• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جمعہ ‏کے ‏دن ‏سورہ ‏کہف ‏کی ‏تلاوت ‏روایات ‏کی ‏تحقیق

شمولیت
جون 05، 2018
پیغامات
277
ری ایکشن اسکور
15
پوائنٹ
79
.

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

جمعہ کے دن سورہ کہف کی تلاوت کے سلسلے میں وارد حدیث کی تخریج و تحقیق

بقلم
مامون رشید ہارون رشید سلفی

~~~~؛

قارئین کرام جمعہ کا دن تمام دنوں کا سردار ہے اس کے بہت سارے فضائل ومناقب اور خوبیاں ہیں کہتے ہیں سورج طلوع ہونے والے ايام ميں سب سے بہترين جمعہ كا دن ہے اسی روز حضرت آدم پیدا کیے گیے اسی روز جنت میں داخل کیے گیے اور اسی روز وہاں سے نکالے بھی گیے بلکہ یہی وہ دن ہے جس میں قیامت بھی قائم ہوگی (صحيح مسلم حديث نمبر ( 1410 ) وصحیح ابن خزیمہ بتصحیح البانی) اور اس میں ایک ایسی گھڑی بھی ہے کہ اس میں جو کوئی بھی جس بھی قسم کی دعا کرتا ہے سنی جاتی ہے (صححه الإمام الوادعي في الصحيح المسند) اور جو شخص اس روز غسل ہاتھ سے فارغ ہو کر اول وقت میں مسجد کا رخ کرتا ہے اسے ایک اونٹ قربانی کرنے کا ثواب ملتا ہے، جو دوسرے وقت میں جاتا ہے اسے ایک گائے کی قربانی کا ثواب ملتا ہے ، جو تیسرے وقت میں جاتا ہے اسے ایک بکری قربانی کرنے کا ثواب ملتا ہے اور جو چوتھے وقت میں جاتا ہے اسے ایک مرغی قربانی کرنے کا ثواب ملتا ہے اور جو پانچویں نمبر پر جاتا ہے اسے ایک انڈے کی قربانی کا ثواب ملتا ہے ( صحيح البخاري و مسلم) اور جو مسلمان شخص بھى جمعہ كے روز يا جمعہ كى رات فوت ہوتا ہے اللہ تعالى اسے قبر كے فتنہ سے محفوظ ركھتا ہے "
(سنن ترمذى( 1074 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے " احكام الجنائز صفحہ نمبر ( 49 - 50 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے)
ابو لبابہ بن عبد المنذر رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جمعۃ المبارك سب ايام كا سردار ہے، اور اللہ تعالى كے ہاں ان ايام ميں عظيم دن ہے، اور اللہ تعالى كے ہاں يہ دن عيد الفطر اور عيد الاضحى سے بھى عظيم ہے، اس ميں پانچ خصلتيں اور امتيازات ہيں:
اللہ تعالى نے اس روز آدم عليہ السلام كو پيدا فرمايا، اور اسى روز آدم عليہ السلام كو زمين كى طرف اتارا گيا، اور اسى روز آدم عليہ السلام فوت ہوئے، اور اس روز ميں ايك ايسا وقت اور گھڑى ہے جس ميں بندہ اللہ تعالى سے جو بھى مانگتا ہے اللہ تعالى اسے عطا فرماتا ہے، جب كہ حرام كا سوال نہ كيا جائے، اور اسى روز قيامت قائم ہو گى، مقرب فرشتے، اور آسمان و زمين اور ہوائيں، اور پہاڑ اور سمندر يہ سب جمعہ كے روز سے ڈرتے ہيں"
(سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1084 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح الجامع حديث نمبر ( 2279 ) ميں اسے حسن كہا ہے).وغیرہ وغیرہ ..

بنا بریں امت مسلمہ کے بہت سارے نیک افراد اس روز عبادت وریاضت تلاوت اور ذکر واذکار کا خاصہ اہتمام کرتے ہیں انہیں عبادتوں میں سے ایک سورہ کہف کی تلاوت بھی ہے چنانچہ لوگ جمعہ کے روز ایک مخصوص فضیلت کی امید کرتے ہوئے بالخصوص اس سورت کی تلاوت کا اہتمام کرتے ہیں..

اس مختصر سے مضمون میں ہم جمعہ کے روز خصوصیت کے ساتھ سورہ کہف کی تلاوت کی فضیلت کے سلسلے میں وارد حدیث کا حکم معلوم کریں گے اور یہ جانیں گے کہ آیا واقعی یہ فضیلت ثابت بھی ہے یا محض ضعیف حدیث اور فضائل اعمال ؟

قارئین کرام: اس سلسلے میں دس احادیث اور تین آثار مروی ہیں جن میں سے صرف حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی حدیث کے علاوہ تمام روایتیں سخت ضعیف ہیں اس لیے میں اولا حضرت ابو سعید کی حدیث کا تفصیلی حکم بیان کروں گا اور بقیہ احادیث کی علتوں کی طرف اجمالی اشارے پر اکتفا کروں گا ان شاء اللہ..

حضرت ابو سعید کی حدیث کا مدار أبو هاشم الرماني پر ہے ،وہ عن أبي مجلز ، عن قيس بن عباد، عن أبي سعيد. کی سند سے روایت کرتے ہیں. (مذکورہ سند کے تمام روات ثقات حفاظ اور بخاری و مسلم کے روات ہیں)
اس حدیث کو روایت کرنے میں ابو ھاشم پر سند اور متن میں شدید اختلاف واقع ہوا ہے بعض راویوں نے ان سے موقوفا روایت کیا ہے تو بعض نے مرفوعا، اسی طرح بعض نے متن حدیث کو مطولا روایت کیا ہے تو بعض نے مختصرا، اور بعض روات نے کسی لفظ کا اضافہ کیا ہے تو بعض نے کمی اور بعض نے کسی لفظ کی جگہ میں کچھ دوسرا لفظ استعمال کیا ہے تو بعض نے کچھ اور...

