• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جشن حصول وماتم ضیاع

شمولیت
اپریل 24، 2014
پیغامات
158
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
77
جشن حصول وماتم ضیاع
جب تم اس ماہ مبارک میں یہ سب کچھ کرتے ہو اور اس ماہ کے واقعہ ولادت کی یاد میں خوشیاں مناتے ہو تو اس کی مسرتوں کے اندر تمہیں کبھی اپنا وہ تمام بھی یاد آتا ہے جس کے بغیر اب تمہاری کوئی خوشی نہیں ہوسکتی؟ کبھی تم نے اس حقیقت پر بھی غور کیا ہے کہ یہ کس کی پیدائش ہے جس کی یاد کے لیے تم سروسامانِ جشن کرتے ہو؟ یہ کون تھا جس کی ولادت کے تذکرہ میں تمہارے لیے خوشیوں اور مسرتوں کا ایسا عزیز پیام ہے؟ آہ! اگر اس مہینے کی آمد تمہارے لیے جشن و مسرت کا پیام ہے کیونکہ اس مہینے میں وہ آیا جس نے تم کو وہ سب کچھ دیا تھا تو میرے لیے اس سے بڑھ کر اور کسی مہینے میں ماتم نہیں کیونکہ اس مہینے میں پیدا ہونے والے نے جو کچھ ہمیں دیا تھا وہ سب کچھ ہم نے کھو دیا۔ اس لیے اگر یہ ماہ ایک طرف بخشنے والے کی یاد تازہ کرتا ہے تو دوسری طرف کھونے والوں کے زخم کو بھی تازہ ہوجانا چاہیے۔
ماخانہ رمیدگان ظلمیم
پیغام خوش ازدیارما نیست​
تم اپنے گھروں کو مجلسوں سے آباد کرتے ہو، مگر تمہیں اپنے دل کی اجڑی ہوئی بستی کی بھی کچھ خبر ہے؟ تم کافوری شمعوں کی قندیلیں روشن کرتے ہو مگر اپنے دل کی اندھیاری کو دور کرنے کے لیے کوئی چراغ نہیں ڈھونڈتے۔ تم پھولوں کے گلدستے سجاتے ہو، مگر آہ، تمہارے اعمال حسنہ کا پھول مرجھا گیا ہے۔ تم گلاب کی چھینٹوں سے اپنے رومال و آستیں کو معطر کرنا چاہتے ہو مگر آہ تمہاری غفلت کہ تمہاری عظمت اسلامی کی عطر بیزی سے دنیا کی مشام روح یکسر محروم ہے! کاش تمہاری مجلسیں تاریک ہوتیں، تمہارے اینٹ اور چونے کے مکان کو زیب و زینت کا ایک ذرہ نصیب نہ ہوتا، تمہاری آنکھیں رات بھر مجلس آرائیوں میں نہ جاگتی، تمہاری زبانوں سے ماہ ربیع الاول کی ولادت کے لیے دنیا کچھ نہ سنتی مگر تمہاری روح کی آبادی معمور ہوتی۔ تمہارے دل کی بستی نہ اجڑتی، تمہارا طالع خفتہ بیدار ہوتا اور تمہاری زبان سے نہیں مگر تمہارے اعمال کے اندر سے اسوۂ حسنہ نبویؐ کی مدح و ثنا کے ترانے اٹھتے۔
مجھے یہ ڈر ہے دل زندہ، تو نہ مرجائے
کہ زندگانی عبارت ہے تیرے جینے سے​
پھر آہ وہ قوم، اور صد آہ اس قوم کی غفلت و نادانی جس کے لیے جشن و مسرت میں پیام ماتم ہے اور جس کی حیات قوی کا ہر قہقہہ عیش فغان حسرت ہوگیا ہے مگر نہ تو ماضی کی عظمتوں میں اس کے لیے کوئی منظر عبرت ہے نہ حال کے واقعات و حوادث میں کوئی پیام تنبیہ و ہوشیاری ہے اور نہ مستقبل کی تاریکیوں میں زندگی کسی روشنی کو اپنے سامنے رکھتی ہے۔ اسے اپنی کام جوئیوں اور جشن و مسرت کی بزم آرائیوں سے مہلت نہیں، حالانکہ اس کے جشن وطرب کے ہر دور میں ایک نہ ایک پیامِ ماتم و عبرت بھی رکھ دیا گیا ہے۔ بشرطیکہ آنکھیں دیکھیں، کان سنیں اور دل کی دانائی غفلت و سرشاری نے چھین نہ لی ہو۔
