• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تین تین ! تین ایک!

غازی

رکن
شمولیت
فروری 24، 2013
پیغامات
117
ری ایکشن اسکور
183
پوائنٹ
90
تین تین ! تین ایک!
شعبان بیدار

طلاق گھریلو معاشرے کی خرابیوں کو ایک خاص حد سے آگے نہیں بڑھنے دیتا اس طرح طلاق ایک ذریعہ ہے آپسی فساد کو فساد عظیم بننے سے روکنے کا ۔ یعنی طلاق کو توڑ کا ذریعہ سمجھنا اور خالص ایک منفی زاویئے سے دیکھنا اور سمجھنا صحیح طرز فکر نہیں ہے ۔ اتحاد واتفاق کی باقی ماندہ صورتیں بھی متأثر نہ ہوجائیں طلاق اسی اندیشے کورفع کرتا ہے البتہ جوڑ کا یہ سسٹم جو فی الواقع محمود نہیں ہے اس وقت قابل قدر قرار دیا گیا ہے جب استواری کے دیگر ذرائع فیل ہو چکے ہوں ۔
ہر چند کہ طلاق ایک گہرے رشتے کو توڑ دیتا ہے اور ٹوٹ پھوٹ کا خمیازہ کئی کئی نفسوں کو بھگتنا پڑتا ہے ۔ ایک ایسا تعلق جو الفت ومحبت کی پاکیزہ بنیادوں پر قائم ہوا تھا طلاق کاچھوٹا سا لفظ اس تعلق کو تارتار کر دیتا ہے اور حضرت شیطان پانی کے عرش پر مارے خوشی کے ہاتھ پاؤں مارنے لگتا ہے ۔ اس کے باوجود حقیقت سے آنکھ چرانا حقیقت کو جھٹلانے کے مترادف ہے کہ جب صبح کا سورج روشنی کے بجائے دوزخ کی تپش لے کے نمودار ہونے لگے اور شا م کی سیاہی کاجل کی دل آویزی کے بجائے محض ایک منحوس اور وحشت ناک تاریکی کا اعلامیہ بن جائے ۔ اولاد ماں باپ کے تنازعا ت سے ڈپریشن اور تنہائیوں کا شکار ہونے لگے اور ایک پورا کنبہ دو افرادکی نا ہموار یوں کے کھڈ میں بار بار گر کر ٹیس میں مبتلا ہو۔ اسلام ایسی صورت حال کو قطعی پسند نہیں کرتا اور دو مشکلات میں سے ایک کم تر اور ہلکی مشکل کو قبول کر لینے کی راہ بتاتا ہے یعنی ایسے موقع کے لئے ہی شریعت نے طلاق کی تجویز رکھی ہے تاہم یہ تجویز آناً فاناً ہر گز نہیں ہے ۔ بلکہ اس تجویز کے کچھ قانونی اور ترغیبی پہلو ہیں جن پہ اگر کما حقہ عمل کیا جائے تو طلاق کی نوبت ہی نہ آئے گی۔
اولاً شادی کے موقع پر ہی اسلام نے شادی کی ترجیحات کے ذریعہ بہت کچھ صاف کردیا ہے اس کے باوجود اگر شادی کے بعد زوجین میں نا اتفاقی کی صورت حال پیدا ہونے کا اندیشہ جنم لیتا ہے تو اسلام کے نظام حقوق و فرائض اور عفو و در گذر کی تعلیمات روشنی فراہم کرتی ہیں ان باتو ں کے باوجود نا اتفاقی پیدا ہوجاتی ہے اور بڑھتی جارہی ہے تو اسلام نے اس کے لئے ایک مرتب اور خوبصورت ترغیبی نقشہ تجویز کیا ہے یہ نقشہ اتنا اہم اور معتبر ہے کہ قرآن پاک نے اپنے اجمالی طرزبیان سے الگ اس مسئلے کو قابل لحاظ تفصیلات کے ذریعہ واضح کیا ہے ۔
{ الرجال قوامون علی النساء بما فضل اللہ بعضھم علی بعض وّ بما انفقوا من اموالھم فالصٰلحٰتُ قٰنتٰت حٰفظٰت للغیب بما حفظ اللہ ، والّٰتی تخافون نشوزھن فعظوھن واھجروھن فی المضاجع واضربوھن فان اطعنکم فلا تبغوا علیھن سبیلاً ان اللہ کا علیا کبیرا، وان خفتم شقاق بینھما فابعثوا حکماً من اھلہ وحکما من اھلھا ان یریدا ٓ اصلاحاً یوفق اللہ بینھما ان اللہ کان علیما خبیرا}
