• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جمہوریت ایک دینِ جدید

شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
جمہوریت ایک دینِ جدید

تحریر:شیخ الاسلام امام ابو یحییٰ اللیبی رحمہ اللہ (حسن قائد)

الحمد للّٰہ والصلاۃ والسلام علیٰ رسول اللّٰہ وصلِ علیٰ آلہ و صحبہ و من والاہ۔
و بعد!
ہر مسلمان جو اللہ کے رب ہونے، اسلام کے دین ہونے اور محمد ﷺکے نبی ہونے پر راضی ہے، اور ان جملوں کے حقیقی معانی سے آگاہ ہے،اسے مکمل طور پر اس بات کا ادراک ہوگا کہ دین اسلام فی ذاتہٖ ایک مکمل دین ہے، اس میں کوئی کمی یا نقص نہیں کہ جس کی تکمیل کی جائے، اور یہ ایسا دین ہے جو زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کئے ہوئے ہے،اس کے دامن میں انسانیت کی فلاح و بہبود کا تمام سامان موجود ہے لہٰذا اسے کسی دوسرے نظریے کے ساتھ خلط ملط کرنے کا نہ تو کوئی جواز ہے اور نہ ضرورت۔

یہ دین عقائد کے اعتبار سے بھی کامل ہے اور احکامات کے لحاظ سے بھی مکمل اسی طرح عبادات، معاملات ، سیاسیات، عدل و انصاف، اخلاقیات اور اقدار. غرض ہر معاملے میں مکمل اور واضح ہے اور اپنے تمام ضابطوں اور ان کے حصول و تنفیذ کے لیے یہ کسی خارجی معاون کا محتاج نہیں ہے ۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا۔(المائدہ : ۳)
’’آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا ، اپنی نعمت تم پر تمام کر دی اور اسلام کو تمہارے لیے بطور دین پسند کر لیا ۔‘‘

اور نبی ﷺکا فرمان ہے :
’’انی قد ترکت فیکم ما ان اعتصمتم بہ فلن تضلوا أبداً، کتاب اللہ و سنۃ نبیہ‘‘۔ (الحدیث رواہ الحاکم)
’یقیناً میں تمہارے درمیان ایسی چیز چھوڑے جارہا ہوں کہ اگر تم اس سے چمٹے رہو تو ہرگز کبھی گمراہ نہ ہوگے ، اللہ کی کتاب اوراس کے نبی ﷺکی سنت۔‘(مستدرک حاکم)

اور یہ دینِ اسلام کے مکمل ہونے کا ثبوت ہے جس کی بناء پر ہر اختلاف کی صورت میں کتاب و سنت کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیا گیا ہے ، کیونکہ اگر کسی اور چیز کی ضرورت ہوتی اورکتاب و سنت کامل نہ ہوتے تو پھر ان کی طرف رجوع کرنے کا حکم بے معنی اور لغو ہوتا۔ ( تعالیٰ اللہ عن ذالک )

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
’’يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الأمْرِ مِنْكُمْ فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلا ‘‘(النسآء : ٥٩)
’’اے ایمان والو ! اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول ﷺکی اطاعت کرو اور اولوالأمر )صاحبان اختیار( کی جو تم میں سے ہوں ، البتہ جب کسی چیز میں تمہارے درمیان اختلاف و تنازع پیدا ہوجائے تو اسے اللہ اور اس کے رسول ﷺکی طرف لوٹاؤ اگر تم اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو ، یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر اور انجام کے اعتبار سے زیادہ اچھا ہے۔ ‘‘

علماء کرام بیان فرماتے ہیں اللہ کی طرف لوٹانے کا معنی اس کی کتاب کی طرف لوٹانا ہے، اور اس کے رسول ﷺکی طرف لوٹانے کا مطلب ان کی سنت کی طرف رجوع کرنا ہے ۔ اور اللہ کا فرمان ہے :
’’ وَمَا اخْتَلَفْتُمْ فِيهِ مِنْ شَيْءٍ فَحُكْمُهُ إِلَى اللَّهِ ‘‘(الشوری:١٠)
’’ اور تم جس چیز میں اختلاف کرتے ہو اس کا فیصلہ اللہ کی طرف سے ہوگا ‘‘۔

لہٰذا شریعتِ اسلامی سے ہٹ کر جس چیز کی بھی اتباع کی جائے وہ خواہشاتِ نفس کی اتباع ہی کہلائے گی ، خواہ اُسے کوئی خوب صورت نام دے کر اس میں کیسی ہی خوبیاں کیوں نہ گنوائی جائیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
’’ ثُمَّ جَعَلْنَاكَ عَلَى شَرِيعَةٍ مِنَ الأمْرِ فَاتَّبِعْهَا وَلا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ ‘‘(الجاثیہ:١٨)
’’ پھر ہم نے تمہیں دین کے کھلے راستے پر(قائم) کر دیا تو اسی (راستے) پر چلو اور نادانوں کی خواہشات کے پیچھے نہ چلنا۔‘‘

اور فرمایا :
’’ فَلِذَلِكَ فَادْعُ وَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ وَلا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ ‘‘(الشوری:١٥)
’’تو (اے محمد )ﷺ اسی (دین) کی طرف( لوگوں کو)بلاتے رہنا اور جیسا تمہیں حکم ہوا ہے (اسی پر ) قائم رہنا اور ان کی خواہشوں کی پیروی نہ کرنا ‘‘۔

اور فرمایا :
’’ وَإِنْ كَذَّبُوكَ فَقُلْ لِي عَمَلِي وَلَكُمْ عَمَلُكُمْ أَنْتُمْ بَرِيئُونَ مِمَّا أَعْمَلُ وَأَنَا بَرِيءٌ مِمَّا تَعْمَلُونَ ‘‘(یونس : ٤١)
’’تو اگر یہ آپ کی تکذیب کریں تو کہہ دیجئے کہ میرے لیے میرا عمل اور تمہارے لیے تمہارا عمل ہے،تم میرے عمل سے بری اور میں تمہارے عمل سے بری ولا تعلق ہوں‘‘

راہ حق صرف ایک ہے، جو انتہائی واضح اور ثابت شدہ ہے ، جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے بطور دین پسند فرمایا ہے، اور اس کے سوا کوئی راہ بھی عند اللہ مقبول نہیں ہے، اور اس واحد راہ کا نام. دین اسلام ہے۔ اس کے بر عکس گمراہی و خواہشات کی بہت سی راہیں اور طریقے ہیں۔ جن کی پیداوار اور نوعیت ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی اور پھیلتی جارہی ہے ،لیکن دین اسلام کے سوا تمام راہیں یکسر غلط و باطل ہیں، خواہ وہ کسی بھی نام یا بہروپ کے ساتھ سامنے آئیں۔ باطل بہر حال باطل ہی کہلاتا ہے خواہ اس کا نام حق ہی کیوں نہ رکھ دیا جائے۔
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’ وَأَنَّ هَذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ وَلا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيلِهِ ذَلِكُمْ وَصَّاكُمْ بِهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ‘‘(الانعام : ١٥٣)
’’ اور ()اے پیغمبر ﷺ ! ان سے کہہ دیجیے) کہ یقینا میرا راستہ سیدھا راستہ ہے، پس تم اس کی پیروی کرو اور اس کے سوا دیگر راستوں کی پیروی مت کرو کہ وہ تمہیں اس راہ (حق)سے ہٹا دیں گے ،اللہ تعالیٰ تمہیں اس بات کی وصیت کرتا ہے تاکہ تم متقی بن جاؤ۔‘‘

عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے ہمارے سامنے ایک لکیر کھینچی اور پھر فرمایا :
’’یہ اللہ کا راستہ ہے۔‘‘

پھر اس کے دائیں بائیں کچھ لکیریں کھینچیں اور فرمایا :
’’ یہ مختلف راستے ہیں جن میں سے ہر ایک پر شیطان بیٹھا ہے جو لوگوں کو اِن کی طرف دعوت دے رہا ہے۔‘‘