ماہ ربیع الاول کی یاد میں ہمارے لیے جشن و مسرت کا پیام اس لیے تھا کہ اس مہینے میں خدا کاوہ فرمان رحمت دنیا میں آیا جس کے ظہور نے دنیا کی شقاوت و حرمانی کا موسم بدل دیا، ظلم و طغیان اور فساد و عصیان کی تاریکیاں مٹ گئیں، خدا اور اس کے بندوں کا ٹوٹا ہوا رشتہ جڑ گیا، انسانی اخوت و مساوات کی یگانگت نے دشمنیوں اور کینوں کو نابود کردیا اور کلمہ کفر ضلالت کی جگہ حق و عدالت کی بادشاہت کا اعلان عام ہوا۔ ’’اللہ کی طرف سے تمہاری جانب ایک نور ہدایت اور کتاب مبین آئی۔ اللہ اس کے ذریعے اپنی رضا چاہنے والوں کو سلامتی اور زندگی کی راہوں پر ہدایت کرتا ہے اور ان کے آگے صراط مستقیم کو کھولتا ہے۔‘‘ لیکن دنیا شقاوت و حرمان کے درد سے پھر دکھیا ہوگئی، انسانی شرو فساد اور ظلم و طغیان کی تاریکی خدا کی روشنی پر غالب ہونے کے لیے پھیل گئی۔ سچائی اور راست بازی کی کھیتیوں نے پامالی پائی اور انسانوں کے بے راہ گلہ کا کوئی رکھوالا نہ رہا۔ خدا کی وہ زمین جو صرف خدا ہی کے لیے تھی غیروں کو دے دی گئی اور اس کے کلمہ حق و عدل کے غم گساروں اور ساتھیوں سے اس طرح خالی ہوگئی۔ ’’زمین کی خشکی اور تری دونوں میں انسان کی پیدا کی ہوئی شرارتوں سے فساد پھیل گیا اور زمین کی صلاح و فلاح غارت ہوگئی۔‘‘
پھر آہ! تم اس کے آنے کی خوشیاں تو مناتے ہو پر اس کے ظہور کے مقصد سے غافل ہوگئے ہو اور وہ جس غرض کے لیے آیا تھا اس کے لیئے تمہارے اندر کوئی ٹیس اور چبھن نہیں؟ یہ ماہ ربیع الاول اگر تمہارے لیے خوشیوں کی بہار ہے تو صرف اس لیے کہ اس مہینے میں دنیا کی خزاں و ضلالت ختم ہوئی اور کلمہ حق کا موسم ربیع شروع ہوا۔ پھر اگر آج دنیا کی عدالت سموم ضلالت کے جھونکوں سے مرجھا گئی ہے تو اے غفلت پرستو! تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ بہار کی خوشیوں کی رسم تو مناتے ہو مگر خزاں کی پامالیوں پر نہیں روتے۔
تم ربیع الاول میں آنے کی یاد اور محبت کا دعویٰ رکھتے ہو اور مجلسیں منعقد کرکے اس کی حمد و ثنا کی صدائیں بلند کرتے ہو لیکن تمہیں کبھی بھی یاد نہیں آتا جس کی یاد کا تمہاری زبان دعویٰ کرتی ہے۔ اس کی فراموشی کے لیے تمہارا ہر عمل گواہ ہے اور جس کی مدح و ثناء میں تمہاری صدائیں زمزمہ سرا ہوتی ہیں۔ اس کی عزت کو تمہارا وجود بٹہ لگا رہا ہے۔ وہ دنیا میں اس لیے آیا تھا تاکہ انسانوں کو انسانی بندگی سے ہٹا کر صرف اللہ کی عبودیت کی صراط مستقیم پر چلائے اور غلامی کی ان تمام زنجیروں سے ہمیشہ کے لیے نجات دلا دے جن کے بڑے بڑے بوجھل حلقے انہوں نے ڈال لیے تھے۔ پس اگر ربیع الاول کا مہینہ دنیا کے لیے خوشی و مسرت کا مہینہ تھا تو صرف اس لیے کہ اس مہینے میں دنیا کا وہ سب سے بڑا انسان آیا جس نے مسلمانوں کو ان کی سب سے بڑی نعمت یعنی خدا کی بندگی اور انسانوں کی آقائی عطا فرمائی اور اس کو اللہ کی خلافت و نیابت کا لقب دے کر خدا کی ایک پاک و محترم امانت ٹھہرایا۔ پس ربیع الاول انسانی حریت کی پیدائش کا مہینہ ہے۔ غلامی کی موت و ہلاکت کی یادگار ہے۔ خلافت الٰہی کی بخشش کا اولین یوم ہے۔ وراثت ارضی کی تقسیم کا اولین اعلان ہے۔ اسی ماہ میں کلمہ حق و عدل زندہ ہوا اور اسی میں کلمہ ظلم و فساد اور کفر و ضلالت کی لعنت سے خدا کی زمین کو نجات ملی۔
