• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جاہلوں کے ساتھ طویل بحث و مکالمات کی بجائے اُن سے جدائی و اعراض کرنا بہتر ہے

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
جاہلوں کے ساتھ طویل بحث و مکالمات کی بجائے اُن سے جدائی و اعراض کرنا بہتر ہے
_______________________________
تحریر : أبو عامر (Abu Aamir)
یوم الإثنین، رجب 4, 1437ھ / بروز پیر، بمطابق اپریل 11, 2016م


اس جدید دور میں سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی نے جس طرح ہم انسانوں کے مختلف شعبۂ ہائے زندگی پر ایک گہرا اثر چھوڑا ہے تو اسی طرح اس جدید انفارمیشن ٹیکنالوجی جیسے کمپوٹرز و موبائل فونز اور دیگر ماڈرن الیکٹرونکس آلات اور ان میں چلنے والے نت نئے سوفٹ وئیر ایپلیکیشنز انٹرنیٹ وغیرہ کی ایجاد سے اب جدید ترین سوشل و الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے (Skype ,WatsApp, Twitter ,Facebook) وغیرہ کے ذریعے انسانوں کے آپس میں رابطے بھی نہایت ہی سہل و قریب بلکہ انگلی کی ایک جنبش (one click) پر آ گئی ہیں۔

جس طرح کہ دنیا میں طرح طرح کے مختلف الخیال، مختلف عقائد رکھنے والے ہر قسم کے لوگ موجود ہوتے ہیں تو جو خراب لوگ ہوتے ہیں جیسے کفار و مشرکین اور دھریہ ملحدین و منافقین وغیرہ تو وہ اہنے عقائد و نظریات کے مطابق خراب اور بُرے مواد اس عالمی سوشل فورم پر شیئر کرتے ہیں، جبکہ اُن کے برعکس صحیح العقیدہ اہل ایمان لوگ جو اللہ تعالی سے ڈرتے والے ہوتے ہیں اور آخرت کی حساب کتاب
( judgement & accountability ) پر یقین رکھتے ہیں تو وہ اس سوشل فورم پر کتاب وسنت کی روشنی میں وعظ و نصیحت سے بھرپور اچھے مواد پوسٹس، مضامین اور معلومات کی شکل میں نشر و شیئر کرتے ہیں جو یقیناً إن شاء اللہ بطور علم نافع اُن کے لئے صدقہ جاریہ کے زمرے میں شمار ہو گا۔

لیکن اکثر اوقات اس سوشل میڈیا پر صحیح العقیدہ متبعین سنت اہل ایمان مؤحدین حضرات کے ساتھ دعوت کے میدان میں بعض جہال متعصبین و منافقین قسم کے اہل البدعہ کلمہ گو قبوری مشرکین اور جامد مقلدین کا مختلف دینی امور و مسائل پر بحث و مباحثہ چڑ جاتا ہے جس میں دوران بحث فریق مخالف باطل پرست ٹولہ اہنے اخلاقی کمزوری اور شیطانی تربیت کے مطابق فحش کلامی، گالی گلوچ، سب وشتم، استہزا اور نہایت نیچ اور غیرمناسب رذیل قسم کے شیطانی اخلاق کا اظہار کرتے ہیں، جس پر اکثر اہل حق متبعین سنت مؤحدین حضرات بھی صبر کا دامن توڑ کر طیش اور غیض و غضب میں آ کر اُنہی جیسی طرز کلام اختیار کر لیتے ہیں جو مناسب نہیں ہوتا ہے کیونکہ اللہ تعالی نے اپنے عباد الرحمن کو ایسے حالات پیش آنے پر اپنے مقدس کتاب قرآن کریم میں طریقہ و علاج بتایا ہے جو آگے تفصیل سے بیان ہو رہا ہے۔

