• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تین مردوں پر اللہ تعالیٰ کا غضب

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
تین مردوں پر اللہ تعالیٰ کا غضب

رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
(( ثَـلَاثَۃٌ یَشْنُؤْھُمُ اللّٰہُ … اَلتَّاجِرُ الْحَلاَّفُ، وَالْفَقِیْرُ الْمَخْتَالُ، وَالْبَخِیْلُ الْمَنَّانُ۔ ))1
’’ تین آدمیوں کو اللہ تعالیٰ دشمن رکھتا ہے: قسمیں اٹھانے والا تاجر، متکبر فقیر انسان، احسان جتلانے والا بخیل۔ ‘‘
شرح…: (التاجر الحلاف) وہ تاجر مراد ہے جو خرید و فروخت کے دوران اکثر قسمیں اٹھاتا رہتا ہے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے درج ذیل الفاظ میں ایسا کرنے سے منع فرمایا ہے:
(( إِیَّاکُمْ وَکَثْرَۃَ الْحَلِفِ فِيْ الْبَیْعِ فَإِنَّہٗ یُنَفِّقُ ثُمَّ یَمْحِقُ۔ ))2
’’ تم اپنے آپ کو بیع میں قسموں کی کثرت سے بچاؤ کیونکہ وہ مال کی نکاسی تو کرتی ہیں (مگر برکت کو) ختم کردیتی ہیں۔‘‘
دوسرے مقامات پر ارشاد فرمایا:
(( اَلْحَلِفُ مَنْفَقَۃٌ لِّلسِّلْعَۃِ، مَمْحِقَۃٌ لِّلْبَرَکَۃِ۔ ))3
’’ قسم سے سامان تو فروخت ہوجاتا ہے (مگر) قسم برکت کو مٹا دیتی ہے۔ ‘‘
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

