[زیر نظر مضمون مصنف کے عربی فتاوی ’الدین الخالص‘ کی نویں جلد سے ماخوذ ہےِ؛ اس کی اشاعت سے مسئلہ کی اہمیت اور اس سے متعلق شرعی تعلیمات اجاگر کرنا مقصود ہے، کسی معین فرد یا گروہ پر حکم شرعی کا اطلاق پیش نظر نہیں؛ کہ اس کے لیے شرائط و موانع کا لحاظ ضروری ہے، جو علیحدہ اور مستقل موضوع ہے۔ مترجم]
سوال: اسلامی شریعت کی رو سےان لوگوں کا کیا حکم ہے، جو مسلمانوں کے خلاف اہل کفر کی امداد و معاونت کرتے ہیں؟ واضح رہے کہ ان میں ایسے افراد بھی ہیں، جو مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور نماز، روزہ اور اذان وغیرہ اعمال پر بھی کاربند ہیں۔
جواب: ولا حول ولا قوۃ الا باللہ، یہ امر معلوم رہنا چاہیے کہ مسلمانوں کے خلاف مشرکوں کی مدد و نصرت کرنا کفر ہے اور اس پر اہل اسلام کا اجماع و اتفاق ہے۔ شیخ محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ نے نواقض اسلام کی بحث میں اسے آٹھویں ناقض کے طور پر بیان کیا ہے۔ اس کی دلیل اللہ عزوجل کا یہ ارشاد ہے: ﴿وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ﴾ [المائدۃ 51:5] ’’اور اگر تم میں سے کوئی ان کو اپنا رفیق بناتا ہے، تو اس کا شمار پھر انھی میں ہے۔‘‘
اربابِ نظر اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ امریکا اور اس کے حواری کفار و منافقین کی قیادت میں جاری صلیبی حملوں کا اصل ہدف اسلام اور مسلمان ہی ہیں؛ پس جو شخص اس جنگ میں ان صلیبیوں کی مدد کرتا ہے، وہ کفر و ارتداد کا مرتکب ٹھہرتا ہے۔ یہ اعانت کسی بھی نوعیت کی ہو؛ خواہ جسم سے ہویا اسلحہ سے، زبان و قلب سے ہو یا قلم و قرطاس سے، مال و دولت سے ہو یا مشورے و رائے یا اور کسی بھی دوسرے طریقےسے، ہر صورت میں اسے کفر و ارتداد ہی قرار دیا جائے گا۔والعیاذ باللہ۔
اس مسئلہ پر اہلِ علم نے متعدد دلائل ذکر کیے ہیں، جنھیں ہم بااختصار درج ذیل عنوانوں کے تحت بیان کریں گے:
1۔ اجماع امت
2۔ قرآن کریم
3 ۔ حدیث و سنت صلی اللہ علیہ وسلم
4۔ اقوال صحابہ رضی اللہ عنہم
5۔ قیاس
6۔ تاریخ
7۔ علما کی آراء
8۔ اقوالِ ائمہ نجد۔
اجماع امت:
امت مسلمہ اس مسئلے پر متفق ہے کہ جو اہل اسلام کے خلاف کفار کی نصرت واعانت کرتا ہے، وہ کافر و مرتد ہے۔ حافظ ابن حزم رحمہ اللہ آیت کریمہ "وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ" کے بارے میں لکھتے ہیں:
"یہ فرمانِ الٰہی اپنے ظاہر ہی پر محمول ہے؛ یعنی کفار سے دوستی کرنے والا بھی انھی میں سے ایک کافر ہے؛ یہ بات مبنیٔ برحق ہے اور اس میں دو مسلمانوں کا بھی اختلاف نہیں ہے۔"(المحلی 138/11)
شیخ عبد اللطیف رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
'فان ھذہ ردة صریحة بالاتفاق'، یعنی "یہ عمل بہ اتفاق امت ارتدادِ صریح کے مترادف ہے۔" (الدررالسنیۃ 326/8)
شیخ عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ (سابق مفتی اعظم، سعودی عرب) لکھتے ہیں:
"وقد أجمع علماء الإسلام على أن من ظاهر الكفار على المسلمين وساعدهم عليهم بأي نوع من المساعدة، فهو كافر مثلهم " "تحقیق علمائے اسلام کا اس بات پر اجماع ہے کہ جو شخص مسلمانوں کے مقابلے میں کافروں کی مدد کرتا ہے اور انھیں کسی بھی طرح کی اعانت فراہم کرتا ہے، وہ انھی کی مثل کافر ہے"۔ (مجموع فتاویٰ 274/1)
اہل علم کے مزید اقوال آٹھویں بحث میں آئیں گے۔ ان شاء اللہ