• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جمع قرآن اور مصاحفِ عثمانیہ کی رو سے ثبوتِ قراء ات

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
جمع قرآن اور مصاحفِ عثمانیہ کی رو سے ثبوتِ قراء ات

( اَسباب جمع کے بارے میں اور اس بارہ میں کہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ
نے عہد صدیقی میں تمام وجوہ سمیت قرآن مجید جمع کیا)​
علامہ علی خلف حسینی
مترجم: حافظ محمد صفدر​
قراء ات متواترہ کے انکار کے سلسلہ میں بعض معاصر ’مفکرین‘ سخت گمراہی کا شکار ہیں، لیکن اس حد تک وہ بھی اتفاق رکھتے ہیں کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جس قرآن کو جمع کیا تھا اور جس ’قراء ت عامہ‘ پرمصحف کی کتابت کروائی تھی، اس میں مکتوب ہر شے قرآن ہی ہے اور وہی قرآن (مصحف) آج تک امت میں اتفاقی تعامل سے مقروء ہے، لیکن تحقیق سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے قراء ات ِقرآنیہ کو ختم نہیں فرمایا تھا اورجو مصاحف لکھوائے تھے، وہ موجودہ تمام قراء ات کے مطابق تھے، بلکہ علمائے قرآن کے ہاں توثبوت قراء ات کی ایک متفقہ شرط یہ ہے کہ وہ مصاحف عثمانیہ میں سے ہر صورت کسی نہ کسی کے متن (رسم) سے مطابقت رکھتی ہوں۔ مزید برآں سلف کے ہاں ’قراء ت عامہ‘ سے مراد بھی روایت حفص کے بجائے ’قراء ات سبعہ و عشرہ‘ ہیں۔ اسی طرح روایت حفص کی طرح دیگر تمام قراء ات بھی امت میں پچھلی چودہ صدیوں سے اتفاقی تعامل کے ساتھ منقول چلی آرہی ہیں۔
زیر نظر مضمون میں جمہوریہ مصر کے نامور عالم قراء ات شیخ المقاری علامہ علی خلف الحسینی رحمہ اللہ نے جمع عثمانی کی نوعیت اور مصاحف ِعثمانیہ کے مختلف قراء ات پر مشتمل ہونے کو موضوع بحث بنایا ہے۔ ان کی زیر نظر تحریر ان کی کتاب الکواکب الدّریۃ سے اخذ کرکے قارئین کی نظر کی جارہی ہے۔ (ادارہ)
وفاتِ نبویﷺ کے ساتھ ہی جب وحی کا انقطاع حتمی ہوگیا تو فطرت نے جمع قرآن کا تقاضا کیا۔ اللہ نے اُمت محمدیہ کے لیے حفاظت قرآن کا وعدہ پوراکرتے ہوئے خلفاء راشدین کے دل میں جمع قرآن والی بات القاء کی۔اس (مبارک کام)کی طرح حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے مشورہ سے ڈالی۔ سو جمع قرآن کا کام زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے انجام دیا۔یہ مصحف تاحیات حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کے پاس رہا پھر بعد میں حضرت عمررضی اللہ عنہ کے پاس ان کی وفات تک رہا اور ان کے بعد حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس تاحین حیات رہا۔
(زیدرضی اللہ عنہ کا جامع کردہ مصحف)حضرت عمررضی اللہ عنہ کی وصیت کے مطابق حضرت حفصہ رضی اللہ عنہاکو منتقل کردیا گیا اور انہی کے پاس رہا۔ جسے ضرورت ہوتی وہ ان سے حاصل کرکے اسے دیکھ لیتا۔
قاضی ابن باقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا قرآن جمع کرنا فرض کفایہ تھاجس کی دلیل آنحضرتﷺ کا یہ قول ہے :
(لا تکتبوا عنی شیئًا غیر ھذا القرآن) ’’مجھ سے قرآن کے علاوہ کچھ مت لکھو۔‘‘
اور اسی طرح فرمان باری تعالیٰ ہے:’’إنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہُ وَقُرْاٰنَہٗ‘‘
’’اس قرآن کاپڑھانا اور جمع کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سبب :
اس کے پس منظرمیں مسیلمہ کذاب کا واقعہ ہے۔ جب اس کی طرف آنحضرتﷺنے مکہ سے دعوتِ توحید کا پیغام بھیجا تو اس نے نبوت کا دعویٰ کرڈالا اور اپنا ایک آدمی نبیﷺکی طرف بھیجا جوآپﷺکے اَقوال اور آپﷺپر نازل شدہ قرآن کی اِطلاعات اس تک پہنچاتا تھا اور وہی منقول اَخبار وغیرہ مسیلمہ اہل یمامہ کے سامنے پڑھتا تاکہ وہ سمجھیں کہ یہ اسی پر نازل ہواہے۔ جب اس نے رحمن کا نام سنا تو اس نے اپنا نام بھی رحمن رکھ لیا۔جب نبیﷺسے قرآن مشہور و معروف ہوا تو اب اس کے لیے ممکن نہ تھا کہ وہ اسے اپنی طرف منسوب کرکے لوگوں کے سامنے بیان کرسکے تو اس نے قرآن میں اختلاط کرنے کی کوشش کی۔ مسیلمہ جادوگری میں معروف تھااور بہت فریبی اور کمینی طبیعت کا مالک تھا ۔نیز قراء کا سب سے بڑا دشمن بھی تھا۔
