• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تین طلاقوں کا مسئلہ! کتاب وسنت کی روشنی میں

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
تین طلاقوں کا مسئلہ! کتاب وسنت کی روشنی میں

مولانا محمد رمضان سلفی
طلاق دینا پسندیدہ فعل نہیں ہے۔ اسلام نے انتہائی کٹھن حالات میں طلاق کی اجازت دی ہے جبکہ صلح اور باہمی اتفاق کی کوئی صورت باقی نہ رہ جائے۔ معمولی بات پر طلاق، طلاق کہہ دینا با عزت اور باوقار لوگوں کا شیوہ نہیں ہے۔ میاں، بیوی میں جدائی اور تفریق ہی وہ جرم ہے جو کہ شیطان کو باقی تمام جرائم سے بڑھ کر پسند ہے۔
صحیح مسلم میں حضرت جابر بن عبداللہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ
’’ابلیس سمندر کے پانی پر اپنا تخت بچھاتا ہے اور لوگوں میں فساد اور بگاڑ ڈالنے کے لئے اپنے چیلوں کو بھیجتا ہے اور سب سے بڑے فتنہ باز کو شیطان کا سب سے بڑھ کر قرب حاصل ہوتا ہے اور ان میں ہر ایک آکر اپنی رپورٹ پیش کرتا ہے کہ میں نے فلاں جرم کروا دیا اور دوسرا کہتا ہے کہ میں نے فلاں شخص سے فلاں گناہ کروایا۔ شیطان کہتا ہے کہ تم نے کچھ بھی نہیں کیا، لیکن جو چیلا کہتا ہے کہ میں نے فلاں آدمی اور اس کی بیوی کے درمیان جدائی ڈال دی اور اُن دونوں کے ازدواجی تعلق کو توڑ دیا، تو اس پر ابلیس اسے اپنے قریب کرتے ہوئے اس سے بغل گیر ہوجاتا ہے اور کہتا ہے : ’’تو نے بہت خوب کام کیا۔‘‘ (صحیح مسلم : ج۲؍ ص۳۷۶)
اسلام نے کلی طور پر طلاق کے دروازے کو بند بھی نہیں کیا بلکہ انتہائی ناگزیر حالات میں اس کی اجازت دی ہے اور اس کیلئے طریق کار کا تعین بھی صحیح کردیا ہے۔
طلاق دینے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ عورت جب حیض سے فارغ ہو تو اسے طہر کی حالت میں بغیر مقاربت کئے ایک طلاق دی جائے، اور پوری عدت گزرنے دی جائے۔ عدت پوری ہونے پر عورت ، مرد سے جدا ہوجائے گی۔ اس کے بعد مرد اور عورت رضامند ہوں تو دوبارہ نکاح کی گنجائش موجود رہتی ہے۔
دوسری طرف شریعت ِمطہرہ نے ایک مجلس میں اکٹھی تین طلاقیں داغ دینے کی حوصلہ شکنی کی ہے اور اسے انتہائی قبیح فعل قرار دیا ہے۔ رسول اللہﷺ کی حیاتِ مبارکہ میں ایک شخص نے اپنی بیوی کو اکٹھی تین طلاقیں دے دیں۔ رسولِ کریمﷺکو پتہ چلا تو آپﷺ غصے کی حالت میں کھڑے ہوگئے اور فرمایا:
’’کیا میری موجودگی میں اللہ تعالیٰ کی کتاب سے کھیلا جارہاہے؟‘‘ یہ سن کر ایک آدمی نے کہا: ’’اے اللہ کے رسولؐ ،کیا میں اسے قتل نہ کردوں؟‘‘ (سنن نسائی :۲؍۴۶۸)
اس شدید ڈانٹ کے باوجود طلاقِ ثلاثہ کا مسئلہ اختلافی بنا دیا گیا ہے، ایک گروہ کی رائے یہ ہے کہ اگر کوئی شخص یک بارگی تین طلاقیں دے دے تو تینوں ہی واقع ہوجائیں گی۔ یہ گروہ مقلدین حضرات کا ہے، اگرچہ اس گروہ کے وسیع النظر علماء اس رائے سے اختلاف رکھتے ہیں۔
دوسرے گروہ کے نزدیک ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوتی ہے، اس رائے کے حاملین اہل حدیث اور ظاہریہ ہیں۔ امام طحاوی، امام رازی، امام ابن تیمیہ، امام ابن قیم، علامہ ابن حجر، علامہ عینی، علامہ طحطاوی، امام شوکانی، عبدالحی لکھنوی اور نواب صدیق حسن خان رحمہم اللہ بھی اسی رائے کو اختیار کرتے ہیں۔
٭ امام طحاویؒ فرماتے ہیں:
’’ذھب قوم إلی أن الرجل إذا طلق امرأتہ ثلاثا معا فقد وقعت علیہا واحدة‘‘ (معانی الآثار:ج۲؍ص۳۱)
’’ایک قوم اس طرف گئی ہے کہ اگر اکٹھی تین طلاقیں دی جائیں تو ایک ہی واقع ہوتی ہے۔ ‘‘
٭ امام رازیؒ فرماتے ہیں:
’’ھذا اختیار کثیر من علماء الدین أنہ لو طلقھا اثنین أو ثلثا لا یقع إلا واحدة‘‘ (تفسیر کبیر: ج۶ ؍ص۹۶)
یعنی ’’بہت سے علماے دین کاپسندیدہ مسلک یہ ہے کہ جو شخص بیک وقت دو یا تین طلاقیں دے دے تو اس سے صرف ایک طلاق واقع ہوتی ہے۔ ‘‘
٭ امام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں:
’’اگر کوئی شخص طہر میں ایک کلمہ یا تین کلمات کے ساتھ طلاق دے دے تو جمہورعلما کے نزدیک یہ فعل حرام ہے لیکن ان کے واقع ہونے میں اختلاف ہے۔
ایک قول یہ ہے کہ تین واقع ہوں گی اور
ایک قول یہ ہے کہ ایک ہی طلاق واقع ہوگی اور
یہی وہ قول ہے جس پر کتاب و سنت دلالت کرتے ہیں۔ (مجموع الفتاویٰ: ج۳۳؍ ص۹)
٭ امام ابن قیمؒ نے تین طلاقوں کو ایک قرار دینے والوں کی یہ فہرست پیش فرمائی ہے:
صحابہؓ میں سے عبدالرحمن بن عوفؓ، زبیر بن عوامؓ اور ابوموسیٰ اشعریؓ جبکہ عبداللہ بن عباسؓ، حضرت علیؓ اور عبد اللہ بن مسعودؓ سے دونوں طرح کے اقوال منقول ہیں۔
اس کے بعد عکرمہ، طاؤس، محمد بن اسحق، خلاص بن عمرو، حارث عکلی، داؤد بن علی رحمہم اللہ، بعض مالکی اور بعض حنفی جیسے محمد بن مقاتلؒ اور بعض حنابلہ۔ (أعلام الموقعین مترجم: ص۸۰۳)
اس بارے میں امام ابوحنیفہؒ کا مذہب کیاہے؟ امام ابن قیمؒ فرماتے ہیں کہ اس کے متعلق ان سے دو روایتیں منقول ہیں:
ایک تو وہی جو مشہور ہے اور دوسری یہ کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک طلاقِ رجعی ہوتی ہے جیسا کہ محمد بن مقاتل نے امام ابوحنیفہؒ سے نقل کیا ہے۔ (إغاثۃ اللہفان:ج۱؍ ص۲۹۰)
٭ حافظ ابن حجرؒ نے فتح الباري میں تین طلاقوں کو ایک قرار دینے والوں کی جو فہرست دی ہے، وہ حسب ِذیل ہے:
حضرت علیؓ، حضرت عبداللہ بن مسعودؓ، عبدالرحمن بن عوفؓ، حضرت زبیرؓ اور غنویؒ نے اسی مسلک کو قرطبہ کے مشائخ کے ایک گروہ، مثلاً محمد بن تقی بن مخلد او رمحمد بن عبدالسلام خشنی وغیرہ سے نقل کیا ہے اور ابن منذرؒ نے حضرت عبداللہ بن عباسؓ کے اصحاب، مثلاً عطا، طاؤس اور عمرو بن دینار سے نقل کیا ہے۔(فتح الباری: ج۹ ؍ص۳۶۳)
٭ امام شوکانیؒ فرماتے ہیں کہ ’’اہل علم کا ایک گروہ اس طرف گیا ہے کہ طلاق طلاق کے پیچھے واقع نہیں ہوتی بلکہ صرف ایک ہی طلاق واقع ہوگی۔‘‘ (نیل الاوطار: ج۴ ؍ص۳۵۵)
٭ نواب صدیق حسن خاں فرماتے ہیں:
’’اور یہ مذہب (تین طلاقوں کو ایک قرار دینے کا) ابن عباسؓ، ابن اسحق، عطا ، عکرمہ اور اکثر اہل بیت کا ہے۔ اور تمام اقوال میں یہی سب سے زیادہ صحیح ہے۔‘‘ (الروضۃ الندیۃ:ج۲؍ ص۵۰)
٭ علامہ عینی حنفی ؒ نے عمدۃ القاري میں کہا ہے کہ
طاؤسؒ، ابن اسحق ؒ، حجاج بن ارطاۃؒ، ابراہیم نخعیؒ وغیرہ، ابن مقاتل اور ظاہریہ اسی کے قائل ہیں کہ اگر شوہر اپنی بیوی کو تین طلاقیں اکٹھی دے دے تو ایک ہی واقع ہوگی۔ (عمدۃ القاری:ج۱۰؍ ص۲۳۳)
٭ امام طحطاوی حنفیؒ درّمختار کے حاشیہ پر لکھتے ہیں:
’’ دورِ اوّل میں جب کوئی شخص اکٹھی تین طلاقیں دیتا تو اس کے ایک ہونے کا فیصلہ دیا جاتا تھا۔ جب حضرت عمرؓ کا دور آیا تو لوگ چونکہ کثرت سے تین طلاقیں اکٹھی دینے لگ گئے تھے، لہٰذا آپؓ نے تینوں کے واقع ہونے کا فیصلہ کردیا۔‘‘ (درّ مختار: ج۲؍ ص۱۰۵)
٭ علامہ عبدالحی حنفی لکھنویؒ فرماتے ہیں:
’’دوسرا قول یہ ہے کہ شوہر اپنی بیوی کو اگر تین طلاقیں دے دے تو وہ ایک ہی پڑے گی اوریہ قول بعض صحابہؓ سے بھی منقول ہے۔ داؤد ظاہری اور ان کے پیروکار اسی کے قائل ہیں، امام مالکؒ کا ایک قول بھی یہی ہے، امام احمدؒ کے بعض اصحاب کا بھی یہی مذہب ہے۔‘‘ (عمدۃ الرعایہ: ج۲ ؍ص۷۱)
٭ اوپر ان علما کے اقوال کا تذکرہ کیا گیا ہے جنہوں نے خود اور سلف صالحین میں تین طلاقوں کو ایک طلاق قرار دینے کے موقف کا تذکرہ کیا ہے۔ علما کی اس فہرست سے ان لوگوں کے دعوے کا پھسپھساپن ظاہر ہوجاتا ہے جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ
’’تین طلاقیں اکٹھی دی جائیں یا دو، ان کا شرعاً اعتبار کیا جائے گا اور دو کو دو اور تین کو تین ہی سمجھا جائے گا، تقریباً سو فیصد صحابہ کرامؓ، اکثر تابعینؒ، ائمہ اربعہؒ اور جمہور سلف ؒو خلفؒ اسی کے قائل ہیں اور ظاہر قرآن کریم اور صحیح و صریح احادیث بھی یہی بتلاتی ہیں اور یہی حق و صواب ہے لہٰذا جن بعض حضرات کے اقوال اور فتوے اس مسئلے میں جمہور کے اِجماع کے خلاف نقل کئے جاتے ہیں ان کی کوئی وقعت نہیں اور وہ سب کے سب شاذ ہیں جو قابل عمل نہیں۔‘‘ (ماہنامہ ’الشریعہ‘:ص۳۳، جولائی ۲۰۰۶ئ)
اس عبارت میں حسب ِذیل چار دعوے کئے گئے ہیں:
1۔سو فیصدی صحابہ کرامؓ اور اکثر تابعینؒ تین طلاقوں کو تین ہی شمار کرتے ہیں۔
2۔ جن حضرات کے اقوال ان کے خلاف نقل کئے جاتے ہیں، وہ شاذ اور ناقابل عمل ہیں۔
3۔ظاہر قرآن اور صحیح احادیث بھی تین طلاقوں کے تین ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔
4۔تین طلاقوں کو ایک قرار دینے والوں کے اقوال اور فتوے جمہور کے اجماع کے خلاف ہیں۔
یہ دعویٰ کہ سو فیصدی صحابہ کرامؓ اور اکثر تابعینؒ تین طلاقوں کو تین ہی شمار کرتے ہیں، تو یہ سوچ سراسر تقلیدی غلو کی پیداوار ہے، ورنہ جو حضرات تین طلاقوں کو ایک ہی قرار دیتے ہیں وہ تعداد میں کم نہیں ہیں۔ ان حضرات کی فہرست جن علما کے پیش نظر رہی، اُنہوں نے کبھی ایسا غیرمنصفانہ فیصلہ نہیں کیا جو ’الشریعہ‘ کے مضمون نگار نے کیا ہے، بلکہ جو لوگ تین طلاقوں کو ایک قرار دیتے ہیں، وہ اگر یہ دعویٰ کریں کہ سو فیصدی صحابہ کرامؓ بھی اسی موقف کے حامل تھے تو یہ بے جا نہ ہوگا جیسا کہ عنقریب اسے ثابت کیا جائے گا۔
رہا دوسرا دعویٰ کہ تین طلاقوں کو ایک ہی طلاق بنانے والوں کامذہب شاذ اور منکر ہے تو یہ بھی جذباتی فیصلہ ہے جو حقیقت سے عاری ہے۔ کتاب وسنت کے دلائل سے ثابت شدہ مسئلے کو شاذ یا منکر نہیں کہناچاہئے اور اس سلسلہ میں عجلت سے کام نہیں لینا چاہئے بلکہ مسئلہ زیر بحث میں شاذ یا منکر کا استعمال ہی بے جا اوربے محل ہے، کیونکہ شاذ سے مراد یہ ہے کہ راوی خود تو ثقہ ہو لیکن وہ اپنے سے اَوثق یا اکثر راوۃ کی اس طرح مخالفت کرے کہ ان میں سے ایک کا صدق دوسرے کے کذب کو مستلزم ہو۔
