• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تہذیب الکمال میں حافظ مزی کا بالجزم روایت کرنا

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,581
پوائنٹ
384
اسلام علیکم،

حالانکہ اس مسئلے پر شیخ کفایت اللہ سے تھوڑی سی بات ہوئی تھی لیکن اس بار مجھے کامل جواب چاہیے کیونکہ یہ جواب میرے لیے نہیں بلکہ دیوبندی اور بریلویوں کے لیے ہے۔ اس لیے اگر ہو سکے تو انہی کہ اصولوں کے مطابق جواب دیں۔

امام مزی نے تہذیب الکمال کے مقدمہ میں فرمایا:

وما لم نذكر إسناده فيما بيننا وبين قائله: فما كان من ذلك بصيغة الجزم، فهو مما لا نعلم بإسناده عن قائله المحكي ذلك عنه بأسًا

یعنی جو روایات وہ جزم کے ساتھ روایت کریں گے ان کی اسناد میں کوئی خرابی نہیں۔

اس کا جواب جلد سے جلد ارسال فرمائیں جزاک اللہ خیرا
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,810
پوائنٹ
773
امام مزی رحمہ اللہ کے مذکورہ قول سے یہ بات واضح طور پر ثابت ہوتی ہے کہ محدثین جرح وتعدیل کے اقوال کی سندوں کی بھی تحقیق کرتے تھے ۔
لہٰذا جرح وتعدیل کے اقوال تبھی قابل حجت ہوسکتے ہیں جب وہ اپنے قائل سے باسند صحیح ثابت ہوں یا قائل کی اپنی کتاب میں موجود ہوں ۔


لہٰذا دیوبندیوں اوربریلوں کا جرح وتعدیل سے متعلق بے سند اقوال یا غیرثابت اقوال سے احتجاج کرنا محدثین کے منہج کے سراسر خلاف ہے۔
چنانچہ ابوحنیفہ کی بات آتی ہے تو دیوبندی اور بریلوی بے سند اور غیرثابت اقوال بلکہ من گھڑت اقوال ہی کاسہارا لے کر ابوحنیفہ کے جھوٹے مناقب بیان کرتے ہیں، اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
علق عليه محققه بثلاث صفحات ملؤها قلب الخقائق ، والاحتجاج بما لم يصح من أقوال الأئمة ، والإعراص عن أقوالهم الثابتة عنهم في الإمام رحمه الله[سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة وأثرها السيئ في الأمة 7/ 294]۔
یعنی ابن حبان کی کتاب مجروحین کے محقق نے ابوحنیفہ کے تذکرہ والے مقام پر تین صفحات کی تعلیق چڑھائی ہے جو حقائق کے توڑ مروڑ سےپر ہے ، نیز اس میں ابوحنیفہ سے متعلق ائمہ کے ان اقوال سے احتجاج کیا گیا ہے جو ثابت ہی نہیں اور اوران کے جوثابت اقوال تھے انہیں نظر انداز کردیا گیا ۔

الغرض یہ کہ امام مزی رحمہ اللہ کا مذکورہ قول اس بات پردلالت کرتاہے کہ جرح وتعدیل میں بھی بے سند یاغیرثابت اقوال سے احتجاج کرنا درست نہیں ہے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,810
پوائنٹ
773
’’لیس به باس‘‘ اور ’’لا اعلم به باس‘‘ میں فرق


امام مزی رحمہ اللہ کے مذکورہ قول سے یہ تو ضرور معلوم ہوتا ہے کہ جرح وتعدیل کے اقوال کی سند بھی قابل تحقیق ہوتی ہے لیکن انہوں نے اپنے قول میں یہ صراحت نہیں کی ہے کہ اپنی کتاب میں انہوں نے بالجزم جو اقوال نقل کئے ہیں وہ صحیح ہے۔

