• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تین امور سے ناپسندیدگی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
تین امور سے ناپسندیدگی

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( إِن َّاللّٰہَ کَرِہَ لَکُمْ ثَـلَاثًا قِیْلَ وَقَالَ، وَإِضَاعَۃَ الْمَالِ، وَکَثْرَۃَ السُّؤَالِ۔))1
’’ بے شک اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے تین امور کو ناپسند کیا ہے قیل وقال (سنی سنائی ہانکنا)، مال کو ضائع کرنا، کثرت سوال۔ ‘‘
(۱)… قیل و قال…: ایسی کلام کی زیادتی مراد ہے جو بے فائدہ ہو اور لوگوں کے لا یعنی احوال اور تصرف کی حکایات اور خبروں میں غورو خوض کرنا، نیز ان باتوں کی زیادتی بھی مراد ہے جنہیں لوگ بغیر تدبر و تحقیق اور پختگی کے کہتے چلے جاتے ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
(( بِئْسَ مَطِیّْۃُ الرَّجُلِ زَعَمُوْا۔))2
’’ آدمی کی زعموا (لوگوں نے گمان کیا) کہنے کی عادت بری ہے۔ ‘‘
زعم، ظن کے قریب قریب ہے۔ آدمی کی یہ عادت بہت ہی بری ہے کہ لفظ ’’زَعَمُوْا‘‘ کو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرے اور بغیر یقین و پختگی کے محض تقلید کرتے ہوئے کسی معاملہ کی خبر دے دیتا اور خطا کھاجاتا ہے اور اس سے جھوٹ بولنے کا فعل سرزد ہوجاتا ہے۔ بے بنیاد اور اندازوں والی خبریں دینا قبیح حرکت ہے، بلکہ خبر کے لیے کوئی سند اور دلیل ہونی چاہیے اور یقین ہونا چاہیے، محض ظن اور گمان کی بناء پر حکایت نہ ہو۔
مشہور ضرب المثل ہے: ’’ زعموا جھوٹ کی سواری ہے۔ ‘‘ مذکورہ حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اخبار کو نقل نہ کرنے کے وجوب پر متنبہ کیا ہے کیونکہ اس طرح پردے پھٹتے اور راز کھلتے ہیں اور اچھے انسانوں کی یہ عادت نہیں۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1- أخرجہ البخاري في کتاب الزکاۃ، باب: قول اللّٰہ تعالی: {لَا یَسْئَلُوْنَ النَّاسَ إِلْحَافًا}، رقم : ۱۴۷۷۔
2- صحیح سنن أبي داود، رقم : ۴۱۵۸۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
آدمی کے اسلام کی خوبی میں سے بے مقصد اشیاء کو چھوڑنا بھی ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ پردہ پوشی کرنے والے ہیں اور بکثرت خبریں نشر کرنے سے پردہ پوشی نہیں ہوتی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ فَـلَا یُؤْذِ جَارَہٗ، وَمَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ فَلْیُکْرِم ضَیْفَہُ، وَمَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ فَلْیَقُلْ خَیْرًا أَوْ لِیَصْمُتْ۔ ))1
’’جو کوئی اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ ہمسائے کو تکلیف نہ دے۔ اور جو کوئی اللہ عزوجل اور آخرت پر ایمان لاتا ہے اسے مہمانوں کی عزت افزائی کرنی چاہیے۔ جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے وہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے۔ ‘‘
انسان کو چاہیے کہ حرام یا مکروہ اور بے فائدہ باتوں سے اپنی زبان کو کنٹرول میں رکھے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
{لَا خَیْرَ فِیْ کَثِیْرٍ مِّنْ نَّجْوٰھُمْ إِلاَّ مَنْ أَمَرَ بِصَدَقَۃٍ اَوْ مَعْرُوْفٍ أَوْ اِصْلَاحٍ بَیْنَ النَّاسِط} [النساء: ۱۱۴]
’’ ان کے اکثر مصلحتی مشورے بے خیر ہیں۔ ہاں! بھلائی اس کے مشورے میں ہے جو خیرات کا یا نیک بات کا یا لوگوں میں صلح کرانے کا حکم کرے۔ ‘‘
معروف: ہر اس کام کو کہتے ہیں، جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہو یا نیکی اور بھلائی کے اعمال کو جس کا نمائندہ مقرر کیا ہو۔ اللہ تعالیٰ کی درج بالا بیان کردہ مصالح کے علاوہ جتنی بھی اشیاء ہیں اکثر میں کلام کرنا بے فائدہ ہوتا ہے اور اس سے رک جانا سنت ہے۔
(۲) …مال کو ضائع کرنا…: یعنی غیر شرعی وجوہ میں مال صرف کرنا اور ناحق فضول خرچی کرنا یا عمدہ و لذیذ کھانے و مشروبات اور نفیس کپڑوں اور سواریوں اور زیب و زینت اور بنگلوں میں آرائش کرنے میں اسراف کرنا اور اس کے علاوہ ان کاموں میں مال خرچ کرنا جن کے ذریعہ رب تعالیٰ سے ہٹنے کے علاوہ طبیعت اور دل میں سختی پیدا ہوتی ہے۔ مال کو تلف کرنے سے اس لیے منع کیا گیا ہے کہ یہ فساد ڈالتا ہے اور رب تعالیٰ فسادیوں کو پسند نہیں کرتا، کیونکہ جب کوئی اپنا مال ضائع کرے گا تو پھر وہ لوگوں کے مال کے درپے ہوگا اور چھیننے کی کوشش کرے گا۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1-أخرجہ البخاري في کتاب الأدب، باب: من کان یؤمن باللّٰہ والیوم الآخر فلا یؤذ جارہ، رقم: ۶۰۱۹۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
