• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تین خصلتوں والا انسان

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
تین خصلتوں والا انسان

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( إِنْ أَحْبَبْتُمْ أَنْ یُحِبَّکُمُ اللّٰہُ تَعَالیٰ وَرَسُوْلُہُ فَأَدُّوْا إِذَا ائْتُمِنْتُمْ، وَاصْدُقُوْا إِذَا حَدَّثْتُمْ، وَأَحْسِنُوْا جَوَارَ مَنْ جَاوَرَکُمْ۔ ))1
'' اگر تم پسند کرتے ہو کہ تم سے اللہ اور اس کا رسول محبت کرے تو جب تمہیں امین بنایا جائے تو (امانت) ادا کرو اور جب بات کرو تو سچی کرو اور اپنے پڑوسیوں سے اچھا سلوک کرو۔ ''
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا:
(( أَرْبَعٌ إِذَا کُنَّ فِیْکَ فَـلَا عَلَیْکَ مَا فَاتَکَ مِنَ الدُّنْیَا، صِدْقُ الْحَدِیْثِ، وَحِفْظُ الْأَمَانَۃِ، وَحُسْنُ الْخُلُقِ، وَعِفَّۃُ مُطْعَمٍ۔ ))2
'' جب تم میں چار اشیاء ہوں گی، تو دنیا کی کوئی چیز اگر فوت بھی ہوجائے، تب بھی تجھے کوئی پروا نہیں ہونی چاہیے۔ (۱)... سچی بات، (۲)... امانت کی حفاظت، (۳)... اچھا اخلاق اور (۴)... کھانے کی پاکیزگی۔ ''
شرح...: امانت کی ادائیگی: اس کا مطلب یہ ہے کہ جس آدمی کو امین بنایا گیا ہے (مُؤْتَمَنْ) وہ امانت دینے والے (مُؤْتَمِنْ) کی چیز واپس کرے۔ ادائے امانت خیانت کی ضد ہے۔ اللہ تعالیٰ اور اس کےنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے امانت ادا کرنے اور خیانت نہ کرنے کا حکم دیا ہے۔
{إِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ إِلٰٓی اَھْلِھَاط} [النساء:۵۸]
'' بے شک اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں انہیں پہنچاؤ۔ ''
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 صحیح الجامع الصغیر، رقم: ۱۴۲۲۔
2 صحیح الجامع الصغیر، رقم: ۸۸۶۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
عَنْ یُوْسَفَ بْنِ مَاھَکَ الْمَکِّیِّ، قَالَ: کُنْتُ أَکْتُبُ لِفَلَانٍ نَفَقَۃَ اَیْتَامٍ کَانَ وَلِیَّھُمْ فَغَالَطُوْہُ بِأَلْفَ دِرْھَمٍ، فَأَدَّاھَا اِلَیْھِمْ، فَأَدْرَکْتُ لَھُمْ مِنْ مَالِھِمْ مِثْلَیْھَا، قَالَ: قُلْتُ: أَقْبِضُ الْاَلْفَ الَّذِيْ ذَھَبُوْا بِہٖ مِنْکَ؟ قَالَ: لَا۔ حَدَّثَنِيْ إِلَیَّ أَنَّہُ سَمِعَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم یَقُوْلُ: (( أَدِّ الْأَمَانَۃَ إِلیٰ مَنِ ائْتَمَنَکَ، وَلَا تَخُنْ مَنْ خَانَکَ۔ ))1
''یوسف بن مالک سے روایت ہے وہ کہتے ہیں میں نے فلاں شخص کو یتیموں کے خرچہ کے لیے لکھا جو یتیموں کا نگران تھا ، مگرانہوں نے اس سے ایک ہزار درہم کا فراڈ کیا۔ چنانچہ اس نے انہیں ادائیگی کردی۔ پھر میں نے ان کے مال میں سے اس سے دگنا لے لیا۔ راوی کہتے ہیں: میں نے اس شخص سے کہا وہ جو آپ سے ایک ہزار (درہم) ناجائز لے گئے ہیں ان پر میں قبضہ نہ کرلوں؟ اس شخص نے کہا :نہیں، پھر اُس نے مجھے ایک حدیث سنائی۔ بے شک اس نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: '' جو تجھے امین بنائے اسے امانت واپس کر اور جو تجھ سے خیانت کرے تو اس سے خیانت نہ کر۔ ''
ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نہ تو امیر اور نہ ہی تنگ دست کو امانت روکنے کی رخصت دی ہے۔
لوگوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ امانتوں کے مالک فاجر ہوں یا نیک، انہیں امانتیں واپس کرنا ضروری اور فرض ہے۔ خلاصہ یہ ہوا کہ امانت میں کسی صورت بھی خیانت جائز نہیں، خواہ اس کا مالک بذات خود امین ہو یا خائن۔
وَلَا تَخُنْ مَنْ خَانَکَ (اور جو تجھ سے خیانت کرے تو اس سے خیانت نہ کر حدیث کے یہ الفاظ اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ خائن کے ساتھ اس جیسا معاملہ کرنا جائز نہیں۔
یہ حدیث اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ انسان اگر اپنا حق حاصل نہیں کرسکتا تو اس کے لیے یہ درست نہیں کہ وہ امانت کو جھگڑنے کے لیے روک لے، بلکہ اسے ہر صورت ادا کرنا پڑے گی۔ قرآن سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ ادائے امانت مومن کی صفات میں شامل ہے۔
{وَالَّذِیْنَ ہُمْ لِأَمَانٰتِہِمْ وَعَہْدِہِمْ رَاعُوْنَ o} [المومنون:۸]
'' (مومن وہ ہیں) جو اپنی امانتوں اور وعدے کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ ''
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 صحیح سنن أبي داود، رقم: ۳۰۱۸۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
یعنی جو امانت کو ادا کرتے ہیں، وہ نفاق کی علامت سے کوسوں دور ہوتے ہیں جو شریعت میں ان الفاظ سے بیان کی گئی ہے: ((اِذَا ائْتُمِنَ خَانَ)) کہ جب اسے (منافق کو) امین بنایا جائے تو وہ خیانت کرے۔1
معلوم ہوا کہ جس انسان نے خیانت کی اسے امین نہیں کہتے اور جو امین نہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق اس کا ایمان نہیں۔ فرمایا:
(( لَا إِیْمَانَ لِمَنْ لاَّ أَمَانَۃَ لَہُ وَلَا دِیْنَ لِمَنْ لَا عَھْدَ لَہٗ۔ ))2
'' جو امین نہیں اس کا ایمان نہیں اور جسے وعدہ کا پاس نہیں اس کا دین نہیں۔''
امانت کی ادائیگی عام مفہوم کی حامل ہے اس کے تحت انسان کے ذمہ اللہ کے حقوق مثلاً نماز، روزہ، زکوٰۃ، کفارہ، نذر کو پورا کرنا وغیرہ بھی آجاتا ہے اور حقوق العباد مثلاً راز اور وہ اشیاء جو امانت رکھی گئی ہیں وغیرہ بھی آجاتی ہیں۔ چنانچہ ان کی ادائیگی کا حکم دنیا میں ہی ہے، اگر کوئی یہاں پر ادا نہیں کرے گا تو قیامت کے دن اس سے بدلہ لیا جائے گا جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ:
(( لَتُؤَدُّنَّ الْحُقُوْقَ إِلیٰ أَھْلِھَا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ حَتّٰی یُقَادَ لِلشَّاۃِ الْجَلْجَآئِ مِنَ الشَّاۃِ الْقُرَنَآئِ۔ ))3
'' قیامت کے روز تم حق والوں کو (ان کے) حق ضرور ادا کرو گے حتیٰ کہ ٹوٹے سینگوں والی بکری کے لیے سینگوں والی بکری سے بھی بدلہ لیا جائے گا۔ ''
سچ...: یہ جھوٹ کی ضد اور نقیض ہے اور جو انسان دوسرے لوگوں سے بات کرتے وقت سچائی سے کام لیتا اور سچ کا متلاشی رہتا ہے، اسے صادق اور صدیق کہا جاتا ہے، لہٰذا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جھوٹ بولنے سے ڈرایا ہے، چاہے کسی کو ہنسانے کے لیے ہی ہو۔ فرمایا:
(( وَیْلٌ لِلَّذِيْ یُحَدِّثُ بِالْحَدِیْثِ لِیُضْحِکَ بِہِ الْقَوْمَ فَیَکْذِبُ، وَیْلٌ لَہٗ، وَیْلٌ لَہٗ۔))4
