• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جامعہ لاہور الاسلامیہ میں ہونیوالے خطابات کا خلاصہ

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
جامعہ لاہور الاسلامیہ میں ہونیوالے خطابات کا خلاصہ


فضلاے جامعہ لاہور الاسلامیہ کا سالانہ اجتماع2013ء

ہفتہ ، یکم جون 2013ء کوجامعہ لاہور الاسلامیہ کی مسجد میں 10 بجے صبح فضلاے جامعہ کا اجلاس شروع ہوا،اجلاس کی پہلی نشست کی نقابت واستقبال کے فرائض اُستاذ جامعہ مولانا محمد شفیق مدنی ﷾ نے انجام دیے۔ اُنہوں نے اپنے بہترین تدریسی وانتظامی تجربات سے اپنے ماضی کے زیر تعلیم طلبہ اور حال کے فاضل جامعہ کو مستفید کیا۔ یاد ر ہے کہ مولانا موصوف جامعہ ہذا میں 15برس تک ناظم تعلیمات کے اہم فرائض انجام دیتے رہے ہیں۔اساتذہ میں مولانا محمد شفیع طاہر فاضل مدینہ یونیورسٹی نے حاضرین کو اُن کی ذمہ داریوں، رابطے کی ضرورت واہمیت اور افادیت پر سیر حاصل معلومات سے نوازا۔ سابقہ طلبہ وسابقہ اساتذہ کی آمد کا سلسلہ جاری وساری تھا، اس دوران نمازِ ظہر سے پہلے تک چند طلبہ کے نمائندہ خطابات ہوئے، جن میں راقم الحروف، محمد سلیمان اور عبد اللّٰہ خطیب وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ جبکہ سابقہ اساتذہ میں مولانا طاہر محمود، حافظ عبد الستار اور قاری محمد ابراہیم میرمحمدی حفظہم اللّٰہ تعالٰے بھی اپنے شاگردوں سے ملاقات کے لئے بطور خاص تشریف لائے تھے۔اجلاس کی دوسری اور مرکزی نشست نماز ظہر کے بعد تھی، جس کی نظامت ناظم تعلیمات حافظ حسن مدنی﷾ نے کی۔

مدیرتعلیم ڈاکٹر حافظ حسن مدنی کا ابتدائی خطاب
جامعہ کے ناظم تعلیمات نے تمہیدی کلمات پیش کرتے ہوئے کہا کہ آج بڑی مسرت کا موقع ہے کہ جامعہ کے چار عشروں پر محیط فاضلین اس مجلس میں اپنے مہربان اساتذہ کے ساتھ موجود ہیں۔ میں آپ سب حضرات کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ ملاقات کی بہترین صورت اساتذہ کرام کے خیالات و افکار سے استفادہ ہے۔ اساتذہ ہی کسی تعلیمی ادارے کی اساس اور محور ہوتے ہیں۔ طلباے علوم دینیہ درحقیقت اُستاد سے کسبِ فیض کے لئے جمع ہوتے ہیں۔ وہ کسی جگہ، بلڈنگ اور بہتر انتظام وانصرام کی وجہ سےہی نہیں آتے ، بلکہ درحقیقت کسی فاضل شخصیت سے کسبِ فیض کے لئے جمع ہوتے ہیں اور یہ استاد اگر کسی درخت کے نیچے بھی تعلیم وتدریس کا سلسلہ شروع کردے تو اس کے گرد بھی جمع ہوجاتے تھے۔ اُنہوں نے کہا کہ جامعہ ہذا کا بنیادی امتیاز یہی ہے کہ اس میں ملک کے نامور اور فاضل اساتذه ماضی سے آج تک اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں ، کئی اساتذہ کرام پچھلے تین عشروں سے تواتر سے اپنی خدمات انجام دیتے آرہے ہیں۔ اس ادارے کی انتظامیہ کو یہی اعزاز کافی ہے۔ اُنہوں نےکہا کہ اس ادارے کے کئی ایک امتیازات ہیں، اس کی رحمانیہ برانچ میں کلیہ دراساتِ اسلامیہ کی کلاسز ہوتی ہیں جس میں طلبہ کی تعداد 200 کے لگ بھگ ہے جبکہ جامعہ کی دوسری برانچ 'البیت العتیق' کے نام سے کام کررہی ہے۔ جس میں شعبہ حفظ کے ساتھ ساتھ شعبہ علوم دینیہ کی پہلی چار کلاسیں ہوتی ہیں۔