{وَئَ اتِ ذَا الْقُرْبٰی حَقَّہٗ وَالْمِسْکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًا o إِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ کَانُوْٓا إِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِ وَکَانَ الشَّیْطٰنُ لِرَبِّہٖ کَفُوْرًا o} [الاسراء: ۲۶۔ ۲۷]
’’ اور رشتے داروں کا اور مسکینوں اور مسافروں کا حق ادا کرتے رہو اور اسراف اور بیجا خرچ سے بچو۔ بے جا خرچ کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے پروردگار کا بڑا ہی ناشکرا ہے۔ ‘‘
جس انسان نے ضرورت سے زائد خواہشات میں اپنا مال صرف کیا اور ختم کرنے کے درپے ہوگیا تو وہ فضول خرچ ہے اور جس نے ایک پائی بھی حرام میں خرچ کی تو وہ بھی بے جا خرچ کرنے والا ہے۔ فرمایا:
{وَلَا تُؤْتُوا السُّفَھَآئَ اَمْوَالَکُمُ ط} [النساء: ۵]
’’ اور بیوقوفوں کو اپنے اموال مت دو۔ ‘‘
یہ حکم ہر مرد عورت اور چھوٹے بڑے بیوقوف کے متعلق عام ہے۔
بیوقوف وہ ہے جو مال کو اپنی بری تدبیر کے ساتھ ضائع اور خراب کرلیتا ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے کہ تیرا وہ مال جو تیری گزران کا سبب ہے اسے اپنی بیوی بچوں کے سپرد نہ کر کہ تو فقیر ہو کر بیٹھ جائے اور ان کی طرف اور جو ان کے ہاتھوں میں ہے دیکھتا رہے بلکہ تو خود ہی ان پر خرچ کر۔ اس قول سے معلوم ہوا کہ عورتیں اور چھوٹے بچے بیوقوف ہیں۔
جس بیوقوف سے مال کے ضائع ہونے کا ڈر ہے شریعت نے اس کو مال کے تصرف سے روکنے کی اجازت دی ہے۔
بیوقوف کی کئی حالتیں ہیں:
(۱) کم عمری، (۲) پاگل پن اور (۳) کم عقلی۔
کہا گیا ہے: مال کو ضائع کرنے کی یہ صورت بھی ہے کہ اپنا مال نقصان والی جگہوں پر دے یا ایسے وکیل کے سپرد کرے جسے تجارت کرنے کا طریقہ نہیں آتا، جو فاسد اور صحیح، حرام اور حلال بیوع سے جاہل ہے یا وہ اپنا مال کفار کے سپرد کردے۔ اسی لیے علماء نے ذمی کو خرید و فروخت کا وکیل بنانا اور مضاربت کے لیے اسے مال دینا ناپسند کیا ہے۔
(۳)… کثرت سوال: بغیر ضرورت کے فضول قسم کے سوالات کی کثرت مراد ہے۔ سلف اسی حرکت کو ناپسند کرتے اور ممنوع تکلف شمار کرتے ہیں۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایسے سوالات کو مکروہ سمجھا اور عیب دار جانا ہے۔ بعض کے نزدیک لوگوں سے اشیاء اور مال طلب کرنا مراد ہے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حرکت سے بھی منع فرمایا ہے۔
یہ بھی کہا گیا ہے کہ مراد، انسان سے اس کے حالات اور اس کے معاملات کی تفصیل کے متعلق زیادہ سوالات کرنے ہیں چنانچہ فضول قسم کے سوالات بھی اس میں شامل ہوجاتے ہیں اور اس سے مسئول کو تنگی محسوس ہوتی ہے۔ بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں جو سائل کو بتانے والی نہیں ہوتی لہٰذا اگر بتائے گا تو دشواری کا خطرہ ہے اور اگر جھوٹ وغیرہ کا سہارا لے گا تو تب بھی مشکلات میں گھرنے کا اندیشہ ہے اور اگر جواب مہمل دے گا تو سوء ادب کا مرتکب ہوتا ہے۔
یہ معنی بھی کیا گیا ہے کہ شریعت نے جن امور کو غیب کے زمرہ میں شامل کیا ہے اور ان کی کیفیت جانے بغیر ان پر ایمان لانا ضروری قرار دیا ہے، ان کے متعلق کرید کرنا مراد ہے۔ ان امور میں سے بعض درج ذیل ہیں: ایسی چیز کے متعلق سوال کرنا جس کے لیے عالم حس میں کوئی شاہد نہیں مثلاً قیامت کے وقت، روح اور اس امت کی مدت و عمر کے متعلق سوالات کرنا اس قسم کی دیگر اشیاء کے متعلق پوچھنا جن کا تعلق محض نقل کے ساتھ ہے، ایسے امور میں کثرت سے سوالات کرنا۔ بھی کوئی چیز ثابت نہیں کرسکتا، لہٰذا بغیر کرید کے ان پر ایمان لانا واجب ہے۔ سب سے سخت ترین وہ سوالات ہیں جن کی کثرت شک اور حیرت میں مبتلا کردے۔1
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1- شرح مسلم للنوی، ص: ۱۱، ۱۲۔ فتح الباری، ص: ۲۶۷؍۱۳۔

اللہ تعالی کی پسند اور ناپسند
 
Top