پھر آپ ﷺ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی:
’’ وَأَنَّ هَذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ وَلا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيلِهِ ذَلِكُمْ وَصَّاكُمْ بِهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ‘‘۔(مسند احمد )

جب تک امت مسلمہ نے اس راہ حق کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے رکھا اور عملی طور پر اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی میں اسے مضبوطی کے ساتھ تھامے رکھا، تب تک آسمانوں سے مدد اور نصرت اترتی رہی، خلافت و تمکن حاصل ہوئے، اور دشمنوں پر اس کی ہیبت بیٹھی رہی۔ مگراس کے برعکس امت نے جب بھی حق سے منہ موڑا تو اللہ کی نصرت اور خلافت و تمکین کا استحقاق بھی کھو دیا۔ اگر کسی کو اس بات میں شک ہو تو شریعت کا مطالعہ کرکے یہ حقیقت معلوم کر سکتا ہے۔ اور اس پر بھی تسلی نہ ہو تو امتِ مسلمہ کی سابقہ تاریخ اور موجودہ حالتِ زار کا مشاہدہ کرنے کے بعد تو کچھ تذبذب بھی باقی نہیں رہتا۔

ہر مسلمان کے پیشِ نظر یہ بات رہنی چائیے کہ اس حوالے سے ادنیٰ سا اضطراب اور اس حقیقت کے فہم اور علم میں تھوڑا سا تذبذب بھی گمراہی در گمراہی کا باعث بن سکتاہے۔ ایک قدم پر انحراف کا نتیجہ ہر اگلے قدم پر ایک اور انحراف کی صورت میں نظر آتا ہے۔ ایک بگاڑ سے مزیدبگاڑ پیدا ہوتے ہیں۔ ایک فتنے سے دوسرا فتنہ جنم لیتا ہے۔ اور پھر گمراہی کا یہ سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لیتا۔

اس لیے نبی ﷺنے جہاں راہ ِ ہدایت اور ہدایت یافتہ لوگوں کی سنت کو تھامنے کا حکم دیا ہے وہاں آپ ﷺنے نت نئی گمراہیوں اور بدعات سے دور رہنے کا حکم بھی دیا ہے ۔حدیث میں آتا ہے :
’’فانہ من یعِش منکم فسیریٰ اختلافاً کثیرا ً فعلیکم بسنتي و سنۃ الخلفآئ الراشدین المھدیین تمسکوا بہا و عضوا علیہا بالنواجذ وایاکم و محدثات الأمور فأن کل محدثۃ بدعۃ و کل بدعۃ ضلالۃ‘‘(مسند احمد، ابو داؤد)
’’جو تم میں سے زندہ رہا وہ بہت سے اختلافات دیکھے گا۔ تو اس وقت تم میری سنت اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت (طریقے) کو تھام لینا اور اس کو اپنی داڑھوں کے ساتھ مضبوطی سے پکڑ لینا۔اور دین میں نئی باتوں سے خود کوبچالینا۔ کیونکہ ہر نئی بات بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔

لہٰذا ہر مسلمان کو چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کو اپنے دل کی گہرائیوں میں بسالے!
’’ فَاسْتَمْسِكْ بِالَّذِي أُوحِيَ إِلَيْكَ إِنَّكَ عَلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ ‘‘(الزخرف۔ ٤٣)
’’ پس تم اس بات کو مضبوطی سے تھام لو جو تمہاری طرف وحی کی گئی ہے ،پھر یقینا تم صراط مستقیم پر ہوگئے‘‘
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
مومن کوچاہیے کہ اسی صراطِ مستقیم کو اپنے لیے صد افتخار سمجھے ،اسی کی طرف لوگوں کو دعوت دے ، اسی کے لیے ہر قسم کی قربانی دے اور اس کے نشرکے لیے ہر قسم کی تکلیف و صعوبت برداشت کرے۔اس کے ماسوا کی طرف ادنی سے التفات سے بھی بچے ۔ خواہ اس کے ثبوت کے لیے کیسی ہی ملمع ساز دلیلیں کیوں نہ ہوں۔ کیونکہ ترکِ حق کے بعد تو صرف باطل ہی باقی بچتا ہے۔ باطل کی طرف بلانے والوں کی خوش رنگ باتوں اور جمہوری دلدل میں ڈوبتے لوگوں کی کثرت دیکھ کر کسی فتنے کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ نہ ہی اس بات کو خاطر میں لائیں کہ کتنے ممالک، انجمنیں اور تنظیمیں اس باطل کے نفاذ و ترویج کے لیے کو شاں ہیں۔ باطل باطل ہی ہے چاہے کوئی بھی اس کی طرف بلائے یا اس کی تابعداری کی دعوت دے۔ اور کوئی مانے نہ مانے، حق تو حق ہی ہوتا ہے۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
’’ فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنْتُمْ بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوْا وَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا هُمْ فِي شِقَاقٍ فَسَيَكْفِيكَهُمُ اللَّهُ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ‘‘(البقرہ : ١٣٧ )
’’تو اگر یہ لوگ بھی اسی طرح ایمان لے آئیں جس طرح تم ایمان لے آئے ہو تو ہدایت یاب ہوجائیں اور اگر منہ پھیر لیں تو (جان لوکہ) وہ گمراہی میں ہیں۔ سو ان کے مقابلے میں تمہیں اللہ ہی کافی ہے اور وہ بہت سننے والا اور جاننے والا ہے۔‘‘

اور فرمایا:
’’ وَأَنِ احْكُمْ بَيْنَهُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ وَلا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ وَاحْذَرْهُمْ أَنْ يَفْتِنُوكَ عَنْ بَعْضِ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ إِلَيْكَ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَاعْلَمْ أَنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ أَنْ يُصِيبَهُمْ بِبَعْضِ ذُنُوبِهِمْ وَإِنَّ كَثِيرًا مِنَ النَّاسِ لَفَاسِقُونَ ‘(المائدہ: ٤)
’’ اور ان کے درمیان اللہ کی نازل کردہ شریعت کے مطابق فیصلہ کیجئے ، اور ان کی خواہشات کی پیروی مت کیجئے اورمحتاط رہیے کہ یہ آپکو اللہ کی طرف سے نازل کردہ کسی حکم سے بہکا نہ دیں،پھر اگر یہ روگردانی کریں تو جان لیجئے کہ اللہ ان کے بعض گناہوں کی وجہ سے انکو مصیبت میں ڈالنا چاہتا ہے، اور یقینا بہت سے لوگ نافرمان ہیں ‘‘۔

اور جس نے اس حقیقت کا ادراک کر لیا اور خالی الذہن ہوکر خالص شرعی نکتہ نگاہ سے اِسے سمجھ لیا اور خواہشات کی لپیٹ میں آنے سے بچ رہا تو اس کے لیے نت نئے نظریات اورسیاسی و انتظامی افکار کو صحیح تناظر میں سمجھنا آسان ہو جاتا ہے۔ اس کے لیے ممکن ہے کہ بغیر کسی تردد یا تحیّر کے ان پردرست حکم لگا سکے۔ تاکہ جسے ہلاک ہوناہو وہ واضح دلیل کی روشنی میں ہلاک ہو اور جو زندہ رہے وہ دلیل کی برکت سے زندہ رہے۔

عصرِ حاضر کی عظیم ترین مصیبت اور دینِ اسلام کو درپیش بڑی آزمائش مغرب کا یہ کفریہ نظام ہے جسے جمہوریت کہا جاتا ہے۔ اس کی پیدائش سر تا پا کفر میں غرق مغرب میں ہوئی، اس کی پرورش مغرب کے حیا سے عاری ماحول نے کی .اور فسق و فجور میں ڈوبی اس دنیا میں ہی یہ نظام اوجِ کمال تک پہنچا۔ اور آج یہ نظام مسلمانوں کی غفلت ، ان کی حکومت کے ارتداد اور ان کے معاشروں کی کمزوری کے باعث مسلمان معاشروں میں پھیل چکا ہے۔ اس کے پھیلاؤمیں علماء کی خاموشی اور عوام کی جہالت نے بھی گہرا حصہ ڈالا ہے۔ الا من رحم اللہ۔