خلاصہ یہ ہے کہ ابو ھاشم سے اس حديث کو ان کے چھ شاگردوں نے روایت کیا ہے .. اور الفاظ حدیث بالاجمال دو چیزوں کے سلسلے میں وارد ہوئی ہے :

اول: وضو کے بعد دعا کی فضیلت کے سلسلے میں اس کے الفاظ ہیں "من توضأ فقال: سبحانك اللهم وبحمدك، أشهد أن لا إلا أنت، أستغفرك وأتوب إليك، كتب في رق، ثم طبع بطابع، فلم يكسر إلى يوم القيامة"

یعنی جو شخص وضو کرتا ہے اور یہ دعا کہتا ہے "سبحانك اللهم وبحمدك، أشهد أن لا إلا أنت، أستغفرك وأتوب إليك" تو اسے ایک چمڑی پر لکھا جاتا ہے پھر اس پر ایک مہر لگائی جاتی ہے اور اسے قیامت تک توڑا نہیں جاتا.

دوم: سورۃ کہف کی تلاوت کی فضیلت کے سلسلے میں.
چنانچہ ابو ھاشم سے روایت کرنے والے بعض راویوں نے صرف وضو کے بعد دعا کی فضیلت کے سلسلے میں وارد الفاظ کو روایت کرنے پر اکتفا کیا ہے اور وہ قيس بن الربيع، وليد بن مروان اور روح بن القاسم ہیں ان کی اسانید میں ضعف ہے..
اور بعض نے دونوں چیزوں کو ایک ساتھ روایت کیا ہے وہ هشيم بن بشير، شعبة بن الحجاج اور سفیان الثوری ہیں ان کی اسانید میں خود ان کے مابین اور ان سے روایت کرنے والے ان کے شاگردوں کے مابین کافی اختلافات ہیں میں انہیں تینوں کی روایتوں کی تخریج کروں گا:

اولا:
هشيم بن بشير کی سند :

اس حدیث کو خود ابو عبید القاسم بن سلام نے (فضائل القرآن:244) کے اندر ...
اور دارمی نے (سنن الدارمی حدیث:3450) کے اندر ابو النعمان محمد بن الفضل السدوسی سے..

اور ابن الضریس نے (فضائل القرآن: 99 حدیث: 211) کے اندر احمد بن خلف البغدادي سے...
اور بیھقی نے (شعب الایمان حدیث:2444) کے اندر سعید بن منصور کے طریق سے...

ان چاروں (ابو عبید، ابو النعمان, ابن خلف اور سعید بن منصور)نے عن هشيم، عن أبي هاشم کی سند سے موقوفاً ان الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے "من قرأ سورة الكهف يوم الجمعة أضاء له من النور ما بينه وبين البيت العتيق" یہ أبو عبيد کے الفاظ ہیں بقیہ روات نے انہیں کی طرح روایت کیا ہے سوائے محمد بن الفضل کے ان کی روایت میں : "ليلة الجمعة"کے الفاظ ہیں.


اور اسے روایت کیا ہے امام حاکم نے (مستدرک:2/348) اور امام بیھقی نے(السنن الكبرى:3/249) کے اندر نعیم بن حماد کے طریق سے...

اور بیھقی نے(شعب الایمان حدیث: 2445) کے اندر یزید بن مخلد بن یزید کے طریق سے...
اور امام دار قطنی نے (علل:11/308) کے اندر حکم بن موسیٰ کے طریق سے...
ان تینوں (نعیم, یزید اور حکم) نے عن هشيم، عن أبي هاشم کی سند سے مرفوعاً ان الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے : «من قرأ سورة الكهف في يوم الجمعة أضاء له من النور ما بينه وبين البيت العتيق». یہ يزيد کے الفاظ ہیں جبکہ نعيم کے الفاظ «أضاء له من النور ما بين الجمعتين» اس طرح سے ہیں.
امام حاكم نے نعيم کی سند کے بارے میں فرمایا : (هذا حديث صحيح الإسناد، ولم يخرجاه). یہ حدیث صحیح الاسناد ہے لیکن بخاری ومسلم نے اسے روایت نہیں کیا ہے.

اس پر تعاقب کرتے ہوئے امام حاکم فرماتے ہیں :(نعيم ذو مناكير) نعیم منکر روایتیں بیان کرنے والا ہے..

ثانیا: سفیان بن سعید الثوری کی سند:

اس حدیث کو خود عبد الرزاق نے(مصنف حدیث:730-6033) اور انہیں کے طریق سے امام طبرانی نے(الدعاء حديث:391) کے اندر ...

اور ابن ابی شیبہ نے (مصنف:1/3-10/450) اور نعیم بن حماد نے (الفتن حدیث:1579) کے اندر وکیع بن الجراح کے طریق سے...

اور نعیم بن حماد نے (الفتن حدیث:1582) اور نسائی نے (السنن الکبری ح:10725) اور حاکم نے (مستدرک:1/565-4/511)کے اندر عبد الرحمن بن مھدی کے طریق سے...

اور بیھقی نے (شعب الایمان ح:3038) کے اندر قبیصۃ بن معبد کے طریق سے...

ان چاروں (عبد الرزاق, وکیع, عبد الرحمن بن مھدی اور قبیصۃ) نے عن سفيان، عن أبي هاشم کی سند سے موقوفاً ان الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے :

«من توضأ، ثم فرغ من وضوئه، ثم قال: سبحانك الله وبحمدك، أشهد أن لا إله إلا أنت، أستغفرك، وأتوب إليك، ختم عليها بخاتم فوضعت تحت العرش، فلا تكسر إلى يوم القيامة، ومن قرأ سورة الكهف كما أنزلت ثم أدرك الدجال لم يسلط عليه، ولم يكن له عليه سبيل، ومن قرأ خاتمة سورة الكهف أضاء نوره من حيث قرأها ما بينه وبين مكة». یہ عبد الرزاق کے الفاظ ہیں. .

جبکہ وكيع نے ابن أبي شيبة کی روایت میں الفاظ وضوء کو ذکر کیا ہے اور نعيم بن حماد کی روایت میں سورۃ کہف کے سلسلے میں وارد الفاظ کو راویت کیا ہے الفاظ اس طرح ہیں:

«من قرأ سورة الكهف كما أنزلت أضاء له ما بينه وبين مكة، ومن قرأ آخرها ثم أدرك الدجال لم يسلط عليه».