’’مرد عورتوں پر حاکم ہیں اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس وجہ سے کہ مردوں نے اپنے مال خرچ کئے ہیں پس نیک فرمانبردار عورتیں خاوند کی عدم موجودگی میں بہ حفاظت الہٰی نگہداشت رکھنے والیاںہیں اور جن عورتوں کی نافرمانی اور بددماغی کا تمہیں خوف ہو انہیں نصیحت کرو اور انہیں الگ بستروں پر چھوڑ دو اور انہیں مار کی سزا دو پھر اگر وہ تابعداری کریں تو ان پر کوئی راستہ تلاش نہ کرو بے شک اللہ تعالیٰ بڑی بلند ی اور بڑائی والا ہے ۔اور اگر تم کوان دونوں (شوہر بیوی کے)بیچ اَن بن ہونے کا ڈر ہو تو ایک حَکَم شوہر کے خاندان سے اور ایک بیوی کے خاندان سے مقرر کرو ، اگر یہ دونوں صلح کرانا چاہیں تو اللہ ان دونوں کو ملا دے گا ، بے شک اللہ جاننے والا خبر رکھنے والا ہے ‘‘۔( النساء :۳۴۔۳۵)
پہلی آیت میں اول اول مردو ںکو احساس ذمہ داری پر ابھارا گیا ہے وہ یوں کہ بحیثیت ’’قوام‘‘ مرد گھر کا اصل ذمہ دار ہے اس لئے مرد اپنی ذمہ داری کا احساس ہر آن تازہ رکھے اور بحیثیت اصل ذمہ دار انسان کے اندر جو سوجھ بوجھ ہونی چاہئے اور جس انداز کا صبر و ضبط بناہ کرنے کے لئے ازبس ضروری ہے اسے پیش نگاہ رکھنا ہوگا۔
اس لحاظ سے اگر غور کیا جائے تو طلاق اور طلاق سے پیداشدہ فساد کی اصل ذمہ داری مرد پر عائد ہوتی ہے ۔ اس کے برخلاف ہماری معاشرتی زندگی اور دینی تصورات میں گھریلو فساد کی کل اور اصل ذمہ دارعورت کو قرار دیا جاتا ہے۔ ہر چند کہ ایک عورت کا گھریلو امن میں اصل اور بنیادی رول ہوتاہے لیکن مرد کو اس ذمہ داری سے یکسر الگ کر دینا قرین انصاف ہر گز نہیں ہے ۔
آیت میں جہاں ’’قوام‘‘ کہہ کر مردوں کو احساس دلایا گیا ہے وہیں یہ بات صاف صاف بتائی گئی ہے کہ مرد نے چونکہ مردانہ صبر وضبط کا مظاہرہ کیا ہے اس نے عورت کی حفاظت کا شرعی فریضہ انجام دیا ہے اس کے نان و نفقہ اور حسن معاشرت کی ذمہ داری اٹھائی ہے اس لئے عورتوں پر مردوں کا حق بنتا ہے کہ شوہروں کی فرمانبرداری کریں۔ شوہروں کی فرمانبرداری کی کیا نوعیت ہے اور یہ فرمانبرداری کس طور پرانجام دینی ہے اس کی تفصیلات جابہ جا حدیثوں میں خوبصورت انداز سے پیش کردی گئی ہیں۔
چونکہ طبیعتیں یکساں نہیں ہوتیں اور بعض عورتیں اپنے مزاج اور عادات و اطوار میں نامناسب رجحانات کی حامل ہوتی ہیں بلکہ ایک معیاری خاتون سے بھی نافرمانی اور گھریلو استحکام کو منتشر کردینے والی چیزیں دانستہ ونادانستہ سرزد ہوسکتی ہیں اس لئے ایسے مخدوش مواقع کے لئے نصیحت کی ہدایت کی گئی ہے ۔
