• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جمع عثمانی رِوایات کے آئینے میں

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
جمع عثمانی رِوایات کے آئینے میں

حافظ فہد اللہ مراد​
جمع عثمانی کے سلسلہ میں عام طور پر امام بخاری رحمہ اللہ کی نقل کردہ حدیث بروایت سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ پر ہی اعتماد کیا جاتا ہے جس میں ہے کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے تیارکردہ صحف جو سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس موجود تھے، کی مزید نقول تیار کروا کر حکومتی سطح پر نشر کر دی تھیں لیکن روایات کی تفصیلی جائزہ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ صرف نقول ہی نہیں تھیں بلکہ ایک باقاعدہ جمع تھی۔ زِیر نظر مضمون میں جمع عثمانی کی حقیقی نوعیت، جو رِوایات کے تناظر میں سامنے آتی ہے، کی وضاحت کی گئی ہے، یقینا صاحبان فکر و دانش مسئلہ کے اس پہلو پر بھی غور فرمائیں گے اور اپنی مؤقر آرا ء سے مطلع فرمائیں گے۔ (ادارہ)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
نبی مکرمﷺ کی حدیث مبارکہ ’’خَیْرُ النَّاسِ قَرْنِيْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ‘‘۔(صحیح البخاري: ۲۶۵۲) پر جب نظر پڑتی ہے تو سر احسان و نیازمندی کے ملے جلے تاثر ات سے جھک جاتا ہے کہ واقعتا آپﷺ، صحابہ رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہم اللہ کا زمانہ خیر القرون تھا، کیونکہ اس میں بنی نوع اِنسان کی راہ روی اور اسلام کی سربلندی کے لیے وہ محنتیں اور کوششیں ہوئی ہیں کہ جس کی مثال آئندہ جمیع قرون میں پیش کرنا مشکل ہے۔ یقینا وہ لوگ اس قابل تھے کہ اُنہیں یہ ذمہ داری سونپی جاتی کہ وہ دینِ الٰہی اور شرع اللہ کو اپنی مکمل تشریحات کے ساتھ آئندہ نسلوں تک منتقل کریں، بلا شبہ وہ طائفہ فائزہ اپنے اس مقصد میں بامراد ہوا ہے۔
ان جملہ ذمہ داریوں میں سے اَہم ترین ذمہ داری یہ تھی کہ ہدایت سماوی کے آخری ربانی صحیفہ کو محفوظ اور غیر متبدل شکل میں ہم تک پہنچایا جائے۔ ہمارا یہ قطعی ایمان ہے کہ وہ پیام اَیزدی آج اپنی سو فیصد اَصلی اور حقیقی شکل میں ہمارے درمیان موجود ہے۔ الحمد ﷲ علی ذلک۔
اِس سلسلہ میں خیرالقرون میں جو سب سے اَہم کام ہوا ہے وہ سیدنا عثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ نے کیا ہے۔ اس کام کی تفصیلی نوعیت کیا تھی۔ ذیل میں آپ کے گوش گزار کرتے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
رِوایات کے آئینہ میں جمع عثمانی کی حقیقت
جمع عثمانی کے سلسلہ میں کتب فنون میں کئی ایک رِوایات منقول ہیں۔ ہم ذیل میں صرف انہی روایات کا تذکرہ کریں گے، جن میں دیگر کے مقابلہ میں کچھ زائد فوائد ہوں گے۔ تاکہ روایات میں موجود بحث کا ہر پہلو سامنے آجائے۔ تکرار سے حتی المقدور اِجتناب کریں گے اور ہر روایت کو ذکر کرنے کے بعد یہ التزام کریں گے کہ اس روایت سے حاصل شدہ اِضافی نکات کو آخر میں ذکر کردیں۔