'' اس انسان کے لیے ویل ہے، (جہنم کی وادی) جو لوگوں کو ہنسانے کے لیے جھوٹ بولتا ہے، اس کے لیے ویل ہے، اس کے لیے ویل ہے۔ ''
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 بخاری، کتاب الایمان، باب: علامات المنافق، حدیث: ۳۳۔
2 صحیح الجامع الصغیر، رقم: ۷۱۷۹۔
3 أخرجہ مسلم في کتاب البر، باب: تحریم الظلم، رقم: ...؟
4 صحیح سنن الترمذي، رقم: ۱۸۸۵۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
بلکہ جو انسان ہر سنی سنائی بات کو آگے پہنچانے کا عادی ہو، اس کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( کَفٰی بِالْمَرْئِ کَذِبًا أَنْ یُحَدِّثَ بِکُلِّ مَا سَمِعَ۔ ))1
'' آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی بات کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات کو بیان کردے۔''
مطلب یہ ہے کہ انسان کے سننے میں سچی باتیں بھی آتی ہیں اور جھوٹی بھی، چنانچہ جب وہ ہر سنی ہوئی بات کو بیان کرتا ہے تو لا محالہ جھوٹی باتیں بھی آگے بیان کردیتا ہے، اسی لیے اس کام کی وجہ سے اسے جھوٹا کہا گیا ہے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جھوٹ کو منافق کی علامت گردانا ہے، فرمایا ہے:
(( آیَۃُ الْمُنَافِقِ ثَـلَاثٌ: إِذَا حَدَّثَ کَذَبَ وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ وَإِذَا ائْتُمِنَ خَانَ۔))2
'' (کہ منافق کی ایک نشانی یہ ہے کہ) جب بات کرے گا تو جھوٹ بولے گا۔ ''
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حسب ذیل فرمان میں بھی جھوٹ سے ڈرایا ہے:
(( إِیَّاکُمْ وَالْکَذِبَ فَإِنَّ الْکَذِبَ یَھْدِيْ إِلَی الْفُجُوْرِ، وَإِنَّ الْفُجُوْرَ یَھْدِيْ إِلَی النَّارِ، وَمَا یَزَالُ الرَّجُلُ یَکْذِبُ وَیَتَحَرّٰی الْکَذِبَ حَتّٰی یُکْتَبَ عِنْدَاللّٰہِ کَذَّابًا۔))3
'' تم اپنے آپ کو جھوٹ سے بچاؤ کیونکہ جھوٹ گناہ کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور گناہ آگ کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور آدمی ہمیشہ جھوٹ بولتا رہتا ہے اور جھوٹ تلاش کرتا رہتا ہے حتیٰ کہ اللہ کے ہاں اسے کذاب (بہت بڑا جھوٹا) لکھ دیا جاتا ہے۔ ''
اس حدیث میں جھوٹ سے اور اس سے غفلت برتنے سے بھی ڈرایا گیا ہے کیونکہ جب انسان سستی اور غفلت سے کام لے گا تو کثرت سے جھوٹ سرزد ہونا شروع ہوجائیں گے جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اسے کذاب لکھ دیتا ہے اور کذابوں کی سزا کا مستحق ٹھہرتا ہے۔ یعنی یا تو فرشتوں میں اس صفت سے مشہور ہوجاتا ہے یا لوگوں کے دلوں میں اور ان کی زبانوں پر اس کا بڑا جھوٹا ہونا مشہور ہوجاتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ بولنے اور اس کو اوڑھنا بچھونا بنانے پر بہت ترغیب دلائی ہے حتیٰ کہ سچ انسان کو جنت میں لے جاتا ہے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 أخرجہ مسلم في باب: النہي عن الحدیث بکل ما سمع۔
2 أخرجہ البخاري في کتاب الإیمان، باب: علامات المنافق، رقم: ۳۳۔
3 أخرجہ مسلم في کتاب البر، باب: قبح الکذب وحسن الصدق وفضلہ، رقم: ۶۶۳۹۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
فرمایا:
(( عَلَیْکُمْ بِالصِّدْقِ فَإِنَّ الصِّدْقَ یَھْدِيْ إِلیٰ الْبِرِّ، وَإِنَّ الْبِرَّ یَھْدِيْ إِلیٰ الْجَنَّۃِ، وَمَا یَزَالُ الرَّجُلُ یَصْدُقُ وَیَتَحَرّٰی الصِّدْقَ حَتّٰی یُکْتَبَ عِنْدَاللّٰہِ صِدِّیْقًا وَإِیَّاکُمْ وَالْکَذِبَ، فَإِنَّ الْکَذِبَ یَھْدِیْ إِلَی الْفُجُوْرِ وَإِنَّ الْفُجُوْرِ یَھْدِیْ إِلَی النَّارِ وَمَا یَزَالُ الرَّجُلُ یَکْذِبُ وَیَتَحَرَّی الْکَذِبَ حَتّٰی یُکْتَبَ عِنْدَاللّٰہِ کَذَّابًا۔ ))1
'' سچائی کو لازم پکڑو کیونکہ سچ نیکی کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور نیکی جنت کی طرف رہنمائی کرتی ہے اور آدمی ہمیشہ سچ بولتا رہتا ہے اور سچائی کو تلاش کرتا رہتا ہے حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں صدیق لکھ دیا جاتا ہے۔ ''
قرآن کے مطالعہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ سچ بولنے والوں سے اللہ تعالیٰ راضی ہوتا ہے اور قیامت کے دن ان کے لیے بہت بڑی کامیابی ہے۔
{قَالَ اللّٰہُ ھٰذَا یَوْمُ یَنْفَعُ الصّٰدِقِیْنَ صِدْقُھُمْ لَھُمْ جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْأَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَآ اَبَدًا ج رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُo}[المائدہ:۱۱۹]
'' اللہ ارشاد فرمائے گا کہ یہ وہ دن ہے کہ جو لوگ سچے تھے ان کا سچا ہونا، ان کے کام آئے گا، ان کو باغ ملیں گے جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی جن میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے، اللہ تعالیٰ ان سے راضی اور خوش ہوگا اور یہ اللہ سے راضی اور خوش ہوں گے، یہ بڑی کامیابی ہے۔ ''
سچ بہت بڑی عظمت کا حامل ہے جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اپنی مدح سچ کے ساتھ ان الفاظ میں کی ہے۔
{وَمَنْ اَصْدَقُ مِنَ اللّٰہِ حَدِیْثًا o} [النساء:۸۷]
'' اور اللہ تعالیٰ سے زیادہ سچی بات والا اور کون ہوگا؟ ''
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 أخرجہ مسلم في کتاب البر، باب: قبح الکذب وحسن الصدق وفضلہ، رقم: ۶۶۳۹۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
پڑوسی سے حسن سلوک…: انسان کو چاہیے کہ اپنے پڑوسیوں سے اچھے تعلقات قائم کرے اور ان کو تکلیف دینے کی جتنی بھی راہیں ہیں ان کو بند کردے، کیونکہ جس نے اپنے پڑوسیوں سے اچھا سلوک نہ کیا، وہ اللہ اور اس کے رسول کی نگاہ میں پیار انہیں بلکہ مبغوض انسان شمار ہوتا ہے۔
لفظ پڑوس عام ہے، اس کے تحت مسلمان و کافر، عابد و فاسق، دوست و دشمن، واقف اور اجنبی، نفع دینے والا و تنگی دینے والا وغیرہ ہر طرح کے لوگ آجاتے ہیں۔
پھر پڑوسیوں کے بھی مراتب ہیں چنانچہ جس میں زیادہ صفات ہوں گی، اس کا حق دوسروں سے بڑھ جائے گا اور جس میں کم ہوں گی، اس کا مرتبہ بھی کم ہوگا اور بسا اوقات پڑوسیوں میں صفات برابر ہوجاتی ہیں چنانچہ اس وقت کسی قرینہ کی وجہ سے ترجیح ہوگی یا برابری کا سلوک کیا جائے گا۔
کہا جاتا ہے کہ پڑوسی تین طرح کا ہوتا ہے (۱) وہ پڑوسی جس کا ایک حق ہے یعنی صرف پڑوس کا، اور وہ مشرک ہے۔ (۲) وہ پڑوسی جس کے دو حق ہیں، اس سے مراد مسلمان پڑوسی ہے اس کا ایک حق ہمسایہ ہونے کا اور دوسرا اسلام کی وجہ سے ہے۔ (۳) وہ جس کے تین حقوق ہیں، اس سے وہ مسلمان ہمسایہ مراد ہے جو رشتہ دار بھی ہے ایک پڑوس کا حق دوسرا اسلام اور تیسرا رشتہ داری کا۔
اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے ہمسائیوں کے ساتھ نیکی کرنے کا حکم دیا ہے فرمایا:
{وَّبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا وَّبِذِی الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنِ وَالْجَارِ ذِی الْقُرْبٰی وَالْجَارِ الْجُنُبِ o} [النساء:۳۶]
’’ اور والدین کے ساتھ احسان کرو اور رشتہ داروں سے اور یتیموں اور مسکینوں سے اور قرابت دار ہمسائے سے اور اجنبی ہمسائے سے بھی (احسان کرو)۔ ‘‘
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:
(( مَا زَالَ جِبْرِیْلُ یُوْصِیْنِيْ بِالْجَارِ حَتّٰی ظَنَنْتُ أَنَّہُ سَیُوَرِّثُہُ۔ ))1
’’ جبریل مجھے ہمیشہ ہمسایوں کے متعلق وصیت کرتا رہتا حتیٰ کہ میں نے گمان کیا کہ عنقریب وہ اسے وارث بھی قرار دے گا۔ ‘‘
جیسے ان کے ساتھ نیکی کرنے کا حکم صادر ہوا ہے ایسے ہی انہیں ایذاء دینے سے نہی بھی وارد ہوئی ہے۔ چنانچہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ فَلَا یُؤْذِ جَارَہٗ وَمَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ فَلْیُکْرِم ضَیْفَہُ وَمَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ فَلْیَقُلْ خَیْرًا أَوْ لِیَصْمُتْ۔ ))2
’’ جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے، وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچائے اور جو کوئی اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے مہمان کا اکرام کرے اور جو کوئی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ اچھی بات کہے وگرنہ خاموش رہے۔''
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 أخرجہ البخاري في کتاب الأدب، باب: الوصاۃ بالجار، رقم: ۶۰۱۴۔
2 أخرجہ البخاري في کتاب الأدب، باب: من کان یؤمن باللّٰہ والیوم الآخر فلا یؤذ جارہ، رقم: ۶۰۱۸۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
دوسری حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( وَاللّٰہِ لَا یُؤْمِنُ وَاللّٰہِ لَا یُؤْمِنُ، وَاللّٰہِ لَا یُؤْمِنُ۔ قِیْلَ: وَمَنْ یَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم ؟ قَالَ: (( اَلَّذِيْ لَا یَأْمَنُ جَارُہٗ بَوَائِقَہٗ۔ ))1
'' اللہ کی قسم! وہ مومن نہیں۔ اللہ کی قسم! وہ مومن نہیں۔ اللہ کی قسم! وہ مومن نہیں۔ کہا گیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کون مومن نہیں؟ فرمایا: وہ انسان کہ جس کی شرارتوں سے اس کا ہمسایہ محفوظ نہیں۔''
بائقۃ...: یہ لفظ مصیبت، شر، جھگڑے، فتنہ و فساد اور مہلک چیز کے لیے مستعمل ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں تین مرتبہ قسم اٹھا کر پڑوسی کو تکلیف دینے سے منع کیا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس معاملہ میں بہت زیادہ تاکید ہے۔ ہمسائے کا صرف یہی حق نہیں کہ اسے تکلیف نہ دی جائے بلکہ یہ بھی اس کا حق ہے کہ جن اشیاء میں اس کو تکلیف ملنے کا اندیشہ ہے ان سے بھی پرہیز کیا جائے۔