اور عبد الرحمن بن مهدی نے اپنی روايت میں سورہ کھف کی تلاوت کے سلسلے میں وارد الفاظ کی راویت پر اکتفا کیا ہے الفاظ اس طرح ہیں:

«من قرأ سورة الكهف كما أنزلت ثم أدرك الدجال لم يسلط عليه، ولم يكن له عليه سبيل، ومن قرأ سورة الكهف كان له نوراً من حيث قرأها ما بينه وبين مكة».

اور قبيصة کے الفاظ یہ ہیں:
«من قرأ سورة الكهف يوم الجمعة فأدرك الدجال لم يسلط عليه- أو قال: لم يضره-، ومن قرأ خاتمة سورة الكهف أضاء الله نوراً من حيث كان بينه وبين مكة».
قال الحاكم: (هذا حديث صحيح الإسناد، ولم يخرجاه)
یہ حدیث صحیح الاسناد ہے لیکن بخاری ومسلم نے اسے روایت نہیں کیا ہے.

ثالثا:شعبۃ بن الحجاج کی سند:
اس حدیث کو امام نسائی نے(السنن الكبرى ح:10723) کے اندر محمد بن جعفر غندر کے طریق سے..
اور طبرانی نے (الدعاء ح:388) کے اندر عمر بن مرزوق کے طریق سے...
اور بیھقی نے معلقا (شعب الایمان :3/21) کے اندر معاذ بن معاذ کے طریق سے..

ان تینوں نے (غندر، عمرو، اور معاذ) نے عن شعبة، عن أبي هاشم کی سند سے موقوفاً روایت کیا ہے الفاظ اس طرح ہیں:
«من قرأ سورة الكهف كما أنزلت كانت له نوراً من حيث يقرؤها إلى مكة، ومن قرأ آخر الكهف فخرج الدجال لم يسلط عليه»، یہ غندر کے الفاظ ہیں اور بقیہ روات نے بھی اسی طرح روایت کیا ہے .

اور اسے روایت کیا ہے امام نسائی نے(السنن الکبری ح:10722 اور عمل الیوم واللیلۃ ح:952) اور امام طبرانی نے (المعجم الاوسط ح:1478) اور امام حاکم نے (مستدرک 1/564) کے اندر یحییٰ بن کثیر کے طریق سے...

اور امام بیہقی نے (شعب الایمان ح:2754) کے اندر عبد الصمد بن عبد الوارث کے طریق سے...
اور امام دار قطنی نے معلقا(علل 11/308) کے اندر ربیع بن یحییٰ کے طریق سے..

ان تینوں (يحيي، عبد الصمد، اور ربيع) نے عن شعبة، عن أبي هاشم کی سند سے مرفوعا ان الفاظ کے ساتھ:
«من قرأ سورة الكهف كما أنزلت كانت له نورا يوم القيامة من مقامه إلى مكة، ومن قرأ عشر آيات من آخرها ثم خرج الدجال لم يسلط عليه، ومن توضأ فقال: سبحانك اللهم وبحمدك لا إله إلا أنت، أستغفرك وأتوب إليك، كتب في رق ثم جعلت في طابع فلم يكسر إلى يوم القيامة» روایت کیا ہے..

یہ يحيي کے الفاظ ہیں طبراني، حاكم، اور بيهقي کے ہاں جبکہ ان کے علاوہ دوسروں کے ہاں مختصراً وضو کے سلسلے میں وارد الفاظ کے بغیر موجود ہے .. عبد الصمد کے الفاظ بھی اسی طرح ہیں.

امام حاکم نے يحيى بن کثیر کی سند کے بارے میں فرمایا : (هذا حديث صحيح على شرط مسلم، ولم يخرجاه، ورواه سفيان الثوري، عن أبي هاشم فأوقفه)
یہ حدیث صحیح ہے اور امام مسلم کی شرط پر ہے لیکن بخاری و مسلم نے اس کی تخریج نہیں کی ہے، اسے سفیان ثوری نے بھی ابو ھاشم سے روایت کیا ہے مگر انہوں نے اسے موقوفا بیان کیا ہے..

حدیث کے اندر موجود اختلافات کا دراسہ:
حدیث کی تخریج سے پتا چلا کہ حدیث کا مدار ابو ھاشم الرمانی پر ہے اور ان سے اس حدیث کو ان کے تین شاگردوں (هشيم بن بشير، سفيان اور شعبة بن الحجاج ) نے روایت کیا ہے... ان تینوں کی روایتوں میں سندا اور متنا اختلاف واقع ہوا ہے تفصیل درج ذیل ہے..

أولا: هشيم بن بشير پر اختلاف :
ان سے روایت کرنے میں سندا اور متنا دونوں اعتبار سے اختلاف پایا جاتا ہے...

اولا: سند کے اندر موجود اختلاف:
وہ اس طرح کہ ان کے شاگردوں نے ان سے موقوفا اور مرفوعا دونوں طریقوں سے روایت کیا ہے...

موقوفا روایت کرنے والے چار لوگ ہیں:
(1)أبو عبيد القاسم بن سلام بغدادي،مشہور ثقہ امام اور صاحب تصانيف مفیدہ..(ملاحظہ فرمائیں تقریب التهذيب: 5497)

(2) أبو النعمان محمد بن الفضل السدوسي البصري، الملقب بعارم، یہ ثقة ثبت راوی ہیں اخیر عمر میں تغير کے شکار ہو گئے تھے.(ملاحظہ فرمائیں تقریب التهذيب:6266)

(3) احمد بن خلف البغدادي یہ غیر معروف ہیں ان کے بارے میں خطیب بغدادی فرماتے ہیں هو شيخ غير مشهور (ملاحظہ فرمائیں تاریخ بغداد:4/134)

(4) سعید بن منصور صاحب السنن "امام ثقہ ثبت" راوی ہیں (ملاحظہ فرمائیں تقریب التهذيب:2412)

مرفوعا روایت کرنے والے تین راوی ہیں:
(1) نعيم بن حماد أبو عبد الله الخزاعي المروزي"صدوق، يخطئ كثيراً، فقيه، عارف بالفرائض"صدوق راوی ہیں بہت زیادہ غلطیاں کرنے والے ہیں فقیہ ہیں فرائض کے ماہر ہیں (ملاحظہ فرمائیں تقریب التهذيب:7215)

(2)يزيد بن مخلد بن يزيد،امام ابن أبي حاتم نے الجرح والتعديل اور أبو أحمد الحاكم نے "الأسامي والكنى" اور ذهبي نے "المقتنى"کے اندر ان کا ترجمہ ذکر کیا ہے مگر کسی نے جرح یا تعدیل کا کوئی کلمہ نہیں لکھا. ..(ملاحظہ فرمائیں الجرح والتعديل (9/ 291)،الأسامي والكنى (4/ 283) المقتني (1923)

(3) حکم بن موسیٰ یہ صدوق راوی ہیں (ملاحظہ فرمائیں تقریب التهذيب:1470)

ھشیم بن بشیر کی روایت کا موقوف ہونا ہی راجح ہے جیسا کہ ائمہ نے بھی اسی کو راجح قرار دیا ہے..