زیر نظر مسئلہ میں شاذ کا اطلاق تب صحیح ہوسکتا ہے جب یہ کہا جائے کہ
تین طلاقیں دینے والے کی ایک طلاق بھی واقع نہیں ہوگی بلکہ اس کا یہ قول رائیگاں جائے گا۔ کیونکہ یہ رائے کلی طور پر دوسری رائے کے خلاف ہے جس میں تین طلاقوں کو تین ہی بنایا جاتا ہے۔ لیکن جب یہ کہا جائے کہ تین طلاق دینے سے ایک طلاق واقع ہوگی تو یہ ایک مستقل رائے ہے جو کلی طور پر تین طلاقوں کو تین بنانے کے خلاف نہیں ہے، لہٰذا اس پر شاذ کا اطلاق سرے سے درست ہی نہیں ہے۔
امام ابن قیمؒ فرماتے ہیں:
’’لیس ہذا ھو الشاذ وإنما الشذوذ أن یخالف الثقات فیما رووہ فیشذّ عنھم بروایتہ فأما إذا روی الثقة حدیثا منفردا بہ لم یرو الثقات خلافہ فإن ذلک لا یسمی شاذا‘‘ (إغاثة اللھفان: ج۱؍ ص۲۹۶)
’’یہ حدیث شاذ نہیں ہوسکتی کیونکہ شذوذ تو اسے کہتے ہیں کہ ثقہ راوی دیگر ثقہ راویوں کے خلاف روایت کرے لیکن جب ثقہ راوی ان سے الگ مستقل حدیث روایت کرے جسے ثقات نے روایت ہی نہ کیا ہو تو اس کا نام شاذ نہیں رکھا جاسکتا۔‘‘
یہی حال منکر کا ہے کیونکہ منکر سے مراد یہ ہے کہ ضعیف راوی ثقہ راویوں کے خلاف روایت کرے اور یہاں مخالفت کی کوئی بات ہی نہیں ہے۔ لہٰذا مضمون نگار کا تین طلاقوں کو ایک قرار دینے والوں کے مذہب پر شاذ یامنکر کا اطلاق غیر سوچی سمجھی رائے ہے جس کی کوئی وقعت نہیں۔
رہا یہ کہنا کہ ظاہر قرآن کریم اور صریح و صحیح احادیث بھی تین طلاق کے تین واقع ہونے پر دلالت کرتے ہیں تو یہ دعویٰ بھی حقیقت اور نفس الامر کے خلاف ہے۔
کیونکہ قرآنِ کریم اور صحیح و صریح احادیث بھی تین طلاقوں کو تین قرار دینے کی نفی کرتے ہیں بلکہ اس کے برعکس یکبار دی ہوئی تین طلاقوں کو ایک شمار کرنے پر دلالت کرتے ہیں،جیسا کہ درج ذیل آیت ِکریمہ اور احادیث ِصحیحہ سے واضح ہے :
دلائل قرآنِ کریم

قرآنِ کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’ اَلطَّلاقُ مَرَّتَانِ َفاِمْسَاکٌ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِیْحٌ بِاِحْسَانٍ ‘‘ (البقرۃ :۲۲۹)
’’یہ طلاقیں دو مرتبہ ہیں پھر یا تو اچھائی سے روک لینا ہے یا عمدگی سے چھوڑ دینا ہے۔‘‘
یعنی وہ طلاق جس میں خاوند کو عدت کے اندر رجوع کا حق حاصل ہے، وہ دو مرتبہ ہے۔ پہلی مرتبہ طلاق دینے کے بعد رجوع ہوسکتا ہے اور دوسری مرتبہ طلاق دینے کے بعد بھی رجوع کی گنجائش ہے۔ یہ نہیں فرمایا کہ طلاق دو عدد ہیں کہ ایک آدمی یکبار متعدد طلاقیں دے دے۔ بلکہ مرّتان سے واضح کردیا گیا ہے کہ دو طلاقیں الگ الگ دو بار دی جائیں گی۔ اسی لئے آگے چل کر فرمایا:
’’ فَإِنْ طَلَّقَھَا فَلَا تَحِلُّ لَہُ مِنْ بَعْدُ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہُ ‘‘
’’یعنی دو دفعہ طلاق دینے کے بعد تیسری مرتبہ اگر پھر طلاق دے دے تو وہ اس کے لئے حلال نہیں،یہاں تک کہ وہ کسی اور سے(شرعی) نکاح کرے۔‘‘
اس میں اس بات کی صراحت ہے کہ تینوں طلاقیں قرآن کی رو سے الگ الگ دی جائیں گی۔
فإن طلقھا کی " ف"سے کسی کو غلط فہمی نہیں ہونا چاہئے کہ اس میں" ف" تعقیب کے لئے ہے جو فی الفور طلاق دینے پر دلالت کرتی ہے کیونکہ یہاں" ف" صرف ترتیب کے لئے ہے۔ اگر" ف" کویہاں تعقیب بلامہلت یعنی تیسری طلاق فی الفور دینے کے لئے سمجھ لیاجائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ قرآنِ کریم تین طلاقیں اکٹھی دینے کا حکم بیان کررہا ہے کہ جو شخص تینوں طلاقیں اکٹھی داغ دے تو وہ تینوں شمار ہوجائیں گی اور وہ عورت اس مرد پر حرام ہوجائے گی اور اسے تحلیل کی ضرورت ہوگی۔ حالانکہ تین طلاقیں اکٹھی دے ڈالنا احناف کے نزدیک بھی بدعت ہے تو کیا قرآنِ کریم بدعات کو جواز فراہم کرنے کے لئے نازل ہوا ہے؟ اور اگر اس آیت ِکریمہ میں" ف" کو تعقیب ِبلا مہلت کے لئے مان لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ قرآن کریم یکبارگی تین طلاقوں کے تین ہونے کا حکم بیان کررہا ہے اور اس کے برعکس اگر کوئی شخص تین طلاقیں وقفہ وقفہ سے تین مہینوں میں دے تو اس کا حکم قرآنِ کریم میں ذکر نہ ہوا کیونکہ" ف" کو تعقیب ِبلامہلت کے لئے مان لیا گیا ہے اور اس طرح تین مہینوں میں تین طلاقیں دینے والے کی طلاق بتۃ نہ سمجھی جائے اور نہ ہی اسے تحلیل کی ضرورت ہو۔ گویا" ف"کو تعقیبیہ ماننے والوں کے نزدیک طلاق کا جو حَسَن طریقہ ہے، اسے قرآن نے نظر انداز کردیا اور جو طریقہ طلاق بدعت کا ہے، اسے قرآن کریم نے جائز قرار دے دیا۔ (تعالیٰ اﷲ عن ذلک)
یہ بھی یاد رہے کہ تین طلاقیں تین طہروں یا تین مہینوں میں دینے سے بھی" ف" تعقیب کے لئے ہوسکتی ہے کیونکہ ایک طہر میں ایک طلاق دینے کے بعد وہ طلاق معدوم نہیں ہوجاتی بلکہ اس کا اثر اگلے طہر تک جاری رہتا ہے تو دوسرے طہر میں دی جانے والی طلاق بھی پہلی طلاق کے پیچھے ہی واقع ہوگی۔ اسی طرح دوسرے طہر میں دی جانے والی طلاق بھی معدوم نہیں ہوجائے گی بلکہ اس کا اثر تیسرے طہر تک جاری رہے گا اور تیسرے طہر میں دی جانے والی طلاق دوسرے طہر میں دی جانے والی طلاق کے پیچھے ہی واقع ہوگی۔ اس طرح طلاق حَسَن طریقہ کے مطابق دی جائے گی اور" ف" کی تعقیب بھی باقی رہے گی۔ لہٰذا قرآنِ کریم کے الفاظ سے طلاق کا وہی طریقہ مراد لینا چاہئے جو جائز ہے۔ طلاقِ بدعت کو قرآن کریم کے الفاظ میں لپیٹ کر رائج کرنے سے بہرحال گریز کرنا چاہئے۔ اسی میں انسان کی عاقبت کی عافیت بھی ہے اور اس کے مذہب کی خیربھی۔ کیونکہ مذہب ِحنفی میں بھی یکبارگی تین طلاقیں دینے کو بدعت کہا گیا ہے۔ (الہدایۃ:۲؍۳۳۵، المطبع المجتبائي ،دہلی طبع ۱۳۷۵ھ)
دلائل احادیث ِمبارکہ

1۔حضرت عبداللہ بن عباسؓ کہتے ہیں کہ ’’رسولِ اکرمﷺ اور حضرت ابوبکرؓ کے زمانہ میں اور حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت کے ابتدائی دو سالوں میں جب کوئی شخص اکٹھی تین طلاقیں دیتا تو وہ ایک ہی شمار کی جاتی تھیں۔ پھر حضرت عمرؓ نے کہا کہ لوگوں نے اس کام میں جلدی کرنا شروع کردی جس میں اُنہیں مہلت ملی تھی۔ تو اس کو ہم نافذ کردیں تو مناسب ہے۔ پھر اُنہوں نے اسے جاری کردیا۔( صحیح مسلم: ج۱؍ ص۴۷۷) (زیر نظر بحث اور مذکورہ حدیث کی تفصیل کےلیے دیکھیئے:تطلیقات ثلاثہ از مولانا عبدالرحمن کیلانی ؒ )
2۔ابوالصہباء نے حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے کہا: کیا آپ جانتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کے زمانہ میں اور حضرت ابوبکرؓ کی خلافت ،حضرت عمرؓ کی خلافت میں بھی تین سال تک تین طلاقوں کو ایک بنایا جاتا تھا؟ تو عبداللہ بن عباسؓ نے فرمایا: ہاں۔( مسلم:ج۱ ؍ص۴۷۸)
3۔ابوالصہباء نے حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے کہا: ایک مسئلہ تو بتائیے کیا رسول اللہﷺ اور حضرت ابوبکرؓ کے زمانہ میں تین طلاقیں ایک ہی شمار نہ ہوتی تھیں؟ حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے کہا: ہاں ایساہی تھا۔ پھر جب حضرت عمرؓ کا زمانہ آیا تو لوگ اکٹھی طلاقیں دینے لگے تو حضرت عمرؓ نے اُنہیں لوگوں پر نافذ کردیا۔‘‘ (صحیح مسلم : ج۱؍ ص۴۷۸)
یہ احادیث جو مفہوم کے اعتبار سے ایک جیسی ہیں۔ ان سے مندرجہ ذیل امور پر روشنی پڑتی ہے
۱۔دورِ نبویؐ، دورِ صدیقیؓ اور فاروقی ؓدور کے ابتدائی دو یا تین سال تک بھی ایسے واقعات ملتے ہیں جن میں اکٹھی تین طلاقیں دی جاتی تھیں۔
ب۔تین طلاقیں اکٹھی دینے کاطریقہ چونکہ کتاب و سنت کے خلاف تھا، اس لئے اس پر لوگوں کو زجرو توبیخ کی جاتی تھی، تاہم تین طلاقوں کو ایک ہی قرار دیا جاتا تھا۔
ج۔حضرت عمرؓ کے یہ الفاظ ’’فلو أمضیناہ علیھم‘‘ اس بات پر واضح دلیل ہیں کہ آپ کا یہ فیصلہ ذاتی تھاجو تعزیر و تادیب کے لئے تھا تاکہ لوگ اس بری عادت سے باز آجائیں۔
4۔حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے مروی ہے کہ رکانہ بن عبد ِیزید نے اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دے دیں۔ پھر اس پر سخت پریشان ہوئے تو رسول اللہﷺ نے اس سے دریافت فرمایا کہ تو نے طلاق کس طرح دی ہے؟ اُس نے کہا: میں نے تینوںطلاقیں دے دے دی ہیں۔ آپؐ نے پوچھا: کیاایک ہی مجلس میں دی ہیں؟ اس نے کہا: ہاں( ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دی ہیں) آپؐ نے فرمایا: یہ توایک ہی طلاق ہوئی ہے۔ تو چاہے تو اس سے رجوع کرلے۔ اس نے کہا: میں نے رجوع کیا۔ (مسند احمد: ج۳ ؍ص۹۱)
اس حدیث سے یہ بات واضح ہوگئی کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک رجعی طلاق شمار ہوگی۔
کیا اکٹھی تین طلاقوں کو ایک قرار دینا اجماع کے خلاف ہے؟

رہا یہ دعویٰ کہ تین طلاقوں کو ایک قرار دینے والوں کا قول اجماع کے خلاف ہے تو یہ دعویٰ بھی خلاف ِحقیقت اور کئی اعتبار سے غلط ہے :
اوّلاً… اجماع کی تعریف اُصولِ فقہ کی کتابوں میں یہ کی گئی ہے:
’’ھو اتفاق المجتھدین من الأمۃ الإسلامیۃ في عصر من العصور علی حکم شرعي بعد وفاۃ النبي! (الوجیز في أصول الفقہ: ص۲۲۲)
یعنی ’’نبی کریمﷺ کی وفات کے بعد کسی دور میں امت ِ مسلمہ کے تمام مجتہدین کا کسی شرعی حکم پر متفق ہونا ’اجماع‘ کہلاتا ہے۔‘‘