شیخ ابو محمد بن ابی جمرۃ کا قول ہے کہ :''پڑوسی کی حفاظت کرنا ایمان کے کامل ہونے سے ہے اور زمانہ جاہلیت کے لوگ بھی یہ حفاظت کیا کرتے تھے۔''ہمسائے کے متعلق جو وصیت کی گئی ہے اس پر عمل اس طرح ہو سکتا ہے کہ اپنی طاقت کے مطابق تحفہ بھیجا جائے اور ملاقات کے وقت مسکراتے چہرے سے ملا جائے اور اگر اسے کسی چیز کی ضرورت ہے تو اس کی ضرورت کو پورا کیا جائے وغیرہ۔
نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس انسان کے ایمان کی نفی کی ہے جس کی شرارتوں سے اس کا پڑوسی امن میں نہیں اس مبالغہ سے ہمسائے کا حق واضح طور پر سمجھ میں آتا ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ اسے تنگ کرنا کبیرہ گناہوں میں شامل ہے۔
جب پڑوسی صالح اور غیر صالح ہوگا تو ان کے ساتھ سلوک کرنے کی حالت بدل جائے گی، یعنی سب ہمسایوں کے لیے ہر قسم کی بھلائی کی خواہش کی جائے اور اچھی نصیحت اور ہدایت کی دعا کی جائے، اگر ہمسایہ بد انسان ہے تو مذکورہ باتوں کے ساتھ ساتھ اچھے اور عمدہ طریقے سے اسے برائیوں سے روکا جائے اور اس کام میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے مراتب کو بھی ملحوظ رکھے۔ اگر ہمسایہ غیر مسلم ہے تو اس کو مسلمان ہونے کی دعوت دی جائے اور اسے اسلام کے محاسن سے آگاہ کیا جائے اور اگر فاسق ہے تو جو نصیحت اس کے لائق حال نرمی ہے، اس کو مدنظر رکھا جائے۔ نیز لوگوں سے اس کی کوتاہیوں کو چھپایا جائے اور نرمی سے ان لغزشوں سے روکا جائے۔
ہاں! اگر فائدہ ہوجائے تو ٹھیک، وگرنہ ادب سکھانے کے لیے اس کو چھوڑ دے اور اسے غلطی بھی بتا دی جائے تاکہ وہ آئندہ اجتناب کرے۔ کہا گیا ہے کہ ہمسائے کا دوسرے پڑوسی پر حق یہ ہے کہ اگر وہ قرضہ مانگے تو اسے دیا جائے اور اگر مدد طلب کرے تو اس کی اعانت کی جائے۔ اگر بیمار ہو تو اس کی تیمار داری کی جائے اگر محتاج ہو تو اس کی محتاجی دور کرنے کی کوشش کی جائے۔ اگر پھر فقیر ہوگیا تو پھر اس کی مدد کی جائے، اگر اسے کوئی خوشخبری ملی ہے تو اسے مبارک دی جائے، اگر کوئی مصیبت پہنچی ہے تو اس سے تعزیت کی جائے۔ اگر فوت ہوگیا تو اس کا جنازہ پڑھا جائے، اپنی عمارت کو اتنا بلند نہ کیا جائے کہ اس کی ہوا بند ہوجائے، ہاں! اگر وہ اجازت دے تو پھر ٹھیک ہے اور ہنڈیا کی بھاپ (مراد ہمسائے کے لیے آگ کی گرمی وغیرہ) سے بھی اسے تکلیف نہ دی جائے۔ ہاں! اگر اس کے لیے بھی حصہ نکالنا ہے تو پھر صحیح ہے اور اگر پھل خریدے تو اسے بھی کچھ عنایت کرے۔ اگر ایسا نہیں کرسکتا تو چپکے سے پھلوں کو اپنے گھر میں داخل کرے اور اپنے بچوں کو بھی دے کر باہر نہ بھیجے کہ کہیں ہمسائے کے بچے دیکھ کر تکلیف محسوس نہ کریں۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 أخرجہ البخاري في کتاب الأدب، باب: إثم من لا یأمن جارہ بوائقہ، رقم: ۶۰۱۶۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کو فرمایا تھا:
(( یَا أَبَا ذَرٍّ إِذَا طَبَخْتَ مَرْقَۃَ فَأَکْثِرْ مَائَ ھَا وَتَعَاھَدْ جِیْرَانَکَ۔ ))1
'' اے ابوذر! جب تو شوربا پکائے تو اس کا پانی بڑھا لے اور اپنے پڑوسی کا بھی خیال رکھ۔''
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا:
(( یَا نِسَائَ الْمُسْلِمَاتِ، لَا تَحْقِرَنَّ جَارَۃٌ لِجَارَتِھَا وَلَوْ فِرْسَنَ شَاۃٍ۔ ))2
