• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جوانوں کے پہلو میں ایک دل ہے

باذوق

رکن
شمولیت
فروری 16، 2011
پیغامات
888
ری ایکشن اسکور
4,010
پوائنٹ
289
خفقان صاحب نے دو خاص اعتراضوں کے علاوہ جاتے جاتے ایک عام حکمت کا موتی بھی بکھیرا تھا کہ :
جس کتاب کا کوئی message یعنی پیغام نہ ہو اس کا چھپنا بیکار ہے۔
اب حقیقت یہ ہے کہ کتاب لکھتے وقت ہم اپنی پیغامبرانہ ذمہ داریوں سے قطعی طور پر بےخبر تھے۔ ہمارے ذہن میں تو ایک ہلکی پھلکی "لفٹین بیتی" تھی اور ہمیں گمان تک نہ تھا کہ ہم نسل انسانی کو کوئی ملکوتی قسم کا پیغام پہنچا رہے ہیں ، بلکہ لکھنے کے دوران ہمیں کچھ احساس تھا تو فقط یہ کہ ہم بھی مضمون کی ہوا باندھتے ہیں۔ چنانچہ خفقان صاحب کے جواب میں ہمارا فوری فیصلہ تو یہی تھا کہ ہمارا کوئی "مسیج" نہیں ، لیکن ذرا غور کرنے پر ایک واقعہ یاد آ گیا جس سے شبہ ہونے لگا کہ ہماری کتاب شاید بالکل بےپیغام بھی نہیں۔

ہوا یہ تھا کہ ایک مرتبہ ہمارے ایک دوست اس کتاب کا ایک باب "ہلال" میں پڑھ رہے تھے۔ ہم نے دیکھا کہ پڑھنے کے دوران آپ ایک دو مرتبہ مسکرا دیے۔ اس معمولی سے واقعہ سے ہم نے نیوٹن کی طرح ایک اہم نتیجہ نکالا اور وہ یہ کہ اگر یہی کیفیت ہر قاری پر گزرے تو علم ریاضی کی رو سے لازم آتا ہے کہ ملک میں مسکراہٹوں کی پیداوار میں اضافہ ہوگا اور مسکراہٹوں کا جو توڑا ہمارے ملک میں ہے اس کا تو آپ کو علم ہی ہوگا۔
بیورلی نکلز (Beverly Nichols) نے اپنی کتاب Verdict on India میں لکھا ہے کہ برصغیر پاک و ہند میں فی مربع میل ناخوشی دوسرے ملکوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے ۔۔۔
چنانچہ سوچتا ہوں اگر اکثر خواتین و حضرات کی توجہ دوسرے مشاغل سے ہماری کتاب کی طرف بٹ جائے تو نہ صرف فی مربع میل ناخوشی میں کمی کا امکان ہے ، بلکہ شاید فی مربع میل آبادی بھی گھٹنے لگے۔
بہرحال آبادی بڑھے یا گھٹے ، کتاب کا پیغام ضرور ہے اور یہ وہی مشہور پیغام ہے جو ایک عارف افیونی نے ایک کم عارف افیونی کو صرف چار لفظوں میں دیا تھا۔
دونوں دوست ترنگ میں جا رہے تھے کہ کم عارف افیونی کنویں میں لڑھک گیا۔ عارف نے دوست کو غائب پایا تو چلایا :
"کہاں ہو دوست؟"
کنویں سے فریاد اٹھی : "یہاں ہوں"۔
عارف نے فی البدیہہ پیغام دیا :
"اچھا دوست ، جہاں رہو ، خوش رہو"۔ اور آگے چل نکلا۔

یہ کتاب ایک لفٹین کی جنگ بیتی ہے۔
اس میں تصوف ، فقہ یا علم الکلام پر دیدہ دانستہ کوئی بحث نہیں کی گئی۔ اس میں صرف ان باتوں کا ذکر ہے جو سیکنڈ لفٹینوں کو اپنی زندگی ، خصوصاً زندگی میں پیش آتی ہیں۔ سیکنڈ لفٹین اکثر جوان ہوتے ہیں اور جوانوں کے پہلو میں دل ہوتا ہے۔ وہی دل جو کئی بزرگوں کے پہلو میں پہنچ کر سنگ وخشت بن جاتا ہے۔ نتیجہ یہ کہ نوجوانوں کی زندگی کے کئی زاویے بزرگوں کو چبھتے ہیں ، حالانکہ خود ان بزرگوں نے بھی جوانی میں انہی زاویوں پر خم کھایا ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔

بجنگ آمد - کرنل محمد خان
"مقدمہ" سے اقتباس
 
Top