اُنہوں نے کہا کہ ہمارے لئے یہ امر بھی باعثِ اعزاز ہے کہ پچھلے پانچ سالوں میں جامعہ ہذا سے درجن سے زائد طلبا کامدینہ یونیورسٹی میں داخلہ ہوا ہے او روہاں ہمارے طلبہ ہر مرحلہ میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کررہے ہیں۔حتیٰ کہ شعبان 1434ھ میں جاری ہونے والے سالانہ نتائج میں جامعہ کے فاضل عبد المنان نے مدینہ یونیورسٹی کے اہم ترین کلیہ شریعہ میں پہلی پوزیشن حاصل کرکےجامعہ کا نام روشن کردیا ہے۔ اسی مرحلہ پر جامعہ ہذا کے ہی حافظ محمد زبیر مدنی نے پورے شریعہ کالج میں چھٹی پوزیشن حاصل کی ہے جبکہ جامعہ ہذا کے ہی فاضل حافظ احسان الٰہی ظہیر نے عربی خطابت میں یونیورسٹی بھر میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ یہ امر بھی باعث ذکر ہے کہ جامعہ کے چھ طلبہ کو مدینہ یونیورسٹی میں ایم فل کے درجے میں داخلہ کا اعزاز نصیب ہواہے۔

اُنہوں نے کہا کہ جس طرح کوئی انسان بھی معصوم نہیں ہوتا ، اس طرح کوئی ادارہ بھی خامیوں سے پا ک نہیں ہوتا۔ آپ کو دعوت دینے کا مقصد یہ ہے کہ آپ ادارے سے وابستہ رہیں اور اپنے اساتذہ کرام دعوت وتبلیغ میں رہنمائی اور مثبت مشورے لیتے رہیں، انتظامیہ کو بھی اپنے بہترین مشوروں اور دعاؤں سے مستفید کریں تاکہ ہم طلبہ کو زیادہ سے زیادہ بہترماحول او رمناسب سہولیات فراہم کرسکیں۔

مختصر سی تمہیدی گفتگو کے بعد جناب مدیر التعلیم حافظ حسن مدنی صاحب نے اساتذہ کرام میں ایک ممتازشخصیت کو حاضرین سے دعوتِ خطاب دی۔

تفصیل
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
تقریب صحیح بخاری شریف


جامعہ لاہور الاسلامیہ ( رحمانیہ ) علوم اسلامیہ کی ایک عظیم درسگاہ ہے جس سے ہر سال بہت سے طلبہ علم و عرفان کی مختلف منازل طے کر کے سندِ فراغت حاصل کرتے ہیں۔
امسال بھی تقریبِ ختم بخاری کا انعقاد بڑے تزک واحتشام کے ساتھ ہوا جس میں ملک بھر سے جید علماے کرام اور سامعین عظام نے شرکت کی۔

