحد لها كافر بالاتفاق مع أن المجتهد في بعضها ليس بكافر بالاتفاق مع خطئه


ظاہری اور متواتر واجبات کے وجوب پر اور ظاہری اور متواتر حرام چیزوں کی حرمت پر ایمان لانا، ایمان کے سب سے بڑے اصولوں میں سے ہے اور دین کے بنیادی قواعد میں سے ہے، اور ان کا انکار کرنے والا بالاتفاق کافر ہے، اور اس بات پر بھی اتفاق ہے کہ ان میں سے بعض میں اجتہاد کرنے والا اپنی خطا کے باوجود بھی کافر نہیں ہے۔
(آپ رحمہ اللہ کی بات ختم ہوئی)

[مجموع الفتاویٰ، ۱۲/۴۹۶]

شیخ سلیمان بن سحمان رحمہ اللہ نے فرمایا :

ثم لو قدر أن أحدا من العلماء توقف عن القول بكفر أحد من هؤلاء الجهال المقلدين للجهمية، أو الجهال المقلدين لعباد القبور، أمكن أن نعتذر عنه بأنه مخطئ معذور، ولا نقول بكفره لعدم عصمته من الخطأ، والإجماع في ذلك قطعي


پھر اگر فرض کر لیا جائے کہ ان علماء میں سے کسی نے قبروں کے پجاریوں کے جاہل پیروکاروں یا جہمیہ کے ان جاہل پیروکاروں کی تکفیر میں توقف کیا ہے تو ممکن ہے کہ ہم اسے عذر دیں کہ اس سے خطا ہوئی ہے اور وہ معذور ہے، اور ہم اسے خطا سے نہ بچ پانے پر کافر نہیں کہیں گے، اور اس بات پر قطعی اجماع ہے۔
( آپ رحمہ اللہ کی بات ختم ہوئی)

[کشف الاوھام والالتباس، ص : ۷۰]
  • چوتھا درجہ:
من توقف فيمن وقع في كفر أو شـرك، وكان سبب توقفه غرضا شـرعيا مباحا، فمن ذلك:

ایسا شخص جو کسی کفر و شرک میں واقع ہونے والے کے بارے میں توقف کرے اور اس کے اس توقف کا سبب کوئی جائز، شرعی مقصد ہو تو اس کی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں، مثلاً :

(۱) من توقف فيمن وقع في نوع شـرك أو كفر مختلف في أنه مخرج من الملة؛ كترك الصلاة.

وہ شخص جو کسی ایسے شخص کے بارے میں توقف کرے کہ جو کسی ایسے کفر و شرک میں واقع ہو کہ جس میں اختلاف ہو کہ یہ ملت سے خارج کر دینے والا ہے یا نہیں، جیسا کہ نماز کو چھوڑنا۔

(۲) ومن ذلك من توقف فيمن انتسب للعلم الشـرعي بغرض الدفع عن تكفير علماء المسلمين.

اور وہ شخص جو مسلمانوں کے علماء سے تکفیر کو دور کرنے کی غرض سے ان میں شریعت سے نسبت رکھنے والے کسی عالم کے بارے میں توقف کرے۔

وحكم المتوقف في هاتين الصورتين أنه مجتهد مأجور بإذن الله؛ إن أصاب فله أجران، وإن أخطأ فله أجر واحد.

ان دونوں صورتوں میں توقف کرنے والے کا حکم یہ ہے :
وہ مجتہد ہے اور اسے اللہ کے حکم سے اجر ملے گا، اگر وہ درست ہوا تو اس کے لیے دو اجر ہیں اور اگر وہ خطا پر ہوا تو اس کے لیے ایک اجر ہے۔


شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے فرمایا :

دفع التكفير عن علماء المسلمين وإن أخطئوا هو من أحق الأغراض الشـرعية؛ حتى لو فرض أن دفع التكفير عن القائل يعتقد أنه ليس بكافر حماية له، ونصـرا لأخيه المسلم: لكان هذا غرضا شـرعيا حسنا، وهو إذا اجتهد في ذلك فأصاب فله أجران، وإن اجتهد فيه فأخطأ فله أجر واحد