نصیحت کا یہاں وہ مفہوم قطعاً نہیں ہے جو بد قسمتی سے ہماری گھریلو تہذیب کا اٹوٹ انگ بن چکا ہے ۔ناجائز ڈانٹ ڈپٹ ، طعنہ زنی ، طلاق کی دھمکی ، خوفناک وارننگ ،گالی گلوچ جیسی چیزیں آخر نصیحت کیونکر ہوسکتی ہیں یہ تو سراپا فضیحت ہیں جو عموماً گھر کے افراد ماں، بیٹے، نندیں وغیرہ فریضہ کے طور پر انجام دیتی رہتی ہیں نصیحت فی الاصل ایک صحت مند عمل اور تندرست رویہ ہے جس میں انتہا درجے کی دردمندی اور اعلیٰ درجے کی ہوش مندی اور کمال کی حکمت موجود ہوتی ہے ۔
اس لئے کسی بگڑی عورت کو راہِ راست پر لانے کے لئے حد درجہ مخلصانہ طور طریق اپنائے جانے کی حاجت ہے اور تادیر ہر ممکن گوشے کو اچھی طرح آزمائے بغیر قرآنی نصیحت کا نسخہ بہر صورت مفید نہیں ہوسکتا ۔ اس ضمن میں یہ بات بھی جاننے کی ہے گھر کے اندر شوہر کی بہنوں اور دیگر عورتوں کو بھی خود اپنے اخلاق و عادات پر ناقدانہ نگاہ ڈالنی ہوگی اور محاسبہ کرنا ہوگا بلکہ شوہر کو اپنی ذات کا احتساب بڑا ہی ضروری امر ہوگا ۔ ایسا بالکل نہیں ہونا چاہئے کہ گھر کا دینی اور اخلاقی معیار انتہائی پست اور عفونت زدہ ہو لیکن دینداری کا چرچا کرنے اور تہذیب کی شہرت جمانے کے لئے بیوی اور بہو سے کسی سنجوئے سجائے اور خوابوں میں پالے ہوئے معیار کا مطالبہ کرلیا جائے۔
اگر کوئی عورت تا دیر سچی نصیحت اور زجرو توبیخ کے باوجود اپنی راہ صحیح نہیں کرتی تو ایک آخری چارۂ کا ر کے طور پراس کے بستر سے الگ ہوجائے اس مرحلے میں ایک بگڑی ہوئی مگر شوہر سے محبت کرنے والی عورت بہر حال چونکے گی ۔ شوہر کا اس سے مسلسل بے تکلفانہ روابط کا بند کردینا اور حد یہ کہ بستر بھی الگ کردینا سوچنے کی چیزیں بن جائیں گی۔ اس کے باوجود اگر عورت کے اندر سدھار پیدا نہ ہوسکے تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ ایسی عورت جاہل ، غیر تربیت یافتہ اور موٹے دماغ کی ہو یہ بھی ممکن ہے کہ وہ جس گھرانے اور جس معاشرے سے نکل کرآئی ہے وہ اکھڑ اور بَدْ وِی قسم کا ہو اس لئے مرد کو یہاں یہ اختیار دیا گیا کہ اسے تادیب کے لئے سزا بھی دے سکتا ہے یاد رہے مرد کی جانب سے یہ تادیب آخری تادیب ہوگی اور یہیں سے یہ بات بھی نکلتی ہے کہ مرد کو اس موقع کے علاوہ شریعت نے مارنے کا کوئی اور موقع ہر گز نہیں دیا ہے اس کے بر عکس اگر عورت مرد کے ہاتھوں آئے دن زدو کوب کا شکار ہو اور ماری پیٹی جائے ۔ ساس کی جھاڑو اور نندوں کی گالیوں سے ہر صبح و شام اس کی تواضع کی جائے تو اس قرآنی تادیب کی فی الواقع کوئی حیثیت نہیں رہ جاتی اس لئے یہ بات یاد رکھی جائے کہ مردانہ غلبے کی ناروا ذہنیت خود مردانگی کے خلاف ہے اور گھریلو امن کو غارت کرنے والی ہے ۔
ایک اور بات خاص طور پر ذہن نشین کرنے کی ہے کہ سزا اور تادیب ایسی نہ ہو کہ کسی قسم کا پائدار اثر چھوڑ جائے کیونکہ سزا کا مقصد سزا نہیں بلکہ دوا اور وفا ہے سزا کا اصل مقصود اصلاح ہے اور اصلاح و تعمیر کا یہ نسخہ موجب تخریب بن جائے تو نہ صرف یہ کہ آخرت کی عدالت میں مرد کو حساب دینا پڑے گا دنیا میں بھی اسلامی عدالت مرد سے محاسبہ کرے گی اور قرار واقعی تادیب کی مجا ز ہوگی۔
