بالفرض امام مزی رحمہ اللہ نے اسانید کی مطلق تحسین یا تصحیح ہی کی تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر ہم یہ فرض بھی کرلیں کہ امام مزی رحمہ اللہ نے بالجزم پیش کردہ پیش کردہ اقوال کی اسانید کی تحقیق کی ہے اوراسے حسن یا صحیح کہا ہے تو اس بنیاد پر زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتاہے کہ امام مزی رحمہ اللہ کی تحقیق میں میں یہ اسانید صحیح ہیں ۔
اس کا یہ مطلب تو نہیں دیگرمحدثین و محققین کی نظر میں بھی اس کی اسانید صحیح ہوں۔
اس لئے اگرکسی کی تحقیق میں کسی قول کی سند ضعیف ثابت ہوئی تو اس پر لازم ہے کہ امام مزی رحمہ اللہ کی تحقیق کورد کردے ۔
بالکل ایسے ہی جس طرح امام ابن حبان ، امام ابن خزیمہ اوردیگرصحاح کے مصنفین کے فیصلہ کو ہرکوئی دوسری تحقیق کی بنیاپر رد کرتا پھر تاہے۔
چنانچہ یہ عام بات ہے کہ :
امام ابن حبان نے اپنی صحیح میں درج احادیث کو صحیح قرار دیا ہے۔
اسی طرح امام ابن خزیمہ نے بھی اپنی صحیح میں درج احادیث کو صحیح قراردیا ہے۔
اسی طرح اوربھی ائمہ نے اپنی بعض کتب کی مرویات پر صحت کا حکم لگایا ہے یا اس کی طرف اشارہ کیا ہے ۔
تو کیا یہ دعوی کردیا جائے کہ ان تمام کتابوں میں جتنی بھی احادیث ہیں سب کی اسانید صحیح ہیں اوران میں کوئی خرابی ہے ہی نہیں؟؟؟؟؟
اورکیا کوئی ایسا شخص ہے جو ان کتابون میں درج تمام سندوں کو صحیح مانتاہے ؟؟؟؟ اگر نہیں تو پھر امام مزی رحمہ اللہ کی تہذیب الکمال ہی سے متعلق یہ طرزعمل کیوں؟؟؟؟؟؟
اسی طرح امام بيهقي رحمه الله (المتوفى458) نے کہا:
وعادتي في كتبي المصنفة في الأصول والفروع الاقتصار من الأخبار على ما يصح منها دون ما لا يصح أو التمييز بين ما يصح منها ومالا يصح ليكون الناظر فيها من أهل السنة على بصيرة مما يقع الاعتماد عليه لا يجد من زاغ قلبه من أهل البدع عن قبول الأخبار مغمزاً فيما اعتمد عليه أهل السنة من الآثار [دلائل النبوة ـ للبيهقى موافقا للمطبوع 1/ 47]۔
توکیا یہ دعوی کردیائے کہ امام بیہقی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب میں جس روایت کو بھی نقل کرکے اسے ضعیف نہیں کہا یااس کے معارض کوئی روایت نہیں پیش کی وہ سب روایات صحیح ہیں؟؟
نیز حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی فتح الباری بھی دیکھیں اس میں حافظ موصوف نے جومرویات نقل کی ہیں ان کے بارے میں خود فرماتے ہیں:
افتتحت شرح الْكتاب مستعينا بالفتاح الْوَهَّاب فأسوق إِن شَاءَ الله الْبَاب وَحَدِيثه أَولا ثمَّ أذكر وَجه الْمُنَاسبَة بَينهمَا أَن كَانَت خُفْيَة ثمَّ أستخرج ثَانِيًا مَا يتَعَلَّق بِهِ غَرَض صَحِيح فِي ذَلِك الحَدِيث من الْفَوَائِد المتنية والاسنادية من تتمات وزيادات وكشف غامض وتصريح مُدَلّس بِسَمَاع ومتابعة سامع من شيخ اخْتَلَط قبل ذَلِك منتزعا كل ذَلِك من أُمَّهَات المسانيد والجوامع والمستخرجات والأجزاء والفوائد بِشَرْط الصِّحَّة أَو الْحسن فِيمَا أوردهُ من ذَلِك[فتح الباري لابن حجر: 1/ 4]۔
توکیا ہے یہ کہہ دیا جائے کہ فتح الباری میں جتنی روایات پر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے سکوت اختیار کیا ہے ان سب کی اسانید میں کوئی خرابی نہیں ؟؟؟؟؟؟
ہرگز نہیں بلکہ زیادہ سے زیادہ صرف یہ کہا جاسکتا ہے کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی تحقیق میں یہ روایات صحیح یا حسن ہیں نہ کو دوسرے تمام محدثین ومحقیقین ک نظر میں بھی ۔