مسلمانوں کے علماء سے تکفیر کو دور کرنا، اگرچہ وہ خطا پر ہی ہوں، یہ شریعت کے سب سے بڑھ کر حق رکھنے والے مقاصد میں سے ہے، یہاں تک کہ اگر فرض کر لیا جائے کہ اس قائل سے تکفیر کو دور کرنا کہ جس کے بارے میں یہ اعتقاد ہو کہ وہ کافر نہیں ہے، یہ اس کا دفاع ہے اور اپنے مسلمان بھائی کی نصرت ہے، تو یہ ایک اچھا شرعی مقصد ہے، چونکہ جب اس نے اس میں اجتہاد کیا، پس اگر وہ درستی پر رہا تو اس کے لیے دو اجر ہیں اور اگر اس نے اجتہاد کیا اور خطا کھا گیا تو اس کے لیے ایک اجر ہے۔
(آپ رحمہ اللہ کی بات ختم ہوئی)

[مجموع الفتاویٰ، ۳۵/۱۰۳]

اور یہاں پر ایک اہم سوال ہے :

أين مرتبة المتوقف في عباد القبور من هذه المراتب؟


ان درجات میں قبروں کے پجاریوں کے بارے میں توقف کرنے والے کا کون سا درجہ ہے؟

تو جواب ہے :


أن مرتبة المتوقف في القبورية تختلف بحسب ظهور الشـرك أو الاعتقاد في صاحب القبر، ولا شك أن منها ما يماثل عبادة الأصنام أو يزيد عليها، ومنها ما هو دون ذلك، ومنها ما يقتصـر على الابتداع في الدين ولا يبلغ الشـرك.

قبر پرستوں کے کفر کے بارے میں توقف کرنے والوں کے درجات شرک کے ظہور اور صاحبِ قبر کے بارے میں اعتقاد کے حساب سے مختلف ہیں، اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اس میں سے کچھ حصہ وہ ہے کہ جو بتوں کی پرستش یا اس سے بھی بڑھ کر کسی چیز سے مماثلت رکھتا ہے، اور اس میں سے کچھ حصہ وہ ہے کہ جو اس سے کمتر ہے، اور اس میں سے کچھ حصہ وہ ہے جو محض دین میں بدعت تک محدود ہے اور شرک تک نہیں پہنچتا ہے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے فرمایا :

والمراتب في هذا الباب ثلاث:

اس باب میں تین درجات ہیں :

  • پہلا درجہ :
أن يدعو غير الله وهو ميت أو غائب، سواء كان من الأنبياء والصالحين أو غيرهم فيقول: يا سيدي فلان أغثني، أو أنا أستجير بك، أو أستغيث بك، أو انصـرني على عدوي، ونحو ذلك فهذا هو الشـرك بالله...

کوئی شخص اللہ کے سوا کسی مردہ یا غائب سے دعا کرے چاہے وہ انبیاء اور نیک لوگوں میں سے ہو یا ان کے ماسوا ہو، کہ وہ کہے : اے میرے فلاں آقا میری مدد کر، یا یہ کہ میں تیری پناہ میں آتا ہوں، یا میں تجھ سے مدد مانگتا ہوں، یا یہ کہ تو میرے دشمن پر میری مدد کر اور اسی طریقے سے دوسرے اقوال، تو یہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک ہے۔

وأعظم من ذلك أن يقول: اغفر لي وتب علي؛ كما يفعله طائفة من الجهال المشـركين..

اور اس سے بڑھ کر یہ ہے کہ وہ کہے: مجھے بخش دے اور میری توبہ قبول کر، جیسا کہ جاہل مشرکوں میں سے ایک جماعت کیا کرتی تھی۔

وأعظم من ذلك: أن يسجد لقبره ويصلي إليه، ويرى الصلاة أفضل من استقبال القبلة، حتى يقول بعضهم: هذه قبلة الخواص، والكعبة قبلة العوام..

اور اس سے بھی بڑھ کر یہ ہے کہ : وہ اس کی قبر کو سجدہ کرے اور اس کی طرف نماز پڑھے اور اس نماز کو قبلہ رو ہونے افضل سمجھے، یہاں تک کہ ان میں سے بعض تو یہ کہتے ہیں کہ "یہ خواص کا قبلہ ہے اور کعبہ عوام کا قبلہ ہے"،

وأعظم من ذلك: أن يرى السفر إليه من جنس الحج، حتى يقول: (إن السفر إليه مرات يعدل حجة)، وغلاتهم يقولون: (الزيارة إليه مرة أفضل من حج البيت مرات متعددة)، ونحو ذلك؛ فهذا شـرك بهم، وإن كان يقع كثير من الناس في بعضه..