یاد رکھیں ! جب سے شیطان لعین پیدا ہوا ہے تو کائنات میں حق و باطل اور خیر و شر کا یہ ٹھکراؤ جاری و ساری ہوا ہے اور یہ اللہ سبحانہ وتعالی کی طرف سے اپنے بندوں پر ایک آزمائش و امتحان ہے جس کی حکمت اور راز وہ خود بہتر جانتا ہے۔ باقی ایسا بھی نہیں ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالی نے ہم انسانوں اور جنوں کو پیدا کرکے ہمیں ویسے بغیر ہدایت کے یوں ہی چھوڑ دیا بلکہ اللہ تعالی نے ہمیں عقل و شعور کے ساتھ ساتھ اچھے اور بُرے اور حق و باطل میں فرق و تمیز کرنے کی صلاحیت بھی ودیعت فرمائی ہے، اور اس کے علاوہ ہر دور میں اللہ تعالی نے اپنے انبیاء اور رسول علیہم السلام مبعوث فرما کر اُن پر ہماری ہدایت و راہنمائی کے لئے اپنے مقدس کتب و پیغامات بھی نازل فرمائے، تاکہ وہ ہمیں اللہ تعالی کے احکام و پیغامات کھول کھول کر بیان کریں۔ ان انبیاء و رُسل علیہم السلام کا سلسلہ الله سبحانہ و تعالی نے اپنے آخری محبوب نبی محمد رسول الله ﷺ کو آج سے چودہ سو سال پہلے قیامت تک آنے والے تمام انسانوں و جنوں کے لئے نبی و رسول مبعوث فرما کر اُس پر ختم فرمایا، اور اُنہیں اپنا آخری پیغام قرآن کریم کی صورت میں نازل فرما کر قیامت تک کے لئے تمام انسانوں و جنوں کے لئے ایک کامل و مکمل دستور، قانون اور ہدایت بنایا، اور اسلام کو بطور دین ہمارے لئے پسند فرمایا، جس کی احکام و فرامین کے مطابق عمل کرکے ہم انسان و جن دونوں جنس دنیوی و اُخروی فوز و فلاح اور نجات پا سکتے ہیں۔ یعنی اللہ تعالی نے اپنے انبیاء و رسول علیہم السلام بھیجنے اور اپنے مقدس کتب کی نزول سے ہم بندوں پر اپنی اتمامِ حُجت کر چکا ہے تاکہ کل قیامت کے دن کوئی انسان یا جن اللہ تعالی کے دربار میں یہ عذر و بہانہ پیش نہ کر سکے کہ ہمیں تو معلوم ہی نہیں تھا۔

جس طرح اللہ سبحانہ وتعالی نے قرآن کریم میں فرمایا ہے :

﴿ يَا مَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ أَلَمْ يَأْتِكُمْ رُسُلٌ مِّنكُمْ يَقُصُّونَ عَلَيْكُمْ آيَاتِي وَيُنذِرُونَكُمْ لِقَاءَ يَوْمِكُمْ هَٰذَا قَالُوا شَهِدْنَا عَلَىٰ أَنفُسِنَا وَغَرَّتْهُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا وَشَهِدُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ أَنَّهُمْ كَانُوا كَافِرِينَ (130) ذَٰلِكَ أَن لَّمْ يَكُن رَّبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرَىٰ بِظُلْمٍ وَأَهْلُهَا غَافِلُونَ (131) ﴾ [ الأنعام 6 ]

" اے جنات اور انسانوں کی جماعت! کیا تمہارے پاس تم میں سے پیغمبر نہیں آئے تھے جو تم سے میرے احکام بیان کرتے اور تم کو آج کے دن کے خبر دیتے؟ وہ سب عرض کریں گے کہ ہم اپنے اوپر اقرار کرتے ہیں اور ان کو دنیاوی زندگی نے بھول میں ڈالے رکھا اور یہ لوگ اقرار کرنے والے ہوں گے کہ وہ کافر تھے (130) یہ اس وجہ سے ہے کہ آپ کا رب کسی بستی والوں کو کفر کے سبب ایسی حالت میں ہلاک نہیں کرتا کہ اس بستی کے رہنے والے بے خبر ہوں (131)"۔