1- صحیح الجامع الصغیر، رقم: ۳۰۷۴۔
2- أخرجہ مسلم في کتاب المساقاۃ، باب: النہي عن الحلف في البیع، رقم: ۴۱۲۶۔
3- أخرجہ البخاري في کتاب البیوع، باب: {یَمْحَقُ اللّٰہُ الرِّبٰوا وَیُرْبِی الصَّدَقَاتِ وَاللّٰہُ لَا یُحِبُّ کُلَّ کَفَارٍ أَثِیْمٍ}، رقم: ۲۰۸۷۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
معلوم ہوا کہ قسم اٹھانے سے مال کی خرید و فروخت اچھی ہوجاتی ہے مگر نفع کی برکت اٹھ جاتی ہے۔
برکت اٹھنے کی کئی شکلیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ کوئی ایسی آزمائش ڈال دے جس میں اس کا مال خرچ ہوجائے مثلاً چوری یا جل جائے یا اس سے کوئی مال چھین لیا جائے۔ کسی بیماری کا علاج معالجہ کرواتے ہوئے مال تلف ہوجائے یا کسی ایسی جگہ پر مال لگا دے جہاں اسے دنیا و آخرت میں فائدہ ملنے کی کوئی امید نہ ہو۔ مال اس کے پاس رہے مگر نفع سے محروم ہوجائے یا ایسے لوگ اس کے وارث بنیں جنہیں یہ پسند نہیں کرتا یا اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ جہاں چاہے مال ضائع کردے۔ مذکورہ احادیث کا مصداق بغیر ضرورت کے سچی قسمیں اٹھانے والا انسان ہے اور جھوٹی قسمیں اٹھائے اس کی حالت تو آخرت میں اس سے بھی پتلی ہوگی۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
{إِنَّ الَّذِیْنَ یَشْتَرُوْنَ بِعَھْدِ اللّٰہِ وَأَیْمَانِھِمْ ثَمَنًا قَلِیْلًا أُولٰٓئِکَ لَا خَلَاقَ لَھُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ وَلَا یُکَلِّمُھُمْ اللّٰہُ وَلَا یَنْظُرُ اِلَیْھِمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَلَا یُزَکِّیْھِمْ وَلَھُمْ عَذَابٌ أَلِیْمٌo} [آل عمران: ۷۷]
’’ بے شک وہ لوگ کہ اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کے بدلے تھوڑی قیمت خریدتے ہیں یہی لوگ ہیں جن کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں اور نہ قیامت والے دن اللہ ان سے کلام کرے گا اور نہ ہی ان کی طرف دیکھے گا اور نہ ہی انہیں پاک کرے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔ ‘‘
یہ ہے ان لوگوں کی حالت جو چند ٹکوں کی خاطر جھوٹی قسمیں اٹھانے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔
رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
(( ثَـلَاثَۃٌ لَا یُکَلِّمُھُمُ اللّٰہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ، وَلَا یَنْظُرُ إِلَیْھِمْ، وَلَا یُزَکِّیْھِمْ، وَلَھُمْ عَذَابٌ أَلِیْمٌ۔ أَلْمُسْبِلُ ، وَالْمَنَّانُ، وَالْمُنْفِقُ سِلْعَتَہُ بِالْحِلْفِ الْکَاذِبِ۔ ))1
’’ تین انسانوں سے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کلام نہیں کریں گے اور نہ ہی ان کی طرف دیکھیں گے اور نہ ہی انہیں پاک کریں گے ان کے لیے دردناک عذاب ہے، ایک ٹخنوں سے نیچے چادر لٹکانے والا دوسرا احسان جتلانے والا، تیسرا جھوٹی قسم اٹھا کر اپنا سامان فروخت کرنے والا۔ ‘‘
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1- أخرجہ مسلم في کتاب الإیمان، باب: تحریم إسبال الإزار والمن بالعطیۃ وتنفیق السلعۃ بالحلف، رقم: ۲۹۳۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
متکبر فقیر…: ایسا انسان مراد ہے جس کے پاس مال بھی نہیں لیکن اس کے باوجود تکبر کرتا ہے حالانکہ اس کے پاس نافرمانی پر ابھارنے والی کوئی چیز نہیں۔ گناہ سے گو کوئی انسان معصوم نہیں لیکن جب اس گناہ اور نافرمانی کی کوئی ضرورت نہ ہو اور نہ ہی اس کی طرف دعوت دینے والے اسباب ہوں تو پھر اس کا ارتکاب محض اللہ کے حق کو حقیر سمجھتے ہوئے اور عناد رکھتے ہوئے قصداً ہوتا ہے۔
لوگوں کو حقیر سمجھنے اور فخر و تکبر کا سبب صاحبِ مال اور صاحب ثروت ہونا ہے اور مال اس کے پاس نہیں لہٰذا جب اس کے پاس اسباب نہیں تو پھر کیوں تکبر کرتا اور لوگوں کو حقیر سمجھتا ہے؟
محض اس کی ایک ہی وجہ سمجھ آتی ہے اور وہ ہے اللہ کے حق کو حقیر خیال کرنا ہے۔
{وَاللّٰہُ لَا یُحِبُّ کُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ o} [الحدید:۲۳]
’’ اور اللہ کسی متکبر شیخی خور کو پسند نہیں کرتا۔ ‘‘
البخیل المنّان…: بخل کا معنی ہے: انسان کا اپنے واجبی حقوق ادا نہ کرنا، یہ سخاوت کی ضد ہے۔
کہا گیا ہے: دنیا میں سب سے زیادہ سخی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے حقوق میں سخاوت کرتا ہے اگرچہ دوسرے کاموں میں لوگ اسے بخیل ہی خیال کریں اور دنیا میں سب سے زیادہ بخیل وہ انسان ہے جو اللہ جل شانہ کے حقوق ادا کرنے میں کنجوسی کرے گو دوسرے کاموں میں لوگ اسے فیاض سمجھتے ہوں۔
کنجوس آدمی اللہ سے بھی اور لوگوں سے بھی دور ہوتا ہے کیونکہ بخل کی جڑ مال کی محبت ہے اور یہ محبت انسان کو اللہ تعالیٰ کے ذکر سے غافل، دل کو دنیا کی طرف راغب اور اس تعلق کو مضبوط کرتی ہے، یہاں تک کہ موت بھی اس پر وزنی ہوتی ہے جس میں اللہ جل شانہ کی ملاقات ہے۔
المنّ…: اس کا مطلب ہے کہ کسی کو تکلیف دینے کے لیے اس پر کیا گیا احسان جتلانا، مثلاً کہے: میں نے فلاں نیکی تیرے ساتھ کی تھی فلاں چیز تجھے دی تھی وغیرہ۔
یہ قول بھی ہے: اپنے دیے گئے عطیات کے متعلق باتیں کرنا یہاں تک کہ جنہیں اشیاء ملی ہیں ان تک وہ باتیں پہنچیں اور وہ تکلیف محسوس کریں۔
البخیل المنان سے مراد وہ شخص ہے جو چیز دے کر قول یا فعل کے ذریعہ احسان جتلا دے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
{یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُبْطِلُوْا صَدَقٰتِکُمْ بِالْمَنِّ وَالْاَذٰی کَالَّذِیْ یُنْفِقُ مَالَہٗ رِئَآئَ النَّاسِ وَلَا یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِط } [البقرہ: ۲۶۴]
’’ اے ایمان والو! اپنے صدقات کو احسان جتلا کر اور تکلیف دے کر ضائع نہ کرو اس آدمی کی طرح جس نے اپنا مال لوگوں کو دکھلانے کے لیے خرچ کیا اور وہ اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان نہیں رکھتا۔ ‘‘
الاذٰی…:بمعنی گالی دینا اور شکایت کرنا، یہ احسان جتلانے سے عام ہے کیونکہ احسان جتلانا اذٰی کا ایک جز ہے۔ خیرات کے پیچھے احسان اور تکلیف لگانے سے بذات خود صدقہ باطل ہوجاتا ہے اور احسان جتلانے اور تکلیف دینے کے گناہ کی وجہ سے صدقہ کا ثواب باقی نہیں رہتا جیسے اس انسان کا صدقہ ضائع ہوجاتا ہے جو ظاہر تو اللہ کی رضا کرتا ہے لیکن حقیقت میں لوگوں کو دکھلانے اور اپنی تعریف کروانے اور عمدہ صفات کے ساتھ لوگوں میں مشہور ہونے کے لیے یا سخی کہلوانے کے لیے خیرات کرتا ہے یا اس کے علاوہ کوئی دنیوی معاملہ ہوتا ہے، اللہ کی رضا اور خوشنودی اور ثواب کا حصول اس کے مدنظر نہیں ہوتا۔

اللہ تعالی کی پسند اور ناپسند
 

عبدالقیوم

مشہور رکن
شمولیت
اگست 25، 2013
پیغامات
825
ری ایکشن اسکور
433
پوائنٹ
142
بھائی آپ بہت اچھا کام کررہے ہیں
یہ تحریریں آپ کی اللہ کے ہاں ایک دستاویز بن رہی جو قیامت دن آپ کی بخشش کا سبب بن گئی انشاء اللہ
 
Top