معاشرے میں صالح قوتوں کے فقدان کی وجہ سے جمہوریت کو مسلم علاقوں میں اپنے جھنڈے گاڑنے اور زہریلے عقائد پھیلانے کا موقع ملا۔ ہمارے ہاں دو قسم کے لوگوں نے اس کے لیے اپنا دامن پھیلا دیا اور بسروچشم اسے قبول کیا۔ ایک تو بیوقوف اور نادان لوگ جو اس کفریہ نظام کے خوش نما دعوؤں سے دھوکے کا شکار ہوگئے اور دوسری قسم دھوکے باز مفسدین کی ہے جنہوں نے جان بوجھ کر اپنی قوم کوہلاکت کی راہ پر ڈال کر ان کو جان کنی کی حالت تک پہنچا دیا۔ ،لہٰذا شورٰی کے نام پر کفر اکبر نے رواج پکڑا، آزادی کے نعروں میں فحاشی پروان چڑھی، آزادیٔ اعتقاد کے بھیس میں الحاد و زندقہ نے جڑ پکڑی، حریتِ فکر کے نام پر جاہلوں میں دین پر طعن و تشنیع کی جرأت پیدا ہوئی اور آراء کے تنوع وتعدّد کی دلیل پر یہ امت مختلف گروہوں میں بٹ گئی۔ اور ان تمام قباحتوں کے باوجود اس دینِ جدیدکی حمایت میں منبر و محراب تک سے آوازیں بلند ہورہی ہیں۔ ہر قسم کے پڑھے ،سنے اور دیکھے جانے والے وسائلِ نشر و توزیع لوگوں کو اس دینِ جدید کو قبول کرنے کی دعوت دے رہے ہیں اور فوجوں کی فوجیں اس دین کی حمایت اور تنفیذ کی خاطرجمع کی جارہی ہیں۔

اللہ کی قسم !یہی دینِ جمہوریت عصرِ حاضر کا سب سے بڑا بت اورفتنہ ہے جسکی آگ نے اسلام کے روشن چہرے کو گہنا دیا ہے اور اس شفاف چشمۂ ہدایت کو گدلادیا ہے اور اگر فساد فی الارض سے روکنے والے کچھ بچے کھچے اہل علم و ایمان نہ ہوتے، تو اس دینِ متین کو اس کے نام لیوائوں ہی کے ہاتھوں اکھیڑا جاچکا ہوتا اور اس عظیم محل کی بنیادیں تعمیر کرنے والے کدالوں ہی سے اسے زمین بوس کردیا جاتا۔ لیکن اللہ ربّ العزّت کا ارادہ یہی ٹھہرا کہ اپنے دین کی حفاظت کرے اور اپنی شریعت کو باقی رکھے اور اس مقصد کے لیے اپنے کچھ ایسے بندوں کو کھڑا کرے جو اپنی زبان اور تلوار سے اس دین کے دفاع کا فریضہ سر انجام دیتے رہیں اور نبی ﷺکے اس فرمان کا مصداق بنیں
’’لا تزال طائفۃ من امتي قائمۃ بأمر اللہ لا یضرھم من خذلھم ولا من خالفھم حتیٰ یأتی امر اللہ و ھم ظاھرون علیٰ الناس‘‘(متفق علیہ)
’’میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ اللہ کے حکم پر قائم رہے گا، انہیں بے یارو مددگار چھوڑنے والے اوران کی مخالفت کرنے والے انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے یہاں تک کہ اللہ کا امرِ )قیامت( آ جائے گا جبکہ وہ لوگوں پر غالب ہونگے۔‘‘
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
باقی رہی یہ بحث کہ جمہوریت آخر ہے کیا چیزجسے مغربی سیاستدان ہم پر لاگو کرنا چاہتے ہیں ، سیکولر طبقے اس کے فروغ کے لیے تڑپے جا رہے ہیں اور جاہل مسلمان بھی اس کے پیچھے سرپٹ بھاگے جارہے ہیں۔ بلکہ ان میں بہت سے مدعیانِ علم تو اس اجنبی اورمتعفن نظام کو اسلامائز کرکے اسے شرعی سہارا دینا چاہتے ہیں۔ اس کج فہمی کی وجہ سے، کہ اسلام اور جمہوریت ایک ہی حقیقت کی مختلف تعبیریں ہیں ہمیں کئی عجیب کلمات سننے کو ملتے ہیں۔ جیسے جمہوری اسلام. یا اسلامی جمہوریت، یہ اور ایسی ہی دیگر عبارات جو جہلِ مرکب کی پیداوار ہیں اگرچہ کہ ان کے قائلین اعلیٰ فہم و فراست کے دعوایدار ہی کیوں نہ ہوں ۔

جب ہم جمہوریت کا جائزہ لیتے ہیں تو اس حقیقت تک پہنچتے ہیں کہ جمہوریت تو ایک مکمل و مستقل دین ہے۔ دیگر ادیان کی طرح اس کے اپنے مفاہیم ، اصول و قواعد ،نظریات اوراقدار ہیں۔ اس حقیقت کو جان لیا جائے تو بیان کردہ عبارتوں کی قباحت و بدصورتی مزید نمایاں ہوجاتی ہے۔ یہ تو ایسا ہی ہوگا جیسے کوئی کہے یہودی اسلام، عیسائی اسلام، اسلامی یہودیت، اسلامی نصرانیت یا اسلامی مجوسیت۔ کیا اس روئے زمین پر کوئی جاہل اور گناہ گار مسلمان ایسا بھی ہوگا جو ان ناموں کو قبول کر نے کے لیے تیار ہو؟ یا اپنے لیے بطورِ دین انہیں پسند کرے؟یقینا زمین کے کسی دور دراز کنارے پر بسنے والی ایک بوڑھی مسلمان خاتون، کہ جسے نئی تہذیب اور ثقافت کے جراثیم نہ پہنچے ہوں وہ بھی یہ کلمات سنتے ہی فوراً ہی ان کے شر سے اللہ کی پناہ مانگے گی۔ اور یہ کلمات ان کے کہنے والوں کے منہ پر دے مارے گی اور کہے گی کہ مجھے ایسا کوئی دین نہیں چاہئے۔ سمندر یا فضا میں کھیت اگ سکتے ہیں؛ یہ بات شاید اس عورت کو اس عبارت کو تسلیم کروانے سے زیادہ آسان ہو۔ اگر آپ کو اس بات میں کوئی شک ہو تو تجربہ کرکے دیکھ لیجئے۔

تو پھر ہم جمہوریت کو اسلام کے ساتھ جوڑنے کی مذموم کوشش کیوں کریں؟۔ جبکہ یہ بات ہمیں سخت ناپسند ہے اور ہر مسلمان بھی اس بات کو سخت نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے کہ اسلام کو یہودیت، عیسائیت یا مجوسیت کے ساتھ جوڑا جائے۔

لہٰذا اس بات کو سمجھنا ضروری ہے کہ جمہوریت ہر اعتبار سے دینِ اسلام کی ضد ہے اور اسلام مخالف ادیان کی طرح ایک مکمل دین ہے۔ جمہوریت کی اس حقیقت کو جاننا اس لئے لازم ہے کہ وہ لوگ جو اس دینِ جدید کے پھیلائے جال میں الجھ کر رہ گئے ہیں انہیں اس بات کا حقیقی ادراک ہوسکے کہ جب وہ جمہوریت کے تانے بانے اسلام کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں تو درحقیقت اسلام کی توحید کو جمہوریت کے شرک کے ساتھ اور اسلام کے نور کو جمہوریت کے اندھیروں کے ساتھ ملانے کے جرمِ عظیم میں ملوث ہوتے ہیں۔ بھلا اسلام کی اعلیٰ اقدار ، پاکیزہ اخلاق اور عدل و انصاف کا خود ساختہ جمہوریت کے ظلم و جبر اور بے انصافیوں سے کیا تعلق؟ کیا تاریکوں کا رشتہ اجالوں کے ساتھ جوڑا جاسکتا؟ کیا اللہ کی غلامی و عبودیت (اسلام)اور خواہشاتِ نفس کی پیروی (جمہوریت) ایک ہوسکتے ہیں؟