(١) عن أنس بن مالک قال: إن حذیفہ بن الیمان قدم علی عثمان وکان یغازي أھل الشام في فتح آرمینیۃ وآذربیجان مع أھل العراق فافزع حذیفۃ اختلافھم في القرائۃ۔ فقال حذیفۃ لعثمان: یا أمیر المؤمنین! أدرک ھذہ الأمۃ قبل أن یختلفوا في الکتاب اختلاف الیہود والنصاریٰ۔ فأرسل عثمان إلی حفصۃ أن أرسلي إلینا بالصحف ننسخھا في المصاحف ثم نردھا إلیک، فأرسلت بھا حفصۃ إلی عثمان۔ فأمر زید بن ثابت وعبداﷲ ابن زبیر وسعید بن العاص وعبدالرحمن بن الحارث بن ہشام فنسخوھا في المصاحف، وقال عثمان للرھط للقریشین الثلاثۃ: ’’إذا اختلفتم أنتم وزید بن ثابت في شيء من القرآن فاکتبوہ بلسان قریش، فإنما نزل بلسانھم‘‘۔ ففعلوا حتی إذا نسخوا الصحف في المصاحف رد عثمان الصحف إلی حفصۃ فأرسل إلی کل أفق بمصحف مما نسخوا، وأمر بما سواہ من القرآن في کل صحیفۃ أو مصحف أن یحرق۔(صحیح البخاري : ۴۹۸۷)
’’جناب اَنس بن مالک رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ سیدنا حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس آئے وہ آرمینیہ اور آذربیجان کے محاذ پر مسلمانوں کی ہمراہ جنگ میں شریک تھے۔اَہل عراق کے قراء ت میں اختلاف نے ان کو شدید خوف زَدہ کردیا، تو سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے کہا : اَے امیرالمؤمنین! اس اُمت کی خبر لیجئے اس سے پہلے کہ یہ یہود و نصاریٰ کی طرح کتاب اللہ میں اختلاف شروع کردیں۔ تو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کو پیغام بھیجا کہ وہ صحف کو میرے پاس بھیج دیں ہم اُسے مصاحف میں نقل کرکے لوٹادیں گے۔ سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا نے وہ صحف حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف بھیج دئیے۔ آپ نے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ، سعید بن العاص رضی اللہ عنہ و عبداللہ بن زبیررضی اللہ عنہ اور عبدالرحمن بن حارث بن ہشام رضی اللہ عنہ کو حکم دیا ۔ اُنہوں نے اُسے مصاحف میں نقل کردیا اور ساتھ تین قریشی صحابہ کوکہا کہ جب تمہارے اور زَید کے مابین اختلاف ہو تو لسان قریش میں لکھو، کیونکہ قرآن انہی کی لغت میں اُترا ہے۔ لہٰذا اُنہوں نے ایسا ہی کیا اور صحف سے قرآن کریم کو مصاحف میں منتقل کردیا اور صحف سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کو لوٹا دیئے اور باقی جمیع مصاحف کو جلانے کا حکم دے دیا۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
فوائد: مذکورہ رِوایت میں جمع عثمانی کی اِجمالی تصویر دکھائی دیتی ہے۔ جس سے درج ذیل باتیں سامنے آئی ہیں:
(١) آرمینیہ اور آذربیجان کے موقع پر مسلمانوں کا قراء ت میں اِختلاف رونما ہونا دوبارہ جمع کا محرک بنا ہے۔
(٢) اِس میں معیار صحف ابوبکررضی اللہ عنہ کو بنایا گیا ہے۔
(٣) کاتبین حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ، عبداللہ بن زبیررضی اللہ عنہ ، سعید بن عاص رضی اللہ عنہ اور عبدالرحمن بن حارث بن ہشام رضی اللہ عنہ تھے۔
(٤) اِن مصاحف کو مرتب کرنے کے بعد دیگر جمیع غیر مصدقہ اور ذاتی مصاحف کو جلا دیا گیا۔
(٢) عن زید بن ثابت قال: فقدت آیۃ من سورۃ الأحزاب حین نسخنا المصاحف قد کنت أسمع من رسول اﷲ ! یقرأ بھا فالتمسناھا فوجدناھا مع خزیمۃ بن ثابت الأنصاری : ’’ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عٰھَدُوا اﷲَ عَلَیْہِ ‘‘ فألحقناھا في سورتھا في المصحف۔ (صحیح البخاري: ۴۹۸۸)