لیکن آہ! تم تو اس ماہ حریت ورود کی خوشیاں مناتے ہو اور اس کے لیے ایسی تیاریاں کرتے ہو، گویا وہ تمہارے ہی لیے اور تمہاری کی خوشیوں کے لیے آیا ہے۔ خدارا مجھے بتلائو کہ تم کو اس پاک اور مقدس یادگار کی خوشی منانے کا کیا حق ہے؟ کیا موت اور ہلاکی کو اس کا حق پہنچتا ہے کہ زندگی اورروح کواپناساتھی بنائے؟ کیا ایک مردہ لاش پر دنیا کی عقلیں نہ ہنسیں گی اگر وہ زندوں کی طرح زندگی کو یاد کرے گی۔ ہاں یہ سچ ہے کہ آفتاب کی روشنی کے اندر دنیا کے لیے بڑی ہی خوشی ہے لیکن ایک اندھے کو کب زیب دیتا ہے کہ وہ آفتاب کے نکلنے پر آنکھوں والوں کی طرح خوشیاں منائے؟ پھر تم بتائو کہ تم کون ہو؟ تم غلاموں کا ایک گلہ ہو جس نے اپنے نفس کی غلامی، اپنی خواہشوں کی غلامی، ماسوائے اللہ، رشتوں کی غلامی اور غیرالٰہی طاقتوں کی غلامی کی زنجیروں سے اپنی گردن کو چھپا دیا ہے۔ تم پتھروں کا ایک ڈھیر ہو، جو نہ تو خود ہل سکتا ہے اور نہ اس میں جان اور روح ہے۔ البتہ چور چور ہوسکتا ہے اور ایک دوسرے پر ٹپکا جاسکتا ہے۔ تم غبار راہ کی ایک مشت ہو جس کو ہوا اڑا لے جائے تو اڑ سکتی ہے ورنہ وہ تو خود صرف اس لیے ہے تاکہ ٹھوکروں سے روندی جائے اور جولان قدم سے پامال کیا جائے۔ پس اے غفلت کی ہستیوں اور اے بے خبری کی سرگشتہ خواب روحو! تم کس منہ سے اس کی پیدائش کی خوشیاں مناتے ہو جو حریت انسانی کی بخشش، حیات روحی و معنوی کے عطیہ اور کامرانی و فروزمندی کی فسردگی و ملوکی کے لیے آیا تھا۔ اللہ اللہ غفلت کی نیرنگی اور انقلاب کی بوقلمونی، ماسوائے اللہ کی، عبودیت کی زنجیریں پائوں میں ہیں، انسانوں کی ملوکیت و مرغوبیت کے حلقے گردنوں میں ایمان باللہ کے ثبات سے دل خالی اور اعمال حقہ و حسنہ کی روشنی سے روح محروم! ان سامانوں اور تیاریوں کے ساتھ تم مستعد ہو کہ ربیع الاول کے آنے والے کی یاد کا جشن منائو، جس کا آنا خدا کی عبودیت کی فتح، غیر الہٰی عبودیت کی ہلاکت ، حریت صادقہ کا اعلان حق، عدالت حقہ کی ملوکیت کی بشارت اور امت عادلہ و قائمہ کے تمکن و قیام کی بنیاد تھا۔ پس اے غفلت شعاران ملت! تمہاری غفلت پر صدفغان و حسرت اور تمہاری سرشاریوں پر صد ہزار نالہ و بکا، اگر تم اس ماہ مبارک کی اصلی عظمت و حقیقت سے بے خبر رہو اور صرف زبانوں کے ترانوں اور درودیوار کی آرائشوں اور روشنی کی قندیلوں ہی میں اسی کے مقصد یادگاری کو گم کردو۔ تم کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ ماہ مبارک امت مسلمہ کی بنیاد کا پہلا دن ہے۔ خداوندی بادشاہت کے قیام کا اولین اعلان ہے۔ خلافت ارضی و وراثت الہٰی کی بخشش کا سب سے پہلا مہینہ ہے۔ پس اس کے آنے کی خوشی اور اس کے تذکرہ و یاد کی لذت اس شخص کی روح پر حرام ہے جو اپنے ایمان اور عمل کے اندر اس پیغام الٰہی کی تعمیل و اطاعت اور اس اسوۂ حسنہ کی پیروی کے لیے کوئی نمونہ نہیں رکھتا۔ ٭٭٭

(ابو الکلام آزاد)
 
Top