امام دارقطني حكم بن موسى کی روایت کے بارے میں فرماتے ہیں: (ووقفه غيره عن هشيم، وهو الصواب" حکم کے علاوہ دوسروں نے ھشیم سے اسے موقوفا روایت کیا ہے اور وہی صحیح ہے (علل :11/308)

اور امام بيهقي فراماتے ہیں: (هذا هو المحفوظ موقوف) یہ موقوف روایت ہی محفوظ ہے(شعب الایمان2/474)

اور امام ابن القيم رحمہ اللہ نے مرفوع روایت کو ذکر کرنے کے بعد فرمایا: (وذكره سعيد بن منصور من قول أبي سعيد الخدري، وهو أشبه) اس حدیث کو سعید بن منصور نے ابو سعید کے قول کے طور پر ذکر کیا ہے اور وہی اقرب الی الصواب ہے... (زاد المعاد (1/376)

وجہ ترجیح بھی واضح اور ظاہر ہے کیونکہ موقوفا روایت کرنے والے مرفوعا روایت کرنے والوں سے عدد میں بھی زیادہ ہیں اور حفظ و ضبط میں بھی اعلی درجے پر فائز ہیں..
اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہ ھشیم کے اس حدیث کو ابو ھاشم سے سننے میں بھی کلام ہے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں جنہوں نے صرف اس حدیث کے پہلے ٹکڑے یعنی وضو کے سلسلے میں وارد الفاظ کو روایت کیا ہے:
"هشيم لم يسمعه من أبي هاشم" ہشیم نے اسے ابو ھاشم سے نہیں سنا ہے. (العلل ومعرفۃ الرجال بروایۃ ابنہ عبد اللہ رقم:2153) گرچہ ھشیم نے ابو عبید, نعیم بن حماد, سعید بن منصور اور محمد بن الفضل کی روایت میں تحدیث کی صراحت کی ہے اور تصریح عموما اتصال کا فائدہ دیتی ہے مگر قرائن یہاں عدم سماع ہی کا تقاضا کرتے ہیں اور وہ درج ذیل ہیں:

(1) هشيم کا تدلیس سے معروف ہونا چنانچہ امام احمد فرماتے ہیں"التدليس من الريبة - وذكر هشيما - فقال: كان يدلس تدليسا وحشاً، وربما جاء بالحرف الذي لم يسمعه فيذكره في حديث آخر، إذا انقطع الكلام يوصله" یعنی هشيم انتہائی زیادہ تدلیس کرتے تھے... (العلل روایۃ المروذی رقم:31)

(2) امام احمد کا سماع کی نفی کرنا جو علم علل الحدیث کے گنے چنے جہابذہ ائمہ میں سے ایک ہیں...ساتھ ہی یہ بھی کہ امام احمد ھشیم کی حدیثوں کے بارے میں اور ان کی تدلیس کے بارے میں سب سے زیادہ جاننے والے ہیں ھشیم امام احمد کے ابتدائی دور کے اساتذہ میں سے ہیں امام احمد نے ان کی تمام حدیثیں یاد کر لی تھیں(ملاحظہ فرمائیں الجرح والتعديل 1/295، حليۃ الاولیاء 9/153)... آپ نے ھشیم کی بہت ساری حدیثوں کے بارے میں فرمایا ہے کہ انہوں نے ان کو اپنے اساتذہ سے نہیں سنا ہے..(ملاحظہ فرمائیں العلل بروایۃ عبد اللہ اس میں اس قسم کی بہت ساری احادیث ہیں)

(3) حدیث کے اندر موجود اختلاف بھی عدم سماع ہی کو تقویت پہنچا رہا ہے.

(4) الفاظ حدیث میں ھشیم کا شعبہ اور سفیان کی مخالفت بھی اس سلسلے میں کچھ قوت پہنچا رہی ہے.

لہٰذا راجح یہ ہے کہ ھشیم نے سرے سے اس روایت کو ابو ھاشم سے سنا ہی نہیں ہے... اور ہم نے جو تحدیث کا اعتبار نہیں کیا ہے اس کو تقویت امام ابن رجب رحمه الله کے اس قول سے ملتی ہے آپ فرماتے ہیں:
(كثيراً ما يرد التصريح بالسماع، ويكون خطأ .. ، وكان أحمد يستنكر دخول التحديث في كثير من الأسانيد، ويقول: هذا خطأ - يعني: ذكر السماع- ... ، وحينئذ فينبغي التفطن لهذه الأمور، ولا يغتر بمجرد ذكر السماع والتحديث في الأسانيد، فقد ذكر ابن المديني أن شعبة وجدوا له غير شيء يذكر فيه الإخبار عن شيوخه، ويكون منقطعا)

بہت ایسا ہوتا ہے کہ سماع کی صراحت موجود ہوتی ہے مگر وہ غلط ہوتی ہے ..امام احمد بہت ساری سندوں میں تحدیث کے دخول کو منکر قرار دیتے تھے اور کہتے تھے یہ خطا ہے یعنی سماع کا ذکر غلط ہے.... لہذا ایسی صورت میں ان چیزوں کے سلسلے میں چوکنا رہنا چاہیے اور اسانید کے اندر محض سماع اور تحدیث کے ذکر سے دھوکہ نہیں کھانا چاہیے.. ابن المدینی نے ذکر کیا ہے کہ محدثین نے شعبہ کی بہت سی ایسی چیزیں پائی ہیں جن میں انہوں نے اپنے اساتذہ سے اخبار کا ذکر کیا ہے مگر وہ منقطع ہیں.. (شرح علل الترمذی2/589-592)

ثانیا: متن میں پایا جانے والا اختلاف:
وہ اس طرح کے ھشیم کے اکثر شاگردوں نے اس حدیث کو ھشیم سے ان الفاظ کے ساتھ"من قرأ سورة الكهف يوم الجمعة أضاء له من النور ما بينه وبين البيت العتيق"یا ان کے ہم معنی الفاظ کے روایت کیا ہے..