کیونکہ امام مزی رحمہ اللہ نے ’’لا اعلم به باس‘‘ کی بات کہی ہے ۔
اس سے زیادہ سے زیادہ صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ امام مزی رحمہ اللہ کو ان سندوں میں کوئی حرج والی بات معلوم نہیں ، لیکن اس کایہ مطلب نہیں کہ امام مزی یہ حکم لگارہے ہیں کہ ان سندوں میں کوئی خرابی ہے ہی نہیں کیونکہ امام مزی رحمہ اللہ نے ایسا حکم نہیں لگایا ہے کیونکہ جب اس طرح کا حکم لگانا ہوتا ہے تو ’’لا اعلم به باس‘‘ کے بجائے ’’لیس به باس‘‘ کہا جاتاہے۔

’’لیس به باس‘‘ کا مطلب اس میں کوئی حرج نہیں ، یعنی یہ صیغہ استعمال کرنے والا اپنی تحقیق پیش کرتا ہے کہ اس نے چھان بین کی اوراس کی تحقیق میں کوئی حرج والی بات نہ ملی اس لئے اس نے فیصلہ دے دیا کہ ’’لیس به باس‘‘ یعنی اس میں کوئی حرج نہیں ۔

لیکن ’’ لا اعلم به باس‘‘ کا صیغہ اس بات پر دلالت نہیں کرتا کہ اس کے کہنے والے نے پوری تحقیق اورچھان بین کی ہے بلکہ اس سے صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایسا کہنے والے کے علم میں کوئی حرج والی بات نہیں ملی یعنی وہ اپنے سرسری مطالعہ کے پیش نظر اپنی معلومات پیش کرتا ہے ۔

ان دونوں عبارتوں میں فرق کی دلیل ، اپنے علم اورعدم علم کی قید ہے۔
’’لیس به باس‘‘ کا صیغہ استعمال کرنے والا اپنے علم کی قید نہیں لگاتا بلکہ بغیرقید کے یہ فیصلہ دیتا ہے گویا کہ اسے مکمل تحقیق کے بعد یقین ہوتاہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں ، چاہے وہ تحقیق کرے یا کوئی دوسرا تحقیق کرے ۔
جبکہ ’’لا اعلم به باس‘‘ کے صیغہ سے فیصلہ کرنے والا ، محض اپنی معلومات کی قید لگاتا ہے جو اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اس کے سرسری مطالعہ کی حد تک اس میں کوئی حرج نہیں لیکن چونکہ اس نے مکمل تحقیق نہیں کی ہوتی ہے اس لئے وہ حرج کی مطلق نفی بھی نہیں کرتا بلکہ نفی کو اپنی معلومات سے مقید کرتاہے۔

علامہ المحدث المقبل الوداعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
الفرق بين العبارتين ، ’’ليس به باس‘‘ و ’’ لا اعلم به باس‘‘ ان الاولي ارفع من الثانيه ، لان الثانية يحتمل ان به باسا لا يعلم به هذا القائل[ بشائر الفرح :ص: ٩٧].


لہٰذا امام مزی رحمہ اللہ نے نہ تو متعلقہ اقوال کی سندوں کو صحیح کہا اورنہ ہی یہ دعوی کیا ہے کہ ان سندوں میں کوئی حرج نہیں بلکہ انہوں نے صرف اپنی معلومات پیش کی ہے اورکوئی تحقیقی بات نہیں کہی ہے۔
اس لئے امام مزی رحمہ اللہ کے مذکورہ قول کو بنیاد بناکریہ کہنا کہ ان سندوں میں کوئی خرابی نہیں ہے یہ ایک ایسا دعوی ہے جسے خود امام مزی رحمہ اللہ نے بھی پیش نہیں کیا ، اس لئے امام مزی رحمہ اللہ کے حوالہ سے ایسا دعوی پیش کرنا امام مزی رحمہ اللہ پربہتان ہے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,810
پوائنٹ
773
بالفرض امام مزی رحمہ اللہ نے اسانید کی مطلق تحسین یا تصحیح ہی کی تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