'' اے مسلمان عورتو! کوئی ہمسائی اپنی ہمسائی کی حقارت نہ کرے اگرچہ وہ (حصہ میں) ایک بکری کا کھر ہی کیوں نہ بھیجے۔''
گو بکری کے کھر سے عمومی طور پر کوئی فائدہ نہیں اٹھایا جاتا مگر ہمسائے کے لیے اس تحفہ کو بھی حقیر سمجھنے سے منع کیا گیا ہے اور چونکہ اس حدیث کو ظاہر پر محمول نہیں کیا جائے گا کیونکہ بکری کا کھر تحفہ میں دینا کسی کی عادت نہیں، اس لیے حدیث میں یہ اشارہ ہے کہ چھوٹی سی چیز کا تحفہ بھی پیش کیا جاسکتا ہے اور اسے قبول بھی کیا جائے گا۔ یعنی کوئی پڑوسن اپنے پاس موجود چیز کی قلت کی وجہ سے دوسری پڑوسن کو تحفہ دینے سے گریز نہ کرے کیونکہ قلیل چیز کا سخاوت کرنا بالکل نہ ہونے سے تو بہتر ہے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 أخرجہ مسلم في کتاب البر، باب: الوصیۃ بالجار والإحسان إلیہ، رقم: ۶۶۸۸۔
2 أخرجہ البخاري في کتاب الأدب، باب: لا تحقرن جارۃ لجارتھا، رقم: ۶۰۱۷۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
حدیث میں قلیل چیز کا تحفہ دینے پر بھی ترغیب دلائی گئی ہے کیونکہ ہر وقت انسان کے پاس کثیر چیز تو نہیں ہوتی، چنانچہ جب تھوڑی تھوڑی چیز کا تحفہ دیتا رہے گا تو یہی زیادہ بن جائے گی۔ اس حدیث میں تکلیف سے رکنے کا اشارہ اور آپس میں پیار و محبت رکھنے کی وضاحت ہے۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( تَھَادَوْا تَحَابُّوْا۔ ))1
'' ایک دوسرے کو تحفہ دو گے تو باہم محبت کرنے لگ جاؤ گے۔ ''
یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مذکورہ بالا فرمان کا مطلب یہ ہے کہ پڑوسن دوسری ہمسائی کے ساتھ تحفہ کے ذریعہ محبت بڑھائے، اگرچہ وہ حقیر ہی ہو۔ چنانچہ اس میں غنی اور فقیر سب برابر ہیں۔ عورتوں کا خاص طور پر ذکر اس لیے کیا گیا ہے کہ محبت و بغض کی ابتدا انہی سے ہوتی ہے اور ان دونوں کاموں میں اثر بھی جلدی قبول کرتی ہیں۔ انسانی پڑوس کے حقوق کی اتنی تاکید کی گئی ہے حالانکہ درمیان میں دیواریں وغیرہ حائل ہوتی ہیں جن کی وجہ سے ان کی حالت ایک دوسرے سے پوشیدہ رہتی ہے لیکن اس سے بھی زیادہ حقدار حفاظت کرنے والے دو فرشتے ہیں کہ انسان اور ان کے درمیان کوئی پردہ وغیرہ حائل نہیں اور ان دونوں کو حالات کا بھی علم ہوتا ہے، لہٰذا دن کے کسی وقت میں بھی منہیات کا ارتکاب کرکے انہیں تکلیف نہیں پہنچانی چاہیے۔
منقول ہے کہ جب انسان نیکی کرتا ہے تو دونوں فرشتے خوشی کا اظہار کرتے اور جب بدی کرتا ہے تو غمی میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ انسان کو چاہیے کہ ان کے غم اور خوشی کا بھی خیال رکھے اور ہمیشہ کوشش کرے کہ نیک اعمال بجا لاکر اور برائیوں سے رک کر، انہیں خوش ہونے کا موقعہ دے۔
پڑوس کی حد...: اس میں اختلاف ہے (۱) حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جو اذان سن لے وہ پڑوسی ہے۔ (۲) جو صبح کی نماز مسجد میں آپ کے ہمراہ پڑھے، وہ پڑوسی ہے۔ (۳) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ پڑوس کی حد ہر جانب سے چالیس گھر ہیں۔ (۴) چالیس گھر دائیں طرف سے اور بائیں طرف سے چالیس (۴۰) آگے اور پیچھے سے۔
اس کا ایک معنی تو نمبر ۳ والا ہی ہوسکتا ہے اور دوسرا معنی یہ کہ مجموعہ چالیس ہو یعنی ہر طرف سے دس گھر ہوں۔2