سوائے محمد بن الفضل السدوسی کے انہوں نے اسے بجائے "یوم الجمعۃ" کے "ليلة الجمعة" کے الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے.
یہ محمد بن الفضل کے اوہام میں سے ہے کیونکہ وہ اپنے اخیر عمر میں تغیر اور اختلاط کا شکار ہو گئے تھے ساتھ ہی یہاں انہوں نے عدد میں اپنے سے زیادہ اور حفظ و ضبط میں اپنے سے قوی ترین لوگوں کی مخالفت کی ہے..

اس حدیث کے متن میں ایک اور اختلاف واقع ہوا ہے:
وہ اس طرح کہ نعیم بن حماد نے اسے "أضاء له من النور ما بين الجمعتين" کے الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے جب کہ ان کے علاوہ ھشیم کے تمام شاگردوں نے"ما بينه وبين البيت العتيق" کے الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے ...

شاید یہ نعیم کے مناکیر میں سے ہے کیونکہ وہ صاحب المناکیر اور بہت زیادہ غلطیاں کرنے والے ہیں اور یہاں انہوں نے ضبط میں اپنے سے قوی اور تعداد میں اپنے سے زیادہ لوگوں کی مخالفت کی ہے...

ھشیم کی روایت کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ موقوف اور منقطع ہے (یا کم از کم اس کا اتصال مشکوک ہے) البتہ ان سے صحیح طور جو الفاظ مروی ہیں وہ اس طرح ہیں:"من قرأ سورة الكهف يوم الجمعة أضاء له من النور ما بينه وبين البيت العتيق"

ثانیا: سفیان ثوری پر واقع اختلاف:

سفیان ثوری رحمہ اللہ کی روایت کے طرق کی تخریج سے یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ انہوں نے ابو ھاشم سے صرف موقوفا روایت کیا ہے ..ہاں ان کے بعض شاگردوں نے مرفوعا بھی روایت کیا ہے مگر صرف حدیث کے شروع والے حصے کو جس میں صرف وضو کے بعد ذکر ودعا کی فضیلت کا ذکر ہے ان روایتوں میں سورہ کھف کا سرے سے تذکرہ ہی نہیں ہے... لہذا اس مقام پر ان کی تخریج کا کوئی خاص فائدہ بھی نہیں..

جہاں تک سفیان کی روایت کے متن کا معاملہ ہے تو اسے سفیان کے تمام شاگردوں نے ان الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے"من قرأ سورة الكهف كما أنزلت ثم أدرك الدجال لم يسلط عليه، ولم يكن له عليه سبيل، ومن قرأ خاتمة سورة الكهف أضاء نوره من حيث قرأها ما بينه وبين مكة" یا اسی کے ہم معنی الفاظ کے ساتھ.. یعنی ان کی روایتوں میں جمعہ کے ساتھ تخصیص کا کوئی ذکر نہیں ہے.... سوائے قبیصۃ بن عقبہ کے صرف تنہا انہوں نے ہی جمعہ کا ذکر کیا ہے.. چنانچہ انہوں نے سفیان سے ان الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے"من قرأ سورة الكهف يوم الجمعة فأدرك الدجال لم يسلط عليه - أو قال: لم يضره -، ومن قرأ خاتمة سورة الكهف أضاء الله نورا من حيث كان بينه وبين مكة"

قبیصۃ بالخصوص امام سفیان ثوری سے روایت کرنے میں متکلم فیہ ہیں.
ابن ابی خیثمہ یحییٰ بن معین سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں:"هو ثقة الا في حديث سفيان الثوري فليس بذلك القوي" یعنی قبیصہ ثقہ ہیں مگر سفیان ثوری کی روایت میں نہیں ان سے روایت کرنے میں وہ قوی نہیں ہیں.
امام احمد سفیان سے قبیصہ کی روایت کے بارے میں فرماتے ہیں"كان كثير الغلط" وہ بہت زیادہ غلطیاں کرتے تھے. (ملاحظہ فرمائیں تاریخ بغداد: 12/474)

امام العلل یعقوب بن شیبہ فرماتے ہیں"كان ثقة صدوقاً فاضلاً، تكلموا في روايته عن سفيان خاصة، كان ابن معين يضعف روايته عن سفيان" قبیصہ ثقہ صدوق اور فاضل آدمی تھے، محدثین نے خصوصاً سفیان سے ان کی روایت پر کلام کیا ہے، امام ابن معین سفیان سے ان کی روایتوں کو ضعیف قرار دیتے تھے. (ملاحظہ فرمائیں تھذیب الکمال :23/481 ..شرح علل الترمذي:2/811-812)

حاصل کلام یہ ہے کہ جمعہ کے لفظ کے ساتھ قبیصہ کی روایت منکر ہے کیونکہ ایک تو وہ سفیان کی روایت میں ضعیف ہیں دوسرا انہوں نے عبد الرحمن بن مہدی, وکیع بن الجراح اور عبدالرزاق جیسے ائمہ ثقات کی مخالفت کی ہے..

ثالثا: شعبۃ بن الحجاج پر واقع اختلاف:

ان سے روایت کرنے میں سندا اور متنا دونوں اعتبار سے اختلاف پایا جاتا ہے...

اولا: سند کے اندر موجود اختلاف:
وہ اس طرح کہ ان کے شاگردوں نے ان سے موقوفا اور مرفوعا دونوں طریقوں سے روایت کیا ہے...