جب آنحضرتﷺاپنے خالق حقیقی سے جاملے اور ابوبکررضی اللہ عنہ خلیفہ بنے تو مسیلمہ نے اپنے اوچھے پن کا ثبوت دیتے ہوئے اپنی باطل اور جھوٹی خرافات کے ذریعے بنوحنیفہ کو مرتد بنا ڈالا۔جب اس بات کا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کوعلم ہواتو انہوں نے خالد بن ولیدرضی اللہ عنہ کی سرکردگی میں چار ہزار گھڑ سواروں پر مشتمل لشکر روانہ کیا۔ دونوں جماعتوں میں مڈبھیڑ ہوئی اور گھمسان کارن پڑا۔ مسلمانوں میں سے ایک جماعت نے شہادت حاصل کی جن میں سیدنا عمررضی اللہ عنہ کے بھائی زیدرضی اللہ عنہ بھی تھے اور انہی شہداء میں سے سات سو قراء بھی تھے۔ حضرت براء بن مالک رضی اللہ عنہ نے مسیلمہ پر حملہ کرکے اس کی فوج کو ٹکڑوں میں تقسیم کردیا۔ اللہ کی مدد نازل ہوئی۔ مسلمانوں نے دشمن کی فوج کو شکست سے دوچار کیااور ان کا پیچھا کیا حتیٰ کہ انہیں ایک باغ میں پناہ لینے پر مجبور کردیا۔مسیلمہ کے ساتھیوں نے باغ میں داخل ہوکر خود پر دروازہ بند کرلیا۔براء بن مالک رضی اللہ عنہ اپنی ڈھال سے چھپتے ہوئے ان میں داخل ہوگئے اور انہوں نے مسلمانوں کے لیے دروازہ کھول دیا وہ اندر داخل ہوئے، انہوں نے مسیلمہ اور اس کے ساتھیوں کوقتل کردیا اور اس باغ کا نام’موت‘ رکھا گیا۔بخاری کی روایت کے مطابق مسیلمہ کوقتل کرنے والے وحشی رضی اللہ عنہ تھے اوروہ کہا کرتے تھے: ’’میں نے ایک بہترین آدمی(حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ) کو شہید اور بدترین آدمی (مسیلمہ) کو قتل کیا۔‘‘
امام شاطبی رحمہ اللہ اس واقعہ کی طرف اِشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’عہد صدیقی رضی اللہ عنہ میں جنگ یمامہ میں مسیلمہ سے مڈبھیڑ ہوئی اور وہ اس میں ناکام ہوا۔ شدید لڑائی کے بعد وہ میدان ہی اس کی قبر ثابت ہوا اور یہ لڑائی قراء پر بھی سخت بھاری تھی۔‘‘
جب حضرت عمررضی اللہ عنہ نے یہ صورتِ حال دیکھی تو روئے زمین سے قراء کے اُٹھ جانے کے ساتھ قرآن کے اُٹھ جانے کاخطرہ محسوس کرتے ہوئے اس سے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو آگاہ فرمایا اور قرآن جمع کرنے کا مشورہ دیا۔اسی بات کو امام ابوعمرووانی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’المحکم‘میں اپنی سند کے ساتھ نقل کیاہے۔
اور ایک دوسری روایت میں ہے:
’’عمررضی اللہ عنہ نے فرمایامختلف علاقوں میں بکثرت قراء کے شہید ہونے کی وجہ سے مجھے ڈر ہے کہیں قرآن ختم نہ ہوجائے، لہٰذا آپ جمع قرآن کا حکم جاری فرمائیے ۔ تو ابوبکررضی اللہ عنہ نے فرمایا جو کام اللہ کے رسولﷺنے نہیں کیا اورنہ ہی اس کے کرنے کے بارہ میں ہمیں کہا ہے تو میں ایسا کام کیوں کروں؟ تو عمرؓ نے فرمایا: آپ یہ کام کیجئے، اللہ کی قسم اس میں خیر ہے۔ عمررضی اللہ عنہ اس کام کے لیے ابوبکررضی اللہ عنہ سے کہتے رہے حتیٰ کہ اللہ نے ابوبکررضی اللہ عنہ کووہ دکھایا جوعمررضی اللہ عنہ نے دیکھا اورایک روایت کے مطابق ابوبکررضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ عمررضی اللہ عنہ مجھ سے اس کام کے لیے اصرارکرتے رہے حتیٰ کہ اللہ نے میرے سینے کو اس کام کے لیے کھول دیا۔‘‘