اگر ہم یہ فرض بھی کرلیں کہ امام مزی رحمہ اللہ نے بالجزم پیش کردہ پیش کردہ اقوال کی اسانید کی تحقیق کی ہے اوراسے حسن یا صحیح کہا ہے تو اس بنیاد پر زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتاہے کہ امام مزی رحمہ اللہ کی تحقیق میں میں یہ اسانید صحیح ہیں ۔
اس کا یہ مطلب تو نہیں دیگرمحدثین و محققین کی نظر میں بھی اس کی اسانید صحیح ہوں۔

اس لئے اگرکسی کی تحقیق میں کسی قول کی سند ضعیف ثابت ہوئی تو اس پر لازم ہے کہ امام مزی رحمہ اللہ کی تحقیق کورد کردے ۔
بالکل ایسے ہی جس طرح امام ابن حبان ، امام ابن خزیمہ اوردیگرصحاح کے مصنفین کے فیصلہ کو ہرکوئی دوسری تحقیق کی بنیاپر رد کرتا پھر تاہے۔

چنانچہ یہ عام بات ہے کہ :
امام ابن حبان نے اپنی صحیح میں درج احادیث کو صحیح قرار دیا ہے۔
اسی طرح امام ابن خزیمہ نے بھی اپنی صحیح میں درج احادیث کو صحیح قراردیا ہے۔
اسی طرح اوربھی ائمہ نے اپنی بعض کتب کی مرویات پر صحت کا حکم لگایا ہے یا اس کی طرف اشارہ کیا ہے ۔


تو کیا یہ دعوی کردیا جائے کہ ان تمام کتابوں میں جتنی بھی احادیث ہیں سب کی اسانید صحیح ہیں اوران میں کوئی خرابی ہے ہی نہیں؟؟؟؟؟
اورکیا کوئی ایسا شخص ہے جو ان کتابون میں درج تمام سندوں کو صحیح مانتاہے ؟؟؟؟ اگر نہیں تو پھر امام مزی رحمہ اللہ کی تہذیب الکمال ہی سے متعلق یہ طرزعمل کیوں؟؟؟؟؟؟

اسی طرح امام بيهقي رحمه الله (المتوفى458) نے کہا:
وعادتي في كتبي المصنفة في الأصول والفروع الاقتصار من الأخبار على ما يصح منها دون ما لا يصح أو التمييز بين ما يصح منها ومالا يصح ليكون الناظر فيها من أهل السنة على بصيرة مما يقع الاعتماد عليه لا يجد من زاغ قلبه من أهل البدع عن قبول الأخبار مغمزاً فيما اعتمد عليه أهل السنة من الآثار [دلائل النبوة ـ للبيهقى موافقا للمطبوع 1/ 47]۔

توکیا یہ دعوی کردیائے کہ امام بیہقی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب میں جس روایت کو بھی نقل کرکے اسے ضعیف نہیں کہا یااس کے معارض کوئی روایت نہیں پیش کی وہ سب روایات صحیح ہیں؟؟


نیز حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی فتح الباری بھی دیکھیں اس میں حافظ موصوف نے جومرویات نقل کی ہیں ان کے بارے میں خود فرماتے ہیں:
افتتحت شرح الْكتاب مستعينا بالفتاح الْوَهَّاب فأسوق إِن شَاءَ الله الْبَاب وَحَدِيثه أَولا ثمَّ أذكر وَجه الْمُنَاسبَة بَينهمَا أَن كَانَت خُفْيَة ثمَّ أستخرج ثَانِيًا مَا يتَعَلَّق بِهِ غَرَض صَحِيح فِي ذَلِك الحَدِيث من الْفَوَائِد المتنية والاسنادية من تتمات وزيادات وكشف غامض وتصريح مُدَلّس بِسَمَاع ومتابعة سامع من شيخ اخْتَلَط قبل ذَلِك منتزعا كل ذَلِك من أُمَّهَات المسانيد والجوامع والمستخرجات والأجزاء والفوائد بِشَرْط الصِّحَّة أَو الْحسن فِيمَا أوردهُ من ذَلِك[فتح الباري لابن حجر: 1/ 4]۔