لہٰذا جمہوری اسلام کے دعویداروں سے ہمارا پہلا سوال تو یہ ہے کہ تم ڈیموکریسی کا لفظ اسلام میں ثابت کرکے دکھلاؤ۔ اس مقصد کے لیے عربی لغت کی تمام کتابیں چھان مارو، تمام اشعار عرب کو پڑھ کر دیکھ لو ، اہل فصاحت و بلاغت میں سے جس سے چاہو پوچھ لو بلکہ گاؤں میں رہنے والی بوڑھی عرب خواتین سے پتہ کر لو اور بادیہ نشین دیہاتیوں سے استفسار کرلو۔ کیا اصل وفصیح لغتِ عرب میں تمہیں ڈیموکریسی کا لفظ مل سکتا ہے؟ فصیح تو کجا غیر فصیح عرب لغت میں بھی تم یہ لفظ نہیں پاؤ گے۔ ثابت ہوا کہ یہ لفظ ہماری زبان میں اجنبی ہے جو مغرب سے درآمد شدہ ہے۔ اسے گھڑنے والوں کے نزدیک اس کے خاص اصطلاحی معنی ہیں جن سے اسے علیحدہ نہیں کیا جاسکتا۔ ہماری زبان میں ان معنی کو’’ عوام کی حاکمیت‘‘سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ اسی ایک فقرے میں جمہوریت کا نچوڑ اور خلاصہ موجود ہے اور اگر اس معنی کو جمہوریت سے نکال دیا جائے تو جمہوریت کا وجود ہی باقی نہیں رہتا۔تمام جمہوری نظام اگرچہ متعدد راہیں رکھتے ہیں لیکن ان سب کی منزل ایک ہے۔ یعنی’’ عوام کی حاکمیت‘‘ ۔ کوئی بھی مسلم یا غیر مسلم یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ میں جس جمہوریت کو مانتا ہوں وہ اِس معنی سے عاری ہے اور عوام کی حاکمیت کا اقرار نہیں کرتی۔ اور اگر کوئی عقل سے عاری شخص یہ دعویٰ کرتا ہے تو اس کا حال اُسی شخص کی طرح ہوگا جو یہ کہے کہ میں ایسی یہودیت کی طرف دعوت دے رہا ہوں جو اپنے بنیادی مضامین و معانی سے خالی ہے۔ تو کیا ایسے شخص کے دعوے کی تصدیق کی جائے گی؟ کیا کوئی مسلمان ایسی یہودیت کو قبول کرنے کے لیے تیار ہوگا؟
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
دینِ جمہوریت میں عوام کو حاکم تصور کیا جاتا ہے، اس طور پر کہ عوام کی طاقت ہی اصل طاقت ہے اور عوام کا فیصلہ ہی نافذ العمل ہے۔ عوام کا ارادہ ہی دینِ جمہوریت میں رائج ہوگااور عوام کے قوانین ہی لاگو و قابلِ احترام ہوں گے۔ اس نظام کے مطابق کسی کو جرأت نہیں کہ عوام کے حکم پر نظرِ ثانی کر سکے یا ان کے فیصلے کو ٹال سکے، گو کہ عوام اپنی حکمرانی میں کسی کے سامنے جوابدہ نہیں ہوں گے۔

مجھے یہ بات بھی معلوم ہے کہ کوئی مسلمان بھی ان کلمات کو پسندنہیں کرے گا۔ بلکہ انہیں انتہائی نا پسندیدگی اور نفرت و ملامت کی نگاہ سے دیکھے گا۔ اور اللہ کی قسم!یہ نفرت کے حقدار ہی ہیں. اور ملامت کے حقدار تو وہ لوگ ہیں جو اسلامی جمہوریت کا راگ الاپتے ہیں اور عوام کے سامنے اس کی اصل حقیقت کا اظہار نہیں کرتے اور جمہوریت کے بدصورت چہرے کا نقاب نہیں الٹتے بلکہ فاسد تاویلات اور حیلہ سازیوں کے ذریعے اس کی قباحتوں پر پردہ ڈالتے اور اسے مستحسن قرار دیتے ہیں۔ لا حول ولا قوۃ الا باللہ۔

چونکہ یہ نا ممکن ہے کہ تمام عوام کو ایک میدان میں جمع کردیا جائے تاکہ وہ اپنی اجتماعی یا اکثر یتی رائے سے قانون سازی کرسکیں، لہٰذا مغرب نے اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ایک خاص نظام وضع کیا ہے۔ اس نظام میں عوامی نمائندے عوام کی مرضی اور رائے سے منتخب ہوکر ان کی ترجمانی کرتے ہیں، اور اس مقصد کے لیے پارلیمان کو تشکیل دیا جاتا ہے جس کا ہر رکن اپنے حلقے کے عوام کا ترجمان اور قائم مقام ہوتا ہے ،اس کی رائے عوام کی رائے سمجھتی جاتی ہے اور اس کا فیصلہ عوامی فیصلہ کہلاتا ہے ، جمہوری نظام میں پارلیمنٹ ہی قانون سازی کا بالاتر ادارہ ہوتا ہے اور اسے ہر طرح کے قانون بنانے کی کھلی آزادی ہوتی ہے صرف اس شرط پر کہ وہ قانون آئین سے متصادم نہ ہوں۔ )یہ بات پیشِ نظر رہے کہ پاکستان کے آئین میں پارلیمان کی دو تہائی اکثریت کے ذریعے سے ترمیم واضافہ کیا جاسکتا ہے۔(مترجم۔اس شرط کا لحاظ رکھنے کے بعد پھر پارلیمان کو کھلی چھوٹ ہے کہ شریعت کے مطابق یا مخالف، جیسے چاہے قانون بنائے کیونکہ یہ عوام کا منتخب شدہ ادارہ ہے اور جمہوریت یہ کہتی ہے کہ حاکمیت صرف عوام کا حق ہے۔ لہٰذا اس پر کسی کو اعتراض کرنے یا تلملانے کا حق نہیں ہے۔ الاسآء مایحکمون )بہت برا ہے جو یہ فیصلہ کرتے ہیں)۔

پارلیمان کی ذمہ داری ہی یہ ہے کہ قانون سازی کرے ، خواہ اس کا نام پارلیمنٹ ہو، دستور ساز اسمبلی یا ایوانِ نمائندگان۔ یہ ایک ہی ادارے کے مختلف نام ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا:
’’ مَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِهِ إِلا أَسْمَاءً سَمَّيْتُمُوهَا أَنْتُمْ وَآبَاؤُكُمْ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ بِهَا مِنْ سُلْطَانٍ إِنِ الْحُكْمُ إِلا لِلَّهِ أَمَرَ أَلا تَعْبُدُوا إِلا إِيَّاهُ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لا يَعْلَمُونَ ‘‘(یوسف: ٤٠)
ترجمہ: ’’ تم اُس (ذ اتِ باری تعالیٰ) کے سوا صرف ناموں ہی کی عبادت کرتے ہو جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے مقرر کئے ہیں ،جبکہ اللہ تعالیٰ نے ان کی کوئی دلیل نازل نہیں کی،حکم تو صرف اللہ کے لیے خالص ہے ، اس نے حکم دیا ہے کہ تم اس کے علاوہ کسی کی عبادت مت کرو، یہی مضبوط اور مستحکم دین ہے،لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے‘‘۔
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
جس کے دل میں ایمان کا نور موجود ہے اسے یقین کی حد تک یہ معلوم ہے کہ یہ دین ِ جدید )جمہوریت ( ایک لحظے کے لیے بھی نہ تو دل و دماغ میں اور نہ ہی عملی زندگی میںایمان کے ساتھ جمع ہوسکتا ہے۔ جب کوئی شخص اس دینِ جدید )جمہوریت ( کو قبول کرتا ہے تو دوسرے دین کو منہدم کرکے ہی نئے دین میں داخل ہوتا ہے۔ جس نے یہ حقیقت جان لی، سو جان لی اور جو اس حقیقت سے جاہل رہا، سو جاہل رہا۔ اور بہت بری ہے وہ جہالت جو انسان کو ایمان کی سربلندی سے اٹھا کر کفر کی کھائیوں میں جاگراتی ہے اور اسے خبر تک نہیں ہوتی۔

