• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جتنا پختہ ایمان، اتنا کڑا امتحان!

شمولیت
مئی 31، 2017
پیغامات
21
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
36
جتنا پختہ ایمان، اتنا کڑا امتحان!
تحریر : ابو نعمان محمد ارسلان الزبیری
مومن کے لیے آزمائش اللہ کی طرف سے نعمت اور تحفہ ہوتی ہے، اب جس میں جتنا ایمان ہوگا، اس پر آزمائشیں بھی اتنی ہی سخت آئیں گے، جیسے انبیائے کرام، پھر اس سے نچلے مرتبے والے۔ تب ہی تو مصائب اور بیماریاں اللہ والوں پر زیادہ سخت ہو جاتی ہیں۔ یہ دراصل ان پر احسان و اکرام ہوتا ہے۔ لہٰذا جس قدر بندہ اللہ سے زیادہ ڈرنے والا ہو، اسی قدر آزمائش سخت ہو تی ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مؤمن کی مثال اس لچک دار پودے کی طرح دی ہے، جسے ہوائیں ادھر اُدھر دھکیل دیتی ہیں۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
مَثَلُ الْمُؤْمِنِ کَمَثَلِ الزَّرْعِ لَا تَزَالُ الرِّیحُ تُمِیلُہ،، وَلَا یَزَالُ الْمُؤْمِنُ یُصِیبُہُ الْبَلَائُ، وَمَثَلُ الْمُنَافِقِ کَمَثَلِ شَجَرَۃِ الْـأَرْزِ، لَا تَہْتَزُّ حَتّٰی تَسْتَحْصِدَ .
''مؤمن کی مثال اس کھیتی کی سی ہے، جسے ہوائیں ہلاتی رہتی ہیں، مؤمن کو بھی آزمائشیں آتی ہی رہتی ہیں۔ منافق کی مثال صنوبر کے درخت کی ہے، جو ایک جھونکے میں ہی جڑ سے اکھڑ جاتا ہے۔''
(صحیح البخاري : ٥٦٤٤، صحیح مسلم : ٢٨٠٩، واللّفظ لہ،)
دوسری روایت کے الفاظ ہیں :
مَثَلُ الْمُؤْمِنِ کَمَثَلِ خَامَۃِ الزَّرْعِ یَفِيءُ وَرَقُہ، مِنْ حَیْثُ أَتَتْہَا الرِّیحُ تُکَفِّئُہَا، فَإِذَا سَکَنَتِ اعْتَدَلَتْ، وَکَذٰلِکَ الْمُؤْمِنُ یُکَفَّأُ بِالْبَلاَئِ، وَمَثَلُ الْکَافِرِ کَمَثَلِ الْـأَرْزَۃِ صَمَّاءَ مُعْتَدِلَۃً حَتّٰی یَقْصِمَہَا اللّٰہُ إِذَا شَاءَ .
''مؤمن اس نرم کھیتی کی مانند ہے، جس کے پتے ہوا کے مطابق ہلتے ہیں۔ ہوا تھم جائے، تو پتے بھی معتدل ہو جاتے ہیں۔ ایسے ہی مؤمن بھی آزمائشوں کی آندھی میں ہلایا جاتا ہے۔ کافر کی مثال صنوبر کے سخت درخت کی طرح ہے، جسے اللہ تعالیٰ جب چاہتا ہے، (آندھی بھیج کر) اکھاڑ پھینکتا ہے۔''(صحیح البخاري : ٧٤٦٦)
اس حدیث کا مفہوم واضح کرتے ہوئے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
قَالَ الْمُہَلَّبُ : مَعْنَی الْحَدِیثِ أَنَّ الْمُؤْمِنَ حَیْثُ جَاءَ ہ، أَمْرُ اللّٰہِ أَنْ طَاعَ لَہ، فَإِنْ وَقَعَ لَہ، خَیْرٌ فَرِحَ بِہٖ وَشَکَرَ وَإِنْ وَقَعَ لَہ، مَکْرُوہٌ صَبَرَ وَرَجَا فِیہِ الْخَیْرَ وَالْـأَجْرَ فَإِذَا انْدَفَعَ عَنْہُ اعْتَدَلَ شَاکِرًا، وَالْکَافِرُ لَا یَتَفَقَّدُہُ اللّٰہُ بِاخْتِیَارِہٖ بَلْ یَحْصُلُ لَہُ التَّیْسِیرُ فِي الدُّنْیَا لِیَتَعَسَّرَ عَلَیْہِ الْحَالُ فِي الْمَعَادِ حَتّٰی إِذَا أَرَادَ اللّٰہُ إِہْلَاکَہ، قَصَمَہ، فَیَکُونُ مَوْتُہ، أَشَدَّ عَذَابًا عَلَیْہِ وَأَکْثَرَ أَلَمًا فِي خُرُوجِ نَفْسِہٖ .
''علامہ مہلب بن ابی صفرہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ مؤمن پر جس طرح کے بھی حالات آئیں، وہ اپنے رب کا مطیع بن کر ہی رہتا ہے۔ خیر ملے، تو خوش ہو کر اللہ کا شکر بجا لاتا ہے اور اگر مصیبت آن لے، تو صبر کرتا ہے اور اس میں خیر اور اجر کی امید رکھتا ہے۔ جب مصیبت چھٹ جاتی ہے، تو معتدل ہو کر اپنے رب کا شاکر بندہ بن جاتا ہے۔ کافر کا تو اللہ جائزہ ہی نہیں لیتا، بلکہ اسے دنیا میں فراوانی و فراخی دیتا ہے تاکہ آخرت میں اسے سخت حالات سے دوچار کردے، حتی کہ جب اسے ہلاک کرنا چاہتا ہے، تو توڑ کر رکھ دیتا ہے۔ روح نکلتے وقت اسے سخت عذاب اور تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔''(فتح الباري : ١٠/١٠٧)
حافظ نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
قَالَ الْعُلَمَاءُ : مَعْنَی الْحَدِیثِ أَنَّ الْمُؤْمِنَ کَثِیرُ الْآلَامِ فِي بَدَنِہٖ أَوْ أَہْلِہٖ أَوْ مَالِہٖ وَذٰلِکَ مُکَفِّرٌ لِسَیِّئَاتِہٖ وَرَافِعٌ لِّدَرَجَاتِہٖ وَأَمَّا الْکَافِرُ فَقَلِیلُہَا وَإِنْ وَقَعَ بِہٖ شَيْءٌ لَّمْ یُکَفِّرْ شَیْئًا مِنْ سَیِّئَاتِہٖ بَلْ یَأْتِي بِہَا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ کَامِلَۃً .''علمائے کرام کا فرمان ہے : اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ مؤمن کو تن من دھن اورگھر بار میں بہت سی تکالیف اٹھانی پڑتی ہیں، جو اس کے گناہوں کا کفارہ اور درجات کی بلندی کا سبب بن جاتی ہیں، لیکن کافر کو مصائب کم پہنچتی ہیں، اگر کوئی مصیبت آ بھی جائے، تو کسی گناہ کا کفارہ نہیں بنتی، بلکہ روزِ قیامت ویسے کا ویسا ہی ہو گا۔''(شرح صحیح مسلم : ١٧/١٥٣)