مذکورہ بالا کاروائی ایک صبر آزما اور دیر پا عمل ہے ایسا بالکل نہیں ہے کہ ادھر آپ نے نصیحت فرمائی ادھر بیوی نے پلٹ کر جواب دے دیا ، شام ہوئی نہیں کہ بستر الگ! اور صبح دم آپ چمتکار کے منتظر رہے کوئی جادوئی اثر نظر نہ آیا آپ مارنے کو دوڑ پڑے اور خاصابوال اٹھ کھڑا ہوا جیسا کہ ہمارے جلد باز اور ناپختہ سماج کی عادت بھی ہے ۔
بہر کیف اگر عورت ذکر کردہ تفصیلی تادیب کے بعد اپنا رویہ تبدیل کرنے کو مائل ہوجاتی ہے تو مرد کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ پیچھے کی تمام باتیں بھلا دے اگر ماضی کی یادیں عذاب بن کر اس کے ذہن ودماغ پر مسلط رہیں گی تو مستقبل میں دوبارہ بحران پیدا ہوسکتا ہے ۔
اللہ کے فرمان {فلا تبغواعلیھن سبیلا} کا یہی کچھ تقاضا ہے ۔ موقع بہ موقع عورت کو پچھلی غلطیاں یاد دلانا، کچوکے لگانا، عار دلانا قطعی غیر صحت مند رویہ ہے ۔اگر عورت کا رویہ کسی طور اصلاح کی طرف مائل نہیں ہے صورت حال جو ں کی توں قائم ہے یا بگڑتی جارہی ہے ۔ اختلاف و انتشار کی آگ دو لوگوں کے بجائے دو خاندانوں کو بھی جلادینا چاہتی ہے تو اس کیفیت کے لئے شریعت نے ایک دوسرا نسخہ تجویز کر رکھا ہے وہ یہ کہ میکہ اور سسرال یعنی مردوزن دونوں کے خاندانوں سے دو سوجھ بوجھ والے انصاف پسند اور نیک طبع افراد کو جمع کیا جائے اور میاں بیوی کے اختلافات کی پوری نوعیت انہیں بتا دی جائے تاکہ وہ لوگ صلح کا کوئی راستہ تلاش کر لیں۔ ظاہر ہے یہ صلح تبھی ممکن ہوگی جب تمام لوگ صلح اور امن و آشتی میں دل چسپی لیں گے ہر کسی کی خواہش یہ ہوگی کہ گھراجڑنے نہ پائے ۔ اگر اللہ نے دو لوگوں کو اپنی مشیت سے اکٹھا کیا ہے تو ہماری ہر حکمت اس امر پر صرف ہو کہ یہ لوگ ہر گز ہر گز جدا نہ ہوں۔
یہیں سے یہ مسئلہ بھی از خود نکلتا ہے کہ فریقین کو غور وخوض کے بعد اگر صلح والی کوئی راہ نظر نہ آئے گی تووہ طلاق اور جدائی کا فیصلہ بھی سنا سکتے ہیں اور ایسی صورت میں طلاق کا معاملہ بھی سنجیدگی سے انجام پائے گا یوں ایک بار پھر میاں بیوی کے مابین رفاقت کی صورتیں پیدا ہونے کا امکان تلاشا جانے لگے گا۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

غازی

رکن
شمولیت
فروری 24، 2013
پیغامات
117
ری ایکشن اسکور
183
پوائنٹ
90
چونکہ اب طلاق اور جدائی تک بات آپہنچی اس لئے طلاق کے ان ممکنہ پہلوؤں پر بھی غور کیا جائے جہاں میاں بیوی کے دوبارہ مل جانے کا امکان ہے ۔