زید بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: مجھے ابوبکررضی اللہ عنہ نے بلایا ان کے پاس عمررضی اللہ عنہ بھی موجود تھے اور عمررضی اللہ عنہ کی بیان کردہ صورتِ حال کو بیان کرتے ہوئے مجھے قرآن جمع کرنے کاکہا۔میں نے عمررضی اللہ عنہ کومخاطب کرتے ہوئے کہا ہم وہ کام کیسے کرسکتے ہیں جواللہ کے رسولﷺنے نہیں کیا؟ تو انہوں نے فرمایا: اللہ کی قسم یہ سراسر خیر ہے۔ وہ مجھ سے اصرار کرتے رہے حتیٰ کہ اللہ نے اس کام کے لیے میرا سینہ کھول دیا۔ انہوں نے کہا تو عقل مند نوجوان آدمی ہے اور کاتب وحی بھی ہے، لہٰذا میں تمہیں اس کام کی زحمت دوں گا۔آپ قرآن کو کتابی شکل میں جمع کریں۔ میں نے ان دونوں سے کہا جو کام رسول اللہﷺنے نہیں کیاوہ آپ کیوں کررہے ہیں؟ ان دونوں نے کہا: اللہ کی قسم اس میں خیر ہے۔ وہ مجھ سے اصرار کرتے رہے حتیٰ کہ اللہ نے اس کام کے لیے میرے سینے کو کھول دیا اور مجھے بھی وہ(خیر)نظر آنے لگی جو انہوں نے دیکھی تھی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سوال: ’’إنَّانَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ‘‘کا علم ہونے کے باوجود حضرت عمررضی اللہ عنہ کا قرآن ختم ہونے کا خوف کیا معنی رکھتا ہے؟
جواب:عمررضی اللہ عنہ کے قول کامطلب یہ ہے کہ قرآن مجید چونکہ مختلف لوگوں کے پاس تھا،جب لوگ فوت ہوگئے تو ان کے جانے کے ساتھ وہ لکھا ہوا بھی ختم ہونے کا اِمکان تھا،کیونکہ نامعلوم متوفی نے وہ مکتوب آیات کہاں رکھی ہوں اور کیسے لکھی ہوں۔ عمررضی اللہ عنہ کے کہنے کامطلب الفاظِ قرآن کا ختم ہونا نہ تھا بلکہ کتابت قرآن کا ختم ہونا تھا۔
٭ یا عمررضی اللہ عنہ نے تواتر کے ختم ہونے کااندیشہ محسوس کیا۔
٭ یایہ کہ آیات کو محفوظ کرلینا تحریف سے محفوظ کرنے کے مترادف ہے۔
سوال:ابوبکررضی اللہ عنہ کے قول لم یأمر یا رسول اﷲ بکتابۃ القرآن کاکیا مطلب ہے اور اس پر مستزاد بخاری میں موجود روایت (لاتکتبوا عنی غیر القرآن شیئا ومن کتب غیرہ فلیمحہ)بھی سامنے ہو تو؟
جواب: ابوبکررضی اللہ عنہ کے کہنے کا مطلب یہ تھاکہ آپ نے ہمیں یہ حکم نہیں دیا کہ ہم ان مختلف جگہ پر لکھے جانے والے قرآن کو ایک مصحف کی شکل میں جمع کریں یالکھیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سوال: تیس سے زائد کاتبین وحی کی موجودگی کے باوجودزید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا ہی انتخاب کیوں؟حالانکہ کاتبین وحی میں بڑے بڑے نام بھی موجود تھے، مثلاً ابوبکر، عمر، عثمان، علی، ابان بن سعید، خالد بن ولید،ابی بن کعب، ارقم بن ابی ارقم،معاویہ بن ابی سفیان،ثابت بن قیس، حنظلہ بن ابی الربیع، ابورافع قبطی، خالد بن سعید بن عاص، زید بن ثابت،علاء بن حضرمی اور اسی طرح کتابین اَموال صدقہ میں سے زبیر بن عوام، اورجہم بن صلت، کھجوروں کے اندازے لکھنے کے لیے حذیفہ بن یمان ، معاملات کے کاتبین مغیرہ بن شعبہ اور حصین بن نمیر رضی اللہ عنہم ایسے ہی جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر باغیوں نے حملہ کیااور انہی میں سے ایک نے ان کے ہاتھ پر تلوار سے وار کیا تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ہاتھ اٹھاتے ہوئے فرمایا:’’اللہ کی قسم یہ وہ ہاتھ ہے جس نے سب سے پہلے آنحضرتﷺ کے سامنے مفصل سورتیں تحریرکیں۔‘‘
معاویہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’اللہ کے رسولﷺ نے مجھ سے کہا اے معاویہ! دوات (کا منہ ) کھلا رکھو، قلم کو ٹیڑھا قط لگاؤ (کاٹو) ،باء کوسیدھا لکھو، سین کے شوشوں کو جدا جدا کرکے لکھو، میم کے منہ کو گول کرو، لفظ اللہ خوبصورت لکھو، رحمن پر کھڑی زبر ڈالو، اور رحیم کونہایت خوبصورت لکھو۔ قلم اپنے بائیں کان پررکھو یہ آپ کو زیادہ یادکروانے والی ہے۔‘‘
پھر ان میں سے ہجرت کے بعد زیادہ تر وحی زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے تحریر کی، فتح مکہ کے بعد معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ نے، قریشیوں میں سے پہلے عبداللہ بن سعد بن ابی السرح( لیکن یہ مرتد ہوگئے مدینہ سے بھاگ کرمکہ آگئے اور فتح مکہ کے وقت دوبارہ مسلمان ہوگئے تھے) اورمدینہ میں سب سے پہلے کاتب وحی ابی بن کعب تھے۔ان سب کی موجودگی میں ابوبکررضی اللہ عنہ نے زیدرضی اللہ عنہ ہی کوکیوں منتخب کیا؟