اور اس سے بڑھ کر یہ ہے کہ وہ اس کی طرف حج کی طرح سفر کریں یہاں تک کہ یہ بھی کہہ دیں کہ "اس کی طرف سفر کرنا کئی مرتبہ حج کرنے کے برابر ہے"، جبکہ ان میں غلو کرنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ "اس کے دیدار کے لیے ایک مرتبہ سفر کرنا بیت اللہ کے کئی بار حج کرنے سے افضل ہے"، اور اسی طرح کی دیگر باتیں، پس یہ ان کا شرک ہے، اگر چہ اس میں بہت سے لوگ کسی نہ کسی صورت میں مبتلا ہیں۔

  • دوسرا درجہ :
أن يقال للميت أو الغائب من الأنبياء والصالحين: ادع الله لي، أو ادع لنا ربك، أو اسأل الله لنا؛ كما تقول النصارى لمريم وغيرها؛ فهذا أيضا لا يستريب عالم أنه غير جائز، وأنه من البدع التي لم يفعلها أحد من سلف الأمة...

انبیاء یا نیک لوگوں میں سے کسی مردہ یا غائب سے یہ کہا جائے کہ میرے لیے اللہ سے دعا کرو یا ہمارے لیے اپنے رب سے دعا کرو، یا ہمارے لیے اللہ سے سوال کرو، جیسا کہ عیسائی، مریم علیہ السلام اور ان کے ماسوا لوگوں سے کہتے ہیں، پس اس میں بھی کسی عالم کو کوئی شک نہیں ہے کہ یہ ناجائز ہے، اور یہ ان بدعات میں سے ہے کہ جن کا امت کے اسلاف میں سے کسی نے ارتکاب نہیں کیا۔

فعلم أنه لا يجوز أن يسأل الميت شيئا: لا يطلب منه أن يدعو الله له ولا غير ذلك، ولا يجوز أن يشكى إليه شـيء من مصائب الدنيا والدين؛ ولو جاز أن يشكى إليه ذلك في حياته؛ فإن ذلك في حياته لا يفضـي إلى الشـرك، وهذا يفضـي إلى الشـرك..


پس معلوم ہوا کہ میت سے کسی چیز کا سوال کرنا جائز نہیں ہے، نہ تو اس سے یہ تقاضہ کیا جائے گا کہ وہ اس کے لیے اللہ سے دعا مانگے اور نہ ہی اس کے علاؤہ کسی اور چیز کا، اور نہ ہی دین و دنیا کی مشکلات میں سے کسی چیز کی اس سے شکایت کرنا جائز ہے، اگر چہ اس کی زندگی میں اس سے یہ شکوہ شکایت کرنا جائز ہے لیکن یہ اس کی زندگی میں ہے، جو کہ شرک کا سبب نہیں بنتا ہے، جبکہ یہ چیز شرک کا سبب بنتی ہے۔
  • تیسرا درجہ :
أن يقال: أسألك بفلان أو بجاه فلان عندك ونحو ذلك الذي تقدم عن أبي حنيفة وأبي يوسف وغيرهما أنه منهي عنه

یوں کہا جائے کہ میں تجھ سے فلاں کے واسطے سے سوال کرتا ہوں، یا یہ کہ تیرے حضور فلاں کی شان کے واسطے سے سوال کرتا ہوں، اور اسی طرح کے دیگر اقوال، تو اس بارے میں ابو حنیفہ اور ابو یوسف رحمہما اللہ اور آپ کے ماسوا دیگر کا موقف گزر چکا کہ یہ ممنوع ہے۔ (آپ رحمہ اللہ کی بات ختم ہوئی)

[مجموع الفتاویٰ، ۱/۳۵۰ بتصرف]

فلحال ہم اسی پر اکتفاء کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے توفیق، مدد اور درستی کا سوال کرتے ہیں۔

وَصَّلىَ اللهُ وَسَلَّمَ وَبَارَكَ عَلَى عَبْدِهِ وَرَسُوْلِهِ مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِهِ وَصَحْبِهِ وَسَلَّمَ تَسْلِيْماً َكَثِيْراً....

وَآخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ۔
 
Top