طلاق کے حوالے سے یہ بات انتہائی بنیادی اور مرکزی حیثیت کی حامل ہے جسے ہر مسلمان کو رٹ کر یاد کر لینا چاہئے اور بطور آموختہ دہراتے رہنا چاہئے کہ عورت ایک بار طلاق دینے کے بعد پورے طور پر جدا ہو سکتی ہے نہ تو کئی بار لفظ طلا ق بولنے کی حاجت ہے اور نہ ہرماہ طلاق دے کر تین مہینوںمیں طلاق کی تینوں گنتیاں پوری کرنے کی ضرورت ۔ یہ تو طلاق پر بے تکی بحثوں کی دین ہے کہ عوامی تصورات کا ڈھانچہ ہی الگ سا ہوگیاہے ورنہ جدائی کے لئے محض ایک طلاق کافی ہے ۔طلاق کے بعد عورت تین حیض یا تین طہر شوہر کے گھر بطور عدت گزارے گی ۔ واپسی اور صلح کی صورت اگر پیدا نہ ہوئی تو عورت یہ مدت پوری کرنے کے بعد شوہر کا گھر چھوڑ دے گی اس کا شوہر اور شوہر کے گھر سے کوئی واسطہ رہ جائیگا نہ تو کوئی قانونی حق۔ اس کی جہاں مرضی ہو اور وہ جب چاہے اپنی شادی کریگی یا وہ بلا شادی زندگی گزارے گی ان سب باتو ںسے شوہر کو ادنیٰ سا تعلق بھی نہ رہ جائیگا۔
طلاق کے ا س طریقے میں فائدہ یہ ہے کہ عورت اگر سال دوسال جتنی بھی مدت اللہ مقدر کرے شادی نہیں کرتی ۔ دنیا کے تجربات و حوادث سے اسے سبق مل جائے پھر وہ شوہر کے پاس واپس آنے کا ارادہ بنالے اور طلاق دینے والا شوہر بھی راضی ہوجائے تو نکاح جدید کے ذریعہ وہ پھر اپنے شوہر کے عقد میں آسکتی ہے ۔ البتہ ایک طلاق کا اختیار ختم ہوجائے گا یعنی آئندہ اسے صرف دو طلاق کا اختیار ہوگا اس لئے زندگی کافی احتیاط سے گزارنی ہوگی۔
طلاق کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ آدمی حالت طہر میں طلاق دے عورت اپنی عدت شوہر کے گھر پر ہی گزارے دوسرا طہر یا حیض آئے تو پھر طلاق دے اسی طرح تیسرے حیض یا طہر پر طلاق دے کر طلاق کی تینوں گنتیاں پوری کرے اب عورت شوہر کے لئے ہمیشہ کے لئے حرام ہوگئی واپسی کی فی الاصل کوئی صورت نہیں رہ جاتی ہے ایک صورت ہے لیکن وہ قضاء وقدر کے حوالے ہے اس کا کوئی سہارا نہیں کیا جا سکتا وہ یہ کہ عورت کی جہاں اللہ نے مقدر کیا شادی ہوگئی اور اتفاق سے دوسرے شوہر کے ساتھ بھی کبھی اَن بَن ہو گئی اور طلاق ہو گئی اب عورت نے سوچا کہ پہلا ہی شوہر اچھا تھا اس طرح واپسی کا خیال پیدا ہوا تو نکاح جدید سے وہ پرانے شوہر کے پاس جا سکتی ہے۔
ظاہر سی بات ہے یہ اتفاقی معاملہ ہے جس کی بہت زیادہ حیثیت نہیں ہے۔
طلاق کے اس دوسرے طریقے میں بھی زوجین کو ایک مناسب وقفہ مل جاتاہے اگر دونوں چاہیں تو اپنے معاملات صحیح کرسکتے ہیں ۔
مذکورہ بالا دونوں طریقوں کے علاوہ طلاق کی کوئی تیسری صورت اپنی اصل حیثیت میں نہیں پائی جاتی اور اگر کوئی تیسری صورت پائی بھی جائے تو شرع شریف میں قابل قبول نہیں ہے بلکہ ایسا شخص جوکوئی تیسری راہ پیدا کرے حاکم وقت یا قاضی وقت کی تعزیر کا مستحق ہے اسے سیدھا کرنے کے لئے جو تعزیر مناسب ہوگی دی جائیگی۔
کیونکہ طلاق کی کوئی اورصورت قرآن وسنت کے بتائے ہوئے طریقوں سے متصادم ہے اور جو مصالح و منافع اسلامی نظام طلاق میں مقصودہیں ان کا ہرامکان غارت ہوجاتا ہے ۔