جواب:زیدرضی اللہ عنہ کو خاص کرنے کی وجہ ان کادینی کمال ، عدالت، حسن سیرت اور علم تھا۔
حافظ ابونعیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: زیدرضی اللہ عنہ علم، فقہ اور فرائض میں اُمت میں سے سب سے بہتر تھے۔
امام شعبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:زیدرضی اللہ عنہ نے رکاب میں پاؤں رکھا تاکہ سواری پرسوار ہوسکیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے ان کی سواری کی لگام تھام لی۔ زیدرضی اللہ عنہ فرمانے لگے:اے رسول اللہﷺ کے چچیرے بھائی چھوڑ دیجئے اور ہمیں شرمندہ نہ کیجئے، تو فرمایا:ہم تو علماء کے ساتھ اسی (اَدب کے ساتھ) پیش آتے ہیں، زیدرضی اللہ عنہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کاہاتھ پکڑا اور بوسہ دیتے ہوئے فرمایا:آپﷺ نے ہمیں اپنے معززین اورکبار کااسی طرح اَدب کرنے کا حکم دیاہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ابن عباس رضی اللہ عنہما ، زیدرضی اللہ عنہ کی بابت فرماتے ہیں:
أنہ من الراسخین فی العلم ’’وہ علم میں پختگی رکھنے والوں میں سے تھے۔‘‘
اور انہی کی بابت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے ان کی وفات پر مرثیہ کہتے ہوئے کہا:
فمن للقوافی بعد حسان وابنہ
ومن للعمانی بعد زید بن ثابت​
’’شعر گوئی میں حسان رضی اللہ عنہ اور اس کے بیٹے کاکوئی ہمسر نہیں اور نکتہ رسی میں زیدبن ثابت رضی اللہ عنہ کاکوئی ثانی نہیں۔‘‘
زیدرضی اللہ عنہ نہایت ذہین و فطین تھے۔ انہی سے مروی ہے، فرماتے ہیں: مجھے اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا: میرے پاس خط آتے ہیں میں پسند نہیں کرتا کہ ہرایک ان سے باخبر ہو کیا آپ سریانی زبان سیکھ سکتے ہیں؟ میں نے عرض کی جی ہاں!چنانچہ میں نے سترہ(۱۷) راتوں میں وہ زبان سیکھ لی۔
انہوں نے عہد نبویﷺ میں قرآن جمع کیا(لکھا)اور عرضۂ اخیرہ کے مطابق دونوں مرتبہ آنحضرتﷺ کو قرآن سنایا اور آپﷺکے لیے وحی کی کتابت بھی کی۔
امام شاطبی رحمہ اللہ نے عقیلہ میں اسی طرف اشارہ کیا ہے:
نادی أبابکر الفاروق خفت علی الـ
قراء فادرک القرآن مستطرا
فاجمعوا جمعہ فی الصحف واعتمدوا
زید بن ثابت العدل الرضا نظراً
’’عمررضی اللہ عنہ نے ابوبکررضی اللہ عنہ سے کہا کہ قراء کے شہید ہونے کی وجہ سے مجھے خطرہ محسوس ہو رہا ہے لہٰذاقرآن مجید کتابی شکل میں جمع کروائیے۔
انہوں نے قرآن مجید کومصاحف میں جمع کروانے پراتفاق کیا اوراس معاملہ میں زید بن ثابت رضی اللہ عنہ جو عادل و پسندیدہ ہیں ،پر جانچ کر اعتمادکیا۔
زیدرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اگر شیخین(ابوبکر و عمررضی اللہ عنہما)مجھے ایک پہاڑ دوسری جگہ منتقل کرنے کا حکم دیتے تو یہ کام (جمع قرآن)سے زیادہ مشکل نہ تھا اور دوسری روایت کے مطابق اگر مجھے ایک پہاڑ دوسری جگہ منتقل کرنے کا حکم دیاجاتاتو وہ میرے لیے اس(جمع قرآن)سے زیادہ آسان تھا۔ فرماتے ہیں میں نے قرآن میں اوراق عسب(کھجور کے پتوں) لنحاف(سفید باریک چوڑا پتھر) اور لوگوں کے سینوں سے جمع کرنا شروع کیا اور ایک روایت میں ہے کہ میں نے قرآن مجید لوگوں کے سینوں (حفظ) رقاع(کپڑوں سے) اضلاع (پسلی کی ہڈیوں سے)اور عسب (پتھر کے ٹکڑوں) سے جمع کیا۔ یعنی عہد نبوی میں قرآن مجید مذکورہ متفرق چیزوں پر بلاترتیب سورہ لکھا جاچکاتھا اگرچہ ایک جگہ پر جمع نہ تھا۔ جیساکہ ابوداؤد نے نقل کیا ہے کہ زیدرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ایک آیت جو میں اللہ کے رسولﷺ سے سنا کرتاتھا مجھے صرف ایک انصاری صحابی کے پاس (لکھی) ہوئی ملی۔ وہ آیت مندرجہ ذیل ہے:
’’مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَاعَاھَدُوْ اﷲَ عَلَیْہِ فَمِنْھُمْ مَنْ قَضٰی نَہْبَہُ۔۔۔الایۃ‘‘ سو میں نے اسے اس کے مقام پرلکھ دیا۔
ایک روایت میں ہے کہ مجھے ایک اور آیت نہ ملی میں اس کی تلاش میں نکلا اور مہاجرین و انصار سے اس کی بابت پوچھتا رہا یہاں تک کہ مجھے وہ آیت حضرت خزیمہ بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ کے پاس سے ملی، وہ آیت یہ ہے:
’’لَقَدْ جَائَ کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ… الایۃ‘‘ سومیں نے یہ آیت سورہ توبہ کے آخر میں لکھ دی۔ پھر میں نے پورا قرآن خود پڑھاتو اس میں کوئی بھی کمی نہ تھی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سوال:حضرت زید رضی اللہ عنہ حافظ قرآن اور کاتب وحی ہونے کے باوجود مذکورہ آیات کی تلاش و تتبع میں کیوں نکلے نیز کیا ایک آدمی سے آیت ملنے پر تواتر ثابت ہوجاتا ہے۔
جواب: حضرت زیدرضی اللہ عنہ دوسروں سے سوال اس وجہ سے کرتے تھے تاکہ منزل حروف سبعہ کا اِحاطہ کرسکیں اور اگر کوئی وجہ رہ گئی ہو تو اسے دوسرے سے پوچھ کر مکمل کرسکیں چونکہ مکتوباتِ قرآنیہ متفرق تھے یا نبیﷺ کے سامنے لکھے جانے والے مکتوبات سے زائد تھے۔لہٰذا یقین کامل اور انداز تحریر کے جانچنے کے لیے ضروری تھا کہ زیدرضی اللہ عنہ لکھا ہوا دیکھتے اور اگر مسئول حافظ بھی ہوتا تو اپنے حافظے سے اس کی تصدیق و تائید کرتاتاکہ انہیں (زیدرضی اللہ عنہ کو)معلوم ہوسکے کہ آیا اس میں کوئی اور قراء ت ہے یا نہیں اور دوسری وجہ یہ بھی تھی کہ جب لکھتے وقت حافظ بھی اصل پر اعتماد کرے تو یہ زیادہ موزوں اور قابل اعتماد ہوتا ہے، کیونکہ مکتوب رسم الخط کے موافق لکھنا زیادہ بلیغ اورممکن الحصول ہے اور اس لیے بھی کہ خبر واحد کی بجائے قطعی طریقے سے حاصل ہونے والا علم زیادہ قوی اور پختہ ہوتا ہے۔
سوال کے دوسرے حصے کا جواب کہ زیدرضی اللہ عنہ کے قول:
’’ فقدت ایۃ لم أرھا مکتبوۃ اورلم أجدھا إلا عند رجل کا مطلب یہ ہے کہ:
’’وہ آیت مجھے لکھی ہوئی صرف ایک آدمی کے پاس سے ملی۔مزید اگر حضرت زیدرضی اللہ عنہ کے قول پر غور کیاجائے تو اس میں عند رجل (ایک آدمی کے پاس تھی) ہے نہ کہ فی حفظ رجل (صرف ایک حافظ کے علم میں تھی) اور یہ بھی یاد رہے کہ تواتر کتابت سے حاصل نہیں ہوتا بلکہ قراء کی تعداد توعدد تواتر سے کہیں زیادہ تھی۔ ‘‘
مذکورہ بالا تقریر سے یہ بات واضح ہوگئی کہ زید نے حدیث نبویﷺ کے مصداق منزل اَحرف سبعہ کی تمام معتبر وجوہ قراء ات(برابر ہے کہ وہ متفقہ تھیں یا مختلفہ) کو مصحف میں جمع کیا، کیونکہ حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ نے انہیں سارا قرآن جمع کرنے کا حکم دیا تھااور حروفِ سبعہ کا ہر ہرحرف قرآن مجیدہے، اگر ان میں سے کوئی ایک بھی رہ جاتا تومکمل نہ ہوتا۔امام شاطبی رحمہ اللہ نے اسی طرف اِشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے:
فقام فیہ بعون اﷲ یجمعہ
یاالقصح والجدوا لعزم الذی بھرا
من کل أوجہ حتی استتم لہ
بالسبعۃ الأحرف العلیا کما اشتھرا​
’’ حضرت زیدرضی اللہ عنہ نے اللہ کی مدد، جہد مسلسل اور عزم مصمم کے ساتھ امت کی خیر خواہی کو سامنے رکھتے ہوئے جمع قرآن کے کام کا بیڑا اٹھایا حتیٰ کہ انہوں نے احرف سبعہ کی تمام وجوہ معروفہ و مشہورہ کو مصاحف میں جمع کردیا۔‘‘
عہد عثمانی میں زید کا جمع کردہ مصحف کس کے پاس رکھا گیا؟ نیز عہد عثمانی میں اسی مصحف سے مزید مصاحف کس نے اور کیوں جمع کئے۔