انبیائے کرام اور صلحائے عظام اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب ہیں، اسی لیے ان پر آزمائشیں بھی کڑی ہوتی ہیں، جیسا کہ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کی، یا رسول اللہ! سب سے سخت مصائب کن پر آتی ہیں؟ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :الأَنْبِیَاءُ ثُمَّ الأَمْثَلُ فَالأَمْثَلُ، فَیُبْتَلَی الرَّجُلُ عَلٰی حَسَبِ دِینِہٖ، فَإِنْ کَانَ دِینُہ، صُلْبًا اشْتَدَّ بَلَاؤُہ،، وَإِنْ کَانَ فِي دِینِہٖ رِقَّۃٌ ابْتُلِیَ عَلٰی حَسَبِ دِینِہٖ، فَمَا یَبْرَحُ البَلَاءُ بِالعَبْدِ حَتّٰی یَتْرُکَہ، یَمْشِي عَلَی الأَرْضِ مَا عَلَیْہِ خَطِیئَۃٌ .
''سب زیادہ مصائب انبیائے کرام کو آئیں، پھر ان سے کم فضیلت والوں کو، پھر ان سے کم فضیلت والوں کو۔ یعنی آدمی کو دینداری کے مطابق آزمایا جاتا ہے، دین میں جس قدر صلابت ہو، مصیبت میں اسی قدر شدت ہوتی ہے، دین میں ڈھیلا پن ہو، تو آزمائش بھی اسی طرح کی ہوتی ہے۔ مؤمن بندہ بلاؤں کا ہی شکار رہتا ہے، حتی کہ جب اس کا پیچھا چھوڑ تی ہیں، تو گناہوں سے پاک زمین پر ٹہلتا پھرتا ہے۔''
(مسند الإمام أحمد : ٣/١٢٨، سنن التّرمذي : ٢٣٩٨، سنن ابن ماجہ : ٤٠٢٣، المستدرک علی الصّحیحن للحاکم : ١/٤٠، وسندہ، صحیحٌ)
عاصم بن ابی النجود حسن الحدیث ہیں، ان کی متابعت العلاء بن المسیب (ثقہ) (المستدرک للحاکم : ١/٤٠) نے کر رکھی ہے۔ نیز امام حاکم رحمہ اللہ نے اس حدیث کو امام بخاری اور امام مسلم کی شرط پر ''صحیح'' کہا ہے۔
گویا جتنا پختہ ایمان، اتنا کڑا امتحان! تب ہی تو سب سے زیادہ اور کڑی آزمائشوں کا سامنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کرنا پڑا ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بیماری کی شدت دوسروں کی بہ نسبت زیادہ تھی، جیسا کہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں :
مَا رَأَیْتُ أَحَدًا أَشَدَّ عَلَیْہِ الْوَجَعَ مِنْ رَّسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .
''جس قدر میں نے موت کی سختی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر طاری دیکھی، کسی اور پر نہیں دیکھی۔''(صحیح البخاري : ٥٦٤٦، صحیح مسلم : ٢٥٧٠)
سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا بیان ہے:
دَخَلْتُ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ یُوعَکُ، فَمَسِسْتُہ، بِیَدِي، فَقُلْتُ : یَا رَسُولَ اللّٰہِ إِنَّکَ لَتُوعَکُ وَعْکًا شَدِیدًا، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَجَلْ إِنِّي أُوعَکُ کَمَا یُوعَکُ رَجُلَانِ مِنْکُمْ قَالَ : فَقُلْتُ : ذٰلِکَ أَنَّ لَکَ أَجْرَیْنِ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم : أَجَلْ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم : مَا مِنْ مُّسْلِمٍ یُّصِیبُہ، أَذًی مِّنْ مَّرَضٍ، فَمَا سِوَاہُ إِلَّا حَطَّ اللّٰہُ بِہٖ سَیِّئَاتِہٖ، کَمَا تَحُطُّ الشَّجَرَۃُ وَرَقَہَا .
''میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ بخار میں مبتلا تھے، میں نے آپ کو ہاتھ سے چھوا، میں نے کہا : اللہ کے رسول! آپ کو تو بہت تیز بخار ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ''جی ہاں، مجھے دو بندوں کے برابر بخار ہوتا ہے۔'' میں نے کہا : تب تو آپ کو اجر بھی دوہرا ملتا ہوگا؟ فرمایا : جی، نیز فرمایا : '' جس مسلمان کو بیماری یا کوئی مصیبت پہنچتی ہے، اللہ اس کے گناہ یوں جھاڑ دیتا ہے، جیسے موسم خزاں پتوں کو جھاڑ دیتا ہے۔''(صحیح البخاري : ٥٦٤٧، صحیح مسلم : ٢٥٧١، واللّفظ لہ،)
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
دَخَلْتُ عَلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ یُوعَکُ، فَوَضَعْتُ یَدِي عَلَیْہِ فَوَجَدْتُ حَرَّہ، بَیْنَ یَدَيَّ فَوْقَ اللِّحَافِ، فَقُلْت : یَا رَسُولَ اللّٰہِ مَا أَشَدَّہَا عَلَیْکَ! قَال : إِنَّا کَذَالِکَ یُضَعَّفُ لَنَا الْبَلَائُ، وَیُضَعَّفُ لَنَا الْـأَجْرُ قُلْت : یَا رَسُولَ اللّٰہِ أَیُّ النَّاسِ أَشَدُّ بَلَائً؟ قَال : الْـأَنْبِیَائُ، قُلْت : یَا رَسُولَ اللّٰہِ، ثُمَّ مَنْ؟ قَال : ثُمَّ الصَّالِحُونَ، إِنْ کَانَ أَحَدُہُمْ لَیُبْتَلٰی بِالْفَقْرِ، حَتّٰی مَا یَجِدُ أَحَدُہُمْ إِلَّا الْعَبَاءَ ۃَ یَحُوبُہَا، وَإِنْ کَانَ أَحَدُہُمْ لَیَفْرَحُ بِالْبَلَائِ، کَمَا یَفْرَحُ أَحَدُکُمْ بِالرَّخَاءِ .
''میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ بیمار تھے۔ میں نے آپ کے جسم مبارک کو چھوا، تو میرے ہاتھوں نے لحاف کے اوپر سے ہی بخار کی حرارت محسوس کی۔ عرض کیا : اللہ کے رسول! آپ کو تو بہت سخت بخار ہے! فرمایا : ہمارا (انبیا کا) معاملہ ایسا ہی ہے، امتحان سخت اور اجر بھی زیادہ۔ میں نے پوچھا : سب سے سخت تکالیف کا سامنے کن کو ہوتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : انبیائے کرام کو۔ عرض کیا کہ پھر کون؟ فرمایا: پھر نیک و پارسا لوگوں کو۔ انہیں تو اس قدر فقر وفاقے کا منہ دیکھنا پڑا کہ جسم ڈھکنے کے لیے محض ایک چوغہ بہ مشکل ملتا تھا۔ لیکن (اس کے باوجود) وہ مصائب پریوں خوش ہوتے تھے، جیسے تم میں سے کوئی فراوانی پر خوش ہوتا ہے۔''(الأدب المفرد للبخاري : ٥١٠، سنن ابن ماجہ : ٤٠٢٤، واللّفظ لہ،، المستدرک علی الصّحیحین للحاکم : ١/٩٩، وسندہ، حسنٌ)
اس حدیث کو امام حاکم رحمہ اللہ نے امام مسلم رحمہ اللہ کی شرط پر ''صحیح'' کہا ہے، حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے موافقت کی ہے۔
ان احادیث میں بیان کیا گیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مصائب اور بیماری کی شدت سے آزمائش دی گئی۔ آپ کی زوجہئ محترمہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ خبر دار کر رہی ہیں کہ جتنی سخت بیمار آپ ہوئے، ایسی سختی کسی پر میں نے نہیں دیکھی۔
سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم کو ہاتھ لگا کر چیک کیا ، آپ کا جسم تپ رہا تھا، بخار کی اس قدر سختی دیکھ کر بول اٹھے : آپ کو تو انتہائی سخت بخار ہے ، آپ نے بتایا کہ مجھ دو بندوں کے برابر بخار چڑھتا ہے، مزید خبردار کیا کہ مجھے اجر بھی دوہرہ ملتا ہے اور مصیبتیں گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہیں۔
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تپتے چادر کے اوپر سے ہی جسم مبارک پرہاتھ رکھا اور آپ کے جسم میں بہت زیادہ حرارت محسوس کی۔ فوراً پکار اٹھے، آپ کو کتنا سخت بخار ہے! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہ انبیائے کرام کی شان ہے کہ ان پر آزمائش بھی کڑی ہوتی ہے اور اجر بھی زیادہ ہوتا ہے۔ سیدنا ابو سعیدt ایک اور بات پوچھی کہ مصائب کی زیادہ سختی کن کو اٹھانی پڑتی ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :پہلے نمبر پر انبیائے کرام، پھر نیک و صالح لوگ۔ انہیں تو اس حد تک فقر کا سامنا کرنا پڑا کہ جسم چھپانے کے لیے صرف ایک چوغہ پہنتے تھے۔ لیکن اس سب کے باوجود وہ مصائب پر یوں خوش ہوتے تھے، جیسے ہم خوش حالی پر مسرور ہو جاتے ہیں۔ اس کی وجہ محض یہ تھی کہ وہ مصیبت میں اپنے لیے خیر سمجھتے تھے۔ ہمارے پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح دیگر انبیائے کرام علیہم السلام کو بھی بہت زیادہ آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں طرح طرح مصائب سے دو چار کر کے اپنے انعامات کی بوچھاڑ کی ہے۔
آزمائش و ابتلا کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے سیدنا ایوب علیہ السلام کا ذکر انتہائی موزوں ہوگا کہ جن احوال کو اللہ تعالیٰ اور اس کے پاک رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کیے ہیں۔ ایک طویل مدت تک بیماررہنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے انہیں شفایاب کیا اور خاطر خواہ فوائد سے ہمکنار فرمایا۔
بھائی جان! اسی طرح آپ بھی اس نبی کی حالت جان کر تسلی، عبرت اور عزت حاصل کر سکتے ہیں۔
آزمائش کسی نعمت یا تحفہ سے کم نہیں، جیسا کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں:
جَاءَ تِ الْحُمّٰی إِلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ : ابْعَثْنِي إِلٰی آثَرِ أَہْلِکَ عِنْدَکَ، فَبَعَثَہَا إِلَی الْـأَنْصَارِ، فَبَقِیَتْ عَلَیْہِمْ سِتَّۃَ أَیَّامٍ وَلَیَالِیہِنَّ، فَاشْتَدَّ ذٰلِکَ عَلَیْہِمْ، فَأَتَاہُمْ فِي دِیَارِہِمْ، فَشَکَوْا ذٰلِکَ إِلَیْہِ، فَجَعَلَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَدْخُلُ دَارًا دَارًا، وَبَیْتًا بَیْتًا، یَدْعُو لَہُمْ بِالْعَافِیَۃِ، فَلَمَّا رَجَعَ تَبِعَتْہُ امْرَأَۃٌ مِّنْہُمْ فَقَالَت : وَالَّذِي بَعَثَکَ بِالْحَقِّ إِنِّي لَمِنَ الْـأَنْصَارِ، وَإِنَّ أَبِي لَمِنَ الْـأَنْصَارِ، فَادْعُ اللّٰہَ لِي کَمَا دَعَوْتَ لِلْـأَنْصَارِ، قَال : مَا شِئْتِ، إِنْ شِئْتِ دَعَوْتُ اللّٰہَ أَنْ یُعَافِیَکِ، وَإِنْ شِئْتِ صَبَرْتِ وَلَکِ الْجَنَّۃُ ، قَالَت : بَلْ أَصْبِرُ، وَلَا أَجْعَلُ الْجَنَّۃَ خَطَرًا .