رہے وہ اصحاب جو خواہ مخواہ کی موشگافیوں کے ذریعہ دین کو شیطان کی آنت بنانے کا فن فروغ دیتے ہیں انہیں چاہئے کہ اللہ سے ڈریں اور اپنے انداز فکر پر نظر ثانی کی زحمت گوارا فرمائیں۔
اگر فی الواقع استنباط و استدلال کی دنیا میں وقوع طلاق کی کوئی تیسری شکل بنتی بھی ہو تب بھی ہمارے مفتیان شرع متین کو ٹیبل کرسی اور گاؤ تکیوں کی دنیاسے نکل کر فقہ الواقع کی چلچلاتی دھوپ میں آکے کھڑاہونا چاہئے ان شاء اللہ وہ کشاکش کی کیفیت سے ضرور باہر آئیں گے ۔ ایک ایسا اختلافی مسئلہ جو متفقہ طور پر ذیلی ہے نہ تو شرعی مصلحتوں پر کھرا اترتاہے نہ قرآن و سنت کے مدلولات کا ساتھ دیتا ہے اور نہ انسانی معاشرے کے لئے سوائے نقصان اور بھیانک نقصان پہنچانے کے کچھ مفید ہی ہے اسے آپ اس حیثیت سے معرض بیان میںلاویں گویا وہی اصل مسئلہ اور حقیقی طریقہ ہو چہ معنی دارد؟
کیا فقہی طور پر آپ کے نزدیک یہ بات صحیح نہیں ہے کہ دو مرد و عورت ایجاب و قبول کر لیں گواہوں کی موجودگی میں شادی منعقد ہو گئی ۔ بالکل آپ اسے صحیح مانتے ہیں ۔ اس کے باوجود یہ خطبۂ مسنونہ یہ تقریب سعید مناسب پیمانے پر اعلان نکاح ، ولی کی تعیین اور رضامندی سب کچھ کیوں ہے ؟ اس کی وجہ ظاہر ہے کہ اول الذکر مسئلے کو آپ نے عوام میں بیان نہیں کیا ہے بلکہ ایک فقہی مسئلے کی حیثیت سے جانا اور پڑھا ہے اور خال خال اس قسم کا آپ فتویٰ دیتے ہیں اسی لئے عوامی تصورات میں افضل اور مکمل طور طریقوں نے جگہ بنالیا ہے ۔ پھر مسائل طلاق میں ناک اونچی رکھنے کی نفسیات میں جینے کی وجہ ؟ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ طلاق سے قبل کے معاملات کے بارے میں قرآنی تفصیلات اور حدیثی تشریحات میں جو کچھ موجود ہے اور پھر طلاق کے صحیح ترین اور فائدہ مند طریقوں پر جو کچھ رہنمائی دی گئی ہے نہ صرف معرض بیان میں لایا جائے بلکہ اس سے آگے بڑھ کر لوگوں کے تصورات کا حصہ بنا دئے جانے کی ضرورت ہے ۔ یہ ذمہ داری ان علماء کرام پر بطور خاص عائد ہوتی ہے جو ایک مجلس کی تین طلاقوںکو تین ہی تسلیم کرتے ہیں کیونکہ جو حضرات اپنے فہم نصوص اور علماء سابقین کے فتاؤں کی روشنی میں تین کو تین قرار دیتے ہیں ان کے حلقوں میں تاخیر کا جو گھریلواور معاشرتی فائدہ ملنا چاہئے نہیں مل پاتا اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ حلالہ کا حیلہ مجبوری بن جاتا ہے جو انصاف پسنداور غیرت مند محبین سنت علماء کرام کے نزدیک کسی بھی طرح درست نہیں ہے ۔
ہونا یہ چاہئے تھا کہ ہمارے یہ علمائے کرام طلاق دینے کے سنی طریقے اس درجہ متعارف کراتے اور بدعی طریقے سے کچھ ایسا تنفر دلاتے کہ عوام کے ذہن ودماغ تین کے تین ہونے سے تقریباً نا آشنا ہی رہتے اور غیر شرعی طریق طلاق سے خوف کھاتے ان کا مزاج بدعی طریق طلاق سے ایسا گھن کھاتا جیسے عام مسلمان ’’سور‘‘ کہنے کے بجائے ’’کالا جانور‘‘ یا ’’وہ‘‘ کہہ کر کام چلاتا ہے ۔