’اجماع‘کی اس تعریف کے پیش نظر طلاقِ ثلاثہ کے تین واقع ہونے پر اجماع کا دعویٰ ہرگز نہیں کیاجاسکتا، کیونکہ بہت سے اہل علم نے اس سے اختلاف کیا ہے جن کی فہرست اس سے قبل دے دی گئی ہے جبکہ صرف ایک مجتہد کے اختلاف کرنے سے بھی اجماع ثابت نہیں ہوسکتا، تو اتنی کثیر تعداد کے اختلاف کی صورت میں اجماع کا دعویٰ کیسے کیا جاسکتا ہے؟
ثانیاً: امام ابن قیمؒ نے ذکر کیا ہے کہ طلاقِ ثلاثہ سے متعلق چار مذاہب پائے جاتے ہیں :
1۔یہ کہ تین طلاقیں دینے سے تینوں واقع ہوجاتی ہیں، اس گروہ میں اکثریت مقلدین کی ہے، جبکہ مقلدین میں سے بھی بعض وسیع النظر علما نے اس سے اختلاف کیا ہے۔
2۔یہ کہ تین طلاقیں دینے سے ایک بھی واقع نہیں ہوتی، ان کے نزدیک اکٹھی تین طلاقیں دے دینا بدعت ہے اور بدعت مردود ہوتی ہے اور یہ قول رافضہ کا ہے۔
3۔یہ کہ تین طلاقیں دینا بدعت ہے لہٰذا اس بدعت کو سنت کی طرف لوٹایا جائے گا اور سنت یہ ہے کہ ایک وقت میں ایک ہی طلاقِ رجعی دی جائے کیونکہ خاوند ایک وقت میں صر ف ایک ہی طلاق کا مالک ہوتاہے۔ اگر وہ تین طلاقیں یکبار دے گا تو اس سے ایک طلاقِ رجعی واقع ہوگی، یہ مذہب اہل حدیث اور اہل ظاہر کا ہے اور امام ابن قیمؒ اورامام ابن تیمیہؒ جیسے بلند پایہ علما بھی اسی کے قائل ہیں۔
4۔یہ کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں مدخولہ عورت کے لئے تین اور غیر مدخولہ کے لئے ایک شمار ہوگی۔ اس کے قائل اسحق بن راہویہ وغیرہ ہیں۔‘‘ (زادالمعاد: ج۴؍ ص۵۴)
اندازہ فرمائیے زیر بحث مسئلہ میں چار مختلف مذاہب کے پائے جانے کے باوجود اجماع کا دعویٰ کیسے کیا جاسکتا ہے؟
ثالثاً : تین طلاقوں کے تین شمار ہونے پر اجماع کا دعویٰ تو بالکل خلافِ حقیقت ہے ، لیکن اس کے برعکس تین طلاقوں کو ایک طلاق شمار کرنے والے حضرات کا اپنے موقف پر اجماع کا دعویٰ کرنا بالکل برمحل اور برحق ہے، کیونکہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ کی مذکور حدیث کے مطابق رسول اللہﷺ اور حضرت ابوبکر صدیقؓ کے دورِ خلافت میں اور حضرت عمرؓ کی خلافت کے ابتدائی دو یا تین سال تک تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوتی تھیں۔ مسلم شریف کی اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ۱۵ہجری تک صحابہ کرامؓ میں ایک صحابیؓ بھی ایسا نہ تھا جس نے اس مسئلہ میں اختلاف کیا ہو، تمام صحابہ کرامؓ ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک رجعی طلاق شمار کرتے تھے۔ اس لئے طلاقِ ثلاثہ کو ایک طلاق قراردینے والے اپنے اس موقف پر اجماع کا دعویٰ کرنے میں حق بجانب ہیں۔
علامہ ابن قیمؒ فرماتے ہیں:
’’فنحن أحق بدعوی الإجماع منکم لأنہ لایعرف في عھد الصدیق أحد ردّ ذلک ولا خالفہ فإن کان إجماع فھومن جانبنا أظھر ممن یدعیہ من نصف خلافۃ عمر وھلمّ جرا فإنہ لم یزل الاختلاف فیھا قائما‘‘
(إغاثۃ اللھفان:۱؍۲۸۹)
’’ طلاق ثلاثہ کو ایک بنانے والے حضرات تین بنانے والوں سے بڑھ کر اجماع کا دعویٰ کرنے کا حق رکھتے ہیں او ر ہمارے موقف پر اجماع کا پایا جانا زیادہ واضح ہے، جبکہ حضرت عمرؓ کے نصف دور میں تین طلاقوں کو تین قرار دینے سے لے کر اب تک اس مسئلہ میں اختلاف چلا آرہا ہے۔‘‘
رابعاً … اجماع کا دعویٰ کرنے والوں کا انحصار اس بات پر ہے کہ جب سے حضرت عمرؓ نے تین طلاقوں کو تین قرار دینے کا حکم دیاہے، تب سے اس پر اتفاق ہوگیا ہے۔ لہٰذا اس کی مخالفت جائز نہیں ہے۔
جبکہ صورتِ حال یہ ہے کہ خود حضرت عمرؓ نے اپنے اس فیصلے کو ترک کردیاتھا اور ایک مجلس میں تین طلاق کے وقوع کا جو حکم انہوں نے جاری کیا تھا، اس سے رجوع فرما لیا اور اس پر ندامت کا اظہار کیاتھا،
جیسا کہ امام ابن قیمؒ إغاثۃ اللھفان میں فرماتے ہیں:
’’قال الحافظ أبوبکر الإسماعیلي في مسند عمر أخبرنا أبو یعلی حدثنا صالح بن مالک حدثنا خالد بن یزید بن أبي مالک عن أبیہ قال قال عمر بن الخطاب: ما ندمت علی شیئ ندامتی علی ثلاث أن لا أکون حرمت الطلاق وعلی أن لا أکون أنکحت الموالي وعلی أن لا أکون قتلت النوائح‘‘ (إغاثۃ اللھفان: ج۱؍ ص۳۳۶)
’’حضرت عمرؓ نے فرمایا جو ندامت مجھے تین کاموں پر ہوئی ہے وہ کسی او رکام پر نہیں ہوئی: ایک یہ کہ میں تین طلاقوں کو طلاقِ تحریم نہ بناتا، دوسرا یہ کہ غلاموں کو نکاح کرنے کا حکم صادر نہ کرتا، اور تیسرا یہ کہ نوحہ کرنے والیوںکو قتل کرنے کا حکم نہ دیتا۔‘‘
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمرؓ نے جو تین طلاقوں کے تین ہونے کا حکم دیا تھا، وہ شرعی حکم نہ تھا بلکہ تعزیری اور وقتی آرڈیننس تھا، جو یکبار تین طلاقیں دینے والوں کے لئے سزا کے طور پر نافذ کیا تھا۔ جب دیکھا کہ اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوا بلکہ لوگوں کا یکبارگی طلاقیں دینے کا فساد اوربڑھا ہے تو آپؓ نے اس ذاتی فیصلے سے رجوع فرما لیا، اور اس پر ندامت کا اظہار بھی کیا۔ تو دیکھئے جب حضرت عمرؓ ہی اپنے اس فیصلے پر ندامت کااظہار فرماچکے ہیں تو اب اسے بنیاد بنا کر اجماع کا دعویٰ کیسے کیاجاسکتا ہے؟
بعض لوگوں نے مسند ِعمرؓ کے اس اثر پر یہ اعتراض کیاہے کہ اس کی سند میں خالد بن یزید بن ابی مالک راوی ضعیف ہے، اس لئے یہ ناقابل اعتبار ہے۔
اگرچہ بعض علما نے اس راوی پر جرح کی ہے لیکن کبارائمہ مثلاً ولیدبن مسلم، عبداللہ بن مبارک، سلیمان بن عبدالرحمن، ہشام بن عمار، ہشام بن خالد، سوید بن سعید، ابوزرعہ اور ابن صالح وغیرہ نے اس راوی کو ثقہ اور قابل اعتماد قرار دیا ہے۔ ابن حبانؒ نے اسے فقہاے شام میں شمار کیا ہے او ریہ بھی کہاہے کہ یہ صدوق في الروایۃ ہے۔ عجلی نے بھی اسے ثقہ کہا ہے۔(تہذیب التہذیب: ج۳ ص۱۲۶)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
طلاقِ ثلاثہ کو ’تین‘ ثابت کرنیوالوں کے دلائل کا جائزہ

حنفیہ کے ہاں طلاق کی اقسام
ایک مجلس کی تین طلاقوں کو تین قرار دینے والوں کے دلائل کا جائزہ لینے سے قبل حنفی مذہب میں طلاق کی اقسام کو سمجھ لینا مناسب ہے، تاکہ آنے والے دلائل کی مراد سمجھنے میں آسانی رہے۔ حنفیہ کے ہاں طلاق کی تین اقسام ہیں:
1۔احسن
2۔حسن
3۔بدعی
1۔احسن طلاق سے مراد یہ ہے کہ شوہر ایسے طہر میں اپنی بیوی کو ایک طلاق دے جس میں اس نے بیوی سے مقاربت نہ کی ہو۔ اور طلاق دینے کے بعد عدت ختم ہونے تک اس کو چھوڑے رکھے، طلاق کی یہ احسن صورت ہے۔
2۔حسن طلاق سے مراد یہ ہے کہ مدخول بہا عورت کو تین طہروں میں وقفے وقفے سے طلاق دے، یعنی ایک طہر میں پہلی طلاق دے، دوسرے طہر میں دوسری اور تیسرے طہر میں تیسری طلاق دے۔یہ طلاق کی حسن صورت ہے۔
3۔طلاقِ بدعت یہ ہے کہ یکبار اسے تین طلاق دے دے یا ایک طہر میں تین طلاق دے دے۔ طلاق کی یہ صورت بدعت ہے اور سنت کے خلاف ہے۔ (الھدایۃ: ص۳۷۳)
اب ہم ان دلائل کا جائزہ لیتے ہیں جو طلاقِ ثلاثہ کے واقع ہونے پر پیش کئے جاتے ہیں۔ ہماری رائے میں طلاقِ ثلاثہ کی روایات کو طلاقِ بدعت پر محمول کرنے کی وجہ سے اختلاف پیدا ہوتا ہے جسے خود حنفی مذہب میں بھی بدعت کہا گیا ہے۔ اس کے برعکس اگر ان روایات کو طلاق حسن پر محمول کیا جائے تو کوئی اختلاف باقی نہ رہے۔
ایک مجلس کی طلاقِ ثلاثہ کو تین قرار دینے والوں کے دلائل کی حقیقت

1۔سب سے پہلے قرآن کی یہ آیت پیش کی جاتی ہے:
’’ فَاِنْ طَلَّقَھَا فَـلَا تَحِلُّ لَہُ مِنْ بَعْدُ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہُ‘‘ (البقرۃ:۲۳۰)
اور اس سے استدلال یوں کیا جاتاہے کہ یہاں حرف ’فا‘ ہے جو اکثر تعقیب بلامہلت کے لئے آتا ہے۔ جس کا مطلب بظاہر یہ ہے کہ دو کے بعد اگر کسی نادان نے تیسری طلاق بھی فی الفور دے دی تو اب اس کی بیوی اس کے لئے حلال نہیں ہے جب تک وہ کسی اور مرد سے نکاح نہ کرلے اور یہ اسی صورت میں ہوسکتا ہے کہ ایک ہی مجلس اور ایک ہی جگہ میں تین طلاقیں دی جائیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ آیت کی تفسیر میں دفعتہً تین طلاقیں دینا بھی داخل ہے۔ (ماہنامہ ’الشریعہ‘ جولائی ۲۰۰۶ئ، ص۲۸)
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس آیت سے قبل آنے والی آیت ِکریمہ’’ اَلطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاکٌ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِیْحٌ بِإحْسٰنٍ‘‘ (البقرۃ:۲۲۹) میں دو طلاقوں سے مراد کون سی طلاق ہے؟ جب ان دو طلاقوں سے مراد رجعی طلاقیں ہیں جو وقفے وقفے سے دی جاتی ہیں، یکبارگی نہیں تو اس پر مرتب ہونے والی تیسری طلاق جو اس آیت میں ذکر ہوئی ہے: ’’ فَإِنْ طَلَّقَھَا فَلَا تَحِلُّ لَہُ مِنْ بَعْدُ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہُ ‘‘سے بھی وہ تیسری طلاق مراد ہوگی جو دوسری طلاق کے بعد فی الفور نہیں بلکہ وقفہ کے بعد تیسرے طہر میں دی گئی ہو۔ جب یہ آیاتِ کریمہ وقفے وقفے سے تین طہروں میں دی جانے والی طلاقوں کے حکم کو بیان کرنے کے لئے ہیں تو اس میں دفعتہً ؍ یکبار تین طلاقیں دینا داخل نہیں ہوسکتا کیونکہ ایک ہی آیت ِکریمہ دو متضاد مفاہیم کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ باقی رہا یہ کہنا کہ یہاں حرف ’فا‘ ہے جو تعقیب بلامہلت کے لئے آتا ہے تو اس کا جواب مضمون کے سابقہ حصہ میں تفصیل سے ذکر ہوچکا ہے۔