’’زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے سورۃ الاحزاب کی آیت(نمبر۲۳) ’’ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عٰھَدُوا اﷲَ عَلَیْہِ ‘‘ کو گم پایا۔ حالانکہ میں نے رسول اللہﷺ کو اس کی تلاوت کرتے ہوئے سناتھا۔ ہم نے اس کی مزید تلاش و بسیار کی تو بالآخر یہ ہمیں خزیمہ بن ثابت اَنصاری رضی اللہ عنہ کے پاس مل گئی۔ پس ہم نے اُسے مصحف میں شامل کرلیا۔‘‘
فائدہ: مذکورہ روایت میں صرف یہ بات مذکور ہے کہ دوران جمع کوئی بھی فرد سورۃ احزاب کی مندرجہ بالا آیت نہیں لایا تھا۔ جسے بعد میں خزیمہ بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ سے اَخذ کیا گیا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٣) عن أنس بن مالک الأنصاری أنہ اجتمع لغزوۃ آذربیجان وآرمینیہ أھل الشام وأھل العراق قال: فتذاکروا القرآن فاختلفوا فیہ حتی کاد یکون بینھم فتنۃ۔ قال: فرکب حذیفہ ابن الیمان -لما رأی من اختلافھم في القرآن- إلی عثمان فقال: إن الناس قد اختلفوا في القرآن حتی واﷲ أخشی أن یصیبھم ما أصاب الیھود والنصاریٰ من الاختلاف۔ قال: ففرع لذلک عثمان فزعاً شدیداً، فأرسل إلی حفصۃ فاستخرج الصحیفہ التي کان أبوبکر أمر زیداً بجمعھا فنسخ منھا مصاحف فبعث بہا إلی الآفاق فلما کان مروان أمیر المدینۃ أرسل إلی حفصۃ یسألھا الصحف لیحرقھا وخشي أن یخالف بعض الکتاب بعضاً فمنعتہ أیاھ۔ (کتاب المصاحف :۷۲)
’’مالک بن اَنس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اہل شام اور اہل عراق آرمینیہ اور آذربیجان کے غزوہ پر اکٹھے ہوئے۔ ان کی قرآن کریم پر باہم گفتگو ہوئی جس سے اختلاف اِس قدر شدت اِختیارکرگیا کہ بہت بڑے فتنے کا اَندیشہ پیدا ہوگیا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ نے یہ دیکھا تو اَمیرالمؤمنین سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور عرض کیا کہ لوگ قرآن کریم میں باہم مختلف ہوگئے ہیں۔ بخدا اگر ایسا ہی ہوتا رہا تو مسلمان بھی یہود و نصاریٰ کی طرح اختلاف کا شکار ہوجائیں گے۔ جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے سنا تو بہت زیادہ پریشان ہوگئے اور سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کی طرف پیغام بھیج کر، حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کے حکم پر زید کے جمع کردہ، صحائف منگوائے۔ اُن سے مزید مصاحف تیار کروائے اور ہر طرف بھیج دیئے۔ جب مروان مدینہ کے اَمیر مقرر ہوئے تو سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا سے صحف ابی بکر کے متعلق کہا کہ مجھے اَرسال کردیں تاکہ اُنہیں جلا دیا جائے اور مخالفت کتاب کا ڈر ختم کیا جائے۔ لیکن سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا نے اُسے تلف کرنے سے روک دیا۔‘‘
فائدہ: اِس روایت میں بخاری والی روایت کی طرح جمع عثمان کا اِجمالی تعارف اور اس کے اَسباب مذکورہ ہیں۔ اِضافہ صرف اِس بات کا ہے کہ مروان نے اپنے دور خلافت میں سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا سے بغرض تلف صحف ابی بکر کو منگوائے لیکن اُنہوں نے اس سے اِنکار کردیا۔