حضرت زیدرضی اللہ عنہ نے قرآن مجید مکمل لکھ کر حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کو دے دیا۔ یہ قرآن انہی کے پاس تاوفات رہا۔ جب ان کی وفات کا وقت قریب آیا تو انہوں نے یہی نسخہ حضرت عمررضی اللہ عنہ کے سپرد کردیا جب عمررضی اللہ عنہ فوت ہوئے تو یہی مصحف حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کی تحویل میں دے دیا گیا۔ ابوبکررضی اللہ عنہ نے تو عمررضی اللہ عنہ کو نص کی وجہ سے منتقل کیا، لیکن عمررضی اللہ عنہ نے عثمان رضی اللہ عنہ کو یہ مصحف منتقل اس لیے نہیں کیا تھا، کیونکہ انہوں نے عثمان رضی اللہ عنہ کامعاملہ شوریٰ کے سپرد کردیاتھا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
نوٹ: اس سے مصحف کے حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس ہونے کی نفی نہیں ہوتی، کیونکہ یہ حضرت عمررضی اللہ عنہ کی وصیت تھی۔ حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے بھی مصحف کا حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس ہونا نقل کیا ہے۔
عہد عثمانی میں حذیفہ رضی اللہ عنہ ، آرمینیہ اور آذربائیجان کی لڑائی میں شریک ہوئے۔اتفاقاً یہ دونوں لڑائیاں ایک ہی سال میں ہوئی تھیں اور ان میں سے ہر دومیں شام اور عراق سے لشکر شامل ہوئے۔آرمینیہ کئی شہروں پرمشتمل ایک بہت بڑا شہر ہے۔یہ شمال کی طرف واقع ہے۔ یہ شہر اپنی خوبصورتی،معتدل آب و ہوا، کثیرپانی اور درختوں کی وجہ سے اپنی مثال آپ ہے۔ آذربائیجان یہ عراق کے مغربی پہاڑی سلسلہ کے مضافات میں آرمینیہ سے ملا ہواایک بہت بڑا شہر ہے۔
سیدناحذیفہ رضی اللہ عنہ نے اہل حمص جنہوں نے مقدادرضی اللہ عنہ سے قراء ت حاصل کی تھی کو دیکھا جوکہہ رہے تھے کہ ان کی قراء ت دوسروں سے بہتر ہے۔ اہل دمشق کی بھی یہی رائے تھی اور اہل کوفہ جنہوں نے ابن مسعودرضی اللہ عنہ سے قراء ت حاصل کی تھی کا بھی یہی حال تھا اور اہل بصرہ جنہوں نے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے قراء ت حاصل کی تھی ان کی بھی یہی حالت تھی اورمزید یہ کہ انہوں نے اپنے مصحف کا نام ’الباب القلوب‘ رکھا ہواتھا۔
حذیفہ رضی اللہ عنہ اس صورت حال سے گھبرا گئے۔ سیدھے مدینہ میں عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا اے امیرالمومنین! میں نے لوگوں کو قرآن میں یہود و نصاریٰ کی طرح اختلاف کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ ان میں سے ایک آدمی کھڑاہوتا ہے اورکہتا ہے کہ یہ فلاں کی قراء ت ہے اور ’الوسیلۃ‘ میں ہے لوگوں نے تو قرآن میں اختلاف کیا ہے۔ اللہ کی قسم مجھے ڈر ہے کہ کہیں انہیں بھی وہ چیز نہ آن لے جو اختلاف کی وجہ سے یہود و نصاریٰ کو آپہنچی تھی جب اہل کتاب کی طرح یہ کہا جائے گا کہ یہ فلاں کی قراء ۃ ہے اور یہ فلاں کی۔ آپ اس وقت کیا کریں گے لہٰذا اس سے پہلے کچھ کیجئے۔ چنانچہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے بارہ ہزار لوگوں کوجمع کیااور ان سے پوچھا تمہاراکیاخیال ہے اور ایک روایت میں ہے مجھ تک یہ خبر پہنچی ہے کہ لوگ ایک دوسرے پراپنی قراء ت کو ترجیح دے رہے ہیں، قریب ہے کہ یہ معاملہ کفر تک جاپہنچے بتاؤ تمہاری کیا رائے ہے لوگوں نے کہا جو آپ چاہیں(ویسا کریں) اور دوسری روایت میں ہے جیساکہ ’درہ‘ میں بھی ہے لوگوں نے جواب دیا جو آپ کی رائے وہی ہماری رائے ہے۔ آپ نے فرمایا میری رائے میں تو تمام لوگوں کو ایک مصحف پر اکٹھا کردیناچاہئے تاکہ اختلاف ختم ہوجائے تو لوگوں نے اتفاق رائے کا اظہار کیا۔ پھر آپ نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے مصحف منگوایا تاکہ اس سے مزید نقول تیارکی جاسکیں اور فرمایا یہ مصحف بعد میں واپس بھجوا دیں گے سو حفصہr نے مصحف عثمان بھجوا دیا۔ امام قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ واقعہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت کے دوسرے یا تیسرے سال ۲۵ہجری میں پیش آیا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