یہ حقیقت ہر اس شخص پر واضح اور عیاں ہوچکی ہے جو حق سے عناد اور بغض نہیں رکھتا۔ البتہ مزید وضاحت کے لیے ہم جمہوریت کے بعض اہم امور کا تذکرہ کرنا چاہیں گے جو دین اسلام سے مکمل تضاد رکھتے ہیں۔ یہ اس لیے تاکہ ہمیں اس عظیم جرم کا ادراک ہوسکے جسے جمہوری اسلام کے دعویدار اسلام اور مسلمانوں کے سروں پر مسلط کر کے انہیں ہلاکت کی راہوں پر دھکیلانا چاہتے ہیں، بلکہ دھکیل چکے ہیں اور آج حیرت و اضطراب اور نحوست و عذاب کی شکل میں امتِ مسلمہ اس جمہوری تماشے کا مزہ چکھ رہی ہے۔

اولاً : وہ بنیادی اصول جس پر اسلام کی عمارت کھڑی ہے، یہ ہے کہ اللہ ربّ العزت کی نازل کردہ شریعت کو غیر مشروط طور پر تسلیم کرلیا جائے۔ اسی میں بندوں کا امتحان بھی ہے اور یہی دنیا اور آخرت کی کامیابی کے لیے کسوٹی بھی ہے۔ اگر بندہ اپنے رب کی غیر مشروط اطاعت نہ کرے تو وہ بندہ نہ ہوا۔ لہٰذا بندے کا یہ کام نہیں کہ اللہ کے حکم کے مقابلے میں اپنی عقل کے گھوڑے دوڑائے، اپنی عادت کو اس پر ترجیح دے ، اپنے تجربے کی بنیاد پر حکم الہیٰ سے سرتابی کرے یا اپنی رائے کو اللہ کے حکم کے مقابلے میں قابلِ احترام سمجھے۔ خواہ فرد ہو یاجماعت ،پارلیمنٹ ہو یا عوام، کوئی قبیلہ ہو یا تنظیم سب پر لازم ہے کہ اللہ کے احکامات کے سامنے جھک جائیں اور اس کی نازل کردہ شریعت کو دل و جان اور قلب و قالب سے تسلیم کرلیں۔ کوئی مسلمان خواہ کتنے ہی دعوے یا زعم کیوں نہ رکھتا ہو اس وقت تک حقیقی مسلمان نہیں ہو سکتا جب تک اسلام کی یہ حقیقت اس کے دل میں ثبت نہ ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
’’ وَمَنْ أَحْسَنُ دِينًا مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ وَاتَّبَعَ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا ‘‘(النسآء : ١٢٥ )
’’ اور اس شخص سے اچھا دین کس کا ہوسکتا ہے جس نے خود کو اللہ کے )حکم کے ( سامنے جھکا دیا اور وہ نیکوکار بھی ہے اور ملتِ ابراہیم )علیہ السلام( کی پیروی کی جو یکسو تھے‘‘۔

تو جب اللہ اور اس کا رسول ﷺکسی بات کا فیصلہ کر دیں تو پھر کسی کے لیے اس بارے میں کوئی اختیار باقی نہیں رہتا اورا للہ اور اس کے رسول ﷺکے فیصلے کو من و عن تسلیم کر لینا اور اس کے سامنے جھک جانا ہر مسلمان پر فرض ہو جا تا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
’’ وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلالا مُبِينًا ‘‘(الاحزاب ۔ ٣٦ )
’’ اور کسی مومن مرد اور کسی مومن عورت کو یہ حق نہیں کہ جب اللہ اور اس کا رسول ﷺکوئی امر مقرر کردیں تو وہ اس کام میں اپنا بھی کچھ اختیار سمجھیں اور جس نے اللہ اور اس کے رسولﷺ کی نافرمانی کی تو وہ صریح گمراہ ہوگیا‘‘۔
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
یہی اسلام کا بنیادی اصول ہے جس کی طرف انتہائی تاکید کے ساتھ دعوت دی گئی ہے۔ جبکہ دینِ جمہوریت میں تو اسلام کے مندرجہ بالا اصول کو بالکل منہدم کر دیا گیاہے۔ نظامِ جمہوریت میں بلکہ صحیح تر الفاظ میں دینِ جمہوریت میں انسانوں کو ہر قسم کے اختیارات حاصل ہوتے ہیں اور جب تک کوئی قانون پارلیمنٹ سے منظور نہ ہو اس وقت تک اس کو کوئی تقدس ، احترام یا حیثیت حاصل نہیں ہوتی۔

آسمانوں سے نازل ہونے والے احکامات ِ الٰہی کہ جنہیں سن کر ہر مسلمان مرد و زن پر یہ کہنا واجب ہوتا ہے کہ سمعنا و اطعنا.ہم نے سنا اور اطاعت کی۔ لیکن ان کے بارے میں جمہوریت کہتی ہے کہ ہم ابھی ان پر نظر ثانی کریں گے۔ بحث و مباحثہ ہوگا ، ترمیم و اضافہ ہوگا ،جسے چاہیں گے مانیں گے اور جسے چاہیں گے رد کر دیں گے۔ گویا دینِ جمہوریت میں اللہ رب العزت کے حقوق ارکان پارلیمنٹ کو تفویض کردیے گئے ہیں۔ مثلاً اللہ تعالیٰ نے شراب کو حرام قرار دیا ہے ، اب اگر روئے زمین پر مشرق سے مغرب تک بسنے والے تمام جن و انس مل جائیں اور شراب کے جواز یا حرمت کا ازسرنو جائزہ لیں تو صرف اسی بات پر وہ معاند کفار بن جائیں گے خواہ اس جائزے کے بعد اسے حرام ہی کیوں نہ قرار دیں ۔ یہ تو ایک مسئلہ ہے جبکہ جمہوریت نے تو تمام احکاماتِ الٰہیہ پر نظر ثانی اور حک و تنسیخ کے دروازے چوپٹ کھول رکھے ہیں۔ پورا دین گویا کہ عوامی اختیار اور ارادے کا ماتحت ہو کر رہ گیا ہے کہ اگر عوام اسے قبول کر لیں پھر تو یہ محترم و مقدس و قابل عمل دین قرار پائے گا اور اگر عوام اسے رد کر دیں تو نعوذ باللہ یہ بے وزن، بے وقعت اور مردود ٹھہرے گا۔یہاں تک کہ جمہوری اسلام کے بعض دعویداروں نے تو بصراحت کہا ہے کہ اگر عوام ملحد کیمونسٹ طرزِ حکومت اختیار کریں تب بھی ان کے اختیار کا احترام کیا جائے گا اور اگر خود عوام ہی اسلامی حکومت کو رد کر دیں تو تب بھی ان کی پسند و اختیار کو تقدیس حاصل ہوگی ۔جبکہ قرآنِ حکیم کا ارشاد ہے:
’’ وَاللَّهُ يَحْكُمُ لا مُعَقِّبَ لِحُكْمِهِ‘‘(الرعد: ٤١ )
’’اللہ فیصلہ کرتا ہے . کوئی اس کے فیصلے پر نظرِ ثانی نہیں کر سکتا‘‘