ابن شہاب زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مجھے سالم بن عبداللہ نے بیان کیا ہے کہ جب سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا وفات پاگئیں تو مروان بن حکم نے سیدنا عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے وہ مصاحف منگوا لیے اور اُنہیں تلف کردیا۔ (کتاب المصاحف:۷۳)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٤) عن أبی قلابۃ قال: لما کان في خلافۃ عثمان جعل المعلم یعلم قرائۃ الرجل والمعلم یعلم قرائۃ الرجل فجعل الغلمان یلتقون فیختلفون، حتی ارتفع ذلک إلی المعلمین قال: حتی کفر بعضھم بقرائۃ بعض، فبلغ ذلک عثمان فقام خطیباً، فقال: أنتم عندي تختلفون وتلحنون، من نأی عني من الأنصار أشد فیہ اختلافاً ولحناً، اجتمعوا یاأصحاب محمد! فاکتبوا للناس إماماً۔(کنز العمال في سنن الأقوال: ۲؍۵۸۲، ط؍خامسۃ، مؤسسۃ الرسالۃ)
’’ابی قلابہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں معلمین قرآن مختلف اَفراد کی قراء ات سکھلاتے ، بعد میں جب بچے آپس میں ملتے تو قراء ت میں اِختلاف کرتے حتیٰ کہ یہ بات معلّمین تک پہنچ گئی۔ ایوب، راوی حدیث کہتے ہیں کہ مجھے یقینی علم نہیں ہے کہ اُنہوں نے کہا ہو کہ معلّمین نے آپس میں ایک دوسرے کی تکفیر شروع کردی۔ جب یہ بات حضرت عثمان رضی اللہ عنہ تک پہنچی تو اُنہوں نے خطبہ اِرشاد فرمایا کہ تم میرے پاس رہ کر اس قدر اختلاف کا شکار ہوگئے ہو اور قرآن میں غلط باتیں کہتے ہو تو وہ لوگ جو مجھ سے دور ہوں گے ان کی کیا حالت ہوگی وہ تو تم سے بھی زیادہ اختلاف اور غلطیوں کا شکار ہوں گے۔ پھر آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا :’’اے اَصحاب محمدﷺجمع ہوجاؤ اور لوگوں کے لیے ایک مصحف اِمام لکھ دو۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
فوائد
(١) مدینہ میں بھی معلمین کے مابین قراء ت کے اِختلاف رونما ہوئے تھے۔ جمع قرآن کے اَسباب میں سے یہ بھی ایک سبب ہے۔
(٢) حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے صحابہ کے اِجماع سے یہ کام سراَنجام دیا۔
(٣) دور اور قریب کے جمیع بلاد میں شدت سے اِختلافات پیدا ہونا شروع ہوگئے تھے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٥) قال أبوقلابۃ حدثني مالک قال: کنت فیمن أملي علیھم فربما اختلفوا في آلایۃ فیذکرون الرجل قد تلقاھا من رسول اﷲ ! ولعلہ أن یکون غائباً أو في بعض البوادي فیکتبون ما قبلھا وما بعدھا ویدعون موضعھا حتی یجيء أو یرسل إلیہ، فلما فرغ من المصحف کتب إلی أھل الأمصار: ’’أنی قد صنعت کذا، محوت ما عندي، فامحوا ما عندکم۔‘‘(کتاب المصاحف:۷۵)
’’ابوقلابہ فرماتے ہیں کہ مجھے مالک بن انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے کہ میں ان لوگوں میں موجود تھا جو مصاحف کی اِملاء کرواتے تھے۔ جب کبھی کسی آیت میں اختلاف ہوتا تو پھر اس فرد کا ذکر کرتے جس نے اس آیت کو رسول اللہﷺسے بالمشافہ لیا ہوتا۔ اگر وہ غائب ہوتایا شہر سے باہر بادیہ میں ہوتا تو اس سے ماقبل اور مابعد لکھ لیا جاتا اور اس جگہ کو چھوڑ دیا جاتایہاں تک کہ وہ آدمی خود آجاتا یا اُسے بلا لیا جاتا۔ جب اس تمام کام سے فارغ ہوگئے تو اسے جمیع اَمصار میں بھیج دیا گیا۔ اور ساتھ یہ لکھا کہ میں نے یہ کام کیا ہے۔ میرے پاس اس کے علاوہ جو کچھ موجود تھا میں نے اُسے ختم کردیا ہے تم بھی ختم کردو۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