امام جزری رحمہ اللہ کے بقول یہ واقعہ ۳۰ ہجری کے لگ بھگ کا ہے۔ چنانچہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے انصار میں سے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ اور قریش کی ایک جماعت جن میں عبداللہ بن زبیر، سعید بن العاص، ابان بن سعید،عبدالرحمن بن حارث بن ہشام رضی اللہ عنہم شامل تھے کوجمع کیا اور کہا سب سے اچھا کون لکھتا ہے؟ جواب ملا کاتب رسول زید بن ثابت رضی اللہ عنہ ،پھر فرمایا سب سے زیادہ اِعراب کون جانتا ہے اور ایک روایت میں ہے سب سے زیادہ فصیح لہجہ کس کا ہے؟ انہوں نے کہا سعیدبن العاص رضی اللہ عنہ کا ۔سو آپ نے فرمایا سعیدلکھوائے اور زیدلکھے اور ان سے کہا اس مصحف سے مزید مصاحف تیار کرو۔ اس کمیٹی کا سربراہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو بنایا۔ سو صحابہ کرام نے بالاتفاق بغیر تقدیم و تاخیر اور نقص و زیادتی کے منزل قرآن مجید کو جبرئیل کی بتلائی ہوئی لوح محفوظ والی ترتیب کے مطابق دو گتوں کے درمیان کتابی شکل میں محفوظ کردیا۔
امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
صحابہ نے قرآن مجید بالکل اسی طرح تالیف کیا جس طرح انہوں نے نبیﷺ سے سنا تھا۔ حضرت زیدرضی اللہ عنہ عرضہ اَخیرہ میں آپ کے ساتھ موجود تھے اور اسی ترتیب کے ساتھ اپنی وفات تک لوگوں کو پڑھاتے رہے۔ اسی وجہ سے جمع قرآن کے معاملہ میں ابوبکررضی اللہ عنہ نے ان پر اعتماد کیا اورعثمان رضی اللہ عنہ نے بھی مصاحف کی کتابت انہی کے سپرد کی۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے زیدرضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کو حافظ ہونے کے باوجود مصحف صدیقی سے نقول تیارکرنے کا حکم دیا کیونکہ مصحف صدیقی کا اعتماد ان مکتوبات متفرقہ پر تھا جو نبیﷺ کے سامنے لکھے گئے تھے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے مصحف صدیقی کواصل بناکر قرآن میں قیل و قال کادروازہ ہمیشہ کے لیے بند کردیا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سوال:اگر کوئی یہ کہے کہ ممکن ہے مصاحف میں کچھ زائد لکھاگیا ہو یاقرآن کاکچھ حصہ لکھنے سے رہ گیاہو؟
جواب:اس کاجواب یہ ہے کہ اس کا یہ خیال باطل ہے، کیونکہ صحابہ نے جو کچھ لکھا اس کی صحت پر مصاحف دلالت کرتے ہیں۔ مزید یہ کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے زیدرضی اللہ عنہ کومنتخب کیااور ان کی سپردگی میں مصاحف کی کتابت کروائی جیساکہ پہلے گزر چکا ہے کہ شیخین نے بھی کتابت مصاحف میں انہی (زیدرضی اللہ عنہ) پر اعتماد کرتے ہوئے انہی کاانتخاب فرمایاتھا اور انہوں نے زیدرضی اللہ عنہ کے ساتھ ان کی مدد اور حصول عدالت کے لیے ایک جماعت مقرر کردی اور یہ جماعت قریشیوں پرمشتمل تھی کیونکہ قرآن اولاً ان کی لغت کے مطابق نازل ہوا تھا اور وہ اپنے ضبط کی خاص شہرت کی وجہ سے متعین کئے گئے۔
چنانچہ انہوں نے احرف سبعہ پر مشتمل پوراقرآن جو ۱۱۴ سورتوں پرمشتمل تھااورجس کی ابتداء الحمد سے اور انتہا الناس پر ہوتی ہے، کو جمع کیا۔ انہوں نے ہر ہرسورہ کے شروع میں ماسوائے سورہ توبہ کے بسم اﷲ الرحمن الرحیم لکھی۔
سورہ التوبۃ کی بسم اﷲ والی جگہ کومصحف صدیقی رضی اللہ عنہ جس کا اعتماد عہد نبوی کے مکتوبات متفرقہ پرتھا، کی اقتداء کرتے ہوئے خالی چھوڑا گیا اور اسی طرح انہوں نے سورتوں کے نام، نستعین،تعداد، اجزاء و احزاب اور آیات کے نشانات سے بھی ان مصاحف کو مصحف صدیقی رضی اللہ عنہ کی اقتداء میں خالی رکھا اور اسی طرح انہوں نے ہراس چیز کو جو قرآن نہ تھی ،سے ان کو خالی رکھا۔حالانکہ صحابہ میں سے بعض اپنے مصاحف میں آپ رضی اللہ عنہ سے مسموعہ تفسیری کلمات بھی لکھ لیا کرتے تھے۔
