• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جناب پوپ، محترم مغرب! کیا خیال ہے؟

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
جناب پوپ، محترم مغرب! کیا خیال ہے؟


اسلام نے طرز حکومت کے لئے ہمیں انسانیت پوش خلافت کی ردائیں دی تھیں، مغرب نے انسانیت سوز حسینہء جمہوریت کی ادائیں دیں۔ خلافت میں سب کچھ اوپر سے آیا تھا، جمہوریت نے تمام قوانین کو زمین والوں کے سپرد کر دیا۔ ویسے تو انسان اپنے لئے رفعت و بلندی کا خواہاں رہتا ہے مگر یہاں اس نے آسمان کی بلندی کے بجائے زمین کی پستی کو قبول کر لیا۔ بہرحال پارلیمنٹ، کھڑی ہوئی، اکثریت بنیاد بنی اور قانون سازی ہونے لگی۔ پھر جمہوریت کی چھتری تلے ایسے ایسے قوانین بنے کہ کسی جھونپڑی میں بستا کوئی چٹا ان پڑھ شخص بھی سنے تو مسکرا دے۔ اندازہ کیجئے یورپ کے بعض ملکوں میں بیوی کو مارنے کے لئے بھی قانون موجود ہیں۔ وہاں بیوی پہ ہاتھ اٹھانا قانونی جرم تو ہے تاہم اگر بیوی خود پٹنے کی خواہش رکھتی ہو تو پھر قانون کے پیٹ میں کوئی مروڑ نہیں اٹھتا، نیزقانون میں صراحت موجود ہے کہ اگر بیدکی چھڑی سے بیوی کو پیٹنے کا شوق پورا کر لیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں تاہم اگر کوئی اور چھڑی استعمال کر بیٹھے تو یہ قابل دست اندازی پولیس کیسں بن جائے گا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
یورپ نے فرد کو آزادی دی اور ہتک عزت کا قانون بنایا۔ جس کے تحت کسی بھی شخص کو دوسرے کی توہین کرنے کی اجازت نہیں، اس میں کسی مذہب و ملت یا رنگ و نسل کی کوئی تمیز و تفریق نہیں۔ یعنی محض انسان ہونا ہی بنیاد ہے، وہ انسان گورا ہے یا کالا، مسلمان ہے یا عیسائی، یہودی ہے یا بدھ مت، وہ کمیونسٹ یا رب کا منکر و ملحد ہی کیوں نہ ہو اس کی توہین جرم ہے۔ یورپ نے قانون سازی کی اور جانوروں تک کو حقوق دے دیئے۔ چنانچہ یہاں کتوں اور بلیوں کی عزت بھی محفوظ ہو گئی۔ کسی کتے کو اذیت دینا یا کسی بلی کو تکلیف پہنچانا یا کسی خنزیر کو زک پہنچانا یہاں اخلاقاً نہیں قانوناً منع ہے۔ گویا مغرب کے ہاں کتوں اور بلیوں کے، پرندوں اور درندوں کے، پودوں اور پانیوں اور ملحدوں و منکروں تک کے لئے قوانین موجود ہیں اگرچہ مسلمانوں کے حقوق اکثر پامال ہوتے رہتے ہیں۔ عراق و افغانستان کے اجڑے دیار اور پامال سبزہ زار، جس کی تازہ مثالیں ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ہم مسلمانوں کے لئے کسی جمہوریت کی گنجائش نہ تھی کہ ہمارے پاس بہترین نظام اور بلند ترین قانون پہلے ہی موجود تھا مگر مغرب نے ہمیں جمہوریت کی راہ پر لگا دیا۔ قانون سازی میں ہر ملک و ملت کی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں جیسے مغرب کی ترجیحات حرص و ہوس کا سامان تھیں، بعض لوگوں کی ترجیحات روٹی کپڑا اور مکان ہوتی ہیں تو ایک مسلمان کی اول و آخر ترجیح فقط تحفظ دین و ایمان ہے۔ دین رسول مکرم لے کے آئے۔ ان کی ذات پہ حرف پورے اسلام کی صحت کو مشکوک بنا دیتا ہے چنانچہ اللہ رب العزت نے اپنی اور اپنے پیغمبر کی تمام تر رحمت و شفقت کے باوجود اس گوشے پر زبردست سختی کی اور لاریب دین کی طرف اٹھنے والی ہر انگلی کاٹ دینے اور دراز ہونے والی ہر زبان کو اکھاڑ پھینکنے کا سامان کر دیا۔ سورہ احزاب میں فرما دیا: اللہ اور اس کے رسول کو ایذا دینے والے ملعون ہیں… پھر فرمایا یہ جہاں پائے جائیں، پکڑ لو اور اس بدترین طریقے سے قتل کر دو کہ دیگر کے لئے مثال بن جائیں۔ یہ حیرت انگیز معاملہ تھا، سارا قرآن رب کے رحیم ہونے کی گواہیاں دیتا ہے۔ وہ ستر مائوں سے زیادہ انسان سے محبت کرتا ہے۔ خود نبی کریم رحمۃ اللعالمین کا لقب رکھتے ہیں۔ دشمنوں کے لئے دعا اور منکروں کے لئے اصلاح کا جذبہ رکھنے والے ہیں مگر اس معاملے پر رب نے خود بھی سختی کی اور پیغمبر کی سیرت کے ذریعے بھی اک عبرت ناک نمونہ فراہم کیا۔ اندازہ کیجئے کعبہ جو جائے اماں ہے، جہاں جنگ حرام اور حدود حرم میں گھاس تک کاٹنا ممنوع ہے، واقعات کے ذریعے بتایا گیا کہ گستاخ رسول اگر یہاں بھی آ گھسے، کعبے کے غلاف سے بھی آ لپٹے تو رحم مت کھائو بلکہ اسے کیفر کردار تک پہنچائو۔ یہی وہ تعلیمات ہیں جن کے باعث مسلمانوں کو اس سلسلے میں کسی قانون کی کبھی ضرورت نہیں رہی۔ مغرب اس سلسلے میں مسلمانوں کو پاگل سمجھے، جذباتی کہے یا دیوانہ قرار دے، بس وہ ایسے ہی ہیں کہ غیرت پہ کمپرومائز نہیں کر سکتے۔ وہ بہن اور بیٹی کی گالی پہ گردنیں اڑا دیتے ہیں۔ رسول سے محبت تو ان کے ایمان میں یوں بسی ہے کہ جب تک وہ بہن بیٹی سے بھی زیادہ، بنک بیلنس اور مال و متاع سے بھی زیادہ بلکہ اپنی جان سے بھی زیادہ پیار نہ کریں، تو وہ مسلمان ہو ہی نہیں سکتے۔ چنانچہ سوچا جا سکتا ہے وہ لوگ جو ایمان بچانے کے لئے اپنی جان کی پروا نہ کریں کسی اور کی کب کریں گے۔ سو قانون کی انہیں ضرورت نہ تھی، غازی علم دین کی مثال پرانی ہو گئی، مغرب میں جہاں ایسا کوئی قانون نہیں وہاں عامر چیمہ اور کرٹ ویسٹ گارڈ کی مثالیں موجود ہیں۔ محض اتنا عرض کرنا مقصود ہے کہ مسلمان اس معاملے میں کسی آئین و قانون کے کبھی محتاج نہیں رہے اور نہ رہیں گے تاہم انہوں نے مغرب کی راہ پہ چلتے ہوئے جمہوریت کے ذریعے سے کم و بیش دو سالوں کی قانونی و آئینی بحثوں کے بعد ایک قانون بنا لیا۔ اسے 295c کا نام دیا۔ یہ قانون دراصل مسلمانوں کی اس جذبابیت کے سامنے بند باندھنے کے لئے تھا تاکہ کسی بھی ملزم کو اپنی صفائی دینے اور حالات واضح کرنے کا موقع مل جائے۔ اسے بھی دیگر ملزمان کی طرح عدالت و قانون تک آنے کی اور اپنی نیت و کیفیت واضح کرنے کی مہلت اور سہولت مل جائے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