اس کے برعکس جمہویت کہتی ہے کہ نہیں ،ہزار با رنہیں. بلکہ عوام فیصلہ کرتے ہیں اور عوامی فیصلے کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔

قرآنِ کریم کہتا ہے:
’’ وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ ‘‘(الاحزاب ۔ ٣٦)
’’اور کسی مومن مرد اور مومن عورت کو یہ حق نہیں کہ جب اللہ اور اس کا رسول ﷺکوئی امر مقرر کردیں تو وہ اس کام میں اپنا بھی کچھ اختیار سمجھیں‘‘۔

جبکہ جمہوریت کہتی ہے نہیں. بلکہ عوام کو تمام اختیارات حاصل ہیں ، حق وہ ہے جسے عوام قبول کریں اور باطل وہ ہے جسے عوام رد کردیں۔ عوام کو یہ حق حاصل ہے کہ اپنی مرضی سے جیسے چاہیں احکام و قوانین اختیار کریں۔

قرآن پاک کا فرمان ہے :
’’إِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِينَ إِذَا دُعُوا إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ أَنْ يَقُولُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا ‘‘( النور: ٥١)
’’ مومنوں کی تو یہ بات ہے کہ جب اللہ اور اس کے رسول ﷺکی طرف بلائے جائیں تاکہ وہ ان میں فیصلہ کریں تو کہیں کہ ہم نے (حکم)سن لیا اور مان لیا‘‘۔
جبکہ جمہوریت کہتی ہے کہ نہیں. بلکہ جب لوگوں کو عوامی فیصلے کی طرف بلایا جائے تو انہیں کہنا چاہئے کہ سمعنا و اطعنا. ہم نے سنا اور اطاعت کی۔

قرآن مجید کہتا ہے :
’’ وَهُوَ الَّذِي فِي السَّمَاءِ إِلَهٌ وَفِي الأرْضِ إِلَهٌ وَهُوَ الْحَكِيمُ الْعَلِيمُ ‘‘( الز خرف: ٨٤ )
’’اور وہی ذاتِ باری تعالیٰ آسمان میں بھی معبود ہے اور زمین پر بھی معبود ہے‘‘۔

لیکن نعوذ باللہ! جمہوریت گویا اللہ تعالیٰ کو خطاب کرتے ہوئے کہتی ہے ٹھیک ہے آسمان تو تیرا ہے لیکن زمین عوام کی ہے اور اس پر حکمرانی اور قانون سازی کا حق بھی صرف عوام کو حاصل ہے۔ اللہ رب العزت نے سچ فرمایا:
’’ وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ‘‘(یوسف : ١٠٦ )
’’ اور اکثر لوگ اللہ پر ایمان کا )دعویٰ( رکھنے کے ساتھ اس کے ساتھ شرک بھی کرتے ہیں‘‘۔
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
اللہ کی قسم ! جمہوریت تو قریش اور عرب کی انہی پامال راہوں پر گامزن ہے جو دورانِ حج کہا کر تے تھے ؛
’’لبیک اللہم لبیک، لبیک لا شریک لہ، الا شریک ھو لک تملکہ وما ملک‘‘۔
’حاضر ہیں اے اللہ !ہم حاضر ہیں ہم حاضر ہیں تیرا کوئی شریک نہیں سوائے اس شریک کے جو تیرا ہی ہے تو ہی اس کا مالک ہے اور اس کے اختیارات بھی تیری ملکیت ہیں‘۔

قرآن مجید نے واشگاف انداز میں مسئلہ حاکمیت کی حقیقت بیان کی ہے:
’’ فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا ‘‘( النسآء: ٦٥ )
’’تمہارے پروردگار کی قسم یہ لوگ تب تک مومن نہ ہونگےجب تک اپنے تنازعات میں تمہیں منصف نہ بنائیں اور جو فیصلہ تم کردو اس سے اپنے دل میں تنگ نہ ہوں بلکہ اس کو خوشی سے مان لیں‘‘۔

اس آیت کے سبب ِ نزول کے حوالے سے بعض علماء نے لکھا ہے کہ دو آدمی اپنا جھگڑا نبی ﷺکی عدالت میں لائے اور آپ ﷺ نے مستحق کے حق میں فیصلہ دے دیا تو جس کے خلاف فیصلہ ہوا اس نے کہا کہ میں اس فیصلہ پر راضی نہیں ۔ دوسرے فریق نے پوچھا کہ پھر تم کیا چاہتے ہو؟ تو اس نے کہا کہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے فیصلہ کرانا چاہتا ہوں۔ وہ دونوں سیدھا ابوبکررضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور جس فریق کے حق میں فیصلہ ہوا تھا اس نے انہیں بتایا کہ اس جھگڑے کا فیصلہ نبیﷺ میرے حق میں کر چکے ہیں۔ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جو فیصلہ نبیﷺ نے کردیا وہی تمہارے لیے بہتر ہے۔ لیکن دوسرا فریق اب بھی راضی نہیں ہوا اور کہنے لگا کہ ہم عمر بن خطابرضی اللہ عنہ کے پاس جائیں گے۔ لہٰذا وہ دونوں سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے اور جس فریق کے حق میں فیصلہ ہوا تھا اس نے کہا کہ اس جھگڑے کا فیصلہ نبی ﷺ میرے حق میں کر چکے ہیں لیکن دوسرا فریق اس پر راضی نہ ہوا اور پھر ہم ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس گئے تو انہوں نے بھی یہی کہا تمہارے لیے رسولﷺ کا فیصلہ بہترہے لیکن دوسرے فریق نے ان کی بات ماننے سے بھی انکار کردیا۔ عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے دوسرے فریق سے استفسار کیا کہ آیا یہ معاملہ اسی طرح ہوا ہے؟ اس نے اقرار کیا۔ عمر فاروق رضی اللہ عنہ اپنے گھر کے اندر چلے گئے۔ واپس نکلے تو ان کے ہاتھ میں بے نیام تلوار تھی جس سے انہوں نے اس شخص کا سر قلم کر دیا اور فرمایا کہ جو شخص رسول ﷺ کے فیصلے پر راضی نہ ہو اس کے لیے میرا فیصلہ یہی ہے۔ تب یہ آیت نازل ہوئی :
’’ فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا ‘‘(تفسیر ابن کثیر۳۵۲/۲: )