8 جون بروز ہفتہ ، بعد نمازِ مغرب تقریب کی ابتدا ہوئی۔قاری عارف بشیر کی تلاوتِ کلام مجید کے بعد آٹھویں ؍فائنل سال کے طلبہ صحیح بخاری کی آخری حدیث پر درس لینے کے لیے جامعہ الدعوۃ السلفیہ کے شیخ الحدیث مولانا عبد اللّٰہ امجد چھتوی حفظہ اللّٰہ و یرعاہ کے سامنے گول دائرے کی شکل میں اسٹیج پر بیٹھے ۔ طالبعلم قاری اظہر نذیر نے شیخ الحدیث اُستاد محترم مولانا رمضان سلفی ﷾ سے لے کر امام بخاری رحمہ اللّٰہ تک اور پھر رسول اللّٰہ ﷺ تک اپنی سند کے ساتھ آخری حدیث کی قراء ت کی اور مولانا چھتوی کے درس کی ابتدا ہوئی جس میں انہوں نے عالمانہ و فاضلانہ گفتگو کرتے ہوئے امام بخاری کی علمی جلالت پر روشنی ڈالی اور صحیح بخاری کا اُمّت ِمسلمہ کے ہاں کیا مقام ہے اس کو واضح کیا اور ساتھ ساتھ دفاع بخاری وصحیح بخاری کے حوالے سے بھی علمی نکات پیش کئے۔ بخاری کی آخری حدیث پر سند و متن ہر دو اعتبار سے محققانہ گفتگو کرتے ہوئے اختصار کے ساتھ اپنی بات کو سمیٹا۔

اُن کے خطاب کے دوران محقق دوراں مولانا ارشاد الحق اثری﷾ سٹیج پر تشریف فرما تھے، جبکہ جامعہ کے اساتذہ اورلاہور شہر کے علما بڑی تعداد میں ہمہ تن گوش تھے۔اسی دوران مدیر الجامعہ مولانا حافظ عبد الرحمٰن مدنی حفظہ اللّٰہ و متعنا بطول حیاتہ بھی تشریف لا چکے تھے۔ اُنہوں نے تقریب میں تشریف لانے والے علما و فضلا کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا اور پھر صحیح بخاری سے اپنی وابستگی اور شغف کا اظہار کرتے ہوئے اس بات کی نشاندہی کی کہ اُمت مسلمہ اور خاص کر طالبانِ علوم نبویہ کو کون کون سے چیلنج درپیش ہیں اور ان کا مقابلہ کیونکر کیا جاسکتا ہے۔ اُنہوں نے اس دعائیہ خواہش کا بھی اظہار کیا ہے کہ اللّٰہ اُن سے زیادہ سے زیادہ دین کا کام لے لے۔

تقریب کے تیسرے مقرر نامور محقق اور مشہور مصنف کتبِ کثیرہ مولانا ارشاد الحق اثری ﷾ تھے جن کا موضوع امام بخاری اور ان کی صحیح پر کیے گئے اعتراضات کی نقاب کشائی کرنا تھا ۔ اُنہوں نے اس بات کی وضاحت کی کہ منکرین حدیث حدیث کا انکار کیوں کرتے ہیں؟ اُنہوں نے اس بات کی طرف بھی توجہ دلائی کی حضرت ابو ہریرہ ،امام زہری اور امام بخاری  کو منکرین حدیث اس لیے ہدف تنقید بناتے ہیں کیونکہ علم حدیث میں جس قدر ان ہستیوں کی جہود نمایاں ہیں،کسی اور کی نہیں ۔ حضرت ابوہریرہؓ صحابہ کرام میں روایتِ حدیث کے حوالے سے امتیازی شان رکھتے ہیں جبکہ امام زہری  تابعین میں بلند پایہ مقام کے حامل ہیں اور امام بخاری  کی کتاب'أصح الکتب بعد کتاب اللّٰہ' کے عظیم الشان لقب سے ملقب ہے۔

لاہور کی اس عظیم مادرِ علم میں تقریب بخاری شریف کے موقع پر بڑے مدارس کے شیوخ الحدیث کوخطاب کے لئے مدعو کیا گیا تھا۔ چنانچہ مشہور محقق ومناظراور مفتی مولانا ابو الحسن مبشر احمد ربانی ﷾ نے اس بات پر تفصیلی گفتگو کی کہ کس طرح بعض مذہبی حلقے تقلید کی بھول بھلیوں میں گم ہو کر احترامِ علما کے نام پر حدیث رسول سے اِعراض اور عملاً اس کی توہین کرتے ہیں۔ حدیثِ رسول ﷺکے ساتھ اس ناروا سلوک کی اُنہوں نے کتب فقہ حنفیہ سے با حوالہ بہت ساری مثالیں بھی پیش کیں۔