آسیہ کا معاملہ سامنے آیا، آخری حد تک جذباتی مسلمانوں نے اسی قانون کی وجہ سے نہایت صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا بلکہ پنچائیت کے سامنے آسیہ کے اعتراف کے بعد اسے جذباتی نوجوانوں سے بچا کر بحفاظت پولیس کی تحویل میں دیا۔ پوری آزادی سے مقدمہ چلا، سیشن کورٹ نے سزا سنائی مگر اعلیٰ عدلیہ تک رسائی کا موقع موجود تھا کہ سلمان تاثیر آ گئے جس قانون کے تحت انہوں نے حلف اٹھایا تھا اور جس کے تحت وہ گورنر بنے تھے، اسی کو کالا کہہ ڈالا۔ بہت احتیاط چاہئے تھی جو وہ نہ کر سکے جب حکمران احتیاط نہ کر سکیں تو عوام سے کیا شکوہ کہ عوام نہ حساس منصبوں پہ متعین ہوتے ہیں اور نہ باہر سے پڑھ کر آئے ہوتے ہیں، سو جو حکمران کردار پیش کرتے ہیں، عوام بھی انہی کی راہوں پہ چل دیتے ہیں انجام دیکھ لیجئے، آج ملک میں جاری خوف و ہراس حکمرانوں کی ادنی سی قانون شکنی کا ہولناک انجام ہے۔
جب مغرب جو جانوروں کے لئے پرندوں کے لئے قانون بنا سکتا ہے۔ جب وہ ملحدوں اور منکروں کے لئے قانون سازی کر سکتا ہے وہ ہم جنس پرستی کے قانون بنا لیتا ہے وہ اس قانون پہ اعتراض کیوں کرتا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
کیا وہ ہمیں اتنا سا موقع نہیں دے سکتا کہ ہم اپنی قیمتی ترین متاع کی حفاظت کر سکیں۔ اپنی جان سے بڑھ کر محترم و معزز شخصیت کے لئے قانون بنا سکیں؟ یاد رہے یہ ہتک عزت ہی کا قانون ہے جو ہر فرد کے لئے مغرب میں بھی لاگو ہے۔ بس اس میں اتنا اضافہ ہے کہ یہاں جس شخصیت کی عزت کا سوال ہے وہ اتنی زیادہ باوقار ہے کہ جتنی معزز شخصیت تمہارے ہاں کوئی نہیں، انبیاء تو تمہارے ہاں بھی ہیں مگر تم انہیں معزز نہیں جانتے تم ان کے متعلق عزت کا کیا معیار رکھتے ہو، بائبل پڑھ کے امیر حمزہ صاحب نے اس سب کو اپنی کتاب میں خوب کھول کے بیان کر دیا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ تمہارے ہاں انبیاء کی اتنی بھی عزت نہیں جتنی تم اپنے کسی عام فرد کی کرتے ہو۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اب پوپ فرماتے ہیں اس قانون میں ترمیم کر دی جائے۔ امریکی کانگرس بل پاس کرتی ہے کہ اس سے جان چھڑائی جائے۔ یہاں صرف دو سوال ہیں، پہلا یہ کہ کیا پورا یورپ و امریکہ اور ویٹی کن سٹی کے پوپ سارے قانون شکن ہیں؟ دوسرے وہ خود جو چاہیں الٹے سیدھے قوانین بناتے جائیں، ہمارا اتنا حساس اور دین و ایمان کا حامل معاملہ بھی بطور قانون انہیں برداشت نہیں؟؟ برداشت تو کرنا چاہئے تاہم اگر نہیں بھی تو اے اہل یورپ! زور لگا لو ممکن ہے کبھی تم یہ قانون ختم کروانے میں کامیاب ہو جائو، او کے! ہمیں کوئی مسئلہ نہیں، مسلمانوں نے تو اس قانون سے پہلے بھی بڑی زندگی گزاری ہے۔ وہ ایسے قوانین کے محتاج ہی نہیں کہ وہ یہاں کسی وفاقی نہیں آفاقی قانون سے رہنمائی لیتے ہیں، بس اتنا سوچ لیجئے کہ کیا غیرمسلم اس قانون کے بغیر رہنا افورڈ کر لیں گے؟
اے اہل مغرب! کسی بھی موقع اور مرحلے پروہ عدالت کی سہولت و مہلت کے بغیر تنگی میں نہیں پڑ جائیں گے؟ آپ لوگوں کا یہ شور ان کے حق میں زندگی کا پیغام ہے یا موت کا پروانہ؟ امید ہے آپ غیر مسلموں پر وہ رحم باقی رہنے دیں گے جو اس قانون کی صورت اہل پاکستان نے انہیں دے رکھا ہے۔
جناب پوپ اور محترم مغرب !کیا خیال ہے۔ بدلا جائے، قانون یا باقی رکھا جائے؟ فیصلہ ضرور کر لیجئے۔

 
Top