2۔ایک مجلس میں طلاقِ ثلاثہ کے وقوع کے قائلین دوسری دلیل کے طور پر حضرت عائشہؓ کی یہ حدیث پیش کرتے ہیں: ’’حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں، سو اس نے کسی اور مرد سے نکاح کیا اور اس نے ہم بستری سے پہلے اسے طلاق دے دی۔ آنحضرت ﷺ سے پوچھاگیا: کیا وہ عورت اپنے پہلے خاوند کے لئے حلال ہے؟ تو آپؐ نے فرمایا: نہیں جب تک کہ دوسرا خاوند اس سے ہم بستری نہ کرلے اور لطف اندوز نہ ہوجائے۔‘‘ (بخاری :۲؍۷۹۱، مسلم:۱؍۴۶۳، السنن الکبریٰ:۷؍۳۳۴)
مضمون نگار لکھتے ہیں: ’’اس حدیث میں ’’طلَّق امرأتہ ثلاثًا‘‘ کے جملہ کی تشریح میں حافظ ابن حجرؒ اور حافظ بدر الدین عینی ؒفرماتے ہیں کہ یہ جملہ ظاہراً اسی کو چاہتا ہے کہ تین طلاقیں اکٹھی اور دفعتہً دی گئی تھیں۔‘‘ (ماہنامہ الشریعہ، جولائی ۲۰۰۶ئ، ص ۲۸)
یہ حدیث دراصل رفاعہ قرظیؓ کی حدیث کا اختصار ہے۔ اسی لئے امام بخاریؒ نے اسے رفاعہ قرظیؓ کی مفصل حدیث کے بعد ذکر کیاہے اور حضرت رفاعہؓ نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں اکٹھی اور دفعتہً نہیں دی تھیں بلکہ متفرق طور پر وقفے وقفے سے تین طلاقیں دی تھیں اور اسی کے لئے اس حدیث میں ثلاثًا کا لفظ استعمال ہوا ہے کیونکہ امام بخاریؒ کتاب اللباس میں جب اس حدیث کو لائے ہیں تو وہاںوضاحت موجود ہے کہ حضرت رفاعہؓ نے یکے بعد دیگرے وقفہ کے ساتھ تین طلاقیں دی تھیں، حدیث کے الفاظ یوں ہیں:
عن عائشۃ أن رفاعۃ القرظي طلَّق امرأتہ فبَتَّ طلاقھا فتزوجھا بعدہ عبدالرحمٰن بن الزبیر فجاء ت النبي ! فقالت: یا رسول اﷲ! إنھا کانت عند رفاعۃ فطلَّقھا آخرثلث تطلیقات۔۔ (صحیح بخاری: جلد۲؍ ص۸۹۹)
یہاں ’’فطلقھا آخر ثلث تطلیقات‘‘ کے الفاظ واضح طور پر اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ رفاعہؓ نے تین طلاقیں وقفے وقفے سے دی تھیں، پہلے دو طلاقیں دی جاچکی تھیں اور اب تیسری طلاق بھی دے دی جو آخری ہے اور اسی کو بتۃ طلاق کہا گیا ہے اور آخرثلث تطلیقات کے یہ الفاظ صحیح مسلم (حدیث ۱۴،۳۵۱۳) اور سنن کبریٰ از بیہقی (جلد ۷؍ ص ۳۷۴) پربھی اس حدیث میں موجود ہیں جو تین طلاق کے متفرق طور پر دئیے جانے کی واضح دلیل ہیں اور اگر اس حدیث کو رفاعہؓ کی حدیث کا اختصار نہ بھی ماناجائے تب بھی اس میں آنے والے ثلاثًا کے لفظ کوطلاقِ بدعت پر نہیں بلکہ طلاقِ حسن پر محمول کرناچاہئے، کیونکہ جداجدا دی ہوئی تین طلاقوں کے لئے لفظثلاثا کا استعمال قرآن و سنت اور لغت و عرف ہر اعتبار سے درست ہے اور اس حدیث میں اکٹھی تین طلاقیں دینے کا کوئی قرینہ بھی نہیں ہے۔ امام ابن قیم جوزیہؒ فرماتے ہیں:
’’لیس فیہ أنہ طلَّقھا ثلاثا بفم واحد فلا تدخلوا فیہ ما لیس فیہ‘‘
’’’حدیث ِعائشہؓ میں یہ ذکر نہیں ہے کہ اس نے یکبار اکٹھی تین طلاقیں دی تھیں، لہٰذا جس چیز کا حدیث میں ذکر نہیں، اسے اس میں داخل نہیں کرنا چاہئے۔ ‘‘ (إغاثۃ اللھفان: ۱؍۳۱۳)
حافظ ابن حجرؒ نے بھی اس حدیث سے اکٹھی تین طلاقوں کے وقوع پر استدلال کو باطل قرار دیا ہے۔ (فتح الباری: ۹؍۴۶۸)
3۔ان حضرات کی تیسری دلیل یہ حدیث ہے کہ ’’حضرت عائشہؓ سے سوال کیا گیا کہ اگر کوئی شخص ایک عورت سے نکاح کرتا ہے اور اس کے بعد اس کو تین طلاقیں دے دیتا ہے؟ اُنہوں نے فرمایا کہ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ وہ عورت اس شخص کے لئے حلال نہیں ہے، جب تک کہ دوسراخاوند اس سے لطف اندوز نہ ہوجائے جس طرح کہ پہلا خاوند اس سے لطف اُٹھا چکا ہے۔(مسلم:۱؍۴۶۳)
اس حدیث میں بھی لفظ ثلاثا بظاہر اسی کا مقتضی ہے کہ تین طلاقیں اکٹھی دفعتہً دی گئی ہوں۔‘‘ (’الشریعہ‘ جولائی ۲۰۰۶ء : ص۲۸)
میں کہتا ہوں کہ اگر اس حدیث میں ثلاثًاکے لفظ سے تین طلاقیں اکٹھی دینامراد ہوتا تو حدیث ِمذکور میں اس کے ساتھ جمیعًا کا لفظ بھی ذکر ہوتا، جیساکہ محمود بن لبید کی حدیث میں جمیعًا کا لفظ ذکر کرکے تین طلاق کے اکٹھی اور دفعتہً ہونے کی صراحت کی گئی ہے۔ اس حدیث کے الفاظ ملاحظہ ہوں:
’’عن محمود بن لبید قال: أخبر رسول اﷲ ﷺ عن رجل طلَّق امرأتہ ثلاث تطلیقات جمیعًا فقام غضبانًا،ثم قال أیُلعب بکتاب اﷲ وأنا بین أظھرکم حتی قام رجل وقال:یا رسول اﷲ،ألا أقتلہ‘‘(سنن نسائی:ج۲؍ ص۴۶۸)
’’حضرت محمود بن لبید کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کوپتہ چلا کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں اکٹھی دے دی ہیں تو آپؐ غصہ کی حالت میں اُٹھے اور فرمایا: کیامیرے ہوتے ہوئے اللہ کی کتاب سے کھیلا جارہاہے، یہ سن کر ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسولﷺ! کیا میں اسے قتل نہ کردوں۔‘‘
دیکھئے، جس آدمی نے تین طلاقیں اکٹھی دی تھیں، اسے ذکر کرتے ہوئے ثلاث کے لفظ کے ساتھ جمیعًا کا لفظ بھی ذکر ہوا ہے۔ جبکہ حضرت عائشہؓ کی حدیث ِمذکور میں ایسا کوئی لفظ نہیں۔ لہٰذا اس میں لفظ ثلاثا کو دفعتہً اکٹھی تین طلاق پر محمول کرنا تحکم اور سینہ زوری کے سوا کچھ نہیں۔ بنا بریں اس میں ثلاثا کے لفظ سے وہی طلاق مراد ہے جو مباح اور حسن ہے اور جو وقفے وقفے سے تین طہروں میں دی جاتی ہے۔
4۔تین طلاق کو تین قرار دینے والوں کی طرف سے محمود بن لبید کی وہی حدیث پیش کی جاتی ہے جس کے الفاظ بمع ترجمہ ابھی ذکر ہوئے ہیں اور اس سے استدلال کرتے ہوئے کہا گیا ہے:
’’اس صحیح روایت سے یہ تو معلوم ہوتا ہے کہ دفعتاً تین طلاقیں دینا پسندیدہ امر نہیں ورنہ جناب رسول اکرمﷺ نہ تو اس پر سخت ناراض ہوتے اور نہ ہی یہ ارشاد فرماتے کہ میری موجودگی میں اللہ کی کتاب سے کھیلا جارہا ہے۔ البتہ آپؐ نے باوجود ناراضگی کے ان تینوں کو اس پر نافذ کردیا۔‘‘ (ماہنامہ الشریعہ: جولائی ۲۰۰۶ئ)
یہ بالکل غلط بات ہے کہ ایک کام پر رسول اللہﷺ سخت ناراض ہوں حتیٰ کہ ایک آدمی ایسے طلاق دہندہ کو قتل کرنے کی اجازت مانگے اور پھر وہ تین طلاقیں نافذ بھی کردی جائیں، یہ نہیں ہوسکتا، ورنہ اس پر آپؐ کا ناراض ہونا بے معنی ہوکر رہ جاتاہے۔ یہ کبھی نہیں ہواکہ رسول اکرمﷺکسی کام پر سخت ناراض ہوئے ہوں اور اسے کتاب اللہ کے ساتھ مذاق قرار دیا ہو اور پھر اسے نافذ بھی کردیا ہو، امام ابن قیمؒ فرماتے ہیں:
’’وکیف یظن برسول اﷲ! أنہ أجاز عمل من استھزأ بکتاب اﷲ وصححہ و اعتبرہ في شرعہ وحکمہ ونفذہ وقد جعلہ مستھزئً ا بکتاب اﷲ تعالیٰ‘‘ (إغاثۃ اللھفان : ۱؍۳۱۵)
’’رسول اکرمﷺ کے بارے میں یہ تصور بھی نہیں کیاجاسکتا کہ آپؐ کتاب اللہ کا مذاق اُڑانے والے شخص کے کام کو جائز اور صحیح بنا دیں یا شریعت میں اس کا اعتبار کرتے ہوئے اسے نافذ کردیں جبکہ آپؐ نے اسے کتاب اللہ کا مذاق اُڑانے والا کہا ہے تو اب اس کی دی ہوئی طلاقوں کا اعتبار کیونکر ہوسکتاہے؟‘‘
5۔ان کی پانچویں دلیل حضرت سہل بن سعدؓ کی یہ روایت ہے کہ حضرت عویمرؓ نے آپؐ کے سامنے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں اور آپ ؐ نے ان کونافذ کردیا۔(سنن ابوداؤد) ’’اگر دفعتہً تین طلاقیں حرام ہوتیں اور تین کا شرعاً اعتبار نہ ہوتا اور تین طلاقیں ایک تصور کی جاتیں تو آپؐ ضرور اس کا حکم ارشاد فرماتے اور کسی طرح خاموشی اختیار نہ فرماتے۔‘‘ (ماہنامہ ’الشریعہ‘: جولائی ۲۰۰۶ئ)
حضرت عویمرؓ کا یہ واقعہ طلاق ثلاثہ کی بجائے دراصل لعان کا واقعہ ہے اورحدیث ِلعان سے طلاقِ ثلاثہ کے وقوع پر استدلال کرناانتہائی کمزور دلیل ہے کیونکہ لعان کرنے سے میاں اور بیوی کے درمیان ہمیشہ کے لئے جدائی اور علیحدگی واقع ہوجاتی ہے کہ جس کے بعد وہ کبھی جمع نہیں ہوسکتے۔ حدیث نبویؐ کے الفاظ: ثم لا یجتمعان أبدا (لعان کے بعد وہ کبھی بھی اکٹھے نہیں ہوسکتے) اسی کی تائید کرتے ہیں، لہٰذا لعان کے بعد حضرت عویمرؓ کا اس عورت کو طلاق دینا ایسے ہی لغو (رائیگاں) تھا جیسے راہ چلتی کسی اجنبی عورت کو تین طلاقیں دے دینا عبث ہے۔ کیونکہ لعان کے بعد وہ عورت طلاق کا محل ہی نہیں رہتی۔اور لعان سے ہونے والی جدائی ایک یا ایک سے زیادہ طلاقیں دینے کی قطعاً محتاج نہیں ہے۔
رہا یہ سوال کہ رسول اکرمﷺ عویمرؓ کے اس فعل پرخاموش رہے ہیں، اگر دفعتہً تین طلاقیں دینا حرام ہوتا تو آپؐ کبھی خاموشی اختیار نہ کرتے۔ تو اس کا جواب حنفی مذہب کے ممتاز عالم شمس الائمہ سرخسی نے اپنی تالیف المبسوط میں دیا ہے کہ
’’آنحضرتﷺ نے از راہِ شفقت عویمر عجلانیؓ کی بات پر انکار نہ فرمایا، اس لئے کہ آپؐ کو معلوم تھا کہ وہ غصے میں ہے اور اگر غصہ کی بنا پر اس نے آپؐ کی بات نہ مانی تو کافر ہوجائے گا۔ لہٰذا آپؐ نے اس پر انکار کو مؤخر فرما دیا اور ’’فلا سبیل لک علیہا‘‘ (تجھے اب اس پر کوئی اختیار باقی نہیں رہا) کہہ کر اس فعل کی تردید کردی۔ نیز یہ کہ تین طلاقیں ایک ساتھ دینا اس لئے ناجائز ہے کہ اس سے تلافی کا دروازہ بند ہوجاتا ہے اور لعان کی صورت میں تو تلافی کا مسئلہ ہی نہیں ہے۔‘‘ (بحوالہ ’تین طلاقیں‘ از مولانا محمد قاسم خواجہ: ص۱۱۶ )
اوراگر رسول اللہﷺ کی خاموشی کو یہاں رضا پر محمول کرلیاجائے، جیسا کہ مضمون نگار کا خیال ہے، پھر تو تین طلاقیں اکٹھی دینا بدعت بھی نہیں رہے گا۔ جبکہ حنفی مذہب میں بھی تین طلاقیں دفعتہً اکٹھی دینے کو بدعت کہا گیا ہے۔ حضرت عویمرؓ کے اس فعل پر آپؐ کی خاموشی رضا کے اظہار کے لئے نہیں تھی بلکہ اس لئے تھی کہ اس کا یہ فعل بے محل ہونے کی وجہ سے عبث تھا۔ اگر حضرت عویمرؓ کا لعان کے بعد اس عورت کو تین طلاقیں دینے کاعمل برمحل اور مؤثر ہوتا تو آپؐ اس پر اسی طرح ناراضگی اور غصے کا اظہار فرماتے جس طرح محمود بن لبید کی حدیث کے مطابق ایک آدمی کے تین طلاقیں دفعتہً اکٹھی دینے پر آپؐ نے غصے کا اظہار فرمایاتھا۔ حتیٰ کہ ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسولؐ! کیا میں اسے قتل نہ کردوں؟ لہٰذا لعان والی حدیث سے دفعتہً تین طلاقوں کے وقوع پر استدلال کرنا انتہائی ضعیف موقف ہے۔