﴿ وَقَدْ نَزَّلَ عَلَيْكُمْ فِي الْكِتَابِ أَنْ إِذَا سَمِعْتُمْ آيَاتِ اللَّهِ يُكْفَرُ بِهَا وَيُسْتَهْزَأُ بِهَا فَلَا تَقْعُدُوا مَعَهُمْ حَتَّىٰ يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ إِنَّكُمْ إِذًا مِّثْلُهُمْ إِنَّ اللَّهَ جَامِعُ الْمُنَافِقِينَ وَالْكَافِرِينَ فِي جَهَنَّمَ جَمِيعًا ﴾ [ النساء 140:4 ]

" اور الله تعالی تمہارے پاس اپنے کتاب میں یہ حُکم اُتار چکا ہے کہ جب تم کسی مجلس والوں کو الله تعالی کی آیتوں کے ساتھ کفر کرتے اور مذاق اُڑاتے ہوئے سنو تو اس مجمع میں اُن کے ساتھ نہ بیٹھو ! جب تک کہ وہ اس کے علاوہ اور باتیں نہ کرنے لگیں، (ورنہ) تم بھی اس وقت انہی جیسے ہو، یقیناً الله تعالی تمام کافروں اور سب منافقوں کو جہنم میں جمع کرنے والا ہے۔"

یعنی منع کرنے کے باوجود اگر تم ایسی مجالس میں جہاں آیات الٰہی کا استہزا کیا جاتا ہو بیٹھو گے اور اس ہر نکیر نہیں کرو گے تو پھر تم بھی گناہ میں اُن کے برابر ہو گے۔ جیسے ایک حدیث میں آتا ہے کہ

" جو شخص اللہ تعالی اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے، وہ اس دعوت میں شریک نہ ہو جس میں شراب کا دور چلے۔"

[ مسند أحمد جلد1 ص20، جلد 3 ص339 ]،

اس سے معلوم ہوا کہ ایسی مجلسوں اور اجتماعات میں شریک ہونا جن میں اللہ تعالی اور اس کے رسول ﷺ کے احکام کا قوالاً یا عملاً مذاق اُڑایا جاتا ہو، جیسے آج کل کے اُمراء فیشن ایبل اور مغرب زدہ حلقوں میں بالعموم ایسا ہوتا ہے یا شادی بیاہ اور سالگرہ وغیرہ کی تقریبات میں کیا جاتا ہے تو یہ سخت گناہ ہے ﴿إِنَّكُمْ إِذًا مِّثْلُهُمْ ﴾ کی وعیدِ قرآنی اہل ایمان کے اندر کپکپی طاری کر دینے کے لئے کافی ہے بشرطیکہ کسی کے اندر ایمان ہو۔

﴿ وَعِبَادُ الرَّحْمَٰنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنًا وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلَامًا ﴾ [ الفرقان 63:25 ]

" رحمن کے (سچے) بندے وہ ہیں جو زمین پر فروتنی (آہستگی) کے ساتھ چلتے ہیں اور جب بے علم لوگ ان سے (جاہلانہ) باتیں کرنے لگتے ہیں تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ سلام ہے۔"

سلام سے مراد یہاں اعراض اور ترکِ بحث و مجادلہ ہے۔ یعنی اہل ایمان جو ہیں وہ اہل جہالت و اہل سفاہت سے الجھتے نہیں ہیں بلکہ ایسے موقعوں پر اعراض و گریز کی پالیسی اختیار کرتے ہیں اور بے فائدہ بحث نہیں کرتے۔

﴿ وَالَّذِينَ لَا يَشْهَدُونَ الزُّورَ وَإِذَا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِرَامًا ﴾ [ الفرقان 72:25 ]

" اور وہ جو جھوٹی گواہی نہیں دیتے اور جب کسی لغو ( بیہودہ ) چیز پر اُن کا گزر ہوتا ہے تو شرافت سے گزر جاتے ہیں۔"

زور کا معنی جھوٹ کے ہیں۔ ہر باطل چیز بھی جھوٹ ہے، اس لئے جھوٹی گواہی سے لے کر کفر و شرک اور ہر طرح کی غلط چیزیں مثلاً لہو و لعب، گانا بجانا اور دیگر جاہلانہ رسوم و افعال وغیرہ سب اس میں شامل ہیں اور عباد الرحمن کی یہ صفت بھی ہے کہ وہ کسی بھی جھوٹ میں اور جھوٹ کی مجلسوں میں حاضر نہیں ہوتے ہیں۔ (لغو) ہر وہ بات اور کام ہے جس میں شرعاً کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ یعنی ایسے کاموں اور باتوں میں بھی وہ شرکت نہیں کرتے بلکہ خاموشی کے ساتھ عزت و وقار سے گزر جاتے ہیں۔