''ایک دفعہ بخار نے آکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کی : مجھے اپنے پسندیدہ ترین گھروں میں بھیج دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے انصار کے گھروں میں بھیج دیا۔ انہیں چھ دن تک مسلسل بخار کا سامنا رہا، تو تنگ آگئے۔ آپ ان کے گھر وں میں گئے اور گھر گھر داخل ہو کر ان کے لیے عافیت کی دعا کی۔ جب واپس لوٹے، تو ایک عورت آپ کے پیچھے آ گئی اور کہنے لگی : اس ذات کی قسم، جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث! میں بھی انصاری ہوں اور میرے ابو جان بھی انصاری ہیں۔ دوسرے انصار کی طرح میرے حق میں بھی دعائے عافیت فرما دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جیسے آپ کی مرضی؟ چاہتی ہیں، تو عافیت کی دعا کیے دیتا ہوں اور چاہتی ہیں، تو صبر کر کے جنت کا داخلہ حاصل کر لیں۔ کہنے لگیں : صبر کر لیتی ہوں، جنت کو داؤ پر نہیں لگانا چاہتی۔''(الأدب المفرد للبخاري : ٥٠٢، دلائل النّبوۃ : ٦/١٦٠، شعب الإیمان : ٩٤٩٦ کلاھما للبیھقي، وسندہ، صحیحٌ)
اسی معنی کی ایک حدیث سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ
إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لِأَعْرَابِي : ہَلْ أَخَذَتْکَ أُمُّ مِلْدَمٍ؟ قَال : یَا رَسُولَ اللّٰہِ، وَمَا أُمُّ مِلْدَمٍ؟ قَال : حَرٌّ یَکُونُ بَیْنَ الْجِلْدِ وَالدَّمِ قَال : یَا رَسُولَ اللہِ، مَا وَجَدْتُ ہٰذَا قَال : یَا أَعْرَابِيُّ ہَلْ أَخْذَکَ ہٰذَا الصُّدَاعُ؟ قَال : یَا رَسُولَ اللّٰہِ، وَمَا الصُّدَاعُ؟ قَال : عُرُوقٌ تَضْرِبُ عَلَی الْإِنْسَانِ فِي رَأْسِہٖ قَال : مَا وَجَدْتُ ہٰذَا فَلَمَّا وَلّٰی قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم : مَنْ أَحَبَّ أَنْ یَنْظُرَ إِلٰی رَجُلٍ مِنْ أَہْلِ النَّارِ فَلْیَنْظُرْ إِلٰی ہٰذَا .
''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دیہاتی سے فرمایا: کیا کبھی آپ کا ''ام ملدم '' سے واسطہ پڑا ہے؟ پوچھنے لگا کہ یہ ''ام ملدم'' کیا ہوتا ہے؟ آپ نے فرمایا : یہ جلد اور خون کے درمیان ایک حرارت کا نام ہے۔ کہنے لگا : اللہ کے رسول! میرے ساتھ تو ایسا کبھی نہیں ہوا۔ آپ نے فرمایا : اعرابی! کبھی ''صداع'' لاحق ہوا ہے؟ پوچھنے لگا کہ یہ''صداع'' کیا ہوتا ہے؟ فرمایا : انسان کے سر کی رگ میں ہونے والی تکلیف کو کہتے ہیں۔ کہنے لگا کہ ایسا بھی کبھی نہیں ہوا۔ جب یہ اعرابی واپس گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس نے جہنمی دیکھنا ہو، اسے دیکھ لے۔''(مسند الامام أحمد : ١٤/١٢٣، السنن الکبریٰ للنّسائي : ٧٤٤٩، الأدب المفرد للبخاري : ٤٩٥، وسندہ، حسنٌ)
امام ابن حبان رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں:
قَوْلُہ، صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : 'مَنْ أَحَبَّ أَنْ یَنْظُرَ إِلٰی رَجُلٍ مِنْ أَہْلِ النَّارِ فَلْیَنْظُرْ إِلٰی ہٰذَا' لَفْظَۃُ إِخْبَارٍ عَنْ شَيْءٍ مُرَادُہَا الزَّجْرُ عَنِ الرُّکُونِ إِلٰی ذَالِکَ الشَّيْئِ، وَقِلَّۃِ الصَّبْرِ عَلٰی ضِدِّہِ، وَذَالِکَ أَنَّ اللّٰہَ جَلَّ وَعَلَا جَعَلَ الْعِلَلَ فِي ہٰذِہِ الدُّنْیَا وَالْغُمُومِ وَالْـأَحْزَانِ سَبَبَ تَکْفِیرِ الْخَطَایَا عَنِ الْمُسْلِمِینَ، فَأَرَادَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِعْلَامَ أُمَّتِہٖ أَنَّ الْمَرْءَ لَا یَکَادُ یَتَعَرّٰی عَنْ مُقَارَفَۃِ مَا نَہَی اللّٰہُ عَنْہُ فِي أَیَّامِہٖ وَلَیَالِیہٖ وَإِیجَابِ النَّارِ لَہ، بِذَالِکَ إِنْ لَمْ یُتَفَضَّلَ عَلَیْہِ بِالْعَفْوِ، فَکَأَنَّ کُلَّ إِنْسَانٍ مُرْتَہَنٌ بِمَا کَسَبَتْ یَدَاہُ، وَالْعِلَلُ تُکَفَّرُ بَعْضُہَا عَنْہُ فِي ہٰذِہِ الدُّنْیَا لَا أَنَّ مَنْ عُوفِیَ فِي ہٰذِہِ الدُّنْیَا یَکُونُ مِنْ أَہْلِ النَّارِ .
'''مَنْ أَحَبَّ أَنْ یَنْظُرَ إِلٰی رَجُلٍ مِّنْ أَہْلِ النَّارِ فَلْیَنْظُرْ إِلٰی ہٰذَا' میں اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے گناہوں کی معافی کے اسباب دنیوی مصائب اور حزن و ملال میں رکھ دیے ہیں۔ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو بتانا چاہا کہ انسان دن و رات کے پیچ وخم میں اپنے رب کی معصیت اور جہنم لے جانے والے اعمال کا مرتکب ہو ہی جاتا ہے، اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اسے معاف کردیتا ہے۔ گویا ہر انسان اپنے اعمال کے عوض گروی ہے۔ مصائب اس کے بعض گناہوں کو دنیا میں ہی مٹا دیتی ہیں۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ دنیا میں اس کی معافی تلافی ہو جائے اور وہ جہنمی بھی ہو جائے۔''(صحیح ابن حبان : ٧/١٧٨)
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
747
ری ایکشن اسکور
128
پوائنٹ
108
@محمد ارسلان الزبیری صاحب
تحریر پڑھنے میں مشکل ہورہی تھی ۔ اسلئے فونٹ سائز اور خط تحریر تبدیل کرکے پوسٹ کی ہے۔
جتنا پختہ ایمان، اتنا کڑا امتحان!