6۔ان حضرات کی چھٹی دلیل یہ ہے کہ ’’حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے بحالت ِحیض اپنی بیوی کو ایک طلاق دے دی، پھر ارادہ کیا کہ باقی دو طلاقیں بھی باقی دو حیض یاطہر کے وقت دے دیں۔ آنحضرتﷺ کو اس کی خبر ہوئی تو آپؐ نے حضرت ابن عمرؓ سے فرمایا کہ تجھے اللہ تعالیٰ نے اس طرح حکم تو نہیں دیا، تو نے سنت کی خلاف ورزی کی ہے۔ سنت تو یہ ہے کہ جب طہر کا زمانہ آئے تو ہر طہر کے وقت اس کو طلاق دے، وہ فرماتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے مجھے حکم دیا کہ تو رجوع کرلے۔ چنانچہ میں نے رجوع کرلیا۔ پھر آپؐ نے مجھ سے فرمایا کہ جب وہ طہر کے زمانہ میں داخل ہو تو اس کو طلاق دے دینا اور مرضی ہوئی تو بیوی بناکر رکھ لینا، اس پر میں نے آنحضرتﷺ سے عرض کیا: یارسول اﷲﷺ یہ تو بتلائیں، اگر میں اس کو تین طلاقیں دے دیتا تو کیا میرے لئے حلال ہوتا کہ میں اس کی طرف رجوع کرلوں؟ آپؐ نے فرمایا: نہیں وہ تجھ سے جدا ہوجاتی اور یہ کارروائی معصیت ہوتی۔ (السنن الکبریٰ:۷؍۳۳۴، سنن دارقطنی :۲؍۴۳۸)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ تین طلاقیں دے چکنے کے بعد پھر رجوع کی کوئی صورت باقی نہیں رہتی۔‘‘ (ماہنامہ الشریعہ :۲۰۰۶ء ، ص۲۹)
اگر فقہی جمود کو چھوڑ کر طلاقِ ثلاثہ کے مسئلہ پر تحقیق کی جاتی تو حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی اس حدیث سے اکٹھی تین طلاقوں کے تین ہونے پر ہرگز استدلال نہ کیا جاتا، کیونکہ اکٹھی تین طلاقوں کے موقف کی تردید اسی حدیث میں موجود ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓنے ایک طلاق حیض کی حالت میں دے دی تھی اور دیگر دو طلاقوں کو بھی وہ متفرق طور پر دو حیض یا دو طہر میں دینے کا ارادہ رکھتے تھے، حدیث ِمذکور کے آغاز میں اس طریقہ طلاق کی صراحت موجودہے، جیسا کہ حسن بصری ؒکہتے ہیں :
’’حدثنا عبد اﷲ بن عمر أنہ طلق امرأتہ تطلیقۃ وھي حائض ثم أراد أن یتبعھا تطلیقتین أخراوین عند القرئین الباقیـین فبلغ ذلک رسول اﷲ ۔۔۔ الخ‘‘ (سنن کبریٰ بیہقی :۷؍۳۳۴)
’’ عبداللہ بن عمرؓ نے اپنی بیوی کو ایک طلاق حیض کی حالت میں دے دی، پھر ارادہ کیا کہ باقی دو طلاقیں بھی دو مختلف حیضوں یا طہروں میں دے دیں۔۔۔ الخ۔‘‘
جب عبداللہ بن عمرؓ خود باقی دو طلاقیں دو مختلف حیضوں یا دو مختلف طہروں میں دینے کا ارادہ رکھتے تھے تواسے دفعتہً اکٹھی تین طلاقوں پر محمول کیسے کیاجاسکتاہے؟ لہٰذا عبداللہ بن عمرؓ نے جو رسول اکرمﷺ سے عرض کیا تھا کہ اے اللہ کے رسولؐ! اگر میں اسے تین طلاقیں دے دیتا تو کیا میرے لئے حلال ہوتا کہ میں اس کی طرف رجوع کرلوں؟ اس سے متفرق طور پر دو مختلف حیضوں میں طلاق دینا ہی مراد تھا جس کا ارادہ حضرت ابن عمرؓ اس سے پہلے کرچکے تھے، اور اس سے دفعتہً اکٹھی تین طلاقیں مراد لے کر ایک ہی حدیث کے اوّل اور آخر حصے کو آپس میں ٹکرا دینا حدیث نافہمی کی دلیل ہے۔ باقی رہا آپﷺ کا اس کام کو معصیت کہنا تو اس کا تعلق دراصل حالت ِحیض میں تین طلاقیں دینے سے ہے یا متفرق طور پر تین طلاقیں دینے کے بعد رجوع کرنے کو معصیت کہا گیا ہے۔
اس حدیث کے ناقابل استدلال ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سنن بیہقی کی یہ حدیث ضعیف ہے کیونکہ اس کی سند میں شعیب بن رزیق راوی ہے جسے محدثین نے مجروح قرا ردیا ہے۔ دوسرا راوی عطاء خراسانی ہے جو امام بخاریؒ، شعبہؒاور ابن حبانؒ کے نزدیک ضعیف ہے اور سعید بن مسیب ؒنے اسے جھوٹا کہا ہے۔ (بحوالہ ’تین طلاقیں‘ ص ۱۲۲)
7۔ان کی ایک دلیل یہ ہے کہ حضرت نافع بن عجیر فرماتے ہیں کہ حضرت رکانہ بن عبد یزید نے اپنی بیوی سہیمہ کو بتہ (تعلق قطع کرنے والی) طلاق دی۔ اس کے بعد اُنہوں نے آنحضرتﷺ کو خبر دی اور کہا: بخدا میں نے صرف ایک ہی طلاق کا ارادہ کیاہے؟ اس پر آنحضرتﷺ نے ارشاد فرمایا کہ خدا تعالیٰ کی قسم! تو نے صرف ایک ہی طلاق کا ارادہ کیا ہے؟ رکانہ نے کہا: اللہ تعالیٰ کی قسم! میں نے صرف ایک ہی طلاق کا ارادہ کیا ہے تو آنحضرتﷺ نے وہ بی بی اسے واپس دلوا دی۔‘‘ (سنن ابوداؤد، سنن دارقطنی وغیرہ)
اس پر صاحب ِمضمون کہتے ہیں:
’’اگر لفظ بتہ سے دفعتہً تین طلاقیں پڑنے کا جواز ثابت نہ ہوتا تو جناب رسولِ اکرمﷺ حضرت رکانہؓ کو کیوں قسم دیتے؟ چونکہ کنایہ کی طلاق میں نیت کا دخل بھی ہوتا ہے اور لفظ بتہ تین کا احتمال بھی رکھتا ہے، اس لئے آپ نے ان کو قسم دی، اگر تین کے بعد رجوع کا حق ہوتا اور تین ایک سمجھی جاتی تو آپؐ ان کو قسم نہ دیتے۔‘‘ (ماہنامہ ’الشریعہ‘ جولائی ۲۰۰۶ئ،ص ۲۹)
حنفیہ کا اس حدیث سے دفعتہً تین طلاقیں واقع ہونے پر استدلال کرنا ڈوبتے کو تنکے کا سہارا والی بات ہے۔ کیونکہ ایک تو یہ روایت ہی ضعیف ہے دوسرا یہ روایت حنفیہ کے مذہب کے مطابق نہیں ہے بلکہ اس کے خلاف ہے، حنفیہ کے مذہب کے مطابق بتہ کے لفظ سے جب ایک طلاق مراد لی جاتی ہے تو وہ ایک بائنہ ہوتی ہے جس کے بعد رجوع نہیں ہوسکتا اور بیوی واپس نہیں دلوائی جاسکتی،
ملا علی قاریؒ فرماتے ہیں: ’’طلاق البتۃ عند الشافعي واحدۃ رجعیۃ وعند أبي حنیفۃ واحدۃ بائنۃ‘‘ (عون المعبود: ج۶؍ ص۲۰۸)
’’یعنی طلاق بتہ سے امام شافعی ؒکے نزدیک ایک طلاق رجعی واقع ہوتی ہے جبکہ امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک ایک طلاقِ بائنہ پڑے گی۔‘‘
حضرت رکانہؒ کی مذکورہ حدیث کے مطابق لفظ بتہ سے ایک طلاق کو رجعی بنایا گیا ہے اور بیوی اسے واپس دلوائی گئی ہے تو اس حدیث سے حنفی حضرات استدلال کیسے کرسکتے ہیں ؟
اور رکانہؒ کی روایت جو بتہ کے لفظ کے ساتھ آئی ہے اور جس سے حنفیہ تین طلاق کے واقع ہونے پر استدلال کرتے ہیں، زبیر بن سعید کی وجہ سے ضعیف ہے، حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں کہ’’فیہ زبیر بن سعید بن سلیمان نزیل المدائن لین الحدیث من السابعۃ‘‘ (تقریب التہذیب: ج۱؍ ص۲۵۸) نیز اس میں عبداللہ بن علی بن یزید راوی بھی ضعیف (لین الحدیث) ہے اور نافع بن عجیر مجہول ہے۔ (دیکھئے :زاد المعاد: ج۴ ؍ص۵۹)
عون المعبود میں ہے: ’’إن الحدیث ضعیف ومع ضعفہ مضطرب ومع اضطرابہ معارض بحدیث ابن عباس أن الطلاق کان علی عھد رسول اﷲ واحدۃ، فالإستدلال بھذا الحدیث لیس بصحیح‘‘ (ج۶؍ ص۲۰۸)
’’حضرت رکانہؓ کی بتہ والی حدیث ضعیف ہے ، اور ضعیف ہونے کے ساتھ یہ مضطرب بھی ہے اور مضطرب ہونے کے باوجود یہ عبداللہ بن عباسؓ کی صحیح حدیث کے خلاف بھی ہے جس میں ذکر ہے کہ تین طلاقیں نبی کریمﷺ کے زمانہ میں اور ابوبکر صدیقؓ کے دور اور حضرت عمرؓ کی خلافت کے دو، تین سال تک ایک ہی شمار ہوتی تھیں…
اس کے برعکس حضرت رکانہؓ کی وہ حدیث جس میں ثلاثا کالفظ وارد ہے اور وہ تین طلاق کے ایک ہونے کی دلالت کرتی ہے، سند کے اعتبار سے صحیح ثابت ہے جیساکہ مسند احمد میں ہے
’’عن ابن عباس قال طلّق رکانۃ بن عبد یزید أخو بني مطلب امرأتہ ثلاثا في مجلس واحد فحزن علیھا حزنا شدیدا۔قال: فسألہ رسول اﷲ ’کیف طلقتھا؟’’ قال:طلقتھا ثلاثا،قال: فقال: ’في مجلس واحد؟’’ قال: نعم۔قال‘‘ فإنما تلک واحدۃ، فارجعھا إن شئت قال: فرجعھا فکان ابن عباس یریٰ أنما الطلاق عند کل طھر‘‘ (مسند احمد:۳؍۹۱، بہ تحقیق احمد شاکر)
’’ رکانہ بن عبد ِیزید نے اپنی بیوی کو ایک مجلس میں تین طلاقیں دے دیں اور پھر اسے اس پر سخت پریشانی ہوئی۔ رسو ل اللہﷺ نے پوچھا: تو نے کیسے طلاق دی ہے؟ کہا:تین طلاقیں دے بیٹھاہوں۔ فرمایا: کیا ایک ہی مجلس میں؟ کہا: ہاں۔ آپؐ نے فرمایا: یہ تو ایک ہی طلاق ہوئی۔ اگر چاہے تو اس سے رجوع کرلے تو رکانہؓ نے اپنی بیوی سے رجوع کرلیا، حضرت عبداللہ بن عباسؓ کی رائے میںطلاق ہر طہر میںدینی چاہئے۔‘‘
اس صحیح حدیث سے ثابت ہوا کہ رسول ﷺ نے ایک مجلس میں دی ہوئی تین طلاقوں کو ایک رجعی طلاق قرار دیا ہے اور اس کے خلاف جوروایات پیش کی جاتی ہیں وہ یا تو ضعیف اور مجروح ہیں اور اگر صحیح ہیں تو ان سے تین طلاقوں کے وقوع پر استدلال کرنا درست نہیں ہے۔
8۔ان حضرات کی ایک دلیل یہ ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ ایک شخص حضرت عمرؓ کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ میں نے بحالت ِحیض اپنی بیوی کو بتہ طلاق دے دی ہے۔ اُنہوں نے فرمایا کہ تو نے پروردگار کی نافرمانی کی ہے اور تیری بیوی تجھ سے بالکل الگ ہوگئی۔ اس شخص نے کہا کہ عبداللہ بن عمرؓ کے ساتھ بھی تو ایسا ہی معاملہ پیش آیاتھا۔ مگر آنحضرتﷺ نے تو ان کو رجوع کا حق دیاتھا۔ اس پر حضرت عمرؓ نے اسے فرمایا کہ ’’بلا شبہ آنحضرتﷺ نے عبداللہ کو یہ حکم دیا تھا کہ وہ اپنی بیوی کی طرف رجوع کرلے مگر اس لئے کہ اس کی طلاق باقی تھی اور تیرے لئے اپنی بیوی کی طرف رجوع کا حق نہیں۔‘‘(السنن الکبریٰ:۷؍۳۳۴)(ماہنامہ الشریعہ: جولائی ۲۰۰۶ئ)