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 صحیح الجامع الصغیر، رقم: ۳۰۰۴۔
2 تفسیر ابن کثیر، ص: ۵۲۷، ۱۔ عون المعبود، ص: ۳۲۷، ۹۔ تفسیر قرطبی، ص: ۱۶۶، ۵۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
قوی مومن...: رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:
(( أَلْمُؤْمِنُ الْقَوِیُّ خَیْرٌ وَأَحَبُّ إِلَی اللّٰہِ مِنَ الْمُؤْمِنِ الضَّعِیْفِ وَفِيْ کُلٍّ خَیْرٌ إِحْرِصْ عَلیٰ مَا یَنْفَعُکَ وَاسْتَعِنْ بِاللّٰہِ وَلَا تَعْجِزْ، وَإِنْ أَصَابَکَ شَيْئٌ فَـلَا تَقُلْ: لَوْ أَنِّیْ فَعَلْتُ کَانَ کَذَا وَکَذَا، وَلٰکِنْ قُلْ: قَدَّرَ اللّٰہُ، وَمَا شَائَ فَعَلَ فَإِنَّ لَوْ تَفْتَحُ عَمَلَ الشَّیْطَانِ۔ ))1
'' قوی مومن بہتر ہے اور وہ اللہ کو کمزور، ضعیف مومن سے زیادہ محبوب ہے اور بھلائی ہر ایک میں ہے۔ جو تجھے نفع پہنچائے اس کی حرص رکھ اور اللہ سے مدد مانگ اور دل تھوڑا نہ کر ۔اگر تجھے کچھ مصیبت آئے تو یوں نہ کہہ کہ اگر میں ایسے کرلیتا تو ایسے ہوجاتا وغیرہ۔ بلکہ تو کہہ اللہ نے مقدر کیا تھا اس نے جو چاہا کیاسو بلاشبہ ''اگر'' شیطان کے لیے راہ ہموار کرتا ہے۔''
شرح...: آخرت کے امور میں فطرت اور نفس کے ارادے کو قوت سے تعبیر کیا گیا ہے اور جس مسلمان میں یہ وصف ہو، وہ جہاد میں دشمنوں پر حملہ کرنے اور لپکنے میں بڑا تیز ہوتا ہے۔ امر بالمعروف و نہی عن المنکر میں بڑا سخت ہوتا ہے اور اس راستہ میں جو تکالیف درپیش ہوں، ان پر صبر کرتا ہے نیز اس کے ساتھ ساتھ نماز، روزہ، اذکار اور دوسری عبادات میں بہت راغب اور ان کی محافظت میں بڑا چست ہوتا ہے۔
قوت سے بدنی طاقت اور اپنے زمانہ اور علاقے کے لحاظ سے جنگ کے لیے اسلحہ کی ٹریننگ کا ہونا بھی مراد ہے۔ چنانچہ ایسی قوت و تیاری ہر مسلمان پر فرداً بھی اور اجتماعی شکل میں بھی فرض و واجب ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
{وَأَعِدُّوْا لَھُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍط} [الانفال:۶۰]
'' اور ان (کافروں) کے مقابلہ کے لیے جتنی تم طاقت رکھتے ہو قوت تیار کرو۔ ''
یہ قوت محض اللہ کے کلمہ کو بلند کرنے اور اس کے دشمنوں سے لڑنے کے لیے، مسلمانوں کی زمین آزاد کروانے کے لیے، مظلوموں کی اور حق کی مدد کرنے کے لیے ہو۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ منبر پر کھڑے ہوکر خطبہ فرمایا جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حسب ذیل فرمان بھی تھا:
(( وَأَعَدُّوْا لَھُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّۃٍ أَ لَا إِنَّ الْقُوَّۃَ الرَّمْيُ، أَ لَا إِنَّ الْقُوَّۃَ الرَّمْيُ، أَلَا إِنَّ الْقُوَّۃَ الرَّمْيُ۔ ))2
'' اور ان (کافروں) کے مقابلہ کے لیے، جتنی تم طاقت رکھتے ہو، قوت تیار کرو۔ خبردار! قوت (سے مراد) پھینکنا ہے، خبردار! بے شک قوت (سے مراد) پھینکنا ہے، خبردار! بے شک قوت (سے مراد) پھینکنا ہے۔ ''
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 أخرجہ مسلم في کتاب القدر، باب: الإیمان للقدر والإذعان لہ، رقم: ۶۷۷۴۔
2 أخرجہ مسلم في کتاب الإمارۃ، باب: فضل الرمي والحث علیہ، رقم: ۴۹۴۶۔
 
Top