تحریر : ابو نعمان محمد ارسلان الزبیری


مومن کے لیے آزمائش اللہ کی طرف سے نعمت اور تحفہ ہوتی ہے، اب جس میں جتنا ایمان ہوگا، اس پر آزمائشیں بھی اتنی ہی سخت آئیں گے، جیسے انبیائے کرام، پھر اس سے نچلے مرتبے والے۔ تب ہی تو مصائب اور بیماریاں اللہ والوں پر زیادہ سخت ہو جاتی ہیں۔ یہ دراصل ان پر احسان و اکرام ہوتا ہے۔ لہٰذا جس قدر بندہ اللہ سے زیادہ ڈرنے والا ہو، اسی قدر آزمائش سخت
ہو تی ہے۔


نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مؤمن کی مثال اس لچک دار پودے کی طرح دی ہے، جسے ہوائیں ادھر اُدھر دھکیل دیتی ہیں۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

مَثَلُ الْمُؤْمِنِ کَمَثَلِ الزَّرْعِ لَا تَزَالُ الرِّیحُ تُمِیلُہ،، وَلَا یَزَالُ الْمُؤْمِنُ یُصِیبُہُ الْبَلَائُ، وَمَثَلُ الْمُنَافِقِ کَمَثَلِ شَجَرَۃِ الْـأَرْزِ، لَا تَہْتَزُّ حَتّٰی تَسْتَحْصِدَ .

''
مؤمن کی مثال اس کھیتی کی سی ہے، جسے ہوائیں ہلاتی رہتی ہیں، مؤمن کو بھی آزمائشیں آتی ہی رہتی ہیں۔ منافق کی مثال صنوبر کے درخت کی ہے، جو ایک جھونکے میں ہی جڑ سے اکھڑ جاتا ہے۔''

(
صحیح البخاري : ٥٦٤٤، صحیح مسلم : ٢٨٠٩، واللّفظ لہ،)

دوسری روایت کے الفاظ ہیں :

مَثَلُ الْمُؤْمِنِ کَمَثَلِ خَامَۃِ الزَّرْعِ یَفِيءُ وَرَقُہ، مِنْ حَیْثُ أَتَتْہَا الرِّیحُ تُکَفِّئُہَا، فَإِذَا سَکَنَتِ اعْتَدَلَتْ، وَکَذٰلِکَ الْمُؤْمِنُ یُکَفَّأُ بِالْبَلاَئِ، وَمَثَلُ الْکَافِرِ کَمَثَلِ الْـأَرْزَۃِ صَمَّاءَ مُعْتَدِلَۃً حَتّٰی یَقْصِمَہَا اللّٰہُ إِذَا شَاءَ .

''
مؤمن اس نرم کھیتی کی مانند ہے، جس کے پتے ہوا کے مطابق ہلتے ہیں۔ ہوا تھم جائے، تو پتے بھی معتدل ہو جاتے ہیں۔ ایسے ہی مؤمن بھی آزمائشوں کی آندھی میں ہلایا جاتا ہے۔ کافر کی مثال صنوبر کے سخت درخت کی طرح ہے، جسے اللہ تعالیٰ جب چاہتا ہے، (آندھی بھیج کر) اکھاڑ پھینکتا ہے۔''(صحیح البخاري : ٧٤٦٦)

اس حدیث کا مفہوم واضح کرتے ہوئے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں :

قَالَ الْمُہَلَّبُ : مَعْنَی الْحَدِیثِ أَنَّ الْمُؤْمِنَ حَیْثُ جَاءَ ہ، أَمْرُ اللّٰہِ أَنْ طَاعَ لَہ، فَإِنْ وَقَعَ لَہ، خَیْرٌ فَرِحَ بِہٖ وَشَکَرَ وَإِنْ وَقَعَ لَہ، مَکْرُوہٌ صَبَرَ وَرَجَا فِیہِ الْخَیْرَ وَالْـأَجْرَ فَإِذَا انْدَفَعَ عَنْہُ اعْتَدَلَ شَاکِرًا، وَالْکَافِرُ لَا یَتَفَقَّدُہُ اللّٰہُ بِاخْتِیَارِہٖ بَلْ یَحْصُلُ لَہُ التَّیْسِیرُ فِي الدُّنْیَا لِیَتَعَسَّرَ عَلَیْہِ الْحَالُ فِي الْمَعَادِ حَتّٰی إِذَا أَرَادَ اللّٰہُ إِہْلَاکَہ، قَصَمَہ، فَیَکُونُ مَوْتُہ، أَشَدَّ عَذَابًا عَلَیْہِ وَأَکْثَرَ أَلَمًا فِي خُرُوجِ نَفْسِہٖ .

''
علامہ مہلب بن ابی صفرہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ مؤمن پر جس طرح کے بھی حالات آئیں، وہ اپنے رب کا مطیع بن کر ہی رہتا ہے۔ خیر ملے، تو خوش ہو کر اللہ کا شکر بجا لاتا ہے اور اگر مصیبت آن لے، تو صبر کرتا ہے اور اس میں خیر اور اجر کی امید رکھتا ہے۔ جب مصیبت چھٹ جاتی ہے، تو معتدل ہو کر اپنے رب کا شاکر بندہ بن جاتا ہے۔ کافر کا تو اللہ جائزہ ہی نہیں لیتا، بلکہ اسے دنیا میں فراوانی و فراخی دیتا ہے تاکہ آخرت میں اسے سخت حالات سے دوچار کردے، حتی کہ جب اسے ہلاک کرنا چاہتا ہے، تو توڑ کر رکھ دیتا ہے۔ روح نکلتے وقت اسے سخت عذاب اور تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔''(فتح الباري : ١٠/١٠٧)