امام جزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’بسااوقات صحابہ کرام اپنے مصاحف میں تبیین و وضاحت کی خاطر تفسیری کلمات بھی لکھ لیا کرتے تھے کیونکہ وہ باخبر تھے اور قرآن و غیر قرآن کے التباس کا انہیں اندیشہ نہ تھا اور بعض لوگ تو قرآنی کلمات کے ساتھ ان تفسیری کلمات کو ملا کر لکھ لیاکرتے تھے۔ابن مسعودرضی اللہ عنہ اس عمل کو ناپسند کرتے اور لوگوں کو اس بات سے روکتے تھے چنانچہ مسروق سے مروی ہے کہ وہ (ابن مسعودرضی اللہ عنہ) قراء ۃ میں تفسیر کوناپسند کرتے تھے اور مسروق کے علاوہ ابن مسعودرضی اللہ عنہ سے نقل کیاگیا ہے کہ :
قرآن مجید کو تفسیری کلمات وغیرہ سے خالی رکھو اور غیر قرآن کو قرآن کے ساتھ خلط ملط نہ کرو۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مصاحف عثمانیہ کی بابت
قرآن مجید کن قراء توں پر مشتمل ہے۔
اس بات میں کوئی اختلاف نہیں کہ قرآن مجید کا بعض حصہ عرضۂ اَخیرہ میں منسوخ ہوا۔ اس بارے میں کئی ایک صحابہ کے اقوال و آثار موجود ہیں۔
امام جزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’زر بن حبیش رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں مجھ سے ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا آپ کون سی دو قراء تیں پڑھتے ہیں۔ میں نے کہا عرضہ اَخیرہ کے مطابق پڑھتاہوں۔پھر کہا کہ نبی جبریل علیہ السلام سے ہرسال دور کیا کرتے تھے، لیکن آپ نے زندگی کے آخری سال دو مرتبہ دور کیا۔ عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ نے بھی اس بات کی تائید کی اور ان کی قراء ت اس کے مطابق تھی جو عرضۂ اَخیرہ میں باقی رکھا گیا‘‘۔ (النشر فی القراء ات العشر)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو جب کامل تسلی ہوگئی کہ یہ قرآن ہے، آپ سے منقول ہے اور عرضہ اخیرہ میں اسے منسوخ نہیں کیا گیا تب انہوں نے اسے مصاحف میں لکھا اور جو اس کے علاوہ تھا اس کو چھوڑ دیا۔ مثلاً فامضوا وکان یأخذ کل سفینۃ صالحۃ غصبا۔ وأما الغلام فکان کافراً وغیرہ وغیرہ۔
صحابہ رضی اللہ عنہم نے متعدد مصاحف تیار کئے، کیونکہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ان مصاحف کو حکومتی سطح پربڑے بڑے شہروں میں نافذ کرنے کاارادہ رکھتے تھے۔ چنانچہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنے امراء کی طرف مصاحف بھجوائے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے اثبات و حذف والے کلمات کو مصاحف میں متفرق طور پر لکھ دیا، کیونکہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ احرف سبعہ پر مشتمل مصاحف کاارادہ رکھتے تھے لہٰذا کاتبین نے کلمات میں وہ رسم الخط اختیار کیا جس سے متعدد قراء ات سمجھی جاتی تھیں۔مثلاً فتبینوا۔ ننشرھا۔ اف۔ ھیت۔ أخویکم۔کومصاحف میں اسی طرح لکھ دیا۔
اور کچھ کلمات ایسے تھے جو مختلف قراء ات میں مختلف تھے اور ان کو جمع کرنا ممکن نہ تھا لہٰذاصحابہ نے ان کلمات میں سے بعض کو بعض مصاحف میں اوربعض کو بعض مصاحف میں لکھ دیا۔مثلاً وأوصیٰ،ووصیٰ۔ سارعو، وسارعو۔ وبالزبر وبالکتاب،والزبر والکتاب۔ خیراً منھا، خیراً منھما۔ فتوکل، وتوکل۔ شرکائیھم، شرکائھم۔ تجری تحتھا، تجری من تحتھا۔اشد منکم۔ اشد منھم۔ بما کسبت، فبما کسبت۔ فان اﷲ ھو الغنی، فإن اﷲ الغنی۔ وغیرہ۔
مذکورہ طرز کے کلمات کو متفرق طور پرمصاحف میں لکھ دیا گیا۔اگر ان کلمات کی ایک صورت اصل اوراق پر اور ایک حاشیہ میں لکھ دی جاتی تو شایدسمجھا جاتاکہ حاشیہ میں غلط کی تصحیح کی گئی ہے۔ اگر یکے بعد دیگرے ان کلمات کو اصل میں لکھاجاتاتو ان کلمات کے اسی طرح نازل ہونے کاشبہ ہوسکتا تھا۔(لہٰذا اس طرح کے کلمات کو متفرق طور پرلکھ دیا گیا تاکہ اختلاف کاہرذریعہ مسدودکیاجائے)
 
Top