فوائد
(١) کاتبین مصاحف میں جناب مالک بن اَنس رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے۔
(٢) جب کاتبین وحی کے مابین اختلاف ہوجاتا تو اس شخص کا اِنتظار کیا جاتا جس نے وہ آیت بالمشافہ اللہ کے رسولﷺسے لی ہوتی۔ یعنی پوری طرح تصدیق کرنے کے بعد آیت کو درج کیا جاتا۔
(٣) اَمیرالمؤمنین کی طرف سے تمام اَمصار و بلاد کی طرف باقاعدہ فرمان جاری کیا گیا کہ مصاحفِ عثمانیہ کے علاوہ دیگر جمیع مصاحف کو ختم کردیا جائے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٦) عن مصعب بن سعد قال: قام عثمان فخطب الناس فقال: ’’أیھا الناس عھدکم بنبیکم منذ ثلاث عشرۃ وأنتم تمترون في القرآن، وتقولون قرائۃ أبيّ وقرائۃ عبداﷲ!؟ یقول الرجل: واﷲ! ما تقیم قرائتک فأعزم علی کل رجل منکم ما کان معہ من کتاب اﷲ شيء لما جاء بہ، فکان الرجل یجيء بالورقۃ والأدیم فیہ القرآن، حتی جمع من ذلک کثرۃ، ثم دخل عثمان فدعاھم رجلاً رجلاً فناشدھم لسمعت من رسول اﷲ ! وھو أملاہ علیک؟ فیقول: نعم، فلما فرغ من ذلک عثمان، قال: من أکتب الناس؟ قالوا: کاتب رسول اﷲ ! زید بن ثابت، قال: فأي الناس أعرب؟ قالوا: سعید بن العاص، قال عثمان: فلیمل سعید ولیکتب زید، وکتب زید، وکتب مصاحف ففرقھا في الناس، فسمعت بعض من أصحاب محمد ﷺ یقول قد أحسن۔‘‘(المصاحف لابن أبی داود: ۱؍۸۱)
’’مصعب بن سعد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے خطبہ اِرشاد فرمایا اور کہا: اَے لوگو! تمہارے نبیﷺکو گئے تو ابھی صرف تیرہ برس گزرے ہیں، تم نے ابھی سے قرآن میں شک کرنا شروع کردیا ہے۔ اور کہتے ہو قراء ت أبی، قراء ت عبداللہ اور ایک آدمی کھڑا ہوکر کہتا ہے میں تمہاری قراء ت کو درست نہیں مانتا۔ انہوں نے ان میں سے ہر شخص کو قسم دی کہ اس کے پاس قرآن کی صورت میں جو کچھ بھی موجود ہے لے آئے۔ تو لوگ ورق اورچمڑے کی ٹکڑے وغیرہ لے کر حاضر ہوتے رہے۔ جب قرآن بکثرت جمع ہوگیا توحضرت عثمان رضی اللہ عنہ داخل ہوئے اور ہر ایک کو بلا کر اس سے قسم لی کہ کیا تو نے یہ رسول اللہﷺسے سنا ہے اور آپﷺنے تجھے اِملاء کروایا ہے؟ تو وہ شخص ہاں میں جواب دیتا۔ جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اس کام سے فارغ ہوئے تو کہا۔ لوگوں میں سب سے بڑا کاتب کون ہے؟ لوگوں نے جواب دیا: اللہ کے رسولﷺکے کاتب زید بن ثابت رضی اللہ عنہ۔ پھر پوچھا سب سے بہتر عربی دان کون ہے؟ عوام نے جواباً کہا: سعیدبن عاص رضی اللہ عنہ۔ تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا سعید اِملاء کروائیں اور زید لکھیں۔ چنانچہ سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے قرآن کریم کو لکھا تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اُسے لوگوں میں پھیلا دیا۔ راوی کہتے ہیں کہ میں نے بعض صحابہ سے سنا کہ وہ کہہ رہے تھے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کیا خوب کام کیا ہے۔‘‘
 
Top