حافظ نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

قَالَ الْعُلَمَاءُ : مَعْنَی الْحَدِیثِ أَنَّ الْمُؤْمِنَ کَثِیرُ الْآلَامِ فِي بَدَنِہٖ أَوْ أَہْلِہٖ أَوْ مَالِہٖ وَذٰلِکَ مُکَفِّرٌ لِسَیِّئَاتِہٖ وَرَافِعٌ لِّدَرَجَاتِہٖ وَأَمَّا الْکَافِرُ فَقَلِیلُہَا وَإِنْ وَقَعَ بِہٖ شَيْءٌ لَّمْ یُکَفِّرْ شَیْئًا مِنْ سَیِّئَاتِہٖ بَلْ یَأْتِي بِہَا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ کَامِلَۃً .''علمائے کرام کا فرمان ہے : اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ مؤمن کو تن من دھن اورگھر بار میں بہت سی تکالیف اٹھانی پڑتی ہیں، جو اس کے گناہوں کا کفارہ اور درجات کی بلندی کا سبب بن جاتی ہیں، لیکن کافر کو مصائب کم پہنچتی ہیں، اگر کوئی مصیبت آ بھی جائے، تو کسی گناہ کا کفارہ نہیں بنتی، بلکہ روزِ قیامت ویسے کا ویسا ہی ہو گا۔''(شرح صحیح مسلم : ١٧/١٥٣)

انبیائے کرام اور صلحائے عظام اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب ہیں، اسی لیے ان پر آزمائشیں بھی کڑی ہوتی ہیں، جیسا کہ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کی، یا رسول اللہ! سب سے سخت مصائب کن پر آتی ہیں؟ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :الأَنْبِیَاءُ ثُمَّ الأَمْثَلُ فَالأَمْثَلُ، فَیُبْتَلَی الرَّجُلُ عَلٰی حَسَبِ دِینِہٖ، فَإِنْ کَانَ دِینُہ، صُلْبًا اشْتَدَّ بَلَاؤُہ،، وَإِنْ کَانَ فِي دِینِہٖ رِقَّۃٌ ابْتُلِیَ عَلٰی حَسَبِ دِینِہٖ، فَمَا یَبْرَحُ البَلَاءُ بِالعَبْدِ حَتّٰی یَتْرُکَہ، یَمْشِي عَلَی الأَرْضِ مَا عَلَیْہِ خَطِیئَۃٌ .

''
سب زیادہ مصائب انبیائے کرام کو آئیں، پھر ان سے کم فضیلت والوں کو، پھر ان سے کم فضیلت والوں کو۔ یعنی آدمی کو دینداری کے مطابق آزمایا جاتا ہے، دین میں جس قدر صلابت ہو، مصیبت میں اسی قدر شدت ہوتی ہے، دین میں ڈھیلا پن ہو، تو آزمائش بھی اسی طرح کی ہوتی ہے۔ مؤمن بندہ بلاؤں کا ہی شکار رہتا ہے، حتی کہ جب اس کا پیچھا چھوڑ تی ہیں، تو گناہوں سے پاک زمین پر ٹہلتا پھرتا ہے۔''

(
مسند الإمام أحمد : ٣/١٢٨، سنن التّرمذي : ٢٣٩٨، سنن ابن ماجہ : ٤٠٢٣، المستدرک علی الصّحیحن للحاکم : ١/٤٠، وسندہ، صحیحٌ)

عاصم بن ابی النجود حسن الحدیث ہیں، ان کی متابعت العلاء بن المسیب (ثقہ) (المستدرک للحاکم : ١/٤٠) نے کر رکھی ہے۔ نیز امام حاکم رحمہ اللہ نے اس حدیث کو امام بخاری اور امام مسلم کی شرط پر ''صحیح'' کہا ہے۔

گویا جتنا پختہ ایمان، اتنا کڑا امتحان! تب ہی تو سب سے زیادہ اور کڑی آزمائشوں کا سامنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کرنا پڑا ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بیماری کی شدت دوسروں کی بہ نسبت زیادہ تھی، جیسا کہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں :

مَا رَأَیْتُ أَحَدًا أَشَدَّ عَلَیْہِ الْوَجَعَ مِنْ رَّسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .

''
جس قدر میں نے موت کی سختی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر طاری دیکھی، کسی اور پر نہیں دیکھی۔''(صحیح البخاري : ٥٦٤٦، صحیح مسلم : ٢٥٧٠)

سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا بیان ہے:

دَخَلْتُ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ یُوعَکُ، فَمَسِسْتُہ، بِیَدِي، فَقُلْتُ : یَا رَسُولَ اللّٰہِ إِنَّکَ لَتُوعَکُ وَعْکًا شَدِیدًا، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَجَلْ إِنِّي أُوعَکُ کَمَا یُوعَکُ رَجُلَانِ مِنْکُمْ قَالَ : فَقُلْتُ : ذٰلِکَ أَنَّ لَکَ أَجْرَیْنِ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم : أَجَلْ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم : مَا مِنْ مُّسْلِمٍ یُّصِیبُہ، أَذًی مِّنْ مَّرَضٍ، فَمَا سِوَاہُ إِلَّا حَطَّ اللّٰہُ بِہٖ سَیِّئَاتِہٖ، کَمَا تَحُطُّ الشَّجَرَۃُ وَرَقَہَا .

''
میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ بخار میں مبتلا تھے، میں نے آپ کو ہاتھ سے چھوا، میں نے کہا : اللہ کے رسول! آپ کو تو بہت تیز بخار ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ''جی ہاں، مجھے دو بندوں کے برابر بخار ہوتا ہے۔'' میں نے کہا : تب تو آپ کو اجر بھی دوہرا ملتا ہوگا؟ فرمایا : جی، نیز فرمایا : '' جس مسلمان کو بیماری یا کوئی مصیبت پہنچتی ہے، اللہ اس کے گناہ یوں جھاڑ دیتا ہے، جیسے موسم خزاں پتوں کو جھاڑ دیتا ہے۔''(صحیح البخاري : ٥٦٤٧، صحیح مسلم : ٢٥٧١، واللّفظ لہ،)

سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :

دَخَلْتُ عَلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ یُوعَکُ، فَوَضَعْتُ یَدِي عَلَیْہِ فَوَجَدْتُ حَرَّہ، بَیْنَ یَدَيَّ فَوْقَ اللِّحَافِ، فَقُلْت : یَا رَسُولَ اللّٰہِ مَا أَشَدَّہَا عَلَیْکَ! قَال : إِنَّا کَذَالِکَ یُضَعَّفُ لَنَا الْبَلَائُ، وَیُضَعَّفُ لَنَا الْـأَجْرُ قُلْت : یَا رَسُولَ اللّٰہِ أَیُّ النَّاسِ أَشَدُّ بَلَائً؟ قَال : الْـأَنْبِیَائُ، قُلْت : یَا رَسُولَ اللّٰہِ، ثُمَّ مَنْ؟ قَال : ثُمَّ الصَّالِحُونَ، إِنْ کَانَ أَحَدُہُمْ لَیُبْتَلٰی بِالْفَقْرِ، حَتّٰی مَا یَجِدُ أَحَدُہُمْ إِلَّا الْعَبَاءَ ۃَ یَحُوبُہَا، وَإِنْ کَانَ أَحَدُہُمْ لَیَفْرَحُ بِالْبَلَائِ، کَمَا یَفْرَحُ أَحَدُکُمْ بِالرَّخَاءِ .

