• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جنگ صفین اور معاویہ رضی اللہ عنہ

شمولیت
ستمبر 08، 2015
پیغامات
45
ری ایکشن اسکور
17
پوائنٹ
53
اسلام علیکم!

تمام بهایوں سے درخواست ہے کہ محمد علی مرزا جہلمی کی بیان کردہ جنگ صفین اور واقعہ کربلا اور معاویی رضی اللہ عنہ کی فضیلت کے متعلق قرآن و حدیث سے رہنمائی فرمائیں۔۔۔۔

کہ مرزا جہلمی صحیح کہ رہا ہے یا غلط؟

کیا تمام صحابہؓ جنتی نہی ہیں؟
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
اسلام علیکم!

تمام بهایوں سے درخواست ہے کہ محمد علی مرزا جہلمی کی بیان کردہ جنگ صفین اور واقعہ کربلا اور معاویی رضی اللہ عنہ کی فضیلت کے متعلق قرآن و حدیث سے رہنمائی فرمائیں۔۔۔۔

کہ مرزا جہلمی صحیح کہ رہا ہے یا غلط؟

کیا تمام صحابہؓ جنتی نہی ہیں؟
مرزا صاحب بلکل غلط کہہ رہے ہیں -

صحابہ کی تعریف قرآن میں ھے لہذا ایمان کا حصہ ھے
حسین رضی اللہ عنہ نے نبی کو دیکھا ھے لیکن کچھ روایت نہیں کیا
یہ بات صحابہ کو معلوم ھے لیکن پھر بھی یزید کی بیعت کرتے ھیں کیونکہ جب وہ بیعت کرتے تو اللہ کے لیے کرتے نہ کہ دنیا کے خوف سے

جو
بھی بات قرآن میں ہے وہ ایمان ہے اور صحابہ کی تعریف الله نے کی لہذا یہ ایمان ہے
دوم صحابہ ہمارے گواہ ہیں جو دین کے گواہ ہیں کسی عام وقوعہ کے نہیں
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
اسلام علیکم!

تمام بهایوں سے درخواست ہے کہ محمد علی مرزا جہلمی کی بیان کردہ جنگ صفین اور واقعہ کربلا اور معاویی رضی اللہ عنہ کی فضیلت کے متعلق قرآن و حدیث سے رہنمائی فرمائیں۔۔۔۔

کہ مرزا جہلمی صحیح کہ رہا ہے یا غلط؟

کیا تمام صحابہؓ جنتی نہی ہیں؟

پلیز ایک دفعہ یہ پڑھ لیں - انشاء الله آپ کے علم میں اضافہ ہو گا

http://www.islamic-belief.net/history/

اور یہ بھی

http://www.islamic-belief.net/شہادت-حسین-کی-خبریں-جرح-و-تعدیل-کے-میزان/
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
کیا تمام صحابہؓ جنتی نہی ہیں؟
اللہ تعالی کا تمام مہاجر ۔۔انصار صحابہ کرام سے وعدہ ہے کہ : ان کیلئے جنت سجا کر تیار کر رکھی ہے،
سورۃ التوبہ میں فرمایا :
’’ وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ (100)
وہ مہاجر اور انصار جنہوں نے سب سے پہلے ایمان لانے میں سبقت کی اور وہ لوگ جنہوں نے احسن طریق پران کی اتباع کی، اللہ ان سب سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔ اللہ نے ان کے لئے ایسی جنتیں تیار کر رکھی ہیں جن میں نہریں جاری ہیں ۔ وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے یہی بہت بڑی کامیابی ہے ‘‘
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
امام محمد بن إسماعيل الیمانی الصنعانی رحمہ اللہ (المتوفى: 1182هـ) اپنی کتاب
توضيح الأفكار لمعاني تنقيح الأنظار ‘‘ میں امام ابن حزم ؒ کا قول نقل کرتے ہیں کہ ::
وقال أبو محمد بن حزم الصحابة كلهم من أهل الجنة قطعا قال الله تعالى: {لا يَسْتَوِي مِنْكُمْ مَنْ أَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ} إلى قوله: {وَكُلّاً وَعَدَ اللَّهُ الْحُسْنَى} [الحديد: 10] وقال: {إِنَّ الَّذِينَ سَبَقَتْ لَهُمْ مِنَّا الْحُسْنَى أُولَئِكَ عَنْهَا مُبْعَدُونَ} [الأنبياء: 101] فثبت أن الجميع من أهل الجنة وأنه لا يدخل أحد منهم النار لأنهم المخاطبون بالآية السابقة.1هـ.
’’ سارے صحابہ کرام یقینی جنتی ہیں ‘‘
اللہ تعالی فرماتا ہے ’’
جن لوگوں نے فتح (مکہ) کے بعد خرچ اور جہاد کیا وہ ان لوگوں کے برابر نہیں ہوسکتے جنہوں نے فتح سے پہلے خرچ اور جہاد کیا۔ یہی لوگ درجہ میں زیادہ ہیں ۔ تاہم اللہ نے ہر ایک سے اچھا وعدہ کیا ہے۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے )سورۃ الحدید ۱۰ )
اور دوسرے مقام پر فرمایا :
بلاشبہ جن لوگوں کے لئے ہمارے طرف سے پہلے ہی بھلائی مقدر ہوچکی ہے وہ دوزخ سے دور رکھے جائیں گے۔ ( سورۃ الانبیاء ۱۰۱)
اس سے ثابت ہوا کہ سارے صحابہ کرام جنتی ہیں، ان میں سے کوئی دوزخ نہیں جائے گا ،
 