تفصیل
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
ردِّقادیانیت کورس


عقیدہ ختم نبوت اسلام کے اساسی عقائد میں سے ہے۔اللّٰہ عزوجل نے سلسلۂ انبیا کے آخر میں محمد رسول اللّٰہﷺ کو خاتم النّبیین کی حیثیت سے مبعوث فرماکر نبوت کے خوبصورت محل کی تکمیل فرماتے ہوئے بعثت کے اس پاکیزہ سلسلہ کو آپؐ پر ختم کردیا اور وحی کا سلسلہ بھی آپﷺ کی وفات کے ساتھ ہی منقطع ہوگیا اور بلا شبہ ختم الرسُلﷺ کے بعد ہر مدعئ نبوت مفتری اور کذاب و دجال تو ضرور ہے لیکن ہادی صراط ِ مستقیم کبھی نہیں ہوسکتا اور ایسے دجالوں کو ان کے اس انجام سے جس کے وہ مستحق ہیں، دوچار کرنے کے لئے اُسی علمی و عملی کردار کی ضرورت ہے جو جان نثارانِ ختم نبوت؛ صحابہ کرامؓ نے اَسود عنسی اور مسیلمہ کذاب جیسے دجالوں کو نمونۂ عبرت بنانے کے لئے ادا کیا اور ان مبارک ہستیوں نے اس طرح فتنوں کا قلع قمع کرکے لوگوں کے ایمان محفوظ بنائے ۔عوام کو ان گمراہیوں سے بچانے اور تحفظ ختم نبوت کی شمع دلوں میں روشن کرنے کے لئے ہمارے اسلاف ائمہ و علما نے جو عظیم الشان خدمات سرانجام دی ہیں، اُنہیں آئندہ نسلوں تک پہنچانا علماے کرام کے ذمہ ایک اہم فریضہ ہے، خصوصاً انگریز کے کاشتہ فتنۂ قادیانیت کے ردّ میں اپنے مسلم اکابر کی روایات کو زندہ کرتے ہوئے اس شجرہ خبیثہ کو جڑ سے اُکھیڑنے اور عوام کو اس فتنے سے بچانے کے لئے ایسے نوجوان اہل علم جو علمی و عملی میدان میں کسی بھی قربانی سے دریغ نہ کریں، کی کھیپ تیار کرنا بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔

اسی ذمہ داری کو بجا لاتے ہوئے جامعہ کے مدیر التعلیم ڈاکٹر حافظ حسن مدنی ﷾نے اس سال مدارسِ دینیہ میں سالانہ تعطیلات کے موقع پر جامعہ لاہور الاسلامیہ میں 'ردّ قادیانیت کورس' کے انعقاد کا فیصلہ کیا اور اس کو طلبہ کے لئے مفید تر بنانے کی غرض سے رمضان المبارک سے قبل ختم نبوت کے ماہر علما واسکالرز پر مشتمل ایک مجلس مشاورت منعقد ہوئی جس میں جناب مدیر التعلیم، شیخ الحدیث مولانا رمضان سلفی، اُستاذ العلماء مولانا محمد شفیق مدنی، نائب مدیر التعلیم مولانا حافظ شاکر محمود ، پروفیسر محمد اکرم نسیم ججہ، مناظر اسلام مولانا خاور رشید بٹ ، پروفیسر سمیر ملک ، نو مسلم ماہر قادیانیت (سابق قادیانی) محترم عرفان محمود برق ، عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے مبلغ قاری ریاض احمد فاروقی ، مجلس تحفظ ختم نبوت کے ناظم شعبہ تبلیغ لاہور مولانا عبدالعزیز ، ماہر قادیانیت محترم جناب قیصر مصطفیٰ اوردیگر احباب نے شرکت فرمائی اور کورس کو بہتر بنانے کے لئے تجاویز وآرا کے ساتھ ساتھ اپنے تجربات سے بھی آگاہ کیا، جس کو مدنظر رکھتے ہوئےانتظامیہ نے پروگرام کو حتمی شکل دینے کے علاوہ مجلس میں تجویز کردہ ایسی کتب خریدنے کا بھی اہتمام کیا جو کہ عقیدہ ختم نبوت اور ردِّقادیانیت کے موضوع پر طلبہ کے مطالعہ کو وسعت دینے کے لئے از حد ضروری تھیں۔ان حضرات سے دوران مشاورت جہاں اس کورس کی سرپرستی کی گذارش کی گئی وہاں اُن سے اس سلسلہ میں مفید ترین کتب کی نشاندہی اور محاضرات کے اہم موضوعات کی سفارشات کا بھی تحریری تقاضا کیا گیا۔

