- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,582
- ری ایکشن اسکور
- 6,747
- پوائنٹ
- 1,207
تین امور سے ناپسندیدگی
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( إِن َّاللّٰہَ کَرِہَ لَکُمْ ثَـلَاثًا قِیْلَ وَقَالَ، وَإِضَاعَۃَ الْمَالِ، وَکَثْرَۃَ السُّؤَالِ۔))1
’’ بے شک اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے تین امور کو ناپسند کیا ہے قیل وقال (سنی سنائی ہانکنا)، مال کو ضائع کرنا، کثرت سوال۔ ‘‘
(۱)… قیل و قال…: ایسی کلام کی زیادتی مراد ہے جو بے فائدہ ہو اور لوگوں کے لا یعنی احوال اور تصرف کی حکایات اور خبروں میں غورو خوض کرنا، نیز ان باتوں کی زیادتی بھی مراد ہے جنہیں لوگ بغیر تدبر و تحقیق اور پختگی کے کہتے چلے جاتے ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
(( بِئْسَ مَطِیّْۃُ الرَّجُلِ زَعَمُوْا۔))2
’’ آدمی کی زعموا (لوگوں نے گمان کیا) کہنے کی عادت بری ہے۔ ‘‘
زعم، ظن کے قریب قریب ہے۔ آدمی کی یہ عادت بہت ہی بری ہے کہ لفظ ’’زَعَمُوْا‘‘ کو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرے اور بغیر یقین و پختگی کے محض تقلید کرتے ہوئے کسی معاملہ کی خبر دے دیتا اور خطا کھاجاتا ہے اور اس سے جھوٹ بولنے کا فعل سرزد ہوجاتا ہے۔ بے بنیاد اور اندازوں والی خبریں دینا قبیح حرکت ہے، بلکہ خبر کے لیے کوئی سند اور دلیل ہونی چاہیے اور یقین ہونا چاہیے، محض ظن اور گمان کی بناء پر حکایت نہ ہو۔
مشہور ضرب المثل ہے: ’’ زعموا جھوٹ کی سواری ہے۔ ‘‘ مذکورہ حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اخبار کو نقل نہ کرنے کے وجوب پر متنبہ کیا ہے کیونکہ اس طرح پردے پھٹتے اور راز کھلتے ہیں اور اچھے انسانوں کی یہ عادت نہیں۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1- أخرجہ البخاري في کتاب الزکاۃ، باب: قول اللّٰہ تعالی: {لَا یَسْئَلُوْنَ النَّاسَ إِلْحَافًا}، رقم : ۱۴۷۷۔
2- صحیح سنن أبي داود، رقم : ۴۱۵۸۔