''
میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ بیمار تھے۔ میں نے آپ کے جسم مبارک کو چھوا، تو میرے ہاتھوں نے لحاف کے اوپر سے ہی بخار کی حرارت محسوس کی۔ عرض کیا : اللہ کے رسول! آپ کو تو بہت سخت بخار ہے! فرمایا : ہمارا (انبیا کا) معاملہ ایسا ہی ہے، امتحان سخت اور اجر بھی زیادہ۔ میں نے پوچھا : سب سے سخت تکالیف کا سامنے کن کو ہوتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : انبیائے کرام کو۔ عرض کیا کہ پھر کون؟ فرمایا: پھر نیک و پارسا لوگوں کو۔ انہیں تو اس قدر فقر وفاقے کا منہ دیکھنا پڑا کہ جسم ڈھکنے کے لیے محض ایک چوغہ بہ مشکل ملتا تھا۔ لیکن (اس کے باوجود) وہ مصائب پریوں خوش ہوتے تھے، جیسے تم میں سے کوئی فراوانی پر خوش ہوتا ہے۔''(الأدب المفرد للبخاري : ٥١٠، سنن ابن ماجہ : ٤٠٢٤، واللّفظ لہ،، المستدرک علی الصّحیحین للحاکم : ١/٩٩، وسندہ، حسنٌ)

اس حدیث کو امام حاکم رحمہ اللہ نے امام مسلم رحمہ اللہ کی شرط پر ''صحیح'' کہا ہے، حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے موافقت کی ہے۔

ان احادیث میں بیان کیا گیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مصائب اور بیماری کی شدت سے آزمائش دی گئی۔ آپ کی زوجہئ محترمہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ خبر دار کر رہی ہیں کہ جتنی سخت بیمار آپ ہوئے، ایسی سختی کسی پر میں نے نہیں دیکھی۔

سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم کو ہاتھ لگا کر چیک کیا ، آپ کا جسم تپ رہا تھا، بخار کی اس قدر سختی دیکھ کر بول اٹھے : آپ کو تو انتہائی سخت بخار ہے ، آپ نے بتایا کہ مجھ دو بندوں کے برابر بخار چڑھتا ہے، مزید خبردار کیا کہ مجھے اجر بھی دوہرہ ملتا ہے اور مصیبتیں گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہیں۔

سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تپتے چادر کے اوپر سے ہی جسم مبارک پرہاتھ رکھا اور آپ کے جسم میں بہت زیادہ حرارت محسوس کی۔ فوراً پکار اٹھے، آپ کو کتنا سخت بخار ہے! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہ انبیائے کرام کی شان ہے کہ ان پر آزمائش بھی کڑی ہوتی ہے اور اجر بھی زیادہ ہوتا ہے۔ سیدنا ابو سعیدt ایک اور بات پوچھی کہ مصائب کی زیادہ سختی کن کو اٹھانی پڑتی ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :پہلے نمبر پر انبیائے کرام، پھر نیک و صالح لوگ۔ انہیں تو اس حد تک فقر کا سامنا کرنا پڑا کہ جسم چھپانے کے لیے صرف ایک چوغہ پہنتے تھے۔ لیکن اس سب کے باوجود وہ مصائب پر یوں خوش ہوتے تھے، جیسے ہم خوش حالی پر مسرور ہو جاتے ہیں۔ اس کی وجہ محض یہ تھی کہ وہ مصیبت میں اپنے لیے خیر سمجھتے تھے۔ ہمارے پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح دیگر انبیائے کرام علیہم السلام کو بھی بہت زیادہ آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں طرح طرح مصائب سے دو چار کر کے اپنے انعامات کی بوچھاڑ کی ہے۔

آزمائش و ابتلا کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے سیدنا ایوب علیہ السلام کا ذکر انتہائی موزوں ہوگا کہ جن احوال کو اللہ تعالیٰ اور اس کے پاک رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کیے ہیں۔ ایک طویل مدت تک بیماررہنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے انہیں شفایاب کیا اور خاطر خواہ فوائد سے ہمکنار فرمایا۔

بھائی جان! اسی طرح آپ بھی اس نبی کی حالت جان کر تسلی، عبرت اور عزت حاصل کر سکتے ہیں۔

آزمائش کسی نعمت یا تحفہ سے کم نہیں، جیسا کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں:

جَاءَ تِ الْحُمّٰی إِلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ : ابْعَثْنِي إِلٰی آثَرِ أَہْلِکَ عِنْدَکَ، فَبَعَثَہَا إِلَی الْـأَنْصَارِ، فَبَقِیَتْ عَلَیْہِمْ سِتَّۃَ أَیَّامٍ وَلَیَالِیہِنَّ، فَاشْتَدَّ ذٰلِکَ عَلَیْہِمْ، فَأَتَاہُمْ فِي دِیَارِہِمْ، فَشَکَوْا ذٰلِکَ إِلَیْہِ، فَجَعَلَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَدْخُلُ دَارًا دَارًا، وَبَیْتًا بَیْتًا، یَدْعُو لَہُمْ بِالْعَافِیَۃِ، فَلَمَّا رَجَعَ تَبِعَتْہُ امْرَأَۃٌ مِّنْہُمْ فَقَالَت : وَالَّذِي بَعَثَکَ بِالْحَقِّ إِنِّي لَمِنَ الْـأَنْصَارِ، وَإِنَّ أَبِي لَمِنَ الْـأَنْصَارِ، فَادْعُ اللّٰہَ لِي کَمَا دَعَوْتَ لِلْـأَنْصَارِ، قَال : مَا شِئْتِ، إِنْ شِئْتِ دَعَوْتُ اللّٰہَ أَنْ یُعَافِیَکِ، وَإِنْ شِئْتِ صَبَرْتِ وَلَکِ الْجَنَّۃُ ، قَالَت : بَلْ أَصْبِرُ، وَلَا أَجْعَلُ الْجَنَّۃَ خَطَرًا .