Last edited:

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
جنگ صفین کے دوران من جانبین کیا کیا کچھ ہوا ہمارے سامنے صرف وہ روایات بیان کی جاتی ہیں جو ایک مخصوص فرقے کے موقف کی حمایت کرتی ہیں کہ ایک طرف ظلم تھا اور دوسری طرف عدل یعنی کفر و اسلام کی جنگ
جب کہ ایسا ہرگز نہیں تاریخ کی انہی کتب میں قائدین کا موقف اور ان کی ایک دوسرے کے بارے میں رائے اور شہداء کی نماز جنازہ وغیرہ اور رات کے اوقات میں دونوں اطراف کے مشارکین کا ایک دوسرے سے بات چیت کرنا ملنا ملانا
یہ سب ہمین بتایا ہی نہیں جاتا صرف ون وے ٹریفک چلایا جا رہا ہے
 

HUMAIR YOUSUF

رکن
شمولیت
مارچ 22، 2014
پیغامات
191
ری ایکشن اسکور
56
پوائنٹ
57
حضرت علی اور معاویہ رضی اللہ عنہما کے با ہمی تعلقات !!
باغی راویوں کی پوری کوشش رہی ہے کہ حضرت علی اور معاویہ رضی اللہ عنہما کو معاذ اللہ ایک دوسرے کا دشمن ثابت کیا جائے۔ کبھی وہ ان کی زبان سے ایک دوسرے پر لعنت کہلواتے ہیں، کبھی ایک دوسرے کو برا بھلا کہلواتے ہیں اور ان کے اسلام میں شک کرواتے ہیں۔ درحقیقت یہ ان کے اپنے جذبات ہیں جنہیں وہ زبردستی حضرت علی یا معاویہ رضی اللہ عنہما کی زبان سے کہلوانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسی تمام روایات کا اگر جائزہ لیا جائے تو ان کی سند میں کوئی نہ کوئی جھوٹا راوی جیسے ابو مخنف، ہشام کلبی، سیف بن عمر یا واقدی ضرور موجود ہو گا۔ یہاں چند روایات اور کچھ نکات ہیں، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان حضرات کی ایک دوسرے کے بارے میں کیا رائے تھی ؟؟
1۔ حضرت علی کے بھائی عقیل اس وقت حضرت معاویہ رضی اللہ عنہم کے قریبی ساتھی تھے اور دوسری طرف حضرت معاویہ کے بھائی زیاد بن ابی سفیان ، حضرت علی کے قریبی ساتھی تھے اور آپ نے انہیں ایران و خراسان کا گورنر مقرر کر رکھا تھا۔ ایک بار عقیل، معاویہ کے پاس بیٹھے تھے تو معاویہ نے جی کھول کر علی کی تعریف کی اور انہیں بہادری اور چستی میں شیر ، خوبصورتی میں موسم بہار ، جود و سخا میں دریائے فرات سے تشبیہ دی اور کہا: ’’اے ابو یزید(عقیل)! میں علی بن ابی طالب کے بارے میں یہ کیسے نہ کہوں۔ علی قریش کے سرداروں میں سے ایک ہیں اور وہ نیزہ ہیں جس پر قریش قائم ہیں۔علی میں بڑائی کی تمام علامات موجود ہیں۔‘‘ عقیل نے یہ سن کر کہا: ’’امیر المومنین! آپ نے فی الواقع صلہ رحمی کی۔‘‘ (ابن عساکر 42/416‘)

2۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جنگ صفین کے بعد جو خط شہروں میں بھیجا، اس میں فرمایا: ہمارے معاملہ کی ابتدا یوں ہوئی کہ ہم میں اور اہل شام میں مقابلہ ہوا۔ ظاہر ہے کہ ہمارا اور ان کا رب ایک، ہمارا اور ان کا نبی ایک، ہماری اور ان کی اسلام کے متعلق دعوت ایک۔ اس معاملے میں نہ وہ ہم سے زیادہ تھے اور نہ ہم ان سے۔ صرف ایک معاملے میں ہم میں اختلاف ہوا اور وہ تھا خون عثمان کا جبکہ ہم اس سے بری تھے ـ(سید شریف رضی۔ نہج البلاغہ۔ خط نمبر 58

3۔ ایک شخص نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے کوئی دینی سوال کیا۔ آپ نے فرمایا: ’’اس بارے میں علی بن ابی طالب سے پوچھ لیجیے، وہ مجھ سے زیادہ بڑے عالم ہیں۔‘‘ اس نے کہا: ’’امیر المومنین! آپ کی رائے، میرے نزدیک علی کی رائے سے زیادہ پسندیدہ ہے۔‘‘ آپ نے فرمایا: ’’آپ نے تو بہت ہی بری بات کی اور آپ کی رائے بہت ہی قابل مذمت ہے۔ کیا آپ ان صاحب (علی) کی رائے کو ناپسند کر رہے ہیں جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علم سے عزت بخشی ہے؟ آپ نے انہیں فرمایا تھا:’علی! آپ میرے لیے وہی حیثیت رکھتے ہیں جو کہ موسی کے نزدیک ہارون (علیہما الصلوۃ والسلام) کی تھی۔ فرق یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں -( ابن عساکر 42/17

4۔ خوارج نے حضرت علی ، معاویہ اور عمرو رضی اللہ عنہم کو ایک ہی رات میں شہید کرنے کا منصوبہ بنایا۔ حضرت معاویہ نے اپنے حملہ آور کو پکڑ لیا تو وہ کہنے لگا: "میرے پاس ایسی خبر ہے جسے سن کر آپ خوش ہو جائیں گے۔ اگر میں آپ سے وہ بیان کر دوں تو آپ کو بہت نفع پہنچے گا۔ " آپ نے فرمایا: "بیان کرو۔" کہنے لگا: "آج میرے بھائی نے علی کو قتل کر دیا ہو گا۔" آپ نے فرمایا: "کاش! تمہارا بھائی ان پر قابو نہ پا سکے - طبری 3/2-357

5۔ جنگ صفین کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: "لوگو! آپ لوگ معاویہ کی گورنری کو ناپسند مت کریں۔ اگر آپ نے انہیں کھو دیا تو آپ دیکھو گے کہ سر اپنے شانوں سے اس طرح کٹ کٹ کر گریں گے جیسے حنظل کا پھل اپنے درخت سے ٹوٹ ٹوٹ کر گرتا ہے۔‘‘ - ابن ابی شیبہ۔ المصنف۔ 14/38850