تفصیل
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
دورۂ نحو و صرف


عصری تعلیم کےساتھ ساتھ ہمارا قرآن و حدیث کی تعلیمات سے رابطہ مضبوط بنیادوں پر استوار ہونا از حد ضروری ہے۔ قرآن کا علم ہی وہ ہے جو معاشرے کو درست سمت اور صحیح قالب میں ڈھالتا ہے۔ علوم اسلامیہ میں رسوخ کے لئے عربی زبان کی مہارت از بس ضروری ہےاور عربی کے بہتر فہم کے لئے عربی قواعد نحووصرف کی مہارت ومشق کے بغیر چارہ نہیں۔
اس ضرورت کو محسوس کرتےہوئے جامعہ لاہور الاسلامیہ میں طلبہ کو عربی زبان کے اُصول و مبادی سے واقفیت کے لئے 23 روزہ دورۃ النحو والصرف کا اہتمام کیا گیا کہ رمضان کی بابرکت ساعتوں میں جہاں وہ الٰہی رحمتوں کو اپنے دامن میں سمیٹیں، وہیں نحو و صرف کے بنیادی مباحث کو بھی سیکھ سکیں۔ اس کے ساتھ ساتھ طلبا کی فکری رہنمائی اور دورِ حاضر کے فتنوں سے اُنہیں آشنا کرنے کے لئے 'ردّقادیانیت'پر محاضرات کا اہتمام بھی کیا گیا، جس کی تفصیل آپ پڑھ چکے ہیں۔

ملّتِ اسلامیہ میں بیسوں لوگ اسلام کے پردے میں اپنے باطل نظریات کا پرچارکرنے میں سرگرم ہیں، اور یہ لوگ باطل نظریات کے لئے لغوی مباحث کو بنیاد بنا کر غلط استدلال اور عربی عبارات میں تحریف وتاویل کرکے اپنے غلط موقف کو ثابت کرنے کی ناکام کوشش کرتے رہتے ہیں۔جس کی وجہ سے عربی گرامر سے ناواقف لوگ ان کے دامِ فریب میں آکر صراطِ مستقیم اور منہج سلف کو چھوڑ کر ان کے باطل نظریات کو اپنا لیتے ہیں، اس لئے ایسے لوگوں کی گرفت اور بھٹکے ہوؤں کی رہنمائی کے لئے ایسے ماہرین کی ضرورت ہےجو مسلمانوں کی صحیح معنوں میں رہنمائی کرسکیں اور فتنوں کا بروقت تعاقب کرسکیں۔