توکیا ہے یہ کہہ دیا جائے کہ فتح الباری میں جتنی روایات پر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے سکوت اختیار کیا ہے ان سب کی اسانید میں کوئی خرابی نہیں ؟؟؟؟؟؟
ہرگز نہیں بلکہ زیادہ سے زیادہ صرف یہ کہا جاسکتا ہے کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی تحقیق میں یہ روایات صحیح یا حسن ہیں نہ کو دوسرے تمام محدثین ومحقیقین ک نظر میں بھی ۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,810
پوائنٹ
773
تضاد



لطف کی بات یہ ہے کہ امام مزی کے مذکورہ قول سے ، سندوں میں عدم خرابی کا دعوی اس وقت کیا جاتا ہے جب اپنے مطلب کی بات ہوتی ہے ورنہ جہاں اپنا کام بگڑتاہے وہاں یہ اصول توڑ دیا جاتا ہے اورامام مزی رحمہ اللہ کی طرف بالجزم ذکر کردہ قول کو بھی رد کردیا جاتاہے ،حتی کی امام مزی اگرکسی کتاب سے کوئی قول نقل کریں تو اسے بھی رد کردیا جاتاہے۔

مثلا بیس رکعات سے متعلق یزید بن خصیفہ سے متعلق امام احمد کی جرح ’’منکرالحدیث “ کا انکار کیا جاتاہے حالانکہ امام مزی رحمہ اللہ نے اسے بالجزم ابوعبید سے نقل کرتے ہوئے کہا:

وَقَال أبو عُبَيد الآجري ، عَن أبي داود : قال أحمد : منكر الحديث[تهذيب الكمال للمزي: 32/ 173 وابوعبید لایعرف لکن المخالفون یحتجون بہ]۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,810
پوائنٹ
773
آخری بات




خلاصہ کلام یہ کہ جرح وتعدیل کے اقوال کا بھی ثابت شدہ ہونا ضروری ہے ۔

امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748):
وقال الازدي: قال ابن معين: ضعيف، كذا نقله أبو العباس النباتي ولم يسنده الازدي عن يحيى، فلا عبرة بالقول المنقطع[ميزان الاعتدال للذهبي: 3/ 416]۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
''ونقل ابن الجوزی من طریق الکُدیْمی عن ابن المدینی عن القطان أنہ قال:أنا لا أروی عنہـیعنی أبان بن یزید العطارـ و ہذا مردود لأن الکُدیْمی ضعیف''[هدي الساري:ص٣٨٧،وانظر:ضوابط الجرح والتعديل:ص٣٨،وانظر:التنکيل :ص٥٤].

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
''لا یغترّ أحد بالحکایة المرویة فی توثیقہ عن ابن مہدی؛ فنہا من روایة سلیمان بن أحمد وہو الواسطی وہو کذاب'' [تهذيب التهذيب:٨/٢٦٢،وانظر:ضوابط الجرح والتعديل:٣٩].

ذہبی عصرعبدالرحمن المعلمی فرماتے ہیں:
''اذاوجد فی الترجمة کلمة جرح أوتعدیل منسوبة الی بعض الائمة فلینطرأثابتہ ہی عن ذالک الامام أم لا''[التنکيل بمافي تانيب لکوثري من الاباطيل:ص٢٥٠،ط.المکتب الاسلامي].

ضوابط الجرح والتعدیل کے مؤلف فرماتے ہیں:
''لا عبرة بجرح لم يصح إسناده إلي الإِمام المحکي عنه''[ضوابط الجرح والتعديل:ص38].

مزید فرماتے ہیں فرماتے ہیں:
''لا یُقبل توثیق لم یصح سنادہ لی المام المحکی عنہ''[ضوابط الجرح والتعديل:ص٣٩].

مزید فرماتے ہیں فرماتے ہیں:
''لا عبرة بجرح لم يصح إسناده إلي الإِمام المحکي عنه''[ضوابط الجرح والتعديل:ص38].
 
Top