﴿ وَإِذَا سَمِعُوا اللَّغْوَ أَعْرَضُوا عَنْهُ وَقَالُوا لَنَا أَعْمَالُنَا وَلَكُمْ أَعْمَالُكُمْ سَلَامٌ عَلَيْكُمْ لَا نَبْتَغِي الْجَاهِلِينَ ﴾ [ القصص 55:28 ]

" اور جب بیہودہ بات کان میں پڑتی ہے تو اس سے کنارہ کر لیتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ ہمارے عمل ہمارے لئے اور تمہارے اعمال تمہارے لئے، تم پر سلام ہو ہم جاہلوں سے (الجھنا) نہیں چاہتے۔"

یہاں لغو سے مراد وہ سب وشتم ( گالی گلوچ ) اور دین کے ساتھ استہزا ہے جو کفار ومشرکین کرتے تھے۔ اور سلام سے یہاں مراد سلام تحیہ نہیں بلکہ سلام متارکہ (جدائی کا سلام) یعنی ہم تم جیسے جاہلوں سے بحث اور گفتگو کے روادار ہی نہیں، جیسے اردو میں بھی کہتے ہیں کہ جاہلوں کو دور ہی سے سلام، ظاہر ہے ایسے سلام سے مراد ترکِ مخاطبت ہی ہے ( یعنی بات چیت کو ترک کرنا ہے)۔

واللہ أعلم

ترجمہ وتفسیر ماخوذ :

{ القرآن الکریم و ترجمة معانيه وتفسيره إلى اللغة الأردية - مطبوعة مجمع الملك فهد لطباعة المصحف الشريف، المدبنة المنورة}۔

باقی دنیا میں ہر صاحب عقل وبصیرت مرد و عورت کو اپنے بساط کے مطابق سعی و تحقیق کرکے حق وباطل میں فرق و پہچان کرنا چاہیۓ اور پھر حق کو دل ہی سے قبول کرکے اس کی اطاعت واتباع کرنی چاہیۓ۔

اللہ تعالی ہم سب کو حق قبول کرنے اور پھر اس پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اللهم آمین

" اللهم أرنا الحق حقًا وارزقنا إتباعه، اللهم أرنا الباطل باطلًا وارزقنا إجتنابە۔

وصلى الله وسلم وبارك على نبينا محمد وعلى آله وأصحابه أجمعين۔

واللہ تعالی أعلم

کتاب و سنت کی روشن دلائل پر مبنی اس اہم دعوتی پوسٹ کو ہر دینی بہن بھائی بطور صدقہ جاریہ خالص نیت سے آگے share کریں۔ وجزاکم اللہ خیرًا
 
شمولیت
فروری 04، 2016
پیغامات
203
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
27
میں ایک سوال پوچھنا چاہتا تھا۔
جب ہم فیس بُک پر نصرانیوں سے اسلام اور نصرانیت کے کسی بھی موضوع پر گفتگو کر رہے ہوتے ہیں تو جب نصارا کسی سوال کا جواب نہیں دے سکتے تو وہ اللہ تعالٰی اور رسول اللہ ﷺ کے بارے میں بُرے کلمات کہنا شروع ہو جاتے ہیں۔ اِس صورت میں ہمیں کیا کرنا چاہیے؟
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
میں ایک سوال پوچھنا چاہتا تھا۔
جب ہم فیس بُک پر نصرانیوں سے اسلام اور نصرانیت کے کسی بھی موضوع پر گفتگو کر رہے ہوتے ہیں تو جب نصارا کسی سوال کا جواب نہیں دے سکتے تو وہ اللہ تعالٰی اور رسول اللہ ﷺ کے بارے میں بُرے کلمات کہنا شروع ہو جاتے ہیں۔ اِس صورت میں ہمیں کیا کرنا چاہیے؟
و جادلهم بالتي هي أحسن
 
Top