لیکن افسوس !اس سے کم درجے میں بھی ہم سے کچھ نہ ہو سکا ضد اور انا کے احساسات ردعمل کا مزاج ، قیل وقال ، فتح و شکست کے ناروا تصورات نے ہمیں کچھ اس طرح اپنی گرفت میں لے لیا کہ آج عالمی میڈیا کو مسلم نظام طلاق کے حوالے سے اگر کوئی چھوٹی بڑی بات معلوم ہے تو وہ تین طلاق کا متنازعہ سسٹم ہے ۔ بڑی واضح سی بات ہے کہ میڈیا کو ایسی کیا پڑی ہے جو وہ قرآن و حدیث کھنگالے، واقعے اور حادثے میں تفریق کرے ، نظام اور اتفاق کا امتیاز نوٹ کرے ۔ ہمارے علماء کرام کی بحثا بحثی اور مسلم سماج کے اکثر یتی رویے سے جو کچھ جانا اور اخذ کیا اسی کو دین اسلام بنا دیا۔
بات توجہ کرنے کی ہے ۔ ہمارے علماء کرام دین اور مسلک کا جو جوہری فرق ہے اسے ملحوظ رکھیں ۔یہ تو نہیں کہا سکتا کہ تین ایک یا تین؟ کی بحث یک طرفہ ہے دونوں طرف سے بہت کچھ تلخ و شیریں لکھا جا چکا ہے جس طرح یہ فیصلہ نہیں ہو سکتا کہ انڈا پہلے ہے یا مرغی اسی طرح یہ بھی متعین کرنا محال ہے کہ موضوع کو ہنگامے کا موضوع اولاً کس نے بنایا؟ تاہم اس بحث کے نتائج و عواقب کو مقامی اور محدود تناظر میں دیکھنے کے بجائے عالمی اور وسیع پیمانے پر دیکھا گیا ہوتا یہ دین اور اہل دین کے لئے مفید تر ہوتا۔
خالص مسلکی اور مقامی بنیادوں پر ہی اگر کشادہ قلبی سے غور کر لیا جائے تو صورت واقعہ یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے ایک فیصلے میں بطور تعزیر مجلس کی تین طلاقوں کو تین نافذ قرار دے دیا تھا ۔ جو حضرات فاروق اعظم کا یہ فیصلہ تسلیم نہیں کرتے ان کا کہنا یہ ہے چونکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ فیصلہ تعزیراً دیا تھا اس لئے یہ فیصلہ تعزیر کے درجے میں ہی رکھا جائے تعزیر کے بجائے مستقل قانون تسلیم کر لینے میں واضح نصوص کی مخالفت لازم آتی جبکہ صحابہ کرام سے ایسابعید اور محال ہے۔
ہماری ناقص رائے میں اگر اس مسئلے کو زمانی اور مقامی پس منظر میں دیکھا جائے تو مطلع بہت کچھ صاف ہوجاتا ہے اول یہ کہ فاروق اعظم نے جہاں تین کو تین نافذ فرمایا تھا وہیں حلالہ کرنے والوں پر رجم کی سزا بھی تجویز فرمائی تھی ظاہر ہے جن مقامات میں حلالہ سے روکنے کی کوئی سبیل نہیں ہے ان مقامات میں تین کو تین بطور تعزیر بھی نافذ نہیں کیا جا سکتااور اگر اس مانع کے باوجود ایسا کیا جاتا ہے تو یہ فاروق اعظم کے فقہی رویے کی صحیح ترجمانی نہیں ہوگی ۔ ثانی یہ کہ فاروق اعظم نے تین کو تین قراردے کر حدیثِ رسول ﷺکے معارض کچھ بھی انجام نہیں دیا تھا بلکہ قرآن و حدیث کے صحیح طریق طلاق کو فروغ دینے کے لئے یہ تعزیر جاری کی تھی اور یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ تعزیرات کا دائرہ وسیع ہے تعزیری فیصلے مستقل قانون ہرگز نہیں ہوتے چونکہ لوگوں نے ایک مجلس میں تین طلاق دینا شروع کردیا تھا اور یہ طریقہ پیارے رسول ﷺ کی حدیثوں کے خلاف تھا اس لئے عظمتِ سنت کو محفوظ رکھنے کے لئے آنجناب نے مردوں کے حق میں سزا یہ جاری کیا کہ تین کو تین نافذ کردیا جائے یہیں سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ اگر کتاب وسنت کے نصوص میں کہیں تین کو تین نافذ قرار دیا گیا ہوتا تو آپ کا فیصلہ تحصیل حاصل ہوتا اس لئے ہمارے جواصحاب بعض حدیثوں سے استدلال کرتے ہیں انہیں سمجھ لینا چاہئے کہ وہ حدیثیں کسی اور کی تو ہو سکتی ہیں پیارے رسول ﷺ کی حدیثیں ہر گز نہیں ہیں ۔
بات غور کرنے کی یہ ہے کہ اگر کسی زمان ومکان میں تعزیر فاروقی کی چوٹ الٹ جائے اور کل سزا عورتوں پر پڑنے لگے تو فاروقی مقصود حاصل نہ ہوگا کیونکہ عربوں میں مطلقہ اور بیوہ عورتوں کی شادی کا ایسا کچھ مسئلہ نہیں تھا جیسا بر صغیر ہند وپاک میں ہے ۔
ایک اور زاویۂ نگاہ یہ ہے کہ آج بھی فاروقی فیصلہ ’’علیکم بسنۃ الخلفاء الراشدین‘‘ کے مصداق محفوظ ہے وہ یوں کہ جن مقامات پر آپ کا فیصلہ مردوں کے حق میں واقعی تعزیر کی صورت بن جاتا ہو وہاں اسے نافذ قرار دینا چاہئے تاکہ لوگ سنت کو مذاق نہ بنا سکیں اور اگر ایسا نہ ہو تو بھی فیصلے کی روح یعنی تعزیر کی شکل بدلی جا سکتی ہے جس کے ذریعہ حدیث کو کھیل بنائے جانے سے روکنا ممکن ہو البتہ یہ بات ذہن نشین رہے کہ فاروقی فیصلے کے لئے اسلامی حکومت کا وجود ہو اور حکومت کی طرف سے حلالہ پر رجم کی سزا بھی نافذ ہو الغرض کلی طور پر فاروق اعظم کے فیصلے کو خاص زمانے کا واقعہ قرار دینا درست نہیںہے ۔
لیکن ایسی کوئی تفہیم اختیار کرنے کے بجائے دو باتیں طرفین کی طرف سے بڑی شدت سے اٹھائی گئی ہیں ایک بات تو یہ کہ جو حضرات تین کو ایک تسلیم کرتے ہیں وہ لا مذہب ہیں وہ صحابۂ کرام کی عظمتوں کے قائل نہیں ہیں بلکہ انہیں بدعتی کہتے ہیں۔
اور دوسری بات یہ کہ جو حضرات تین کو تین مانتے ہیں وہ گویا حدیث مصطفی کے منکر ہیں ہم یہاں ان دونوں آراء کا تجزیہ نہیں کرنا چاہتے ہم نے کہنا یہ ہے کہ طلاق کے موضوع پر قرآن پاک نے ہمیں جو تفصیلی اور غیر اجمالی ہدایت دی تھی اور رسول پاک نے جس مسئلے کو نکھار کر ہماری گھریلو پیچیدگیوں کا صحیح علاج تجویز کیا تھا وہ دب کر رہ گیا ہے بلکہ اس کا سرے سے کوئی ذکر ہی نہیں چھیڑا جاتا اور امت نسبتاً ایک ثانوی مسئلے پر زمانے سے باہم دست و گر یباں ہے ۔ اس حوالے سے اگر میں یہ کہوں تو بجا ہوگا کہ طلاق کا شرعی نظام اگر اچھی طرح متعارف کرایا گیا ہوتا تو نہ صرف یہ کہ مسلمانوں کے تصورات الگ طرح کے ہوتے بلکہ غیر مسلم حضرات نے بھی اس نظام کو بحیثیت دین نہ سہی بحیثیت نظریہ اور سسٹم قبول کر لیا ہوتا ۔
 
Top