6۔ یزید بن اصم کہتے ہیں کہ جب علی اور معاویہ کے درمیان صلح ہو گئی تو علی اپنے مقتولین کی جانب نکلے اور فرمایا: ’’یہ لوگ جنت میں ہوں گے۔‘‘ پھر معاویہ کے مقتولین کی طرف چلے اور فرمایا: ’’یہ لوگ بھی جنت میں ہوں گے۔ (روز قیامت) یہ معاملہ میرے اور معاویہ کے درمیان ہو گا۔ فیصلہ میرے حق میں دیا جائے گا اور معاویہ کو معاف کر دیا جائے گا۔ مجھے میرے حبیب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح بتایا تھا ۔ ابن عساکر 59/139

ان تفصیلات سے معلوم ہوتا ہے کہ ان حضرت علی اور معاویہ رضی اللہ عنہما میں ذاتی نوعیت کا کوئی اختلاف نہ تھا ... حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی رائے یہ تھی کہ باغیوں کی قوت کو اچھی طرح کچل دیا جائے جبکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا خیال یہ تھا کہ اگر ان باغیوں سے اس وقت انتقام لیا گیا تو ان کے قبائل اٹھ کھڑے ہوں گے جس سے بہت بڑی خانہ جنگی پیدا ہو گی۔ باغی چونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حکومتی معاملات پر قبضہ کیے بیٹھے تھے، اس وجہ سے انہوں نے پوری کوشش کی کہ شام پر حملہ کر کے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی قوت کو ختم کر دیا جائے ۔ اس کی وجہ سے جنگ صفین ہوئی جسے مخلص مسلمانوں نے بند کروا دیا۔ اس طرح سے باغیوں کا یہ منصوبہ پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکا !!!!
 

HUMAIR YOUSUF

رکن
شمولیت
مارچ 22، 2014
پیغامات
191
ری ایکشن اسکور
56
پوائنٹ
57
شیعہ خنزیروں کی طرف سے ایک غلط پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ جنگِ صفین میں صحابہ کرام کی بڑی تعداد موجود تھی۔ حالانکہ تمام قابلِ قدر اور صحیح روایات میں اِس بات کا رد موجود ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مشہور تابعی محمد بن سیرین بیان کرتے ہیں:
عبد الرزاق عن معمر عن أيوب عن ابن سيرين: جب فتنہ کی آگ بھڑکی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی تعداد 10,000 تھی۔ ان میں سے صرف 40 کے علاوہ باقی جنگ کے لیے نہ نکلے۔ معمر کہتے ہیں: یعنی حضرت علی کے ساتھ نہ نکلے۔ اس وقت اہل بدر میں سے 240 سے زائد صحابہ زندہ تھے جن میں سے صرف ابو ایوب انصاری، سہل بن حنیف اور عمار بن یاسر ہی حضرت علی (رضی اللہ عنہم)کے ساتھ تھے۔ ( عبد الرزاق۔ المصنف۔ حدیث نمبر 20735۔ ص 11/357۔ بیروت: منشورات مجلس العلمی۔

عبد الرزاق عن معمر عن أيوب عن ابن سيرين: ابن سیرین کہتے ہیں کہ سعد بن ابی وقاص سے پوچھا گیا: ’’آپ جنگ کیوں نہیں کرتے کیونکہ آپ تو اہل شوری میں سے ہیں اور اس معاملے میں بقیہ سب کی نسبت زیادہ حق دار ہیں؟‘‘ فرمایا: ’’میں اس وقت تک جنگ نہیں کروں گا جب تک کہ آپ لوگ مجھے ایسی تلوار نہ لا دیں جس کی دو آنکھیں، زبان اور ہونٹ ہوں اور وہ کافر اور مومن میں فرق کر سکے۔ میں نے جہاد کیا ہے اور میں جہاد کو سمجھتا ہوں۔ اگر کوئی شخص مجھ سے بہتر ہو تو میں اپنی جان کو روکنے والا نہیں ہوں۔ ( ایضاً ۔ حدیث 20736)۔

دس ہزار صحابہ کرام میں سے صرف چالیس صحابہ کرام میدان جنگ میں موجود تھے۔۔۔۔۔۔۔۔ جانبین میں تمام صحابہ کرام بشمول سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور سیدنا عباس و معاویہ و عمرو رضی اللہ عنہم اجمعین سب کی کوشش یہی تھی کہ ہر ممکن صلح ہو سکے۔
 
Top