تو جب رسول ﷺ کے حکم پر نظرِ ثانی کی درخواست کرنے والے ایک شخص کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ دوٹوک فیصلہ صادر فرمایا، حالانکہ اس نے صرف ایک معاملے میں رسول ﷺ کے فیصلہ پر نظر ثانی کے لیے کہا تھا اور رجوع بھی ان عظیم القدر شخصیات کی طرف کیا تھا جو نبی ﷺ کے بعد افضل ترین ہیں، تو ان لوگوں کا کیا معاملہ ہوگا جو دینِ جمہوریت کی طرف بلاتے ہیں جبکہ دینِ جمہوریت میں تو پورا اسلام ہی عوام کے ارادے پر معلق ہوتا ہے۔ عوام چاہے گی تو اس کا نفاذ ہوگا ورنہ نہیں۔ اس بدترین دینِ جمہوریت میں تو اللہ تعالیٰ کے قطعی احکامات مثلاً شراب، زنا اور فواحش کی آزادی کو بھی پارلیمان کے سامنے پیش کیا جاتا ہے تاکہ وہ غور کرے کہ آیا ان کی تحریم مناسب ہے یا تحلیل۔ احکامِ الٰہی پر نظر ثانی کرنے والے یہ ارکان پارلیمنٹ آخر کون ہیں؟ کیا یہ ابوبکر رضی اللہ عنہ و عمر رضی اللہ عنہ ہیں یا پاکباز و نیکوکار ہیں؟ اللہ کی پناہ !بھلا یہ متقی و پاکباز نفوس ان ارکان پارلیمنٹ سے کیا نسبت رکھتے ہیں۔ یہ تو کائنات کے گھٹیا اور جاہل ترین افراد ہیں، جو فسق و فجور میں لت پت ہیں۔ ان میں سے بظاہر قدرے بہتر وہ لوگ ہیں جو اسلامی جماعتوں کی طرف نسبت رکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم مصلحین ہیں لیکن
’’اَلَآ اِنَّھُمْ ھُمُ الْمُفْسِدُوْنَ وَلٰکِنْ لَّا یَشْعُرُوْن ‘‘۔(البقرہ:١٢ )
’’سن لو !یہی لوگ مفسد ین ہیں لیکن انہیں شعور نہیں‘‘۔
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
اے جمہوری اسلام کی دعوت دینے والو! اللہ تعالیٰ ہم سے صرف یہ نہیں چاہتا کہ ہم شراب نوشی سے احتراز کریں، فواحش سے بچیں اور سود سے دور رہیں۔ بلکہ اللہ تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ ہم ان منکرات سے پرہیز کرنے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کے احکامات ِ تحریمی کو اللہ کا حکم سمجھ کر انہیں تسلیم کریں اور بر ضاور غبت ان کے سامنے خود کو جھکالیں۔ بصورتِ دیگر میں اللہ کی قسم اٹھا کر کہتا ہوں کہ اگر کسی ملک میں اسلام کے تمام ظاہری احکامات اس بنیاد پر نافذ کردیئے جائیں کہ پارلیمنٹ نے انہیں منظور کیا ہے اور انہیں محترم قانون کا درجہ دیا ہے نہ کہ اس لیے کے یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں تو ان شرعی احکام کا درجہ بھی باقی دنیاوی قوانین جیسا ہی کہلائے گا۔ کیونکہ شریعت تو لوگوں سے پوچھ کر نافذ نہیں کی جاتی اور جو چیز لوگوں سے پوچھ کر نافذ کی جائے وہ شریعت نہیں ہوتی۔ یہ تو پارلیمنٹ نامی ایک بولنے والے بت اور معبود کی طرف سے نازل کردہ احکام ہیں۔ تباہی اور ہلاکت ہو اس بت کے لیے بھی اور اس کے نافذ کردہ قانون کے لیے بھی۔

اسلامی جمہوریت کے دعویداروں کو یہاں رک کر جائزہ لینا چاہئے کہ وہ خود کو کن تباہ کن گھاٹیوںمیں گراچکے ہیں؟ اور اپنے اپنے علاقوں کے مسلمانوں کو کس طرح کی پر فتن کفریہ راہوں کی طرف دھکیل کر انہیں گمراہ کرتے اور ان کے جذبات سے کھیلتے ہیں؟

انہیں جان لینا چاہیے کہ وہ دوراہے پر کھڑے ہیں جہاں حق و باطل کے مابین تطبیق و موافقت اور آمیزش کی گنجائش نہیں ہے۔ ایک طرف تو واضح اور روشن اسلام ہے جس میں قلب و نظر اور اعضاء و جوارح اللہ تعالیٰ کے لیے مطیع ہوتے ہیں۔ اور دوسری طرف دینِ جمہوریت ہے جس میں انسانوں کی حاکمیت اور شیطان کی عبادت ہے۔ لوگوں کی مرضی ہے کہ جس راہ کو پسند کریں سو اختیار کرلیں البتہ قیامت کے دن ہونے والے اس سوال کے جواب کے لیے تیار رہیں:
’’ أَلَمْ أَعْهَدْ إِلَيْكُمْ يَا بَنِي آدَمَ أَنْ لا تَعْبُدُوا الشَّيْطَانَ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ وَأَنِ اعْبُدُونِي هَذَا صِرَاطٌ مُسْتَقِيمٌ ‘‘
’’اے بنی آدم! کیا میں نے تم سے عہد نہیں لیا تھا کہ تم شیطان کی عبادت مت کرنا، وہ تمہارا کھلا دشمن ہے، اور یہ کہ میری ہی عبادت کرنا یہی سیدھا راستہ ہے۔‘‘( یٰس: ٦٠۔ )

ثا نیاً : ہر مسلمان کو یہ حقیقت معلوم ہے کہ ایمان کا پہلا اور عظیم ترین رکن ، اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا ہے اور اس ایمان میں توحیدِ الوہیت، توحیدِ ربوبیت اور اللہ کے اسماء و صفات پر ایمان لانا شامل ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہر مسلمان پر ضروری ہے کہ وہ قطعی طور پر ایمان رکھے کہ حلال و حرام قرار ینے کا حق صرف اللہ تعالیٰ کا ہے۔ اس حق میں کسی کو کسی قسم کے مناقشے اور بحث کا اختیار حاصل نہیں کہ کسی چھوٹی سے چھوٹی چیز کو بھی حلال یا حرام قرار دے۔ یہ اختیار صرف اللہ کا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
’’ وَلا تَقُولُوا لِمَا تَصِفُ أَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ هَذَا حَلالٌ وَهَذَا حَرَامٌ لِتَفْتَرُوا عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ إِنَّ الَّذِينَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ لا يُفْلِحُونَ ‘‘( النحل: ١١٦ )
’’ اور یونہی جھوٹ جو تمہاری زبانوں پر آتا ہے نہ کہہ دیا کرو کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے کہ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنے لگو، یقیناً جو لوگ اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں وہ کامیاب نہ ہونگے‘‘۔

اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
’’ قُلْ أَرَأَيْتُمْ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ لَكُمْ مِنْ رِزْقٍ فَجَعَلْتُمْ مِنْهُ حَرَامًا وَحَلالا قُلْ آللَّهُ أَذِنَ لَكُمْ أَمْ عَلَى اللَّهِ تَفْتَرُونَ ‘‘
’’آپ کہہ دیجئے کہ بھلا دیکھو تو اللہ تعالیٰ نے جو تمہارے لیے رزق نازل فرمایا تو تم نے اس میں سے) بعض کو( حرام اور )بعض کو( حلال ٹھہرایا،)ان سے( پوچھو کیا اللہ نے تمہیں اس کا حکم دیا ہے یا تم اللہ تعالیٰ پر بہتان باندھتے ہو۔‘‘(یونس: ٥٩ )

لہٰذا اللہ تعالیٰ کا یہ حق (حقِ تشریع) کسی غیر اللہ کو دینا کفرِ اکبر ہے جو ملت سے خارج کر دیتا ہے۔ جو شخص اللہ کے ماسوا کی تشریع(قانون سازی)کو مانتے ہوئے اس کے ٹھہرائے ہوئے حلال و حرام کی پیروی کرے اور اسے حلال اور حرام جانے تو وہ مشرک ہے جسکا فرض مقبول ہے اور نہ نفل. یہاں تک کہ وہ توبہ کر لے اور توحیدِ خالص کی طرف رجوع کرلے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ یہ حقِ تشریع کسی فرد کو دیا جارہا ہو یا کسی پارٹی ، قبیلے، پارلیمان یا عوام کو۔ اسلام نے اس حقیقت کو انتہائی دوٹوک اور واضح انداز میں ثابت کیا ہے اور اس میں کسی قسم کی تشکیک یا تذبذب کی گنجائش نہیں چھوڑی۔ یہ تمام کائنات اللہ کی مخلوق و ملکیت ہے اور وہی رب العالمین ہے۔ لہٰذا کسی کو حق نہیں کہ اس کی ملکیت میں اپنا حکم چلائے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
’’ أَلا لَهُ الْخَلْقُ وَالأمْرُ تَبَارَكَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ ‘‘( الاعراف: ٥٤ )
’’ سن لو کہ تمام مخلوق بھی اسی کی ہے اور حکم بھی اسی کے ساتھ خالص ہے اللہ رب العالمین بہت برکت والا ہے۔‘‘۔
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
یہ تو دین اسلام کی ایک مسلمہ حقیقت ہے جبکہ اس کے مقابلے میں جمہوریت کی بنیادی اساس ہی اسلام سے متصادم ہے ، کیونکہ جمہوریت میں قانون سازی کا حق اللہ تعالیٰ کی بجائے انتہائی احترام و تقدیس کے ساتھ عوام اور عوامی نمائندگان کو سونپ دیا گیا ہے۔ لہٰذا دینِ جمہور یت میں حلال وہی ہے جسے عوامی نمائندگان حلال قرار دیں اور حرام وہی ہے جسے عوامی نمائندگان حرام ٹھہرائیں۔ اچھا وہ ہے جسے یہ اچھا کہیں اور برا وہ ہے جسے یہ برا کہیں۔ قانون وہی ہوگا جسے یہ پسند کریں اور شریعت وہی کہلائے گی جو اِن کی منظور کردہ ہو۔ کسی دین، شریعت یا قانون کی اس وقت تک کوئی حیثیت نہ ہوگی جب تک پارلیمنٹ اس کی توثیق نہ کرے۔ یہ ایسا واضح ارتداد ہے جس پر تمام علماء کا اتفاق ہے۔

