متکبر فقیر…: ایسا انسان مراد ہے جس کے پاس مال بھی نہیں لیکن اس کے باوجود تکبر کرتا ہے حالانکہ اس کے پاس نافرمانی پر ابھارنے والی کوئی چیز نہیں۔ گناہ سے گو کوئی انسان معصوم نہیں لیکن جب اس گناہ اور نافرمانی کی کوئی ضرورت نہ ہو اور نہ ہی اس کی طرف دعوت دینے والے اسباب ہوں تو پھر اس کا ارتکاب محض اللہ کے حق کو حقیر سمجھتے ہوئے اور عناد رکھتے ہوئے قصداً ہوتا ہے۔
لوگوں کو حقیر سمجھنے اور فخر و تکبر کا سبب صاحبِ مال اور صاحب ثروت ہونا ہے اور مال اس کے پاس نہیں لہٰذا جب اس کے پاس اسباب نہیں تو پھر کیوں تکبر کرتا اور لوگوں کو حقیر سمجھتا ہے؟
محض اس کی ایک ہی وجہ سمجھ آتی ہے اور وہ ہے اللہ کے حق کو حقیر خیال کرنا ہے۔
{وَاللّٰہُ لَا یُحِبُّ کُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ o} [الحدید:۲۳]
’’ اور اللہ کسی متکبر شیخی خور کو پسند نہیں کرتا۔ ‘‘
البخیل المنّان…: بخل کا معنی ہے: انسان کا اپنے واجبی حقوق ادا نہ کرنا، یہ سخاوت کی ضد ہے۔
کہا گیا ہے: دنیا میں سب سے زیادہ سخی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے حقوق میں سخاوت کرتا ہے اگرچہ دوسرے کاموں میں لوگ اسے بخیل ہی خیال کریں اور دنیا میں سب سے زیادہ بخیل وہ انسان ہے جو اللہ جل شانہ کے حقوق ادا کرنے میں کنجوسی کرے گو دوسرے کاموں میں لوگ اسے فیاض سمجھتے ہوں۔
کنجوس آدمی اللہ سے بھی اور لوگوں سے بھی دور ہوتا ہے کیونکہ بخل کی جڑ مال کی محبت ہے اور یہ محبت انسان کو اللہ تعالیٰ کے ذکر سے غافل، دل کو دنیا کی طرف راغب اور اس تعلق کو مضبوط کرتی ہے، یہاں تک کہ موت بھی اس پر وزنی ہوتی ہے جس میں اللہ جل شانہ کی ملاقات ہے۔
المنّ…: اس کا مطلب ہے کہ کسی کو تکلیف دینے کے لیے اس پر کیا گیا احسان جتلانا، مثلاً کہے: میں نے فلاں نیکی تیرے ساتھ کی تھی فلاں چیز تجھے دی تھی وغیرہ۔
یہ قول بھی ہے: اپنے دیے گئے عطیات کے متعلق باتیں کرنا یہاں تک کہ جنہیں اشیاء ملی ہیں ان تک وہ باتیں پہنچیں اور وہ تکلیف محسوس کریں۔
البخیل المنان سے مراد وہ شخص ہے جو چیز دے کر قول یا فعل کے ذریعہ احسان جتلا دے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
{یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُبْطِلُوْا صَدَقٰتِکُمْ بِالْمَنِّ وَالْاَذٰی کَالَّذِیْ یُنْفِقُ مَالَہٗ رِئَآئَ النَّاسِ وَلَا یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِط } [البقرہ: ۲۶۴]
’’ اے ایمان والو! اپنے صدقات کو احسان جتلا کر اور تکلیف دے کر ضائع نہ کرو اس آدمی کی طرح جس نے اپنا مال لوگوں کو دکھلانے کے لیے خرچ کیا اور وہ اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان نہیں رکھتا۔ ‘‘
الاذٰی…:بمعنی گالی دینا اور شکایت کرنا، یہ احسان جتلانے سے عام ہے کیونکہ احسان جتلانا اذٰی کا ایک جز ہے۔ خیرات کے پیچھے احسان اور تکلیف لگانے سے بذات خود صدقہ باطل ہوجاتا ہے اور احسان جتلانے اور تکلیف دینے کے گناہ کی وجہ سے صدقہ کا ثواب باقی نہیں رہتا جیسے اس انسان کا صدقہ ضائع ہوجاتا ہے جو ظاہر تو اللہ کی رضا کرتا ہے لیکن حقیقت میں لوگوں کو دکھلانے اور اپنی تعریف کروانے اور عمدہ صفات کے ساتھ لوگوں میں مشہور ہونے کے لیے یا سخی کہلوانے کے لیے خیرات کرتا ہے یا اس کے علاوہ کوئی دنیوی معاملہ ہوتا ہے، اللہ کی رضا اور خوشنودی اور ثواب کا حصول اس کے مدنظر نہیں ہوتا۔
اللہ تعالی کی پسند اور ناپسند