اسی غرض سے یہ مختصرعربی ریفریشرکورس ترتیب دیا گیا جس میں عصری تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے جدید طریقہ تدریس اپنایا گیا جس سے اس دورہ کی افادیت میں ہر چند اضافہ ہوا۔
دورۃ النحو کے لئے اسلامک ایجوکیشنل انسٹیٹیوٹ مہنتانوالہ کے نامور اُستاد مولانا مختار احمد صاحب نے دورانِ رمضان جامعہ ہذا میں قیام کیا اور روزانہ صبح 8 تا 11 بجے ، طلبہ کو اپنی مقبول تصنیف 'مختار النحو' جسے دورہ نحو کے نقطہ نظر سے تیار کیا گیاہے، کی تدریس کی۔ نقشوں اور وائٹ بورڈ کے مسلسل استعمال اور سوال وجواب کے ذریعے اُنہوں نے طلبہ کو نحو کے تمام بنیادی مباحث بخوبی ذہن نشین کرائے۔ 11 بجے تا نمازِ ظہر راقم الحروف طلبہ کو علم الصرف کی تعلیم وتربیت دیتا رہا، جس کے لئے بھی مولانا مختار احمد کی ہی علم الصرف پر تصنیف کو پیش نظر رکھا گیا، بعض مقامات پر ضروری ترمیم اور اضافہ جات کے ساتھ یہ تدریس بخوبی جاری رہی۔ نمازِ ظہر تا عصر طلبہ آرام کرتے، جبکہ نمازِ عصر کے فوری بعد جامعہ کے شیخ الحدیث مولانا محمد رمضان سلفی﷾کسی ایک حدیثِ نبوی کی عربی تحلیل وترکیب کراتے۔ شام 5 بجے تا 6:30، دوبارہ مولانا مختار صاحب شرکاے دورہ کو مذاکرہ اور عملی مشق کرواتے۔ یہ سلسلہ اسی طرح مسلسل 22 دن جاری رہا، آخری دن طلبہ کا ٹیسٹ ہوا، جس میں 100 نمبر کا ٹیسٹ علم النحو والصرف کے سوالات پر مشتمل تھاجبکہ25،25 نمبر حفظِ قرآن اورمسنون ادعیہ کے لئے مخصوص تھے۔کامیاب ہونے والے طلبہ میں اسناد اور انعامات تقسیم کئے گئے۔

تفصیل
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
قراے جامعہ اور مدینہ یونیورسٹی میں زیرتعلیم طلبہ کودعوتِ افطار


جامعہ لاہور الاسلامیہ لاہور کئی دہائیوں سے ابلاغ دین کے لئے علمی ودعوتی سرگرمیوں میں مصروفِ عمل ہے۔ بلا مبالغہ جا معہ دوسرے جامعات کے مقابلے میں نمایاں تر حیثیت کا حامل ہے کیونکہ ملک او ر بیرونِ ملک میں اکثر نامور علماے کرام اور قراے کرام جو خدمتِ دین میں مصروف ہیں وہ اسی علمی دانش گاہ کے فیض یافتہ ہیں اور ان کی دینی خدمات جامعہ کے لئے اہم اعزاز ہے۔
جامعہ لاہور الاسلامیہ اپنے ان فیض یافتگان کے اعزاز و تکریم میں مختلف پروگرامز کا انعقاد کرتا رہتا ہے، ان میں سے ایک خصوصی پروگرام کا اہتمام رمضان المبارک کی بابرکت ساعتوں میں کیا جاتا ہے جس میں جامعہ کے ان قراء کرام جو ملک بھر کی بڑی بڑی مساجد میں تراویح پڑھا رہے ہیں اور جو طلبہ مدینہ یونیورسٹی میں زیرتعلیم ہیں، ان کو بطورِ خاص مدعو کیا جاتا ہے۔اس طرح کے پروگراموں کا مقصد ابناء الجامعہ سے رابطہ، اُن کی حوصلہ افزائی اور ان کی شفقت بھری تربیت کرنا ہوتا ہے۔