''
ایک دفعہ بخار نے آکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کی : مجھے اپنے پسندیدہ ترین گھروں میں بھیج دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے انصار کے گھروں میں بھیج دیا۔ انہیں چھ دن تک مسلسل بخار کا سامنا رہا، تو تنگ آگئے۔ آپ ان کے گھر وں میں گئے اور گھر گھر داخل ہو کر ان کے لیے عافیت کی دعا کی۔ جب واپس لوٹے، تو ایک عورت آپ کے پیچھے آ گئی اور کہنے لگی : اس ذات کی قسم، جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث! میں بھی انصاری ہوں اور میرے ابو جان بھی انصاری ہیں۔ دوسرے انصار کی طرح میرے حق میں بھی دعائے عافیت فرما دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جیسے آپ کی مرضی؟ چاہتی ہیں، تو عافیت کی دعا کیے دیتا ہوں اور چاہتی ہیں، تو صبر کر کے جنت کا داخلہ حاصل کر لیں۔ کہنے لگیں : صبر کر لیتی ہوں، جنت کو داؤ پر نہیں لگانا چاہتی۔''(الأدب المفرد للبخاري : ٥٠٢، دلائل النّبوۃ : ٦/١٦٠، شعب الإیمان : ٩٤٩٦ کلاھما للبیھقي، وسندہ، صحیحٌ)

اسی معنی کی ایک حدیث سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ

إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لِأَعْرَابِي : ہَلْ أَخَذَتْکَ أُمُّ مِلْدَمٍ؟ قَال : یَا رَسُولَ اللّٰہِ، وَمَا أُمُّ مِلْدَمٍ؟ قَال : حَرٌّ یَکُونُ بَیْنَ الْجِلْدِ وَالدَّمِ قَال : یَا رَسُولَ اللہِ، مَا وَجَدْتُ ہٰذَا قَال : یَا أَعْرَابِيُّ ہَلْ أَخْذَکَ ہٰذَا الصُّدَاعُ؟ قَال : یَا رَسُولَ اللّٰہِ، وَمَا الصُّدَاعُ؟ قَال : عُرُوقٌ تَضْرِبُ عَلَی الْإِنْسَانِ فِي رَأْسِہٖ قَال : مَا وَجَدْتُ ہٰذَا فَلَمَّا وَلّٰی قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم : مَنْ أَحَبَّ أَنْ یَنْظُرَ إِلٰی رَجُلٍ مِنْ أَہْلِ النَّارِ فَلْیَنْظُرْ إِلٰی ہٰذَا .

''
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دیہاتی سے فرمایا: کیا کبھی آپ کا ''ام ملدم '' سے واسطہ پڑا ہے؟ پوچھنے لگا کہ یہ ''ام ملدم'' کیا ہوتا ہے؟ آپ نے فرمایا : یہ جلد اور خون کے درمیان ایک حرارت کا نام ہے۔ کہنے لگا : اللہ کے رسول! میرے ساتھ تو ایسا کبھی نہیں ہوا۔ آپ نے فرمایا : اعرابی! کبھی ''صداع'' لاحق ہوا ہے؟ پوچھنے لگا کہ یہ''صداع'' کیا ہوتا ہے؟ فرمایا : انسان کے سر کی رگ میں ہونے والی تکلیف کو کہتے ہیں۔ کہنے لگا کہ ایسا بھی کبھی نہیں ہوا۔ جب یہ اعرابی واپس گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس نے جہنمی دیکھنا ہو، اسے دیکھ لے۔''(مسند الامام أحمد : ١٤/١٢٣، السنن الکبریٰ للنّسائي : ٧٤٤٩، الأدب المفرد للبخاري : ٤٩٥، وسندہ، حسنٌ)

امام ابن حبان رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں:

قَوْلُہ، صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : 'مَنْ أَحَبَّ أَنْ یَنْظُرَ إِلٰی رَجُلٍ مِنْ أَہْلِ النَّارِ فَلْیَنْظُرْ إِلٰی ہٰذَا' لَفْظَۃُ إِخْبَارٍ عَنْ شَيْءٍ مُرَادُہَا الزَّجْرُ عَنِ الرُّکُونِ إِلٰی ذَالِکَ الشَّيْئِ، وَقِلَّۃِ الصَّبْرِ عَلٰی ضِدِّہِ، وَذَالِکَ أَنَّ اللّٰہَ جَلَّ وَعَلَا جَعَلَ الْعِلَلَ فِي ہٰذِہِ الدُّنْیَا وَالْغُمُومِ وَالْـأَحْزَانِ سَبَبَ تَکْفِیرِ الْخَطَایَا عَنِ الْمُسْلِمِینَ، فَأَرَادَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِعْلَامَ أُمَّتِہٖ أَنَّ الْمَرْءَ لَا یَکَادُ یَتَعَرّٰی عَنْ مُقَارَفَۃِ مَا نَہَی اللّٰہُ عَنْہُ فِي أَیَّامِہٖ وَلَیَالِیہٖ وَإِیجَابِ النَّارِ لَہ، بِذَالِکَ إِنْ لَمْ یُتَفَضَّلَ عَلَیْہِ بِالْعَفْوِ، فَکَأَنَّ کُلَّ إِنْسَانٍ مُرْتَہَنٌ بِمَا کَسَبَتْ یَدَاہُ، وَالْعِلَلُ تُکَفَّرُ بَعْضُہَا عَنْہُ فِي ہٰذِہِ الدُّنْیَا لَا أَنَّ مَنْ عُوفِیَ فِي ہٰذِہِ الدُّنْیَا یَکُونُ مِنْ أَہْلِ النَّارِ .

'''
مَنْ أَحَبَّ أَنْ یَنْظُرَ إِلٰی رَجُلٍ مِّنْ أَہْلِ النَّارِ فَلْیَنْظُرْ إِلٰی ہٰذَا' میں اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے گناہوں کی معافی کے اسباب دنیوی مصائب اور حزن و ملال میں رکھ دیے ہیں۔ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو بتانا چاہا کہ انسان دن و رات کے پیچ وخم میں اپنے رب کی معصیت اور جہنم لے جانے والے اعمال کا مرتکب ہو ہی جاتا ہے، اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اسے معاف کردیتا ہے۔ گویا ہر انسان اپنے اعمال کے عوض گروی ہے۔ مصائب اس کے بعض گناہوں کو دنیا میں ہی مٹا دیتی ہیں۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ دنیا میں اس کی معافی تلافی ہو جائے اور وہ جہنمی بھی ہو جائے۔''(صحیح ابن حبان : ٧/١٧٨)
 
Top