موقوفا روایت کرنے والے تین لوگ ہیں:
(1)غندر محمد بن جعفر الهذلي مولاهم، أبو عبد الله البصري، ثقہ ہیں شعبہ سے روایت کرنے میں أثبت الناس ہیں (ملاحظہ فرمائیں تھذیب الکمال 5/25 سیر اعلام النبلاء 17/102 اور تقریب التهذيب 5724 )

(2)عمرو بن مرزوق الباهلي مولاهم، أبو عثمان البصري، ثقہ ہیں مگر ان کے کچھ اوہام بھی ہیں (ملاحظہ فرمائیں سیر اعلام النبلاء 19/403 اور تقریب التهذيب 5145 )

(3)معاذ بن معاذ العنبري، أبو المثنى البصري، ثقہ اور متقن ہیں امام شعبہ کے ثقہ شاگردوں میں سے ہیں (ملاحظہ فرمائیں تھذیب الکمال 132/28 سیر اعلام النبلاء 17/51 اور تقریب التهذيب 6787)

مرفوعا روایت کرنے والے بھی تین ہیں:
(1) يحيى بن كثير العنبري مولاهم، أبو غسان البصري، ثقہ راوی ہیں (ملاحظہ فرمائیں تقریب التهذيب:7679)

(2) عبد الصمد بن عبد الوارث التميمي العنبري مولاهم، أبو سهل البصري التنوري، ثبت في شعبة ،صدوق في غيره. یعنی شعبہ ثبت(ثقہ)ہیں جبکہ دوسروں سے روایت کرنے میں صدوق ہیں. (ملاحظہ فرمائیں تقریب التهذيب4108)

(3)ربيع بن يحيي الأشناني، أبو الفضل البصري، صدوق ہیں ان کے کچھ اوہام ہیں. (ملاحظہ فرمائیں تقریب التهذيب 1913)

راجح موقوف ہونا ہے کیونکہ ائمہ نے موقوف کو مرفوع پر ترجیح دی ہے:

امام نسائی مرفوع روایت کے بارے میں فرماتے ہیں" هذا خطأ والصواب موقوف" یہ خطا اور غلطی ہے موقوف ہی صحیح ہے (سنن کبری 9/348)

امام طبرانی فرماتے ہیں "رفعه يحيى بن كثير عن شعبة ووقفه الناس" شعبہ سے روایت کرنے میں اسے یحییٰ بن کثیر نے مرفوعا روایت کیا ہے جب کہ لوگوں کی جماعت نے موقوفا روایت کیا ہے (الدعاء ص:141)

طبیب العلل امام دار قطنی فرماتے ہیں"رواه غندر وأصحاب شعبة عن شعبة موقوفا" اسے غندر اور امام شعبہ کے شاگردوں نے موقوفا روایت کیا ہے (العلل 11/308)

وجہ ترجیح یہ ہے کہ موقوفا روایت کرنے والے مرفوعا روایت کرنے والوں سے اضبط واحفظ ہیں..
غندر امام شعبہ کے شاگردوں میں سب سے زیادہ ثقہ ہیں جیسا کہ یہ اکثر نقاد کی رائے ہے اسی طرح معاذ بن معاذ بھی شعبہ کے ثقہ شاگردوں میں سے ہیں.

امام عبد الله بن المبارك فرماتے ہیں:"إذا اختلف الناس في حديث شعبة فكتاب غندر حكم فيما بينهم" جب لوگ شعبہ کی حدیث میں اختلاف کر بیٹھے تو غندر کی کتاب ان میں فیصل ہے (الجرح والتعدیل 1/270)

اسی طرح امام أحمد نے فرمایا:"ما في أصحاب شعبة أقل خطأ من محمد بن جعفر" شعبہ کے شاگردوں میں محمد بن جعفر (غندر) سے کم غلطی کرنے والا کوئی نہیں ہے.(شرح علل الترمذي 2/702)

امام عجلی فرماتے ہیں:"غندر من أثبت الناس في حديث شعبة" غندر شعبہ کی حدیث میں اثبت الناس ہیں (معرفۃ الثقات 2/234 ..شرح علل الترمذي 2/703)

امام ابن عدي نے فرمایا:"أصحاب شعبة: معاذ بن معاذ، وخالد بن الحارث، ويحيى القطان، وغندر، وأبو داود خامسهم" شعبہ کے(سب سے ثقہ) شاگرد معاذ بن ، خالد بن الحارث، يحيى القطان اور غندر ہیں, ابو داؤد پانچویں نمبر پر ہیں(الکامل 3/280)

جبکہ مرفوعا روایت کرنے والے اس پائے کے نہیں ہیں ...ساتھ ہی بعض مرفوع روایتوں پر کلام بھی کیا گیا ہے :
چنانچہ عبد الصمد کی روایت میں ضعف ہے کیونکہ ان سے روایت کرنے والے عبد الرحمن بن ابی البختری کے سلسلے میں جرح یا تعدیل کا کسی امام کا کوئی کلمہ نہیں ملا.

اسی طرح ربیع بن یحییٰ کی روایت کو دار قطنی نے ضعیف قرار دیا ہے فرماتے ہیں:"وقيل: عن ربيع بن يحيى، عن شعبة مرفوعاً، ولم يثبت" یعنی کہا گیا ہے کہ ربیع بن یحییٰ عن شعبہ کی سند سے مرفوعا بھی مروی ہے مگر وہ ثابت نہیں ہے. (علل:11/308)

اس اعتبار سے مرفوعا روایت کرنے والے صرف یحییٰ بن کثیر ہوں گے .
امام طبرانی فرماتے ہیں:"لم يرو هذا الحديث مرفوعا عن شعبة إلا يحيى بن كثير" اس حدیث کو شعبہ سے مرفوعا صرف یحییٰ بن کثیر نے روایت کیا ہے. (المعجم الاوسط ح:1455) یعنی انہوں نے عبد الصمد اور ربیع بن یحییٰ کی روایت کا اعتبار ہی نہیں کیا ہے.

ثانیا:جہاں تک متن کے اعتبار سے شعبہ کی حدیث کا تعلق ہے تو وہ ان الفاظ کے ساتھ ہے "من قرأ سورة الكهف كما أنزلت كانت له نورا من حيث يقرؤه إلى مكة، ومن قرأ آخر الكهف فخرج الدجال لم يسلط عليه"
مختصر یہ ہے کہ ان کی حدیث کے الفاظ میں کہیں جمعہ کا ذکر ہے ہی نہیں.