یاد رہے کہ جامعہ کے ابناء اور فضلا میں تین درجن سے زائد تعداد ایسے قراے کرام کی ہے جو ملک بھر کی مرکزی مساجد میں اپنی خوبصورت آوازوں میں تراویح اور قیام اللیل کی امامت کرتے ہیں۔ ہرسال رمضان سے پہلے کے مہینوں میں بڑی مساجد کے منتظمین کی بڑی تعداد ایسے قرا کی خدمات حاصل کرنے کےلئے جامعہ کھنچی چلی آتی ہے۔ اپنے قرا کی حوصلہ افزائی کے لئے رمضان کے آخری عشرہ میں ہر طاق رات کو پانچ ممتاز قرا کو اپنی مادرِ علمی میں خوبصورت لحن میں دو رکعات نوافل کی امامت کا موقع دیا جاتا ہےاور یہ سلسلہ کئی سالوں سے جاری وساری ہے۔
ہر سال کی طرح اس سال بھی 18 رمضان المبارک بمطابق 28 جولائی 2013ء بروزاتوار اس مبارک مجلس کا اہتمام پرتکلف دعوتِ افطار کی صورت میں کیا گیا جس میں ملک کے نامور قراے کرام اور علماے عظام نے شرکت کی۔ یہ پروگرام ہر سال جامعہ میں منعقد کیا جاتا ہے لیکن اس سال جامعہ کے ایک سرپرست خاندان کے شدید اصرار و محبت کی وجہ سے یہ پروگرام اُن کی رہائش گاہ پر منتقل کردیا گیا۔ تاکہ بڑی تعداد میں آنے والے علماء و قراء کی خدمت کرکے وہ بھی اپنے نامہ اعمال میں اضافہ کرسکیں او ر روحانی برکات سے مستفید ہوسکیں۔

پروگرام کے مطابق تمام مدعوین افطاری سے 20، 25 منٹ پہلے ہی پہنچ گئے۔اس دورانیئے کو غنیمت جانتے ہوئے اُستاذِ محترم حافظ حسن مدنی﷾ نے حاضرین مجالس کے سامنے پروگرام کے پس منظر اور اس کی اہمیت و افادیت کو بیان کیا۔ اُنہوں نےکہا کہ جامعہ لاہور الاسلامیہ پاکستان میں ایک منفرد ادارہ ہے کہ جس میں سب سے پہلے کلیۃ القرآن کی ابتدا ہوئی تو اب الحمدللہ دوسرے مدارس نے بھی جامعہ لاہور الاسلامیہ کو نمونہ کے طور پر سامنے رکھ کر قرآنی علوم (قرأت و تجوید) پر باقاعدہ کام شروع کردیا ہے۔ جس میں اسی جامعہ کے فارغ التحصیل قراء ہی بطورِ استاذ اس شعبہ کو چلا رہے ہیں۔ ان میں سے اکثر قراء ہماری اس مجلس میں بھی موجود ہیں جو ہمارے لئے خوشی و مسرت کا باعث ہے۔

مدینہ یونیورسٹی میں زیر تعلیم طلباء او ران کے تعلیمی میدان میں اعزازات و امتیازات کا ذکر کرتے ہوئے اُنہوں نے فرمایا کہ ہمارے اس جامعہ کے دو ہونہار طلبہ عبدالمنان نے پوری یونیورسٹی میں اوّل پوزیشن حاصل کی اور دوسرے حافظ زبیر نے چھٹی پوزیشن حاصل کی جبکہ اس یونیورسٹی میں پوری دنیا کے تقریباً 160 ممالک سے 20 ہزار کے لگ بھگ طلبا زیر تعلیم ہیں تو اتنی تعداد میں سے ممتاز پوزیشنیں حاصل کرنا واقعی جامعہ کے لئے ایک اعزاز ہے۔

آخر میں اپنی بات کو سمیٹے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ یہ تمام باتیں بیان کرنے کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ ایک بندہ مؤمن اللّٰہ تعالیٰ، ا س کے رسولﷺ اور اس کی کتاب قرآن مجید کے ساتھ اپنے تعلق کو مضبوط کرے تو جب انسان کی یہ حالت و کیفیت ہوجاتی ہے تو اللّٰہ ربّ العزّت اس کو دنیا میں بھی عزت و بلندی سے نوازتے ہیں او رآخرت کی کامیابی بھی انہی کےلئے ہے۔ مذکورہ مثال سے اس با ت کو اچھی طرح سے سمجھا جاسکتا ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ نیکی کے کاموں میں ایک دوسرے سے بڑھنے کی کوشش کرے۔

تفصیل
 
Top