’’ جب کوئی انسان کسی ایسے حرام کو حلال ٹھہرائے. یا کسی ایسے حلال کوحرام قرار دے۔ یا کسی ایسے شرعی امر کو تبدیل کردے، جن پر اجماع ہو۔ تو وہ بالاتفاقِ فقہاء کافر و مرتد قرار پائے گا‘‘۔

لہٰذا میں سمجھتا ہوں کہ پارلیمنٹ کا صحیح اور درست نام مجلسِ ارباب ہوگا۔ کیونکہ ایسی مجالس سے تشابہ کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے یہی الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔ اللہ کا فرمان ہے:
’’اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُوا إِلا لِيَعْبُدُوا إِلَهًا وَاحِدًا لا إِلَهَ إِلا هُوَ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ ‘‘(التوبہ : ٣١ )
’’انہوں نے اپنے علماء درویش اور مسیح بن مریم علیہ السلام کو اللہ کے سوا رب بنالیا، حالانکہ انہیں تو اسی بات کا حکم تھا کہ معبود واحد کی عبادت کریں ، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ ان کے شریک مقرر کرنے سے پاک ہے‘‘۔

ہائے عجب! کہ گمراہی اپنے ماننے والوں کو کیا کیا رنگ دکھاتی ہے۔ احبار و رھبان کو اس لئے ارباب من دون اللہ کہا گیا کہ اہلِ کتاب ان کی اتباع کرتے تھے باوجود اس کے کہ وہ اللہ کے حلال کردہ کو حرام اور اللہ کے حرام کردہ کو حلال بتلاتے تھے۔ حالانکہ احبار تو ان کے علماء تھے اور رہبان تو ان کے عابد وو زاہد لوگ تھے اور وہ یہ سب کچھ اللہ کے نام پر کرتے تھے، دین کا سہارا لے کر احکام شریعت کو بدلتے تھے اور سمجھتے تھے کہ یہ اللہ کے پسند کردہ احکام ہیں۔ جب اُن کا حکم یہ ہے تو عصرِ حاضر کے اربابِ پارلیمنٹ جن کی غالب اکثریت سیکولر، بے دین ملحدین اور فاسق و فاجر لوگوں پر مشتمل ہے ، ان پر کیا حکم لگے گا؟ وہ علماء اور درویش تو دین کی محبت جتلاتے تھے جبکہ یہ لوگ تو صراحت کے ساتھ دین سے دشمنی و بیزاری کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ عمل کے اعتبار سے احبارورہبان اور ارکانِ پارلیمنٹ کا حال ایک سا ہے۔ وہ بھی اپنی مرضی سے حلال و حرام کا فیصلہ کیا کرتے تھے اور یہ بھی اپنی خواہشات اور آراء سے ایسا کرتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ وہ دین کا نام استعمال کرتے تھے اور یہ صرف رائے ،خواہش، جہلِ مرکب سے، بلکہ قصداً دین کی مخالفت اور اس سے تصادم کی بنیاد پر قانون سازی کرتے ہیں۔ اگر آپ عقل و شعور رکھتے ہیں تو بھلا بتلائیے کہ کون سا گروہ زیادہ بڑا مجرم اور قابلِ مذمت ہے؟

عدی بن حاتم فرماتے ہیں کہ میں رسول ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا جبکہ آپ ﷺ سورۃ التوبہ کی تلاوت فرمارہے تھے، یہاں تک کہ اس آیت پر پہنچے :
’’ اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ ‘‘
’’انہوں نے اپنے علماء اور درویشوں کو اللہ تعالیٰ کے سواء رب بنا لیا‘‘
سیدنا عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے کہا :
’’یا رسول اللہﷺہم نے ان کو رب تو نہیں بنایا تھا ‘‘۔
تو آپ ﷺنے فرمایا:
’’کیوں نہیں؟. کیا جب وہ کسی حرام چیز کو تمہارے لیے حلال قراردیتے تو تم اسے حلال نہ جانتے تھے؟ اور جب وہ اللہ کی حلال کردہ کسی چیز کو تمہارے لیے حرام ٹھہراتے تو تم اسے حرام نہ سمجھتے تھے‘‘ ؟
میں نے کہا:
’’جی ہاں‘‘
تو آپ ﷺنے فرمایا :
’’یہی تو ان کی عبادت ہے۔‘‘

اور ممکن ہے کہ وہ علماء اور درویش خود کو حلال و حرام کا فیصلہ کرنے والا نہ سمجھتے ہوں البتہ چند چیزوں میں عملاً انہوں نے ایسا کیا ہو۔ لیکن آج کل اہلیانِ پارلیمان تو پوری صراحت و جرأت کے ساتھ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انہیں ہر قسم کی قانون سازی کا حق حاصل ہے۔ بلکہ یہ ان کی اولین ذمہ داری ہے۔ جب کوئی شخص منتخب ہو کر ایوان میں داخل ہوگیا تو گویا اسے ربّ کی صفات حاصل ہوگئیں.اس کی رائے مقدّم ٹھہری۔فکر کو تقدّس حاصل ہوا۔ اب اسے مکمل آزادی اور تحفظ حاصل ہے کہ اپنی خواہش اور رائے کے مطابق فیصلہ دے اور اپنی مرضی سے کوئی قانون تجویز کرے۔ جب تک وہ پارلیمنٹ کی چھت تلے موجود ہے تب تک اس کا محاسبہ نہیں ہوسکتا۔ یہ واضح کفر اور صریح شرک ہے، خواہ وہ عملاً کوئی قانون سازی کرے یا نہ کرے۔ جس طرح عملاً خود ساختہ قانون سازی کرنا شرک ہے، اسی طرح اس کا حق اللہ کے سوا کسی دوسرے کو دینا بھی شرک ہے۔ یہ ربوبیت میں شرک کہلائے گا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
’’ أَمْ لَهُمْ شُرَكَاءُ شَرَعُوا لَهُمْ مِنَ الدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَنْ بِهِ اللَّهُ ‘‘(الشوریٰ:٢١ )
’’کیا ان کے کوئی شریک ہیں جنہوں نے ان کے لیے ایسا دین مقرر کیا ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم نہیں دیا۔‘‘

ایک دوسرے مقام پر فرمایا:
’’وَلا تَأْكُلُوا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ وَإِنَّهُ لَفِسْقٌ وَإِنَّ الشَّيَاطِينَ لَيُوحُونَ إِلَى أَوْلِيَائِهِمْ لِيُجَادِلُوكُمْ وَإِنْ أَطَعْتُمُوهُمْ إِنَّكُمْ لَمُشْرِكُونَ ‘‘( الانعام: ١٢١ )
’’اور جس چیز پر اللہ تعالیٰ کا نام نہ لیا جائے اسے مت کھاؤکہ اس کا کھانا گناہ ہے اور شیطان اپنے رفیقوں کے دلوں میں یہ بات ڈالتے ہیں تاکہ وہ تم سے جھگڑا کرلیں، اور اگر تم نے ان کی اطاعت کی تو یقینا تم بھی مشرک ہوجاؤگے۔‘‘
 
Top