ان تمام تفصیلات کے بعد ابو سعید کی حدیث پر حکم کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ حدیث موقوف ہے یہ ابو سعید کا کلام ہے اس کا مرفوع ہونا صحیح نہیں ہے .

امام بیہقی فرماتے ہیں "والمشهور موقوف" مشہور موقوف ہونا ہے (الدعوات الکبیر (1/42)

امام ذہبی فرماتے ہیں:"وقفه أصح" موقوف ہونا زیادہ صحیح ہے (المهذب في اختصار السنن الكبير 3/1181)

امام ابن الملقن فرماتے ہیں:"الوقف ھو الصواب" موقوف ہونا ہی درست ہے (البدر المنیر:2/292)
امام ابن حجر فرماتے ہیں:"ورجال الموقوف في طرقه كلها أتقن من رجال المرفوع" موقوف روایت کے روات تمام طرق میں مرفوع حدیث کے راویوں سے اتقن ہیں.(فیض القدیر 6/199)


یہ رہا سند کا حکم جہاں تک متن حدیث کا تعلق ہے تو گزشتہ تفصیلات سے یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ ابو ھاشم سے جمعہ کے دن کے ساتھ سورہ کہف کی تلاوت کی فضیلت کی تخصیص صرف دو طریق سے وارد ہوئی ہے:

اول: هشيم بن بشیر عن ابی ھاشم کی سند میں.
مگر اس میں دو علت ہے :

(1) ھشیم اس تخصیص میں شعبہ اور ثوری سے متفرد ہیں ان دونوں نے بلا تخصیص روایت کیا ہے .اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ جب شعبہ اور ثوری متفق ہوں تو ترجیح انہیں ہی حاصل ہوگی چنانچہ خالد بن سریج فرماتے ہیں "میں نے عبد الرحمن بن مہدی سے کہا کہ حب ثوری اور ھشیم اختلاف کر بیٹھے ؟ تو انہوں نے کہا کہ ان سے (یعنی حصین بن عبد الرحمن) روایت کرنے میں ھشیم اثبت ہیں ..میں نے کہا اگر شعبہ اور ھشیم اختلاف کر بیٹھے ؟ تو انہوں کہا کہ ھشیم (مقدم ہوں گے) یہاں تک کہ دونوں اکٹھے ہو جائیں یعنی سفیان اور شعبہ ایک حدیث میں جمع ہو جائیں(تو وہ دونوں مقدم ہوں گے) (تاریخ بغداد:14/91)

دوسری علت: اس حدیث کو ھشیم نے ابو ھاشم سے نہیں سنا ہے لہذا سند میں انقطاع ہے جیسا کہ تفصیلات گزر چکی ہے.

دوم: قبیصۃ عن الثوری عن ابی ھاشم کی سند:
اس میں بھی دو علتیں ہیں:
(1) قبیصہ گرچہ ثقہ ہیں مگر سفیان ثوری سے روایت کرنے میں وہ بالخصوص ضعیف ہیں.

(2) ضعیف ہونے کے باوجود انہوں نے عبد الرحمن بن مہدی, وکیع بن الجراح اور عبدالرزاق جیسے ائمہ ثقات کی مخالفت کی ہے..

خلاصہ یہ ہے کہ یہ حدیث جمعہ کے ساتھ تخصیص کے بغیر موقوفا صحیح ہے جبکہ جمعہ کے ساتھ سورہ کہف کی تلاوت کی تخصیص شاذ اور ضعیف ہے..

اس کے علاوہ اس باب کی جتنی بھی مرفوع حدیثیں ہیں سب کے سب سخت ضعیف ہیں کیونکہ ان کی اسانید میں یا تو مجہول العین راوی ہے یا تو متروک کذاب اور ضعیف جدا راوی ہے یا سرے سے حدیث کی سند ہی نا معلوم ہے ..لہذا تمام حدیثیں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر بھی تقویت حاصل نہیں کر سکتی کیونکہ تقویت پہنچانے اور متابع یا شاہد بننے کے لیے شرط ہے کہ ضعف خفیف ہو شدید نہ ہو مگر یہاں تو ابو سعید کی روایت کے علاوہ تمام حدیثیں ضعیف ترین ہیں.

اخیر میں بالاجمال میں چند چیزوں کا ذکر کروں گا:
اول: جمعہ کے دن خصوصیت کے ساتھ سورہ کہف کی تلاوت اور اس کی فضیلت کے سلسلے میں کوئی مرفوع صحیح حدیث موجود نہیں ہے.

دوم: جمعہ کے روز سورہ کہف کی تلاوت کے سلسلے میں صحابہ سے بھی کچھ مروی نہیں ہے اور نہ ہی یہ ثابت ہے کہ صحابہ کرام اسے تلاوت کرتے تھے لہٰذا اگر جمعہ کے روز سورہ کہف کی تلاوت کی اس قدر فضیلت ہے تو صحابہ کرام کو اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے مگر ایسا نہیں ہے..

سوم: اس سلسلے میں تین تابعین کے آثار ملتے ہیں مگر وہ بھی ضعیف ہیں.

چہارم: میرے علم کے مطابق سب سے پہلے جنہوں نے جمعہ کے روز سورہ کہف کی تلاوت کی مشروعیت کی بات کہی ہے وہ امام شافعی ہیں پھر بعد والوں میں سے اکثر لوگوں نے ان کی موافقت کی ہے مخالفت کا علم نہ ہو سکا.

پنجم: جب اس سلسلے میں کوئی حدیث ثابت نہیں ہے تو اس غایت درجہ اہتمام کے ساتھ جمعہ کے روز اس کی تلاوت بھی درست نہیں ہے.. کیونکہ فضائل کا معاملہ توقیفی ہے اور اثبات توقیف دلیل کا متقاضی ہے.