کسی حدیث میں ثلاثا یعنی تین کالفظ آجائے تو علماے حنفیہ جھٹ اسے دفعتہً اکٹھی تین طلاقوں پر محمول کرکے میاں، بیوی میں جدائی ڈالنے کا فتویٰ دے دیتے ہیں۔ اور پھر پریشان حال طلاق دہندہ کو حلالہ کے نام پر بدکاری اور بے غیرتی کا راستہ دکھاتے ہیں، حالانکہ احناف کے حلالہ اور روافض کے متعہ میں صرف نام کا فرق ہے، درحقیقت دونوں ہی اسلام کی پیشانی پر بدنما دھبہ ہیں، بلکہ امام ابن قیمؒ نے اپنی تالیف إغاثۃ اللھفان میں بارہ وجوہات سے ثابت کیا ہے کہ حلالہ رافضیوں کے متعہ سے بھی زیادہ قبیح اور بُرا ہے۔
اگر احادیث میں وارد ثلاثا (تین) کے لفظ کو طلاقِ حسن یعنی متفرق طور پر طلاق دینے پر محمول کیا جائے اور اسے طلاقِ حسن بنایا جائے تو حلالہ جیسی لعنت سے بچا جا سکتا ہے۔ بنا بریں حدیث ِمذکور میں بھی بتہ کے لفظ سے متفرق طور پر تین طلاقیں دینا مراد ہے کیونکہ اس طرح تیسری طلاق اَزدواجی تعلق کو قطع کردیتی ہے۔ حدیث ِمذکور میں سائل کی اپنی بیوی کو دی ہوئی طلاق کو عبداللہ بن عمرؓ کی طلاق کے ساتھ تشبیہ دینے سے بھی اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ اس نے تین طلاقیں متفرق طور پر دی تھیں کیونکہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے بھی باقی دو طلاقیں باقی دو حیض میں دینے کا ارادہ کیاتھا، جیسا کہ حدیث نمبر۶ کے تحت ذکر ہوچکا ہے اور حدیث میں آنے والے لفظ معصیت اور نافرمانی کا تعلق حیض کی حالت میں طلاق دینے سے ہے، اس حدیث سے تین طلاقیں واقع کرنے والوں کا موقف ثابت نہیں ہوتا۔ اُنہیں چاہئے کہ اس موقف پر کوئی صحیح اور صریح دلیل پیش کریں۔
9۔ان حضرات کی نویں دلیل یہ ہے کہ ’’حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے جب اسی قسم کے مسئلہ کے بارہ میں سوال کیا جاتا تو وہ فرماتے تم نے اپنی بیوی کو ایک یا دو طلاقیں دی ہیں تو بے شک آنحضرت ﷺ نے اس صورت میں مجھے رجوع کا حکم دیا تھا اور اگر تم نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دی ہیں تو یقینا وہ تم پر حرام ہوگئی ہے جب تک کہ وہ تیرے بغیر کسی اور مرد سے نکاح نہ کرلے اور اس طرح تو نے اپنی بیوی کو طلاق دینے میں اللہ تعالیٰ کے حکم کی نافرمانی بھی کی ہے۔‘‘(بخاری ،مسلم بحوالہ ماہنامہ الشریعہ:جولائی ۲۰۰۶ء ، ص۳۰)
اَحناف کے نزدیک ایک مجلس کی تین طلاقیں خواہ ایک لفظ سے ہوں جیسے ’’تجھ کو تین طلاق ہے۔‘‘ یا متعدد الفاظ سے ہوں، جیسے ’’تجھ کو طلاق ہے، طلاق ہے، طلاق ہے۔‘‘یہ دونوں صورتیں تین طلاق کے حکم میں ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کا مذکورہ فیصلہ ان کے دعویٰ کی حمایت نہیں کرتا، بلکہ ان کا یہ جملہ کہ ’’تم نے ایک بار یا دو بار طلاق دی ہوتی‘‘ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ان کا یہ فیصلہ اکٹھی تین طلاقوں کے بارے میں نہیں بلکہ متفرق طور پر طلاقیں دینے کے بارے میں ہے۔ یہ قرینہ بھی اس کی تائید کرتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے فرمایا: ’’فإن النبي! أمرني بھذا‘‘ کہ’’ رسول اﷲﷺ نے مجھے اسی کا حکم دیاتھا۔‘‘ ظاہر بات ہے کہ رسول اللہﷺ نے دفعتہً اکٹھی تین طلاقیں دینے کا حکم نہیں دیا تھاجو کہ بدعت ہے بلکہ متفرق طور پر طلاق دینے کا حکم دیاتھا۔ (جو کہ جائز بلکہ حسن طلاق ہے) (الطلاق الثلث في مجلس واحد از ابوالسلام مولانا محمد صدیقؒ: ص۵۴)
10۔ان کی ایک دلیل حضرت زید بن وہب کی یہ روایت ہے کہ مدینہ طیبہ میں ایک مسخرہ مزاج آدمی تھا، اس نے اپنی بیوی کو ایک ہزار طلاقیں دے دیں۔ جب ان کا یہ معاملہ حضرت عمرؓ کے ہاں پیش کیا گیا اور ساتھ ہی اس نے یہ بھی کہا کہ میں نے تو محض دل لگی اور خوش طبعی کے طور پر یہ طلاقیں دی ہیں، یعنی میرا قصد و اِرادہ نہ تھا تو حضرت عمرؓ نے دُرّہ سے اس کی مرمت کی اور فرمایا کہ ’’تجھے تو تین طلاقیں ہی کافی تھیں۔‘‘ (السنن الکبریٰ:۷؍۳۳۴)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حضرت عمرؓ بھی ایک کلمہ یا ایک ہی مجلس میں دی گئی طلاقوں کا اعتبار کرتے تھے۔ (ماہنامہ ’الشریعہ‘، جولائی ۲۰۰۶ء ، ص۳۰)
سوچنے کا مقام ہے کہ مدینہ طیبہ کے مسخرہ مزاج آدمی نے اپنی بیوی کو ایک ہزار طلاق مسلسل دے کر اسلام کا تمسخر اُڑایا جو درست نہ تھا۔ لیکن تین طلاقوں کو تین بنانے والے حضرات دفعتہً تین طلاقوں کو تین ہی بنا کر کیوں اسلام کا مذاق اُڑا رہے ہیں۔ اگر مدینہ طیبہ کے مسخرہ مزاج آدمی کافعل اسلام کا مذاق اُڑانے کے مترادف تھا تو آج بھی دفعتہً دی ہوئی تین طلاقوں کو تین قرار دینا طلاق کے مشروع طریقے کا مذاق اُڑانے سے کم نہیں ہے، اور اس کے بعد حلالہ نکالنے کا حکم دینے سے تو اس مذاق کی شدت اور بڑھ جاتی ہے۔ حضرت عمرؓ کے اس فرمان میں کہ ’’تجھے تین ہی کافی تھیں۔‘‘ تین طلاقیں متفرق طور پر دینے کا احتمال بھی موجود ہے اور اگر حضرت عمرؓ نے اکٹھی تین طلاقوں کو تین قرار دیا بھی ہے جیسا کہ مضمون نگار کی رائے ہے، تو یہ آپ کا ذاتی فیصلہ تھا جو اُنہوں نے اپنی خلافت کے دو تین سال بعد غیر محتاط لوگوں کی سزا کے طور پر نافذ کیا تھا۔آخر زندگی میں آپؓ نے ندامت کے ساتھ اس سے رجوع کرلیا تھا۔
11۔ان کی ایک دلیل حضرت انسؓ بن مالک کی یہ روایت ہے کہ’’ حضرت عمرؓ نے اس شخص کے بارے میں جس نے اپنی بیوی کو ہم بستری سے پہلے تین طلاقیں دے دیں، فرمایا کہ تین ہی طلاقیں متصور ہوں گی اور وہ عورت پہلے خاوند کے لئے حلال نہیں تاوقتیکہ وہ کسی اور شخص سے نکاح نہ کرلے اور حضرت عمرؓ کے پاس جب ایساشخص لایاجاتا تو آپؐ اس کو سزا دیا کرتے تھے۔ ‘‘ (السنن الکبریٰ:۷؍۳۳۴) (ماہنامہ الشریعہ، جولائی ۲۰۰۶ئ)
اس حدیث سے علماے احناف کا تین طلاقوں کے وقوع پر استدلال کرنا کئی طرح سے درست نہیں ہے۔ ایک تو اس لئے کہ غیرمدخول بہا عورت کو تین طلاقیں دے دی جائیں تو احناف کے نزدیک بھی وہ پہلی طلاق سے جدا ہو جائے گی، دوسری اور تیسری طلاق واقع نہیں ہوگی۔
ہدایہ میں ہے:
’’فإن فرق الطلاق بانت بالأولی ولم تقع الثانیۃ والثالثۃ ‘‘ (ہدایہ،ص۳۸۸)
اس سے معلوم ہوا کہ حدیث ِانسؓ سے غیر مدخول بہا کے لئے تین طلاقوں سے تین ہی واقع ہونے پر استدلال کرنا فقہ حنفی کے ہی خلاف ہے۔ دوسرا یہ کہ حدیث ِانسؓ میں تین طلاق کے دفعتہً دینے کا کوئی قرینہ نہیں ہے۔ اس میں متفرق طور پر تین طلاقیں دینے کا احتمال بھی موجود ہے۔ رہا حضرت عمرؓ کا ایسے شخص کوسزا دینا تو یہ سزا غیر مدخولہ کو تین طلاقیں دینے پر دی جاتی تھی کیونکہ غیر مدخولہ جب ایک طلاق سے جدا ہوجاتی ہے تو اسے تین طلاقیں دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ تیسرا یہ کہ اگر حضرت عمرؓ نے تین طلاقوں کو تین شمار کیا بھی ہے تو یہ ان کی خلافت کے دو، تین سال گزرنے کے بعد ان کے طلاقِ ثلاثہ کے وقوع سے متعلق مشہور فیصلے کی وجہ سے تھا جس کے ذریعے وہ اکٹھی تین طلاقیں دینے والوں کو اس کارِ معصیت سے روکنا چاہتے تھے۔
12۔ان کی ایک دلیل یہ ہے کہ ’’حضرت عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ روایت کرتے ہیں کہ حضرت علیؓ نے فرمایا کہ جو شخص اپنی بیوی کو ہم بستری سے پہلے تین طلاقیں دے دے تو وہ عورت اس کیلئے حلال نہیں یہاں تک کہ وہ کسی اور مرد سے نکاح نہ کرلے۔‘‘ (السنن الکبریٰ:۷؍۳۳۴)
اس حدیث سے استدلال بھی حنفی مذہب کے خلاف ہے جیسا کہ ابھی گزر چکا ہے، اور یہاں یہ بھی احتمال ہے کہ تین طلاقوں سے متفرق طور پر طلاق دینا مراد ہو۔
13۔ایک دلیل یہ بھی دی جاتی ہے کہ ’’ایک روایت میں یوں آیاہے کہ ایک شخص حضرت علیؓ کے پاس آیا اور اُس نے کہا کہ میں نے اپنی بیوی کو ایک ہزار طلاقیں دے دی ہیں، اُنہوں نے فرمایاکہ تین طلاقیں تو اس کو تجھ پر حرام کردیتی ہیں اور باقی ماندہ طلاقیں اپنی دوسری بیویوں پرتقسیم کردے۔ (السنن الکبریٰ:۷؍۳۳۵)
معلوم ہوا کہ حضرت علیؓ بھی ایک کلمہ اور ایک مجلس کی تین طلاقوں کو تین ہی قرار دیتے ہیں۔‘‘(ماہنامہ ’الشریعہ‘:جولائی ۲۰۰۶ئ، ص۳۰)
اس اثر کی سند میں حبیب بن ابی ثابت اور حضرت علیؓ کے درمیان ’’بعض أصحابہ‘‘ یعنی اس کے بعض ساتھیوں کا واسطہ ہے۔ جس کاپتہ ہی نہیں کہ یہ کون شخص ہے اور کیسا ہے؟ لہٰذا اس مجہول راوی کی وجہ سے یہ روایت ضعیف ہے۔ (الطلاق الثلث في مجلس واحد ص۵۳) اور ایسے ضعیف آثار سے استدلال کرنا اہل علم کو زیب نہیں دیتا۔
14۔ان حضرات کی ایک دلیل یہ ہے کہ ’’حضرت عبداللہ بن عباسؓ کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے کہا میرے چچا نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی ہیں۔ اب اس کی کیا صورت ہوسکتی ہے؟ حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا کہ تیرے چچا نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی ہے۔ اور اب اس کی کوئی صورت نہیں بن سکتی۔ وہ شخص بولاکہ کیا حلالہ کی صورت میں بھی جواز کی شکل نہیں پیدا ہوسکتی؟ اس پرابن عباسؓ نے فرمایا: جوشخص اللہ تعالیٰ سے دھوکہ کرے گا اللہ تعالیٰ اس کواس کا بدلہ دے گا۔ ‘‘ (السنن الکبریٰ :۷؍۳۳۷) (ماہنامہ ’الشریعہ‘: ص۳۰)
صحیح مسلم کی وہ حدیث جس میں یہ ذکر ہے کہ عہد ِرسالتؐ، خلافت ِصدیقیؓ، اور دوسال خلافت ِفاروقی ؓتک ایک مجلس کی تین طلاق ایک شمار ہوتی رہی۔ حضرت عمرؓ نے کہا کہ لوگوں نے ایسے موقع پر عجلت سے کام لیا ہے جس میں ان کے لئے تاخیر چاہئے تھی۔ کاش! ہم اس امر کو ان پر جاری کردیں۔لہٰذا اُنہوں نے اس امر (تین طلاق…) کو جاری کردیا۔