ششم: اس حدیث کو معاصرین میں سے محدث الیمن مقبل بن ہادی الوادعی، ابو إسحاق الحويني(اخوانی) عبد اللہ السعد، عبد الرحمن الفقيه اور مصطفی العدوی (إخواني) وغیرہم نے شاذ اور ضعیف قرار دیا ہے امام ابن باز رحمہ اللہ نے بھی کئی مقامات پر مطلقا ضعیف قرار دیا ہے جبکہ بعض مقامات پر فرماتے ہیں کہ اس سلسلےٰ میں وارد تمام حدیثیں ضعیف ہیں مگر وہ سب ایک دوسرے کے ساتھ ملکر قوت حاصل کر لیتے ہیں. مگر آپ کی یہ بات درست نہیں ہے جیسا کہ میں نے بالتفصیل یہ بات ثابت کیا ہے.

والله أعلم بالصواب

https://salafitehqiqimaqalat.blogspot.com/2020/07/blog-post_17.html

.
 
شمولیت
جون 05، 2018
پیغامات
277
ری ایکشن اسکور
15
پوائنٹ
79
.


*جمعہ والے دن سورۃ کھف پڑھنے کی فضیلت کے حوالے سے روایات کی اسنادی حیثیت کیا ہے*❓


*بسم اللہ الرحمن الرحیم*



جمعہ *والے دن سورۃ کہف پڑھنے کی فضیلت کے حوالے سے کوئی بھی مرفوع یا موقوف روایت سنداً ثابت نہیں.*


سنن دارمی#3450


حَدَّثَنَا *أَبُو النُّعْمَانِ ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، حَدَّثَنَا أَبُو هَاشِمٍ ، عَنْ أَبِي مِجْلَزٍ ، عَنْ قَيْسِ بْنِ عُبَادٍ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ* : مَنْ قَرَأَ سُورَةَ الْكَهْفِ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ، أَضَاءَ لَهُ مِنَ النُّورِ فِيمَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْبَيْتِ الْعَتِيقِ.


جس نے جمعہ کے دن سورۃ کھف کی تلاوت کی,اللہ تعالی اس کے لیے دو جمعوں کے درمیان نور روشن فرمادیتا ہے.


مستدرک حاکم #3392 میں یہ روایت مرفوعاً بھی موجود ہے.


٣٣٩٢ - *حَدَّثَنا أبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ المُؤَمَّلِ، ثنا الفَضْلُ بْنُ مُحَمَّدٍ الشَّعْرانِيُّ، ثنا نُعَيْمُ بْنُ حَمّادٍ، ثنا هُشَيْمٌ، أنْبَأ أبُو هاشِمٍ، عَنْ أبِي مِجْلَزٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ عَبّادٍ، عَنْ أبِي سَعِيدٍ الخُدْرِيِّ أنَّ النَّبِيَّ ﷺ قالَ: «إنَّ مَن قَرَأ سُورَةَ الكَهْفِ يَوْمَ الجُمُعَةِ أضاءَ لَهُ مِنَ النُّورِ ما بَيْنَ الجُمُعَتَيْنِ» هَذا حَدِيثٌ صَحِيحُ الإسْنادِ ولَمْ يُخْرِجاهُ "*


لیکن یہ سنداً ثابت نہیں.
یہ روایت ہیشم نے ابوہاشم سے نہیں سنی.
کما قال احمد بن حنبل رحمۃ اللہ


*قالَ أبِي لَمْ يَسْمَعْهُ هُشَيْمٌ مِن أبِي هاشِمٍ*


(العلل ومعرفة الرجال لأحمد رواية ابنه عبد الله ٢/‏٢٥١ أحمد بن حنبل
الجزء الرابع من كتاب العلل ومعرفة الرجال )


ہیشم *کا حدثنا ابوہاشم کہنا وہم ہے*


اسی طرح ایک اور روایت میں ہے کہ


- أخْبَرَنا *إبْراهِيمُ، قالَ: مُحَمَّدُ بْنُ أحْمَدَ، قالَ: أخْبَرَنا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ، قالَ: حَدَّثَنا إسْماعِيلُ، قالَ: أخْبَرَنا يُوسُفُ، عَنْ شَيْبانَ، قالَ: حَدَّثَنِي مُسْلِمُ بْنُ مالِكٍ، عَنْ أبِي عُتْبَةَ، قالَ: قالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلّى اللَّهُ عَلَيْهِ وآلِهِ وسَلَّمَ:* «مَن قَرَأ سُورَةَ الكَهْفِ يَوْمَ الجُمُعَةِ، غُفِرَ لَهُ مِنَ الجُمُعَةِ إلى الجُمُعَةِ وزِيادَةُ ثَلاثَةِ أيّامٍ، وأُعْطِيَ نُورًا يَبْلُغُ إلى السَّماءِ ووُقِيَ فِتْنَةَ الدَّجّالِ.


إسماعيل *بن عمرو البجلي ضعيف، ويوسف بن عطية متروك.*


(الإيماء إلى زوائد الأمالي والأجزاء ٦/‏٢١٠)
الكنى.[452] مسند أبي عنبة الخولاني الحمصي
القرطبي *المفسر التذكار ١٩٥ لا يصح*


من *قرأَ سورةَ الْكَهفِ ليلةَ الجمعةِ، أُعطِيَ نورًا، من حيثُ قرأَها إلى مَكَّةَ، وغُفِرَ لَهُ إلى يوم الجمعَةِ الأخرى، وفضلُ ثلاثةِ أيّامٍ*
اسی طرح امام شوکانی رحمۃ اللہ نے بھی اس کے متعلق روایت کو ضعیف,موضوع قرار دیا ہے.
الشوكاني الفوائد المجموعة ٣١١
سندہ,*موضوع*


وهُوَ *حَدِيثٌ طَوِيلٌ مَوْضُوعٌ*
الفوائد المجموعة ١/‏٣١١ — الشوكاني (ت ١٢٥٠)


كتاب الفضائل,باب فضائل القرآن
لہذا, *سورۃ کھف جمعہ والے دن پڑھنے کی فضیلت پر تمام تر موقوف مرفوع روایات کی اسناد ضعیف ہیں.*


عصر *حاضر کے محقق شیخ امن پوری حفظہ اللہ نے بھی ان کو ضعیف قرار دیا ہے.*


لہذا, *جمعہ والے دن سورۃ کہف پڑھنا مسنون نہیں.*


*ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب*


.
 
Top