یہ حدیث حضرت ابن عباسؓ کی روایت کردہ ہے۔ اس کی روشنی میں تین طلاق کو تین قرار دینا ان کی طرف سے بطورِ تعزیر تھا جیسے حضرت عمرؓ نے کیا تھا جوطلاق دہندہ کی سزا کے طور پر اُنہوں نے صادر کیا تھا۔ لیکن یہ فیصلہ عارضی اور وقتی تھا جس سے خود حضرت عمرؓ نے رجوع کرلیاتھا۔ لہٰذا اسے طلاقِ ثلاثہ کے لئے اُصول نہیں بنایا جاسکتا۔نیز اس حدیث میں ’حلالہ‘ کے متعلق خداع کا لفظ استعمال ہوا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ تین طلاقوں کو محرّم بنانے کے بعد طلاق دہندہ کوحلالہ کے نام سے بدکاری کا راستہ دکھانا، حلالہ کرنا اور کرانا اللہ تعالیٰ اور ایمان والوں کے ساتھ دھوکہ اور فریب ہے جس کا اللہ تعالیٰ عذاب اور سزا کی صورت میں بدلہ دے گا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:’’ یُخٰدِعُوْنَ اﷲَ وَالَّذِیْنَ آمَنُوْا وَمَا یَخْدَعُوْنَ إِلاَّ أَنْفُسَھُمْ وَماَ یَشْعُرُوْنَ ‘‘ (البقرۃ: ۹)
15۔ان حضرات کی ایک دلیل یہ ہے کہ’’ایک شخص نے حضرت ابن عباسؓ کی خدمت میں حاضر ہوکر سوال کیا کہ میں نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی ہیں۔ حضرت ابن عباسؓ نے اس پر سکوت اختیارکیا، ہم نے خیال کیا کہ شاید وہ اس عورت کو اسے واپس دلانا چاہتے ہیں مگر حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا: تم خود حماقت کا ارتکاب کرتے ہو اور پھر کہتے ہو: ’’اے ابن عباسؓ! اے ابن عباسؓ بات یہ ہے کہ جوشخص خدا تعالیٰ سے نہ ڈرے تو اس کے لئے کوئی راہ نہیں نکل سکتی۔ جب تم نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی ہے تو اب تمہارے لئے کوئی گنجائش نہیں۔ تمہاری بیوی اب تم سے بالکل علیحدہ ہوچکی ہے۔‘‘(السنن الکبریٰ:ج۷؍ص ۳۳۱) (ماہنامہ ’الشریعہ‘:جولائی ۲۰۰۶ء، ص۳۰)
حضرت عبداللہ بن عباسؓ کا ایک فتویٰ تو وہ ہے جو سنن ابوداؤد میں منقول ہے اور جو تین طلاق کے ایک ہونے کا ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں:’’إذا قال أنت طالق ثلاثا بفم واحد فھي واحدۃ‘‘ (ابوداؤد مع عون المعبود: ج۶؍ ص۱۹۴)
اور یہی فتویٰ حضرت طاؤس کے واسطے سے بھی عبداللہ بن عباسؓ سے مروی ہے اور یہ اس حدیث کے مطابق بھی ہے جو صحیح مسلم میں آپﷺسے مروی ہے اور دوسرا فتویٰ ان کا تین طلاقوں کے تین ہونے کا ہے جسے اُنہوں نے حضرت عمرؓ کی طرف سے بطورِ تعزیر کے اختیار کیا تھا یہاں یہی مراد ہے۔ کیونکہ اس حدیث کے الفاظ سے صاف معلوم ہورہا ہے کہ یہ فتویٰ اُنہوں نے طلاق دہندہ کی سزا کے طور پر نافذ کیا تھا جو عارضی اوروقتی تھا اور اسے اُصول نہیں بنایا جاسکتا۔
16۔ان کی ایک دلیل یہ ہے کہ ’’حضرت معاویہ بن ابی عیاش انصاری فرماتے ہیں کہ میں حضرت عبداللہ بن زبیر اور عاصم بن عمرو کی مجلس میں بیٹھا ہوا تھا، اتنے میں حضرت محمد بن ایاس بن بکیر تشریف لائے اورپوچھنے لگے کہ ایک دیہاتی گنوار آدمی نے اپنی غیر مدخول بہا عورت کو دخول سے قبل تین طلاقیں دے دی ہیں۔ اس کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں؟ کہا: جا کر ابن عباسؓ اور ابوہریرہؓ سے پوچھو۔ جب سائل ان کے پاس حاضر ہوا اور دریافت کیا تو حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا: اے ابوہریرہ! فتویٰ دیجئے لیکن سوچ سمجھ کربتانا کہ مسئلہ پیچیدہ ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ نے فرمایا کہ ایک طلاق اس سے علیحدگی کے لئے کافی تھی۔ اور تین طلاقوں سے وہ اس پر حرام ہوگئی ہے۔ الا یہ کہ وہ کسی اور مرد سے نکاح کرے اور حضرت ابن عباسؓ نے بھی یہی فتویٰ دیا۔ (موطأ امام مالک: ص۲۰۸، الطحاوی، السنن الکبریٰ:۷؍۳۳۵) (ماہنامہ ’الشریعہ‘:جولائی ۲۰۰۶ء)
یہ حدیث بھی تین طلاقوں کو تین قرار دینے والوں کے لئے کئی طرح سے مفید نہیں:
ایک تو اس لئے کہ اس حدیث میں غیر مدخول بہا کوتین طلاق دینے کاذکر ہے اور غیرمدخول بہا کو تین طلاقیں دی جائیں تو احناف کے نزدیک وہ ایک طلاق سے جدا ہوجاتی ہے۔ باقی دو طلاقیں واقع ہی نہیں ہوتیں تو علماے حنفیہ اس حدیث سے تین طلاقوں کے واقع ہونے پر استدلال کیسے کرسکتے ہیں ؟جبکہ یہ ان کے مذہب کے ہی خلاف ہے۔
دوسرا اس لئے کہ اس حدیث میں صراحت نہیں ہے کہ یہ تین طلاقیں ایک ہی مجلس میں دی گئی تھیں۔ ہوسکتا ہے کہ اس نے تین طلاقیں مختلف مجالس میں دی ہوں: إذا جاء الاحتمال بطل الاستدلال !
تیسرا یہ کہ ایسے موقعے پر ایک اُصولی بات کو عام طور پر نظر انداز کردیا جاتاہے وہ یہ کہ جب رسول اللہﷺ سے صحیح ثابت مرفوع حدیث اور صحابہ کرام ؓ سے ثابت شدہ آثار میں تضاد اور اختلاف پایا جائے تو اس وقت نبی علیہ السلام سے ثابت مرفوع حدیث مقدم ہوتی ہے۔ اور آثار صحابہؓ کو چھوڑ دیا جاتا ہے، کیونکہ مرفوع حدیث کی نسبت اس مقدس ہستی کی طرف ہوتی ہے جو معصوم ہے جس پر ہر وقت وحی الٰہی کا پہرہ موجود رہتا تھا۔ آپﷺ کے علاوہ کوئی شخص بھی خطا و نسیان سے پاک نہیں ہے۔ تو جب رسول اللہﷺ سے صحت کے ساتھ ثابت ہے کہ آپﷺ اور حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے دور کے شروع میں جب کوئی آدمی اکٹھی تین طلاق دے دیتا تھا تو اُنہیں ایک بنایا جاتا تھا تو اس مرفوع حدیث پر عمل ہونا چاہئے۔ اس کے مقابلے میں موقوف کو نظر انداز کرنا چاہئے کیونکہ قرآن کریم کی رو سے ہمیں آپﷺ ہی کی اتباع اور پیروی کا حکم ہے۔
17۔ان حضرات کی ایک دلیل یہ ہے کہ’’ایک شخص نے حضرت ابن مسعودؓ سے سوال کیا کہ میں نے اپنی بیوی کو دو سو طلاق دے دی ہیں، اب کیا حکم ہے؟ اُنہوں نے فرمایا تجھے کیا فتویٰ دیا گیا ہے؟ اُس نے کہا کہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ وہ عورت اب مجھ سے بالکل الگ اور جدا ہوگئی ہے۔ حضرت ابن مسعودؓ نے فرمایا کہ لوگوں نے سچ کہا ہے۔‘‘ (موطا امام مالک:۱۹۹) (ماہنامہ ’الشریعہ‘:جولائی ۲۰۰۶ء)
ایسی روایات جن میں بیوی کو دو سو یا ہزار طلاقیں دے ڈالنے کا ذکر آتا ہے اُنہیں پڑھنے والا حیران ہوتا ہے کہ آج کے گئے گزرے دور میں بھی کوئی شخص اتنی کثرت سے طلاقیں نہیں دیتا کہ وہ دو سو یا ہزار تک پہنچا کر ہی دم لے، لیکن اُس دور میں اتنی کثرت سے طلاقیں کیوں دی جاتی تھیں؟ درحقیقت وہ لوگ زمانۂ جاہلیت سے ہی کثرت سے طلاقیں دینے کے عادی تھے، ان میں سے کوئی شخص اگر بیوی کو تنگ کرنا چاہتا تو وہ اسے طلاق دے دیتا، اور جب اس کی مطلقہ کی عدت ختم ہونے کے قریب آتی تو پھر اس سے رجوع کرلیتا، اس کے بعد پھر طلاق دے دیتا، اور اس طرح بار بار طلاق دینے اور اس کے بعد رجوع کرلینے سے ان کی تعداد سو تک یا ہزار طلاقوں تک بھی پہنچ جاتی تھی۔ جیسا کہ حضرت عروہ سے مروی ہے :
’’کان الرجل إذا طلق امرأتہ ثم ارتجعھا قبل أن تنقضي عدتھا کان ذلک لہ وإن طلقھا ألف مرۃ فعمد رجل إلی امرأتہ فطلقھا حتی إذا ما دنا وقت انقضاء عدتھا ارتجعھا ثم طلقھا ثم قال: واﷲ لا آویک إلی ولا، تحلین أبدا‘‘
(أخرجہ مالک والشافعي والترمذی والبیہقي في سننہ بحوالہ تفسیر فتح القدیر للشوکاني: ج۱؍ ص۲۳۹)
’’جب کوئی آدمی اپنی بیوی کو طلاق دیتا اور اس کی عدت ختم ہونے کے قریب ہوتی تو رجوع کرلیتا اور یہ اس کے لئے جائز سمجھا جاتا تھا، اگرچہ نوبت ہزار طلاقوں تک پہنچ جائے۔ ایک دفعہ ایک آدمی نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی، جب اس کی عدت ختم ہونے کے قریب آئی تو اس نے رجوع کرلیا۔ اس کے بعد پھر طلاق دے دی اور مطلقہ عورت سے کہا: اللہ کی قسم! نہ تو میں تجھے بساؤں گا اور نہ ہی تجھے چھوڑوں گا کہ توآگے کسی سے نکاح کرسکے۔‘‘
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ سو یا ہزار طلاقیں کیسے دیتے تھے اور تین طلاقوں کو تین ہی قرار دینے والے حضرات جو ایسی روایات پیش کرتے ہیں جن میں کسی شخص کے اپنی بیوی کو سو یا ہزار طلاقیں دینے کاذکر آتا ہے تو اس سے دفعتہً اکٹھی طلاقیں دینا مراد نہیں، جیسا کہ عام طور پرسمجھا جاتا ہے۔ بلکہ حضرت عروہ کی حدیث ِمذکور کے مطابق ہر مہینے بعد وقفے سے طلاقیں دینا مراد ہے اور ایسا وہ عورتوں کو ستانے کے لئے کرتے تھے۔ اسلام نے بے شمار طلاقیں دینے کا خاتمہ کردیا، اور تیسری طلاق کو مرد و عورت میں جدائی ڈالنے والی طلاق بنا دیا جس کے بعد رجوع کا حق ختم ہوجاتا ہے۔ اس بنا پر حضرت ابن مسعودؓ کی حدیث سے یہی طریقہ طلاق مراد ہے جو حدیث ِعروہ میں ذکر ہوا ہے کہ متفرق طور پر دی ہوئی طلاقوں سے تیسری طلاق سے عورت اس سے جدا ہوجائے گی اور باقی طلاقیں لغو قرار پائیں گی۔
18۔ان کی ایک دلیل یہ ہے کہ ’’حضرت عمران بن حصینؓ مسجد میں تشریف فرما تھے کہ ایک شخص آیا اور اس نے یہ سوال کیا کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دے دی ہیں۔ اب وہ کیا کرے؟ حضرت عمران ؓ نے فرمایا کہ اس نے ربّ تعالیٰ کی نافرمانی کی ہے اور اس کی بیوی اس پر حرام ہوگئی ہے۔‘‘ (السنن الکبریٰ:۷؍۷۳۲)
پہلی بات تو یہ ہے کہ حضرت عمران بن حصینؓ بصرہ میں حضرت عمر ؓ کی طرف سے لوگوں کو شریعت کی تعلیم دینے کے لیے مامور تھے۔(الاصابہ:۴؍۵۸۵) اور اُنہوں نے یہ فتویٰ حضرت عمر ؓ کی طرف سے بطورِ تعزیر اختیار کیا تھا۔دوسرا یہاں بھی ہمیں شریعت کے اس اُصول کو پیش نگاہ رکھنا چاہیے کہ ایسی صورت میں جب کہ کسی مسئلہ میں نزاع اور اختلاف ظاہر ہوجائے تو قرآنِ کریم نے ہمیں اسے حل کرنے کے لئے ایک اُصول دیا ہے، تاکہ اس پر عمل کرکے اس نزاع کو حل کرلیا جائے، ارشادِباری تعالیٰ ہے:
’’ فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ إِلیٰ اﷲِ وَالرَّسُوْلِ إِنْ کُنْـتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاﷲِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ ‘‘(النساء :۵۹)
’’یعنی جب تمہارا کسی چیز میں نزاع اور اختلاف ہوجائے، اگر تم اللہ تعالیٰ اور آخر ت کے دن پرایمان رکھتے ہو تو اسے اللہ اور اس کے رسولﷺکی طرف لوٹاؤ۔‘‘
اوریہاں اللہ تعالیٰ اور رسولﷺ کی طرف لوٹانے سے مراد قرآن و حدیث کی طرف رجوع کرنا ہے، اور حدیث ِنبویؐ میں ہم دیکھتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کے دور میں جب کوئی شخص ایک مجلس میں تین طلاقیں دے دیتا تھا تو اُنہیں ایک طلاق شمار کیاجاتاتھا، جیساکہ صحیح مسلم میں حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے مروی ہے جبکہ حضرت عمران بن حصینؓ کا فتویٰ حدیث ِمرفوع کے خلاف ہے۔ تو ایسے موقع پر ایک سچے مسلمان کا ضمیر اس بات کو گوارا نہیں کرتاکہ رسول اللہﷺ کی حدیث کو چھوڑ کر اُمتیوں کی آرا کے پیچھے چلے کیونکہ کوئی بھی اُمتی معصوم عن الخطا نہیں ہے۔ اس لئے آثارِ صحابہؓ کے مقابلہ میں مرفوع حدیث پر عمل کرنا ہی قرآنی اُصول کے مطابق ہے جو اوپر بیان کردیا گیا ہے۔
19۔ایک مجلس کی تین طلاقوں کو تین قرار دینے والوں کی ایک دلیل یہ ہے کہ ’’ایک شخص حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص کی خدمت میں حاضر ہوا اور یہ سوال کیا کہ ایک شخص نے ہم بستری سے قبل اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی ہیں، وہ کیاکرے؟ اس پر حضرت عطا بن یسار نے فرمایا کہ کنواری کی طلاق تو ایک ہی ہوتی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمروؓ نے ان سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ’’تم قصہ گو ہو۔ ایک طلاق ایسی عورت کو جدا کردیتی ہے اور تین اس کو حرام کردیتی ہیں۔‘‘(ماہنامہ ’الشریعہ‘:جولائی ۲۰۰۶ء،ص ۳۲)
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ کا یہ فتویٰ حنفیہ کے خلاف ہے کیونکہ ان کا قول تو یہ ہے کہ باکرہ عورت کو خلوت سے پہلے ایک مجلس میں تین طلاقیں دے دی جائیں تو ایک طلاق واقع ہوگی جس سے وہ عورت بائنہ ہوجائے گی۔ باقی دو طلاقیں لغو اور بے کار ہوجائیں گی، لہٰذا اَحناف کا اس اثر سے تین طلاقوں کے واقع ہونے پر استدلال کرنا درست نہیں ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمروؓ کا یہ فتویٰ رسول اللہﷺ کی حدیث کے خلاف ہے۔ ایسی صورت میں اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق حدیث ِمرفوع پر عمل کرنا چاہئے۔
20۔ان کی ایک دلیل یہ ہے کہ ’’ایک شخص نے اپنی غیر مدخول بہا بیوی کو تین طلاقیں دے دیں، پھر اس کا خیال ہوا کہ وہ اس سے نکاح کرلے، اس نے حضرت ابوہریرہؓ اور حضرت ابن عباسؓ سے فتویٰ طلب کیا۔ ان دونوں بزرگوں نے فرمایا کہ تم اس سے نکاح نہیں کرسکتے، تاوقتیکہ وہ کسی اور مرد سے نکاح نہ کرلے، اس نے کہا کہ اس کے لئے میری طرف سے ایک ہی طلاق ہے تو اُنہوں نے فرمایا کہ تم نے اپنا اختیار کھو دیا ہے جو تمہارے ہاتھ میں تھا۔‘‘ (ماہنامہ الشریعہ:جولائی ۲۰۰۶ء ، ص۳۲)
اس کا جواب بھی وہی ہے جو اس سے قبل ذکر ہوچکا ہے کہ احناف کا اس اثر سے تین طلاقوں کے واقع ہونے پر استدلال درست نہیں ہے کیونکہ ان کے نزدیک غیر مدخول بہا کو دی گئی تین طلاقوں میں سے ایک طلاق واقع ہوتی ہے، باقی دو لغو اور بے کار جاتی ہیں۔ ویسے بھی یہ اثر مرفوع حدیث کے خلاف ہے،لہٰذا قابل عمل نہیں ہے۔ قابل عمل رسول اللہﷺ کی حدیث ہی ہے۔
21۔ان حضرات کی ایک دلیل یہ ہے کہ ’’ حضرت عطا فرماتے ہیں کہ ایک شخص حضرت عبداللہ بن عباسؓ کے پاس آیا اور اُس نے کہا کہ میں نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی ہیں۔ اب کیا صورت ہو؟ اُنہوں نے جواب دیا کہ تو نے اپنے ربّ کی نافرمانی کی ہے اور تجھ پر تمہاری بیوی حرام ہوگئی ہے حتیٰ کہ وہ تمہارے بغیر کسی اور مرد سے نکاح کرے۔ ‘‘(ماہنامہ الشریعہ :جولائی ۲۰۰۶ء ،ص۳۲)
حضرت ابن عباسؓ سے دو فتوے مروی ہیں، ان میں سے ان کا وہی فتویٰ قبول کیا جائے گا جو انہی سے مروی حدیث کے موافق ہے کہ عہد ِرسالتؐ سے لے کر خلافت عمرؓ کے ابتدائی دوسال تک ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک ہی طلاق شمار ہوتی تھی۔
دوسری بات یہ ہے کہ جب کسی صحابی کا قول و فعل رسول اللہﷺ سے ثابت حدیث کے مخالف ہو تو نبی اکرمﷺ کی حدیث کو عمل کے اعتبار سے صحابی کے قول و فعل پر مقدم کیاجاتا ہے اور صحابی کے قول و فعل کی وجہ سے حدیث ِنبویﷺ کومجروح بناکر چھوڑ نہیں دیا جائے گا۔
مولانا عبدالحی لکھنویؒ حنفی فرماتے ہیں:
’’والحق في ھذاالمقام أن قول النبي ! وفعلہ أحق بالاتباع وقول غیرہ أو فعلہ لایساویہ في الاتباع فإذا وجد من الصحابي ما یخالف الحدیث النبوی یؤخذ بخبر الرسول‘‘ (الأجوبۃ الفاضلۃ: ص۲۲۵)
یعنی ’’ایسے مقام میں حق اور سچ بات یہ ہے کہ رسول اللہﷺکا قول اور آپ کا فعل ہی اتباع اور پیروی کے لائق ہے اور آپﷺ کے علاوہ کسی دوسرے کاقول و فعل اتباع اور پیروی میں رسول اللہﷺ کے قول و فعل کے مساوی اور برابر نہیں ہوسکتا۔لہٰذا جب صحابیؓ کاقول وفعل حدیث ِنبویؐ کے خلاف آجائے تو رسول اللہﷺ کی حدیث کو ہی قبول کیاجائے گا۔‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
طلاقِ ثلاثہ کے بارے میں بحث کا خلاصہ اوراُصولی موقف

طلاقِ ثلاثہ کے بارے میں کسی نتیجہ پر پہنچنے کے لئے ضروری ہے کہ ایک اُصولی بات پیش نظر رکھی جائے اور وہ یہ ہے کہ رسول اللہﷺ کے دور میں جب کوئی شخص اکٹھی تین طلاقیں دے دیتا تھا تو اُنہیں ایک ہی طلاق شمار کیا جاتا تھا، جیسا کہ حضرت رکانہ بن عبد ِیزیدؓ نے جب اپنی بیوی کو اکٹھی تین طلاقیں دے دیں تو خود رسول اللہﷺ نے اُنہیں ایک طلاقِ رجعی قرار دیا تھا۔ یہ بات طے شدہ ہے
اور جو دلائل اس کے خلاف پیش کئے جاتے ہیں، اُنہیں بنظر غائر دیکھا جائے تو ان کی دو صورتیں ہیں یا تو وہ دلائل صحیح ثابت ہوں گے اور صحت کے معیار پر پورے اُترتے ہوں گے یا پھر وہ دلائل ضعیف اور غیر ثابت ہوں گے۔ اگر وہ دلائل جو طلاقِ ثلاثہ کے وقوع پر پیش کئے جاتے ہیں، پایہ ثبوت کو نہیں پہنچتے بلکہ سند کے اعتبار سے ضعیف ہیں تو اُنہیں دلیل کے طور پر پیش نہیں کیا جاسکتا، جیسا کہ حضرت علیؓ سے مروی آثار کاحال ہے۔
لیکن اگر وہ دلائل صحیح ثابت ہیں تو دو حال سے خالی نہیں ہیں۔ یا وہ دلیل مرفوع حدیث ہوگی جو نبی کریمﷺ کی طرف منسوب ہے یا پھر اس کا تعلق آثارِ صحابہؓ سے ہوگا۔ اگر وہ دلیل جو طلاقِ ثلاثہ کے وقوع کے متعلق پیش کی جاتی ہے،
مرفوع حدیث ہے تو اس سے اس موقف پر استدلال کرنا ہی صحیح نہیں ہوگا، کیونکہ جب آپﷺ سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ آپﷺ کے دور میں تین طلاقوں کو ایک رجعی طلاق قرار دیا جاتا تھا، تو اس کے خلاف تین طلاقوں کو تین ہی بنانے کا آپﷺ سے تصور نہیں کیا جاسکتا کیونکہ کلام نبوت میں تضاد کا پایا جانا ممکن نہیں ہے۔
جیسا کہ حضرت عویمرؓ کی حدیث ِلعان سے تین طلاقوں کے وقوع پر استدلال کیا جاتا ہے، جبکہ اُنہوں نے لعان کے بعد رسول اللہﷺ کے سامنے ملاعنہ عورت کو از خود ہی آپﷺکے حکم کے بغیر تین طلاقیں دے دی تھیں، حالانکہ لعان کے بعد ان کا یہ طلاقیں دینا بے فائدہ اور بے محل تھا۔ اس لئے کہ لعان کی صورت میں عورت، مرد سے نفس لعان سے ہی جدا ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد ایک یا تین طلاقیں دینا غیر مؤثر اور بے فائدہ ہے، اسی لئے حضرت ہلال بن اُمیہ نے جب اپنی بیوی سے لعان کیا تھا تو اس کے بعد طلاقیں دینے کا کوئی ذکر نہیں ہے اور یہاں صرف لعان کو ہی جدائی کے لئے کافی سمجھا گیاہے۔ (صحیح بخاری ، کتاب الطّلاق)
دوسرے فریق کی طرف سے جن آثارِ صحابہؓ کو طلاقِ ثلاثہ کے و قوع پر دلیل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، ان کی بھی دو صورتیں ہیں۔
بعض آثار تو وہ ہیں جو دونوں معنوں کااحتمال رکھتے ہیں، ان میں جہاں اکٹھی تین طلاق دینے کا احتمال پایا جاتا ہے، وہاں متفرق طور پر وقفے وقفے سے تین طلاقیں دینے کا احتمال بھی موجود ہے تو کیوں نہ ایسے آثار کو متفرق طور پر تین طلاق دینے پر محمول کیا جائے۔ جو طلاق دینے کا حسن طریقہ بھی ہے اور اس طرح احادیث اور آثار کے درمیان تطبیق بھی ہو جائے گی اور تین طلاقیں اکٹھی دینے والوں کی حوصلہ شکنی بھی ہوسکے گی اور دفعتہً تین طلاقیں دینے کی بدعت سے بھی بچا جاسکے گا۔
اور اگر وہ آثار متفرق طور پر تین طلاقیں دینے کا احتمال نہیں رکھتے بلکہ اکٹھی تین طلاقیں دینے پر ہی دلالت کرتے ہیں تو ان میں ذکر ہونے والی اکٹھی تین طلاقوں کے وقوع کو اس تعزیر پر محمول کیا جائے گا جو حضرت عمر ؓ کی طرف سے غیر محتاط لوگوں کی سزا کے طور پر نافذ کی گئی تھی جیسا کہ یہ بات حضرت عمرفاروقؓ کے عمل سے بھی ظاہر ہے۔ لیکن اسے طلاقِ ثلاثہ کے لئے اُصول نہیں بنایا جائے گا تاکہ رسول اللہﷺ سے ثابت شدہ طریقہ طلاق سے اس عمل کا تعارض لازم نہ آئے اور نبی کریمﷺ سے ثابت شدہ طریقۂ طلاق کو اختیار کرکے آپﷺ کے حق اتباع کو بھی ادا کیا جائے۔ وما علینا إلا البلاغ
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top